غیر مسلمین کیساتھ موالات کا حکم
("پاکستان کے ممتاز مفکر وعالم دین "جناب ڈاکٹر اسار احمد صاحب کے کسی غیر اہل کتاب شخص کے ساتھ یاان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھا نا کھا نے کی ممانعت بیان کرنے کے سلسلے میں ایک مدلل اور تحقیقی مضمون اس سے قبل بعنوان "غیر اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھانے کا مسئلہ "گزشتہ محدث کے دوشماروں میں شائع کیا جا چکا ہے جس میں غیر مسلمین بالخصوص کفارو مشرکین کے ساتھ "ترک موالات "کی تر غیب اور اس سے متعلق جملہ احکام ایک الگ موضوع بحث ہو نے کے سبب قصداً بیان نہیں کئے گئے تھے لیکن بعض حلقوں میں "کفارو مشرکین " کے ساتھ " ترموالات "کے احکام کو ان کی ذات کے نجس عین "ہو نے یا اُن کی چھوئی یا پکائی ہو ئی کسی حلال خوردنی شئے کو استعمال کرنے کی حرمت کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو فی الواقع تاویل بعید خلط مبحث اور Confusion کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اس سلسلہ میں بعض رفقاء نے سعودی عرب کے ایک معزز بیباک حق گو سلفی بزرگ اپنے وقت کے ایک ممتاز جید عالم دین اور حقیقی مجاہد بالقلم علامہ شیخ عبد اللہ بن سلیمان بن حمید رحمہ اللہ کے رسائل کے مجموعہ "الرسائل الاربعۃ المفید ۃ "طبع یا زد ہم الریاض 1401ھ کے ایک وقیع رسالہ "الهدية الثمينة فيما يحفظ به المرء دينه"کےصفحات 81تا 94کا خلاصہ نقل کر کے دیا ہے جو کفارو مشرکین کے ساتھ "موالات "کے حکم سے متعلق ہے اس یک ورقہ خلاصہ کا با محاورہ اور سلیس اُردو ترجمہ اور اس موضوع سے متعلق شرعی احکام بصورت "استدراک" ذیل میں پیش خدمت ہیں ۔)
آں رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
«لاَ يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
"میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اللہ تعا لیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہو گی اس کی مخالفت کرنے والے اور نقصان پہنچانے والے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعا لیٰ کا امر (یعنی قیامت)آجائے ۔"لیکن یہ بر حق گروہ بہت قلیل تعداد میں ہو گا ۔میری خواہش ہے کہ کاش میں بھی ایسی ہی شان والوں میں سے ایک فرد شمار کیا جا ؤں اگرچہ میرا علم اور قدرت کلام بہت مختصر ہے جب میں اکثر لوگوں کو دین اسلام سے انقلاب کرتے اور صنم پرستوں اور شریعت کے دشمنوں یعنی نصاریٰ (عیسائی ) ملحدین اور روافض (شیعہ ) کے ساتھ موالات کرتے دیکھتا ہو ں تو میری دینی غیرت و حمیت اور انسانی شفقت بیدار ہو اٹھتی ہے چنانچہ میں نے بعض قرآنی آیات و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے سنت کے اقوال جمع کئے ہیں جو سہل انداز میں مشرکین کے ساتھ اختلاط (یعنی گھلنے ملنے )کی حرمت ان کے ساتھ موالات ان کی بستیوں (اور ممالک )کی جانب سفر کرنے وہاں قیام کرنے اور اجنبی شرکات (کپنیوں )کے ساتھ اضطرار حالات میں کا م کرنے کے احکام سے متعلق ہیں ۔۔۔الخ،
علماء فر ما تے ہیں کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنی کتاب مبین میں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے تمام مومنوں پر مشرکین کے ساتھ رفاقت اور ان کیساتھ مودت کے اظہار کو حرام قرار دیا ہے اور اس پر سخت وعید تہدید مذکور ہے جیسا کہ اللہ تعا لیٰ ارشاد فر ما تا ہیں :
1۔﴿ لا يَتَّخِذِ المُؤمِنونَ الكـٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ ۖ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَلَيسَ مِنَ اللَّهِ فى شَىءٍ إِلّا أَن تَتَّقوا مِنهُم تُقىٰةً...﴿٢٨﴾ ... سورةاآل عمران"
"مسلمانوں (مومنوں) کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بنا ویں مسلمانوں (مومنوں) کی دوستی سے تجاوز کر کے اور جو شخص ایسا کا م کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ دوستی رکھنے کے کسی شمارے میں نہیں مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو،" (مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم فر ما تے ہیں کہ:اوپر (اس سے قبل )کفار کی مذمت مذکورہ تھی اس آیت میں ان کے ساتھ دوستی کرنے کی ممانعت فر ماتے ہیں (اور) تجاوز دوصورتوں سے ہو تا ہے ایک یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ بالکل دوستی نہ رکھیں دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ کفار سے بھی دوستی رکھیں یہ دونوں صورتیں ممانعت میں داخل ہیں ۔"
(اختصار شدہ بیان القرآن صفحہ 47،حواشی 3،2)
2۔﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الَّذينَ اتَّخَذوا دينَكُم هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَالكُفّارَ أَولِياءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٥٧﴾...سورةالمائدة
"اے لوگو! جو ایمان لا ئے ہو تمہارے پیش رواہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ ۔اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔" (اس آیت کے نزول کے اسباب بیان کرتے ہو ئے مولانا اشرف علی تھا نوی مرحوم لکھتے ہیں ۔
"یہ اشارہ ہے دوقصوں کی طرف ایک یہ کہ جب اذان ہو تی اور مسلمان نماز شروع کرتے تو یہود کہتے کہ یہ کھڑے ہو تے ہیں خدا کرے کبھی کھڑا ہو نا نصیب نہ ہو اور جب ان کو رکوع و سجود کرتے دیکھتے تو تمسخر کرتے دواسرا قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں ایک نصرانی تھا جب اذان سنتا"اشهد ان محمدا رسول الله"تو کہتا «قد احترق الكاذب»
یعنی جھوٹا جل جاوے ایک شب ایسا اتفاق ہوا کہ وہ اس کے اہل و عیال سب سورہے تھے کو ئی خادم گھر میں آگ لے کر گیا ایک چنگاری گر پڑی وہ اور اس کا گھر اور گھر والے سب جل گئے یہ تو ﴿ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ﴾کے مصداق تھے اور ﴿اَلْكُفَّارَ﴾ کے مصداق کا ایک قصہ یہ ہو اتھا کہ رفا عہ بن زید بن تابوت اور سعید بن الحارث نے منافقانہ اظہار اسلام کیا تھا بعض مسلمان ان سے اختلاط رکھتے تھے۔ان سب واقعات پر یہ آیتیں نازل ہو ئیں ۔"
(اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ 105)
3۔﴿بَشِّرِ المُنـٰفِقينَ بِأَنَّ لَهُم عَذابًا أَليمًا ﴿١٣٨﴾ الَّذينَ يَتَّخِذونَ الكـٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ أَيَبتَغونَ عِندَهُمُ العِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلَّهِ جَميعًا ﴿١٣٩﴾ وَقَد نَزَّلَ عَلَيكُم فِى الكِتـٰبِ أَن إِذا سَمِعتُم ءايـٰتِ اللَّهِ يُكفَرُ بِها وَيُستَهزَأُ بِها فَلا تَقعُدوا مَعَهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ إِنَّكُم إِذًا مِثلُهُم ...﴿١٤٠﴾... سورةالنساء
"اور جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں انہیں یہ مثردہ سنا دو کہ ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں ان کے پاس جاتے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلا ف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہا ں نہ بیٹھو جب تک کہ لو گ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو۔ (مولانا اشرف علی تھا نوی مرحوم لکھتے ہیں کہ: "یہ استہزا کرنے والے مکہ میں مشرکین تھے اور مدینہ میں یہود تو علانیہ اور منافقین صف غرباء و ضعفاء مسلمین کے روبرو پس جس طرح وہاں مشرکین کی مجالست ایسے وقت میں ممنوع تھی یہاں نہیودو منافقین کی مجالست سے نہی ہے اہل باطل کے ساتھ مجالست کی چند صورتیں ہیں اول ان کی کفریات پر رضا کے ساتھ یہ کفر ہے دوم اظہار کفر یا ت کے وقت کراہت کے ساتھ مگر بلا عذر یہ فسق ہے سوم کسی ضرورت دنیوی کے واسطے یہ مبا ح ہے چہارم تبلیغ احکام کے لیے یہ عبادت ہے پنجم اضطرار وبے اختیاری کے ساتھ اس میں معذوری ہے۔"
(اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ90)
4۔﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الكـٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ أَتُريدونَ أَن تَجعَلوا لِلَّهِ عَلَيكُم سُلطـٰنًا مُبينًا ﴿١٤٤﴾... سورةالنساء
"اے لوگو! جو ایمان لا ئے ہو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلا ف صریح حجت دے دو" (مولانا علی تھا نوی مرحوم فر ما تے ہیں :"حجت صریحہ یہی ہے کہ ہم نے جب منع کردیا تھا تو پھر کیوں ایسا کیا ۔"(اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ 90،حاشیہ 9)
5۔﴿تَرىٰ كَثيرًا مِنهُم يَتَوَلَّونَ الَّذينَ كَفَروا لَبِئسَ ما قَدَّمَت لَهُم أَنفُسُهُم أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيهِم وَفِى العَذابِ هُم خـٰلِدونَ ﴿٨٠﴾ وَلَو كانوا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِىِّ وَما أُنزِلَ إِلَيهِ مَا اتَّخَذوهُم أَولِياءَ وَلـٰكِنَّ كَثيرًا مِنهُم فـٰسِقونَ ﴿٨١﴾ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النّاسِ عَدٰوَةً لِلَّذينَ ءامَنُوا اليَهودَ وَالَّذينَ أَشرَكوا ...﴿٨٢﴾... سورةالمائدة
"آج تم ان میں بکثرت ایسے لو گ دیکھتے ہو جو (اہل ایمان کے مقابلہ میں ) کفار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں یقیناًبہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کے لیے کی ہے اللہ ان پر غضبناک ہو گیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہو نے والے ہیں ۔اگر فی الواقع یہ لو گ اللہ اور پیغمبر اور اس چیز کے ماننے والے ہو تے جو پیغمبر پر نازل ہو ئی تھی تو کبھی اہل ایمان کے مقابلے میں ) کا فروں کو اپنا رفیق نہ بناتے مگر ان میں سے تو بیشتر لو گ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں تم اہل ایمان کی عدادت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے ۔"
جو اہل ایمان کے مقابلہ میں کفار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں ایسے لوگوں کی وضاحت مولانا اشرف علی تھا نوی مرحوم یوں فر ما تے ہیں : "یہود ۔مدینہ اور مشرکین مکہ میں مسلمانوں کی عدادت کے علاقہ سے جس کا منشاتناسب فی الکفر تھا باہم خوب ساز گا ری تھی۔"(اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ 109،حاشیہ 1)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کا قول ہے۔
"اللہ تعا لیٰ پر ایمان اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ان کی (کفار و مشرکین کی) "ولایت" کے بغیر مستلزم ہے ان کی ولایت کا ثبات عدم ایمان کا موجب ہے کیوں کہ لازم کا عدم ملزوم کے عدم کا بھی متقاضی ہے۔"چنانچہ بعض محققین فر ما تے ہیں کہ اللہ تعا لیٰ نے ان کے ساتھ موالات پر اپنی خفگی و غضب اور ہمیشہ عذاب میں رہنے کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔یہ جا ن لو کہ انکی ولایت کچھ حاصل نہیں ہو گا مگر اس کو جو خود مومن نہ ہو مگر جو لوگ اللہ تعا لیٰ پر اس کی نازل کردہ کتاب پر اور اس کے بھیجے ہو ئے رسول پر ایمان رکھتے ہیں وہ ان کے ساتھ موالات نہیں رکھتے بلکہ ان کے ساتھ عداوت کا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے اصحاب کو آگا ہ کرتے ہو ئے فر ما یا ہے :
1۔﴿لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخوٰنَهُم أَو عَشيرَتَهُم...﴿٢٢﴾... سورةالمجادلة
"جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا )ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے بر خلاف ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھا ئی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ (دنیا ئے عرب کے ایک مشہور اور جید عالم دین علامہ یو سف القرضاوی ﴿ مَن حادَّ اللَّهَ ﴾"کی تفسیر میں فر ما تے ہیں کہ :"اس سے مراد محض کفر کرنا نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ و جدَل اورجَارحانہ کاروائی کرنا ہے ۔(الحالال والحرام فی الاسلام للقرضاوی )
2۔﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا ءاباءَكُم وَإِخوٰنَكُم أَولِياءَ إِنِ استَحَبُّوا الكُفرَ عَلَى الإيمـٰنِ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٣﴾... سورةالتوبة"
"اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور بھائیوں کو (اپنا )رفیق مت بناؤ اگر وہ لو گ لفر کو بمقابلہ ایمان کے (ایسا ) عزیز رکھیں (کہ ان کے ایمان لا نے کی اُمید نہ رہے )اورجو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا سوایسے لو گ بڑے (ظالم اور )نافر ما ن ہیں
3۔ ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ يُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِيّاكُم أَن تُؤمِنوا بِاللَّهِ رَبِّكُم إِن كُنتُم خَرَجتُم جِهـٰدًا فى سَبيلى وَابتِغاءَ مَرضاتى تُسِرّونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَأَنا۠ أَعلَمُ بِما أَخفَيتُم وَما أَعلَنتُم وَمَن يَفعَلهُ مِنكُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبيلِ ﴿١﴾ إِن يَثقَفوكُم يَكونوا لَكُم أَعداءً وَيَبسُطوا إِلَيكُم أَيدِيَهُم وَأَلسِنَتَهُم بِالسّوءِ وَوَدّوا لَو تَكفُرونَ ﴿٢﴾... سورة الممتحنة
۔"اے ایمان والو !تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو حالانکہ تمھارے پاس جو دین حق آچکا ہے وہ اس کے منکر ہیں رسول کو اور تم کو اس بناء پر کہ تم پروردیگار پر ایمان لا ئے شہر بدر کر چکے ہیں اگر تم میرے رستہ پر جہاد کرنے کی غرض سے اور میری رضا مندی ڈھونڈنے کی غرض سے (اپنے گھروں سے )نکلے ہو تم ان سے چپکے چپکے دوستی کی باتیں کرتے ہو حالانکہ مجھ کو سب چیزوں کا خوب علم ہے تم جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو ظا ہر کرتے ہو اور (آگے اس پر وعید ہے کہ) جو شخص تم میں سے ایسا کرے گا وہ راہ راست سے بھٹکے گا اگر ان کو تم پر دسترس ہو جا ئے تو فوراً)اظہار عداوت کرنے لگیں اور (وہ اظہار عداوت یہ کہ) تم پر برا ئی کے ساتھ دست درازی اور کرنے لگیں (یہ دینوی اضرار ہے اور (دینی اضرار یہ کہ) وہ اس بات کے متمی ہیں کہ تم کافر (ہی) ہو جا ؤ (ان آیات کے متعلق مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی ؒ فر ما تے ہیں "مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجاہدؒ قتادہؒ عروہ ؒ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ حضرات کی متفقہ روایت بھی یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی بلتعہ کا خط پکڑا گیا تھا ۔"
(تفہیم القرآن ج5 صفحہ 422،حاشیہ1)
اور علامہ یوسف القرضاوی فر ما تے ہیں کہ سورۃ ممتحنہ کی آیت مشرکین مکہ کے ساتھ موالات رکھنے کے سلسلہ میں نازل ہو ئی تھی جنہوں نے اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلا ف عملی طور پر جنگ کی اور مسلمانوں کو محض اس جرم کی پاداش میں کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ واحد ہے نا حق ان کے گھروں سے بے گھر کیا تھا ظاہر ہے کہ ان حالات میں مشرکین مکہ کے ساتھ مسلمانوں کے موالات کے تعلقات قطعاً جائز نہیں ہو سکتے تھے مگر پھر بھی قطعاً ان سے تعلقات منقطع کرنے یا ان سے دوستی قائم ہو نے کے امکا ن پر مایوسی کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ ذرا آگے اسی سورۃ کی آیات نمبر 7میں فر ما یا گیا :
﴿ عَسَى اللَّهُ أَن يَجعَلَ بَينَكُم وَبَينَ الَّذينَ عادَيتُم مِنهُم مَوَدَّةً وَاللَّهُ قَديرٌ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٧﴾... سورةالممتحنة
"اللہ تعا لیٰ سے امید ہے (یعنی ادھر سے وعدہ ہے )کہ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تمھاری عداوت ہے دوستی کردے اور اللہ تعا لیٰ کو بڑی قدرت ہے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (الحلال والحرام الاسلام للقرضاوی )سورۃ ممتحنہ کی اس آیت نمبر7کے متعلق مولانا اشرف علی تھا نوی مرحوم فر ما تے ہیں : "یعنی ان کو مسلمان کر دے جس سے عداوت متبدل بہ صداقت ہو جا ئے ۔چنا نچہ فتح مکہ کے روز بہت آدمی خوشی سے مسلمان ہو گئے الخ ۔"(اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ 498)
مولاناسید ابو الا علیٰ مودودی موحوم نے اس آیت پر حاشیہ اس طرح مرتبفر ما یا ہے ۔"اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو اپنے کا فر رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جو تلقین کی گئی تھی ۔اس پر سچے اہل ایمان اگرچہ بڑے صبر کت ساتھ عمل کر رہے تھے مگر اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ بھائی بہن اور قریب ترین عزیزوں سے تعلق تو ڑ لینا کیسا سخت کا م ہے اور اس سے اہل ایمان کے دلوں پر کیا کچھ گزر رہی ہے اس لیے اللہ تعا لیٰ نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں جب تمہارے یہی رشتہ دار مسلمان ہو جا ئیں گے اور آج کی دشمنی کل پھرمحبت میں تبدیل ہو جا ئے گی ۔الخ۔
(تفہیم القرآن ج5صفحہ 432،433،حاشیہ11، )تقریباً یہی مضمون ترمذی اور بیہقی کی اس حدیث میں بیان ہوا ہے جس کا ذکر میں اپنے پہلے مضمون کی آخری سطور میں کر چکا ہوں ۔
4۔﴿ وَلا تَركَنوا إِلَى الَّذينَ ظَلَموا فَتَمَسَّكُمُ النّارُ وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن أَولِياءَ ثُمَّ لا تُنصَرونَ ﴿١١٣﴾... سورةهود
"اور (اے مسلمانو)ان ظالموں کی طرف مت جھکو کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جا وے اور (اس وقت ) خدا کے سوا تمھارا کو ئی (ولیپیر یا سر پرست ) رفاقت کرنے والا نہ ہو ،پھر حمایت تو تمہار ی ذرا بھی نہ ہو گی " 5۔سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 180اوپر بیان ہو چکی ہے ۔اللہ تبارک وتعا لیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابرا ہیم ؑ سے مزید فر ما یا :
1۔﴿ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَءٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ...﴿٤﴾... سورةالممتحنة
"جیسا کہ ان سب نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو ان سے بیزار ہیں ہم تمہارے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض (زیادہ )ظاہر ہو گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان دلاؤ
6۔﴿ وَأَعتَزِلُكُم وَما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ وَأَدعوا رَبّى عَسىٰ أَلّا أَكونَ بِدُعاءِ رَبّى شَقِيًّا ﴿٤٨﴾... سورةمريم
"اور میں تم لو گوں سے اور جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کر رہے ہو ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے سب کی عبادت کروں گا امید ہے کہ اپنے رب کی عبادت کر کے محروم نہ رہوں گا ۔ علماء فر ما تے ہیں پس یہ برات ہے اور یہ موالات ہے جس کا معنیٰ یہ ہے کہ "لا اله الا الله"جو ایک اللہ کی عبادت کے اثبات پر شامل ہے اور اس میں اس باری تعا لیٰ کے علاوہ دوسرے تمام معبودوں کی نفی ہے یہی اسلام کی حقیقت اور حضرت ابرا ہیم ؑ کی ملت (طریقہ ) ہے جس کی اتباع کا ہم سب کو حکم دیا گیا ہے ارشاد ہو تا ہے﴿ ثُمَّ أَوحَينا إِلَيكَ أَنِ اتَّبِع مِلَّةَ إِبرٰهيمَ حَنيفًا وَما كانَ مِنَ المُشرِكينَ ﴿١٢٣﴾... سورةالنحل
"پھر ہم نے تمھار ی طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابرا ہیم ؑکے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔
پس اے مسلمانو! اللہ تعا لیٰ کی یہ بوض آیات جو ظاہری طور پر دلالت کرتی ہیں واضح برہان اور بین حجت ہیں اس امر میں کہ جو مسلم کفار ومشرکین اور یہود و نصاریٰ کو دوست رکھے یا ان کے شرک کا انکار نہ کرے یا ان کے افعال کی تحسین کرے یاان کے کفر میں شک کرے تو وہ توحید اور اسلامی شریعت سے لاعلم اور خود بھی کا فر ہے کفار و مشرکین سے مشابہت کے متعلق بہت سی آحادیث وارد ہو ئی ہیں ۔مثلاً حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ہے
«من تشبه بقوم فهو منهم»
"جو شخص کسی دوسری قوم کی مشابہت کرے پس وہ انہی سے ہے ۔"
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فر ما تے ہیں ۔"اس حدیث سے کفار کے ساتھ مشابہت کی حرمت ثابت ہے ۔"اور حافظ ابن کثیر ؒ فر ما تے ہیں ۔"اس حدیث میں کفار کیساتھ ان کے اقوال ان کے افعال انکے لباس ان کی عبادات اور ان کی عیدوں (تہواروں )وغیرہ کے طور طریقوں جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مشروع نہیں کیا ہے کسی طرح مشابہت کی سخت ممانعت تہدید اور وعید ہے ۔جہاں تک مشرکین کی بستیوں کی جانب سفر کرنے اور وہاں قیام کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فر مان پیش ہے۔«انا برئ من كل مسلم يقيم بين ظهرانى المشركين»
"میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو ۔اور سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جندب کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا۔«من جامع المشرك او سكن معه فانه مثله»
"جو شخص مشرک کے ساتھ اکٹھا ہو یا سکونت اختیار کرے تو وہ اسی جیسا ہے
شیخ سلیمان بن سمحان کا قول ہے : "ہر مسلمان پر کفار و مشر کین کی عداوت ان سے بغض ان سے دوری اور مفارقت قلبی ،جسمانی ، اور زبانی طور پر کرنا واجب ہے ۔" شیخ عبد اللہ بن سلیمان بن حمید رحمہ اللہ کے مذکورہ رسالہ کے یکورقہ خلاصہ کا اُردو ترجمہ اور اس کی مختصر تشریح ختم ہو ئی ۔ترجمہ و تشریح میں اس بات کی انتہائی کو شش کی گئی ہے کہ جہاں قرآن کرم کی آیات آئی ہیں وہاں ان کے تراجم و تفاسیر برصغیر کے مشہور اور قابل اعتماد علمائے متاخرین کی تصانیف سے نقل کی جا ئیں جہاں کو ئی وضاحت طلب چیز نظر آئی اسے قوسین کے درمیان یا حواشی میں لکھ کر واضح کیا گیا ہے تمام آیات کے حوالہ جا ت کا اضافہ کیا گیا ہے ۔نیز بعض آیات جو رسالہ میں مختصراً مذکورہ تھیں لیکن قرآن حکیم میں ان آیات کے پہلے یا بعد میں تسلسل کے ساتھ ایک ہی موضوع پر بحث کرتی دوسری آیات نظر آئیں ان کا اضافہ بھی افادہ عام کے پیش نظر کر دیا گیا ہے ۔آں رحمہ اللہ نے رسالہ مذکور میں جو کچھ فر ما یا وہ بلا شک و شبہ صد فیصد صحیح اور اسلامی تعلیمات کی مختصر لیکن بیحد جامع ترجمانی ہے کفار و مشرکین کی اسلام اور اہل اسلام سے عداوت اور ان کی شر انگیزیوں کے باعث ان کے ساتھ ترک موالات کے جو دلائل قرآن کریم کی آیات احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آئمہ کبار کے اقوال سے مرتب کئے گئے ہیں ان پر کلام کی قطعاً کو ئی گنجائش نہیں ہے اگرچہ اس سلسلہ میں علمائے سلف نے انتہائی شدت اختیار کی ہے لیکن پھر بھی اس پوری بحث میں کسی بھی مقام پر صراحتہً یا کنا یۃًیہ نہیں فر ما یا گیا ہے کہ کفار و مشرکین کی ذات قطعی طور پر خنزیر کی مانند ناپاک ہے یاان کے ساتھ یاان کے ہاتھ کی تیار کردہ یاان کے برتن میں یا ان کی چھوئی ہوئی حلال اشیاء کے کھانےپینے کی شریعت میں ممانعت ہے کہ جس سے بقول ڈاکٹر اسرار احمد صاحب "مسلمانوں کو احتیاط کرنی چاہیے ۔"غیر مسلمین (جن میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب حتیٰ کہ لادین بھی شامل ہیں ) سے مراسم کے متعلق اگر اسلامی تعلیمات کو اجمالی طور پر بیان کیا جا ئے تو اس سلسلہ میں سورۃ الممتحنہ کی آیات (9،8 )جامع اور مکمل دستور کی حیثیت رکھتی ہیں اس دستور کے پہلے حصہ میں اس غلط فہمی کہ"تمام غیر مسلمین حسن سلوک اور عدل و انصاف کے قطعاً مستحق نہیں ہیں ۔کا ازالہ کیا گیا ہے بلکہ اس میں ان غیر مسلم قوموں کے ساتھ جو اسلامی ریاست اسلام اور خود مسلمانوں کی دشمن یا ان سے بر سر جنگ نہیں ہیں ان کے ساتھ نہ صرف عدل و انصا ف کرنے کی بلکہ حسن سلوک وراو داری کے ساتھ پیش آنے اور "بر" (یعنی) ہر قسم کی صلاح و فلاح ) کی ترغیب بھی ملتی ہے اسلام صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھنے سے منع کرتا ہے جو اسلامی ریاست اسلام اور اہل اسلام کے خلاف محاذ آرا ہو کر ان کے خلاف بالفعل جار حیت و قوت کا استعمال کریں چنانچہ "دولۃ القطر " کے ممتاز مصنف اور جید عالم دین یوسف القرضاوی فر ما تے ہیں :"اسلام جہاں اپنے مخالفین کے ساتھ عدل اور حسن سلوک کرنے سے نہیں روکتا خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یہا ں تک کہ وپ بت پرست مشرک ہی کیوں نہ ہوں وہاں وہ اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کے ساتھ خصوصی رعایت برتتا ہے خواہ وہ دارالاسلام میں رہتے ہوں یاس سے باہرالخ۔"
(الحلال ولحرام فی الا سلام اُردو ترجمہ صفحہ 422،طبع بمبئی باراول )
بہت ممکن ہے یہاں بعض لو گ یہ خیال کرنے لگیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی حسن سلوک اور رواداری کے مراسم کس طرح پیدا کیے جا سکتے ہیں جبکہ قرآن کریم میں کفار و مشرکین کو دوست اور اپنا حلیف بنانے کی سخت ممانعت اور ایسا کرنے پر شدید تہدید وعید ہے جیسا کہ اوپر شیخ عبد اللہ بن سلیمان بن حمید رحمہ اللہ کے رسالہ کے ترجمہ میں بیان کیا جا چکا ہے اس سلسلہ میں علامہ یوسف القرضاوی نہایت واضح اور سلجھے ہو ئے انداز میں تحریر فر ما تے ہیں ۔
"اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیتوں کا حکم علی الاطلاق نہیں ہے کہ ہر یہودی نصرانی یا کافر پر اس کا اطلاق ہو ورنہ یہ بات اُن آیتوں اور نصوص کے متناقض ہو گی جن میں خیر پسند لو گوں کے ساتھ خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں دوستانہ تعلقات کو جا ئز قرار دیا گیا ہے ۔
(والحلا ل والحرام فی الاسلام اُردو ترجمہ صفحہ 425،426،
اب قرآن کریم کا مقرر کردہ مکمل دستور ملاحظہ فر ما ئیں ۔ارشاد ہو تا ہے ۔
﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾ إِنَّما يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قـٰتَلوكُم فِى الدّينِ وَأَخرَجوكُم مِن دِيـٰرِكُم وَظـٰهَروا عَلىٰ إِخراجِكُم أَن تَوَلَّوهُم وَمَن يَتَوَلَّهُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٩﴾... سورةالممتحنة
"اللہ تعا لیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے ۔اور تم کو تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ۔اللہ تعا لیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی سے اللہ تعا لیٰ تم کو منع کرتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑے ہوں اور تم کو تمھارے گھروں سے نکالا ہو اور ( اگر نکالا بھی نہ ہو لیکن )تمھارے نکالنے میں (نکالنے والوں کی ) مدد کی ہو ۔اور جو شخص ایسوں سے دوستی کرے گا وہ ظالم اور گنگار ہو ں گے (اختصارشدہ بیان القرآن ،صفحہ 498)
مولانا اشرف علی تھا نوی مرحوم فر ما تے ہیں کہ:
"کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے موالات یعنی دوستی مدارات یعنی ظاہر خوش اخلاقی مواساۃ یعنی احسان اور نفع رسانی موالات تو کسی حال میں جا ئز نہیں ہے اور مدارات تینوں حالتوں میں درست ہے ایک دفعہ ضرر کے واسطے دوسرے اس کا فر کی مصلحت دینی یعنی تو قع ہدا یت کے واسطے تیسرے اکرام ضعیف کے لیے اور اپنی مصلحت و منفعت مال و جان کے لیے درست نہیں اور مواسا ۃ کا حکم یہ ہے کہ اہل حرب کے ساتھ ناجائز اور غیر اہل حرب کے ساتھ جائز (ہے) ۔"(اختصار شدہ بیان القرآن صفحہ 47حاشیہ 4)
سورۃ الممتحنتہ کی آیات 9،8کی شرح میں مولانا سید ابو علی مودودی مرحوم فرماتے ہیں "اس مقام پر ایک شخص کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ دشمنی نہ کر نے والے کافروں کے ساتھ نیک برتاؤ تو خیر ٹھیک ہے مگر کیا انصاف بھی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے؟ اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ بے انصافی کرنی چاہیے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سیاق و سباق میں دراصل انصاف ایک خاص مفہوم میں میں استعمال ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تمھارے ساتھ عداوت نہیں برتتا ،انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ برتو دشمن کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں سے ایک ہی سا سلوک کرنا انصاف نہیں ہے تمہیں ان لوگوں کیساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں تم پر ظلم توڑے اور تم کو وطن سے نکل جا نے پر مجبور کیا اور نکالنے کے بعد بھی تمھارا پیچھا نہ چھوڑا ۔مگر جن لو گوں نے اس ظلم میں کو ئی حصہ نہیں لیا انصاف یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کرو ۔"(تفہیم القرآن ج5صفحہ 433،حاشیہ12)
ایک مقام پر مولانا سید ابو الاعلی مودودی مرحوم فر ما تے ہیں۔
(سورۃ الممتحنتہ میں حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی بلتعہ کی ایک )شدید غلطی پر تنبیہہ فرماتے ہوئے اللہ تعا لیٰ نے تمام اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مومن کو کسی حال میں اور کسی غرض کے لیے بھی اسلام کے دشمن کافروں کے ساتھ محبت اور دوستی کا تعلق نہ رکھنا چاہیے اور کو ئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو کفر و اسلام کی کشمکش میں کفار کے لیے مفید ہو البتہ جو کا فر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عملاً دشمنی اور ایزار سانی کا برتاؤ نہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
(تفہیم القرآن ج5صفحہ 421)
اس امر کی تائید میں ذخیرہ کتب احادیث میں ایک مشہور واقعہ مذکورہے جو اس طرح ہے کہ "صلح حدیلبیہ کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کے لیے مکہ سے ان کی کافرہ والدہ قتیلہ بنت عبد العزی مدینۃ المنورۃ اپنے ساتھ بیٹی کے لیے کچھ تحائف لے کر پہنچیں تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی کافرہ والدہ سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا لیکن بعد میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے ملاقات اور انکے ساتھ صلہ رحمی کی اجازت دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ملاقات کی۔(مسند احمد وابن جریر وابن ابی حاتم عن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
ایک اور روایت میں یہی واقعہ خود حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس طرح بیان کرتے ہیں
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا اپنی کافرہ والدہ سے ملاقات کروں اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملاقات کی اجازت کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کے لیے بھی کہا۔"(مسند احمد و بخاری و مسلم )
مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی مرحوم کے یہ جملے ہی جو یان حق کے لیے کا فی ہیں :"سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلقات کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق لوگوں کو یہ غلط فہمی لا حق ہو سکتی تھی کہ یہ انکے کافر ہو نے کی وجہ سے ہے اس لیے ان آیات میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے اور ان کافروں کیساتھ احسان کابرتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کو ئی برائی نہ کی ہو۔"(تفہیم القرآن ج5صفحہ 434)
علامہ یوسف القرضاوی فر ما تے ہیں :"جن آیتوں میں موالات سے منع کیا گیا ہے ان کا تعلق دراصل ایسے لوگوں سے ہے جو اسلام کے دشمن اور مسلمانوں سے برسر جنگ ہوں ان کی مدد اور پشت پنا ہی کرنا انہیں راز دار بنانا اور ملی مفاد کے خلاف انہیں اپنا حلیف بناکر ان کی قربت حاصل کرنا کسی مسلمان کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے ۔(الحلال والحرام فی الاسلام اُردو ترجمہ صفحہ 426،طبع بمبئی )اس امر کی صراحت قرآن کریم کی بعض دوسری آیتوں میں بھی ملتی ہے مثلاً ارشاد ہو تا ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم لا يَألونَكُم خَبالًا وَدّوا ما عَنِتُّم قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن أَفوٰهِهِم وَما تُخفى صُدورُهُم أَكبَرُ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الءايـٰتِ إِن كُنتُم تَعقِلونَ ﴿١١٨﴾ هـٰأَنتُم أُولاءِ تُحِبّونَهُم وَلا يُحِبّونَكُم...﴿١١٩﴾... سورة آل عمران
"اے ایمان والو! اپنے سوا کسی کو (راز دار ) صاحب خصوصیت مت بناؤ وہ لوگ تمھارے ساتھ فساد کرنے میں کو ئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھتے تمھاری مضرت کی تمنا رکھتے ہیں وقعی بغض ان کے منہ سے ظاہر ہو پڑتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت کچھ ہے ہم علامات تمھارے سامنے ظاہر کر چکے اگر تم عقل رکھتے ہو ہاں تم ایسے ہو کہ ان لوگوں سے محبت رکھتے ہو اور یہ لو گ تم سے اصلاً محبت نہیں رکھتے ۔"(اختصار شدہ بیان القرآن صفحہ 58)مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم "صاحب خصوصیت "کی شرح میں فر ما تے ہیں "یہاں جوغیر مذہب والوں سے خصوصیت کی ممانعت فر ما ئی ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کو اپنا ہمراز بنایا جا ئے اور اس میں یہ داخل ہے کہ اپنے خاص امور انتظامی میں اس کو دخل دیا جا ئے۔"(اختصار شدہ بیان القرآن صفحہ 58)
بہتر ہے کہ یہاں غیر مسلمین کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں چند اور ضروری باتیں بھی واضح کرتا چلوں یعنی یہ کہ مسلمان خواہ کسی خطہ ارض سے تعلق رکھتے ہوں دینی اُمورکے علاوہ تمام فنی ومعاشرتی و صنعتی امور میں من پسند اور بے ضرر غیر مسلمین کے ساتھ بلاتفریق اہل کتاب وغیر اہل کتاب تعاون کرسکتے اور ان سے تعاون حاصل کرسکتے ہیں اسی طرح ان کے ساتھ رواداری حسن معاشرت بھلائی عدل وانصاف اور تبادلہ تحائف وغیرہ کے تعلقات رکھنا بھی جا ئز ہیں ۔ تاریخ اسلام کے عہدزرین میں غیر مسلمین کے ساتھ مسلمانوں کی باہمی روابط کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔مثلاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مشہور واقعہ ہے کہ آُ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقعہ پر ایک مشرک عبد اللہ بن اریقط سے رہبری کی خدمات لی تھیں ۔(ملاحظہ ہو انگریزی ترجمہ حیواۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصنفہ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل مصری صفحہ 167،طبع امریکہ 1976ء )حالانکہ رہبری اور وہ بھی ان حالات میں کہ جن میں ہجرت کی گئی تھی ۔اس سے زیادہ خطرناک اور نازک بات اور کیا ہو سکتی ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین میں صفوان بن اُمیہ نے شرکت کی تھی حالانکہ اس وقت وہ اسلام سے مشرف نہیں ہو ئے تھے اور ان کا شمار مشرکین میں ہو تا تھا حنبلی مسلک کے فقیہ علامہ ابن قدامہؒ فر ما تے ہیں کہ:"ایسے حالات میں کسی غیر مسلم شخص کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کے بارے میں عام مسلمانوں کی رائے اچھی ہو۔"(المغنی لا بن قدامہ ج8 صفحہ 41)
ذخیرہ احادیث میں بکثر ت ایسی روایات موجود ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم بادشاہوں اور کفار کے تحائف قبول کئے اور خود بھی ان کو تحائف دئیے (بخاری احمد ترمذی وطبرانی وغیرہ میں یہ روایات تلا ش کی جا سکتی ہیں )
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر برصغیر کے بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں اس غیر اسلامی تصور نے کس طرح جگہ پائی تو اس کے دو مملنات ہیں اول وہ کہ جس کا ذکر راقم الحراف نے اپنے سابقہ مضمون "غیر اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھانے کا مسئلہ "کے اختتام پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی گفتگو کی اخباری رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہو ئے کیا ہے دوم جو لوگ مختلف ادیان عالم کی تعلیمات رسم و رواج ان کے جدا گا نہ معاشرتی نظام اور ان کے مذاہب کی تاریخ پر نگاہ رکھتے ہیں ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ کسی مخصوص خطہ کے باشندوں کی اکثریت ایک عرصہ قدیم سے جس نظام زندگی کے اثرات اس خطہ کی اقلیت اور اس ؒطہ کے گردو نواح کے باشندوں کے معمولات زندگی پر رفتہ رفتہ ضرور مرتب ہو تے ہیں خواہ وہ اثرات اپنی اصل ہیئت میں مرتب ہوں یاکچھو تغیر و تبدل کے ساتھ یہ متفقہ امر ہے کہ برصغیر کا قدیم ترین مذہب ہندویئت (HINDUISM)ہے جس کے اصول و مبادی چار ویدوں (Vedas)سے ماخوذ ہیں اگر کسی ہندوبرہن کے رہن سہن کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جا ئے تو پتہ چلے گا کہ ان کی مذہبی تعلیمات یامعاشرہ کے رسم و رواج کے مطابق کسی نچلی ذات LOWER CASTEسےتعلق رکھنے والے فرد کو اُچھوت UNTOUCHABLEیا مجسم نجس سمجھا جا تا ہے اگر کو ئی اُچھوت کسی اعلیٰ ذات UPPERCASTEکے فرد کا برتن یاکھانا صرف چھوئے یااسے پکائے یان کے ساتھ بیٹھ کر اپنا کھانا کھا ئے یا صرف ان کے کھانے پر اس اچھوت کا سایہ بھی پڑ جا ئے تو اعلیٰ ذات والے فرد کے لیے وہ کھا نا اشُدھ(نجس و حرام ) ہو جا تا ہے اس کے برخلا ف اسلام پر بنی آدم کو خواہ وہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتا ہو مجسم نجس نہیں بلکہ غیر مسلمین کو اعتقادی طور پر نجس مانتا ہے اور بجا ئے نفرت و تذیل کے ہر انسان کا احترام اور اس کی تکریم کرتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں خود اللہ تبارک وتعالیٰ فر ما تے ہیں
﴿ وَلَقَد كَرَّمنا بَنى ءادَمَ﴾
"ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا ہے ۔"
پس معلوم ہوا کہ چھوت چھا ت intouchablity کا نظر یہ خالص بر ہمانہ فلسفہ دینیات vedic theophilosophical thovghtپر مبنی ہے جو کسی نہ کسی طرح برصغیر کے بعج مسلمانوں کے ذہنوں میں رچ بس گیا ہے جس سے وہ لوگ یہ مطلب اخذ کر بیٹھے ہیں کہ کفار و مشرکین کے ہاتھ سے کو ئی حلال چیز چھو جا ئے یا ان کے ہاتھوں پک جا ئے یاصرف ان کے ساتھ بیٹھ کر کھا لنیے سے ہی وہ حلال چیز اُشدھ (نجس و حرام ) ہو جا تی ہے خواہ اس کا فر یا مشرک کے اعضائے ظاہر ہ پر بظاہر کو ئی غلاظت و نجا ست موجود نہ ہو یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ کیا برصغیر کے ان بعض مسلمانوں پر جن کے ذہنوں میں یہ غیر اسلامی نظریہ راسخ ہو چکا ہے اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اطلاق نہیں ہو تا ؟"«من تشبه بقوم فهو منهم»
حوالہ جات
۔رواہ مسلم ج نمبر 2،صفحہ 143،وابن ماجہ ج نمبر1،صفحہ 3،عن ثوبان وکذفی الدارمی ج نمبر2صفحہ213 والبخاری ج2 صفحہ 1087،عن مغیرہ بن شعبہ ورواہ مسلم ج2 صفحہ 143،عن معاویہ ایضاً باختلاف اللفظ،
۔ترجمہ و تفسیر اختصار شدہ بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھا نوی مرحوم صفحہ 47،
۔تفہیم القرآن از مولانا سید ابوالا علٰی مودودی مرحوم ،ج1،صفحہ 483،طبع ادارہ ترجمان القرآن ،لاہور۔
۔تفہیم القرآن ج 11صفحہ 408،
۔تفہیم القرآن ج1 صفحہ 41،
۔تفہیم القرآن ج1 صفحہ 497،496،
۔"ولایت "کا لفظ عربی زبان میں حمایت ،نصرت مدد گاری پشیبانی دوستی قربت سر پر ستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جا تا ہے قرآن کریم کی بعض آیات جن میں کفار کے بجائے مومنوں کو اولیا ء بنانے کا ترغیبی ذکر ملتا ہے ان کے سیاق و سباق کا مطالعہ کرنے سے بقول مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ صریح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس سے مرادہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہو تا ہے "(تفہیم القرآن ج2صفحہ ا6احاشیہ 50مختصراً
۔اختصار شدہ بیان القرآن صفحہ 493،
۔اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ 171،
۔سورۃ الممتحنہ ۔1،2پ28،
۔اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ 497،
۔اختصار شدہ بیان القرآن ،صفحہ 498،
۔«ابغض عدوك هونا ما عسى ان يكون حبيبك يوما ما»(رواہ الترمذی والبیہقی )یعنی "اپنے دشمن سے بغض وعنا ء کسی قدر کسی کم رکھو ہو سکتا ہے کہ وہ (عدو)کسی دن تمہارا دوست بن جا ئے ،"
اختصار شدہ بیان القرآن صفحہ 211،
۔اختصار شدہ بیان القرآن صفحہ 497،498،
۔سورۃ مریم 47پ16،
۔تفہیم القرآن پ14،
۔مشکوۃ المصابیح ج2 ،صفحہ 275۔