مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز کا فتویٰ
(عورت کی سربراہی کے بارے میں وارد حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مغالطات کاازالہ!)
پاکستان جو دور حاضر میں اسلام کاعملی نمونہ پیش کرنے کے لیے معرض وجود میں آیا تھا" یہ جب حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ایک عورت حکومت کی سربراہ بنی تو عالم اسلام میں بے چینی قدرتی بات تھی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی سنیتالیس ریاستوں میں صرف پاکستان ہی ایسی اسلامی ریاست ہے جس میں حکومت کی سربراہ ایک نوجوان عورت ہے چنانچہ یہ مسئلہ پاکستان اور بیرون پاکستان علمی حلقوں میں موضوع بحث بنا کہ عورت کی سربراہی اسلام میں جائز نہیں اور اس سلسلے میں قرآنی آیات کے علاوہ احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عورت کی سربراہی کے بارے میں مذمت کی جن صورتوں کا ذکر ہوا ہے وہ بھی پیش کی گئیں ،
مغربی الحاد کے علمبرداروں کو اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ایک عرصہ کے بعد ان کی اقتدار تک رسائی ہوئی ہے اس لیے انھیں علمائے دین کی ان تحریکوں اور فتوں کی بڑی تکلیف پہنچی ہے ،کہ وہ کتاب وسنت کو اپنی دلیل کیوں بناتے ہیں کیونکہ سیکولر ازم کے نزدیک دین وشریعت مسلمانوں کا پرائیوٹ معاملہ ہے اس کا اجتماعی امور اور سیاست میں کو ئی دخل نہیں ۔لہٰذا انھوں نے علمائے دین کے کے فتووں کو یوں بے حیثیت کرنے کی کو شش کی کہ فتوے تو ایک سرکاری منصب ہے جبکہ ان علماء کی سرکاری حیثیت کچھ نہیں لیکن جب عالم اسلام کے مسلمہ دینی قائد اور حرمین شریفین سمیت عرب دنیا کے مفتی اعثم شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز حفظہ اللہ تعالیٰ جنھیں بلا شبہ دور حاضر کا شیخ الاسلام کہا جا سکتا ہے نے بعض اہل علم کے سوال کے جواب میں اسلامی ملک کی سربراہی کے لیے عورت کے نااہل ہو نے کا فتویٰ صادر کیا تو یہ سرکاری فتووں کی رٹ لگانے والے بڑے پریشان ہوئے واضح رہے کہ شیخ ابن باز حفظہ اللہ تعا لیٰ نے پاکستان میں بینظیر کے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی کویت کے ہفت روزہ "الجمع" کے سوال پر عورت کی سر براہی کے بارے میں اپنے اسی طرح کے فتویٰ کی تفصیل مع دلائل بیان کر دی تھی ۔ملت اسلامیہ کی ایسی نامور شخصیت اور عالم اسلام کے معتمد دیگر مفتیان کے فتویٰ کا یہ اتفاق اسلام میں اجماع کی حیثیت رکھتا ہے ۔پاکستان میں مغربی الحاد کے ترجمانوں نے جب قرآنی آیات کی تفسیر احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعین ہو جا نے کے بعد خود کو بے بس پا یا تو احادیث کو ضعیف قرار دینے کی بھونڈی صورت اختیار کی حالانکہ کہاں فن حدیث کی مہارت کا شرف اور کہاں ان کی بے بصیرتی !
فن حدیث اُمت مسلمہ کا وہ امتیاز ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دائمی اور ابدی ہو نے کا زندہ جاوید معجزہ ہو نا ثابت کرتا ہے اس فن کے اندر قدم رکھتے ہی ایسے دانشوروں کی کیفیت یوں نظر آتی ہے جیسے کوئی پاگل کسی ڈاکٹر کی کرسی پر بیٹھ کر تشخیص وعلاج کے سلسلے میں اپنی (یبلیاں مارنا شروع کر دے ان لوگوں کی صحیح بخاری کی مشہور حدیث «لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً» کی تحقیق کے سلسلے میں خیال آرائی پر ہنسنے کے سوااور کیا کہا جا سکتا ہے ؟لیکن جب ملک کی ثقافت کے ترجمان اخبار روزنامے بھی ایسی لایعنی تحریریں شائع کرنا شروع کر دیں تو پھر ایسی بڑھکوں کا سنجیدہ جا ئزہ لینے کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے کہ عوام کالانعام اس بات سے بھی بسا اوقات دھوکا کھا جا تے ہیں کہ اس حدیث پر تنقید کا جواب کیوں نہیں دیا گیا ؟
اگرچہ قبل ازیں بعض جرائد نے عوامی انداز میں اس حدیث کی تضعیف کا جواب دینے پر خامہ فرسائی کی تاہم حدیث کا صحت وضعف ایک فنی مسئلہ ہے ۔اس پر تبصر ہفن اور اس کی اصطلاحات کی روشنی میں ہو نا ہی مناسب ہے،ہم سطور ذیلمیں مذکورہ بالا حدیث بخاری کے بارے میں اسی انداز پرکچھ گذارشات پیش کرتے ہیں۔ وبالله التوفيق
1۔محدثین کے ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین جانچنے کے لیے بنیادی چیز دہ سلسلۃ سند ہے جس کی بناء پر حدیث کی صحت وضعف کا فیصلہ کیا سکتا ہے اس لیے منکرین سنت نے حدیث پر جرح کے لیے اسماء الرجال کی کتب نکال کر اس میں سے ان چیزوں کا انتخاب کیا ہے جس سے حدیث کے راوی مجروح قرار دیئے جا سکیں ،حالانکہ سلسلۃ سند صرف راویوں کا نام نہیں ہو تا بلکہ روایت کرنے والا ھالانکہ سلسلۃ سند صرف راویوں کا نام نہیں ہو تا بلکہ روایت کرنے والااور جس سے روایت کی جا ئے اور ان کی روایت سے متعلقہ احوال اور روایت کی ہر درجے میں حفاظت کی متعلقہ تفصیلات بھی اس میں شامل ہوتی ہیں جیسے کو ئی شخص طب کی کتابیں اُٹھا کر بیماریوں کے تحت پیش کردہ علامات سے بیماریوں کی تشخیص کرنے سے ماہر طیب نہیں بن سکتا اسی طرح راویوں کے حالات کا مطالعہ کر کے ان کا معتبر یاغیر معتبر قرار دینا بھی ہر شخص کا کام نہیں بالخصوص فن حدیث کی کتابوں میں احوال رواۃ کے سلسلے میں محدثین جو گفتگو کرتے ہیں وہ فنی زبان میں ہو تی ہے اس سے مراد وہی شخص صحیح سمجھ سکتا ہے جسے ان کی اصطلاحات سے بھر پور واقفیت ہو جیسے ہم کسی ہم کسی بچے کو اگر یہ کہیں کہ یہ بچہ بڑا شیطان ہے تو اس کے معنی ہمیشہ یہ نہیں ہو تے کہ ہم نے اسے بڑا جرائم پیشہ قرار دے دیا ہے کیونکہ کلام کی نزاکتیں اس کلام کے پس منظر سے واضح ہو تی ہیں لہٰذا ہر کلام کا مفہوم موقع و محل کے مطابق ہی سمجھ میں آسکتا ہے ۔
محدثین کے ہاں کسی راوی کے بارے میں "ثقة وليس بحجة"کا مفہوم ایک شخص فن حدیث سے نابلد یہ سمجھے گا کہ " وليس بحجة "جرح کے مفہوم میں ہے ۔حالانکہ محدثین کے ہاں یہ کلام جرح کے لیے تعدیل کے لیے استعمال ہو تی ہے ان کی مراد لفظ ثقۃ سے اعتماد ظاہر کرنے کے بعد" وليس بحجة "سے یہ ہو تی ہے کہ روایت کرنے والا روایت میں معتبر ہو نے کے باوصف فن حدیث میں اتھارٹی نہیں۔جیسے احمد بن حنبلؒ وغیرہ ائمہ راویان حدیث بھی ہیں اور فن حدیث کے مانے ہو ئے ۔ماہرین بھی انہی لیے ان کے بارے میں"ثقة حجة "کے الفاظ استعمال کئے جا تے ہیں ۔راویان حدیث کے طبقات کے سلسلے میں اگرچہ اصول حدیث اور اسماء الرجال کی کتب میں طبقات کی تفصیلات ملتی ہیں لیکن چونکہ مذکورہ حدیث بخاری کے بارے میں ناقدین نے حافظ ابن حجرؒ کی کتاب اسماء الرجال کو مدار بنایا ہے اس لیے ہم بھی حدیث ہذا کے راویان کی جرح وتعدیل کی بحث میں ان کے الفاظ اور اصطلاحات کا وہی مفہوم پیش نظر رکھیں گے ،جو وہ خود اپنی تقریب التہذیب سے پیش کرتے ہیں جو انھوں نے اپنی اسماء الرجال کی مشہور تسنیف کے مقدمہ میں ذکر کئے ہیں ۔انھوں نے رواۃ حدیث بارہ طبقات بنانے کے بعد ابتدائی چھ طبقات کی حدیث کو معتبر قراردیا ہے ،جبکہ اگلے چھ طبقات ضعیف راوی شمارہوتے ہیں ۔صحیح بخاری کی حدیث«لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً»کی سند یوں ہے۔
حدثنا عثمان بن الهيثم حدثنا عوف عن الحسن عن ابى بكرة.............
سلسلۃ سند میں عثمان بن الہثیم عوف ،حسن اور بو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چار راوی ہیں اس سلسلے میں ناقدین کی جہالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں ھسن کے ذکر سے اس بات کا بھی علم نہیں کہ یہ حسن نامی تابعی کو ن ہیں؟
طلوع اسلام جس نے شیخ ابن باز حفظہ اللہ کی دلیل کے طور پر پیش کردہ اس حدیث پر دسمبر1989ءکے شمارے میں جاہلانہ گفتگو کی ہے وہ اپنی اشاعت جنوری ،فروری 1989ء میں اسی تابعی حسن کے بارے میں جب دیکھتا ہے کہ اس نام کے ایک سو اُنسٹھ 159راوی ہیں تو اس تابعی کو مجہول قرار دیتا ہے حالاں کہ جس راوی کا تعین نہ ہو اس کو علم حدیث کی اصطلاح میں مبہم کہتے ہیں مجہول تو وہ ہو تا ہے جس شخصی تعین ہو کر اس کے احوال سے بیخبری ہو ۔واضح ہو کہ یہ تابعی مشہور امام حضرت حسن بصریؒ ہیں لیکن چونکہ محدثین کے ہاں مشہور ترین لو گوں کو نسبت کے بغیر ان کے صرف نام سے یا کسی کا صرف کنیت سے شہرت کی بناء پر ذکر کرنا کا فی ہو تا ہے لہٰذا کو ئی اسماء الرجال کی کتابوں میں بہت سے ناموں کو دیکھ کر مغالطہ کھا سکتا ہے اسی کی وجہ سےکتب اسماءالرجال میں محدثین نے راوی کے ساتھ اس کے شیوخ اور تلامذہ کے ذکر کرنے کا طریقہ بھی اختیار کیا ہے آپ کو کسی راوی کے پہچاننے کے لیے جب بھی کو ئی مشکل پیش آئے گی تو انہی کتب سے اس کے شیوخ اور تلامذہ کی فہرست سے راوی کا تعین ہو جا ئے گا لیکن یہ طریقہ مبہم بادیوں کے بارے میں مفید ہو تا ہے حجرت حسن بصریؒ جیسے مشہور ائمہ کے ذکر کے لیے "حسن"نام کا مطلق ذکر ہی کافی ہے،ہماری رائے میں طلوع اسلام "کا"حسن ؒکو نکرہ بتانا صرف مقصد برآری کے لیے تجاہل عارفانہ ہے
مطلوع اسلام "کا حضرت حسن بصریؒ جیسے مشہور امام کو مجہول کہنا اس کی اپنی جہالت ہے لیکن جرات دیکھئے کہ اسے طلوع اسلام محدثین کا فیصلہ قرار دیتا ہے حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ البتہ ہم حضرت حسن بصریؒ کے بارے میں ایک اور پہلو کا ذکر مناسب سمجھتے ہیں جس کی بناء پر محدثین ان کی ان روایات کی تحقیق ضروری سمجھتے ہیں جو وہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے کرتے ہیں کیونکہ ان کا سماع ان سے ثابت نہیں لیکن ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی نہ صرف ملاقات ثابت ہے بلکہ حضرت حسن بصریؒ نے ان سے سماع بھی کیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الفتن (بحوالہ فتح الباری ج13،ص61،)میں خود حضرت حسن بصریؒ کی صراحت موجود ہے
"ولقد سمعت ابابكرة""یعنی بلاشک میں نے ابو بکر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خود سناہے"
اسی لیے حافظ ابن حجرؒ زیر بحث حدیث کے بارے میں فتح الباری میں وضاحت کرتے ہیں کہ چونکہ حسن بصریؒ کا سماع ابی بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہے اس لئے عن ابی بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ جن میں سماع کی صراحت نہیں کا کو ئی حرج نہیں چنانچہ امام بخاریؒ کے استاد علیؒ بن المدینی کی صراحت خود صحیح بخاری (بحوالہ فتح الباری ج5ص307میں موجود ہے باقی رہا مسئلہ قدر کے بارے میں حضرت حسن بصریؒ پر اعتراض تو وہ بعض اشخاص کی غلط فہمی تھی جو حضرت حسن بصریؒ کے کلام سے ہو ئی ،اسی لئے میزان الاعتدال (ج1224) میں ذکر ہے کہ حضرت حسن بصریؒ نے اس غلطی سے رجوع کر لیا تھا اس لیے اسے لغزش زبان بھی کہا گیا ہے ۔
اسی طرح تبع تابعی عوفؒ کے بارے میں "طلوع اسلام "کا رویہ ہے لیکن اس نے عوفؒ کو مجروح قرار دینے کے لیے کچھ اور کمزرویاں تلاش کرنے کی کو شش کی ہے بعض لوگ ان کے اوپر تشیع اور قدری ہو نے کا الزام لگا تے ہیں یہ دو الزام محدثین کے ہاں ایک قسم کی جرح ہیں جسے وہ بدعت کی اصطلاح سے پیش کرتے ہیں لیکن حافظ ابن حجرؒ نے ان سب الزامات کے باوجود ان کے لیے عوف الصدوق 1کا لقب ذکر کیا ہے اسی طرح احمد ؒبن حنبل انھیں صالح الحدیث قرار دینے ہیں ابو حاتم صدوق ؒاور صالح کہتے ہیں ابن معین ؒاسے ثقہ قرار دیتے ہیں ابن حبان ؒ نے بھی ثقات میں سے شمار کیا ہے ۔ص167میں امام نسائیؒ کی طرف سے ثقہ ثبت کے الفاظ بھی مذکورہیں جو بہت بڑی توثیق ہے ثبت کے الفاظ معتبر رواۃ کے اعلیٰ ترین طبقوں کے لیے استعمال ہو تے ہیں لیکن اگر صدوق اور صالح الحدیث کے الفاظ کی طرف بھی نظر کریں تو بھی حافظ ابن حجرؒ کے مذکورہ بالا معتبر رواۃ کے ذکر کردہ چھ طبقوں میں سے عوفؒ پانچویں طبقے کا راوی ہے جو بہر صورت ثقہ ہے اس کے تشیع وغیرہ بدعت کے بارے میں محدثین کا صحیح ترین مسلک یہ ہے کہ اگر کسی کی کو ئی حدیث اس کی بدعت کی موید نہ ہو تو پھر ایسی بدعت کا وجود قاوح نہیں ہو تا جہاں تک تشیع کا مسئلہ ہے عورت کے مقام کے سلسلہ میں شیعہ سنیوں کی نسبت زیادہ اہمیت کے قائل ہیں کیو نکہ ان کی بنیاد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عقیدت اور محبت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ وراثت میں پوتوں کے ساتھ نواسوں کو برابر رکھتے ہیں مگر اس بحث میں طوالت کی اس لیے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ "عوف"پر غالی شیعہ ہو نے کا الزام کسی نے نہیں لگا یا بلکہ لفظ تشیع ان لو گوں کے لیے بھی استعمال لیاگیا ہے جو اہل بیت سے زیادہ ہمدردی رکھتے تھے
لہٰذا محدثین کا انھیں نہ صرف معتبر راویوں میں شمار کرنا بلکہ حافظ ابن حجرؒ وغیرہ کا اس معمولی جرح کے باوجود اس حدیث کو صحیح 2قرار دینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ایسی معمولی جرح قادحنہیں ہو سکتی ۔
"طلوع اسلام" میں امام بخاریؒ کے شیخ عثمان بن الہثیم پر جرح کرتے ہو ئے اس کی سچائی کے اعتراف کے ساتھ اس کا غلطیاں کرنا بھی ذکر کیا گیا ہے دراصل جرح و تعدیل کے سلسلے میں اصطلاحات کا ترجمہ اپنے مطلب کا بیان کرنے کی بجائے محدثین کی اصطلاحات کو انہی کے الفاظ میں پیش کرنا درست ہو تا ہے ۔کیونکہ محدثین کے الفاظ صحت و ضعف میں راویوں کے طبقات کا بھی تعین کرتے ہیں ۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا لیکن ان کا ترجمہ اپنے من پسند الفاظ میں غلط فہمی کا باعث ہو تا ہے۔
عثمان بن الہثیم کے بارے میں محدثین نے ثقہ کہنے کے علاوہ صدوق کے الفاظ استعمال کیئے ہیں جن کا ترجمہ بہت سچ بولنے والا ہے اگر چہ محدثین نے اس کے ساتھ اس کی بعض غلطیوں کی بھی نشاندہی کی ہے3 لیکن ابو حاتمؒ نے واضح کیا ہے کہ عثمان اپنی آخری عمر میں اپنی روایت کے لیے دوسروں کی تصحیح قبول کر لیا کرتا تھا اسی وجہ سے ابن حبانؒ نے اسے ثقات میں شمار کیا ہے امام بخاریؒ نے بھی اس سے براہ راست اور بالواسطہ روایت کی ہے امام احمدؒ کے پاس اس ذکر ہوا تو انھوں نے اس کے بڑے طبقہ رواۃ کی بجائے چھوٹے طبقہ رواۃ سے ہو نے کی طرف اشارہ کیا یعنی "ليس بثبت" کے الفاظ استعمال کئے ،واضح رہے کہ طبقات رواۃ میں ثبت کا دوسرا یا تیسرا طبقہ ہے ۔امام احمدؒ کی مراد یہ ہے کہ اس کا درجہ اس سے کم تر یعنی چوتھا یا پانچواں طبقہ ہے تاہم یہ طبقہ معتبر راویوں کا ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ۔
مذکورہ بالا دونوں راوی عثمان بن الہثیم اور عوف کے بارے میں ہم نے محدثین کے فنی تبصرے کی روشنی میں ان کا شمار رواۃ کے معتبر طبقوں میں سے ہو نے کا جو پہلو ذکر کیا ہے اس کی تائید اس سے بھی ہو تی ہے کہاں دونوں راویوں سے روایت کرنے والے بیشمار ثقہ لو گ ہیں جن میں بڑے بڑے ائمہ حدیث بھی شامل ہیں ۔
تہذیب التہذیب جلد 7ص157میں عثمان بن الہثیم سے روایت کرنے والوں میں امام نسائی ،امام ابو حاتمؒ رازی،امام ذہؒلی امام محمد بن عبد الرحیم البزارؒ۔امام محمد بن حزیمہ البصری،اسماعیل سمویہ۔اسید بن عاصمؒ،محمد بن غالب تمتام ،یقوب بن سفیان ،ابراہیم بن مرزوق ،ابو مسلم الکشی الکدیمی ،ابو خلیفہ فضل بن الحباب اور دگر بہت سارے مذکور ہیں اسی طرح عوف الاعرابی سے امام شعبہ امام ثوری امام عبد اللہ بن مبارک امام یحییٰ بن سعید القطان ۔ابن عليه، اسحاق الازرقی،ہشلیم ،عیسیٰ بن یونس غند ر مردان بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ معتمر بن سلیمان وغیرہ ایک کثیر تعداد کے ناموں کا ذکر حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب جلد 8ص166،میں کیا ہے
محدثین کے ہاں کسی کی تو ثیق کا ایک طریقہ جہاں الفاظ ہیں وہاں ان سے روایت کرنے والوں کی تعداد ان کی شخصیت کی توثیق کے لیے بطور دلیل استعمال ہوتی ہے جیسا کہ مجہول و مستور وغیرہ کی مباحث میں معروف ہے علاوہ ازیں رواۃ کو تقویت دینے کے لیے فن حدیث کا ایک اہم طریق تابع 4اور شاہد کی موجودگی بھی ہے اس طریق کو اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں چنانچہ امام حسن بصری سے راوی عوف کی متابعت حمیدالطویل اور دوسرے رواۃ کی ایک جماعت سے ثابت ہے جن کا ذکر مسند احمد اور بزار میں ملتا ہے اسی طرح حسن بصری کی متابعت عبد الرحمٰن بن جوشن سے ثابت 5ہے جبکہ عثمان الہثیم کی متابعت سنن نسائی جلد ص301اور جامع ترمذی جلد 6ص61اور مسند احمد جلد 5ص38میں ملا حظہ کی جا سکتی ہے حاصل یہ ہے کہ اس حدیث کے سارے راویوں کی تائید دوسرے رواۃ نے بھی کی ہے لہٰذا حدیث کا معیار ثبوت کے اعتبار سے بلند تر ہو گیا ۔ اسی طرح ابوبکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کے علاوہ ایسی حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمرۃ صحابی سے بھی موجود ہے جسے مجمع الروئد جلد 5ص309میں طبرانی کے حولے سے ذکر کیا گیا ہے یہ شاہد کے طور پر تائید کی مثال ہے
حدیث کے رواۃ پر مذکورہ بلا اطمینان کے بعد ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کے بارے میں کسی تحقیق کی ضرورت تو نہ تھی کہ"الصحابة كلهم عدول" کا صول معروف ہے لیکن ناقدین کو حدیث "ہذا کو کسی طرح ضعیف ثابت کرنا ہے اس لیے انھوں نے ابوبکرۃ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی نہیں چھوڑا حالانکہ صحابہ میں ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ دیگر حضرات سے بھی یہ حدیث مروی ہے حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے اگرچہ الفاظ کا تھوڑا بہت فرق ہے لیکن مفہوم وہی ہے ۔الفاظ یوں ہیں :
«لن يفلح قوم يملك رأيهم امرأة»6
ترجمہ:"یعنی وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس کے فیصلوں کا اختیار عورت کے ہاتھ میں ہو ۔
تاہم دور حاضر میں مستشرقین کے پھیلائے ہو ئے شکوک کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بھی اب اسی طرح کا سیا ستدان شمار کیا جا نے لگا ہے جس طرح کی گندی سیاست ہمارے ہاں چلتی ہے حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اختلافات میں جو چیز نظر آتی ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب خلافت کے بارے میں انصار کے مؤقف کو رد کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث "الائمة من قريش" پیش کی تو کسی نے حدیث پر اس وجہ سے جرح نہیں کی کہ اس سے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مؤقف کی تائید ہو تی تھی بلکہ اس حدیث کے پیش کرنے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بشمول انصار و مہاجرین ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر مطمئن بھی ہو گئے ۔لہٰذا ناقدین کا ابوبکر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یہ طعن کہ انھوں نے جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مخالفت کے لیے یہ حدیث پیش کی تھی ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر وضاع ہو نے کی تہمت لگانا ہے جو صحابی کو بہت غلیظ گالی ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ایسے لو گوں کا ذکر تو ملتا ہے جن سے بعض کبائر کا ارتکاب ہوا اور ان پر حد بھی جاری کی گئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث گھڑ کے پیش کرنا بقول امام الحرمین کفر دارتداد ہے جو کسی کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زمرہ سے خارج کردیتا ہے لہٰذا صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے بعض گناہوں کے ذکر سے یہ مغالطہ نہیں ہو نا چاہیے کہ وہ مرتد بھی ہو سکتے ہیں ۔تاریخ میں جن مرتدین کا ذکر ہے ان میں ابوبکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قطعاً شامل نہیں ۔ارتداد اور فسق کا یہی فرق حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایک دوسرے واقعہ کے متعلق محدثین کے اس مؤقف کی تائید کرتا ہے کہ وہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی روایت کو کیوں معتبر جانتے ہیں جو قذف کے جرم میں ملوث ہو ئے یاان پر قذف کی حد بھی جاری ہو ئی جیسے جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں مشہور شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ثابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی حمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حجش اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھانجے مسطح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معا ملہ ہے جن کی روایت محدثین کے ہاں بالاتفاق معتبر ہے اسی طرح حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مغیرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن شعبہ پر زنا کی گواہی دینے والوں میں ابوبکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے جو چوتھے گواہ زیاد کے تذبذب کی وجہ سے صرف اس لیے حد قذف کے مستحق بنے کہ حتمی طور پر چار گواہوں کا بیان یکساں نہ تھا یہی وجہ ہے کہ شہادتیں گزرنے کے بعد مغیرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن شعبہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب یہ کہا کہ مجھے ان غلاموں سے بچائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ چپ رہو اگر چوتھی بھی مکمل ہو جاتی ہے تو اللہ کی قسم تمھیں سنگسار کر دیتے7۔
مغیرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن شعبہ پر گواہی دینے والوں کو حد قذف جاری کی گئی اس سے یہ بات واضح ہے کہ ان پر حد کا جاری کرنا صرف اس بناء پر تھا کہ وہ چار گواہ پورے نہ ہو سکے ورنہ ان گواہوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کو ئی دیگر کاروائی عمل میں نہ لا ئی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیاد کو چھوڑ کر نافع بن الحارث ،شبل بن معبد اور ابو بکر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حد جاری کی تو اس کے بعد تینوں سے فر ما یا کہ تم اپنے اس فعل سے تو بہ کرلو تاکہ آئند ہ تمھاری گواہی قابل قبول ہو تو ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توبہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں صرف اس لیے تو بہ کروں کہ میری شہادت قبول کی جا ئے میں تو اب کبھی فریقین کے کسی جھگڑے میں گواہی نہیں دوں گا۔8
اس سے معلوم ہوا کہ "طلوع اسلام" کا یہ سفید جھوٹ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھوٹے چھوٹے دنیاوی معاملات تک میں ابوبکر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گواہی قبول کرتے تھے بلکہ ابوبکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کے بعد گواہی دی ہی نہیں کہ ان کی گواہی قبول کرنے یا نہ کرنے کا سوال اٹھے بلکہ ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ گواہ بننے سے بچتے تھے ۔9
علما ء نے جرم قذف کے مرتکب کے بارے میں بحث کرتے ہو ئے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ صرف حد جاری ہو نا بھی کفار ہگناہ ہے کیونکہ حد جاری ہو نا بھی تو بہ کی ایک شکل ہے لہٰذا ابوبکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴿إِلَّا الَّذينَ تابوا﴾کی استثناء میں آجاتے ہیں کئی فقہاء حد جاری ہو نے کو توبہ کی جگہ دیتے ہیں ابن قیم ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہو تا ہے اس سلسلے میں فر ما ن رسول صلی اللہ علیہ وسلم
«فهو كفارة له»
(بخاری ) بطور دلیل پیش نظر رہے ابن قیم نے «التائب من الذنب كمن لا ذنب له»حدیث پیش کی ہے10
علاوہ ازیں مقدمات میں گواہی دینا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روایت کرنا ان دونوں کے لیے اشخاص کی صفات کا فرق اصول فقہ میں معروف ہے مثلاًروایت میں عورت و مرد کی روایت کا کو ئی فرق نہیں جبکہ شہادت میں عورت مرد کا فرق نص قرآنی سے ثابت ہے لہٰذا روایت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معتبر یا غیر معتبر ہو نے کے مسئلہ کو ان کی شہادت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے ۔کہ ابوبکر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے قبول کرنے پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہے جس کی صراحت حافظ ابن قیم ؒ نے ان الفاظ سے کی ہے۔ «وقد اجمع المسلمون على قبول رواية ابى بكرة رضى الله عنه»11اسی بناء پر امام بخاریؒ نے قصہ ابی بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اظہار اعتماد کے باوجود اپنی صحیح میں ان کی متعدد روایات ذکر کی ہیں ۔ہم نے ابوبکر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلسلے میں جن دلا ئل کا ذکر کیا ہے وہ ناقدین کے مغالطوں کے ازالہ کے لیے ہے ورنہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمرۃ کی دیگر مستقل حدیث کی تا ئید کی وجہ سے ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو جو تقویت ملتی ہے مندرجہ بالا سطور میں ہم ہم اسے پیش کر چکے ہیں اس طرح یہ صرف ایک حدیث نہیں دوحدیثیں ہو ئیں جن کے طرق متعد ہو نے کی وجہ سے ان کی بیشمار روایات بنتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کی تخریج مسانید اور سنن قسم کی کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری میں موجود ہے اور یہ بخاری میں دو جگہ روایت کی گئی ہے ۔
مرویات صحیح بخاری کے سلسلے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجے پر ہیں کیونکہ ان کے لیے صرف یہی بات کا فی نہیں کہ وہ امام بخاریؒ کی دقیق ترین تحقیق پر پوری اتری ہیں بلکہ صحیح بخاری کے منظر عام پرآنےکے بعد اس کی ایک ایک روایت کی پرکھ کے لیے محدثین معرکہ آرائی کرتے رہے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ روایات دیگر محدثین کی تائید سے قبولیت 12کا اعلیٰ مقام حاصل کر گئیں بلکہ محدثین نے صحیح بخاری کو"اصح الكتب بعد كتاب الله"قرار دیا
چنانچہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ حجۃ اللہ البالغۃ میں لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ ان دونوں کی تمام مرفوع متصل حدیثیں قطعی طور پر صحیح ہیں یہی وجہ ہے کہ محدثین صحیح بخاری کی کسی حدیث کے بارے میں اسماء الرجال کی کتابیں نکال کر راویوں پر تعدیل و جرح کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ بخاری میں کسی حدیث کا آنا صرف رواۃ کے معیار پر مبنی نہیں ہو تا بلکہ اس میں صحت کی دوسری صورتیں بھی ملحوظ رکھی جا تی ہیں جیسے زیربحث حدیث کے بارے میں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اس کے جملہ راوی بصری ہیں جبکہ ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حدیث سنائی تو اس وقت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بصرہمیں ہی موجود تھیں اور حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قتلِ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں موقف کے مؤید ہو نے کے باوجود صرف اس حدیث کی بناء پر جنگ جمل میں شریک نہ ہوئے ۔بخاری ؒکے وہ الفاظ جو جنگ جمل کے پش منظر میں کتاب المغازی کے تحت امام بخاریؒ نے ابوبکر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں نقل کئے ہیں وہ خصوصاً قابل غور ہیں
«لَقَدْ نَفَعَنِي اللَّهُ بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَّامَ الجَمَلِ، بَعْدَ مَا كِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَهُمْ»
یعنی ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں مجھے یقیناً جنگ جمل کے موقع پر جبکہ میں قریب تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں میں شامل ہو کر لڑائی میں شرکت کروں اس کلام نے بڑا فائدہ دیا جو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ۔"
پھر آپ نے مذکورہ حدیث بیان کی۔حاصل یہ ہے کہ ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مخالفت کے لیے نہیں بلکہ وہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے موقف میں ان کے ساتھ شامل ہو کر لڑنے کے لیے آمادہ تھے کہ اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ رک گئے ،لہٰذا یہ حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بہت بڑی تہمت ہے اُنھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مخالفت کے لیے یہ حدیث گھڑی تھی ،نیز اگر صرف مخالفت ہی پیش نظر ہو تو ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیا ضرورت تھی کہ وہ نہ صرف خالص الفاظ حدیث۔ «لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً»بیان کرتے بلکہ انھوں نے تو یہ بھی فر ما یا کہ یہ الفاظ انھوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت سنے جب اہل فارس نے کسرٰی کی بیٹی کو اپنا حاکم بنا لیا ۔
درحقیقت منکرین حدیث جہاں فن حدیث سے ناواقف ہیں وہاں وہ احادیث کو سمجھنے سے بھی عاری ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہو تا ہے کہ حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث سے وہ یہ استنباط دکھا رہے ہیں کہ حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ جمل کے سب شرکاء کو جہنمی قرار دیتے تھے حالانکہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے «إِذَا تَوَاجَهَ المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَكِلاَهُمَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ»الحدیث جو حدیث بیان کی ہے اس سے قطعاً یہ ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ نہیں بنتا کہ جنگ جمل کے جملہ شرکاء جہنمی تھے کسی موقع پر نصیحت کے لیے کو ئی بات کرنے کا اگر یہی مفہوم لے لیا جا ئے تو قرآن و سنت میں جتنی عمومی باتیں انبیاؑء صحابہ کے سامنے پیش آمدہ واقعات کے بارے میں بطور نصیحت کہتے تھے وہ سب کے سب ان پر فتویٰ بن جا ئیں گے حالانکہ فقہاء نے استنباط کے اصولوں میں یہ صراحت کی ہے کہ عمومی بات سے کسی خاص چیز کا اعتراف ثابت نہیں ہو تا جیسے کو ئی شخص استغفار پڑھے تو اس سے یہ لا زم نہیں آتا کہ وہ مجرم ہے اسی طرح جو شخص آیت کریمہ ﴿لا إِلـٰهَ إِلّا أَنتَ سُبحـٰنَكَ إِنّى كُنتُ مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿٨٧﴾... سورة الانبياء"کا ورد کرے اس سے یہ الزام ثابت نہیں ہو سکتا کہ وہ ظالم ہے اس طرح کی احادیث کا اصل تعلق روز قیامت کے حساب و کتاب سے ہو تا ہے کہ اس روز اللہ تعا لیٰ دلوں کا بھی حساب و کتاب فر ما ئیں گے لہٰذا اگر یہ ثابت ہوا کہ کسی شخص نے اپنے دفاع کا قصد کئے بغیر یا دوسرے کو کسی متعلقہ جرم کے بغیر قتل کیا ہو گا تو اس کو جہنم میں داخل کیا جا ئے گا کیونکہ مسلمان کا قتل عمد جہنم میں لے جا نے والی چیز ہے لیکن دنیا میں چونکہ دلوں کا فیصلہ نہیں کیا جا تا اس لیے دنیا میں ایسی نصیحت کا مقصد صرف یہ ہو تا ہے کہ مسلمانوں کی لڑائی کے شرکاء کہیں قتل عمد کے جرم کے مرتکب نہ ہو جا ئیں ظاہر ہے کہ جب مسلمان تلواریں لے کر آمنے سامنے ہو ں گے تو یہ امکان بڑھ جا تا ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو جہنمی ہو نے کی وعید سنائی اسی حدیث میں حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال بھی کیا گیا کہ قاتل کا جہنمی ہو نا تو سمجھ میں آتا ہے مقتول کیسے جہنمی ہو سکتا ہے تو ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ وہ بھی اپنے مقابل کے قتل کے لیے کو شاں تھا ۔لہٰذا حدیث ہذا کا مقصد مسلمانوں کو آپس کے قتل عمد سے بچانا ہے جو قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم ہے : ﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا﴾یعنی "جو شخص مومن کا قتل عمد کرے اس کا بدلہ جہنم ہے
ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا فتویٰ کبھی نہیں دے سکتے کہ جملہ شرکاء جنگ جمل جہنمی ہیں جبکہ اسی جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے وہ حضرات بھی موجود تھے جن کو دنیا میں جنت کی بشارت دی گئی یعنی وہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں بہر صورت منکرین حدیث کو کسی اصول کی پروا تو ہو تی نہیں ان کا مقصد صرف اُن عوام کو دھوکا دینا ہو تا ہے جو فن حدیث اور اصول اجتہاد سےناواقف ہیں چنانچہ بے پر کیاں اڑانا ہی ان کی کا میابی ہے افسوس یہ ہے کہ ان کے سامنے کو ئی علمی شخصیت ہو اس پراعتراض تمام علمی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جہالت کی بنیاد پر کرنے سے نہیں چونگتے ظاہر ہے کہ جن کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی کو ئی اہمیت نہیں مفتی اعظم کے سرکاری فتویٰ کی وہ کیا پرواہ کرتے ہیں ۔ہم اللہ سے ان کی ہدایت اور اُمت مسلمہ کے لیے ان کے شر سے پنا ہ کی دعاء ہی کر سکتے ہیں
حوالہ جات
1. میزان الاعتدال اور تہذیب التہذب جلد 8،
2. فتح الباری ،ج13ص147،
3. فن حدیث میں راوی سے معمولی غلطی ہو جا نا ضعف کا باعث نہیں ہو تا کیونکہ نبی کے علاوہ معصوم تو کو ئی نہیں ۔
4. تابع متابع کسی صحابی کی حدیث کی روایت کے لیے کسی دوسری تائید کرنے والی روایت کو کہتے ہیں اگر اس حدیث کا صحابی بھی دوسرا ہو تو محدثین کے ہاں یہ دوسری حدیث شمار ہوتی ہے اس لیے وہ اسے شاہد سے تعبیر کرتے ہیں چونکہ سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مدارصحابہ ہو تے ہیں اس لیے ان کی گنتی بھی صحابہ کی نسبت سے کی جا تی ہے ۔
5. مسند احمد جلد 5ص27اسے شیخ البانی نے ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل جلد8ص109میں واسنادہ جید"کہاہے گویا یہ متابعت بھی صحیح ہے ۔
6. مجمع الزوائد ،جلد5ص209،
7. ملاحظہ ہو تاریخ الکامل جلد 2ص279،378،تاریخ طبری جلد 2کا حصہ 4ص308،307۔البدایۃ والنہار یۃ جلد ص83تا81
8. اسد الغابۃ جلد 6ص28،
9. اعلام الموقعین جلد 1ص132،
10. ملاحظہ ہو اعلام الموقعین جلد ص132،
11. اسے اصطلاح میں "تلقى بالقبول"کہتے ہیں ۔