رُوح۔مقامِ قبر۔سماعِ موتی
قبر کے عام مفہوم پر عثمانی صاحب کے اعتراضات:
قبر سے مراد یہ زمینی گڑھا لینے پر عثمانی صاحب اور اسی طرح موجودہ دور کے بعض دیگر لوگوں کو مندرجہ ذیل قسم کے اعتراضات ہیں۔
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہوتا ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا، اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک ہی قبر میں کئی مردے دفن ہوتے ہیں۔ اب بتلائیے کہ اس قبر میں عذاب ہو رہا یا ثواب؟
2۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ جب منکرِ نکیر آتے ہیں تو مردے کو قبر میں بٹھلا دیا جاتا ہے۔ پھر مومن کے لیے یہ قبر کشادہ کی جاتی ہے حالانکہ اس زمینی گڑھے میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ لہذا ضروری ہے کہ اس سے برزخی قبر ہی مراد لی جائے۔
3۔ حدیث میں آیا ہے کہ بدکردار انسان کو ستر ایسے زہریلے نسانپ ڈستے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی زمین کو ڈس لے تو زمین سبزہ اگانا چھوڑ دے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ زمین نے آج تک سبزہ اگانا تو چھوڑا نہیں۔ لہذ قبر سے مراد یہ زمینی گڑھا لینا درست نہیں۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبریں ظلمت سے بھری ہوتی ہیں۔ میری دعا سے وہ روشن ہو جاتی ہیں۔ اب اگر ایک قبر میں نیک و بد دونوں قسم کے مردے ہوں تو کیا صورت ہو گی؟ کیا ان سب کو سے نور سے فائدہ پہنچے گا؟
5۔ زانیوں کی قبریں دنیا میں مختلف مقامات پر ہوتی ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے خواب میں دیکھا کہ انہیں ایک ہی جگہ ایک تنور میں عذاب ہو رہا تھا، وغیرہ وغیرہ۔
یہ اور اس قسم کے دوسرے اعتراضات کا جواب دراصل میں اپنے مقاملہ میں دے چکا ہوں۔ مگر معلوم ہوتا ہے، ان حضرات نے اپنے مخصوص قسم کے نکات پر ہی نظر ڈالی ہے۔ لہذا اب اسے ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ فرض کیجئے ایک کمرے میں دو آدمی سو رہے ہیں، اور خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایک تو خواب کی حالت میں پِٹ رہا ہے لیکن دوسرا خواب ہی میں دعوتیں اڑا رہا ہے اور ایک تیسرا آدمی ان دونوں کے پاس بیٹھا جاگ رہا ہے۔ اب دیکھیے یہ تینوں آدمی ایک دوسرے اور تیسرے کے حالات سے قطعا بے خبر ہیں کیونکہ تینوں کے عالم الگ الگ ہیں۔ اگرچہ ہمارے محسوسات کے لحاظ سے تینوں ایک کمرے میں، ایک مقام پر اور ایک عالم و دنیا میں ہیں۔
عالمِ برزخ کا تھوڑا بہت تصور، جتنا کہ اس عالمِ دنیا میں ممکن ہے، خواب اور اس کے کوائف و داردات میں غور و فکر کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ نیند بھی زندگی اور موت کے درمیان برزخ ہے اور اسی لیے نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نیند میں چونکہ زندگی کے آثار غالب ہوتے ہیں اس لیے قرآن نے اس دور کو زندگی سے تعبیر کیا ہے اور برزخ میں چونکہ موت کے اثرات غالب ہوتے ہیں اس لیے قرآن نے اسے موت سے تعبیر کیا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی زندگی کے کچھ نہ کچھ آار پائے جاتے ہیں اور اسی لیے اس موت کے دور کو برزخی زندگی بھی کہہ دیا جاتا ہے۔
اس تصریح سے عثمانی صاحب کے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ کیا روحیں دو (2) ہیں؟ ایک تو عذاب و ثواب بھگت رہی ہے اور دوسری دنیا میں اپنے قبر میں پڑے ہوئے جسم میں موجد ہوتی ہے تو کیا روحیں دو ہوتی ہیں؟ اگر اس دنیا میں اس طرح کی دو روحوں کے وجود کا امکان ہے تو اس دنیا میں کیوں نہیں ہو سکتا؟
عثمانی صاحب فرماتے ہیں، "حدیث میں آیا ہے کہ بدکردار انسان کو ایسے زہریلے ستر سانپ ڈستے ہیں کہ اگر ان میں ایک سانپ زمین کو ڈس لے تو وہ سبزہ اگانا چھوڑ دے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ زمین نے سبزہ اگانا تو چھوڑا نہیں۔ لہذا قبر سے یہ زمینی گڑھا مراد لینا درست نہیں۔"
یہ بھی عجیب قسم کی منطق ہے کہ سانپ ڈسے تو انسان کو اور سبزہ اگانا زمین چھوڑ دے، وہ کیوں؟ آخر اس سانپ نے زمین کو تو ڈسا نہیں، پھر جب ہم خود اس بات کے قائل ہیں کہ عذاب و ثواب قبر کا بیشر انحصار روح یا روح کے جسم پر ہوتا ہے۔ البتہ اس کی شدت سے کبھی کبھار قبر میں پڑا ہوا جسدِ عنصری بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ تو بدکردار انسان کے اس عذاب سے آخر زمین سبزہ اُگانا کیوں چھوڑ دے؟
یہ اور اس قبیل کے دوسرے اعتراضات میں عام غلطی جو ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بات تو کرتے ہیں روح اور عالمِ برزخ کی، اور اسے پرکھنا چاہتے ہیں انسانی عقلک اور محسوسات سے، حالانکہ یہ بات اصولا غلط ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ روح کے متعلق انسان کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ تو پھر اس تھوڑے علم کی بنیاد پر ایک نظریہ قائم کرنا، پھر اس نظریہ کو عقیدہ کا رنگ دینا پھر اس میں اتنا متشدد اور متعصب ہو جانا کہ جو شخص اس نظریہ کے خلاف بات کرے اسے کافر و مشرک کے القاب دے ڈالنا، آخر یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟
شہداء اور عالمِ برزخ:
شہداء کے متعلق قرآن کریم میں ایک جگہ تو یہ مذکور ہے کہ " انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔" (البقرۃ، 184) اور دوسری جگہ فرمایا کہ "اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مُردہ گمان بھی نہ کرو۔ بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق دیے جاتے ہیں۔" اور احادیث سے ثابت ہے کہ شہداء کو سبز رنگ کے پرندوں کا جسم عطا کیا جاتا ہے۔ وہ جنت کے باغوں میں لہلہاتے، جنت کے میوے کھاتے اور عرشِ الہی کے نیچے لٹکتی ہوئی سنہری قبدیلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ (ابوداؤد، بحوالہ مشکوٰۃ ص335)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد برزخی زندگی تو سب ہی کو ملتی ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر۔ اسی طرح ہر کوئی عذاب و ثواب سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ تو پھر شہداء کی خصوصیت کیا رہی؟ کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ انہیں مردہ نہ کہو یا نہ سمجھو۔ محض ازراہِ اعزاز ہے؟
ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات محض ازراہ، عزت و احترام نہیں۔ بلکہ وہ فی الحقیقت زندگی کے دور میں ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں دونوں مقامات پر "(بَلْ أَحْيَاءٌ)" کے الفاظ آئے ہیں جبکہ باقی سب انسانوں کے لیے "(أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ)" کے الفاظ آئے ہیں۔ اور شہداء کی فضیلت یہ ہے کہ ان پر سے مرحلہ نمبر 3 یعنی مرنے کے بعد سے لے کر یوم البعث تک کا دور ۔ جسے برزخی زندگی بھی کہتے ہیں اور قرآن اسے موت کا دور بتلاتا ہے، یکسر اٹھا لیا جاتا ہے اور وہ مرحلہ نمبر 2 یعنی زندگی میں شہادت پاتے ہی فورا سیدھے مرحلہ نمبر 4 یعنی مکمل اور دائمی زندگی کے دور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان سے منکر نکیر کے سوال و جواب نہیں ہوتے۔ قرآن کریم کے الفاظ "( بَلْ أَحْيَاءٌ)" کا یہی مطلب ہے جبکہ عثمانی صاحب شہداء کی برزخی زندگی تسلیم کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:
"اس طرح سے صاف بتلا دیا گیا کہ شہداء اپنے رب کے پاس ہیں اور وہاں رزق پا رہے ہیں۔ ان قبروں کے اندر زندہ نہیں۔ ان کی زندگی برزخی ہے دنیاوی نہیں۔" (یہ قبریں یہ آستانے ص10)
اب سوال یہ ہے کہ اگر شہداء کی زندگی بھی برزخی ہے اور عام انسانوں کی بھی، تو عام انسانوں کے لیے "(عربیأَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ)" اور شہداء کو "(بَلْ أَحْيَاءٌ)" کیوں کہا گیا؟
موت کے بعد شہداء اور عام انسانوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ شہداء کو جنت میں سبز پرندوں کا جسم عطا ہوتا ہے اور یہ جسم حقیقی اور مستقل ہوتا ہے جبکہ دوسروں کی روح کو ان کا اپنا ہی جسم یا بقول عثمانی صاحب نیا جسم عطا ہوتا ہے جو ہر آن بنتا بگڑتا رہتا ہے۔
2۔ اعادہ روح اور عذابِ قبر:
اعادہ روح کے متعلق جتنی بھی احادیث آتی ہیں، عثمانی صاحب نے ان کو یا تو مجروح و موضوع قرار دیا ہے یا پھر ان کو کوئی نئی اور مضحکہ خیز تاویل پیش کر دی ہے۔ اثبات اعادہ روح کے موضوع پر ایک الگ پمفلٹ شائع ہو چکا ہے جس میں عثمانی صاحب کی ان "علمی تحقیقات" کا بھرپور جائزہ پیش کیا گیا ہے اور یہ پمفلٹ ہم محدث کے کسی اگلے شمارہ میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سرِ دست ہم صرف بخاری کی اسی حدیث سے تعرض کریں گے جو موضوع زیرِ بحث میں اکثر پیش کی جاتی ہے۔ پھر اس سے ممکنہ نتائج پر غور کریں گے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
عن أنس بن مالك رضي الله عنه، أنه حدثهم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، وإنه [ص:99] ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فيقعدانه، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم، فأما المؤمن، فيقول: أشهد أنه عبد الله ورسوله، فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا - قال قتادة: وذكر لنا: أنه يفسح له في قبره، ثم رجع إلى حديث أنس - قال: وأما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلي(بخاری ح1374کتاب الجنائز باب ماجاء عذاب القبر)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب آدمی اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس لوٹتے ہیں تو بلاشبہ وہ ان کے جوتوں کی آوز سنتا ہے (اسی وقت) اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: "تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟" اب اگر وہ ایماندار ہے تو کہتا ہے کہ "میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں" پھر اس سے کہا جاتا ہے "تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدل تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔" تو وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں "اور ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے" پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا۔ اور اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا ہے؟" تو وہ کہتا ہے "میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔" پھر اس سے کہا جائے گا کہ "نہ تو تُو خود سمجھا اور نہ ہی خود پڑھا۔" اور لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا۔ اور اس کی یہ چیخ جن و انسان کے سوا تمام آس پاس کی چیزیں سنتی ہیں۔"
اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں:
1۔ بنیادی طور پر "(عربی)" کا لغوی معنی اتارنا اور نیچے رکھنا ہے۔ (مفردات امام راغب) اور "(وضع)" کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ قبر سے مراد یہی زمینی ھڑھا ہے۔ روح کو کسی برزخی جسم میں داخل کرنے کے لیے "( وضع في قبره)" کا لفظ استعمال نہیں ہو گا۔
2 ۔ "(وتولى عنه أصحابه)" کے الفاظ سے بھی قبر سے مراد زمینی گڑھا ہے کیونکہ میت کے ساتھی اسی زمینی قبر سے واپس جاتے ہیں نہ کہ برزخی قبر سے۔
3۔ جن و انس کے سوا تمام اشیاء میت کے عذاب، آہ و بکا کو سنتی ہیں۔ جنوں کے متعلق ہم وثوق سے کہہ نہیں سکتے۔ لیکن انسان تو اسی زمین پر بستے ہیں اور "(من يليه)" کے الفاظ سے یہ بھی واضح ہے کہ یہ اس قبر کے آس پاس کی اشیاء اور جن و انس ہیں۔ اب انسان چونکہ اسی زمین کے پاس ہو سکتے ہیں۔ برزخی قبر کے پاس نہیں ہوتے۔ لہذا قبر سے مراد یہی زمینی گڑھا ہے۔
"(وإنه ليسمع قرع نعالهم)" (یعنی مردہ ان واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے) کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس وقت اس جسم میں روح بھی ہوتی ہے۔ جو موت کے وقت فرشتے نکال کر لے گئے تھے۔ اس سے اعادہ روح کا اثبات ہوتا ہے۔ اب یہ سوال کہ روح فرشتے اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ یا یہ روح ان کی آمد سے پلے لوٹائی جاتی ہے۔ او پھر یہ روھ واپس کب اور کس طرح جاتی ہے؟ ایسے سوال ہیں جن کے جاننے کے ہم مکلف نہیں ہیں۔ اب یہ سوال ایسے ہی ہیں جیسے کوئی یہ پوچھے کہ عیسی علیہ السلام جن مردوں کو زندہ کرتے تھے، وہ دو بار کب مرتے تھے؟ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ روح کا اصل ٹھکانہ یہ دنیاوی قبر نہیں ہے اور روح کی یہ واپسی ایک اضطراری امر اور اللہ کے حکم کے تحت ہے۔
5۔ "(فيقعدانه)" یعنی وہ دونوں فرشتے قبر میں لیٹی ہوئی میت کو اٹھا کر بٹھلا دیتے ہیں۔ فرشتوں کے اس عمل سے بھی قبر کے زمینی گڑھا ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ کیونکہ برزخی قبر تو محض روح کو ایک نیا جسم ملنے کا نام ہے اور یہی نیا جسم اس کی برزخی قبر ہے۔ اس برزخی قبر میں فرشتوں کے میت کو اٹھا کر بٹھلانے کا تصور ہی کب پیدا ہوتا ہے؟
6۔ "قبر میں فرشتے لیٹی ہوئی میت کو اٹھا کر بٹھلا دیتے ہیں۔ نیز مومن کے لیے قبر کھول دی جاتی ہے۔" اس سے عثمانی صاحب یہ نتیجہ نکالتے ہین کہ چونکہ قبر کو اسی وقت اکھاڑنے سے ہم کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں دیکھتے۔ لہذا قبر سے مراد زمینی گڑھا نہیں ہو سکتا اور اس سے مراد بس برزخی قبر ہی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ ہم اس سے بالکل دوسرا نتیجہ نکالتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ قبر کی اندرونی دنیا، اس کی کارجی دنیا سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ قبر میں رکھی ہوئی میت سے جو واردات و حوادث پیش آرہے ہوتے ہیں۔ اس سے قبر کو اکھاڑنے والا شخص کبھی مطلع نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے والاشخص اپنے خواب میں نہایت سنسنی خیز حالات سے دو چار ہوتا ہے۔ لیکن اس کے پاس بیٹھنے اور جاگنے والے کو اس کا علم تک نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ دونوں اسی دنیا میں اور ایک ہی جگہ پر ہوتے ہیں۔ لہذا برزخی قبر کے نظریہ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اور یہ بات میں پہلے بھی کئی بار واضھ کر چکا ہوں کہ اس دنیا میں خواب میں رجن و راحت سے دوچار ہونے والی روح کا اپنے مادی جسم سے نہایت گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے۔ لہذا اس پر زندگی کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن قبر یا عالمِ برزخ میں اس رنج و راحت سے دو چار ہونے والی روح کا اپنے جسم سے تعلق نہایت کمزور اور کبھی کبھار ہوتا ہے۔ پھر یہ تعلق بھی روح کے اپنے بس کی بات نہیں ہوتی۔ لہذا اس دور کو "(أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ)" سے تعبیر کیا گیا ہے۔
7۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں یہ روایت درج کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ قبر میں اعادہ روح کے قائل ہیں۔ پھر انہوں نے یہ روایت ایک ممتاز صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس سے معلوم ہوا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی اعادہ روح کے قائل تھے۔ پھر درمیان میں جتنے حضرات سے اس کا سلسلہ سند منسلک ہے، یہ سب حضرات بھی اعادہ روح کے قائل تھے۔ پھر آخر "امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ، ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ، ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور ایک جم غفیر نے کون سا ایسا جرم کیا ہے جس کی پاداش میں آپ انہیں بدعقیدہ، گمراہ، کافر و مشرک اور ایمان سے خالی وغیرہ وغیرہ القابات سے نوازتے ہیں؟
اب آپ کے ممدوحین میں سے ایک امام ابوحنیفہ ط رہ جاتے ہیں جن کے سوال و جواب کو غلط جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ جہاں تک روح کے قبر میں واپس آنے اور پھر ہر وقت موجود رہنے کا تعلق ہے، اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ اصل سوال زیرِ بحث یہ ہے کہ کیا کسی وقت اعادہ روح ممکن بھی ہے یا نہیں، خواہ یہ محض استثنائی صورت میں ہی کیوں نہ ہو؟ اس سوال کے جواب میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش فرمائیے۔ تو قطع نزاع کے لیے دلیل کا کام دے سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ط کے واقعہ سے تو بس اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ روح قبر میں موجود نہیں ہوتی۔ بلکہ اہل قبور "(أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ)" ہوتے ہیں۔ اور یہ بات ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔
اسی طرح آپ کسی صحابی رضی اللہ عنہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یا امام ابوحنیفہ ط، بلکہ ان کے علاوہ علمائے متقدمین میں سے کسی ایک کا نام بتلا سکتے ہیں جس نے قبر سے مراد یہ زمینی گڑھا لینے کی بجائے آپ کی مزعومہ برزخی قبر لیا ہو/
ہم نے یہاں بخاری سے صرف ایک حدیث عذاب قبر سے متعلق درج کی ہے جبکہ دوسری کتبِ صحاح میں بھی ایسی صحیح روایات موجود ہیں۔ پھر ایسی صحیح روایات کے علی الرغم، ہم اس استثنائی صورت سے کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ اسی زمینی قبر میں فرشتے آتے ہیں تو میت کی روح واپس قبر میں لوٹائی جاتی ہے۔ اسی زمینی گڑھے میں فرشتے سوال و جواب کرتے ہیں، اور یہیں سے میت کو عذاب و ثوقاب شروع ہو جاتا ہے۔ ہم میت کے جسم سے اس کی روح کے اس استثنائی، کمزور اور غیر مستقل تعلق سے کیسے انکار کر سکتے ہیں جبکہ ہم اس دنیا میں خواب کی صورت میں اس سے ملتی جلتی باتیں مشاہدہ بھی کر لیتے ہیں اور یہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ قبر سے مراد یہ زمینی گڑھا ہے ہی نہیں؟ اسی طرح اس زمینی گڑھے میں ہونے والے سوال و جواب اور عذاب و ثواب سے قطعی انکار ہمارے لیے ناممکن ہے۔
"(قرع نعالهم)" کی عثمانی تشریح:
"(قرع نعالهم)" کی شرح میں آپ کو بخاری کے کسی شارح الزین بن المنیر کی شرح بہت پسند آئی ہے اور اس شرح کا اشفاق صاھب نے بھی اپنے خط میں ذکر فرمایا ہے۔ اور وہ شرح یہ ہے کہ "( نعالهم)" میں "ھم" کی ضمیر بعد میں آنے والے الفاظ "(أتاه ملكان)" کی طرف پھرتی ہے۔ اب اس تشریح پر کچھ اعتراض بھی وارد ہوتے ہیں۔ جن کے جواب بھی عثمانی صاحب نے دیے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو اعتراضات اور ان کے جوابات چونکہ علمی انداز کے ہیں، اس لیے ہم ان کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
اعتراض نمبر 1: "ھم" جمع کی ضمیر ہے۔ اگر اس سے مراد فرشتے ہوتے تو تثنیہ کی ضمیر "ھما" آنا چاہئے تھی۔
اس کا جواب عثمانی صاحب یہ دیتے ہیں کہ "عربی زبان میں دونون طریقے رائج ہیں۔ تثنیہ کے لیے جمع کا استعمال عام ہے۔ جیسے قرآن کی آیت ہے:
(قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ ( سورۃ شعرا15 ))
"فرمایا، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر۔ ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔"
"(فاذهبا)" میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور "(معكم)" میں جمع کی۔
اس طرح بخاری کی حدیثِ خضر میں یہ الفاظ ہیں:
(فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملو هما)
"پس گزری ان دونوں (موسی علیہ السلام و خضر علیہ السلام) کے پاس سے ایک کشتی، پس انہوں نے (جمع کا صیغہ) کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی میں سوار کر لیں۔" (بخاری عربی جلد 1 ص23، سطر 15،16)
"(فكلموهم)" کے ساتھ ساتھ "(فكلماهم)" بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر تین میں "(كلموهم)" کو ہی ترجیح دی گئی ہے جو تثنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔"
جواب:
عربی زبان میں تثنیہ کے لیے جمع کا صیغہ عام نہیں۔ اگر عام ہوتا تو گرائمر کی کتابوں میں اس کا ضرور ذکر پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ تثنیہ کی صورت میں جمع کا استعمال شاذ ہے اور اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مثلا:
پہلی مثال میں "کم" کی ضمیر "مع" وجہ سے آتی ہے۔ گویا فرعون کی طرف جانے والے تو صرف دو تھے مگر سننے والوں میں اللہ بھی ساتھ شامل ہو گیا ور ضمیر جمع بدل گئی۔ دوسری مثال میں ایک مقام پر "(كلموهم)" اس لیے آیا ہے کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کا ایک ساتھی (یوشع بن نون) بھی تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ لیکن قابل ذکر چونکہ دو ہی ہستیاں تھیں یعنی موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام، اس لیے اکثر تثنیہ کا ضمیر آیا اور ایک جگہ اشتباہ کی وجہ سے جمع کا ضمیر بھی آیا۔ اگرچہ اس کی حاشیہ میں تصحیح کر دی گئی۔
اعتراض نمبر 2:
"ھم" کی ضمیر اگر "(ملكان)" سے متعلق ہے تو یہ پہلے کیسے آ گئی؟ اس کا جواب عثمانی صاحب یوں دیتے ہیں کہ:
"عربی ادب کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر بات بالکل صاف ہو اور سننے والے سے غلطی کرنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پہلے اسم کا ذکر نہیں کیا جاتا جیسے قرآن میں ہے:
إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً (35) فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا(سورة الواقعه:35تا36)
"ہم نے ان کو (ان کی بیویوں کو) ایک خاص اٹھان سے اٹھایا ہے اور ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں۔"
سورۃ یس میں:
(وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ
"اور ہم نے اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کو شعر کی تعلیم نہیں دی۔"
جواب نمبر 1: پہلی مثال اس لحاظ سے غلط ہے کہ "( إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً)" سے چند آیات پہلے "(وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ(سورة الواقعه 22تا23)" کا ذکر آ چکا ہے۔ بعد میں جنت کی چند صفات بیان کر کے "( وَحُورٌ عِين أَنْشَأْنَاهُنَّ ٌ)" کی ضمیر "( وَحُورٌ عِينٌ کی طرف پھیری گئی ہے جو درست ہے۔ لیکن عثمانی صاحب اسے خواہ مخواہ "( أَبْكَارًا)" کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ لفظ بعد میں آیا ہے۔
جواب نمبر 2: مثال تو ایسی درکار تھی کہ ضمیر پہلے آئے اور اس کا مرجع اسم بعد میں ہو۔ پہلی مثال میں آپ نے بعد میں مرجع "( أَبْكَارًا)" جو بتلایا ہے وہ ویسے ہی غلط ہے اور دوسری مثال میں ضمیر کا مرجع اسم مذکور ہی نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب کا جواب درست کیسے سمجھا جائے؟
اب دیکھئے کہ "( قرع نعالهم)" کا مرجع "( أصحابه)" واضح طور پر جب موجود ہے تو "ھم" کا مرجع آخر "( ملكان)" کیوں قرار دیا جائے؟ لیکن ان سب باتوں کے باوجود آپ کو "الزین بن المنیر" کی تشریح اس لیے پسند آ گئی کہ یہ آپ کے نظریہ کی تائید کرتی تھی۔
سماعِ موتیٰ:
قرآن کی رو سے یہ ثابت ہے کہ مردے سن نہیں سکتے اور ہم خود بھی اسی بات کے قائل ہیں۔۔ پھر قرآن ہی کی رو سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس قانونِ الہی میں بھی استثناء موجود ہے اور وہ استثناء یہ ہے کہ "( إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ(سورة فاطر:22))" یعنی "اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا سکتا ہے"۔ اب اگر سماعِ موتیٰ کا یکسر انکار کر دیا جائے تو "اسماعِ موتیٰ" کا از خود انکار ہو گیا۔ گویا یہ مسئلہ صرف "سماعِ موتیٰ" کا نہیں بلکہ "سماعِ موتیٰ" کا بھی ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو سنا تو سکتا ہے مگر سنایا کبھی نہیں، تو یہ بات بھی یکسر غلط ہے۔ قلیبِ بدر کے مقتولین کو اللہ تعالیٰ نے سنا دیا تھا۔ عیسی علیہ السلام اللہ کے اذن سے مردوں کو "(قم)" کہتے تھے تو وہ مردے یہ حکم سن کر ہی جی اٹھتے اور اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ گو ایسے واقعات کا اندازہ معجزانہ ہی سہی، لیکن ان کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا۔ پھر چونکہ "اسماعِ موتیٰ" اور "سماعِ موتیٰ' دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ لہذا "سماعِ موتیٰ" بھی استثنائی صورتوں میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ گو عام قاعدہ یہی ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔
نظریہ "برزخی قبر" کو مان لینے کا فائدہ اور ضرورت:
عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ:
"دنیاوی قبر میں عذاب قبر کا اثبات "حیات فی القبر کے ہم معنی اور قبر پرستی کے شرک کی اصل اور بنیاد ہے۔" (عذابِ قبر ص26)
اب دیکھیے جہاں تک شرک کی اصل بنیاد کے استیصال کا تعلق ہے، ہم بدل و جان عثمانی صاحب کے ساتھ ہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ شرک کی اصل بنیاد اس دنیاوی قبر میں عذابِ قبر کا اثبات اور حیات فی القبر قرار دیتے ہیں جبکہ ہم شرک کی اصل بنیاد سماعِ موتیٰ کا علی الاطلاق وقوع قرار دیتے ہیں۔ اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
1۔ قبر میں زندگی اضطراری امور سے تعلق رکھتی ہے۔ دائمی اور مستقل ہرگز نہیں ہوتی۔
میت یا اس کی روح کا اس میں کچھ اختیار یا عمل دخل نہیں ہوتا۔
2۔ پھر یہ نامکمل سی زندگی بھی ایسی ہے جس کا صحیح فہم ہمارے عقل و حواس سے ماوراء ہے۔ کیونکہ وہ عالم اور ہے اور یہ عالم اور۔ لہذا ان کی یہ زندگی بے کار ہے۔ نہ ہم انہیں کچھ سنا، یا بتلا سکتے ہیں۔ نہ وہ ہماری بات سن سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ہمیں کچھ سنا، یا بتلا سکتے ہیں یا جواب دے سکتے ہیں۔ تو پھر ان کی زندگی کا ہمیں کیا فائدہ یا نقصان ہے؟ ان کی اس زندگی میں اللہ تعالیٰ یا اس کے حکم سے فرشتے ہی انہیں کچھ سنا، یا وہ ان سے کچھ سن سکتے ہیں یا سوال و جواب کر سکتے ہیں۔ گویا اصل مسئلہ جو شرک کی بنیاد بنتا ہے وہ سماع موتیٰ کا ہے نہ کہ دنیوی قبر میں عذاب اور حیات فی القبر ۔۔۔ لہذا ہماری گزارش ہے کہ آپ حضرات اپنی جملہ مساعی سماعِ موتیٰ کی تردید میں صرف کیجئے۔ ان شاءاللہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
حاشیہ
1. اس کی وضاحت میں اپنے مقالہ میں پیش کر چکا ہوں۔
2. گو ہم سماعِ موتیٰ کے مسئلہ میں ان سب حضرات سے کلی طور پر متفق نہیں۔ تاہم ہم ان کے لیے ایسے غلط قسم کے القابات کسی صورت پسند نہیں کرتے۔