جنوری 1985ء

غزل

آئینہ رو برو کیجئے
پھر کوئی نقد فرمائیے
اک ذرا سی خوشی کے لیے
کتنے غم ہم نے اپنا لیے
مہر سے کوئی شکوہ نہیں
ماہ نے جسم جھلسا دیے
راہزن بن گئے راہبر
کتنے شاعر ہیں بہروپئے
مجرمِ حق ہوں میں شہر میں
بخشئے یا سزا دیجئے
دیکھ کر ان کے در کی طرف
کیوں کوئی اور در دیکھئے
آپ تابش سے ہیں بدگماں
بندہ پرور ذرا سوچئے