اسلامی احکام و قوانین کی "تعبیر نو" کا مسئلہ

جب سے پاکستان میں اقامتِ دین کا موجودہ عمل ہوا ہے، اس وقت سے ہمارے چند دانشور ایک الجھن اور خلجان میں مبتلا ہیں۔ ان کی ذہنی پریشانی یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو اسلام سے محبت کرتے ہیں اور دوسری طرف معاصر فکر و فلسفہ سے بھی متاثر ہیں۔۔۔اسلام سے تعلقِ خاطر رکھنے کے باوجود عصرِ جدید کے نظریات و نطامہائے حیات اور مغربی تہذیب و تمدن سے ترک، تعلق آسان کام نہیں ہے۔ اور اسی کشمکش میں وہ آج کل اپنے آپ کو ایک دوراہے پر کھڑا پاتے ہیں۔۔۔اس مشکل مسئلہ کو حل کرنے کے لیے یہ حضرات قوم کو یہ نسخہ تجویز فرما رہے ہیں کہ اسلامی احکام اور قوانینِ شریعت کی "تعبیرِ نو" اس طرح کی جانی چاہئے کہ اسلام دورِ حاضر کے افکار و تصورات کے مطابق ہو جائے۔ اس مخلصانہ مشورے میں جس بنیادی بات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، وہ یہ ہے کہ عہدِ جدید کی سائنس اور ٹیکنالوجی سے تو ملک کی تعمیر و ترقی میں استفادہ کیا جا سکتا ہے، مگر رائج الوقت لادینی نظریات یا کوئی نظامِ حیات ایک اسلامی معاشرے کے لیے مستعار نہیں کیے جا سکتے۔ اس بنیادی اصول کے علی الرغم اسلامی احکام و قوانین کی "تعبیر نو" کی ضرورت پر جناب ارشاد احمد حقانی مسلسل روزنامہ "جنگ" میں لکھتے رہے ہیں۔۔۔وہ کبھی "روایتی اسلام" اور "اصلاحی اسلام" جیسی اصطلاحین پیش کر کے ان کا فرق سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کبھی وہ قارئین کو نسخہ اجتہاد یاد دلاتے ہیں۔ مگر شرائطِ اجتہاد نظر انداز کر جاتے ہیں۔ کبھی وہ خواتین کے سیاسی اور معاشرتی حقوق کی بات کرتے۔ کبھی نظمِ مملکت کے لیے مغربی طرزِ جمہوریت کی وکالت فرماتے ہیں اور کبھی عصری تقاضوں کے نام پر جسدِ اسلام میں "روحِ عصر' سمونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ موصوف کے سلسلہ مضامین میں ان کا حالیہ مضمون "اسلام کی معاشی تعلیمات کی فکر انگیز تشریح:" (جنگ کراچی 20/21 اگست 1984ء) احکامِ اسلام کی تعبیرِ نو کی تازہ کوشش ہے۔ جس میں ان کی فکر کا پورا نچوڑ موجود ہے۔ اس تازہ مضمون کے ابتدائیے میں وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

"اب یہ دورِ حاضر کے مسلمان مفکرین کا کام ہے کہ وہ احکامِ اسلامی کی اس تعبیر کو زیادہ اہمیت دیں جو معاصر فکری رویوں سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو۔ نجی ملکیت کا مسئلہ ہو، ملکیتِ زمین کا نظام ہو، سماجی انصاف کے تقاضے ہوں، سلطانی جمہور کے تصور کی اسلامی تعبیر مقصود ہو، سربراہِ مملکت یا حکومت کے اختیارات اور عوام کے حقوق کا مسئلہ ہو۔ عورت کے معاشرتی کردار، اس کی قانونی اور سیاسی حیثیت، اس کے حقوق و فرائض کی بحث ہو، تفریح اور فنونِ لطیفہ کے بارے میں اسلامی رویے کے تعین کا سوال در پیش ہو، ان تمام امور و مسائل میں احکامِ اسلام کی ایک سے زیادہ ممکن تعبیرات میں سے ترجیح اس تعبیر کو ملنی چاہئے جو دورِ جدید کے تصورات سے قریب تر ہو۔ ہمارے ہاں بعض لوگ دورِ جدید کے تصورات، جس کے لیے "روح عصر' کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، کی رعایت کا مشورہ دینے کو گمراہی، تجدد پسندی، معذرت خواہی اور مرعوبیت کا نام دیتے ہیں، لیکن تمام معاملات میں یہ رائے درست نہیں۔ یوں بھی "روحِ عصر' یا "عصری تقاضے" گمراہی کا نام نہیں۔ "عصری تقاضے" انسانی غور و فکر کے طویل عمل کا حاصل اور ثمر ہیں اور انسان بنیادی طور پر اصلاح اور تعمیر پسند ہے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت کے دائروں میں انسانی فکر جس مقام تک پہنچا ہے، ضرورئ نہیں کہ اس میں کجی اور گمراہی کے عناصر کا غلبہ ہو۔ ایسا سمجھنا فطرتِ انسانی کی بنیادی صحت مندی اور تعمیر پسندی سے انکار کے مترادف ہے۔" (جنگ 20 اگست 84ء)

فاضل مضمون نگار کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ ہر انسان یا انسانی فکر بنیادی طور پر اصلاح اور تعمیر پسند ہے، اس لیے احکامِ الہی کو "روحِ عصر' یعنی دورِ جدید کے انسانی نظریات و تصورات کے مطابق بنا دینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مفروضہ درست ہے کہ انسان اور انسانی فکر بنیادی طور پر صحت مند اور تعمیر پسند ہے؟ اس مفروجے کی تردید نہ صرف فطرتِ انسانی کرتی ہے بلکہ تاریخِ انسانی بھی کرتی ہے۔ اگر یہ مفروضہ درست ہوتا تو خالق انسان روزِ ازل سے ہی انسان کی ہدایت و رہنمائی کا انتظام نہ فرماتا۔ وہ اللہ کہ جس نے خود انسان کو پیدا کیا، قرآن مجید میں انسان کے متعلق یہ فرماتا ہے:

﴿ لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى أَحسَنِ تَقويمٍ ﴿٤﴾ ثُمَّ رَ‌دَدنـٰهُ أَسفَلَ سـٰفِلينَ ﴿٥﴾ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ فَلَهُم أَجرٌ‌ غَيرُ‌ مَمنونٍ ﴿٦﴾... سورةالتين

"ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا، پھر اس کو پست سے پست درجہ میں ڈال دیا، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور صالح عمل کرتے رہے۔ سو ان کے لیے دائمی صلہ ہے۔"

اس فرمانِ الہی سے ثابت ہوتا ہے کہ وحی الہی اور احکام الہی کو پشِ پشت ڈال کر انسان اور انسانی فکر ایک پست ترین چیز کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بے شک ہر نفس انسانی کی خلقت تو بہترین ساخت پر ہوتی ہے، مگر جب انسان اپنے آپ کو اپنے خالق سے بے نیاز بنا لیتا ہے تو اس پر انسانیت کی بجائے نفسانیت حاوی ہو جاتی ہے۔ عصرِ جدید کا انسان بھی اپنی نفسانیت کا غلام بنا بیٹھا ہے اور اپنی خلقت کی پاکیزگی کے باوجود اخلاقی پستی میں گرا ہوا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عصرِ حاضر کی فکری اساس اللہ سے بے نیازی ہی نہیں، بغاوت پر مبنی ہے؟ اس لیے موجودہ انسانی نظریات و تصورات اور بحیثیتِ مجموعی پوری "روحِ عصر" ایک بدروح کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔ایسی روحِ عصر کو اسلام کے پیکر میں ڈالنے کی تجویز آخر کہاں کی عقل مندی ہے؟ پھر یہ کہ پیکرِ اسلام کی تو اپنی ایک مخصوص روح ہے، جو قرآن کی زبان میں "امرِ رب" ہے۔ بھلا وہاں کسی اور روح کی گنجائش ہی کہاں ہے؟ اس سلسلہ میں ایک اور لطیف نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی تعبیر نو کرنے کے لیے محترم حقانی صاحب جس "روحِ عصر" یا لفظِ "عصر" پر سارا زور دے رہے ہیں، ٹھیک اسی لفظِ "عصر" کے عنوان سے قرآن مجید میں ایک پوری سورہ عصر موجود ہے، جو ان کی پیش کردہ تھیوری کی مکمل نفی کرتی ہے۔ اس سورہ عصر کے معنی و مطلب پر ذرا غور کیجئے جو یہ ہے:

﴿وَالعَصرِ‌ ﴿١﴾ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ﴿٣﴾... سورة العصر

"عصر کی قسم (یعنی زمانہ شاہد ہے) کہ انسان در حقیقت خسارے اور گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور صالح عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے رہے اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔"

اس سورہ قرآنی میں خود اللہ تعالیٰ، عصر یعنی زمانے کی ہی قسم کھا کر اسی زمانے کو بطورِ شہادت پیش فرماتے ہیں اور انسان کو صاف صاف بتا دیتے ہیں کہ الہی ہدایات و احکامات کو نہ ماننے والے خسارے میں تھے، خسارے میں ہیں اور خسارے میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس لحاظ سے عصرِ حاضر کا انسان، اس کی فکر اور روح عصر سب کے سب نقصان اور خسران سے دوچار ہیں۔ آج کا انسان گھاٹے پر گھاٹا اٹھا رہا ہے۔ لیکن اپنی غلط روش کے بدلنے کے لیے تیار نہیں۔

۔۔۔مثلا یہ کہ اللہ نے اسے علم و ہنر بخشا مگر وہ اس نعمت کو انسانیت کی تعمیر سے زیادہ تخریب پر استعمال کر رہا ہے۔۔اسے اللہ کی جانب سے ایسی صلاحتیوں سے نوازا گیا جس سے زندگی میں فوز و فلاح حاصل ہو سکے گی مگر وہ فتنہ و فساد بپا کیے ہوئے ہے۔۔۔اسے قوت و طاقت سے سرفراز کیا گیا تاکہ دنیا کو ظلم و زیادتی سے پاک رکھے مگر اب وہ خود ہی ظلم و ستم کا نشانِ مجسم بنا ہوا ہے۔۔۔اسے بھائی چارگی کا سبق دیا گیا مگر وہ ایک دوسرے کا استحصال کر رہا ہے۔۔۔اسے ضمیر عطا کیا گیا تاکہ وہ خیر اور شر میں تمیز کر کے بھلائیوں کو پروان چڑھائے اور برائیوں کو مٹائے مگر اس نے ضمیر کا گلا گھونت کر شر کو خیر پر اور برائی کو بھلائی پر غالب کر دیا۔ غرضیکہ انسان کو ودیعت تو انسانیت ہوئی مگر اس نے حیوانیت اختیار کر لی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب سائنس اور ٹیکنالوجی بھی آدمی کی خدمت کی بجائے اس کی ہلاکت کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور آج آدمیت، دنیا کی سپر پاورز کی درماندگی کی شکار ہے۔ مختصرا یہ ہے وہ خسارہ انسان، جس کا ذکر مذکورہ بالا سورہ عصر میں ہے۔۔۔ ایسی پُر خسارہ روحِ عصر کو اپنانا ایک گھاٹے کا سودا چکانا ہے اور ایسے نقصان دِہ سودے کا مشورہ دینا سادہ لوحی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بلاشبہ انسان کی پیدائش تو احسن سرشت و جبلت پر ہوئی ہے، لیکن اس کی پرورش اللہ کی ہدایات کی محتاج ہے۔ ہدایاتِ الہی سے بے نیازی ہو یا بغاوت، دونوں صورتوں میں وہ مقامِ انسانیت سے لڑھک کر نفسانیت اور حیوانیت کے گڑھے میں گِر جاتا ہے۔۔۔ ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو نظر یہ آتا ہے کہ جو حضرات، اسلام کو تعبیرِ نو کے ذریعہ معاصر افکار و نظریات کے مطابق بنانے پر اصرار کر رہے ہیں، وہ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ دو مختلف کشتیوں پر بیک وقت پیر رکھ کر سفر کرنے میں عافیت ہے۔ حالانکہ ایسے سفر میں عافیت نہیں ہلاکت مضمر ہے۔۔۔یہ ذہنی الجھاؤ اور اعصابی تناؤ دراصل دنیا کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر پیدا ہوتا ہے اور یہ ظاہری چمک دمک ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں، اور سراب کے فریب سے نکلنے کے لیے بس اتنا سمجھنا کافی ہے کہ انسان خودپسند بھی ہے اور خود گرض بھی، وہ خطاؤں کا پتلا بھی ہے اور خواہشوں کا مرکب بھی، لہذا اس کا بنایا ہوا کوئی بھی نظریہ یا نظام دوسرے تمام انسانوں کے لیے منصفانہ ہو سکتا ہے اور نہ متوازن۔۔۔ منصفناہ نظامِ زندگی تو صرف خالقِ انسان ہی بخش سکتا ہے اور یہ ہمارے پاس موجود ہے۔ جس میں کسی انسانی پیوندکاری کی ضرورت نہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس مکمل دستور حیات پر سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اور اسی ترتیب و تدریج1 کے ساتھ عمل کیا جائے تاکہ پاکستان میں اقامتِ دین کا عمل تکمیل پا سکے۔ اسلام کی تعبیرِ نو کے مسئلہ پر یہاں تک تو ہوئی اصولی گفتگو، اب مسئلہ کے دوسرے اہم پہلو کا ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔

سطورِ بالا کی روشنی میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جناب ارشاد حقانی صاحب، جن معاصر افکار و تصورات کو سیاست، معاشرت اور معیشت کے دائروں میں اسلامی مملکتِ پاکستان کے لیے باعث گمراہی نہیں بلکہ باعث رہنمائی بتا رہے ہیں، ان تصورات و نظریات سے دنیا فیض یاب ہوئی ہے یا صورت حال بالکل برعکس ہے؟ ان تینوں شعبوں کی کارگزاری بالترتیب یہ ہے۔

1۔ شعبہ سیاست:

دورِ جدید کے میدان سیاست میں جو انسانی فکر کار فرما ہے، وہ ہے انسان کی حاکمیت انسان پر، اور جس نے سلطانی جمہور کے لبادے میں چند زور آوروں کی فرعونیت قائم کر رکھی ہے۔ اس لئے اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جمہوریت کو قیصریت سے تعبیر کیا اور یہ شعر کہا کہ

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری


دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار امریکہ ہے۔ جہاں یہودی اقلیت صرف دو فیصد ہونے کے باوجود اٹھانوے فیصد اکثریت پر حاوی ہو کر پورے امریکہ کی سیاست و حکومت کو کنٹرول کرتی ہے۔ جمہوریت کی اس کرشمہ سازی کے علاوہ وہاں "کالوں" کا جو حالِ زار ہے اس سے بھی لادینی سیاست و جمہوریت کی قلعی کھل جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر امریکہ میں جمہوریت کا سارا سیاسی کھیل چند سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری اور حکمرانی کا کھیل ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت برطانیہ میں ہے جہاں سرتاجِ جمہوریت ایک "بادشاہت" ہے۔ وہاں عوام کا ایک "دارالعلوم" تو ہے مگر اس کے ساتھ "امراء" کا ایک "دارالامراء" بھی قائم ہے۔ جس میں امارت اور حسب و نسب کی بنیاد پر نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ ان مراعات یافتہ افراد کی رکنیت بھی ان کے وارثوں کو بطورِ وراثت منتقل کر دی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ جمہوری تماشہ (بقولِ اقبال رحمہ اللہ) یا جمہوری ڈرامہ جو برطانیہ کے اسٹیج پر برسہا برس سے چل رہا ہے۔ جمہوری نظریہ و نظام کے مقابل ایک استراکی نظریہ و نظامِ سیاست بھی ہے جو روس میں قائم ہے اور جو غریب نوازی کا سب سے بڑا دعویدار ہے، مگر وہ بدترین قسم کی آمریت و فسطائیت کا مظہر ہے۔۔۔وہاں کی سیاسی حکمرانی ایسی ہے جیسے کہ پورا ملک ایک جیل خانہ ہو، جہاں مٹھی بھر جیلر انسانوں کی کثیر تعداد کو جیل میں بند کر چکے ہوں۔ روس فی الواقع چند خرکاروں کا ملک بن چکا ہے اور یہ چند خرکار اپنے لیے بقیہ تمام انسانوں سے جبری محنت و خدمت کراتے ہی۔ اشتراکیت ہو یا جمہوریت، ہر جگہ چند گنے چنے طاقتور ہی سیاسی اقتدار پر قابض ہیں اور زیرِ دست تمام انسانوں کو اپنی مرضی کے مطابق جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہانکتے رہتے ہیں۔ کسی نظام میں بھی انسانی مساوات موجود نہیں، انسانی مساوات تو درکنار سرے سے احترامِ انسانیت کا ہی فقدان ہے۔ آدمی اور آدمیت کی یہ تحقیر و تذلیل اس وجہ سے ہے کہ ان سیاسی نظاموں میں حاکمیتِ الہی کی بجائے حاکمیتِ انسانی کا تصور کارفرما ہے اور پورا سیاسی عمل احکامِ الہی سے انکار یا فرار پر مبنی ہے۔ ایسے نطاموں کا کوئی ایک جزو یا پہلو بھی قابلِ تقلید نہیں، قابلِ نفرین ہے۔ اسلامی احکامِ سیاست و حکومت کے اصول و جزئیات یکسر مختلف ہیں۔ یہاں صرف ایک اللہ حاکمِ مطلق ہے اور تمام انسان اس کے بندے اور محکوم ہیں۔ لہذا قانون الہی سب کے لیے یکساں ہے۔ خواہ سر براہِ مملکت ہو یا سرِ راہ کوئی فرد، امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا اور خاندانی ہو یا عوامی۔ یعنی یہ کہ قانونِ الہی میں انسانوں کے درمیان نہ تفریق ہے اور نہ تقسیم، تمام لوگوں کے حقوق بالکل مساوی ہیں۔ قرآن کی رو سے ایک اسلامی معاشرے میں مکرم اور معزز صرف وہ لوگ ہیں جو متقی ہیں۔ اس لیے ایسے صاحبِ کردار افراد ہی کو کاروبار حکومت چلانے کی قیادت سونپی جا سکتی ہے۔ پھر قرآن نے ہی ایک اسلامی حکومت کے حدودِ اربعہ بھی متعین کر دیے ہیں۔ جہاں مادی و روحانی ہر بھلائی موجود ہے اور ہر برائی معدوم ہے۔ تفصیلات کا یہ موقع نہیں، بس اتنا اشارہ کافی ہے کہ اسلامی کی سیاسی تعلیمات کا مقصد، مزاج اور منتہا، سب کچھ بالکل منفرد اور مختلف ہے۔ اس سے ایک صالح اور جامع نظامِ سیاست وجود پاتا ہے جو دوسرے نظاموں کے برعکس شرفِ انسانیت کا حامل ہوتا ہے۔ لہذا ایسا منصفانہ ممتاز اور مکمل سیاسی نظام، دورِ جدید کے انسانیت سوز سیاسی نظاموں کی راہنمائی اور اصلاح کے لیے دے تو بہت کچھ سکتا ہے، ان سے لے کچھ نہیں سکتا۔ اس صورتِ حال میں یہ اسلامی نظامِ سیاست کی توہین ہو گی کہ اس کا جوں کا توں قائم کرنے کی بجائے اسے مروجہ نظاموں کی پست سطح پر لایا جائے۔

2۔ شعبہ معاشرت:

دورِ حاضر کے معاشرتی دائرے میں جو لادینی فلسفہ روبہ عمل ہے اس کی بنیاد ہے آزادی مرد و زن اور مساوات مرد و زن۔۔۔اس فکر و فلسفہ نے وہاں خاندانوں کے نظام کو بھی درہم برہم کیا ہوا ہے اور ان کے پورے معاشرے کو بھی تہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ معاشرہ نام ہے خاندانوں کے مجموعہ کا، اور خاندان نام ہے کم از کم دو افراد یعنی مرد اور عورت کے ربط و تعلق کا۔۔اور گھریلو ربط و تعلق جتنا متوازن ہو گا، خاندانی نظام اتنا ہی مستحکم ہو گا۔ جس کے نتیجہ میں پورا معاشرہ مضبوط بنیاد پر استوار ہو گا۔ شعبہ معاشرت کی شیرازہ بندی صرف اسی طرح ہوتی ہے، بصورتِ دیگر پورے معاشرے کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر معاشرے کا بنیادی یونٹ گھر یا گھرانہ ہوا۔

ہر گھر کی ضروریات دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک اندرونی اور دوسری بیرونی۔ اندرونی خانہ داری کی ضروریات میں رہنے سہنے کا انتظام، کھانے پینے کا انتظام اور بچوں کی پیدائش و پرورش کا بندوبست وغیرہ سب کچھ شامل ہیں۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسبِ معاش کی بیرونی ضرورت پیدا ہوتی ہے اور یہ دونوں قسم کی ضروریات الگ الگ کل وقتی توجہ چاہتی ہیں۔ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ تقسیم کار کی بنیاد پر ہر گھر کی دونوں ضروریات بہ طریقِ احسن پوری ہو سکیں، مرد کو ایسا بنایا کہ وہ روزی روزگار کے لیے محنت و مشقت برداشت کر سکے اور عورت کو ایسا بنایا کہ وہ گھر کا نظم و نسق سنبھال سکے۔ دوسرے الفاظ میں مرد اور عورت کے درمیان فرائض کی فطری تقسیم خاندانی اور معاشرتی زندگی کو پرسکون رکھتی ہے۔ اور یہ ہی چین و سکون تو معاصر تہذیب و تمدن میں عنقا ہے۔ جدید انسانی فکر نے نعرہ تو حقوقِ نسواں کا لگایا مگر عملا خواتین کے حقوق سلب کر لیے اور ان کے فرائض دگنا کر دیے۔ یعنی یہ کہ وہ گھر بھی سنبھالیں اور معاش بھی کمائیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ عورت پر اس ظلم و زیادتی کو نام مساواتِ مرد و زن اور حقوقِ نسواں کا دیا گیا ہے۔ اور اس ظلم پر مزید ظلم یہ ڈھایا گیا کہ مرد کے مقابلے میں عورت کے فرائض اور ذمہ داریاں تو دو چند کر دی گئیں لیکن اس کے حقوق میں کٹوتی کر کے اسے حقِ وراثت سے محروم کر دیا گیا خواہ وہ عورت اپنے کنبے کی واحد کفیل ہی کیوں نہ ہو۔ موجودہ زمانے کی یہ بے انصافی اور زیادتی دراصل اسی دورِ جاہلیت کی ایک علامت ہے جسے اسلام نے ایک زمانے میں مٹایا تھا اور آج بھی اس ظلم و زیادتی کا مداوا صرف اللہ کی تعلیمات میں ہے۔ اس لیے کہ اللہ صرف مردوں کا ہی خالق نہیں ہے وہ عورتوں کا بھی خالق ہے۔ لہذا معاشرتی عدل و انصاف کے لیے بھی صرف اور صرف اسی سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے احکام و قوانین کو بغیر کسی تعبیر نو کے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ اللہ نے مرد اور عورت کی طبعی خلقت اور جسمانی ساخت مختلف بنائی ہے، یرنی ایک کو طاقتور اور دوسرے کو نزم و نازل بنایا ہے۔ اس وجہ سے ان کی فطرت کے فرق کو عین مطابق دونوں کے الگ الگ دائرہ کار، فرائض اور حقوق متعین کیے ہیں۔ اسلام کے معاشرتی نظام میں مرد خاندان کا کفیل ہے اور عورت گھر کی منتظمہ، اور اس تقسیمِ کار کی وجہ سے دونوں کے فرائض بھی جداگانہ ہیں، بیرونِ خانہ کے تمام کام مرد کے ذمہ ہیں اور اندرونِ خانہ کے جملہ امور عورت کے ذمہ ہیں۔ ان فرائض اور ذمہ داریوں کے فرق میں ایک حکمت بھی مضمر ہے، اور وہ یہ کہ عورت اپنی خلقت، طبعی ساخت اور نسوانی ماہانہ کیفیت کی وجہ سے ہمیشہ یکساں اور نارمل نہیں رہتی۔ لہذا اس کو ان تمام معاملات و مسائل سے فارغ رکھا ہوا ہے۔ مثلا حصولِ معیشت، کاروبارِ حکومت اور جنگ و قتال میں شرکت وغیرہ۔ عورت کو خصوصی رعایات سے نوازنے میں ایک اور مصلحت بھی ہے، اور وہ یہ کہ اسے بیرون خانہ شیاطین کی ہوسناکیوں سے محفوظ رکھا جائے اور گھر کے حصار میں اس صنفِ نازک کو معزز مقام پر فائز کر دیا جائے۔ جہاں تک عورت کے حقوق کا سوال ہے، تو اسلامی معاشرت میں اسے وہ کچھ ملتا ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی نظریے اور نظام میں نہیں ہے۔ مثلا اس کا حقِ وراثت، خواہ وہ ماں ہو یا بیوی، بہن ہو یا بیٹی، علاوہ ازیں بحیثیت ماں کے اولاد پر اس کا حقِ خدمت باپ کے مقابلہ میں تین گنا ہے۔ کیا ایسے معیاری معاشرتی نظام میں کوئی رد و بدل جائز ہے؟

3۔ شعبہ معیشت:

اسلام کے سیاسی اور معاشرتی احکام کے علاوہ اسلام کے معاشی قوانین کی بھی تعبیر نو کرنے کے موقف کی تائید میں جناب ارشاد حقانی صاحب نے ایک ایسے کتابچے کا تفصیلی تعارف کرایا ہے جس کا مقصد پاکستان میں زیرِ نفاذ اسلامی معیشت کا قبلہ تبدیل کرنے کی تدبیر کرنا ہے۔ کتابچے کا نام "اسلامی معاشی اصلاحات کے اصول" اور اس کے چار مصنفین نواب حیدر نقوی، ڈاکٹر رفیق احمد، پروفیسر میاں نذیر اور ایچ یو بیگ ہیں۔ اس کتابچے کا لب لباب یہ ہے کہ سود کا خاتمہ اور زکوٰۃ و عشر کا نظام آج کل اتنا اہم نہیں ہے جتنا استحصال کا خاتمہ اور عدل و احسان کا قیام ہے۔ واضح رہے کہ یہ عجیب و غریب منطق وہ حضرات پیش فرما رہے ہیں جن کی اپنی تجاویز کی بنیاد پر ہی موجودہ اقدامات برائے خاتمہ سود اور قیامِ زکوٰۃ اور عشر کا تدریجی عمل جاری ہے۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ سمتبر 77ء میں صدر ضیاء الحق صاحب نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدایت کی کہ اسلامی معیشت کے نفاذ کے لیے ایک عملی خاکہ مرتب کیا جائے۔ نومبر 77ء میں نظریاتی کونسل نے 15 رکنی ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جس میں مذکورہ کتابچے کے پہلے تین مصنفین بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے 78ء کے اواخر میں ایک متفقہ عبوری رپورٹ تیار کر دی جس کی بنیاد پر نظریاتی کونسل نے ابتدائی سفارشات صدر ضیاء الحق صاحب کو پیش کر دیں۔ کمیٹی اور کونسل کی ان مشترکہ تجاویز کے مطابق جولائی 79ء میں صدارتی حکم کے ذریعہ غیر سودی معیشت کی ابتداء این آئی ٹی، ہاؤس بلڈ بنک فنانس کارپوریشن اور آئی سی پی جیسے مالیاتی اداروں سے ہو گئی اور پھر زکوٰۃ و عشر آردی نینس کا اجراء بھی ہو گیا۔ مذکورہ کمیٹی نے اپنی حتمی رپورٹ فروری 80ء میں تیار کر دی جس کی بنیاد پر نظریاتی کونسل نے ان تازہ تجاویز میں ان اگلے مراحل کا بھی خاکہ پیش کیا تھا، جن کے ذریعہ استحصالی نظامِ سود کو بتدریج ختم کر کے معاشی عدل و انصاف قائم کیا جا سکتا ہے۔ لہذا جنوری 81ء میں حکومت نے دوسرے مرحلہ پر شراکت و مضاربت یعنی نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر بینکوں کو غیر سودی کھاتے کھولنے کی ہدایت کر دی، اور اب حالیہ اعلان کے مطابق خاتمہ سود کا تیسرا مرحلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجہ میں جولائی 85ء سے پورا نظامِ بینکاری مکمل طور پر سود سے پاک ہو جائے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ معاشی استحصال اور سود کی لعنت سے نجات کے لیے اسلامی معشیت کا جو تدریجی عمل آج کل جاری ہے، وہ نظریاتی کونسل اور اس کمیٹی کا ہی تجویز کردہ ہے جس میں زیرِ بحث کتابچے کے تین مصنفین شامل تھے۔ حیرت ہے کہ یہ حضرات اس متفقہ رپورٹ سے اب منحرف ہو رہے ہیں۔ مزید تعجب یہ ہے کہ رپورٹ سے انحراف و اختلاف اس وقت کیا جا رہا ہے، جب کہ نظریاتی کونسل کی جانب سے یہ تاریخی اور مثالی دستاویز کتابی شکل میں شائر ہو کر پورے عالمِ اسلام سے یہ زبردست خراج، تحسین وصول کر رہی ہے۔ اور امر واقع بھی یہ ہے کہ اسلامی معیشت کی عملی صورت پر اس رپورٹ کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جہاں تک زیر نظر کتابچے کا تعلق ہے تو اس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کے مصنفین نظامِ سرمایہ داری کے استحصال کا علاج بالمثل چاہتے ہیں، حالانکہ اس عمل سے لازما ایک دوسرا استحصالی نظام یعنی نظامِ اشتراکیت جنم لیتا ہے۔ جو لوگ یہ تدبیر کر رہے ہیں کہ اسلام کے معاشی نظام کی تعبیر و تاویل عصرِ حاضر کے معاشی نظریات کے حوالے سے کی جائے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے دونوں معاشی نظام یعنی سرمایہ داری اور اشتراکیت دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہونے کی وجہ سے استحصالی ہیں، اور اسلام سے متصادم ہیں۔ سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت، دونوں نظام یہودی دماغ کی پیداوار ہیں، دونوں نظاموں میں انسان کی حیثیت ایک معاشی حیوان سے زیادہ نہیں، دونوں کے ہاں اخلاقی اقدار کی کوئی وقعت نہیں، دونوں جگہ حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں، دونوں جگہ سود کی کار فرمائی ہے اور دونوں ہی نظام ارتکاز دولت پر منتج ہوتے ہیں، لہذا دونوں نظاموں میں انسان کا معاشی استحصال جاری و ساری ہے، ان استحصالی معاشی نظاموں کے برخلاف معاشی احکامِ الہی ان تمام عیوب و مظالم کو مٹا دیتے ہیں جو انسان کے پیدا کردہ ہیں اور جن کا اجمالی ذکرابھی ہوا۔ مثال کے طور پر اسلام کا نظامِ معیشت اخلاقی اقدار کی کسوٹی مقرر کرتا ہے، حلال و حرام کی حدود متعین کرتا ہے، ارتکازِ دولت کی گردش دولت سے ختم کرتا ہے، سود کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھنکتا ہے، اور استحصال کا قلع قمع کر کے رکھ دیتا ہے۔ اور یوں معاشی حیوان کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے مقام پر فائز کر دیتا ہے۔ ایسے ہمہ گیر احکام و قوانین میں نہ ترمیم کا سوال ہے اور نہ تعبیر نو کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ معاملہ صرف حالاتِ حاضرہ میں اسلامی احکام و قوانین کے اطلاق و تطبیق کا ہے جو ماہرین شریعت و معیشت پہلے ہی طے کر چک ہیں اور انہی کے مطابق آج کل عمل درآمد جاری ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی نفاذِ اسلام کے لئے صرف اسی ایک اصول کی ضرورت ہے۔


حاشیہ

1. اگر یہاں "ترتیب و تدریج" سے مراد، "شریعت کا بتدریج نفاذ" ہے، تو یہ بات اس وقت درست تھی، جب ابتدائے اسلام میں ابھی مکمل شریعت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ جس قدر (اور جس صورت میں) احکام نازل ہو چکتے تھے، حاملینِ شریعت اسی قدر ان کے مکلف تھے۔ پھر مزید احکام کے نزول پر، یا سابقہ احکام کی منسوخی کے بعد ان کی بجائے نئے احکام کے نزول پر، ان کا نفاذ ہوتا تھا۔۔۔لیکن آج جبکہ آخری شریعت ہمارے پاس موجود ہے، اور یہ چودہ سو سال قبل مکمل ہو چکی ہے، ہم اس مکمل شریعت ہی کے مخاطب ہیں۔ لہذا اب "بتدریج نفاذ" کی بات درست نہ ہو گی۔ (ادارہ)