امام بخاری
تصانیف
امام صاحب کی تصانیف حسب ذیل ہیں:
1۔التاریخ الکبیر2۔التاریخ الاوسط3۔ التاریخ الصغیر4۔ الجماع الکبیر5۔خلق افعال العباد6۔ کتاب الضعفاء الصغیر7۔المسند الکبیر8۔التفسیر الکبیر9۔کتاب الہبہ 10۔ اسامی الصحابہ11۔کتاب الوحدان12۔کتاب المبسوط13۔کتاب العلل 14۔کتاب الکنی15۔کتاب الفوائد16۔الادب المفرد17۔جزء رفع الیدین 18۔برالولدین19۔کتاب الاشربہ20۔کتاب الاشربہ21۔قضایا الصحابہ والتابعین22۔کتاب الرقاق 23۔جزقران خلف الامام24۔کتاب المناقب 25-الجماع االصحیح۔
اب ان تصانیف کامختصر تذکرہ پیش خدمت ہے۔
التاریخ الکبیر:
یہ وہی تاریخ ہے جس کو امام بخاری نےاپنی عمر کےاٹھارہویں سال چاندنی راتوں میں جناب رسول اکرام ﷺ کی مسجد اور منبر کےردمیان بیٹھ کر لکھاتھا۔
اس کتاب کے متعلق حضرت امام فرماتے ہیں:
لاجى بحديث عن الصحابه والتابعين الاعرفت مولد اكثر هم وفاتهم ومساكنهم-
یعنی کوئی حدیث صحابہ وتابعین سے نہیں بیان کروں گا مگر اکثر راویوں کے وفات مسکن اورمولد سے واقف ہوں۔
اور آگے لکھتے ہیں:
مااسم فى التاريخ الا وله عندي قصة الا اني كه هت ان يطول الكتاب(مقدمہ فتح الباری طبقات الشافعیہ ص7ج6)
یعنی تاریخ میں کم نام ایسے ہیں جن کےحالات مجھے مفصل معلوم نہ ہوں لیکن طوالت کےخوف سے میں نےانہیں ترک کردیا۔
تاریخ الرجال میں بحثیت جامعیت کے یہ کتاب منفرد ہے۔
التاریح الکبیر دائرۃ المعارف حید رآباد دکن سن 260 ہجری میں طبع ہوکر شارئع ہوگئی ہے۔-( سیرۃ البخاری ص167)
2۔التاریخ الاوسط:
یہ کتاب جرح وتعدیل کے متلق ہے۔یہ کتاب ابھی تک غیر مطبوعہ ہے ۔ مشہور اہل حدیث عالم مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں کہ اس کا قلمی نسخہ دوسری جنگ تک جرمنی کےسرکاری کتب خانہ میں موجود تھا(سیرۃ البخاری ص167)
3۔التاریخ الصغیر
فن تاریخ میں امام صاحب کی یہ بھی ایک بے مثل تصنیف ہے ۔فن حدیث کوفن رجال کےساتھ وہی تعلق ہے جوروح کوجسد سے ہے۔اس لیے امام صاحب کواس ک ساتھ خاص شغف تھا۔اس تاریخ میں امام بخاری مشاہیر صحابہ وتابعین کے سن وفات ونسب ولقاء کا ذکر کرتے ہیں۔اوراکثر جرح وتعدیل کرتے ہیں۔چنانچہ عنوان تالیف سن ہی پررکھا ہے۔
شروع کتاب میں فرماتے ہیں:
من تاريخ النبىﷺ والمهاجرين والانصار وطبقات التابعين لهم باحسان من بعدهم ووفاتهم وبعض نسبهم وكناهم ومن يرغب عن حديثه بحوالہ سیرۃ البخاری ص168)
یعنی یہ ایک مختصر تاریخ ہے۔آن حضرت ﷺ اور مہاجرین وانصار طبقات تابعین اور ان کے بعد لوگوں کی اس کتاب میں ان کی وفات ان کے نسب ان کی کنیت وغیرہ اور جن سے حدیث لینے میں اعراض کیا گیا ہے اسب کابیان ہے۔
یہ کتاب مطبوعہ ہے۔
4۔الجمامع الکبیر:
اس کتاب کے بارے میں مفصل حالات معلوم نہیں ہوسکے ۔مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں اس کابھی قلمی نسخہ دارلعلوم جرمن میں دوسر جنگ عظیم سے پہلے موجود تھا(سیرۃ البخاری ص168)
5خلق افعال العباد:
یہ کتاب علم عقائد اور عقائد کےمتعلق ہے۔اس میں آپ نے اسی طرح فرق باطلہ کی تردید کی ہے ۔جس طرح صحابہ کرام وتابعین قرآن وحدیث کی روشنی میں کرتے تھے اور اس کےساتھ آپ نے اس کتاب میں آثار صحابہُ واقوال تابعین بھی درد کیے ہیں
یہ کتاب بھی مطبوعہ ہے(ایضا ص168)
6۔کتاب االضعفاء الصغیر
اس کتاب میں آپ نے ضعیف راویوں کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کیےہیں اور اس کےساتھ آپ نے وجہ تضعیف اورراوی کے تلمذ کابھی ذکر کیا ہے یہ کتاب بھی چھپ چکی ہے(ایضا)
7۔المسند الکبیر التفسیر الکبیر:
ان دونوں کتابوں کی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں کہ المسند الکبیر کا ایک قلمی نسخہ کتب خانہ دارلعلوم جرمن میں امام ابن تیمیہ کےہاتھ کالکھا ہوا دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا(ایضاص169)
9۔کتاب الہیہ:
اس کتاب سے متعلق محمدبن ابو حاتم بیان کرتےہیں:
والف كتابا فى الهية فيه نحو خمس مائة حديث وقال ليس في كتاب وكيع فى الهية الا حديثا ن مسندان او ثلثة فى كتاب ابن مبارك خمسة او نحوها(ایضا ص169)
یعنی امام بخاری نے ہبہ کے مسائل میں ایک کتاب لکھی تو اپنے باپ میں اس قدر جامع تھی کہ وکیع بن جراح اور عبداللہ بن مبارک کی کتاب سے اس کوکچھ نسبت نہیں۔وکیع کی کتاب الہیہ میں دویا تین حدیثیں مرفوع تھیں۔اور عبداللہ بن مبارک کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ طبع ہوئی یا نہیں؟
10۔اسامی الصحابہ:
اسماء الرجال پر امام صاحب کی یہ سب سے پہلی کتاب تھی اور اس کتاب کی تصنیف سے پہلے کوئی اورکتاب اسماء الرجال کے موضوع پر نہیں لکھی گئی۔جو بھی کتابیں اسماء الرجال پر لکھی گئی ہیں وہ سب بعد کی ہیں مثلا ابن عبدالبر اندلسی(م463ہجری) استعیاب۔ابن الاثیر الجزری (م230ہجری9 کی اسد الغابہ اور حافظ ابن حجر عسقلانی(م852ہجری) کی اصابہ فی تمیز الصحابہ۔
اس کتاب کابھی قلمی نسخہ درالعلوم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا(سیرۃ االبخاری ص169)
11۔کتاب الوحدان:
اس کتاب میں امام بخاری نے رواۃ صحابہ کاذکر کیا ہے جن سے صرف ایک ہی حدیث مروی ہے اور اس موضوع پر امام صاحب نے سب سے پہلے قلم اٹھایا۔ان سے پہلے اس موضوع پ کوئی تصنیف نہیں ملی۔ آپ کے دوتلامذہ امام مسلم(م261ہجری) اور امام نسائی م302) نےکتاب الوحدان کےنام سے کتابیں لکھیں ۔
امام مسلم اور امام نسائی کی کتاب الوحدان آگرہ سے طبع ہوکر شائع ہوچکی ہیں(ایضا ص170) امام صاحب کی کتاب الوحدان کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا یہ کتاب طبع ہوئی ہےیا نہیں؟
12۔کتاب المبسوط:
اس کتاب کا تعلق فقہ سے ہے اس میں شرح وبسط کےساتھ فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں اور ان کے مسائل کا احادیث سے استنباط کیا گیا ہے۔
اس کتاب کاقلمی نسخہ کتب خانہ دارلعلوم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا(ایضاص170)
13۔کتاب العلل :یہ معلل احادیث کےبارے میں ہے۔
14۔کتاب الکنی:
اس کتاب میں روایوں کے نام اور ان کی کنیتیں یک جاکردی گئی ہیں۔
15۔کتاب الفوائد:
اس کتاب کا ذکر آپ کےتلمیذ رشید امام ابو عیسیٰ ترمذی(م سن 279 ہجری) نےاپنی مشہور زمانہ جامع ترمذی میں کتاب المناقب کےتحت کیا ہے۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت امام کتاب الفوائد میں کسی قسم کے فوائد درج کیے ہیں؟
16۔الادب المفرد:
یہ وہ کتاب ہےجو نبی ﷺ کےآخلاق وآداب سکھاتی ہے حقیقۃ یہ ہے کہ اس کتاب کی بدولت انسان صحیح معنوں میں انسان بن جاتا ہے۔
یہ کتاب متعدد بار طبع ہوکر شائع ہوچکی ہے۔
اس کتاب کااردو ترجمہ توفیق الباری کےنام سے محی االسنہ والاجاہ حضرت مولانا سید نواب صدیث حسن خان قنوجی رئیس بھوپال (م سن 1307) شائع ہوچکا ہے(ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ص42) مگر نایاب ہےاب ہفت روزہ الاعتصام میں یہ ترجمہ جدید اردو میں ڈھال جبکہ حواشی وتعلیقات کااضافہ مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف کے قلم سے ہے۔
الادب المفرد کا ایک دوسرا ترجمہ مولاناعبدالغفار دہلوی مرحوم نےسلیقہ کےنام سے کیاتھا جوآگرہ سے طبع ہوکرشائع ہوا مگر اب تک نایاب ہے(سیرۃ البخاری ص171)
17۔جزءرفع الیدین:
رفع الیدین کےباپ میں بڑی جامع کتاب ہےاثبات رفع الیدین کےعلاوہ روایات عدم رفع پر بھی بخوبی تنقید کی ہے ۔یہ کتاب مطبوعہ ہے۔
18۔برالولدین:
یہ کتاب آداب کاموضوع لیے ہوئے ہے۔
19۔کتاب الاشربہ:
اس کتاب کاذکر امام دارقطنی (م سن 385 ہجری) نےاپنی کتاب الموتلف والمختلف میں کیا ہے۔
20۔قضایا الصحابہ والتابعین :
یہ کتاب امام الحدثین نےسن 212 ہجری میں تصنیف کی (سیرۃ البخاری ص172) اس کتاب کاموضوع اس کےنام سے ظاہر ہے مگر اس کتاب کےبارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ طبع ہوئی ہے یا نہیں؟
21۔کتاب الرقاق :
اس کتاب کاذکر صاحب کشف الظنون نے کیا ہے:
ان کےالفاظ یہ ہیں:
كتاب الرقاق للبخاري من كتب الحديث-( سيرة البخاري صفحه172)
22-الجامع الصغير فی الحدیث:
اس کتاب کےبارے میں مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپور لکھتے ہیں کہ اس قلمی نسخہ حافظ ابن حجر کےقلم سے کتب خانہ دارلعلوم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا(سيرة البخاري صفحه 173)
23۔جزء قراءت خلف الامام:
یہ امام بخاری کی مشہور تصنیف ہے۔اس کتاب میں قراءۃ خلف الامام کو بدلائل احادیث آثار ثابت کیا گیا ہے۔یہ رسالہ مصر سے طبع ہوکر شائع ہوچکا ہے(سيرة البخاري صفحه 173)
24۔کتاب المناقب:
اس کتاب کاموضوع نام سے ظاہر ہے یہ صحابہ کرام تابعین عظام کےمناقب میں ہے اس کےمتلق بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کتاب طبع ہوئی ہےیا نہیں؟
امام المحدثین کی تمام تصانیف ایک بہت بڑا علمی ذخیرہ ہیں جن پر اجمالی تبصرہ بھی ایک نہایت وسیع کام ہے۔ مختصرا حضرات امام کی یہ تصنیف سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
الجامع الصحیح کی مقبولیت اوراس کی رفعت شان:
امام صاحب کی تصنیفات میں الجامع الصیحح جوآج صحیح بخاری کےنام سے معروف ومشہور ہےاور دنیا کےتمام ان حصوں میں جہاں اسلامی اثر پہنچاہےخصوصیت کےساتھ قابل ذکر ہے۔آپ کی اسی الجمامع الصحیح بناء ہی مسلمانوں نے امام بخاری کوامام المحدثین اور امیر المومنین فی الحدیث کا لقب دیا ہے اور یہ رتبہ یہ فضیلت یہ شرف یہ امتیاز متقدمین سے لے کر متاخرین تک اسلام میں نہ کسی محدث کی تصنیف کو حاصل ہوا ہے نہ کسی فقیہہ اورامام کی تالیف کو آج اسلام میں کتاب اللہ کےبعد اور ان کون سی کتاب جس کے آگے کل اسلامی دنیا سر تسلیم خم کرتی ہے ؟
مدت تالیف:
امام صاحب نے الجامع الصحیح کو 16سال میں مکمل کیاجیساکہ امام صاحب خود بیان فرماتے ہیں:
صنفت كتاب الصيح قى ست عشرة سنة(وفيات الاعيان ج2 ص325)
اس ليے اس کاآغاز سن 217 ہجری میں ہوا ہوگا جب کہ اس وقت حضرت امام کی عمر صر23سال کی تھی۔
صحیح بخاری کی تالیف میں اہتمام:
صحیح بخاری کی کی تالیف میں امام صاحب نے16سال صرف کیے اور آپ فرماتے ہیں کہ:
میں نے الجامع الصحیح کو مسجد حرام میں تصنیف کیا ۔ہر حدیث درج کرنے سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ سےاستخارہ کرکے دورکعت نماز پٗڑھتا او رجب اس کی صحت پو پوری طرح انشراح ہوجاتا تھا اس وقت حدیث کوکتاب میں جگہ دیتاتھا۔(سیرۃ البخاری ص168)
اس اہتمام کی وجہ سے بعض لوگوں کاقول ہےکہہ امام بخاری نےگویا براہ راست نبی ﷺ سےسنا اورآپ نےیہ بھی بیان فرمایا کہ میں الجامع الصحیح کو اپنی نجاب کےلیے حجت بنایا ہے اورچھ لاکھ احادیث سے انتخاب کیا ہے(سیرۃ البخاری ص186)
امام صاحب نے ترجم کو نبی ﷺ کے روضہ مبارک اورمنبر شریف کےدرمیان مسودہ سےمبیضہ میں منتقل کیا ۔اورہر ترجمہ الباب کےلیے دورکعت نماز پڑھتے تھے۔
الجمامع الصحیح کی مقبولیت:
الجامع الصحیح کوجومقبولیت حاصل ہوئی اس کااحاطہ نہیں کیا جاسکتا۔حافظ ابن صلاح فرماتے ہیں کہ:
صحیح بخاری کی مرتبہ صحت اور کثرت فوائد کےلحاظ سے ممتاز ومقدم ہے
اور امام شاہ ولی اللہ دہلوی (م 1172ھحجری) فرماتے ہیں۔
جوشخص اس کتاب کی عظمت کاقائل نہ ہو وہ مبتدع ہے اور مسلمانوں کی راہ کےخلاف چلتا ہے(حجۃ البالغۃ ج1ص297)
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
صحیح بخاری کےپڑھنےسے قحط سالی دور ہوجاتی ہے اور قحط کےزمانہ میں اس کی برکت سے بارش کانزول ہوتا ہے(ارشاد الساری ج1ص29)
اور اس کی مقبولیت سے امام شاہ ولی اللہ دہلوی قسم کھا کر فرماتے ہیں:
صحیح بخاری کی جومقبولیت وشہرت حاصل ہوئی اس سے زیادہ کاتصور ہی نہیں کیا جاسکتا