طلوع اسلام کے تبصرہ کا جائزہ

ماہنامہ محدث بابت جنوری فروری1981ء میں '' جمہوریت یا اسلام'' کے عنوان سے ایک طویل مقالہ شائع ہوا تھا، جس پر ادارہ طلوعِ اسلام نے ماہنامہ '' طلوعِ اسلام'' اکتوبر 1981ء میں مبسوط تبصرہ شائع کیا ہے ۔ مقالہ مذکور کے عنوان ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ مغربی جمہوریت اور اسلام کا سیاسی نظام ایک دوسرے کی نقیض ہیں۔ لہذا ان میں سے کسی ایک ہی کو اختیار کیا جاسکتا ہے اور اسی بات کے اثبات میں بہت سے عقلی ونقلی دلائل پیش کیے گئے تھے۔ '' طلوعِ اسلام'' نے اس نظریہ کی تائید یا تردید میں تو کچھ لکھا نہیں، البتہ مقالہ مذکور کی بعض عبارتوں سے اپنے مخصوص عقائدو نطریات کشید کرنے کی کوشش کی ہے جس میں مغالطے بھی ہیں اور مغالطہ آفرینیاں بھی۔لہذا اپنے صحیح مفہوم اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے ہمیں یہ مقالہ سپردِ قلم کرنا پڑا جو متعدد اور مختلف مضامین پر مشتمل ہے اور اس میں صرف اسی حد تک تعرض کیا گیا ہے جتنی جواب کے لیے ضرورت تھی۔

فرقہ پرستی


اسلام کےمذہبی فرقوں کے عقائد ونظریات کامختصر جائزہ

شیعہ اور اہلسنت والجماعت : حضور اکرم ﷺ نےجو امت واحد چھوڑی اس کےسب مسلمان ہی کہلاتے تھے ۔پہلا اختلاف جس نےمسلمانوں میں تفرقہ پیداکیا سیاسی نوعیت کاتھا

یہ لوگ شیعان علی کے نام سے موسوم ہوئے جس کامطلب ہے علی کےمددگار ۔ان کامقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان کوخلافت سے معزول کرکے حضرت علی کو خلیفہ بنایا جائے35ہجری میں جب مدینہ سے اکثر صحابہ حج پر گئے ہوئے تھے اس مفسدہ پرواز عنصر نےحضرت عثمان کوشہید کردیا اور عامیانہ دباؤ کےتحت حضرت علی کوخلیفہ منتخب کرلیا بعد میں یہی لوگ حضرت علی سے چمٹے رہے اورجنگ جمل کوبھڑکانے کاسبب بنے ۔اس طرح عبداللہ بن سبا کواپنے مشن میں بہت حد تک کامیابی ہوگئی۔

بعد میں یہی لوگ ایک مستقل فرقہ بن گئے جواب صرف شیعہ کہلاتے تھے مابعد کےادوار میں ان میں مزید بہت سے فرقے پیدااہوگئے ۔ انہوں نےاپنےعقائد میں بھی مزید شدت پیدا کرلی ۔مثلا:

1۔تین صحابہ کےسوا باقی سب حضور ﷺ کی وفات کےبعد منافق ہوگئے تھے۔

2۔اصل قرآن چالیس پاروں پر مشتمل تھا۔موجود ہ قرآن کریم مکمل نہیں ہے۔قرآن کریم کااصل نسخہ حضرت علی کےپاس تھا پھر یہ حضرت حسن کےپاس مستقل ہوا پھر حضرت حسین کےپاس ۔علی ہذا للقیاس ایک امام سےدوسرے کے پاس ہوتا ہوا بارہویں امام مہدی کے پاس ہےجو بچپن ہی میں غار میں چھپ گئے ہیں وہ آج تک زندہ ہیں اورقیامت کےقریب اس قرآن کے ساتھ ظہور فرمائیں گے۔

3۔شیعہ کے ایک غالی فرقہ عقیدہ یہ بھی ہےکہ خدا تعالیٰ علی کےجسم میں حلول کرگیا تھا اورحضرت علی میں خدائی صفات پیدا ہوگئی تھیں۔

4 ان لوگوں نےسنت کو شرعی حجت توتسلیم کیا لیکن صرف دوروایت قبول کرتے تھےجو ان کے کسی امام سے مروی ہو۔اس طرح انہوں نےاحادیث کی اپنی الگ کتابیں تیار کرلیں... وغیرہ وغیرہ۔

یہ لوگ بھی چونکہ اپنے آپ کومسلمان ہی کہلاتے او رسمجھتے تھے۔لہذا باقی مسلمانوں نے امتیاز کی خاظر اپنا نام تجویز کرلیا اوروہ تھا اہل السنت والجماعت یعنی صحابہ کی جماعت سےمنسلک رہنے والے اور رسول اللہ کی سنت پر کار بند رہنےوالے لوگ ۔ان لوگوں نے اپنے عقائد ونظریات میں کوئی کمی بیشی نہیں کی ۔تاہم محض امتیاز کی خاطر انہیں اپنا نام تبدیل کرنا پڑا۔ اور دونوں فرقوں میں مسلمان کاثانوی حیثیت اختیار کرگیا۔اہل سنت والجماعۃ کوشیعہ حضرت نے نے سنی کانام دیا ۔

عقلیت پرست فرقے

جہمیہ:

امت میں دوسرا اختلاف عقل وفکر کی بنیاد پر ہوا۔ اس فتنہ کاآغاز دوسری صدی ہجری کی ابتدا سے ہوا۔صفوان بن جہم نامی ایک شخص نےارسطو کےفلسفہ الہیات سے متاثر ہوکر خدا کےمتعلق تجریدی تصور پیش کیا ۔ یہ اور اس کےہمنوا لوگ جہمیہ کےنام سے موسوم ہوئے۔ان کےمخصوص عقائد درج ذیل تھے۔

1۔ خدا کےمتعلق جہت مقرر کرنے کووہ کفر سمجھتے تھے اورآیت ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ میں استوی کاترجمہ اسولیٰ سے کرتے تھے۔ ایسی تماآیات جس میں اللہ تعالیٰ کےہاتھ آنکھ یا پنڈلی کاذکر ہےان کی من مانی تاویل کرلیتے تھے۔

2۔تقدیر کےمسئلہ میں وہ انسان کےمجبور محض ہونے کےقائل تھے۔اور جن آیتوں میں انسان کو مختار بتلایاگیا ہے ۔ ا ن کی من مانی تاویل کرلیتے تھے۔

3۔قرآن کی من مانی تاویل کرنے کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ احادیث تھیں۔لہذا جو احادیث ان کےمسلک کےخلاف تھیں ان کوساقط الاعتبار قرادےکر انکار کر دیتے تھے۔

4۔ وہ وحی پر عقل کےتفوق اور برتری کے قائل تھے۔گوزبانی طور پر ان کادعوی یہی تھا کہ عقل کو وحی کےتابع ہوکر چلنا چاہیے لیکن ہستی باری تعالیٰ میں ان کاتصور اور قرآن کی من مانی تاویلات ہی اس بات کی کافی دلیل ہے کہ وہ عقل پرست تھے۔

معتزلین:

اسی دور میں ایک اور شخص واصل بن عطا نامی کاظہور ہوا جس نے فلسفہ یونان سےمتاثر ہوکر جہمیہ سےملتےجلتے عقائد پیش کیے۔واصل بن عطاء اور اس کےپیر وفرقہ معتزلہ کےنام سے مشہور ہوئے۔جہمیہ اور معتزلہ خدا کےمتعلق تجریدی تصور بالکل الٹ روشن اختیا رکی۔وہ انسان کومجبور محض بجائے مختار مطلق سمجھتے تھے لہذا:

تقدیر سےمتعلق جوآیات جہمیہ کےنزدیک قابل تاویل تھیں وہی آیات معتزلہ کےنزدیک اپنے ظاہری معانی میں بالکل درست تھیں اورجو آیات جہمیہ کےنزدیک اپنے ظاہری معانی میں درست تھیں وہ آیات معتزلہ کےنزدیک قابل تاویل تھیں۔

2۔اسی طرح جن احادیث میں انسان کومختار بتایاگیا ہےجہمیہ ان کوساقط الاعتبار قرار دیتے تھے جبکہ معتزلہ کےنزدیک وہی صحیح اور درست تھیں۔ اورجن احادیث میں انسان کومجبور بتلایا گیا ہے جہمیہ کے نزدیک وہ درست اورمعتزلہ کےنزدیک ساقط الاعتبار تھیں۔

ان دونوں فرقوں میں سےمعتزلہ ہی تاریخ میں زیادہ مشہور ہوا کیونکہ اسےعباسی خلفاء کی سرپرستی حاصل ہوگئی ۔مامون الرشید خود معتزلی تھا۔مسئلہ خلق قرآن اسی کےدور کی پیداوار ہے۔معتزلہ چونکہ خدا کی صفات کوبھی حادث سمجھتے تھے۔لہذا ان کےہاں قرآن بھی مخلوق تھا۔مامون الرشید جیسا روا ر انسان اس مسئلہ میں اتنا شدید تھا کہ وہ قرآن کواللہ کی طرح قدیم سمجھنے والوں کومشرک اورگردن زدنی سمجھتا تھا۔معتزلیں کو تاریخ میں یاعقل پرست فرقہ کےنام سے یاد کیاجاتا ہے۔

اب ان عقل پرستوں کےمقابلہ میں جو لوگ آئے وہ علمائے ظاہر کےنام سے موسوم ہوئے یہ لوگ کہتے تھے کہ اگر قرآن میں خدا کےعرش پر ہونے یا اس کےہاتھ آنکھ اور پنڈلی کاذکر ہے تو ہمیں جوں کاتوں تسلیم کرلینا چاہیے ۔اب رہایہ سوال کہ اللہ

کامادی جسم اس کےہاتھ کان آنکھ اورپنڈلی کیسے ہوسکتی ہے تو وہ کہتے تھے کہ ہم یہ جاننے کے مکلف نہیں۔کیونکہ خدا نےخود ہی کہہ دیا کہ لیس کمثلہ شی......... اور نیز یہ بھی فرمادیا کہ:فلاتضربو اللہ الامثال۔

ان علمائے ظاہر میں امام احمد بن حنبل﷫ کانام بالخصوص قابل ذکر ہےجنھوں نےاس مسئلہ خلق قرآن کےسلسلہ میں مامون الرشید کےہاتھں قید وبند کی سختیاں بھی جھیلیں اور کوڑوں کی پٹائی بھی برادشت کی مگر پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دی۔مامون کےبعد مستعصم باللہ کےدور میں اس مسئلہ پر مناظرہ کےدوران خلیفہ کے آنکھیں کھل گئیں۔اس نےعقید اعتزال سےتوبہ کی اورامام موصوف کوبہ اعزازوتکریم سے قید سے رہا کردیا۔چونکہ معتزلہ کےعقائد اسلام کےمزاج سےلگا نہیں لگاتے تھے۔لہذا سرکاری سرپرستی کاسہارا ختم ہوتے ہیں یہ فتنہ اپنی موت آپ ہی مرگیا۔

سرسید احمد خان اور ان کاپیرو:

اس عقیدہ کےفتنہ کاآغاز ہندوستان میں انچھویں صدی عیسوی میں ہوا جس کے سرخیل سرسید احمد خان تھے۔ اس دور میں دنیا میں ہرجگہ کامسلمان ذہنی معاشی سیاسی غرض ہر لحاظ سے بری طر ح پٹ چکا تھا۔ مغربی تہذیب کادنیا بھر میں دور دوررہ تھا جو خالص مادہ پرستی بر مبنی تھی۔اہل مغرب کسی ایسی بات کوماننے کےلیے تیار نہ تھے جو عقل تجربہ اور سائنس کی کسوٹی پر پوری نہ اترتی ہو۔سرسید موصوف نےیورپ میں رہ کر ہی تعلیم حاصل کی جس کےاثر یہ ہواکہ آپ نے معتزلہ ک عقائد کی ہمنوائی کےعلاوہ اس فکر قرآنی میں درج ذیل باتوں کااضافہ کردیا:

1۔انبیاء کےمعجزات سے انکار کردیا اور ایسی تمام آیات کی من مانی تاویلات پیش کیں جومضمکہ خیز بھی ہیں اور محیر العقول بھی!

2۔ فرشتے جن اور شیطان یا ابلیس کی علیحدہ شخصیت سے انکار کردیا کیونکہ یہ سائنسی معیار پر پوری نہیں اتر ئیں۔فرشتوں سےمراد کائناتی قوتیں جنوں سے مراد دیہاتی لوگ شیطان یا ابلیس سے مراد انسان کےاندرونی سرکش جذبات تھے۔

سید موصوف ڈارون کےہمعصر تھے اور اس کےنظریہ ارتقاء سے سخت متاثر تھےجس کےنتیجہ میں انہوں نے:

3۔آدم کوکوئی خاص فرد ابو البشر یاپہلانبی ماننے سے انکار کردیا اورکہا کہ آدم سے مراد بنی نو ع انسان کانمائندہ ہے۔

4۔ قصہ ابلیس وآدم میں جنت سےمراد اس کی بلوغت سے پہلے کی زندگی اور شجر ممنوعہ سے مراد اس کےجنسی جذبات ((ان جملہ صفات کا تفصیلی جائزہ ہم ایک الگ مقالہ میں پیش کررہے ہیں۔))ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔

اب ظاہر ہے کہ اتنے مسائل میں امت کے مسلمہ عقائد ونظریات سے اختلاف کرنے پر سرسید موصوف کو قرآن کی بے شمار آیات کی تاویلات کرنے کی ضرورت پیش آنی چاہیے تھی۔ لہذا آپ نے ایک الگ تفسیر قرآن لکھ کر اپنے ان نظریات کی اشاعت کی۔

قرآنی آیات کی...... تاویل کےبعد دوسری بڑی ضرورت احادیث کو راستہ سے ہٹانے کی پیش آتی ہے ۔ چنانچہ سید موصوف نےہر اس حدیث کوساقط الاعتبار قرار دے دیا جو ان کے نظریات وعقائد کےآڑے آتی تھی۔

سرسید کے بعد کچھ ایسے لوگ منظر عام پر آئے جنہوں نےاحادیث کو حجت دینی تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا۔یہ لوگ اپنے آپ کو اہل قرآن کہلاتے تھے ان سرخیل عبداللہ چکڑالوں تھے۔لہذا دوسرے مسلمانوں نے انہیں چکڑالوی کے نام سے موسوم کیا۔چونکہ احادیث ہی قرآن کےاحکام کا عملی نمونہ پیش کرتی ہیں اس نمونہ کوسامنے سے ہٹانے کےبعد لوگ تشتت وانتشار کاشکار ہوکر کئی فرقوں میں بٹ گئے ان کے اختلاف اصولی قسم کےتھے ۔مثلا ایک ہماز ہی کو لیجئے۔کچھ لوگ دن میں دونمازیں پڑھتے تو کچھ تین۔کوئی ایک رکعت نماز پڑھتے کوئی دورکعت کچھ ایک سجدہ پر اکتفا کرتے تھے تو کچھ دوسجدے ضروری سمجھتے تھے ۔کچھ سلام پھیر کر نماز ختم کرتے تھے تو کچھ ایسے اٹھ بیٹھتے تھے۔پھریہ بھی طے نہ پاسکا کہ نماز میں پڑھایا کیاجائے؟ اس قسم کےاصولی اختلاف ہر موجود تھے۔اس تشتت وانتشار کانتیجہ یہ ہواکہ یہ فرقے اپنی موجودگی کےباوجود اپنی اہمیت کھوبیٹھے ہیں انہیں کالعدم ہی سمجھنا چاہیے۔

ادارہ طلوع اسلام:

آج کامتعتزلین اور سرسید کی مسند پر ادارہ طلوع اسلام براجماع ہے جس نےاہل قرآن کے تجربہ سے فائدہ اٹھاکر احادیث سے کلی طور تو انکار نہیں کیا۔تاہم احادیث کےمختلف پہلوؤں پر بحث کرکے احادیث کے مجموعہ کوساقط الاعتبار قراردینےکے لیے اپنا ایڑی چوٹی کازور صرف کر صرف کردیا ہے اس کا دعوے تویہ ہے کہ احادیث کےخلاف ہوں یا سیرت رسول ﷺ اور صحابہ کوداغدار کریں وہ ناقابل اعتبار ہیں ۔لیکن قرآن بھی تو ان کااپنا ہے۔ادارہ مذکورہ نے تین ... جلدوں میں مفہوم القرآن لکھ کر سارے قرآن کےمفہوم کویکسر بدل ڈالا ہے۔بھلا جوادارہ قرآن کوموم کی ناک سمجھ کر اس کےساتھ یہ کچھ کرسکتا ہے وہ احادیث کوجس طر مانتا ہوگا اس کااندازہ آپ خود ہی لگاسکتے ہیں۔

ادارہ طلوع اسلام کومعتزلیں کےعقائد ونظریات سے بھی اور سرسید احمد کےنظریات سے بھی مکمل طور پر اتفاق ہے۔علاوہ ازیں اس نےاس فکر قرآنی میں مندرجہ ذیل باتوں کااضافہ کیا ہے:

1۔معاشی لحاظ سے اس نےقرآنی نظام ربوبیت کاتصور پیش کیا ہے جوعملی طور پر کمیونزم کامکمل چربہ ہے اور انفرادی ملکیت کاناجائز قرار دیتا ہے۔تاہم نظریاتی لحاظ سے کمیونزم کےنظریہ سے اختلاف کیا ہے۔

2۔سیاسی لحاظ سے اس نےمرکز ملت کاتصور پیش کیا اورکہا ہے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت ہی اللہ اور اس رسول کی اطاعت ہے۔گویاحکمران کو لامحدور اختیار دیے ہیں بلکہ وقت حکمراں ہی رسول ہے۔

3۔تاریخی لحاظ سے اس نے سرسید کےشروع کئے ہوئے کام یعنی ڈارون کی تھیوری کوپروان چڑھایا ہےگویا وہ وحدت انسان کےبجائے وحدت حیات کاقائل ہےاور بنی نوس انسان کا سلسلہ نسب اس کائی کےذرہ سے ملاتا ہےجس میں آج 2۔ارب سال پیشتر زندگی کاآغاز ہوا۔

4۔معاشرے لحاظ سے اس مغرب کےنعرہ مساوات مروزن سے مرعوب ہوکر عورت کو زندگی کےہرمیدان میں مرد کے برابر قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

5۔علاوہ ازیں اس نےبعض ایسے حقائق کابھی انکار کیا ہے جن پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے اور جن کے اشارات توقرآن کریم میں ملتے ہیں مگر تفصیل احادیث میں مذکورہے۔مثلا عذاب قبر حج کےعلاوہ قربانی اور وصیت کی تحدید وغیرہ۔

اور ان سب مسائل کوقرآن سےثابت کرنےکے لیے مذکور کولغات القرآن مفہوم القرآن مطالب القرآن وغیرہ شائع کرنا پڑیں تاکہ اپنےانداز فکر کوقرآن میں سمو یا جاسکے۔

فقہی مذہب اورتقلید

امت مسلمہ میں تیسرا بڑا اختلاف فقہی بنیادوں پر ہوا ۔اس اختلاف کاآغاز سن 120 ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کےمسند درس پر ممتکن ہونے کےوقت سےلے کر امام احمدبن حنبل کی وفات سن 241ہجری) تک ہے۔اس دور میں چار مشہور فقیہہ پیدا ہوئے۔یعنی امام مالک امام ابوحنیفہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔

ان چاروں ائمہ میں سے امام مالک اور امام احمد بن حنبل زیادہ تر احادیث کاسہار لیتے اور حتی والوسع قیاس سے گریز کرتے تھے۔ پھر یہ حضرات ضرورت کےبغیر قیاس نہ کرنے کےقائل بھی تھے۔امام شافعی﷫ نےدرمیانہ روش اختیار کی وہ قیاس سےاستفادہ میں مبالغہ نہ کرتے تھے۔البتہ امام ابوحنیفہ ﷫ دوسرے اماموں کےمقابلے میں قیاس سے زیادہ کام لیتے تھے۔امام رازی ﷫ فرماتے ہیں۔

قیاس امام ابو حنیفہ کا اوڑھنابچھونا تھا اورکثرت قیاس کی وجہ سے آپ مخالفین کاہدف ملامت بنے رہے۔(حیات ابوحنیفہ ص102 بحوالہ مناقب امام شافعی للرازی)

سن 120ہجری سے لے کر سنہ150(تاریخ وفات)تک تیس سال کے عرصہ میں آپ نے 60ہزار اور بقول بعض 38ہزار قانونی مسائل کے جواب دیے جو ان کی زندگی میں ہی الگ الگ عنوانات کےتحت مرتب کیے گئے(المکی جلد1ص86) اور اس طرح انہوں نےاس عظیم خلا کو پر کردیا جوخلافت راشدہ کے بعد شورٰی کےختم ہوجانے سے اسلام کےقانون نظام میں واقع ہوچکا تھا۔آپ نے غیر سرکاری مجلس واضع قانون بنائی تھی۔ اس میں صرف پیش آمدہ مسائل ہی زیر بحث نہیں آتے تھے بلکہ معاملہ کی امکانی صورتین فرض کرکے ان پر بحث کی جاتی اور اس کاحل تلاش کیا جاتا تھا۔

حکومت وقت کوکسی ایسی فقہی تدوین کی ضرورت تھی۔چنانچہ امام مالک ﷫ سےالتجا کی گئی کہ ان کی کتاب مؤطا کوملک کاقانون قراددیا جائے۔لیکن امام موصوف نےاس سے انکار کردیا ۔مزید برآں مؤطا نہایت مختصر کتاب تھی جو شائد ایک صدی سے زیادہ عرصہ کےقانون خلا کو پر کرنے کے تقاضے بھی پورے نہ کرسکتی۔لہذا مملکت عباسیہ نےاس طرف رجوع کیا اور فقہ حنفی ملک کاسرکار ی قانون بن گیا۔

امام موصوف کو حکومت نےعہدہ قضا قبول کرنے کی بھی دعوت دی جسے آپ نےقبول نہیں کیا لیکن آپ کےشاگرد رشید امام ابو یوسف ﷫ نےآپ کی وفات سے 12سال بعد یہ عہدہ قبول کرلیا۔جس اثریہ ہواکہ فقہ حنفی ملکی قانون بننےکے علاوہ نسبتا زیادہ مقبول ہوگئی۔عدالتوں میں قاضی بھی عموما وہی رکھے جاتے تھے جو اس سلسلہ سےمنسلک ہوجاتے تھے۔

اس دور تک عام مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ کسی خاص امام یا فقہ کی طرف نسبت کرناپسند نہ کرتے تھے بلکہ کسی مسئلہ میں جس فقہ میں سہولت دیکھتے اسی کواختیار کرلیتے۔فقہ حنفی کےعدالتوں میں رائج ہونے کےبعد حکومت نےیہ قانون بنادیا کہ ہر شخص کوکسی ایک ہی فقہ کاپابند ہوناچاہیے۔البتہ اسے اختیار ہے کہ جس فقہ کووہ چاہے وہ پسند کرے۔

تقلید شخصی:

حکومت کی اس روش نےفرقہ وازانہ روش کوہوادی ۔پھر جس طرح سیاسی حالات کی بناء پر حنفی مذہب دوسرے مذاہب سے زیادہ مقبول ہوگیا اسی نسبت سےاس میں عصبیت بھی زیادہ آگئی۔حنفی لوگ زبانی طور پر دوسروں کو برحق کہتے لیکن عمدا اور اعتقاد ا اس سےانکار کرتے تھے۔چنانچہ کسی متعصب حنفی نےیہاں تک بھی کہہ دیا کہ

فلعنه ربنا اعداد رهل
على من رد قول ابى حنيفة


یعنی جوشخص امام ابو حنیفہ کےقول کو رد کرے اس پر ہمارے رب کی ریت کے ذروں کے برابر لعنتیں ہوں۔

ان کو دیکھا دیکھی دوسرے مسلمانوں نےبھی اپنی پسند کے اماموں کی طرف نسبت کرنا شروع کردی اور حنفی مالکی شافعی اورحنبلی کےناموں سے موسوم ہونے لگے۔تاہم سب ایک دوسرے کوبرحق مسلمان اور اہل سنت والجماعۃ ہی سمجھتے تھے۔اب ان سب فرقوں میں عصبیت پیدا ہوئی اوراپنے اپنے اماموں کی تقلید شروع ہوگئی۔تقلید کی تعریف انہی مقلد کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:

والتقليد قبول قول غير بلاد دليل فكانه جعله قلادة فى عنقه

تقليد کسی کے قول کوبلادلیل قبول کرلینے کانام ہے ۔گویا کہ مقلد نے اپنی گردن میں اس کی اطاعت کاپٹہ ڈال لیا ۔

ظاہر ہےکہ یہاں دلیل سے مراد قرآن سنت اور اجماع صحابہ ہی ہوسکتے ہیں

اس تعریف سے واضح ہے کہ ایسے مقلدین ذہنی طور پر اپنےامام کو امام نہیں بلکہ پیغمبر سمجھتے ہیں

کیونکہ پیغمبر ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کی ہر بات بلاددلیل قبول کی جانی چاہیے ۔پیغمبر کےعلاوہ کوئی ہستی مبرا عن الخطاء نہیں ہوتی۔

پھر ایک ایسا بھی دور آیا اور تقلید کی عصبیت یہاں تک آگے بڑھی کہ ہر مسلمان کےلیے ضروری سمجھا جاتا تھا کہ وہ کسی نہ کسی امام کامقلد ہو۔پانچویں صدری ہجری تک یہ عقیدہ اتناراسخ ہوگیا تھا کہ جوشخص کسی مخصوص امام کامقلد نہ ہوتا اسے بطور گالی یہ کہا جاتا تھاکہ یہ چاروں مذاہب سے باہر ہے۔گویا کہ اس کا اسلام ہی مشکوک قرار پاتا تھا۔

اہل حدیث کےنام کاآغاز:

یہ تو ہم بتلاچکے ہیں کہ دوسرے اماموں کے مقابلہ میں امام ابو حنیفہ ﷫ نےقیاس دیتے تھے۔امام صاحب جیسے متقی اور دیانتدارشخص کے متعلق یہ بات سوچنی بھی بہت بڑی زیادتی ہوگی آپ خود فرمایا کرتےتھے:

اذا صح الحديث فهو مذهبى

جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے:

نیز فرمایا:

اتركو قول بخير رسول الله ﷺ

اگر حضور اکرم ﷺ کی حدیث مل جائے تو میرے قول کوچھوڑ دو۔

آپ نے بعض احادیث کوقبول کرنے میں بے اعتنائی برتی تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ بعینہ یہی وہ دور تھا جب کہ بہت سے جھوٹے راویوں نے بے شمار احادیث گھڑ کر پھیلادی تھیں اور ایسی وضعی احادیث کی تعداد صحیح احادیث سے بہت زیادہ تھی جو اس بات کی قطعی دلیل تھی کہ امت مسلمہ حدیث کوشرعی حجت قرار دیتی اور قرآن کے بعد اسے دوسرے درجہ پر سمجھتی تھی۔

فقہی دور کےبعد تیسری صدی کےآغاز میں محدثین کاایک گروہ آگے بڑھا۔جس کے سرخیل امام بخاری ﷫ اور ان کےبعد ان کے شاگرد رشید امام مسلم ﷫ تھے۔ان بزگوں نےامام مالک اور امام حنبل ﷫ کےکاک کوآگا بڑھایا اور اپنی پوری زندگیا ں احادیث کی تحقیق وتدقیق اور چھان بھٹک میں صرف کے کے احادیث کے ایسے مجموعے تیار کیے جن پر امت مسلمہ رہتی دنیا تک فخر کرتی رہے گی۔ان بزرگوں نے احادیث کے صرف متون ہی پیش نہیں کیے بلکہ سلسلہ اسناد کا بھی پوران ذکر کیا تاکہ تحقیق وتدقیق کا عمل آنئدہ کےلیے وضعی روایات کاکا سلسلہ ختم ہوگیا۔یہ سب بزرگ جنھوں نےحدیث کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اصحاب حدیث یا اہل الحدیث کہلائے۔

اسی دور میں جبکہ اکثر مسلمان اپنے آپ کو کسی نہ کسی امام کی طرف منسوب کررہے تھے۔ایک جماعت ایسی بھی تھی جو نہ توتقلید کاجزوسمجھتی تھی اور نہ اپنے آپ کو کسی امام کی طرف نسبت دینا پسند کرتی تھی۔یہ لوگ براہ راست کتاب وسنت اور اجماع صحابہ سے استفادہ کرتے تھے اور جس امام کا اجتہاد قرآن وحدیث یا اجماع کےقریب ہوتا اسے قبول کرلیتے تھے ۔یہ جماعت اہل حدیث کےنام سے موسوم ہوئی۔یہ دراصل وہی اہل سنت والجماعۃ تھی جوابتدائے اسلام سے چلی آرہی تھی۔چونکہ اس نے عقائد ونظریات میں تقلید کے اضافہ کوگوار نہیں کیا اس لیے امتیاز کی بناء پر اہل حدیث کےنئے نام سے مشہور ہوئی۔

مقلد اور غیر مقلد:

اب مقلدین حضرات نے تقلیدی امتیاز کو برقرار رکھنے کے خاطر اس جماعت اہل حدیث کانیا نام غیر مقلد تجویز کیا جو ان کے خیال کےمطابق ایک طرح کی گالی اور اسلام کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔

سرسید احمد خان اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ ج9شمارہ5صفحہ128اہل حدیث کےمتعلق اپنی تحقیق ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

دوسری صدی ہجری میں جبکہ اسلام کی نسبت علماء کے خیالات قلمبند ہوئے اور اس کےچار فرقے قائم کیے گئے ۔یعنی حنفی شافعی مالکی اورحنبلی۔ اورکچھ مسلمانوں کے نام اس مضمون کاجاری کیا کہ وہ ان چار فرقوں میں سے کسی ایک فرقہ کےتمام مسئلوں کو قبول کرلیں۔چنانچہ اس کےبعد جو لوگ اس کےخلاف کرتے تھے ان کو سزادی جاتی تھی۔ اس جبری حکم کےبعد آزاد نہ رائے کا اظہار مسدد ہوگیا اور مذہبی دست اندازی کابڑا زور شور ہوا۔مگر اس وقت بھی بہت سے ایسے آدمی تھے جواصلی مذہب کےپابند تھے اور ایسے لوگ اس زمانہ میں اہل حدیث کہلاتے تھے جو حضرت رسول اللہﷺ کے قول کےمعتقد تھے اور مندرجہ بالا چاروں فرقوں کے مسئلوں کےپابند نہ تھے۔

پانچویں صدی ہجری میں تقلید کی گرفت کسی حدتک مضبوط ہوچکی تھی۔ کے قول کے معتقد تھے اور مندرجہ بالا چاروں فرقوں کے مسئلوں کےپابند نہ تھے۔

پانچویں صدی ہجری میں تقلید کی گرفت کسی حدتک مضبوط ہوچکی تھی۔ اس کانقشہ پروفیسر سلیمان اظہر بحوالہ تاریخ فرشتہ(محد قاسم فرشتہ م (2115ہجری) میں سیرت محمد بن عبدالوہاب کےمقدمہ میں یوں کھنچتے ہیں عربی سے چند لوگ آشنا تھے اور انہوں نےجاہل عوام کوبھیڑوں کا گلہ بنائے رکھنے کےلیے عربی میں موجود اسلام امور اجارہ داری قائم کررکھی تھی۔ملکی زبان میں نہ کتاب وسنت کے تراجم تھےنہ شروحات ۔لوگ کبھی کبھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھےلیکن اس میں کیا لکھا ہے؟ اس سے وہ سراسر ناآشنا تھے۔تقلید وجمود کی بندش اس قدر مضبوط ہوچکی تھے کہ ایک مناظرہ میں خواجہ نظام الدین اولیاء نےجب اپنی تائید میں ایک روایت بطور استدلال پیش کی توہندوستان کے سب سے بڑے فقیہ خواجہ رکن الدین صاحب نےکہا میں بھی مقلد ہوں اورآپ بھی مقلد ہیں اس لیے حدیث کی کیاضرورت ہے؟

امام ابو حنیفہ کا قول پیش فرمائیے۔

ظاہر ہے کہ ایسا عقیدہ اہل حدیث حضرات کو کسی قیمت پر گوار نہیں ۔سوچنے کی بات ہے کہ صحابہ اور تابعین﷫ آخر کس امام کے مقلد تھے؟ کیانعوذ باللہ ان کادین نامکمل تھا؟

بریلوی اور وہابی:

ہندوستان میں زیادہ تر حنفی مسلمان ہی آکر آباد ہوئے۔یا تھوڑی تعداد میں اہل حدیث مالکی شافعی یا حنبلی مسلمان نہایت قلیل تعداد میں ملتے ہیں۔چودھویں صدی ہجری کےآغاز میں یہاں حنفی مذہب مزید تفرقہ سے دوچار ہوا۔سید احمد رضا خان بریلوی (م1340ھ) نے عشق رسول ﷺ کےپردے میں چند نئے عقائد کااضافہ کیا جودرج ذیل ہیں:

1: جس طرح اللہ تعالیٰ حاضر ناظر ہےاسی طرح حضور اکرمﷺ بھی حاضر ناظر ہیں۔

2۔جس طرح اللہ تعالیٰ کومکمل طور پر غیب کاعلم ہےاسی طرح حضور کو بھی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کاعلم ذاتی ہے اور آپ ﷺ کاعطائی۔

3۔حضور اکرمﷺ بشر نہیں تھے بلکہ نور تھے۔

4۔نیز یہ اہل قبور پکارنے والے کی پکار سننے اور اس کی حاجت روائی کی استطاعت رکھتے ہیں۔چونکہ امام ابو حنیفہ ایسے مشرکانہ عقائد کےسخت خلاف دشمن تھے۔لہذا سید صاحب نے مذکور نے واضح الفاظ میں اعلان کردیا کہ وہ صرف فقہی مسائل کی حدتک امام ابوحنیفہ ﷫ کےمقلد ہیں عقائد میں ان کے مقلد کے پھیچے لگ گئے وہ بریلوی کہلائے ۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہی بریلوی حضرات اپنے آپ کوتو اہل سنت والجماعت سمجھتے ہیں اور اپنےسید صاحب کو امام اہل سنت کہتے ہیں ۔ اوردیوبندی حضرات اور اہل حدیث حضرات کو جوان نئے عقائد تسلیم نہیں کرتے وہابی کہہ دیتے ہیں جوایک طرح گالی ہے ۔وہابی کالفظ ہندوستان میں پہلے انگریز نے اسمعیل شہید ﷫ کی تحریک جہاد میں شامل ہونےوالوں کےلیے استعمال کیا۔بعد میں بریلویوں نے اس لفظ کو اپنے مخالفین کےلیے استعمال کیا ۔ اسی دور میں ہندوستان میں ایک فرقہ کی نمود ہوئی۔مرزا غلام احمد قادیانی نےنبوت کادعوٰی کہتے ہیں۔جبکہ وہ خود اپنے آپ کوفرقہ احمدیہ کےنام سےمنسوب کرتے ہیں۔یہ فرقہ غیر مسلم اقلیت قراردیا جاچکا ہے۔لہذا اس کی مزید تفصیل کی ضرورت نہیں۔

فرقوں کےنام اور وجہ تسمیہ:

جب کسی جماعت سے ایک فرقہ الگ ہوجاتا ہے تواپنےمخصوص عقائد کی بناء پر باتو وہ خود اپنا نام تجویز کرلیتا ہے یا پھر جماعت اس کانام الگ تجویز کردیتی ہے تاکہ امتیاز قائم ہوجائے بعینہ اس امتیاز کوقائم رکھنے کے لیے بقایا جماعت کوبھی اپنا نام بدلنا پڑتا ہے ۔یا نیافرقہ اس کاکوئی الک نام تجویز کردیتا ہے۔بس نام تبدیل کی یہی چار صورتیں ممکن ہیں۔ان کی مثالیں دیکھیے!

1۔ابتدا امت مسلمہ کا ہر فرد مسلمان کہلاتا تھا۔اس جماعت سےایک فرقہ مخصوص عقائد ونظریات کی بناء پر الگ ہوا۔ وہ خود تواپنے آپ کوشیعان علی کہتا تھا لیکن جماعت نےاس کوصرف شیعہ کانام دیا ۔اب باقی جماعت کےعقائد ونظریات میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔تاہم امتیاز کی خاطر اس نے اپنا نام مسلمان کی بجائے اہل سنت والجماعۃ رکھ لیا۔جبکہ شیعہ حضرات انہیں سنی کہتے ہیں۔

اسی طرح غلام احمد قادیانی کافرقہ الگ ہواتو جماعت نےاس فرقہ کومرزائی کانام دیا۔جبکہ وہ خود اپنے آپ کواحمدی کہتے ہیں اور باقی مسلمان کو غیر احمدی۔

سید احمد رضاخان کے پیروکار اپنے آپ کواہل سنت والجماعۃ ہی کہتے ہیں لیکن دوسرے((لفظ وہابی کااطلاق دیوبندیوں حنفیوں پر بھی ہوتا ہے۔لہذا امتیاز کی خاطر انہیں گلابی وہابی کہہ دیتے ہیں)) مسلمان انہیں بریلوی کہتے ہیں۔اوریہ حضرات دوسرے کویعنی دیوبند حنفی اور اہل حدیث دونوں کوجن میں قدر مشترک مسئلہ توحید ہے- وہابی کہہ دیتے ہیں۔

6۔جو فرقے تعداد میں اقل قلیل ہوتے ہیں انہی کانام بدلتا ہےجماعت کانام نہیں بدلتا یہ نیا فرقہ بعض دفعہ اپنا نام خود تجویز کرتا ہےاور بعض دفعہ جماعت اس کام نام رکھ دیتی ہے۔ عقل پرست فرقے بھی اسی قسم میں شامل ہیں تاہم خود تجویز کرتا ہے اور بعض دفعہ جماعت اس کانام رکھ دیتی ہے۔عقل پرست فرقے بھی اسی قسم میں شامل ہیں ۔تاہم خود اپنا علیحدہ نام پسند نہیں کرتے ۔مثلا مولوی عبداللہ کے پیروکار الگ ہوئےتو انہوں نے اپنا نام اہل قرآن رکھا جبکہ عام مسلمان انہیں چکڑالوی کہتے ہیں۔

معتزلیں اپنے مخصوص عقائد کی بناء پر الگ ہوئے تو انہوں نےاپنانام خود دکچھ نہیں رکھا بلکہ جماعت نے انہیں معتزلیں کانام دیا ۔یہی صورت ادارہ طلوع اسلام کےپیروکاروں کی ہے۔وہ خود اپنے آپ کو الگ فرقہ بھی تسلیم کرنے سےانکار کرتےہیں ۔تاہم چونکہ وہ بھی اپنے مخصوص عقائد ونظریات رکھتے ہیں۔لہذاا عام مسلمان انہیں پرویزی کہتتے ہیں۔

3۔جیساکہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔بعض دفعہ مخصوص عقائد ونظریات نہ رکھنے کے باوجود بھی محض امتیاز کی خاطر جماعت اپنا نام بدل لیتی ہے۔گویا یہ بات بھی مستحسن نہیں تاہم ایک ضرورت ہے۔شیعہ الگ ہوئے توباقی جماعت طریق سابق پر بدستور قائم رہنے کے باوجود اہل سنت والجماعۃ کہلائی معتزلیں الگ ہوئے توان کے مقابلے میں جولوگ آئے علمائے ظاہر کہلائے۔ اہل الرائے کاچرچا ہوا۔ تو یہی جماعت اہل حدیث کہلائی۔فقہی مذاہب اور تقلید کاچرچا ہوا تو ہی جماعت اہل حدیث یا غیر مقلد کہلائی ۔اور ہندوستان میں بریلویت کازور ہواتو یہی جماعت وہابی کہلائی۔ حالانکہ ان کے عقائد نظریات میں بحمداللہ آج تک کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوئی ہے۔

مختلف فرقوں میں سنت کامقام:

ادارہ طلوع اسلام کے پیروکاروں یا اہل قرآن کے سوا امت مسلمہ کےتمام فرقے سنت کو اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔سابقہ ادوار میں گوبعض فرقے بعض احادیث کاانکار بھی کرتے رہے تاویلات بھی کرتے رہے اور ساقط الاعتبار قراردینے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔تاہم کسی کوسنت اس جائز مقام سے گرانے کی جرات نہیں ہوئی۔وجہ یہ ہے کہ اگر رسول اللہﷺ کااسوہ حسنہ جس کابڑا ماخذیہی مجموعہ احادیث ہے........ ہی آنکھوں سے اوجھل کردیا جائے تو قرآن بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ مثلا یہی معلوم نہ ہوسکے گا کہ ارکان اسلام نماز زکوۃ روزہ حج کی ادائیگی کیونکر کی جائے تو امت میں کسی طرح کی بھی وحدت کا قائم رہنا ممکن ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی قرآن کریم حفاظت کی ذمہ داری بھی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے کیونکہ صرف قرآنی الفاظ کی ذمہ داری تو کچھ معنی نہیں رکھتی ۔جبتک اس کا مفہوم بھی متعین نہ ہو۔ انہی وجوہ کی بناء پر سنت کواسلامی قانون کادوسرا ماخذ تسلیم کیاجاتا ہے۔البتہ سنت کی تعبیر میں مختلف فرقوں میں کچھ فرق ہے:

شیعہ حضرات تو صرف ان ان روایات کوتسلیم کرلیے ہیں۔باقی تمام فرقوں کےمجموعہ ہائے حدیث متفق علیہ ہیں۔ اہل حدیث حضرات تو ان میں کسی قسم کی تاویل گوار نہیں کرتے۔فقہی مذاہب میں سے امام ابو حنیفہ﷫ نے سب سے زیادہ قیاس سے کام لیا ہے۔چنانچہ ایک سوسے کچھ زائد مسائل میں آپ کےاقوال او راحادیث میں تضاد پایا جاتا ہے۔گو امام صاحب موصوف ﷫ نے یہ فرمادیاتھا کہ اگر حدیث مل جائے تو میرے قول کوچھوڑ نے کی بجائے ایسی احادیث کی یاتو تاویل کرلی یا انہیں اسناد کی جرح تعدیل کی سان پر چڑھا کر اسے ضعیف قرار دے دیا اور بریلوی حضرات کوتو اپنے مخصوص عقائد ونظریات کی بناء پر ایسی تاویل وتعیبر کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔

ان سب باتوں کےباوجود ہم بلاخوف تردید یہ بات کہ سکتے ہیں کہ سنت کوجائز مقام پر کررکھنے کی وجہ سے تقریبا 90فیصد مسائل میں امت میں یگانگت پائی جاتی ہے اور یہ یگانت الخصوص اصولی مسائل میں ہے۔