حضرت حنظلہ بن عامر انصاری

غسیل الملائکہ
(1)


راس المنافقین عبداللہ بن ابی کابہنوئی ابو عامر اگرچہ ایک زاہد مرتاض تھا اور اس نے حق کی تلاش میں گوشہ عزلت اختیار کرلیا تھا۔لیکن جب خورشید اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اورمدینہ منورہ کےدرددیواار سید المرسلین ﷺ کی طلعت اقدس سے جگمگائے تو ابو عامر کی عقل پر پتھر پڑگئے اور اس نےاسلام اورداعی اسلام ﷺ کی دشمنی کواپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ۔خدا کی شان اسی ابو عامر کےفرزند کواللہ تعالیٰ نے نور بصیرت عطا کیا اور اس نے کسی تامل کےبغیر دعوت حق پر لبیک کہا اوررحمت عالم ﷺ کی جاں نثاروں میں شامل ہوگیا۔جب اس کےباپ کی اسلام دشمنی اور شرانگیز ی انتہا کی پہنچ گئی تواس کی غیرت ایمانی کو تاب ضبط نہ رہی ۔ایک دن بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہ اگر اجازت ہوتو اپنے باپ کا سراتار لاؤں۔

رحمت عالم ﷺ نےفرمایا نہیں ہم ان سے براسلوک نہیں کریں گے

ابی عامر کایہ سعادت مند فرزند جو اللہ او ر اللہ کےرسول ﷺ کی خاطر اپنےدشمن حق باپ کا قصہ پاک کرنے پر تیار ہوگئے تھےحضرت حنظلہ تھے جوتاریخ میں تقی اور غسیل الملائکہ کے القاب سےمشہور ہیں

(2)


حضرت حنظلہ کاتعلق اوس خاندان عمر بن عوف سےتھا۔سلسلہ نسب یہ ہے حنظلہ بن ابی عامر عمروبن صیفی بن مالک بن امیہ بن ضبیعہ بن زید بن عوف بن عوف بن مالک بن اوس۔

حنظلہ کا والد ابی عامر قبیلے کانہایت معزز اورباثر شخص تھا۔وہ توریت وانجیل کا عالم اور بعثت پیغمبر ﷺآخرالزمان کاقائل تھا اور اکثر دین حنیف کاذکر کرتا رہتا تھا۔ایسے ہی خیالات نے اس کورہبانیت کی طرف مائل کیا اوروہ ٹاٹ کالباس پہن کر کنج عزلت میں بیٹھ گیا اوردن رات ریاضت میں مشغول رہنے لگا۔زمانہ جاہلیت میں اہل مدینہ کے نزدیک وہ ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت رکھتا تھا او روہ اس کو راہب کےلقب سے پکارتےتھے۔اس راہب کی بدبختی دیکھیے کہ جب سن 11ہجری بعد بعثت میں مدینہ میں اسلام کی دعوت کاچرچا ہواتو اس نےنورحق کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں اور اسلام کےبارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا۔سرور عالم ﷺ نےہجرت کےبعد مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا توابو عامر حضور ﷺ پر ایمان لانے کی بجائے آپ ﷺ سے سخت حسد کرنے لگا۔ اس نےلوگون کواسلام سے برگشتہ کرنے اور حضور ﷺ کےخلاف بھڑکانےمیں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔خدا کی شان اسی بدبخت کےفرزند کو اللہ تعالیٰ نےشرف ایمان سےبہرہ ورکیا اور ایسی حرارت ایمانی عطا کی کہ وہ اپنے باپ کو قتل کرنے پر تل گئے۔لیکن رحمت ﷺ نے اس کی اس کی اجازت نہ دی۔ابو عامر جوش حسد میں مدینہ کی سکونت ترک کرکے مکہ چلاگیا اور غزوہ احد میں مشرکین کے ساتھ مل کر اہل حق سے لڑنے آیا ۔اس کی ہی حق دشمنی تھی جس کی بنا پر حضور ﷺ نے اس کےلیے فاسق کالقب تجویز فرمایا ۔اس کے بعد وہ پھر مکہ واپس چلاگیا۔سن 8 ہحری میں مکہ پر پرچم اسلام بلند ہوا تو وہ ہرقل شاہ روم کے پاس قسطنطیہ چلاگیا اور وہیں سن 9ہجری سا 10ہجری میں مرگیا کہا جاتا ہے کہ ہرقل نےاس کامترکہ کنانہ بن عبدیالیل ثقفی کودے دیا۔

(3)


حضرت حنظلہ نہایت مخلص مسلمان تھے اور بارگاہ رسالت سے تقی کاخطاب پایا تھا۔ غزوہ بد میں کسی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔غزوہ احد کے بیوی کے پاس خلوت میں تھے کہ منادی کی آواز سنی جو مسلمانوں کو جہا د کےلیے پکاررہاتھا۔اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے غسل کا خیال ہی نہ رہا اورمسلح ہوکر میدان جنگ میں جاپہنچے۔اس وقت لڑائی شروع ہوچکی تھی۔جاتے ہی ان کاسامنا ابو سفیان سپہ سالار قریش سے ہوگیا۔ انہوں نے ابو سفیان کےگھوڑے کےپاؤں کاٹ ڈالے او ران کو اپنی تلوار کی زد میں لے لیا کہ شداد بن اسو لیثی نے آگے بڑھ کر حنظلہ پرتلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ شہید ہو کر فرش خاک پر گرپڑے۔

لڑائی بعد سرور عالم ﷺ نے میدان جنگ کی طرف نظر کرکے فرمایا حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔

حضرت ابو اسیدی ساعدی سے روایت ہے کہ میں حضور کاارشاد سن کر حنظلہ کی نعش کےقریب گیا تو دیکھا کہ ان سر سے پانی ٹپک رہا ہے میں الٹے پاؤں حضور ﷺ نے حضرت حنظلہ کی اہلیہ کے پاس کسی کو بھیج کر دریافت فرمایا کہ حنظلہ کس حال میں جہاد کے لیے روانہ ہوئےتھے ؟ انہوں نےبتایا کہ ان کو غسل کی حاجت تھی۔ حضور نے فرمایا اس لیے اس کو فرشتے غسل دے رہے تھے۔ اسی دن سے وہ غسیل الملائکہ کے لقب سے مشہور ہوگئے۔

حضرت حنظلہ نے اپنے پیچھے ایک ہفت سالہ فرزند چھوڑا۔ جن کانام عبداللہ تھا۔انہوں نے واقعہ حرہ سن 23 ہجری میں اپنےبیٹوں کے ہمراہ شہادت پائی۔

قبیلہ اوس کے لیے حضرت حنظلہ کی شخصیت ہمیشہ وجہ افتخار بن گئی۔بعض اہل سیر نےلکھا ہے کہ ایک مرتبہ اوس وخزرج اپنےاپنے فضائل فخریہ بیان کررہےتھے۔ فریقین نےاس موقع پر اپنے جلیل القدر اصحاب کو پیش کیا تھا۔اوس نےاپنے اصحاب کانام لیا ان میں حضرت حنظلہ کانام سرفہرست تھا