قرآن میں ملت کاتصور

کافی عرصہ سے اسلامی تعلیمات میں کمزور رہ جانے اور غیر اسلامی تعلیمات کے غلبہ کی وجہ سےجہاں علمی اعتماد سےمحروم ہوئے ہیں وہاں شعوری یاغیر شعوری طور پر ہم میں قرآنی اصطلاحات ان معنوں میں استعمال ہونے لگی ہیں جومعنی قرآن مجید کے نہیں بلکہ حقیقت میں وہ مغرب کےہیں۔گویاکہ مغرب نے ہمارے لیے پہلا کام یہ کیا کہ ہمیں قرآنی اصطلاحات سے ناآشنا کیا اور اپنی اصطلاحات ہم پر ٹھونسیں ۔

اور اگر کہیں مسلمانوں نےان قرآنی اصطلاحات کو استعمال کیا بھی تو انہوں نےدوسرا کام یہ کیا کہ انہی اصطلات کو وہ معنی پہنادیے جوقرآن مجید میں مراد نہیں !

ملت:

چنانچہ ملت کالفظ ہمارے ہاں کئی لفظوں کےساتھ مل کر استعمال ہوتا ہےاور اس کی وجہ مغرب کے وہی مغالطے ہیں جن کااوپر ہم نےذکر کیا ہے کبھی تو ملت کالفظ ہمارے ہاں قوم کےمعنوں میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی دین کے معنوں میں...... کہیں شریعت کےمعنوں میں تو کہیں اسے کسی مخصوص ہئیت اجتماعیہ کےمعنی دیے جاتے ہیں ...... ہمیں یہ دیکھنا یہ ہےکہ قرآن مجید اس لفظ کوکن معنوں میں استعمال کرتا ہے کہ اس کےبغیر ہمارے لیے اس لفظ کی صحیح تعبیر ممکن نہیں:

قرآن کریم کی خاص لغت جس میں قرآنی مفاہیم کوبڑے صحیح انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہےمفردات امام راغب ہے۔ اور امام راغب اپنی اس کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ملت کی اضافت نہ تو اللہ تعالیٰ کی کی طرف ہوتی ہے نہ کسی فرد کی طرف اور نہ ہی افراد کی طرف ..... مثلا یہ نہیں کہاجاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی ملت میری ملت زید کی ملت یاچند افراد کی ملت :.... اور نہ ہی یہ ان معنوں میں استعمال ہوتا ہےجیسے کہہ دیاجائے کہ نماز ملت ہے:

دین:

جبکہ دین کالفظ ان ساری جگہوں میں استعمال ہوتا ہے مثلا اللہ کادین میرادین زید کادین یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ نماز دین ہے---- وغیرہ:

ملت کالفظ اللہ تعالیٰ کی طرف یا کسی فردیا شریعت کی کسی جز ء کی طرف کیوں اضافت نہیں ہوتا اوردین کی کسی چیز سےنسبت کیوں ممکن ہے؟..... اس سوال کاجواب سمجھنے کےلیے ہمیں دین تعریف کو سمجھنا ہوگا تاکہ دین اور ملت کافرق واضح ہوسکے۔

دین کی تعریف..... دین اور ملت میں فرق:

دین کابنیادی مفہوم طاعت تابعداری وفاداری یا اپنے آپ کوپابند بنالیا ہے ۔گویاکہ وہ ہمارا اللہ تعالیٰ سےوہ تعلق ہےجس کی بناء پر ہم اپنی وفاداری کوخدا تعالیٰ سےوابستہ کرتے ہیں اس کی اضافت خدا کی کرف بھی ہوتی ہے.... ہم چونکہ اس وفاداری کےحامل ہیں اس لیے اس اضافت ہماری طرف بھی ہوتی ہے... نماز روزہ زکوۃ اور حج وغیرہ کےذریعے بھی ہماری وابستہ خداتعالیٰ سےہوتی ہےاس لیے دین کی اضافت ان کی طرف بھی ہوتی ہے ... لیکن ملت اسلامیہ خاکے یانقشے کانام ہےجواس وفاداری کےتعلق کی بناء پر قائم ہوتا جس کی ایک اعتبار سےتعبیر ہم تہذیب وثقافت سے کرسکتے ہیں اورجوکسی فکرو وعمل کی بناء پر مرتب ہوتی ہے؟.... اب دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ فکر تو دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کےطرف سےعلم توآتا ہے لکن تہذیب وثقافت اللہ تعالیٰ کی طرف سےقائم نہیں ہوتی بلکہ وہ نبیﷺ آن کر قائم کرتا ہے۔اسی لیے اس اضافت صرف نبیﷺ (اسی طرح کافرانہ ملت کی نسبت اس شخص کی طرف ہوگی جس کامقام اس کےمعاشرہ میں ایسا ہو جیسے اسلام میں نبی ﷺ کامقام ہوتا ہے... مثلا قریش میں عبدالمطلب کامقام!) کی طرف ہوتی ہے۔یاکل امت کی طرف جو اس کی حامل ہوتی ہے۔

دین شریعت اورملت:

یہیں ایک اور سوال سامنے آتا ہےکہ اگر بات یہی ہےتوپھر ملت شریعت کا ہم معنیٰ ہوا؟..... نہیں اس لیے کہ:

دین کا مفہوم توعام ہے یعنی اللہ تعالیٰ کےساتھ ہمارا وفاداری کاجورشتہ اور رابطہ ہے اس کےلیے دین کالفظ استعمال ہوا.... اور اس وفاداری کےرشتہ کوقائم کرنےکےلیے ہم اپنی زندگی میں جو اعمال کرتے اپنی زندگی جس طرح گزارتے ہیں یا زندگی گزارنے کےلیے جوطریقے ہمیں بتائے گئے ہیں ان کا نام شریعت ہے!

یہی وجہ ہے کہ آدم سے لے کر رسول اللہﷺ تک تمام انبیاء علیہم السلام کادین ایک ہےاس لیے کہ ان کامقصود یہ ہے کہ سارے کےسارے بندے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائیں اور ان کی وفاداری کارشتہ اللہ تعالیٰ کےعلاوہ اورکسی سے استوار نہ ہو لیکن اس رشتہ وفاداری کے استواری کےلیے جوتعلیمات دی گئی ہیں ان میں اختلاف ہوتا ہے جو شریعت کااختلاف ہے۔

مثلا موسوی دین میں نماز اور طرح تھی عیسوی دین میں اور طرح .... اور محمد دین میں نماز اور طرح کی ہے..... اگرچہ یہ بھی ساری کی ساری دین ہیں اس لیے کہ جوشخص موسیٰ نے اللہ تعالیٰ نے کی وفاداری کا طریقہ یہ بتلایا ہے--- اور اگر عیسیٰ نےاس میں تھوڑا سافرق کیا ہے تو اس نےاس فرق کےساتھ اللہ تعالیٰ سےوفاداری ہے.... اسی لیے اگر کوئی شخص موسی کےبعد عیسی کےآجانے سے شریعت میں جوتبدیلی واقع ہوئی ہےاسے تسلیم نہیں کرتا یا اس پر عمل نہیں کرتا توحقیقت میں اس نے دین سے انکار کردیا کیونکہ اس نےوفاداری کےعہد کو توڑ دیا... اسی طرح رسول اکرم ﷺ نےفرمایا کہ اگر موسیٰ اب آجائیں اور تم میری شریعت کوچھوڑ کر ان دونوں کی شریعت پر عمل پیرا ہوجاؤ تو تمہاری نجات نہیں ہوسکتی بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر خود موسیٰ آجائیں اور میری شریعت کی اتباع نہ کریں تو ان ک نجات بھی نہیں ہوسکتی....گویاکہ دین ایک ہے اور یہ اس کارشتہ ورابطہ وفاداری کانام ہے جس کاعہد اللہ تعالیٰ سے ہے ....اور شریعت ان طریقوں کانام ہے جن پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ سے وفاداری بنا ہی جاتی ہے.... اور یہ طریقے تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ ہاں رسول اللہ ﷺ کےآجانے کےبعد اب ان میں تبدیلی ممکن نہیں رہی۔

اورملت : کسی حد تک جس طرح دین سےمختلف ہے اسی طرح شریعت سےبھی مختلف ہے... اس اجمال کی تفصیل یوں کہ قرآں کریم میں سب سےزیادہ ملت کا لفظ حضرت ابراہیم کےساتھ استعمال ہواہےبلکہ ملت ابراہیم کوایک معیار بنالیا گیا ہے اور باربار محمد رسول اللہﷺ سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ملت ابراہیمی کی پیروی کیں قرآن مجید میں ہے

﴿وَقالوا كونوا هودًا أَو نَصـٰر‌ىٰ تَهتَدوا قُل بَل مِلَّةَ إِبرٰ‌هـۧمَ حَنيفًا...﴿١٣٥﴾... سورةالبقرة

کہ یہود ونصاریٰ کہتے ہیں کہ تم یہودی یا عیسائی بن جاؤ لیکن اے نبیﷺ) آپ فرمادیجیے ہم ملت ابراہیمی کی اتباع کرتے ہیں

حالانکہ یہود ونصاری بھ ملت ابراہیم پر کابند ہونے کے دعویدار ہیں تو پھر آخر کیاوجہ ہےکہ ملت ابراہیم ہی کو معیار بنالیاگیا ہے؟ آخر آپ ﷺ سےپہلے بھی تورسول گزرے ہیں نوح((آدم ظاہر ہےنوح سےپہلے ہوگزرے ہیں لیکن ابراہیم سے پہلے رسولوں کے نام گنواتے ہوئے نوح سے ابتدا اس لیے کی گئ ہے کہ آدم نہیں صرف نبی ہیں ۔نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کواللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ہدایات آتی ہیں جن کےذریعے وہ اپنے مخاطبین کو راہنمائی دیتا ہے ۔چونکہ وہاں کوئی مستقل بگاڑ موجود نہیں ہوتا۔اس لیے زندگی گزارنے کےلیے جزوی ہدایات دے دی جاتی ہیں لیکن جب کوئی بگاڑ موجود جڑیں پکڑلے معمولی بگاڑ نہ رہے بلکہ یہ ایک مستقل راستہ اختیار کرلے تو اس بگاڑ کوختم کرنےکےلیے جزوی ہدایات کی بجائےایک مکمل پروگرام دینے کی ضرورت ہوتی ہے—ایک مکمل لائحہ عمل جس کاحامل رسول ہواکرتا ہےچنانچہ ایک لاکھ چھپیس ہزار میں سے تقریبا تین سو رسول ہبں اور باقی رنبی۔

آدم کودنیا میں بھیجا گیا آپ ﷺ کی اولاد ہوئی اوریہ سب کےسب موحد تھے کہیں اگر کوئی غلطی ہوتی تھی اس سے متعلق ہدایت کانزول ہوجاتا تھا۔اس ہدایت کی بناء پر آدم نبی قرار پائے۔اورنوح رسول ہیں بخاری مسلم وغیرہ میں آپ کو اول الرسل کہاگیا ہے اوقرآن مجید نےبھی یہییں سے ابتداء فرمائی ہے:

﴿شَرَ‌عَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ...١٣﴾... سورةالشورى

کہ تمارے لیے وہی دین مشروع ہے جس کی مصیت نوح کوکی گئی اورآپ کی طرف وحی کیاگیا ہے۔

یہاں شرع کےلفظ سےیہ مغالطہ نہ ہوکہ نوح اورمحمد رسول اللہ کی شریعت ایک ہے اصل میں یہاں بتایاجارہا ہے کہ دین توایک ہے لیکن اس دین پر چلنے کاراستہ جس طرح نوح کےلیے اللہ تعالیٰ نےمقرر کیا ہےاسی طرح آپ ﷺ کےلیے بھی اللہ تعالیٰ نےمقرر فرمایا ہے)

ہود صالح لیکن ان کےلیے ملت کالفظ استعمال نہیں ہوا۔اصل یہ ہےکہ جیسے کہ پہلے عرض کیاجاچکا ہےکہ دین طاعت انقیاد اوروفاداری کانام ہے—اسی وفاداری کی بنا پر کچھ تعذیبی امتیازات

قائم کیے جاتے ہیں حضرت ابراہیم کچھ امتیازات قائم کیے تھے ۔جوملت ابراہیمی کے نشانات قرار پائے ۔آپ کومعلوم ہے کہ آپ کو بڑے بڑے امتحانات میں ڈالاگیا اور آپ نے ان امتحان میں کامیاب ہوکر جگہ جگہ خداتعالیٰ کی وفاداری کے وہ امتیازات قائم کیے کہ ابراہیم اس سلسلہ میں مثال بن گئے حتی کہ اللہ رب العزت نےفرمایا:

﴿إِنّى جاعِلُكَ لِلنّاسِ إِمامًا...﴿١٢٤﴾... سورةالبقرة

کہ میں آپ کو دنیا بھر کے لوگوں کاامام بنارہا ہوں!

حضرت ابراہیم کےتوحید وعمل کےیہی امتیازات ہمارے تہذیبی امتیازات ہیں اور چونکہ آپ ﷺ اس سلسلہ میں ایک مثال حیثیت رکھتے ہیں ۔اس لیے ملت ابراہیم کومعیار بنایا گیا ہے حتی ٰ کہ رسول اللہﷺ کو بھی یہی حکم دیاگیا کہ آپ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں۔

مزید یہ کہ یہود ونصارٰ سے آپ کاجگھڑا ہوتا تھا وہ کہتے تھے ہم ملت ابراہیمی پر ہیں اور آپ فرماتے تھے کہ ملت ابراہیمی پر میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نےفیصلہ یوں فرمایا کہ:

﴿إِنَّ أَولَى النّاسِ بِإِبرٰ‌هيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعوهُ وَهـٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذينَ ءامَنوا وَاللَّـهُ وَلِىُّ المُؤمِنينَ ﴿٦٨﴾... سورةآل عمران

یعنی ان یہودو نصارٰی کادعوٰے جھوٹا ہے انہوں وہ امتیازات قائم نہیں رہنے دیے جو ملت ابراہیمی کاخاصہ ہیں جبکہ رسول اللہﷺ اورآپ کے ساتھیوں نے ان امتیازات کو قائم کیا ہے۔

یہیں سے شریعت سے ملت کاایک فرق یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ایک ملت کے اندر کئی شریعتیں آئیں اوراگر وہ امتیازات باقی رہیں توملت بہرحال ایک ہے اگرچہ شریعتیں مختلف ہیں۔

پس ملت ان تہذیبی امتیازات سے قائم ہوتی ہے اور ابراہیم کے قائم کردہ یہ امتیازات اور شعار ایسے ہیں کہ یہ شریعت محمدی کابنیادی خاکہ ہیں ۔حتی کہ (جیساکہ تاریخ اسلام ہر طالب علم واقف ہے )رسول اللہﷺ ہجرت کےبعد سولہ سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور آپ ﷺ اس لیے پریشان تھےکہ ملت ابراہیمی کا ایک امتیاز آپ ﷺ سے گم ہوگیا تھایہ امتیاز یہ تھا کہ کہ نماز بیت اللہ کی طرف منہ کرکے ادا کی جائے کہ ابراہیم نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھے اور آپ اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

﴿قَد نَر‌ىٰ تَقَلُّبَ وَجهِكَ فِى السَّماءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبلَةً تَر‌ضىٰها...﴿١٤٤﴾...سورة البقرة

کہ ہم باربار آپ کاآسمانوں کی طرف چہر ہ اٹھنا دیکھ رہے ہیں ہم عنقریب آپ کواس قبلہ کی طرف متوجہ کردیں گے جس کو آپ پسند کرتے ہیں!

علاوہ ازیں محمدی شریعت میں نماز تو خیر وہی نماز ہے تھوڑے سے ارکان کافرق پڑسکتا ہے لیکن حج کتنابڑا شعار ہےیہ ساری یادگار ابراہیم کی ہے اسی طرح قربانی بھی آپ کی یاد گار ہےاس طرح ناخن کاٹنا گندے بال لینا ختنہ کرانا داڑھی رکھنا مونچھیں منڈانا وغیرہ۔یہ سب چیزیں ملت ابراہیم کا حصہ ہیں ۔اور رسول اللہﷺ نےفرمایا یہ دس چیزیں فطرت سے ہیں ابراہیم نے یہ کام کیے تم بھی یہ کام کرو۔گویایہ تہذیبی امتیازات ملت کاایک حصہ ہوتے ہیں اور ملت ان سے قائم ہواکرتی ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام اگرچہ آدم سے ہے لیکن سب سے پہلے اسلام جس نےاختیار کیا وہ ابراہیم ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا

اسلم ابراہیم مسلمان ہوجائیے۔

ابراہیم نے جواب دیا

﴿أَسلَمتُ لِرَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿١٣١﴾... سورةالبقرة

مين رب العالمین کے لیے مسلمان ہوگیا

قرآن مجید میں یہ بھی ہے

﴿مِلَّةَ أَبيكُم إِبرٰ‌هيمَ هُوَ سَمّىٰكُمُ المُسلِمينَ...﴿٧٨﴾... سورةالحج

اپنے باپ ابراہیم کی ملت کولازم پکڑو اس نےتمہارا نام مسلمان رکھا ہے

اس لیے اسلام صرف فکر نہیں صرف عقیدہ نہیں اسلام ایک تہذیب بھی ہے اور اگر کوئی اس تہذیب کواختیار نہیں کرتا توگویا وہ ملت ابراہیمی سےخارج ہے ---اور جو ملت ابراہیمی سے خارج ہےوہ ملت محمدیہ سےبھی خارج ہے ۔اس لیے ان امتیازات کوقائم رکھنا بہت ضروری ہے چنانچہ مسلمانوں میں ہجرت سے ایک بہت بڑا امتیاز قائم ہوا ہے۔ اتنا بڑا امتیاز کہ اہل شواری میں یہ دیکھا جاتا تھا کہ سب سے پہلے ہجرت کس نےکی؟ اس قدر اہم کہ قرآن مجید میں ہے:

(1)یہاں یہ اشکال پڑتا ہے کہ ہمارے مشہور ہے کہ اسلم میں جمہوریت ہے ۔اور جمہوریت کاطریقہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں کےنمائندے بلائے جاتے ہیں لیکن خلافت راشدہ اچھی جمہوریت ہے کہ وہاں کسی جگہ نمائندہ نہیں بلایا جاتا وہیں کے لوگ مل بیٹھتے ہیں وہیں کےلوگ انتخاب کرتے ہیں۔

﴿إِنَّ الَّذينَ تَوَفّىٰهُمُ المَلـٰئِكَةُ ظالِمى أَنفُسِهِم قالوا فيمَ كُنتُم قالوا كُنّا مُستَضعَفينَ فِى الأَر‌ضِ قالوا أَلَم تَكُن أَر‌ضُ اللَّـهِ وٰسِعَةً فَتُهاجِر‌وا فيها فَأُولـٰئِكَ مَأوىٰهُم جَهَنَّمُ وَساءَت مَصيرً‌ا ﴿٩٧﴾... سورةالنساء

جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے

دوسري جگہ میں فرمایا:

﴿وَمَن يُهاجِر‌ فى سَبيلِ اللَّـهِ يَجِد فِى الأَر‌ضِ مُرٰ‌غَمًا كَثيرً‌ا وَسَعَةً...﴿١٠٠﴾... سورةالنساء

جو کوئی اللہ کی راه میں وطن کو چھوڑے گا، وه زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی

گویااسلام میں معیار اصل یہ ہے کہ ملت سے اسلامی تہذیب یے اسلامی ثقافت (1)سے کسی کا

----------------------------------

اصل میں دھوکا اس لیے ہوتا ہےکہ ہم نےاسلام کوایک علاقہ بنالیا ہے حالانکہ اسلام علاقہ نہیں ایک تہذیب ہےایک ملت ہے ہمارے ہاں لفظ ملک وملت استعمال ہوتا ہے گویاملک کی بنیاد پر ملت اور تہذیب بنتی ہے جبکہ اسلام ملک کی نبیاد پر نہ ملت بناتا ہےتہ تہذیب اسلام میں ملت کےمعنی ملک کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدہ وتہذیب کی بنیاد بر ہیں اس وفاداری کےنظام کی بنیاد پر اس شریعت کی بنیاد پر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔لہذا صحیح لفظ صحیح لفظ دین وملت ہےجبکہ ملک وملت کی ترکیب اسلامی لحاظ سےغلط ہے

یہی وجہ ہےکہ مجلس شوری میں یہ نہیں ہوتا کہ فلاں علاقہ علاقہ کےلوگ بلالیں اور فلاں علاقہ کےبھی تاکہ وہ اپنے اپنے علاقے کےلوگوں کی نمائندگی کریں بلکہ اسلام میں مجلس شوری کےلیے یہ ہوتا کہ ملی راہنماؤں کو اکھٹا کیا جائے خواہ وہ سارے کےسارے ایک جگہ جمع ہوں جس کےلیے معیا ریہ تھاکہ مسلمانوں میں سے سب سے پہلے حلقہ اسلام میں کون داخل ہوا؟... اہل ہجرت کون ہیں ؟ او راہل بد کون ہیں وغیرہ تاکہ ان کواولین حیثیت دی جائے

(1)واضح رہے جیسے کہ ہم نےشروع میں ادراتی نوٹ میں بھی یہ تصریح کی ہے) کہ ملت کااگرچہ صحیح ترجمہ تہذیب وثقافت نہیں نہ ہی یہ ملت کےوسیع معنوں میں محیط ہے تاہم ہمارے لیے کتنا تعلق ہے؟ چنانچہ کوئی شخص اگر مسلمان ہوجائے لیکن وہ مسلمانوں کی تہذیب میں نہیں آتا ان کی ملت اور معاشرے میں داخل نہیں ہوتا اس کی نجات نہیں ہوگی۔مندرجہ بالاآیت قرآنی﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ﴾(الایہ)اس دعوٰی کی دلیل ہے۔

ایک مغالطے کاازالہ:

فقہ ظاہری اختلاف کودیکھ کر بعض لوگ یہ کہتےہیں کہ یہ بہت بڑا بگاڑ ہےجس نےملت کوتقسیم کردیا ہے....... پھر اس بگاڑ کو دور کرنے کاطریقہ یہ بتایا جاتا ہےکہ ملک کی بنیاد پر ایک مرکز ملت بنایاجائے۔یعنی تصور یہ دیاگیا کہ ایک ملک میں جو لوگ جمع ہوں ان کےلیے اس ملک کاحاکم قرآن مجید کے نام پر حکومت کرے اور ان کے لیے شریعت وضع کرکے سب کواس کی پابندی پر مجبور کرے۔چونکہ ان کے ہاتھ میں اقتدار ہوگا جس کی بناء پر سارے کےسارے لوگ یکساں شرعی قوانین

بقیہ حاشیہ)

مجبوری یہ ہے کہ آج کے اس دور میں تعبیر کےلیے جوالفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ہم انہیں الفاظ کے ذریعے ملت کی تفہیم کرسکتے ہیں اس لیے کہ یہ الفاظ ہمارے لیے معروف ہیں اور ملت کا لفظ غیر معروف .... ورنہ لفظ ملت اگر آج ہمارے لیے غیر ومعروف نہ ہوتا تو ہمیں اس کی تعبیر کی ضرورت ہی نہ تھی اور اس کا صحیح ترجمہ خود ملت ہی ہوسکتا ہے۔

اور یہ بھی واضح رہے کہ اسلام میں ملت کاتصور حضرات ابراہیم سے قائم ہےنیزیہ کہ:

ملت (تہذیب) اگر قائم رہےتو اس تہذیب میں اگر جزوی ہدایات میں کچھ تبدیلی بھی ہوجائے توتہذیب میں فرق نہیں پڑتا جیسے مسلمانوں میں ملت ایک ہے لیکن اپنے اپنے علاقے کالباس الگ الگ ہے رنک ونسل کافرق ہے ایسی معمولی تبدیلیاں ملت پر اثر انداز نہیں ہوتیں اس لیے کہ ملت کی بنیادی امتیازات سب مسلمانوں کےلیے ایک ہونے چاہئیں۔چنانچہ اگر ملت ابراہیمی میں موسی عیسیٰ اور محمدرسول اللہﷺ کی شریعتیں اگرچہ آپس میں مختلف ہیں تاہم یہ ملت ابراہیمی ہی رہے گی۔فرق اس وقت پڑے گا جب ہم ملت کے امتیازات کھودیں گے اور اس کی بناء پر اللہ تعالیٰ سے جوتعلق ہے وہ ہم ختم کردیں گے..... یہودی اگر ان امتیازات کوکھودیں گے تو ملت سے خارج ہوجائیں گے اور ان کی الگ ملت بن جائےگی..... اسی طرح عیسائی کہ عیسی اگرچہ ابراہیم کی کی اولاد سے ہیں او رانہی کےدین پر آتے ہیں لیکن امتیازات کھودینے سے ان کی ملت بھی الگ ہوجائے گی اختیار کریں گےاس لیے آپس میں کوئی تفریق نہ پیدا ہوسکے گی حالانکہ اسلام میں یہ ملکی تقسیم ہے ہی نہیں نہ ہی اسلام میں ملت کی بنیاد ملک ہےملت تو تہذیبی امتیازات اسلامی عقیدہ وعمل کا نام ہے اس لیے یہ تصور جوپرویز صاحب نےاگرچہ قرآن کےنام پر پیش کیا ہے غیر قرآنی ہے۔اس لیے کہ باقاعدہ بعض شرعی تعلیمات تومحمد رسول اللہﷺ موسیٰ اور عیسیٰ کی بھی مختلف ہیں لیکن ملت سب کی ایک ہے (1) اس لیے ملت کامرکز تو خودشریعت بھی نہیں ہوتی کجایہ کہ فقہ ہو........ اورشریعت او رفقہ میں بھی فرق ہے۔فقہ شریعت (کتاب وسنت)کوضابطہ بنانے کانام ہےجومجتہد کا فہم ہوتا ہے جبکہ شریعت وہ تعلیمات ہیں جوکتاب وسنت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نےہمارے لیے نازل فرمائی ہیں یہی وجہ ہےکہ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے ہاں کئی فقہیں ہیں تو اس پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن اگر یہ کہ دیاجائے کہ شریعتیں ہیں فورا اعتراض ہوتا کہ یہ غلط ہے کیونکہ شریعت تو ایک ہے۔

پھر ساری ہی ایک اور مغالطہ دیاجاتا ہے کہ شریعت اورفقہ ایک ہے چنانچھ پرویز صاحب نے جتنا بھی رد کیا ہے فقہ کا کیا ہے لیکن ڈال دیا شریعت کے پلڑے میں کہا یہ جاتا ہےکہ قرآن مجید میں شریعت بھی نہیں ہے حالانکہ قرآں مجید توخود شریعت ہےشریعت لے کر آیا ہے ہاں یہ ضروری ہوتا ہےکہ اس اختلاف کی بناء پر کسی فقہ کواس امام کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے اورکہہ دیا جاتا ہے کہ یہ فقہ حنفی ہے یہ شافعی ہے وغیرہ ۔یعنی امام ابوحنیفہ﷫ نےاس مسئلہ کویوں سمجھا امام شافعی ﷫ یامالک ﷫ نے اس کوکسی اورطرح سے سمجھا ۔گویاکہ فقہ امام کی سمجھ ہوتی ہے چونکہ امام بدلتے رہتے ہیں

حالات وزمانے کے بدلنے سے ان کافہم اور رائے بھی تبدیل ہوسکتی ہے جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ حامل شریعت ہیں شریعت ایک ہے ایک ہی رہے گی وہ الہامی ہے لہذا غیر متبدل ہےہر قسم کے حال وزمانہ کےلیے ہے پس تاقیامت ہے ..... اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ شریعت بدل جاتی ہے وہ گویا ہر دم ختم رسالت پر (2) ضرب لگاتا ہے اوریہ کہتا ہے کہ ہر نیا رسول ہے ..یہی وجہ ہے

........................................

(1) حدیث میں آتا ہے کہ انبیاء آپس میں علاتی باپ (شریک )بھائی ہیں گویا اصل ایک ہے۔

(2) محمد ﷺ کی ایک ذات ہے اور ایک آپ ﷺ کی رسالت ہے۔ذات میں آپ محمد ہیں ﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ﴾( ذات كی حیثیت ﷺ سے آپ اب بھی زندہ ہیں اورتاقیامت زندہ رہیں گئے آپ ﷺ تاقیامت رسول اللہﷺ ہیں!

..............

کہ پرویز صاحب نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو اس حاکم کو کہتے ہیں جو قرآن کےنام حکومت کرتا ہے ۔گویاپہلے آپ ﷺرسول تھے آپ کےبعد ابوبکر رسول ہیں پھر عمر .... وعلی ہذالقیاس ..... آج جوشخص بھی قرآن ہاتھ میں لے کر کہتا ہے کہ میں اس کی تعبیر کرتا ہوں اور اس کے ہاتھ میں اقتدار بھی ہو وہ گویا ان کے نزدیک رسول ہوگا..... اس طرح ایک مستقل نئی رسالت کامسئلہ پیدا کردیا ہے لہذا ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مرکز ملت کاتصور قرآن کےنام پر قرآن ہی کےخلاف اعلانیہ بغاوت ہےاور حامل قرآن خلاف سازش بھی!

قوم:

لفظ قوم نے بھی ملت کاتصور بہت حد تک بگاڑا ہےقرآن مجید کے عتبار سے قوم کا لفظ ملت سے بہت مختلف ہے ہمارے ہاں لفظ مسلمان قوم مروج ہےحالانکہ یہ قرآنی تصور نہیں مغربی ہے جسے مسلمانوں میں رواج دیکر مسلمان بنا لیا گیا ہے.. قرآن مجید میں کافی آیات ایسی ہیں جن میں انبیاء علیھم السلام نے اپنے ہی ہم نسل لوگوں کو جبکہ دین کافرق تھا میر قوم کہ مخاطب کیا ہے..... اگر قوم کی بنیاد دین ومذہب( مثلا مسلمان قوم) اور قوم دین کی بنیاد پر بنتی ہو تو پھر ایک ہی نسل کےلوگوں کودین کےاختلاف کے باوجود میر قوم کہ پکارنا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ جبکہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے مخاطبین کوحالانکہ وہ کافر تھے یقوم اسے میری قوم کہ پکارا ہے؟...... حتی کہ رسول اللہﷺ نے قریش کو بحکم الہی یوں مخاطب فرمایا:

﴿قُل يـٰقَومِ اعمَلوا عَلىٰ مَكانَتِكُم إِنّى عامِلٌ فَسَوفَ تَعلَمونَ...﴿١٣٥﴾... سورةالانعام

آپ یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کررہا ہوں، سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے.....

اگر مذہب کی بنیاد قوم ہوتو کیا اپنےمذہب سے اختلاف رکھنے والوں کو اسے میری قوم کہ کر پکارنا عجیب وغریب معلوم نہیں ہوتا؟

اس سلسلہ میں مزید تائید اس واقعہ سے حاصل ہوتی ہے جب کہ فرعون کی قوم میں سے ایک شخص مسلمان ہوگیا تھا اور قرآن مجید میں اس کےمتعلق یوں مذکور ہے کہ:

﴿وَقالَ رَ‌جُلٌ مُؤمِنٌ مِن ءالِ فِر‌عَونَ يَكتُمُ إيمـٰنَهُ أَتَقتُلونَ رَ‌جُلًا أَن يَقولَ رَ‌بِّىَ اللَّـهُ وَقَد جاءَكُم بِالبَيِّنـٰتِ...﴿٢٨﴾... سورة المؤمن

اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ کیا تم ایک شحض کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وه کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے

یہ آیت سورہ مومن کی ہے ۔قرآن مجید میں یہ مقام ملاحظہ فرمائیے یہ ایک شخص جو واحد مومن ہے اپنےتمام مخاطبین کو جوآل فرعون کے کافر ہیں باربار یقوم یقوم اسے میر ی قوم اے میری قوم کے الفاظ سےمخاطب کرتا ہے اور پھر ﴿وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ﴾ کے الفاظ اس دعوے کی دلیل میں ایک ثبوت مہیا کررہےہیں کہ مومن ہونے کےباوجود اسے بھی من ال فرعون کہ کرذکر کیا گیا ہے جبکہ اگر قوم بیناد مذہب پر ہوتو اس بندہ مومن کو آل فرعون سے الگ ذکر کیاجانا چاہیے تھا۔

علاوہ ازیں مذکورہ آیت قرآنی یکتم ایمانہ کےالفاظ سے یہ مغالطہ نہ ہوناچاہیے کہ وہ اپنے ایمان کو چھپانے کےلیے کفار مخاطبین کویقوم کہ کر پکار تا تھا سا سے قبل کی دوسری آیت قل یقوم اعملو میں ہم یہ واضح کرچکےہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا حکم یہ ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کوکفار کویوں مخاطب کریں کہ اے میری قوم ...... الخ

اسی طرح قرآن مجید میں حضرت شعیب کاایک واقعہ یوں مذکور ہے:

﴿قالَ المَلَأُ الَّذينَ استَكبَر‌وا مِن قَومِهِ لَنُخرِ‌جَنَّكَ يـٰشُعَيبُ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَكَ مِن قَر‌يَتِنا أَو لَتَعودُنَّ فى مِلَّتِنا قالَ أَوَلَو كُنّا كـٰرِ‌هينَ ﴿٨٨﴾ قَدِ افتَرَ‌ينا عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا إِن عُدنا فى مِلَّتِكُم بَعدَ إِذ نَجّىٰنَا اللَّـهُ مِنها وَما يَكونُ لَنا أَن نَعودَ فيها إِلّا أَن يَشاءَ اللَّـهُ رَ‌بُّنا وَسِعَ رَ‌بُّنا كُلَّ شَىءٍ عِلمًا عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلنا رَ‌بَّنَا افتَح بَينَنا وَبَينَ قَومِنا بِالحَقِّ وَأَنتَ خَيرُ‌ الفـٰتِحينَ ﴿٨٩﴾... سورةالاعراف

''ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراه ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الّا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ۔ شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروه ہی سمجھتے ہوں () ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہو جائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کر دے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے واﻻ ہے''

ان آیات میں قریۃ (وطن) ملت قوم تینوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔اورشعیب فرماتے ہیں کہ میں تمہاری ملت میں نہیں آؤں گا جبکہ اللہ نےہمیں اس سے نجات دے دی ہےلہذا ملت الگ ہے(1).... لیکن ساتھ ہی ربنا ﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا﴾کے الفاظ بھی ذکر کرتے ہیں یعنی ملت الگ ہےلیکن قوم ایک ہے اے اللہ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ کردے

...........................................

(1) دیکھیے ایک ملک کےشہری اور ایک بستی کےرہنے والے ہوکر ملت مختلف ہے

پس قرآنی تصور میں قوم نسل کی بنیاد پر بنتی ہے .... باقی اگر وطن کو اس میں شامل کیاجائے تو وطن کی بنیاد قوم نہیں ہوتی ..... کہ وطن کاتصور تواسلامی ہے ہی نہں (1) اس سلسلے میں وطن کی محبت ایمان سے ہے والی حدیث کو علماء نےبناوٹی قراد دیا ہے)

اس طر ح دین کی بنیاد بھی قوم نہیں بنتی ۔ دین کی بنیاد ملت بنتی ہے اور نسل کی بنیاد قوم اسی لیے کتاب وسنت میں کہیں بھی قوم کالفظ دین کےمعنوں میں استعمال نہیں ہوا۔پس لفظ مسلمان قوم غلط ہے ہاں مسلمان ملت یا ملت اسلامیہ کہ سکتے ہیں قوم کے اعتبار سے ہم جس نسل میں ہوں گے اس کےاعتبار سے ہم قوم مثلا پٹھان قوم ..... اسی طر ح وطن کی بنیاد پر ہم پاکستانی تو ہوسکتے ہیں ملت پاکستانیہ نہیں بن سکتے ۔ملت کی بنیاد صرف دین ہوگی۔ اوردین کی بنیاد پر جوتہذیب بنے گی وہ ملت ہوگی

ایک شعر:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سےنہ کر

خاص ہےترکیت میں قوم رسول ہاشمی

کس قدر افسوس کامقام ہے کہ ہمارے مقبول شعراء کے کلام میں بھی یہ التباس پایا جاتا ہےکہ کہیں قوم کےمعنوں میں ملت کواور کہیں ملت کے معنوں میں قوم کولیاگیا ہےاگر چہ ترکیب کافرق بھی کیا گیا ہے تاہم اس سے التباس رفع نہیں ہوتانہ صحیح ہوتا نہ صحیح وضاحت ہوتی ہے .... اور یہ اثر ہے ہماری اس تعلیم کااس تہذیب کا جس میں ہم پلتے اور بڑھتے رہے ہیں اور اس کی وجہ صرف ایک ہے .... قرآن سے دوری اے اللہ ہماری راہنمائی فرما اور ہمیں کتاب وسنت سے مانوس کردے آمین یارب العالمین

..............................................................

(1)سورۃ حجرات میں ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ﴾ اے ایمان والو کوئی قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے دیکھیے دونوں کومومن ہونے کےباوجود الگ الگ قوم کےلفظ ذکر کیا گیا ہے ۔اس سے ہمارے ہاں مروج دو قومی نظریہ کی بھی قلعی کھل جاتی ہے کہ اس کی حیثیت صرف سیاسی ہےعلمی نہیں ۔