سرخیل علماء و محدثین سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
ہندوستان کی مذہبی تاریک میں کاندان ولی اللھی کی بلند مساعی اور کارناموں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس خاندان نے بغیر خوف لومۃ لائم احیائے سنۃ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ پہلے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث سے لوگوں کو روشناس کیا اور بعد ازاں ان کے لڑکوں نے ترجمہ قرآن مجید اور تفسیر و حدیث کی بے لوث خدمت کی۔ ان کے پوتے شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے عملی جہاد میں جان تک کی بازی لگا دی۔ نواسہ شاہ ولی اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں علمِ حدیث کے چشمہ صافی سے لوگوں کو سیراب کیا ان کے مکہ مکرمہ ہجرت کر جانے کے بعد جو شخصیت مرجعِ خاص و عام اور اس خاندان کے مسندِ تدریس کی اصل وارث ہوئی۔ وہ سید نذیر حسین محدث دہلوی المعروف میاں صاحب کی ہے۔
ولادت با سعادت
سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ صوبہ بہار ضلع مونگیر میں سئہ 1220ھ بمطابق سئہ 1805ء میں پیدا ہوئے۔
مختصر نسب نامہ
سید نذیر حسین بن سید جواد علی بن سید عظمت اللہ حسنی، حسینی بہاری، جو کہ میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے، کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
تعلیم و تربیت
بچپن میں تعلیم کی طرف توجہ کم تھی۔ تیراکی اور کھیل کی طرف زیادہ رجحان تھا، حالانکہ ان کے والد خود عالم تھے۔ ان کے والد کے ایک دوست نے ان کی توجہ تعلیم کی طرف دلائی تو لکھنے پڑھنے کا بہت شوق پیدا ہو گیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور دیگ اساتذہ سے سورج گڑھ میں حاصل کی۔ سولہ سال کی عمر میں سورج گڑھ سے الہ آباد چلے گئے۔ وہاں پر عام کتابیں پڑھیں۔ ان میں مراح الارواح ، زنجانی، نقود الصرف، الجزولی، شرح مائۃ عامل، المصباح ۔۔۔ اور ہدایۃ النحو وغیرہ شامل ہیں۔
اسی دوران میں انہیں شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بتایا گیا تو اپنے ایک دوست مولوی امدادعلی کے ساتھ دہلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ بے سروسامانی کی حالت میں مختلف مقامات پر ٹھہرتے گئے۔ یہاں تک کہ سئہ 1242ھ میں دہلی پہنچے جبکہ شمس الہند شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ عالمِ جاودانی کو سدھار چکے تھے۔ ان کے نواسہ شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ زندہ تھے جو بہت کمزور تھے انہوں نے پنجابی محلہ مسجد اورنگ آبادی میں قیام فرمایا۔ کافیہ، قطب زادہ کی شرح شمسیہ، نور الانوار، شرح جامی، مختصر معانی اور شرح وقایہ مولانا عبدالخالق (متوفی سئہ 1261ھ) سے سبقا سبقا پڑھیں جو شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ فصولِ اکبری، شرح کافیہ للجامی، زداہد ثلاثہ، صدرا، شمس بازغہ مولانا شیر محمد قندھاری سے، شرح سلم قاضی مبارک سے، شرح المطالع مولانا جلال الدین بہروی سے۔ مطول، التوضیح والتلویح، مسلم الثبوت، تفسیر بیضاوی، تفسیر کشاف مولانا کرامت علی اسرائیلی سے۔ خلاصۃ الحساب، قوشجی، تشریح الافلاک، شرح چغمینی مولانا محمدبخش سے اور مقاماتِ حریری، حمیدی اور دیوان متنبی کا کچھ حصہ مولانا عبدالقادر رامپوری سے پڑھیں۔ یہ لوگ دہلی کے معروف علماء تھے۔
بعد ازاں حدیثِ نبوی کی طرف متوجہ ہوئے۔ علمِ حدیث مولانا عبدالخالق سے حاصل کیا اور اس میں پوری مہارت حاصل کی۔ پھر شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے علمِ حدیث پڑھا۔ شاہ اسحاق کے ساتھ تیرہ سال تک رہے۔ بخاری شریف ایک دفعہ مولانا عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ سے اور دو دفعہ شاہ اسحاق سے پڑھی۔
تزویج
سئہ 1246 ھ میں آپ کی شادی آپ کے استاد مولانا عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی سے ہو گئی۔ نکاح کا انتظام حضرت شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بھائی مولانا محمد یعقوب نے کیا۔
تدریس
حضرت شاہ محمد اسحاق نے سئہ 1258ھ میں مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیا تو انہوں نے سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا جانشین مقرر کیا، اپنے ہاتھ سے انہیں سند لکھ کر دی اور فتویٰ دینے کی اجازت دی، بلاشبہ ان کے بعد ہندوستان میں ان کے علاوہ کوئی اور جانشین بننے کے قابل نہ تھا۔ چنانچہ آپ کو "میاں صاحب" کہنے لگے کیونکہ خاندان ولی اللہی کے افراد کو یہ لقب دیتے تھے۔
آپ نے طالبانِ علم کی خوب پیاس بجھائی، طلباء کے سامنے بہت سے علمی نکات بیان فرماتے، عقدے حل کرتے۔ 1270ھ تک فنون اور تفسیر کی کتابیں پڑھاتے رہے لیکن اس کے بعد تمام دیگر فنون سے لا تعلق ہو کر صرف علومِ دین، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ اور تفسیر کو اختیار فرمایا۔ پچاس سال اسی طرح گزارے۔ بخاری شریف کے بعض مسائل پر اعتراضات کے جوابات دیتے۔ طلباء کے سوالات کے جواب حوالوں کے ساتھ دیتے۔ کتابوں کے زبانی حوالے بالکل درست ثابت ہوتے۔ دلیل کے بغیر بات نہ کرتے۔ ایک دفعہ "قال بعض الناس" پر حافظ عبدالمنان صاحب نے اعتراض کیا کہ اس سے مراد حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب نہیں ہے۔ آپ نے کتابیں لا کر کئی مقامات سے ثابت کیا کہ یہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے اور فرمایا اس بات کا پتہ حضرت علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ جیسے شارح کو بھی نہ تھا۔ آپ نے 75 سال تک علم پڑھایا۔
شیخ اکرام نے لکھا ہے:
"آپ نے شاہ اسحاق کے بعد دہلی کی مسجد اورنگ آبادی کو حدیث اور تفسیر کا مرکز بنایا۔ 50 سال اسی خدمت میں گزارے۔ شمالی ہند کے اکثر علماء کا سلسلہ اسناد آپ تک پہنچتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو شیخ الکل کہا جاتا ہے۔"
ذوقِ مطالعہ و تدریس:
آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ آپ سرکاری کتب خانوں سے کتابیں منگوا کر بھی پڑھتے تھے اور ذاتی کتب خانہ بھی کافی ضیخم تھا جس میں بہت سی نایاب کتابیں موجود تھیں۔ مگر افسوس یہ گرانقدر سرمایہ کتب سئہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں لُٹ گیا۔ مطالعہ کی گہرائی کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ سینکڑوں حوالے زبانی یاد تھے۔ ایک دفعہ میاں صاحب کے پاس بخاری شریف کا حاشیہ پڑھا گیا جس پر لکھا تھا کہ حنفیہ کے نزدیک عمومِ قرآن مجید کی تخصیص خبرِ واحد سے نہیں ہو سکتی۔ تو میاں صاحب نے پچیس مقامات ایسے شمار کیے جہاں علمائے احناف نے عمومِ قرآن کو خبرِ واحد سے مخصوص کیا تھا۔
آپ کے ذوقِ تدریس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ 1850 کے ہنگامہ میں میاں صاحب نے درسِ حدیث جاری رکھا۔ طالب علم خوف زدہ تھے لیکن میاں صاحب نے کوئی پرواہ نہ کی اور درسِ حدیث کا کام سر انجام دیتے رہے۔ بعض اوقات توپ کے گولے مسجد کے صحن میں گرتے۔ آپ قرآنِ مجید کی اس آیت کے صحیح مصداق تھے:
﴿أَلا إِنَّ أَولِياءَ اللَّهِ لا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٦٢﴾... سورةيونس
آپ کے مزاج میں بہت نرمی تھی۔ آپ نے ایک انگریز عورت کی جان بچائی کیونکہ اسلام کی تعلیم ہی یہی ہے۔ کچھ آوارہ مزاج لوگوں نے اس بہانے آپ کے مکان پر حملہ کر دیا اور آپ کو تکلیف پہنچائی۔ اس بات کی خبر جب بہادر شاہ ظفر کو ہوئی تو اس کو بہت ناگوار گزرا۔ اس نے فورا شہزادوں کو حکم دیا کہ ہنگامہ فرو کروائیں اور میاں صاحب سے دعائیں کروائیں۔ کیونکہ ان کے بزرگ (بہادر شاہ کے قول کے مطابق) اہل اللہ سے دعا کرواتے تھے۔
میاں صاحب کا ذکر اس "روزنامچہ" میں ان الفاظ میں ہے:
"ہمانا مولانا از سادات حسنی و حسینی است در حدیث پایہ اجتہاد گرفت در فقہ برتری مایہ در اصول آگاہی کمال دارد۔ درِ علم تفسیر بے مثال است، امروز در علم و عمل بینظیر است، شب باز و سفید کار است، بہر آئینہ در پرستش ایزدی بزرگی گرفت بہ پروہش ایزدگی یافت۔"
آپ پڑھاتے تو ایک بحرِ مواج معلوم ہوتے۔ آپ مریض تھے لیکن پڑھاتے وقت ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ تھکاوٹ کے بغیر سارا دن پڑھانے میں مصروف رہتے تھے۔ آپ نے ہندوستان میں علمِ حدیث کی اتنی تزویج کی کہ ایک دفعہ آپ نے خود ہی جوش میں فرمادیا، میں نے صحاح ستہ کو گلستاں بوستاں بنا دیا ہے۔ ایک دفعہ مولوی عزیز احمد کے پوچھنے پر، کہ "بخاری شریف آپ نے کتنی دفعہ پڑھائی ہے؟" ارشاد فرمایا "کیا شمار بتاؤں اللہ کو ہی علم ہے۔ میری یاد صحیح ہے تو کئی سو بار پڑھائی ہو گی۔"
دیگر علوم کی تدریس میں بھی آپ کو درک حاصل تھا۔ فتویٰ عالمگیری جیسی مبسوط کتاب آپ نے اول سے آخر تک تین مرتبہ پڑھی تھی۔ فقہ کے مسائل میں بڑے بڑے عالم آپ کے سامنے طفلِ مکتب تھے۔ مفتی رامپور نے ایک دفعہ پوچھا، وضو کے فرض کتنے ہیں؟ میاں صاحب نے فرمایا "معلوم ہوا آپ وہی اعتراض کریں گے جو پہلے ملا فروخ مکی نے کیا ہے اور اسی کو بحر الرائق میں لکھا ہے۔ اسی کو نیر الفائق میں نقل کیا ہے۔ ایسے اعتراض کے جواب دلی کے بھٹیاروں کے لونڈے پیڑا بناتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں، کوئی بڑی بات پوچھی ہوتی۔" مفتی صاحب ساکت و صامت ہو گئے۔
قرآن مجید پر بہت ملکہ حاصل تھا۔ کوئی حافظ یا قاری کوئی لفظ بھول جاتا تو میاں صاحب فورا بتا دیتے۔
مرض الموت میں مولانا شمس الحق ڈیانوی صاحبِ عون المعبود کے ساتھ ان کا بچہ آیا تو شوق سے اس کی زبان سے قرآن مجید سنا۔ نواب سکندر بیگم سلطانہ بھوپال نے آپ کو عہدہ قاضی القضاۃ پیش کیا اور اصرار کیا تو ارشاد فرمایا، میں دنیا کو بالکل پسند نہیں کرتا، اس چیز کے بدلے کو حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدریس چھوڑ دوں اور فرمایا کہ مقامِ افسوس ہے کہ میں آرام سے مسندِ قضاۃ پر بیٹھوں تو یہ غریب طالب علم مجھے کہاں تلاش کریں گے؟
آپ نے دولت پر غربت کو ترجیح دی اور تدریس دہلی میں ہی جاری رکھی گویا آپ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس قول کی تصویر تھے؟
«اَللّٰهُمَّ اَحِيْنِى مِسْكِيْنًا وَاَمِتْنِى مِسْكِيْنًا وَاحْشُونِى فِى زُمْرَةِ الْمسَاكِيْنِ»
مولانا عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تدریس کے متعلق فرمایا:
"بخدمت خاتم المحدثین شیخنا سید محمد نذیر حسین صاحب رسیدم"
وکتاب صحیح بخاری شروع نمودم، درآں ایام بلوائے دہلی شروع شد، درحین بلوائے شدید کہ ہرکس بہ غمِ جاں خود بودمن بخواندن کتاب مذکور تا ھدے کہ نصاریٰ غالب آمدند و اہل بلدہ را متفرق نمودند در آں ایام کتاب صحیح بخاری قریب اختتام بود، مگر بسبب پراگندگی اہل بلدہ درمیان سن و سید صاحب ہم جدائی افتاد و کتاب نا تمام ماند۔"
راولپنڈی کی نظر بندی
سئہ 1280ھ (1866ء) میں انبالہ کا مقدمہ وہابیت چلایا گیا تو علمائے صادق پور اور دیگر اعیان اہل حدیث گرفتار ہوئے۔ مولانا بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ راولپنڈی جیل میں ایک سال تک قید رہے۔ پھر آپ کو رہا کر دیا گیا۔
جیل میں بھی آپ کا درس جاری رہا چنانچہ عطاء اللہ طالبِ علم نے جیل میں آپ سے بخاری شریف پڑھی اور قرآن مجید حفظ کیا۔
حجِ بیت اللہ
1300 ہجری میں میاں صاحب حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ آپ کے مخالفین وہاں بھی پہنچ گئے۔ میاں صاحب نے تین دن تک منیٰ میں قیام فرمایا اور سب و روز وعظ کہا جس میں شرک و بدعت سے اجتناب۔ عمل بالحدیث کی ترغیب اور رسوماتِ بد کی اصلاح کا بیان تھا۔ ان وعظوں سے مخالفین نےآپ کو قتل کرنے کی سازش کی۔ رفقاء و خدام نے روکا تو فرمایا، "سنو صاحب! بہت جی چکا اب زندگی کی تمنا نہیں۔
امام نسائی بھی مکہ میں شہید ہوئے تھے۔ اس جرم میں جہاں میرے قتل کا منصوبہ بن رہا ہے، میں ہر وقت قتل ہونے کو تیار ہوں، مگر تبلیغ سے باز نہ آؤں گا۔"
آپ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ جانا چاہتے تھے کہ مخالفین نے غوری پاشا حاکمِ حجاز کے پاس جا کر شکایت کی کہ یہ غیر مقلد نجدی ہے۔ میاں صاحب کو طلب کیا گیا تو آپ نے اپنا کتاب و سنت پر مبنی عقیدہ وضاحت سے بیان کیا۔ وہ بہت متاثر ہوا اور اس نے امیرِ مدینہ کو خط لکھ کر بھیجا کہ میاں صاحب کا احترام کرے اور خود معذرت کی اور طلبِ عفو کے ساتھ اپنے حق میں دعاء خیر بھی چاہی۔
آپ کچھ دن مدینہ قیام فرما کر واپس ہندوستان تشریف لے آئے۔ حافظ مولانا ڈپٹی نذیر احمد صاحب (مترجم قرآن) نے فرمایا، "جب حجاز سے واپس تشریف لائے تو اسٹیشن پر استقبال کرنے کے لیے دس قدر لوگ آئے کہ پلیٹ فارم کا ٹکٹ ختم ہو گیا۔ کار پردازانِ اسٹیشن حیران تھے کہ کس کی آمد آمد ہے۔
حکومت کی طرف سے خطاب
مھرم سئہ 1315ھ (جون 1897ء) میں آپ کو انگریز گورنمنٹ کی طرف سے "شمس العلماء" کا خطاب دیا گیا آپ کو آگاہ کیا گیا تو فرمایا، "ہم غریب آدمی خلعت و خطاب لے کر کیا کریں گے، خلعت و خطاب تو بڑے لوگوں کو ملنا چاہئے۔"
اس گفتگو کے بعد فرمایا "اچھا صاحب آپ حاکم ہو جو چاہو کرو۔" آپ "میاں صاحب" یا نذیر حسین کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے۔
اخلاق و عادات
طلباء سے ہمیشہ حسنِ سلوک سے پیش آتے۔ آپ کی شہرت سن کر مختلف مقامات سے طلباء علم حاصل کرنے کے لیے آتے۔ ان کو آپ کے مدرسہ کا علم نہ ہوتا تو اکثر اوقات خود اسٹیشن پر موجود ہوتے اور طلباء سے معلوم کر کے انہیں، ان کا سامان اٹھا کر، اپنے ساتھ لاتے۔ بعد میں انہیں پتہ چلتا کہ یہ سید صاحب ہی تھے۔ مولانا عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ جن کے متعلق مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے یوں اظہار فرمایا:
«لَم يُوْجَدُ مِثْلُهُ فِى زَمَانِهِ وَلَا بَعْدَهُ فِى عِلْمِهِ وَفَضْلِهِ وَخُلْقِهِ وَحِلْمِهِ وَ تَوَاضُعِهِ وَكَرَمِهِ وَكَثْرَةِ عِبَادَتَهِ لِرَبِّهِ»
آپ کے دشمن بھی اگر آپ سے کوئی ضرورت بیان کرتے تو پوری کر دیتے۔ جب بازار جاتے تو راستے میں جاتے ہوئے فرماتے، "نذیر حسین بازار جا رہا ہے، کوئی چیز منگوانی ہو تو منگوا لو۔" عورتیں اپنے کپڑے اور پیسے دے دیتیں، سید صاحب ان کا سامان لے آتے۔
سرسید احمد خاں آپ کے اخلاقِ عالیہ کے متعلق یوں رقمطراز ہیں:
"زبدہ اہلِ کمال، اسوہ اربابِ فضل و افضال، مولوی نذیر حسین صاحب بہت صاحبِ استعداد ہیں، خصوصا فقہ میں ایسی استعداد کامل بہم پہنچائی ہے کہ اپنے نظائر و اقران سے گوئے سبقت لے گئے ہیں اور روایت کشی میں بے نظر ہیں۔ باوجود اس کمال اور اس استعداد کے مزاج میں خاکساری اور حلم گویا کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ باعتبار سنِ کے جوان اور باعتبار طبیعت کے حلیم
امن پسندی
آپ کے ہم عصر بھی آپ کے اخلاق اور علمی عظمت کے قائل اور اس سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ خواجہ غلام فرید پاکپتن والے بھی آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ حضرت خواجہ محمدبخش نے عرض کیا کہ حضور لوگ مولوی نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کو غیر مقلد اور وہابی کہتے ہیں وہ کیسے آدمی ہیں؟
آپ نے فرمایا:
"سبحان اللہ! وہ تو ایک صحابی معلوم ہوتے ہیں۔ کسی شخص کی عظمت کے لیے یہی کافی دلیل ہے کہ دنیا میں اس کی مانند کوئی نہ ہو۔ چنانچہ آج کل کے زمانے میں علمِ حدیث میں ان کا کوئی نظیر نہیں ہے۔ نیز وہ اس قدر بے نفس ہیں کہ اہل اسلام کے کسی فرقے کو برا نہیں کہتے۔ یہ بات کس میں ہے؟ اب اگرچہ وہ بہت ضعیف ہو چکے ہیں، تاہم وہ اپنا کام خود کرتے ہیں حتیٰ کہ مہمان کو کھانا بھی خود اٹھا کر دیتے ہیں۔ وہ کسی شخص سے یہ نہیں پوچھتے کہ تم صوفی ہو یا کیا مذہب رکھتے ہو۔"
آپ کا ذہن تخریبی نہ تھا بلکہ تعمیری تھا۔ تفریق کو پسند نہ فرماتے تھے۔ دہلی میں رہتے ہوئے اور تلامذہ کا حلقہ وسیع ہونے کے باوجود مدت العمر شاہی مسجد کے حنفی امام کے پیچھے نماز جمعہ ادا فرماتے رہے الگ خطبہ جمعہ نہ دیا۔ شاہی (مغل) دربار تک رسائی کے باوجود اپنا علیحدہ حلقہ جمعہ قائم نہ کیا۔ جوں ہی آپ کی وفات ہوئی، آپس کی آویزش کی بناء پر احناف اور اہل حدیث کے دہلی میں متعدد جمعے قائم ہو گئے۔ تبحر علمی کے باوجود کبھی بھی مناظرہ بازی پر نہ اترے حالانکہ دہلی میں علماء کی کثرت تھی۔ آپ کی طبیعت ہمیشہ ہی امن و سکون کی متلاشی اور جویا رہتی۔ کبھی کسی سے سخت الفاظ استعمال نہ کیے۔
طلباء سے حسنِ سلوک
میاں صاحب طلباء سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتے۔ ان کی ضروریات خود پوری کرتے مدرسہ میں ایک دفعہ کچھ لحاف آئے آپ نے سب طالبعلموں میں تقسیم کر دیے۔ ایک طالب علم رہ گیا جو بعد میں پہنچا آپ نے اپنا لحاف اس کو دے دیا۔
﴿وَيُؤثِرونَ عَلىٰ أَنفُسِهِم وَلَو كانَ بِهِم خَصاصَةٌ...﴿٩﴾... سورة الحشر
حافظ عبدالمنان وزیر آبادی مشہور محدث آپ کے نابینا شاگرد تھے۔ آپ ان کا کام اس طرح سے کرتے کہ ان کو پتہ بھی نہ چلتا۔ دوسروں کے بتانے سے پتہ چلتا کہ میاں صاحب نے یہ کام کیا ہے۔ دورانِ تدریس میاں صاحب کو جب کسی کتاب کی ضرورت پڑتی تو خود اٹھ کر جاتے اور اٹھا لاتے۔ بازار سے اپنا سامان لاتے تو طالب علم اٹھانے کو کہتے تو فرماتے "صَاحِبُ الْحَاجَةِ اَحَقُّ بِهَا"
مولانا محمد حسین بٹالوی سید صاحب کے معروف شاگرد بیان کرتے ہیں کہ ان کے گھر میاں صاحب تشریف لاتے تو زمین پر بیٹھ جاتے۔ اگر انہیں بستر پر بیٹھنے کے لیے کہا جاتا تو فرماتے کہ "فقیروں کے لیے امراء کی نشستوں پر بیٹھنا جائز نہیں۔"
جب بہت بوڑھے ہو گئےتو ان کے مداح عطاءاللہ تاجر نے کہا کہ آپ کے لیے آرام دہ تکیہ بنا دیا جائے کہ سہارے سے حدیثِ نبوی پڑھا سکیں تو آپ نے فرمایا آپ پرانی ویران قبر کی مرمت کرنا چاہتے ہیں، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
آپ کا عمل اس حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا:
«كُنْ فِى الدَُنْيَا كَاَنَّكَ غَرِيْبٌ اَوْ عَابِرُسَبِيْلٍ»
طہارت و عبادت
آپ ہمیشہ باوضو رہتے اگرچہ نماز کا وقت نہ ہوتا۔ آپ تہجد کی نماز ادا کرتے اور پھر مسجد میں آ کر ذکر کرتے۔ صبح کی نماز تک ذکر میں مشغول رہتے اس کے بعد نماز پڑھتے اور پھر تاویلات قرآن مجید کرتے، تفسیر اور حدیث پڑھاتے۔ گیارہ بجے گھر جاتے۔ کھانا کھا کر بارہ بجے واپس آ جاتے اور شام تک تدریسِ حدیث کا شغل جارہ رہتا۔ بعد میں گھر جاتے اور کھانے کے بعد حاجاتِ ضروریہ سے فارض ہو کر مسجد میں آ جاتے اور نمازِ عشاء ادا کرتے۔ آپ نماز میں بہت عجز و انکسار سے کام لیتے۔ رمضان شریف میں ذوقِ عبادت و تدریس اور بڑھ جاتا۔ شام تک لگاتار حدیث پڑھاتے۔ رات کو قیامِ رمضان میں قرآنِ مجید سنتے۔
تلامذہ
سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کے طالب علموں کی تعداد ہندو بیرونِ ہند میں ہزاروں تک ہے۔ اندرونِ ہند میں سید شریف حسین، مولانا عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا عبدالواحد غزنوی، مولانا محمد بشیر شہسوانی، غلام رسول پنجابی، مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ، مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی، حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا سعادت حسین بہاری، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی، مولانا تلطف حسین، مولانا ابوالطیب شمس الحق ڈیانوی صاحبِ عون المعبود شرح سنن ابی داؤد، مولانا ابوعلی عبدالرحمن مبارک پوری مؤلف تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی وابکار المنن وغیرہ، میاں صاحب کے فیض یافتہ ہیں۔
بیرونِ ہند میاں صاحب کے شاگرد
کابل میں مولانا عبدالحمید، مولوی اخوان، مولوی شہاب الدین اور مولوی عبدالرحیم، یاغستان میں مولوی محمد حسین، بخارا میں ملا رجب علی ، سمرقند میں ملا جلال الدین، غزنی میں ملا شہاب الدین، قندھار میں ملا عبدالرحمن، ہرات میں مولانا عزالدین، حجاز میں شیخ عبدالرحمن بن عون نعمانی، نجد میں شیخ اسحاق بن عبدالرحمن، سوڈان میں شیخ علی بن قاضی، ۔۔۔ اور شیخ عبداللہ بن ادریس وغیرہ ہیں۔
احترامِ علماء: آپ اپنے ہم عصر علماء اور سلف کا ذکر نہایت اچھے انداز سے کرتے۔ اگر کسی پر تنقید کرنی ہوتی تو اس کے لیے بھی نہایت اچھا انداز اختیار کرتے۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ طالبِ علم کے زمانہ میں ان کی زیارت کے لئے دہلی گیا، ان سے مل کر انہیں بتایا کہ ان سے ملنے آیا ہوں تو فرمایا "کہاں ٹھہرے ہو"؟ بتایا "دوست کے ہاں"، تو فرمایا مجھے شکایت ہے کہ ملنے مجھے آئے ہو اور کسی اور کے پاس ٹھہرے ہو۔"
ایک اور جگہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک مقام پر علامہ ابن ہمام حنفی کا ذکر ہوا ان پر تنقید ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ایسے عالم کا نام اچھے انداز میں لیا جائے۔ آپ کبھی بھی کسی عالم کی شان میں سوء ادبی نہ فرماتے تھے۔ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے لئے دعاء مغفرت فرماتے:
﴿رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٠﴾... سورةالحشر
وفات: دہلی میں 1320ھ مطابق اکتوبر 1902ء، سو برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔ آپ کو عید گاہ کی پچھلی جانب محلہ شیدی پورہ میں دفن کر دیا گیا۔ آپ کی تعلیمات کے آثار بصورتِ فتاویٰ و کتب موجود ہیں۔
"تلك اثارنا تدل علينا" فانظروا بعدنا الى الاثار"
حوالہ جات
البشری بسعادۃ الدارین مصنف محمد اشرف سندھو، بلوکی لاہور
سنن ابی داؤد مع حاشیہ عون المعبود جلد اول صفحہ 3 شمس الحق ڈیانوی دارالکتب عربی بیروت لبنان
البشری بسعادۃ الدارین، محمد اشرف سندھو
البشری بسعادۃ الدارین محمد اشرف سندھو
البشری بسعادۃ الدارین محمد اشرف سندھو صفحہ 37
البشری بسعادۃ الدارین محمد اشرف سندھو صفحہ 41
تاریخ اہل حدیث صفحہ 418 حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی
ایضا
البشری بسعادۃ الدارین صفحہ 53
موضِ کوثر صفحہ 80۔ شیخ اکرم
البشری بسعادۃ الدارین صفحہ 62
البشری بسعادۃ الدارین صفحہ 62
روزنامچہ 1857، مؤلفہ عبداللطیف بحوالہ معیار الحق صفحہ 4
روزنامچہ 1857، مؤلفہ عبداللطیف بحوالہ معیار الحق صفحہ 104
الحیات بعد الممات صفحہ 79 مصنف مولانا فضل حسین بہاری سئہ 1959، سئہ 1379ھ
الحیات بعد الممات صفحہ 79 مصنف مولانا فضل حسین بہاری
البشری بسعادۃ الدارین صفحہ 59
مشکوۃ شریف صفحہ 447 کتاب الرقاق، باب فضل الفقراء
سوانح عمری عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ بحوالہ تراجم علماء حدیث ہند صفحہ 145۔ امام خاں نوشہری
موجِ کوثر صفحہ 81 شیخ اکرم صاحب
تاریخِ اہل حدیث صفحہ 420، ابراہیم میر سیالکوٹی
تاریخِ اہل حدیث صفحہ 421
موجِ کوثر صفحہ 81 شیخ اکرم
مقدمہ تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی صفحہ 28 مولانا عبدالرحمن مبارک پوری، بیروت لبنان
البشری بسعادۃ الدارین
آثار الصنادید صفحہ 278، سرسید احمد خاں، ترتیب ڈاکٹر معین الحق، پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی سئہ 1966
اشتہاراتِ فریدی مقابیس المجالس، ملفوظات حضرت خواجہ غلام فرید کا مکمل و مستند مجموعہ۔ سیال اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور سئہ 1399ھ (سئہ 1979ء)
معیار الحق
البشری بسعادۃ الدارین صفحہ 66
مشکوۃ
البشریٰ ۔۔۔۔۔ صفحہ 94
ہندوستان میں اہل حدیث علماء کی علمی خدمات صفحہ 21
ہندوستان میں اہل حدیث علماء کی علمی خدمات صفحہ 2 امام خان نوشہروی
اشرف السوانح صفحہ 123
اشرف السوانح صفحہ 124
قرآن مجید