«كُنْ فِى الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبُ»

موجودہ دور میں مال و دلت، ساز و سامان اور منفعتِ دنیوی کے حصول کے لیے دوڑ جس شدت سے جاری ہے۔ بعض دفعہ اس کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا کوئی بہت ہی قیمتی متاع لوگوں سے چھن گئی ہے، جس کے تعاقب میں یہ ہر ممکن تیزی کے ساتھ روانہ ہو کر اسے حاصل کر لینا چاہتے ہیں ۔۔۔ یا کوئی انتہائی خوفناک بلا خود ان کے تعاقب میں ہے، جس سے یہ جتنی جلد ممکن ہو سکے دور اور دور نکل جانا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن کاش وہ اس حقیقت کا ادراک کر سکتے کہ محض مال و دولت کے حصول یا مالی خسارہ سے بچ نکلنے کے لیے یہ اضطراب ایک مومن کے کسی طرح بھی شایانِ شان نہیں، ہاں جو اصل قیمتی متاع ان سے چھن چکی جس کا انہیں احساس ہی نہیں اور جس کو پا لینا اب کسی کے بس کی بھی بات نہیں رہی، اس کا نام "وقت" ہے ۔۔۔ جو گھڑی گزر چکی پھر کبھی ہاتھ نہ آ سکے گی۔

﴿وَالعَصرِ‌ ﴿١﴾ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ﴿٣﴾... سورة العصر

"زمانے کی قسم، بے شک انسان خسارے میں ہے، ہاں وہ لوگ اس خسارے سے (یقینا) محفوظ ہیں جنہوں نے ایمان کو اختیار کر لیام اعمالِ صالحہ انجام دیے اور حق و صبر کی وصیت کو انہوں نے اپنا شعار بنا لیا۔"

کیا آپ نے کبھی کسی ایسے برف بیچنے والے کو دیکھا ہے جو وسطِ بازار میں کھڑا چلا رہا ہو کہ "لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرا قیمتی سرمایہ صنائع ہونے سے بچالو، اگر چند منٹ کے اندر اندر تم نے اس برف کو خرید نہ لیا، تو میری یہ تمام پونجی پانی بن کر بہ جائے گی اور پھر میں تہی دست و تہی داماں رہ جاؤں گا" ۔۔۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کسی بزرگ کے متعلق لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کی سورۃ العصر کی تفسیر انہیں ایک ایسے ہی برف کے سوداگر کو دیکھ لینے کے بعد فورا سمجھ میں آگئی تھی۔

۔۔۔ اسی طرح اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ وہ خوفناک بلا، جس سے بچ نکلنے کے لیے لوگ تیز سے تیز تر دوڑے جا رہے ہیں، مالی خسارہ نہیں، بلکہ موت ہے، جو ہر وقت تعاقب میں ہے اور جس سے بچ نکلنا کسی کے لیے بھی محال، بلکہ ناممکن ہے۔

﴿قُل إِنَّ المَوتَ الَّذى تَفِرّ‌ونَ مِنهُ فَإِنَّهُ مُلـٰقيكُم...﴿٨﴾... سورةالجمعة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان اس دنیا میں آکر نہ جانے کن مشاغل میں مصروف ہو گیا ہے؟ موت اس کے تعاقب میں ہے اور قبر کا تاریک مدفن اس کے سامنے ۔۔۔ کس قدر احمق ہے، وہ مسافر جو زندگی کے لق و دق صحرا میں سفر کرتا کرتا کسی شجر سایہ دار کو دیکھ کر اس کے نیچے گھڑی دو گھڑی آرام کر لینے کی تمنا کو دبا نہیں سکتا، لیکن سکون کے چند لمحات گزار لینے کے خیال میں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ آیا کہاں سے ہے اور اسے جانا کہاں ہے؟ ۔۔۔ جہاں سے آتا ہے، کیوں آیا ہے؟ ۔۔۔ اور جہاں جانا ہے، وہاں کن حالات سے اس کا سابقہ پڑنے والا ہے؟

۔۔۔«الدنيا مزرعة الأخرة» ۔۔۔ یہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے، یہاں جو کچھ بویا، وہاں وہی کاٹنا بھی ہے۔۔۔ انہی اعمال کے نتیجے میں یا تو ابدی مسرتیں ہیں یا ابدی نامرادیاں ۔۔۔ اس زندگی کا اصل مقصد تو یہی ہے جسے بری طرح فراموش کر دیا گیا ہے، اگر زندگی کی ان مہلتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں عارضی آسائشوں کی نذر کر دیا گیا تو مقصودِ حیات کب، کہاں اور کیسے حاصل ہو گا؟ ۔۔۔ رسولِ رحمت، نبی امی، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کی نقاب کشائی ان الفاظ میں فرمائی ہے:

«كُنْ فِى الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبُ اَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ »

کہ "(یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں) یہاں تجھے اس طرح رہنا چاہئے گویا تو ایک غریب الدیار، یا راہ چلتا مسافر ہے"

کیا زندگی کی ان طویل مصروفیات میں اس تلخ حقیقت کی طرف تھوڑی سی توجہ دے ڈالنے کی بھی آپ کے پاس گنجائش موجود ہے؟