نماز میں ہاتھ زیرِ ناف باندھنا اور جہر سے نماز میں بسم اللہ پڑھنا

چک نمبر 346 گ۔ب (فیصل آباد) سے ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ احناف حضرات نے ایک اشتہار کے ذریعے یہ کہا ہے، نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے اور بسم اللہ کو جہرا نہیں پڑھنا چاہئے۔ دلائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیثیں پیش کی ہیں۔

1۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا:

کیا واقعی نماز میں، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؟

«ان علينا قال السنة وضع الكف على الكف فى الصلاة تحت السرة»(ابوداؤد،ص48)

2۔ بسم اللہ کا نماز میں جہرا پڑھنا:

حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، میں نے ان میں سے کسی کو بھی اونچی آواز میں بسم اللہ پڑھتے نہیں دیکھا۔ «فلم اسمع احدا منهم يقرأ بسم الله الرحمٰن الرحيم»(صحيح مسلم ج1 ص191) صحیح کیا ہے؟

الجواب: حضرت علی رضی اللہ عنہ والی روایت ضعیف ہے، امام زیلعی حنفی متوفی 762ھ نصب الرایہ التخریج احادیث الہدایہ صفحہ 314/1 میں لکھتے ہیں کہ اس میں عبدالرحمن بن اسحاق نامی ایک راوی ہے جو ضعیف ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ، امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن القطان رحمۃ اللہ علیہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ ضعیف راوی ہے اور اس میں دوسرا راوی زیاد بن زید ہے جو مجہول ہے۔ کچھ نہیں معلوم کون ہے؟ امام نووی فرماتے ہیں، یہ بالاتفاق ضعیف ہے۔

"قال فيه ابن حنبل ، وأبو حاتم : منكر الحديث ، وقال [ ص: 433 ] ابن معين : ليس بشيء ، وقال البخاري : فيه نظر ، وزياد بن زيد هذا لا يعرف ، وليس بالأعسم انتهى قال البيهقي في " المعرفة " : لا يثبت إسناده ، تفرد به عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي ، وهو متروك ، انتهى . وقال النووي في " الخلاصة وفي شرح مسلم " : هو حديث متفق على تضعيفه ، فإن عبد الرحمن بن إسحاق ضعيف بالاتفاق انتهى . "(نصب الراية صفحة 314ج1)

ہدایہ کا مقام حنفیہ کے نزدیک وہی ہے جو اہل حدیثوں کے نزدیک صحیح بخاری کا ہے۔ اسی طرح ہدایہ کے شارح حضرت امام زیلعی حنفی کا وہی مقام ہے جو اہل حدیثوں کے نزدیک امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ شارح ہدایہ کی مندرجہ بالا عبارت کو پڑھ کر خود اندازہ فرما لیجئے کہ ان کی پیش کردہ روایت کا کیا حشر ہوا ہے؟

امام ابن حجر عسقلانی: دوسرے امام ابن حجر ہیں جو عظیم محدث، شارح بخاری اور فنِ حدیث کے امام ہیں۔ انہوں نے بھی ہدایہ کی احادیث کی تخریج پر کتاب لکھی ہے جن سے زوائد نصب الرایہ کی تلخیص کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے اور وائل بن حجر کی روایت جو سینہ پر ہاتھ باندھنے والی ہے وہ بھی اس سے ٹکراتی ہے:

"اسناده ضعيف ريعارضه حديث وائل بن حجر"(الدراية فى تخريج احاديث الهديةص69)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور وَٱنْحَرْ کی تفسیر:

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت «وضع الكف على (الاكف» والی روایت اس لحاظ سے بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی کہ انہون نے ﴿فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانحَر‌ ﴿٢﴾... سورةالكوثر" کی تفسیر سینہ پر ہاتھ باندھنے سے کی ہے، اس کے لیے تفسیر در منثور وغیرہ اٹھا کر ملاحظہ فرما لیں: امام بخاری نے اپنی تاریخ میں عقبہ بن صبہان کے سوانح بیان کرتے ہوئے یہ تفسیر نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

"عن عقبة بن صهبان عن على﴿فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانحَر‌ ﴿٢ وضع يده اليمنىٰ على وسط ساعده اليسرى على صدره"(فتح الغفور ص3)

امام حلبی حنفی:

منیۃ المصلی کے شارح ابراہیم الحلبی متوفی 956ھ فرماتے ہیں کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اس حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام اماموں کا اتفاق ہے اور اس کے راوی کے ضعیف ہونے پر بھی اجماع ہے۔

"رواه ابوداؤد واحمد واللفظ له قال النووى اتفقوا على تضعيفه لانه من رواية عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطى مجمع على ضعفه"(غنية المستملى ص294)

امام سندی و امام ابن الہمام حنفی:

نزیل مدینہ منورہ امام محمد بن عبدالہادی حنفی متوفی سئہ 1138ھ فرماتے ہیں، اس حدیث کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔ امام ابن الہمام حنفی نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ قول نقل کر کے اس پر سکوت فرمایا ہے:

«وأما حديث أن من السنة وضع الأكف على الأكف في الصلاة تحت السرة فقد اتفقوا على ضعفه كذا ذكره ابن الهمام نقلا عن النووي وسكت عليه»(سندى على ابن ماجه ص271)

مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی (1352ھ)

مولانا موصوف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ والی حدیث ضعیف ہے اور یہ کہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے دو نسخوں میں دیکھا ہے، مجھے یہ روایت نہیں ملی:

«واما فى تحت السرة قلنا اثر على فى سنن ابى داؤد بسند ضعيف واقول اني رأيت نسختين من مصنف ابن ابي شيبة فما وجدت لفظ"تحت السرة فيهما (العرف الشذى شرح الترمذى صحفه 131ج1»

وائل بن حجر والی روایت:

اس کی تائید میں وائل بن حجر والی روایت بھی پیش کی جاتی ہے، جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، اور اس کی سند بظاہر صحیح نظر آتی ہے مگر امام محمد حیات سندی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : "تحت السرۃ" والا ٹکڑا غلط ہے، اصل میں وائل والی روایت "وضع يمينه على شماله فى الصلاة" تک ہے۔ اس کے نیچے امام نخعی کا اثر لکھا ہے کہ وہ "تحت السرۃ" (ناف کے نیچے) ہاتھ باندھتے تھے، کاتب کی نگاہ اچٹ کر اس پر پڑ گئی اور اسے یہاں سے اٹھا کر، وائل والی روایت کے ساتھ غلطی اور سہو سے جوڑ دیا کیونکہ باقی الفاظ اس کے یکساں ہیں۔

فیض الباری میں امام سندی کے اس قول کے امکان کو تسلیم کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ سہو کاتب کے نتیجہ میں نیچے کے اثرِ نخعی کا لفظ "تحت السرۃ" اوپر کی مرفوع روایت سے جڑ گیا ہو، فرماتے ہیں، کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے تین نسخے دیکھے ہیں، مجھے ان میں "تحت السرۃ" کا جملہ نہیں ملا:

«ثم ان لفظ تحت السرة، لم يوجد فى بعض نسخه فظن الملا حياة السندى هى انه وقع فيه سقط وحذف ثم صارمتن الاثر مرفوعا قلت ولا عجب ان يكون كذلك فانى راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدته فى واحدة منها»(فيض البارى صحفه 26ج2)

علامہ نیموی:

مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی حنفی کے استاذ محمد بن علی النیموی فرماتے ہیں، سند صحیح بھی مان لی جائے تب بھی "تحت السرۃ" ضعیف ہے:

"وان كان صحيحا من حيث السند لكنه ضعيف من جهة المتن" النعليق الحسن صفحه 71)

گو یہ رائے ظاہر کر کے موصوف پچھتائے ہیں اور تعلیق التعلیق میں اس کی ایک توجیہ پیش کی ہے مگر "سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹا کر" والی بات بن گئی ہے۔

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ

نیل الاوطار میں حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ یمانی متوفی 1255ھ فرماتے ہیں، حضرت امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے سنا ہے، وہ اس روایت کو ضعیف بتاتے تھے، یعنی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ والی ان کے نزدیک ضعیف ہے۔

"قال ابوداؤد سمعت احمد بن حنبل بضعفه" نيل الاوطار ص158ج2)

وائل بن حجر والی روایت:

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والے حضرات کی دوسری دلیل مصنف ابنِ ابی شیبہ کی وائل بن حجر والی روایت ہے۔۔۔ جو سہو کاتب کے نتیجے میں محلِ نزاع بن گئی ہے۔

علامہ محمد حیات سندی حنفی فرماتے ہیں "تحت السرۃ" والی روایت بیکار ہے یعنی حضرت وائل بن حجر والی روایت میں "تحت السرۃ" کا لفظ امام نخعی کی روایت کا جملہ ہے کیونکہ اوپر نیچے درج ہیں۔ سہوا نیچے کا جملہ وائل والی روایت سے ھوڑ دیا گیا ہے ورنہ بعینہ یہی روایت حضرت احمد بن حنبل نے بھی اپنی مسند میں روایت کی ہے مگر اس میں "تحت السرۃ" کے الفاظ نہیں ہیں، وہ فرماتے ہیں، اصل کتاب بھی میں نے اٹھا کر دیکھی تو اس میں بھی "تحت السرۃ" نہیں ہے، پھر فرماتے ہیں کہ مصنف ابن ابی شیبہ سے امام زیلعی حنفی، امام عینی حنفی، امام ابن الہمام حنفی، امام ابن امیر الحاج حنفی، امام ابراہیم جلی حنفی، امام بن نجیم حنفی، امام ملا علی قاری، امام ابن عبدالبر مالکی، امام ابن حجر عسقلانی شافعی، امام نووی شافعی، غرض امام قاسم بن قطلوبغا کے بغیر اور کوئی بھی امام اس روایت کو "تحت السرۃ" کے ساتھ نقل نہیں کرتے بلکہ امام ابن الہمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ مایوسی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں ملتی۔ اگر وائل کی تحت السرۃ والی روایت اس میں ہوتی تو وہ یوں مایوسی کا اظہار نہ کرتے، چنانچہ امام حلبی لکھتے ہیں:

"قال الشيخ كمال الدين ابن الهمام كون الوضع تحت السرة او الصلة لم يثبت فيه حديث يوجب العمل "(غنية المستملى ص294)

اس سلسلے کی مزید تفصیل کے لیے امام سندی کی کتاب "فتح الغفور فى تحقيق وضع اليدين على الصدور" کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔

مصنف ابنِ ابی شیبہ

یہ کتاب اب چھپ چکی ہے، جو اس وقت ہمارے سامنے رکھی ہے، اس میں بھی "تحت السرۃ" نہیں ہے۔ ہاں اس کے بعد نخعی کی روایت میں ہے، روایت کی شکل یوں ہے:

«حَدَّثَنَا: وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ . حَدَّثَنَا: وَكِيعٌ، عَنْ رَبِيعٍ عَن اَبِى مَعْشَرٍ عَن اِبْرَاهِيمَ ، قَالَكَانَ يَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ» مصنف ابن ابى شيبة ج1 ص390)

یہ مطبوعہ کتاب ہے، یہ کسی اہل حدیث نے نہیں چھاپی، عبدالخالق افغانی حنفی نے چھاپی ہے۔ وائل کی روایت میں "تحت السرۃ" نہیں ہے، لیکن نقل کرتے ہوئے سطر سے نگاہ پھسل کر "تحت السرۃ" پر جا پڑی ہے۔ جب وائل بن حجر والی روایت "فی الصلوۃ" پر ختم ہوئی تو بعد میں امام نخعی والی روایت کا جملہ "تحت السرۃ" سہوا اس سے جڑ گیا۔ یہ ہے اس افسانہ کا سارا پس منظر۔

سینہ پر ہاتھ باندھنا

یہی سنت ہے اور مجموعی لحاظ سے جو ثابت ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہاتھ سینے پر باندھے جائیں۔

1۔ وائل بن حجر

«قال وائل بن حجر صليت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم -فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره.»رواه ابن خزيمة وصححه نيل ص158ج2)

حضرت وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ نے داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینہ پر باندھا تھا۔"

2۔ قبیصہ بن ھلب

قبیصۃاپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سینہ پر ہاتھ باندھتے دیکھا تھا:

«رأيته يضع هذه على صدره»(رواه احمد واسناده حسن)

طاؤس

فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سینہ پر ہاتھ باندھا کرتے تھے۔

«كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يضع يده اليمنى على يده اليسرى، ثم يشدها على صدره، وهو في الصلاة»(رواه ابوداؤد فى مراسيله)

حضرت وائل اور قبیصہ والی روایت سے بھی اس کو تقویت ملتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر وانحر بھی اس کی مؤید ہے۔

امام سندی فرماتے ہیں، گو یہ روایت مرسل ہے تاہم یہ سب کے نزدیک حجت ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہاتھ باندھنا سنت ہے اور صرف سینہ پر باندھنا صحیح ہے اور نہیں۔

"وهذا الحديث وان كان مرسلاً لكن المرسل حجة عند الكل وبالجملة فكما صح ان الوضع هو السنة دون الارسال ثبت ان محله الصدر لاغير"(سندى ابن ماجه ج1ص270)

الغرض ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایت کسی صحیح اور مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ہاں سینہ پر ہاتھ باندھنے والی روایت ثابت ہے۔ پہلی پر مزید علمی بحث کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ طوالت کا اندیشہ ہے۔ ہاں اتنی سی بات ذہن میں رہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھیں یا ناف کے نیچے، وہ آپ جانیں اور آپ کی دیانتدارانہ تحقیق، اس کے مطابق عمل کریں لیکن یہ یاد رہے کہ دل اور پیٹ کی حفاظت ضرور کیجئے، ان کا رخ خدا کی جانب رہے اور اس میں حرام نہ جگہ پکڑے، ورنہ اگر ظاہری جسم میں غلاظت کے چھینٹوں کے ساتھ نماز جائز نہیں رہی تو دل اور پیٹ حرام کے نشیمن رہیں تو ان کے ساتھ نماز کہاں جائز ہو گی؟ سینہ یا ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا بے شک مختلف فیہ ہے لیکن دل اور پیٹ کو پاک صاف رکھنے میں کوئی اختلاف نہیں، سوچ لیجئے

اونچی آواز سے بسم اللہ پڑھنا

ہمارے نزدیک بسم اللہ کا پڑھنا دونوں طرح سے ثابت ہے لیکن ترکِ جہر کی روایات زیادہ ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔ اس لیے کبھی کبھار بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا بھی ممنوع نہیں ہے، بلکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے تعامل کے عین مطابق ہے۔ اکثر نہ پڑھیں، کبھی کبھی پڑھ لیا کریں۔ رہا جہاں اس سنت میں احیاء مقصود ہو تاکہ عوام پر واضح ہو جائے کہ یہ بھی سنت ہے۔ وہاں حسبِ حال جہر سے پڑھتے رہنے میں دوہرا اجر ہو گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ

بسم اللہ کا دائرہ محدود نہ رکھئے، زندگی کے ہر کام کے آغاز میں اس کی تلاوت مسنون ہے۔ اگر آپ اس کا التزام کر لیں تو یقین کیجئے بہت سے ناجائز کام اور بدمشاغل چھوٹ جائیں گے۔ آزما کر دیکھ لیجئے، جو کام زیادہ نتیجہ خیز ہیں ان کی طرف آپ توجہ نہیں دیتے۔ بہرحال نزاع برائے فرقہ واریت کارِ خیر نہیں ہے بلکہ فی سبیل اللہ فساد کی ایک شکل بن رہی ہے۔ کاش مسلمانوں کو فرقہ واریت سے ہٹا کر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیق کا ذوق اور اس پر عمل کرنے کا شوق ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)


ا۔ بعض جگہ اذان کی آواز کے ساتھ ایک یا کئی کتے رونا یا ویسی ہی آواز نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

ب۔ ایک قصبہ میں سات اذانیں ہوتی ہیں مگر کسی ایک مؤذن کی اذان کے ساتھ ہی کتاب بولتا ہے دوسروں کی اذان کے ساتھ نہیں بولتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ آیا یہ قصور کتے کا ہے یا مؤذن کی خامی ظاہر ہوتی ہے۔ نیز ایسے کتے یا مؤذن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ (شیخ عبدالطیف، سیالکوٹ)

الجواب: بس یہ اتفاقات ہیں۔ ویسے بھی کتے کی یہ عادت ہے کہ ان کے کان میں کبھی اونچی آواز پڑے تو بسا اوقات وہ بول پڑتا ہے اور آوازیں نکالنا شروع کر دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فضاؤں میں وہ وہ چیزیں ان کو نظر آتی ہوں جو ہمیں نظر نہیں ا سکتیں جن کی وجہ سے وہ بھونکنا یا آوازیں نکالنا شروع کر دیتے ہوں۔

حدیث میں آتا ہے کہ جب اذان ہوتی ہے تو سنتے ہی وہ بدحواس ہو کر بھاگتا ہے:

«اذا نودى للصلوة ادبر الشيطان »(صحيح بخاري ومسلم)

ہو سکتا ہے کہ اس پر ان کی نظر پڑ جاتی ہو تو وہ بھونکنا شروع کر دیتا ہو۔ جیسا کہ مرغ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فرشتہ کو اور گدھا شیطان کو دیکھ کر بولتا ہے۔ بہرحال یہ بات ڈر یا خوف والی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کسی وہم کو کشید کرنا چاہئے۔