تعارف و تبصرہ کتب

فتاویٰ رحمان مولوی عبدالخالق اسد اللہ طور حصاری

صفحات 54

قیمت 2 روپے

پتہ شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضور سے بارہ ہی سوال صحابہ نے پوچھے تھے جو سب کے سب قرآن میں ہیں۔ اس کتاب میں بس انہی بارہ سوالات اور جوابات کی تشریح و توضیح ہے۔ کتاب کے شروع میں مؤلف نے "12" عدد کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے اور اس سے بھی پہلے اپنے سوانح اور تعارف کا تذکرہ ضروری سمجھا ہے۔

موضوع جتنا دلچسپ ہے، سامان اتنے دلچسپ نہیں ہیں۔ عبارت گنجلک، بات بوجھل اور ترتیب غیر جاذب ہی ہے۔ بایں ہمہ یہ پڑھنے کی چیز ہے (عزیز زبیدی)

(2)

نام کتاب آئینہ نبوت

مرتبہ جناب محمد منیر صاحب قمر سیالکوٹی

ضخامت 280 صفحات درمیانہ سائز

کتابت، طباعت، کاغذ عمدہ

ناشر بزم الہلال جامعہ سلفیہ لائل پور

قیمت درج نہیں ہے

مرکزی جمعیت اہل حدیث کی مرکزی درسگاہ جامعہ سلفیہ لائل پور کے طلبہ نے "بزم الہلا" کے نام سے ایک انجمن قائم کر رکھی ہے جو ایک مجلہ "الہلال" شائع کرتی ہے۔ یہ زیادہ تر طلبہ کی تحریری کاوشوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

زیر نظرِ کتاب اسی مجلہ "الہلال" کی خصوصی اشاعت ہے۔ اس کا موضوع سیرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم" ہے۔ اور یہ سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر لکھے ہوئے تقریبا پچاس مقالات کا مجموعہ ہے۔ بیشتر مضامین جامعہ سلفیہ کے ہونہار طلبہ کے لکھے ہوئے ہیں۔ ایسے پاکیزہ موضوع سے طلبہ کی دلچسپی بجائے خود قابلِ ستائش ہے۔ لیکن کتاب پر تبصرہ کرتے وقت ہم گویم مشکل وگرنہ گوئم مشکل" کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ایک طرف تو طلبہ کا اخلاص اور جذبہ حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس کے لیے وہ بجا طور پر تحسین اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔ دوسری طرف جب ہم قدم قدم پر زبان و بیان، املاء اور کتابت کی فاحش غلطیاں دیکھتے ہیں تو لامحالہ یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے کہ نہ موضوع کا حق ادا کیا گیا ہے، نہ مضامین کی تہذیب پر کما حقہ عرق ریزی کی گئی ہے اور نہ مناسب پروف ریڈنگ کی گئی ہے۔ ہم یہاں "مشتے نمونہ از خروارے" صرف چند غلطیوں کی نشاندہی پر اکتفا کریں گے۔

1۔ خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم غائب دان نہ تھے (صفحہ 253) یہ ایک مضمون کا جلی عنوان ہے۔ غیب دان کو "غائب دان" لکھنا افسوسناک ہے۔ مضمون کے اندر بھی کئی جگہ غیب کی جگہ غائب لکھا گیا ہے۔ صفحہ 255 پر حضرت ربیع بنت معوذ کی بجائے ربیعہ بنت معوذ قلمبند کیا گیا ہے۔

2۔ کتاب کے فاضل مرتب اور کئی دوسرے مضمون نگاروں نے جگہ جگہ "نہ ہی" کی ترکیب استعمال کی ہے۔ نہ کے معا بعد ہی استعمال زبان کے معائب میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح دھوکا کی بجائے جگہ جگہ دھوکا لکھا گیا ہے۔

3۔ صفحہ 17 کی آخری سطر کے بعد کچھ فقرے ترک ہو گئے ہیں۔

4۔ ایوان سناٹے میں آگئے ۔۔۔ مجوسیت کے اوراق خزاں جھڑنے لگے۔ ہر قسم کی پرستیاں اس وقت کی فطرت ثانیہ تھیں (صفحہ 18) یہ کیسی زبان ہے؟

5۔ شروع میں مسلمانوں نے ایک دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی (19) حالانکہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ مسلمانوں نے حبشہ کو دوبار ہجرت کی۔

6. "کئی دنوں کے دل گداز سفر کے بعد (صفحہ 19) پر صعوبت سفر کو دل گداز لکھنا ستم ظریفی ہے۔

7۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے شرف میزبانی بخشیں (صفحہ 19) یہاں مجھے کے بجائے اسے ہونا چاہئے تھا۔

8۔ ضلالت و گمراہی (صفحہ 38) ضلالت و گمراہی لکھنا چاہیے تھا۔

9۔ چچا کے ہمراہ سفر شام کی سعادت نصیب ہوئی" (صفحہ 39) بھلا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شام کا سفر کون سی سعادت کا باعث تھا۔

10۔ میں نے اس کے اندر ہر وہ نشانیاں اور خدوخال پائے جو پیغمبر کی نشانی ہماری کتب میں موجود تھی (صفحہ 40) یہ فقرہ زبان کے لحاظ سے یکسر غلط ہے۔

11۔ کمیٹی قائم کر کے یہ پاس کیا (صفحہ 40) پاس کیا کی بجائے عہد کیا زیادہ موزوں تھا۔

12۔ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہ اس طرح کھینچتی ہے (صفحہ 42) ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ہے کی بجائے ہیں لکھا جائے۔

13۔ بھوڑوں کا بھوج (صفحہ 42) یعنی چہ؟

14۔ جنگ طبوس 0صفحہ 48) ہم نے حرب بسوس کا نام تو سنا ہے لیکن "جنگ طبوس" کا نام کبھی نظر سے نہیں گزرا۔

15۔ آتشِ غضب پھڑک اٹھی (صفحہ 50) یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کہ بھڑک کی جگہ پھڑک لکھا گیا۔

16۔ اسمعیل سمیع اللہ (صفحہ 50) حضرت اسماعیل صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب ذبیح اللہ تھا۔

17۔ یہ لوگ (یعنی قریش) اونتوں، گھوڑوں ۔۔۔ کے ریوڑ لیے پھرتے تھے (صفحہ 48) یہ تمام قریش کا شعار نہیں تھا۔ قریش الظواہر کی زندگی بلاشبہ بد دیا نہ تھی لیکن قریش البطائح متمدن لوگ تھے اور ان کا مستقل قیام مکہ میں تھا۔

18۔ اور کوئی یہ کام سرنجام نہیں دے سکتا (صفحہ 50) اس کی بجائے "اور کوئی یہ کام نہیں کر سکتا" ہونا چاہئے تھا۔

19۔ ایک مشرک نے ۔۔۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو زخمی کر ڈالا۔۔۔ (صفحہ 53) واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ فی الحقیقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مشرک کو زخمی کیا تھا اس طرح وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے راہِ حق میں خونریزی کی۔

20۔ نچلہ درجہ (صفحہ 55) صحیح زبان "نچلے درجہ" ہے۔

21۔ حضرت خباب بن الارث رضی اللہ عنہ (صفحہ 56) صحیح نام خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ہے۔

22۔ حضرت ابو فکیہہ جہنی (صفحہ 56) حضرت ابو فکیہہ جہنی نہیں بلکہ ازذی تھے۔

23۔ حضرت جعفر بن طیار (صفحہ 57) حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا لقب طیار تھا اور ابوطالب کے بیٹے تھے۔

24۔ صفحہ 70 پر "مواخاۃ" کے عنوان کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے۔ وہ "عقد مواخاۃ" کے واقعہ کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاۃ قائم کرائی تھی۔

25۔ منافقین کے ساتھ نہایت رواداری کا سلوک برتتے ہوئے انہیں بے وقوف بنائے رکھا۔ (صفحہ 71) کیا فاضل مضمون نگار کو علم نہیں کہ کسی کو بے وقوف بنانے سے ذم کا پہلو نکلتا ہے وہ اپنا مافی الضمیر احسن پیرائے میں بھی بیان کر سکتے تھے۔

26۔ قیصر و کسریٰ کے تاجدار (صفحہ 69) یعنی چہ؟

27۔ مکی زندگی (محکوم کی زندگی) صفحہ 68، جناب نائب شیخ الحدیث سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ مکی زندگی کو محکوم کی زندگی قرار دیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محکوم سیاست دان لکھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کس کے محکوم تھے؟

28۔ مالدار عورت تھی (صفحہ 72) ادب "مالدار خاتون تھیں" لکھنے کا متقاضی تھا۔

29۔ زید بن دغنہ ۔۔۔ عضل وفارہ (صفحہ 76) زید بن دثنہ اور عضل وقارہ لکھنا چاہئے تھا۔

30۔ زاد المصادر میں علامہ ابن قیم لکھتے ہیں (صفحہ 134) علامہ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کا نام زاد المعاد ہے نہ کہ زاد المصادر۔

31۔ صفحات 181 تا 185 پر کئی غزوات و مقامات وغیرہ کے نام غلط لکھے گئے ہیں اور پھر سنہ ہجری دیا ہی نہیں گیا۔ وغیرہ وغیرہ

بعض مضامین میں واقعتا اور تاریخی تسامحات بھی کھٹکتے ہیں۔

ہم اپنے عزیز طلبہ کو مشورہ دیں گے کہ وہ کسی دینی اور علمی موضوع پر قلم اٹھاتے وقت زیادہ تحقیق و تفحص سے کام لیا کریں۔ معیاری تحریر و نگارش سخت محنت اور جگر کادی کا مطالبہ کرتی ہے۔ انشاء پردازی بھی ایک فن ہے اور زبان کی نزاکتوں کو سمجھے بغیر کوئی شخص اچھا انشاء پرداز نہیں بن سکتا۔ ہم جامعہ کے فاضل اساتذہ سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ طلبہ کو صحیح اردو زبان سکھانے پر بھی خاص توجہ دیں اور چھاپنے سے پہلے ان کے مضامین بنظرِ تعمق دیکھ لیا کریں۔ یہ سطور لکھنے سے ہمارا مقصد بخدا یہ نہیں ہے کہ طلبہ کی دل شکنی ہو بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں ان کی مناسب تربیت اور رہنمائی ہونی چاہئے اگر اس کا معقول انتظام کر دیا گیا تو ہمیں یقین ہے کہ یہی طلبہ ایک دن ملک کے بہترین انشاء پرداز بن جائیں گے اور ان کی تحریری کاوشیں وطنِ عزیز میں دینِ حق کو سربلند کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔