نجی اغراض کی تکمیل کے لیے ابتلاء اور فتنوں کے چکر چلانا
شاطرانہ چکر بازی ہے
﴿وَالفِتنَةُ أَشَدُّ مِنَ القَتلِ﴾"﴿وَالفِتنَةُ أَكبَرُ مِنَ القَتلِ...٢١٧﴾... سورةالبقرةیہ چکر خونریزی سے زیادہ سنگین ہیں۔ (1) فتنہ (برپا کرنا) خونریزی سے بڑھ کر سنگین ہے۔ (ب) فتنہ برپا کرنا (کشت و) خون سے بڑھ کر ہے۔
یہاں پر "فتنہ" ایسے ابتلاء، تخریب ، فساد، تحریص و تخویف، ترغیب و ترہیب، لفظی مغالطوں اور استحصالی وعدوں جیسے چکروں کا نام ہے، جن سے غرض راہی حق کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے یا حق و صواب کے روشن افق پر پردے ڈالنا، ایسے چکر باز انسان محض اپنے نفس و طاغوت کی دلجوئی کے لیے دینِ نبی کے سلسلے میں بھی عوام کو عوامی گمراہیوں کے ذریعے گمراہ کرتے ہیں، حق و صداقت، قرآن اور نبی کا نام لے کر خلق خلدا کا استحصال کرتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں "فتنہ" کے معنی "ہتھکنڈے" بھی کر سکتے ہیں۔ بہرحال ظاہر ان کا سانپ کی طرح دلکش ہوتا ہے مگر مکروۃ اغراض کی بنا پر باطن ان کا زہریلا بن جاتا ہے، جن کے زہر سے ملی عافیتیں غارت ہوتی ہیں، امنِ عامہ تباہ ہوتا ہے، ملکی فضائیں مسموم اور معاشرتی قدریں داغدار ہو جاتی ہیں شاطروں کے وارے نیارے ہوتے ہیں، عوام شرمناک استحصال کے نرغے میں چلے جاتے ہیں۔
یہ ہتھکنڈے جیسے اجتماعی پیمانے پر ہوتے ہیں ویسے وہ اپنے انفرادی پیمانے بھی رکھتے ہیں، جو گو وہ انفرادی شکل میں ہوتے ہیں تاہم اجتماعی فتنہ سازی کے لیے اولین درس گاہ کا کام بھی دے جاتے ہیں۔ آج کی یہ چنگاری، کل کے لیے ایک عظیم آتش کدہ بھی بن سکتی ہے۔
ان ہتھکنڈوں کے محرکات فکری گمراہیاں بھی ہو سکتی ہیں، نجی اور شخصی ہوس بھی، وہ سیاسی بھی ہو سکتے ہیں اور کاروباری بھی۔ مفادِ عاجلہ کی کوئی اور وقتی تحریک بھی ہو سکتی ہے، کوئی محدود اور فانی بے چینی کی تسکین کا کوئی داعیہ بھی۔ الغرض: ابتلاء اور فتنوں کے چکر بہت بڑی آفات ہیں۔ جب وہ کسی معاشرہ میں جڑ پکڑ لیتے ہیں، انتہائی مکروہ برگ و بار لاتے ہیں۔ معاشرتی صحت اور قدریں مسموم ہو جاتی ہیں، اقوام و ملل صحت مند معاشری کی تخلیق سے قاصر رہتی ہیں، رہنما سے زیادہ رہزن پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں، مواساۃ اور نیک تعاون کی توفیق سے محرومی ان کا مقدر بن جاتی ہے، دنیا کی یہ بستی بھیڑوں اور بھیڑیوں کی بستی ہو کر رہ جاتی ہے۔ خلقِ خدا کو روشنی مہیا کرنا نادانی اور ان کی آنکھوں پر مغالطوں کے پردے ڈالنا فلسفیانہ حکمتِ عملی تصور کی جانے لگتی ہے۔ اس باب میں جو جتنا شاطر ہوتا ہے اتنا ہی وہ قادر کہلاتا ہے۔ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے قوم کی نفسیات مسخ ہوتی ہیں، افراد کا مزاج غلط رنگ پکڑتا ہے۔ ملکی ماحول اور فضا باہمی اعتماد سے محروم ہو جاتی ہے، اب بدگمانیوں کے بھوت ناچتے اور دیو دندناتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ کوئی قوم اپنے مقامِ بریں سے گِر کر رسوا اور ذلیل و خوار ہو جائے تو اس میں ہتھکنڈون کا چلن عام کر دیا جائے، پھر آپ دیکھیں گے کہ اب اس کو کسی خارجی دشمن کی ضرورت نہیں رہی۔ اب وہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر آپ کھودنے کے قابل ہو گئی ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم نے ایک ناہنجار قوم کے تذکرہ میں فرمایا ہے۔
﴿وَظَنّوا أَنَّهُم مانِعَتُهُم حُصونُهُم مِنَ اللَّـهِ فَأَتىٰهُمُ اللَّـهُ مِن حَيثُ لَم يَحتَسِبوا ۖ وَقَذَفَ فى قُلوبِهِمُ الرُّعبَ ۚ يُخرِبونَ بُيوتَهُم بِأَيديهِم وَأَيدِى المُؤمِنينَ فَاعتَبِروا يـٰأُولِى الأَبصـٰرِ ﴿٢﴾... سورةالحشراور خود ان کا خیال یہ تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں گے۔ سو اللہ (کا عذاب) ایسی جگہ سے ان پر آیا کہ ان کے سان گمان میں بھی نہیں تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا تو وہ (اب) اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے گھروں کو اجاڑ رہے ہیں۔ سو اے آنکھوں والو! سوچو، عبرت پکڑو۔"
اس آیت میں قومِ یہود کا ذکر ہے۔ "ہتھکنڈے" جن کی زندگی کے خمیر میں شامل تھا، یہاں تک کہ وہ خدا کے حضور بھی چکر چلانے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے سے نہیں شرماتے تھے۔ ان کی پوری زندگی "ہتھکنڈوں اور چکر بازی" کی زندگی رہی ہے۔ اس لیے اس قوم سے بڑھ کر اور کوئی قوم پریشان اور ویران نصیب دیکھنے میں نہیں آئی۔
یہود کے علاوہ "چکر باز" قوم ثمود بھی تھی، حضرت صالح علیہ الصلوۃ والسلام کو ختم کرنے کے لیے ایک چکر چلایا کہ ہر قبیلے کے ذمہ دار لوگ قسم کھائیں کہ رات کو ان پر حملہ کریں گے۔ پھر یہ شور برپا کریں گے کہ "ہلے گلے" مین بیچارے مارے گئے، خدا جانے کس نے یہ حرکت کی، ہم تو موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔
﴿قالوا تَقاسَموا بِاللَّـهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهلَهُ ثُمَّ لَنَقولَنَّ لِوَلِيِّهِ ما شَهِدنا مَهلِكَ أَهلِهِ وَإِنّا لَصـٰدِقونَ ﴿٤٩﴾... سورةالنملفرمایا وہ بھی ایک چال چلے اور ہم نے بھی ان کو اس کا مزہ چکھایا:
﴿وَمَكَروا مَكرًا وَمَكَرنا مَكرًا وَهُم لا يَشعُرونَ ﴿٥٠﴾... سورة النملچنانچہ ان کو صفحہ ہستی سے بھی مٹا دیا:
﴿أَنّا دَمَّرنـٰهُم وَقَومَهُم أَجمَعينَ ﴿٥١﴾... سورةالنملوہ دیکھیے! ان کے اجڑے پڑے گھر:
﴿د مَكَرَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم فَأَتَى اللَّـهُ بُنيـٰنَهُم مِنَ القَواعِدِ فَخَرَّ عَلَيهِمُ السَّقفُ مِن فَوقِهِم وَأَتىٰهُمُ العَذابُ مِن حَيثُ لا يَشعُرونَ ﴿٢٦﴾... سورةالنحلیعنی ان سے پہلے لوگوں نے بھی (حق کے خلاف) تدبیریں کی تھیں تو خدا نے ان (کے منصوبوں) کی عمارت کی جڑ بنیاد سے اکھاڑی تو اس (خیالی عمارت) کی چھت (دھڑام سے) ان ہی پر ان کے اوپر سے گر پڑی اور جدھر سے ان کو خبر تک نہ تھی، عذاب نے آ لیا۔حق کو اپنی راہ پر چلانے کی کوشش: سچی عبدیت اور فطری راہ یہ ہے کہ انسان حق کا احترام کرے اور اس کے پیچھے چلے، اس کے بجائے کوئی شخص اگر یہ خواہش کرے کہ حق اس کا دم بھرے اور اس کے نفس و طاغوت کا ایما ہو، وہ ادھر کو اٹھ دوڑے تو یہ بات نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ مذامت اور ناکامیوں کو دعوت دنیا بھی ہے، بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ شکوہ کیا ہے کہ جن کے دلوں میں کوڑھ ہوتا ہے ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ حق ہی ان کے پیچھے چلے تاکہ وہ اپنا اُلو سیدھا رکھ سکیں۔
﴿فَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعونَ ما تَشـٰبَهَ مِنهُ ابتِغاءَ الفِتنَةِ وَابتِغاءَ تَأويلِهِ...٧﴾... سورةآل عمرانمطلب کی بات ہو تو سب ممکن ورنہ معذرت: چکر بازوں کا شعار ایک یہ بھی ہے کہ جب مطلب نہ ہو تو حق کے ساتھ چلنے سے معذوری ظاہر کریں گے کہ گھر اکیلا ہے، بیمار ہوں، جیب میں پیسے نہیں ہیں، فرصت نہیں، یہ بات ہے، ہاں اگر کچھ وصول ہوتا ہو، اور کچھ نہیں، انتقام کی پیاس کی تسکین کا کوئی سامان ہی ہاتھ آتا ہو تو پھر کوئی کام بھی ناممکن نہیں رہتا، وقت بھی مل جاتا ہے۔ بازوؤں میں طاقت بھی آ جاتی ہے اور خرچ کرنے کو پیسہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے۔
﴿وَيَستَـٔذِنُ فَريقٌ مِنهُمُ النَّبِىَّ يَقولونَ إِنَّ بُيوتَنا عَورَةٌ وَما هِىَ بِعَورَةٍ ۖ إِن يُريدونَ إِلّا فِرارًا ﴿١٣﴾ وَلَو دُخِلَت عَلَيهِم مِن أَقطارِها ثُمَّ سُئِلُوا الفِتنَةَ لَـٔاتَوها وَما تَلَبَّثوا بِها إِلّا يَسيرًا ﴿١٤﴾... سورةالاحزاب"یعنی ان میں سے کچھ لوگ کہنے لگے پیغمبر سے (گھر لوٹ جانے کی) اجازت مانگنے (اور) کہنے کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں۔ حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں (بلکہ) ان کا ارادہ تو صرف بھاگنے ہی کا ہے اور اگر (ایسے ہی لشکر) مدینے کے اطراف (و جوانب) سے ان پر آ گھسیں اور ان سے فتنہ (برپا کرنے) کو کہا جائے تو وہ اسے برپا کر ہی دیں اور ان (گھروں میں) بس برائے نام ہی ٹھہریں۔"ایسے لوگ ساتھ دیں بھی تو خیر نہیں: یہ فتنہ پرور لوگ پہلے تو راہِ حق میں آپ کا ساتھ دیں گے ہی نہیں، اگر دیں گے بھی تو شرارت کی نیت سے دیں گے۔
﴿لَو خَرَجوا فيكُم ما زادوكُم إِلّا خَبالًا وَلَأَوضَعوا خِلـٰلَكُم يَبغونَكُمُ الفِتنَةَ ...﴿٤٧﴾...سورة التوبة"اگر یہ لوگ تم میں (مل کر) نکلتے بھی تو بس تم میں اور زیادہ خرابیاں ہی ڈالتے اور تم میں فتنہ برپا کرنے کی غرض سے تمہارے درمیان (اِدھر کے اُدھر اور اُدھر کے اِدھر) دوڑے دوڑے پڑتے پھرتے۔"اس سے معلوم ہوا کہ چکر بازوں کے یارانے خطرے سے خالی نہیں ہو سکتے ہاں وقتی بات الگ ہے۔
یہ چکر باز لوگ بہت جھوٹے ہیں: حق تعالیٰ قیامت میں ان سے پوچھیں گے کہ تمہارے وہ معبودانِ باطل کہاں غائب ہو گئے جن کے ہاں تم سجدہ ریز رہے؟ تو بولیں گےالہی تیری قسم! ہم نے شرک کیا ہی نہیں تھا، اللہ فرمائیں گے کہ دیکھیے یہ کتنے جھوٹے ہیں:
﴿ثُمَّ لَم تَكُن فِتنَتُهُم إِلّا أَن قالوا وَاللَّـهِ رَبِّنا ما كُنّا مُشرِكينَ ﴿٢٣﴾... سورة الانعامیہ چکر خود چکر بازوں کے لیے چکر ثابت ہوں گے: یہ چکر باز آج جو چکر چلا رہے ہیں کل یہی چکر خود انہی چکر بازوں کے لیے چکر بن جائیں گے۔
﴿يُنادونَهُم أَلَم نَكُن مَعَكُم ۖ قالوا بَلىٰ وَلـٰكِنَّكُم فَتَنتُم أَنفُسَكُم وَتَرَبَّصتُم وَارتَبتُم وَغَرَّتكُمُ الأَمانِىُّ حَتّىٰ جاءَ أَمرُ اللَّـهِ وَغَرَّكُم بِاللَّـهِ الغَرورُ ﴿١٤﴾... سورةالحديد"وہ (چکر باز) پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ (مسلمان) کہیں گے: ہاں تھے تو لیکن تم نے اپنے آپ کو گمراہی میں پھنسا رکھا تھا اور تم راستہ دیکھا کرتے تھے اور تم شک رکھتے تھے اور تم کو تمہاری بے ہودہ تمناؤں نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچا۔بغل میں چھری منہ میں رام رام: چکر بازوں کے ہتھکنڈے نرالے ہوتے ہیں، امن کے بڑے داعی بنتے ہیں لیکن اگر ان کو امنِ عامہ کو تہ و بالا کرنے اور فتنہ برپا کرنے کی طرف دعوت دی جائے تو کود پڑتے ہیں۔
﴿سَتَجِدونَ ءاخَرينَ يُريدونَ أَن يَأمَنوكُم وَيَأمَنوا قَومَهُم كُلَّ ما رُدّوا إِلَى الفِتنَةِ أُركِسوا فيها...٩١﴾... سورةالنساء"کچھ اور لوگ تم ایسے بھی پاؤ گے جو تم سے (بھی) امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں (مگر حال یہ ہے کہ جب کبھی ان کو کوئی فتنہ و فساد برپا کرنے کی طرف لوٹا کر لے جائے تو اوندھے منہ اس میں جا گرنے کو موجود۔"چڑھتے سورج پر نگاہ رکھتے ہیں: یہ چکر باز لوگ عموما چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں، اگر بااصول اور ایماندار شخص کا ستارہ اوج پر پہنچا ہے تو اس کے ساتھ ہو لیں گے، اگر کسی بد کی باری آئی ہے تو دوڑ کر اس کا دامن پکڑ لیں گے۔ لیکن انجام کار دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا۔
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَعبُدُ اللَّـهَ عَلىٰ حَرفٍ ۖ فَإِن أَصابَهُ خَيرٌ اطمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِن أَصابَتهُ فِتنَةٌ انقَلَبَ عَلىٰ وَجهِهِ خَسِرَ الدُّنيا وَالـٔاخِرَةَ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الخُسرانُ المُبينُ ﴿١١﴾... سورة الحج"اور لوگوں میں کوئی کوئی ایسا بھی ہے جو خدا کی عبادت تو کرتا ہے (مگر) اکھڑا اکھڑا کہ اگر اس کو کوئی فائدہ پہنچ گیا تو اس کی وجہ سے مطمئن ہو گیا اور اگر اس پر کوئی افتاد آ پڑی تو جدھر سے آیا تھا الٹا ادھر ہی کو لوٹ گیا۔ اس نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی۔افسوس! یہ ٹولہ شروع سے کثرت سے چلا آ رہا ہے۔ جو اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا۔
اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ہم سے چھپ نہیں سکتے۔
﴿قَد يَعلَمُ اللَّـهُ الَّذينَ يَتَسَلَّلونَ مِنكُم لِواذًا...٦٣﴾... سورة النور"اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے آڑ میں ہو کر کھسک جاتے ہیں۔"جا کر واپس آ جاؤ: شاطر لوگ حق کی راہ مارنے کے لیے کئی راہیں چلتے ہیں، اپنے اغراض کی تکمیل کے لیے اپنے گماشتوں کو "حاملین حق" کی جماعت میں شامل کراتے ہیں تاکہ اس میں رہ کر جاسوسی کریں اور تخریبی کاروائیاں کر کے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں، قرآن حکیم نے ان شاطروں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَقالَت طائِفَةٌ مِن أَهلِ الكِتـٰبِ ءامِنوا بِالَّذى أُنزِلَ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَجهَ النَّهارِ وَاكفُروا ءاخِرَهُ لَعَلَّهُم يَرجِعونَ ﴿٧٢﴾... سورة آل عمران"اور اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ (اپنے لوگوں کو) سمجھاتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کتاب نازل ہوئی ہے، صبح کو اس پر ایمان لاؤ اور شام کو (اس سے) انکار کر دیا کرو، شاید (اس سازش سے) وہ (دین اسلام سے) پھر جائیں۔"گویا کہ یہ طریق کار سنجیدہ اور باضمیر لوگوں کا کام نہیں ہے۔ یہود و نصاریٰ کو خوئے بدادر بری سرشت کی صدائے بازگشت ہے۔ بہرحال "چکر بازی" صرف راہِ راست سے ہٹ کر چلنے کی ایک مکروہ سبیل ہے جسے صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو متوازن اور متبادل راہ چلنے سے قاصر ہوتے ہیں اس لیے چکر بازوں کی یہ چکر بازی خود ان کے لیے چکر بازی بن جائے گی۔
﴿أَلا فِى الفِتنَةِ سَقَطوا...﴿٤٩﴾... سورةالتوبة