آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا اپنی محفلوں میں اپنے اعزہ و اقرباء ، دوستوں اور جاں نثاروں کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ مملکتِ اسلامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے لاتعداد غیر ملکی وفود کو اذنِ باریابی بخشا جس میں تبلیغی اور دیگر امور زیرِ بحث آئے۔ ان گنت افراد پر مشتمل مجمعوں کو خطاب فرمایا۔ جس نے ایک دفعہ گفتگو سن لی ہمیشہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ ہو گیا۔ جو ایک بار کسی وفد میں شامل ہو کر خدمت اقدس میں باریاب ہوا دوبارہ آنے کی حسرت دل میں لے کر لوٹا اور مدتوں اس آرزو کی تکمیل کے لیے تڑپا کیا۔ جس نے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنی اپنا نقد دل ہار گیا۔ کیوں نہ ہوتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے تو گویا منہ سے پھول جھڑتے۔ خطبہ ارشاد فرماتے تو عقل و دانش اور حکمت کے موتی بکھیرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تقریر کا ایسا ملکہ اور گفتگو کا ایسا سلیقہ عطا فرمایا تھا کہ جس نے ایک مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن لیا دل تھام لیا۔
ایک مرتبہ ایک قبیلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے آیا۔ گفتگو ہوئی تو قبیلہ کے افراد بے اختیار پکار اٹھے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس سرزمین پر آپ پیدا ہوئے ہم نے بھی وہیں جنم لیا۔ جن گلی کوچوں میں آپ نے پرورش پائی وہیں ہم بھی پروان چڑھے ۔ جو آپ کی زبان ہے وہی زبان ہماری بھی ہے لیکن ہماری بات میں وہ بات نہیں جو آپ کی بات میں ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: إن الله عزوجل أدبني فأحسن أدبي (میری تربیت خالق کائنات نے خود کی ہے اور مجھے بولنے کا انداز اس نے آپ سکھایا ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرماتے تو سنگدل سے سنگدل انسان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ کون نہیں جانتا کہ ضماد ازدی کس عزم و ارادہ سے آیا تھا کہ کشتہ خنجر تسلیم ہو کر لوٹا۔ مکہ آیا اور دوڑا دوڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! سنا ہے تم مجنون ہو گئے ہو۔ بتاؤ تمہیں کیا تکلیف ہے؟حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ مسنونہ پڑھا ، عبدہ ورسولہ تک پہنچے تو دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنے کی درخواست کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سنایا۔ اس کا لوہے کا سا عزم، پانی اور پتھر کا سا دل موم ہو گیا۔ ہجرت حبشہ کے بعد سے بیش افراد پر مستمل عیسائیوں کا ایک وفد مکہ معظمہ آیا۔ کعبہ کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔ وفد کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوالات کیے جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ مجلس برخاست ہوئی تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ عیسائیت سے توبہ کر کے حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔
ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ ہو سکتا ہے یہ اتفاقات ہوں کیونکہ کبھی بات دلنشیں ہو ہی جاتی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات یہ نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وعظ ہی نہایت موثر ہوتا تھا۔ اب ذرا صحابہ کرام کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں۔
عن العرباض بن سارية قال رسول اللهﷺ ذات يوم ثم أقبل علينا بوجهه فوعظنا موعظة بليغة زرف منها العيوم وجلت منها القلوب
"عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ وعظ فرمایا کہ ہماری آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے اور ہمارے دل (خوفِ خدا سے) کانپ گئے۔"
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وعظ نہایت ہی موثر ہوتا تھا کہ سامعین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر خشک نہ ہوتی بلکہ اپنے اندر کشش اور دلچسپی کا پورا سامان رکھتی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنتا مزید سننے کی اسے تمنا ہی رہتی۔ سامعین پر بے خودی اور وارفتگی کا عالم طاری ہوتا کہ بے اختیار پکار اٹھے۔
يارسول الله كان هذه موعظة مودع فأوصنا
"اے اللہ کے رسول! آپ جس انداز سے وعظ فرماتے ہیں ہمیں گمان گزرتا ہے کہ شاہد یہ آپ کا آخری وعظ ہے لہذا ہمیں اور وعظ سنائیے۔"
اور پھر حضور علیہ السلام بھی سامعین کی دلچسپی او شوق کے پیش نظر مزید پند و نصائح فرما دیتے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سامعین حکامات و تمثیلات کے ساتھ زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور تمثیل سے بات بہت جلد ذہن نشین بھی ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ماضی کے واقعات اور تمثیلات سے اپنی تقریر اور خطابت کو مزین فرماتے۔ ایک مرتبہ وعظ کے دوران حکایات بیان فرمائی اور فرمایا:
غفر لامرأة مومسة مرت بكلب على رأس ركي يلهث قال كاد يقتله العطش فنـزعت خفها فأوثقته بخمارها فنـزعت له من الماء فغفر لها بذلك
"ایک بدکار عورت محض اس لیے بخش دی گئی تھی کہ اس نے ایک کتے کو جو کنوئیں کے کنارے کھڑا پیاس سے مرا جا رہا تھا کنوئیں سے پانی کھینچ کر پلا کر اسے موت کے منہ سے بچا لیا تھا۔"
دوسری بار وعظ فرمایا تو ایک اور واقعہ سنایا:
عذبت امرأة في هرة أمسكتها حتى ماتت من الجوع فلم تكن تطعمها ولا ترسلها فتأكل من خشاش الأرض
"ایک عورت کو محض اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ اپنی بلی کو نہ تو خود کچھ کھلاتی اور نہ اسے کھلا چھوڑتی کہ وہ اپنا رزق (زمین کے جانوروں سے) آپ تلاش کر لیتی اور اس طرح وہ بھوکی مر گئی۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تقاریر میں سینکڑوں تمثیلیں، تشبیہیں بیان فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کی مثال ایک ایسے محل سے دی جس میں صرف ایک اینٹ کی جگہ رہ گئی ہو اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے وہ محل مکمل ہو گیا۔ ایک اور مرتبہ خطبہ ارشاد فرمایا تو توبہ و استغفار کے فضائل سامعین کے ذہن نشین کرانے کے لیے بہت عمدہ تمثیل بیان فرمائی۔
لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَيِسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً، فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا، قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا، قَائِمَةً عِنْدَهُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ: اللهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ "
"جب بندہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے تو اللہ کو اس قدر خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے اس شخص کو جو دور دراز کے سفر کو نکلا ہو۔ اس کے پاس ایک ہی سواری ہو اس کا تمام مال اسباب اور اشیاء خورد و نوش بھی سواری پر موجود ہوں اور وہ اچانک گم ہو جائے۔ وہ آدمی اس کی تلاش سے مایوس ہو جائے اور مایوسی کے عالم میں ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے اور سواری اچانک اسے مل جائے اور وہ خوشی سے (پاگل ہو جائے اور خوشی سے یہاں تک) کہہ دے کہ اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پروردگار۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرماتے یا کوئی خطبہ ارشاد فرماتے تو اس میں فصاحت و بلاغت بلا کی ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات سے "انا افصح العرب" کا رنگ جھلکتا۔ اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے بہترین الفاظ کا انتخاب فرماتے۔ ان کی بندش اور ان کی ترتیب اس انداز سے فرماتے کہ کلام میں نہ صرف زور پیدا ہو جاتا بلکہ اس کے حسن کو بھی چار چاند لگ جاتے۔ اس امر کی تائید کے لیے صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:
: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُونَ الجَنَّةَ بِسَلَامٍ»: «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ»
"اے لوگو! سلام پھیلاؤ اور (لوگوں کو) کھانا کھلاؤ۔ صلہ رحمی اختیار کرو۔ رات کے وقت جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھو تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔"
اردو ترجمہ سے صرفِ نظر کر کے صرف عربی عبارات پر ایک دفعہ پھر نگاہ ڈال لیجئے تو الفاظ کے انتخبا کی دا دیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ ہر لفظ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح فٹ ہے۔ کسی ایک لفظ کو بھی ادھر اھر کر کے دیکھیں تو تمام عبارت غارت ہو جائے گی اور اپنا مفہوم تک کھو دے گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں جہاں فصاحت و بلاغت ہوتی وہاں صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کلام کو بے جا طول نہ دیتے۔ بات مختصر کہتے مگر جامعیت کے ساتھ۔ بسا اوقات دریا کوزے میں بند فرما دیتے۔ پورا ذخیرہ احادیث اس امر پر گواہ ہے۔ عمرو بن عبسہ فرماتے کہ میں ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوال کیے۔ یہ سوالات بمعہ جوابات درج ذیل ہیں۔
1۔ ما الإسلام اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟
طيب الكلام وإطعام الطعام پاکیزہ گفتگو اور کھانا کھلانا
2ماالإيمان ایمان کیا ہے؟
الصبر والسماحة صبر اور سیر چشمی
3۔ أي الإسلام أفضل اسلام کس کا افضل ہے؟
من سلم المسلمون من لسانه ويده جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
أي الإيمان أفضل ایمان کون سا افضل ہے؟
خلق حسن بہترین خلق
أي الصلوة أفضل نماز کون سی افضل ہے؟
طول القنوت لمبے قیام والی
أي الهجرة أفضل ہجرت کون سی افضل ہے؟
أن تهجر ماكره ربك جو چیز تیرے رب کو ناپسند ہو اس کو چھوڑ دینا۔
فأي الجهاد أفضل جہاد کون سا افضل ہے؟
من عقر جواده واهريق دمه جس کا گھوڑا بھی کام آئے اور خود بھی شہید ہو جائے۔
أي الساعات أفضل کون سا وقت افضل ہے؟
جوف الليل الآخر رات کا پچھلا پہر
ذرا ان فقروں پر غور فرمائیے۔ ایک ایک فقرے میں معانی کی دنیا آباد ہے۔ اگر کوئی ان کی تشریح کرنی چاہے تو پوری عمر صرف کر دے مگر تشریح تشنہ تکمیل ہی رہے۔
جامعیت کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کا خطبہ اپنی مثال آپ ہے۔ چند الفاظ میں اسلام کا پورا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔ حقوق اللہ سے حقوق العباد تک کی تفصیل بیان کر دی ہے۔ رشد و ہدایت کے منبع و سرچشمہ کی نشاندہی اور اس کا تعین کر دیا ہے۔ سیاسی، معاشی اور خانگی زندگی کے رہنما اصول بیان فرما دیے ہیں، چند الفاظ میں ان تمام موضوعات کو سمیٹ لینا اسی ہستی کا ہی کمال ہو سکتا ہے جو إني أعطيت بجوامع الكلم کی خلعت سے سرفراز ہو۔ ملاحظہ فرمائیے:
«إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ [ص:890]، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ، كِتَابُ الله
"تمہارے خون اور تمہارے مال ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہیں جس طرح آج کا یہ دن (یومِ عرفہ) اور یہ شہر مکہ حرام ہے۔ جاہلیت کی تمام رسومات میرے قدموں کے نیچے ہیں۔ جاہلیت کے دور کے تمام خون اور سود معاف ہیں۔ سب سے پہلے میں ابن ربیعہ کا خون اور عباس کا سود معاف کرتا ہوں۔ ان عورتوں کے بارے میں جو تمہارے نکاح میں ہیں ،اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ جن لوگوں کو تم ناپسند کرو اپنے گھر میں گھسنے نہ دیں اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ہلکی ہلکی مار مارو او تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کی خوراک اور لباس کی ذمہ داری اٹھاؤ میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر اسے مضبوطی سے تھام رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب ۔۔۔ قرآن مجید۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات کا اندازہ دعوتی تھا جو عقل اور دل کو براہِ راست اپیل کرتا تھا۔ جذبات کا حسین امتزاج بھی ہوتا، بسا اوقات یوں محسوس ہوتا کہ جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے جو سامعین کو بہائے لیے جا رہا ہے۔ فتح مکہ کے بعد غزوہ تبوک پیش آیا۔ اس غزوہ میں مال غنیمت کی وافر مقدار ہاتھ لگی۔ اس کی تقسیم کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار پر قریش کے نو مسلم افراد کو ترجیح دی جو انصار کو ناگوار گرزی۔ بعض من چلے افراد نے اس کا برملا اظہار بھی کر دیا کہ تلوار ہم چلائیں۔ مرنے مارنے کا وقت آئے تو ہم بلائے جائیں۔ دشمنانِ اسلام کا خون ہماری تلوارں سے ٹپکے اور مالِ غنیمت غیروں میں بٹے۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ انصار نے اعتراف کیا کہ ہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے چند نوجوانوں نے ایسا کہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطاب فرمایا اور قریش کے نو مسلم افراد کو ترجیح دینے کی مصلحت بیان فرمائی کہ ایسا صرف تالیف قلوب کے لیے کیا گیا ہے۔ بپھرے ہوئے جذبات کے سامنے کوئی دلیل کم ہی ٹھہرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رعایت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
أما ترضون أن يذهب الناس بالأسوال ترجعون إلى رحالكم برسول الله ﷺ
"کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ اونٹ بکریاں لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو ساتھ لے کر گھروں کو لوٹو۔"
سب انصار یک زبان ہو کر چیخ اٹھے:
یارسو ل اللہ قدرضینا
"اے اللہ کے رسول! ہم اس تقسیم پر راضی ہیں۔"