انیسویں صدی کی واحد سیاسی جماعت

(مضمون نگار پروفیسر موصوف باذوق اہل علم، محقق، تاریخ اور سیر رجال پر عالمانہ نظر رکھنے والے ایک فاضل نوجوان ہیں، انہوں نے اپنے مضمون "انیسویں صدی کی واحد سیاسی جماعت" کی نشاندہی کرتے ہوئے جو نکات پیش کیے ہیں، قابلِ داد اور نہایت محققانہ ہیں، اس میں بعض پہلو ایسے بھی ابھر آئے ہیں جن سے غیر جانبدار مؤرخ سے زیادہ ایک مخصوص زاویہ نگاہ کا رنگ جھلکتا ہے، تو یہ دراصل ایک نوجوان قلم کی قدرتی جنبش کا نتیجہ ہے)

آل انڈیا کانگریس سئہ 1885ء میں عالمِ وجود میں آئی۔ اس کا بانی ایک انگریز تھا۔ اس کا مقصد آزادی نہیں انگریزوں سے ہندوستانیوں کے اچھے تعلقات قائم کرنا تھا۔ بڑی دیر کے بعد یہ ایک سیاسی جماعت کی صورت میں نمودار ہوئی لیکن اس سیاست کا مقصد استخلاص، وطن از بیگانگاں بعید الوطن نہیں تھا بلکہ حاکموں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے ان کے اقتدار کے دائرے میں ہندوستانیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات کا حصول تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز کے بعد اس کی سیاست کا مقصد استخلاص وطن قرار دیا گیا لیکن اس میں مسلمانون کی غلامی کا تصور بھی شامل تھا۔

شئہ 1906ء میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی لیکن ابتداء اس کا مقصد بھی استخلاصِ وطن اور مسلمانوں کی آزادی نہ تھا بلکہ کانگریس کو ایک ہندو جماعت تصور کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے مراعات طلبی کا ایک پلیٹ فارم بنایا گیا تھا جبکہ انگریزوں کے اقتدار کو چیلنج کرنا ان کے عزائم میں شامل نہ تھا۔ یہ بات بیسویں صدی کے دوسرے بلکہ تیسرے عشرے میں سنائی دینے لگی کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی آزادی چاہتی ہے اگرچہ باضابطہ اعلان سئہ 1940ء میں جا کر ہوا۔

جمیعۃ علمائے ہند ، مجلس احرار، خاکسار، جمیعۃ علمائے اسلام اور دوسری ہندو تنظیمیں۔ ان دونوں بڑی تنظیموں کے بہت دیر بعد عالمِ وجود میں آئیں۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ کم از کم سئہ 1910ء تک برِ صغیر میں ان معروف تنظیموں کی طرف سے نہ تو آزادی وطن کا نعرہ بلند ہوا تھا اور نہ ہی مسلمانوں کی آزادی کا۔

محمڈن لٹریری سوسائٹی جس کے سیکرٹری خان بہادر عبدالطیف تھے، انیسویں صدی میں بنائی گی تھی، لیکن اس کا مقصد انگریزوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ہندوستان کو دارالاسلام قرار دینا اس کے پروپیگنڈے کی بنیاد تھا۔

سرسید احمد خاں نے بھی کام کیا۔ وہ کام قابلِ قدر بھی ہے۔ اس میں دو قومی نظریے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگرچہ آزادی کا نام ہنوز زبانوں پر نہیں آیا تھا۔ تاہم انہوں نے تعلیم کے ذریعے سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم سرسید کی مساعی جمیلہ کا اعتراف کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تا عمر انگریزوں کے وفادار رہے۔

دیوبند اور مظاہر العلوم کے مدارس سئہ 1863ء میں بنے۔ ابتداء نہ تو ان مدارس کو کوئی نمایاں حیثیت حاصل تھی نہ ہی یہ کسی تنظٰم کے مدارس تھے۔ طلباء کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ ان کے اساتذہ و بانیان کے عزائم استخلاصِ وطن ابتداء ہرگز نہ تھے بلکہ ان کی اکثریت انگریز کے سابقہ و حالیہ ملازمین کی تھی۔ جنہیں بقول میاں محمد شفیع ان دلوں کالے پادری سمجھا جاتا تھا (دیکھئے سئہ 1857ء از میاں محمد شفیع) نیز بانیان و اکابرین دیوبند کے دامن میں شاملی کے اس مفروضہ جہاد کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جس کی حقیقت "اہل حدیث اور سیاست" کے مصنف مولانا نذیر احمد رحمانی نے اچھی طرح واضح کر دی ہے۔ بریلویوں کے مجدد و بانی شاہ احمد رضا خان سئہ 1856ء میں پیدا ہوئے۔ ابتداء ان کا کوئی سیاسی موقف نہ تھا۔ بعد میں وہ انگریزی مفادات کے پشت پناہ بنے۔ اور سئہ 1298ء میں انہیں انگریز کا مقبوضہ ہندوستان دارالاسلام نظر آ رہا تھا۔ جب مسلم لیگ نے آزادی وطن کی تحریک شروع کی تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت مولانا احمد رضا خاں کے پیروکاروں نے کی۔ تفصیل کے لیے "البوابات السنيه على ومعاء سوالات الليكيه" دیکھئے، جس میں علمائے احناف کے ایسے فتوے درج ہیں جن کے ذریعے مسلم لیگ سے تعاون و اشتراک ناجائز کہا گیا ہے۔ اس جماعت کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ سئہ 1940 کے بعد بنارس میں ان کی کانفرنس میں مسلم لیگ کی حمایت اور آزادی وطن کی تحریک میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔

مجلسِ احرار، خاکسار اور جمیعۃ علمائے ہند وغیرہ تنظیمیں سئہ 1930ء کے گرد و پیش وجود میں آئیں۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کیا انگریزوں کے قبضہ سے لے کر کم از کم سئہ 1910 ء تک کوئی ایسی تنظیم اس ہندوستان میں موجود نہیں تھی جس کا مقصد انگریزوں کا اخراج اور اسلامی سلطنت کا قیام بھی ہو اور وہ اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کر رہی ہو۔

سطور بالا میں ہم معروف سیاسی تنظیموں کی تاریخ تشکیلی اور ان کے عزائم آپ کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ اب ہم پوچھتے ہیں، سئہ 1910ء تک کسی تنظیم کو آزادی دین و وطن کا علمبردار کہا جا سکتا ہے۔

یہ کوئی معمولی سوال نہیں ہے۔ پوری پون صدی کی تاریخ اس سوال سے وابستہ ہے۔ بتائیں آج کے مسلم لیگی کہ وہ انیسویں صدی کے آغاز سے بیسویں صدی کے آغاز تک کیا کر رہے تھے؟

بتائیں آج کے کانگریسی کہ وہ انیسویں صدی کے آغاز سے بیسویں صدی کے آغاز تک کیا کر رہے تھے؟

بتائیں آج کے خاکسار کہ وہ انیسویں صدی کے آغاز سے بیسویں صدی کی چوتھائی تک کہاں تھے؟ ہمارے احرار فرائیں کہ اس عرصہ میں وہ کہاں محوِ خواب تھے؟

ہماری دیوبندی بزرگ ارشاد فرمائیں کہ سئہ 1831ء سے لے کر تحریک ریشمی رومال تک آزادی وطن کے لیے انہوں نے کیا کیا ہے؟

اور علمائے بریلی فرمائیں کہ سئہ 1940ء تک ان کو کون سی تنظیم حصولِ آزادی کی خاطر مصروفِ کار تھی۔

قارئین کرام! اب آپ ہی فرمائیں کہ جن دنوں آزادی کی تحریک کے بزعم خود یہ تمام علمبردار حجروں اور خانقاہوں میں محو خواب تھے یا انگریزی اقتدار کے لیے مضبوطی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ کیا انگریز یہاں اطمینان سے حکومت کر رہا تھا؟ اگر آپ کے پاس ہنٹر کی کتاب "ہمارے ہندوستانی مسلمان" ہو اور ہندوستان سے متعلق انگریز افسروں اور جرنیلوں کی دیگر کتب دربارہ ہندوستان موجود ہوں تو آپ کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ آپ کہیں گے کہ جب تک یہ دعویدار میدان میں نہیں آئے تھے انگریز ایک لمحے کے لیے بھی اطمینان کی نیند نہیں سو سکا۔ اسے ہر آن بنگال و بہار، رو ہپل کھنڈ میں شورشوں کے پشت پناہوں کی تلاش رہی۔ اسے ہر آن سرحد یاغستان میں مجاہدین کے خلاف لڑنے والی انگریز سپاہ کے نقصان جان و مال کی خبریں پریشان رکھتیں۔ کیا یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جن سے کالا پانی آباد تھا؟ کیا یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جن کے کیمپ ستھانہ، اسمست، چمرقند اور بالا کوٹ میں تھے؟ کیا یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جن کی جائدادیں صبط ہو رہی تھیں؟ کیا یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جن کے ہاتھوں میں جرمِ حصولِ آزادی کی خاطر کیل ٹھونکے جا رہے تھے؟ کیا یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جن کی پیشانیاں داغی جا رہی تھیں۔ کیا یہ وہی منصوروں کا قبیلہ تو نہیں ہے جو سردارِ پھانسی کو شہادت سمجھ کر ایک دوسرے کی مبارکبادیں دے رہے تھے؟ قارئین ! کیا یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جنہیں انگریز اور ان کے حاشیہ نشین وہابی کہہ کر باغیوں میں شمار کر رہے تھے؟ قارئین کیا یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جنہیں اس وقت کے حاشیہ بردارانِ سلطنتِ انگلشیہ آج انگریزوں کا ایجنٹ کہنے پر مصر ہیں؟

کوئی بتائے اس طویل دور میں ان لوگوں کے علاوہ کوئی دوسرا بھی آزادی اور مسلم مملکت کا نام لیتا تھا۔ کوئی دیگر تنظیم ان مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں تھی۔ تاریخ پر کس قدر ظلم ہے کہ اس طویل دور میں موجود واحد سیاسی اور مجاہدانہ جماعت کے متعلق آج یہ کہا جاتا ہے کہ نہ تو اس کا تحریکِ آزادی میں کوئی حصہ ہے اور نہ انہیں سیاست سے کوئی سروکار تھا۔ خدارا بتاؤ کہ اگر یہ لوگ اس وقت میدانِ سیاست میں نہ تھے تو کیا وہ تنظیمیں سیاسی تھیں جو ابھی ﴿ هَل أَتىٰ عَلَى الإِنسـٰنِ حينٌ مِنَ الدَّهرِ‌ لَم يَكُن شَيـًٔا مَذكورً‌ا ﴿١﴾ ... سورة الدهر" کے زمرے میں تھیں ۔۔۔ اور جہاں تک علومِ اسلامیہ کا تعلق ہے برصغیر میں ان کی تجدید و احیاء سراسر وہابیوں کا کارنامہ ہے۔

ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ عہد مغلیہ تک کے مسلم ہند میں علومِ اسلامیہ کی بے چارگی کی کیا کیفیت تھی۔ بطور مثال ہم آپ کے سامنے ایک مناظرے کی روئیداد پیش کرتے ہیں جو اپنے عہد کے سب سے بڑے صوفی اور سب سے بڑے فقیہ کے مابین بادشاہِ وقت کی موجودگی میں ہوا، سنئیے!

"چنانچہ پنجاہ دسہ دانش مند کہ ہر یک خودراسر آمد روزگارمی دانستند و ہمہ در مسئلہ سماع و سرود باشیخ نظام الدین اولیاء منازعت داشتند جہت بحث حاضر شدمذ۔ مولانا فخر الدین رازی کہ از مریدانِ شیخ بودودم از اجتہادی زد بباد شاہ گفت ، دوکس را کہ از ہمہ عالم تر باشند از ایں جماعت انتخاب کردہ تا با مابحث کنند۔ الغرض بادشاہ قاضی رکن الدین ابوالحی را کہ حاکم شہر بود بعداوتِ شیخ تفاخرداشت بہ بحث اشارت کرد، گفت اے شیخ در بابتِ سرودو شماع چہ حجت داری۔ شیخ بحدیث نبوی السماع لاہلہ متمسک گشت۔ قاضی گفت ترابا حدیث چہ کار۔ تو مرد مقلدی روایتے از ابوحنیفہ بیار بمعرض قبول افتد۔ شیخ گفت سبحان! من حدیثِ صحیح مصطفوی نقل مے کنم دتو از من روایتِ ابوحنیفہ می خواہی۔شائد کہ ترا رعونتِ حکومت برد میدارد۔ ان شاءاللہ زددازین عہدہ معزول شوی کہ زیادہ بادوستانِ خدا بے ادبی مے کنی۔ و بادشاہ چوں حدیث پیغمبر شنید متفکر شدہ ہیچ نہ گفت۔" (گلشن براہیمی المعروف تاریخ فرشتہ از منشی محمد قاسم ہندو شاہ فرشتہ جلد دوم ص397 مطبوعہ نو لکشور سئہ 1281ھ)

اس مناظرے سے آپ علماء و صوفیا کے مبلغ علم کے متعلق اندازہ فرما سکتے ہیں کہ ایک تو امام غزالی کے مقولے کو صحیح حدیث کے طور پر پیش اور قبول کیا گیا ہے جو علمِ حدیث سے تہی دستی کا ثبوت ہے اور پھر مزعومہ حدیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل قولِ امام طلب کیا گیا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن و حدیث کی مقدور بھر خدمت کی۔ لیکن ان کا دائرہ اثر بہت محدود تھا۔ پھر ان کے کام کی اشاعت جس سے لوگ وسیع پیمانے پر مستفید ہو سکیں نہ ان کے دور میں ہو سکی، نہ ان کے بیٹوں کے دور میں، جو کچھ انہوں نے حلقہ خواص میں کیا تھا اگرچہ وہ بھی محدود تھا تاہم اسے بھی نظرِ عام پر لانے کی سعادت مجاہدین ہی کو حاصل ہوئی۔ جیسا کہ تذکرہ صادقہ میں لکھا ہے کہ اس خاندان کے تراجمِ قرآن سب سے پہلے مولانا ولایت علی نے شائع کروائے تھے اور حجۃ اللہ سب سے پہلے ریاست بھوپال کی جانب سے ہوئی۔ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور تک یہ حالت تھی کہ ان کے حلقہ درس میں بخاری شریف کے صرف دو نسخے تھے اور اگر کبھی شاہ صاحب کو فتح الباری دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو شاہی قلعہ کے کتب خانہ میں جانا پڑتا اور مجاہدین کے ایک فرد نواب صدیق حسن خاں (جن کی معزولی کا ایک سبب جماعت مجاہدین کی اعانت تھا) نے یہی فتح الباری طبع کروا کر مفت تقسیم فرما دی تھی۔

کہاں یہ حالت تھی کہ ہدایہ پڑھانے والے کے گھر پر جھنڈا لہراتا تھا اور کہاں بقول سید نذیر حسین محدث کہ میں اسی ہدایہ کو کریماما مقیما بنا دیا ہے۔

اسی تحریک کے آدمیوں نے یا ان کے متعلقین نے قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر لکھ کر شائع کرنے شروع کیے۔ انہیں لوگوں نے اول اول شروح حدیث لکھیں (اور پھر ان کی دیکھا دیکھی علمائے احناف اس میدان میں آئے) انہی لوگوں نے سب سے پہلے کتبِ حدیث کے اردو تراجم کیے اور عوام تک ارشادات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا۔

یہ لوگ یعنی تحریکِ مجاہدین سے وابستہ افراد کم و بیش سب کے سب اہل حدیث تھے۔ (احناف ابتداء میں ساتھ ملے، لیکن پھر جہاد کو بھاری پتھر سمجھ کر پیچھے ہٹ گئے تھے)

معاندین نے یہ تاثر دینا چاہا کہ فقہ پر مقلدین کی اجازہ داری ہے اور اہل حدیث نے اس سلسلہ میں کچھ نہیں کیا۔ لیکن جیسا دقیع کام اہل حدیث نے فقہ کے میدان میں کیا خود احناف بھی نہ کر سکے۔ مثلا فتاوی عالمگیری و ہدایہ کا اردو ترجمہ مولانا سید امیر علی ملیح بادی نے کیا جو حضرت شیخ الکل رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ تھے۔ آپ کے دوسرے تلامذہ نے بھی ہدایہ پر کافی کام کیا۔ خود سید نذیر حسین کو فتاوی عالمگیری جیسی ضیخم کتاب حفظ تھی۔ کسی دیوبندی یا بریلوی کو ان کی یہ اپنی کتاب کبھی حفظ ہوئی ہے؟ اور ہدایہ کے متعلق آپ نے مکہ میں تمام علماء کو چیلنج کیا تھا کہ ہدایہ کو سمجھنے اور سمجھانے کا مقابلہ کر دیکھو۔ تمام علماء بم حاجی امداد اللہ ، و مولانا رحمۃ اللہ کیرانوی اس چیلنج پر خاموش ہو کر رہ گئے۔