مدرسہ رحیمیہ دھلی برصغیر کے ان مدارس میں شامل ہے جو اگرچہ کسی حکومت کی سرپرستی کے بغیر قائم ہوا لیکن علوم قرآن و سنت کی ترویج میں دنیا بھر کے ممتاز مدارس میں شمار ہوا۔ آج دنیائے اسلام کا شاید ہی کوئی عالم ایسا ہو جو کسی نہ کسی واسطے سے اس مدرسہ کاخوشہ چین نہ ہو۔ حضرت شاہ عبدالرحیم ، حضرت شاہ ولی اللہ ، حضر ت شاہ عبدالعزیز، حضرت شاہ رفیع الدین، حضرت شاہ عبدالقادر، حضرت شاہ عبدالغنی، حضرت شاہ اسماعیل شہید، حضرت شاہ محمد اسحاق اور شیخ الکل سید محمد نذیر حسین محدث اس مدرسہ میں مسند درس و افتاء کی زی مزید مطالعہ
صاحبزادیوں میں سب سے بڑی صاحبزادی ہونے کا شرف کس کو حاصل ہے او ران میں سے سب سے کم سن کون ہیں؟ اس میں سخت اختلاف ہے۔چنانچہ علامہ جلی نے چند قول نقل کیے ہیں جو ترتیب وار درج ذیل ہیں:1۔ زینب، رقیہ، فاطمہ، اُم کلثوم2۔ رقیہ ، فاطمہ، اُم کلثوم3۔ رقیہ، زینب ، اُم کلثوم، فاطمہ3۔ زینب، رقیہ،اُم کلثوم، فاطمہ4۔ زینب،رقیہ، اُم کلثوم، فاطمہ5۔ فاطمہ ، رقیہ ........ رضی اللہ تعالیٰ عنهن (سیر جلی صفحہ 3؍345)حافظ ابن حجر عسقلانی کے صینع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح نمبر چار ہے، جنہوں نے ''اُم کلثوم'' مزید مطالعہ
جب اہلحدیث کی امامت زیربحث آئی ان دنوں بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ ناخوشگوار بحث چل نکلی ہے کہ وہابی (نجدی) یا اہلحدیث کی اقتداء میں حنفی خصوصاً بریلوی نماز پرھ سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی پڑھ لے تو اس کی نماز ہوجاتی ہے یا نہیں۔ حرمین شریفین کے عالی قدر اماموں کی پاکستان میں آمد اور عوام کی طرف سے ان کی بے پناہ پذیراوی سے بوکھلا کر ہمارے کرم فرماؤں نے یہ بحث شروع کررکھی ہے اور فتویٰ بازی کا بازار گرم ہے۔برصغیرکے اہل حدیث حضرات کے لیے یہ بحث کوئی نئی نہیں ہے۔ جب بھی حضرات مقلدین دلائل کی جنگ ہار مزید مطالعہ
(احناف او راہل حدیث کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ) قارئین محترم! کسی گذشتہ شمارے میں ہم آپ کے سامنے پریوی کونسل لندن کا ایک تاریخی فیصلہ پیش کرچکے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ آج کے بریلوی احباب کا واویلا بعد از مرگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ تقلید و عدم تقلید ، رفع الیدین، آمین بالجہر یاقرأت فاتحہ خلف الامام ایسے امور نہیں ہیں کہ ان کاقائل و عامل اہل سنت سے خارج کردیا جائے یا ایسے شخص کی اقتداء میں نماز ناجائز یا مکرہ ہو۔جن لوگوں کا آج اس قسم کا مؤقف ہے وہ میدان بحث و نظر میں پورا نہیں اترتا۔ اگر واق مزید مطالعہ
فلسطین جسے قدیم زمانے میں ماٹو پھر سرگون اعظم کے زمانہ میں ارض ایمورائٹ۔ یونانیوں کی تاریخ میں سیریا، رومیوں نے فلسطائنا، فونیقیوں کی مناسبت سےفونیشیا۔ بابلی نوشتوں میں کنعان، بمعنی نشیبی زمین۔ عربوں نےشام بمعنی بایاں۔ ترکوں نے سنجاک آف یروشلم یا ولایت بیروت۔ یہود نے ارض اسرائیل اور عیسائیوں نے ارض مقدس کہا ہے۔ آج سیاسی لحاظ سے دنیا کا اہم ترین قطعہ ارض بنا ہواہے۔مذہبی طورپر یہاں یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کےمقدس مقامات ہیں او رسیاسی طور پر تینوں اقوام کے مفادات اس خطے سے وابستہ ہیں۔ دونوں قسم کے مزید مطالعہ
(بسلسلہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے) (آخری قسط) گزشتہ شمارے میں آپ کے سامنے تاریخ فلسطین کے مختصر جائزے کے ذریعے واضح کیا جا چکا ہے کہ یہاں کس کس دور میں کون کون اقوام آباد رہی ہیں اور آج کون کون سی اقوام اس کی دعوے دار ہیں۔ یہ بڑی اہمیت کی بات ہے کہ اس وقت دنیا میں تین ہی الہامی مذاہب ہیں اور تینوں کے ماننے والے فلسطین کے دعوے دار ہیں۔ سب سے پہلے مدعی یہود ہیں آئیے۔ ہم دیکھیں کہ ان کا دعویٰ کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔یہود کے دعویٰ فلسطین کی بنیادیں درج ذیل ہیں:1. ہم عبرانی ہیں۔ عبرانی حض مزید مطالعہ
ہمارے عزیز دوست اور فاضل نوجوان جناب پروفیسر محمد سلیمان اظہر معروف اہل قلم او راہل علم نوجوان ہیں، انہوں نےاس موضوع پر قلم اٹھاکر کس طرح اس کا حق ادا کیا، قارئین خود پڑھ کر اندازہ فرمالیں گے۔ ہم اس کے لیےموصوف کے حددرجہ شکرگزار ہیں۔تورات: متجددین کا خیال ہے کہ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام نہیں ہے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے انبیاء بنی اسرائیل پرجوجو کتابیں نازل ہوئیں یہ ان سب کے مجموعے کا نام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن نے اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب نہیں بتایا۔ لی مزید مطالعہ
(مضمون نگار پروفیسر موصوف باذوق اہل علم، محقق، تاریخ اور سیر رجال پر عالمانہ نظر رکھنے والے ایک فاضل نوجوان ہیں، انہوں نے اپنے مضمون "انیسویں صدی کی واحد سیاسی جماعت" کی نشاندہی کرتے ہوئے جو نکات پیش کیے ہیں، قابلِ داد اور نہایت محققانہ ہیں، اس میں بعض پہلو ایسے بھی ابھر آئے ہیں جن سے غیر جانبدار مؤرخ سے زیادہ ایک مخصوص زاویہ نگاہ کا رنگ جھلکتا ہے، تو یہ دراصل ایک نوجوان قلم کی قدرتی جنبش کا نتیجہ ہے)آل انڈیا کانگریس سئہ 1885ء میں عالمِ وجود میں آئی۔ اس کا بانی ایک انگریز تھا۔ اس کا مقصد آزادی ن مزید مطالعہ
مرزا غلام احمد نے بیان کیا ہے کہ: "کسی شخص کو حضور ر سالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بحالت خواب حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔اس نے دیکھا کہ علماء ہند بھی حاضر دربار ہیں۔پھر مجھے(مرزا صاحب کو) بھی حاضر کیاگیا۔علماء نے میرے بارے میں بتایا کہ یہ شخص خود کومسیح کہتاہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تکفیر پرعلماء کو مبارک باد دی اور مجھے جوتے لگوائے۔" اس خواب کاتذکرہ کرنے کے بعد مرزا صاحب نے اس کا مضحکہ اڑایا ہے۔اور حاضرین مجلس کا بانداز تحقیر یوں ذکر کیا ہے: " مولوی محمد حسین کی ک مزید مطالعہ