ہر عوامی حکمران کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ دورے کرے، عوام کے حالات سے باخبر رہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ ان کے کیا مسائل ہیں۔؟ اس قسم کے دورے سرکاری حیثیت کے دورے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے کے جتنے مصارف ہوتے ہیں سرکاری خزانے کے ذمے ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ مصارف مسرفانہ نہ ہوں۔ ورنہ ضرورت سے زیادہ جو اخراجات ہوتے ہیں، شرعا سرکاری بیت المال ان کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اس کے باوجود اگر اپنے اقتدار کی دھونس کے ذریعے وہ اس سے وصول کر لیتا ہے تو قوم اس کے خلاف احتجاج کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔
کچھ دورے محض انتخابی ، یا اپنی پارٹی کے استحکام کے لیے کئے جاتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سرکاری داعیہ کے بجائے محض ان کی ذاتی دلچسپی یا نجی مصالح کے آئینہ دار ہوتے ہیں تو یہ سب صورتیں "نجی دورے" کے ضمن میں آتی ہیں۔
ان نجی دوروں یا ذاتی مصالح کے سلسلے کے جتنے مصارف ہوتے ہیں، ان کا ذمے دار عوام بیت المال نہیں ہوتا، وہ دورہ کرنے والوں کی ذاتی جیبوں کے ذمے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری کوئی بھی چیز ان کی ذاتی ضروریات کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی۔ ورنہ اسے بھی عوام اور ملک و قوم کے استحصال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
افسوس! موخر الذکر قسم کے دوروں کے مصارف یا اپنی نجی ضروریات کے لیے سرکاری اشیاء مثلا سواری ، قلم، دوات، سیاہی، کاغذ، نوکر اور دوسری چیزیں عموما ذاتی حیثیت میں استعمال کرنے کا عام رواج ہے۔ وہ حکمران مسلم ہوں یا غیر مسلم، قومی نمائندے ہوں یا حکام اور عمال، سبھی اس مرض میں مبتلا ہیں، غالبا انہیں معلوم نہیں ہے کہ قیامت میں ان سب کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ ایک سوئی تک بھی سرکاری داعیہ کے بغیر بیت المال کی خرچ کی گئی تو اس کا بھی خدا کے ہاں حساب ہو گا۔ چہ جائیکہ سرکاری خزانہ کی نقدی، سرکاری گاڑی، جہاز، ہیلی کاپٹر اور کاریں وغیرہ کوئی شخص استعمال کرے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں خلیفہ ارشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زندگی کے وہ نمونے آپ کے سامنے رکھیں جو انہوں نے ایک خلیفہ کی حیثیت سے چھوڑے ہیں۔
وہ رات کو خلافت کا کام بیت المال کی شمع سامنے رکھ کر انجام دیتے تھے۔ لیکن جب اپنا کام کرنا ہوتا تو اس شمع کو اٹھوا دیتے اور ذاتی چراغ منگوا کر کام کرتے (طبقات ابن سعد)
فرات بن مسلمہ ہر جمعہ کو ان کی خدمت میں سرکاری کاغذات پیش کیا کرتے تھے، ایک دن انہوں نے کاغذات دکھائے تو انہوں نے اس میں سے بقدر ایک بالشت کے سادہ کاغذ لے لیا اور اپنے ذاتی کام میں لائے۔ چونکہ فرات کو ان کی دیانت کا حال معلوم تھا۔ اس لئے انہوں نے دل میں کہا کہ امیر المومنین سے بھول چوک ہو گئی ہے، دوسرے دن انہوں نے ان کو مع کاغذات کے طلب کیا، وہ آئے تو ان کو کسی دوسرے کام کے لئے بھیج دیا۔ وہ پلٹے تو بولے کہ اب تک تمہارے کاغذات دیکھنے کا موقع نہیں ملا، اس وقت جاؤ پھر بلا لوں گا۔ انہوں نے گھر جا کر کاغذات کھولے تو جتنا کاغذ کل لیا تھا اتنا اس میں موجود پایا۔
فقراء و مساکین کے لئے بیت المال کے مصارف سے جو مہمان خانہ قائم کیا تھا اس سے نہ خود فائدہ اٹھاتے تھے اور نہ خاندان میں کسی شخص کو فائدہ اٹھانے دیتے تھے ، عام طور پر حکم دے رکھا تھا کہ ہمارے غسل اور وضو کا پانی مہمان خانہ کے باورچی خانہ میں گرم نہ کیا جائے، ایک بار ان کی لا علمی میں ملازم نے ایک ماہ تک وضو کا پانی مطبخ عام میں گرم کیا، ان کو معلوم ہوا تو اتنی لکڑی خرید کر باورچی خانہ میں داخل کر دی (ابن سعد)
ایک بار سرکاری کوٹلے سے گرم کیا ہوا پانی وضو کے لئے آیا تو وضو کرنے سے انکار کر دیا۔
ایک بار غلام کو گوشت کا ایک ٹکڑا بھوننے کے لئے دیا۔ وہ سرکاری باورچی خانے سے بھون لایا تو بولے کہ:
تمہی کھاؤ، یہ تمہاری قسمت میں لکھا ہوا تھا، میری قسمت میں نہ تھا۔
ایک دن گھر میں آئے تو دیکھا کہ لونڈی ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ لیے ہوئے ہے۔بولے یہ کیا ہے؟
اس نے کہا کہ آپ کی زوجہ (بیوی) حمل سے ہیں ان کو دودھ کی خواہش ہوئی اور حمل کی حالت میں اگر عورت کے دل میں خواہش پیدا ہو اور وہ پوری نہ کی جائے تو اس سے اسقاطِ حمل کا اندیشہ ہو جاتا ہے، اس لیے یہ دودھ میں دارالضیافت سے لائی ہوں، انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چیختے ہوئے بیوی کے پاس لے گئے اور کہا:
اگر حمل کو فقراء اور مساکین کے کھانے کے سوا کوئی چیز قائم نہیں رکھ سکتی تو خدا اس کو قائم نہ رکھے۔
اب بی بی نے لونڈی سے کہا کہ:
اس کو واپس کر آؤ میں اسے نہ پیوں گی۔ (ابن سعد)
یہ حالت دیکھ کر لوگوں نے کہا کہ:
اگر آپ خود مہمان خانے کے کھانے سے احتراز کریں گے تو اور لوگوں کو بھی احتراز ہو گا، اب وہ باورچی خانہ میں معاوضہ داخل کر کے لوگوں کے ساتھ شریک طعام ہونے لگے۔
ایک بار انہوں نے اپنے غلام مزاحم سے کہا کہ:
مجھے ایک رحل خرید دو، وہ ایک رحل لائے جس کو انہوں نے بہت پسند کیا اور بولے کہ:
اس کو کہاں سے لائے ہو؟
انہوں نے کہا:
میں نے سرکاری مال خانے میں یہ لکڑی پائی اور اسی کی یہ رحل بنوائی۔
فرمانے لگے:
جاؤ بازار میں اس کی قیمت لگواؤ۔
وہ گئے تو لوگوں نے نصف دینار قیمت لگائی، انہوں نے آکر خبر دی تو انہوں نے کہا کہ:
تمہاری کیا رائے ہے، ہم بیت المال میں ایک دینار داخل کر دیں تو ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں گے؟
انہوں نے کہا:
قیامت تو نصف دینار لگائی گئی ہے۔
فرمانے لگے:
بیت المال میں دو دینار داخل کر دو۔ (ابن سعد)
ایک بار ایک شخص نے ان کی خدمت میں کھجوریں روانہ کیں، آدمی کھجوریں سامنے لایا تو پوچھا ان کو کس چیز پر لائے ہو؟
اس نے کہا کہ ڈاک کے گھوڑوں پر، چونکہ ڈاک کا تعلق سرکاری چیزوں سے تھا اس لیے حکم دیا کہ:
کھجوروں کو بازار میں لے جا کر فروخت کر دو۔
وہ بازار میں آیا تو ایک مروانی نے اس کو خرید لیا اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں ہدیۃ بھیجا، جب کھجوریں سامنے آئیں تو بولے کہ یہ تو وہی کھجوریں ہیں۔ یہ کہہ کر کچھ کو سامنے کھانے کے لیے رکھ دیا اور کچھ گھر میں بھیج دیں، لیکن بیت المال میں قیامت داخل کر دی۔
ایک بار انہوں نے لبنان کے شہد کا شوق ظاہر کیا، ابن معدی کرب وہاں کے عامل (گورنر) تھے۔ ان کی بیوی نے ان کو کہلا بھیجا اور انہوں نے وہاں سے بہت سا شہد بھیج دیا۔ شہد سامنے آیا تو بیوی کو خطاب کر کے کہا کہ:
غالبا تم نے معدی کرب کے ذریعے سے اس کو منگوایا ہے۔ پھر اس کو فروخت کروا کے بیت المال میں قیمت داخل کر دی اور معدی کرب کو لکھا کہ:
اگر تم نے دوبارہ ایسا کیا تو تمہارا منہ بھی دیکھنا پسند نہیں کروں گا۔
ایک بار ان کی بیوی نے ڈاک کی سواری پر ایک آدمی کو روانہ کیا اور وہ دو دینار کا شہد خرید لایا، شہد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے آیا اور یہ واقعہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس کو فروخت کر ڈالا اور دو دینار واپس لے کر بقیہ قیامت بیت المال میں داخل کر دی اور کہا کہ:
"تم نے مسلمانوں کے جانور(یعنی سرکاری ڈاک کی سواری) کو عمر کے لئے تکلیف دی، دوسری روایت میں ہے کہ:
انہوں نے کہا کہ: اگر مسلمانوں کو میری قے سے فائدہ پہنچ سکتا تو میں قے کر دیتا۔
ایک بار سرکاری سیب تقسیم فرما رہے تھے، ان کا ایک صغیر السن بچہ آیا اور ایک سیب اٹھا کر کھانے لگا، انہوں نے سیب کو اس کے ہاتھ سے نہایت سختی کے ساتھ چھین لیا۔ بچہ روتا ہوا ماں کے پاس آیا۔ اس نے بازار سے سیب منگوا کر اس کو دے دیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز گھر آئے تو سیب کی خوشبو سونگھ کر بولے کہ کہیں سرکاری سیب تو گھر میں نہیں آئے؟ ان کی بیوی نے واقعہ بیان کیا تو بولے کہ:
میں نے سیب اپنے بچے سے چھینا تو گویا اپنے دل سے چھینا لیکن مجھے یہ پسند نہ آیا کہ خدا کے سامنے مسلمانوں کے سیب کے لیے اپنے آپ کو برباد کر دوں۔
ایک دن ان کی لڑکی نے ایک موتی بھیجا اور کہا کہ اس کا جوڑا بھیج دیجئے تاکہ میں کانوں میں ڈالوں، انہوں نے اس کے پاس آگ کی دو چنگاریاں بھیج دیں اور کہا کہ اگر تم ان چنگاریوں کو کان میں ڈال سکو تو میں اس موتی اک جوڑا بھیج دوں گا؟ (سیرت ابن عبدالحکم)
خناصرہ میں اگرچہ اگلے خلفاء نے بہت سے مکانات بنوائے تھے لیکن چونکہ وہ بیت المال کی آمدنی سے تعمیر ہوئے تھے، اس لیے جب وہاں گئے تو ان مکانات میں اترنا پسند نہیں کیا اور میدان میں قیام کیا۔ (یعقوبی ۔۔۔ ماخوذ سیرت عمر بن عبدالعزیز)
سرکاری اور نجی حیثیت میں سرکاری اشیاء سے استفادہ کرنے میں یہ شرعی پابندیاں ہیں جن کو ایک خلیفہ راشد نے ہر قدم پر ملحوظ رکھا اور رکھنا چاہئے۔ کیونکہ سرکاری دولت، پوری قوم اور ملک و ملت کی امانت ہوتی ہے، خواہ وہ تھوڑی ہو یا بہت، اعلیٰ ہو یا معمولی، وہ کسی بھی سرکاری ملازم کے لیے مباح نہیں ہوتی کیونکہ اپنے جاہ و منصبت کے ذریعے عوام استھصال کی یہ ایک بدترین مثال ہے۔ مگر افسوس! دنیا کے کس بھی خطہ میں، کوئی بھی حکمران، کوئی حاکم، کوئی سرکاری ملازم اور کوئی اہل کار اس سلسلے کی بے احتیاطی کے سنگین نتائج کا کچھ احساس نہیں کرتا۔ جب آخرت میں پوری قوم بلکہ ملک کی پوری آبادی اس قرض کی وصولی کے لیے خدا کے ہاں مقدمہ داخل کرے گی۔ اس وقت کوئی، کس کس سے پیچھا چھڑائے گا اور خدا کو اس کا کیا جواب دے گا؟ بظاہر یہ سب باتیں معمولی معلوم ہوتی ہیں مگر اخروی جواب دہی کے لحاظ سے اور ملک و ملت کی ایک سرکاری امانت کے اعتبار سے اس کی جواب دہی کے جو متوقع خطرات درپیش ہیں، وہ بہت ہی سنگین ہوں گے۔۔۔لیکن افسوس! یہ مرحلہ جس قدر احتیاط طلب تھا اس قدر بے احتیاطی اس میں راہ پا گئی ہے۔ اور جس قدر سنگین تھا، اس قدر اور اسی وسعت کے ساتھ عام ہو گیا ہے۔