سیرتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا ایک باب

جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات دُعائے خلیل کا ایک مجسمہ بن کر منصئہ شہود پر جلوہ افروز ہوئی اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیکر محسوس اختیار کر لیا۔

"اللهم أعزالدين بعمر بن الخطاب "یعنی بارِ الہی عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے ذریعہ دین کو برتری عطا فرما (طبقات کبریٰ ابن سعد ج3 ص267)

اس وقت ایک ہی نام کے دو اشخاص مکہ معظمہ کے کوچہ و بازار میں چلتے پھرتے نظر آتے تھے لیکن ان دونوں کی فطری صلاحیتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔ ہر چند کہ دونوں کا نام عمر تھا اور قرابت صلبی و رحمی کے فرق کے ساتھ دونوں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اب یہ خدا کی شان کہ ایک ابوجہل اور دوسرا فاروقِ اعظم بن گیا۔ حق و باطل کے درمیان صلاحیتِ امتیاز کے لحاظ سے ایک سب سے بڑا جاہل اور دوسرا سب سے بڑا دانا قرار پایا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے ایک کے لیے اللہ تعالیٰ سے التجا کی اور انتخاب خود ذات باری پر چھوڑ دیا اور یہ تمنا کی کہ:

"اللهم أعزالإسلام بأحب الرجلين إليك بعمر بن الخطاب أوبأبي جهل بن الهشام"(یعنی خداوند عمر بن الخطاب اور ابوجہل بن ہشام دونوں میں سے جسے تو پسند فرمائے اس کے ذریعہ اسلام کو برتری عطا فرما) مشیت ایزدی نے محبوب رب العلمین کے لیے دونوں میں سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرما کر اپنے حبیب کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھایا اور قبائے رسالت کا ایک پھول بنا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ قبیلہ بن عدی بن کعب کے اس گلی سرسید کی خوشبو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تا ابد جاری رہنے والی رسالت کی فضاؤں میں پھیلی اور پھیلتی چلی گئی اور آج بھی ہر وہ دماغ جس کی قوتِ معطلی نہ ہو گئی ہو اس کی خوشبو سے معطر ہے۔

یہاں پر یہ تفصیل ضروری نہیں ہے کہ دوسرے عمر کا جسے اللہ تعالیٰ نے رد فرما دیا کیا حشر ہوا صرف اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ وہ ایک ناپاک خذف ریزے کی طرح معرکہ بدر میں غلامانِ سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں تلے کچلا گیا اور اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ "عمر" کا نام اہلِ عرب میں نہایت مقبول تھا اور غالبا مبارک بھی سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس نام کے کم و بیش 145 اشخاص علم و فضل، دیانت و تقویٰ یا شجاعت و بسالت کے پیکر ایسے ہیں جن کے ذکر سے تاریخ اسلام کے اوراق مزین ہیں۔ علامہ محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب الفاروق کے آغاز میں یہ بتایا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس کے ہمنام دنیائے اسلام میں سب سے زیادہ ہیں وہ "عمر" ہیں۔ اللہ کو منظور نہ تھا کہ اسلام کے بدترین دشمن ابوجہل کو اسی نام سے پکارا جاتا اس لیے اب دنیا میں نہ اس کا نام "عمر" مشہور ہے اور نہ اس کی کنیت بن ہشام سے لوگ آگاہ ہیں بلکہ ابوجہل کے نام سے اس کا ذکر ہوتا ہے اور عمر کی بجائے اس کا نام ابوجہل اس طرح مشہور ہے جس طرح نجدی مدعی نبوت کا نام رحمانِ یمامہ کی بجائے مسلیمہ کذاب مشہور ہے۔ اس کے برعکس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت سے فاروق کا لقب عطا ہوا اور امتِ مسلمہ میں وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیرت عمر رضی اللہ عنہ کی پوری تفصیل تین جملوں میں بیان فرمائی ہے «كان إسلام عمر فتحا وهجرته نصرا وإمارته رحمة» (منقول از رسالہ الشیخان طہ حسین ص129) (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مسلمان ہونا اسلام کی فتح، ان کا ہجرت کرنا دین کی اعانت اور امیرالمومنین بننا اللہ کی رحمت تھا) ہم اس مقالہ میں سیرتِ عمر کے ان تین ابواب میں سے صرف ابتدائی دور کا نہایت مختصر ذکر کریں گے جو ان کی سیرت کا باب اول ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پورا نام ابوحفص، عمر بن خطاب بن نفیل عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن ازاح ہے، ان کی والدہ کا نام خنتمہ بنت ہاشم تھا۔

ازواج کے نام یہ ہیں:

1۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت مظعون۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کی والدہ۔

2۔ ام کلثوم رضی اللہ عنہ حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کی صاجزادی۔

3۔ ملیکہ بنت جرول۔ یہ مسلمان نہیں ہوئیں اس لیے 6 ہجری میں طلاق ہو گئی۔ ابن سعد نے ان کا نام بھی ام کلثوم بتایا ہے۔ (طبقات ج3ص1265)

4۔ جمیلہ بنت ثابت جن کا یہ نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا۔ اصل نام عاصیہ تھا۔

5۔ غالبا ایک اور بیوی بھی تھیں جو مسلمان نہیں ہوئیں اس لیے علیحدگی ہو گئی۔

ان کے علاوہ تین کنیزوں کا بھی ذکر آتا ہے کہ یہ تینوں ام ولد تھیں۔ ان میں سے دو کا نام لُہیہ اور نکیہہ تھا (طبقات وغیرہ)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت واقعہ اصحابِ فیل کے تیرہ سال اور ولادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ سال بعد ہوئی۔ ان کا شمار قبیلہ قریش کے چوٹی کے شرفاء میں تھا اور اندرونی اور بیرونی حکمت عملیوں اور قبائل کے تصفیہ طلب امور میں ان کو حکم اور سفیر بنایا جاتا تھا۔

مورخین نے بتایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوائل عمر ہی سے مشکل پسند اور تند مزاج کے مالک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی یہ افتاد طیع ان کے والد خطاب بن نفیل سے ورثہ میں ملی تھی جو اپنے بیٹے پر بہت سختی کرتے تھے۔ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے سپرد اونٹوں کے چرانے کا کام تھا اگر اس میں ذرا سی بھی غفلت ہوتی تو میرے والد بری طرح مجھے پیٹتے تھے تاہم یہ امر مسلمہ ہے کہ حضرت ممدوح کے اعلیٰ کردار میں تمام اخلاق فاضلہ اور محاسن فطریہ کے نمونے موجود ہیں۔

محمد حسین ہیکل کا کہنا ہے کہ پرہیزگاری کا ذکر ہو یا بے لوث معدلت گستری کا، پاکیزہ طنیتی کا بیان ہو یا مسائل علمیہ و فقیہہ میں تبحر کا، ان تمام محاسن کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظیر پیش کی جا سکتی ہے۔ ان کے علاوہ حضرت میں ایک حوصلہ مند اور جری نوجوان کے تمام خصائل موجود تھے۔ وہ قدوقامت ، چہرہ مہرہ اور عزم و حوصلہ میں ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ عکاظ کے بازار میں جہاں شہزوری اور پہلوانی کا مظاہرہ آئے دن ہوتا رہتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بارعب شخصیت پہلوانوں کو لرزہ براندم کر دیتی تھی۔ کشتی گیری کے علاوہ شہسواری میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ گھوڑے کے دونوں کان پکڑ کر ایک ہی جست میں گھوڑے کو دبوچ لیتے تھے۔

علامہ شبلی نے ان کی قوت تقریر و مذاق شعری کا بھی ذکر فرمایا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس عہد میں ان سے زیادہ کوئی شخص سخن فہم نہ تھا، تاہم ان کا فکر سخن اصلاحی تھا۔ انہوں نے شعر میں علانیہ شریف عورتوں کے نام لے کر اظہارِ تعشق سے منع فرمایا ہے حالانکہ یہ عربی شاعری کی خصوصیات میں سے ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان گنے چُنے ان اشخاص میں سے تھے جن کو لکھنا آتا تھا۔ انہوں نے عبرانی زبان میں بھی اچھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ علامہ شبلی نے بحوالہ کنزالعمال بتایا ہے کہ وہ جس قدر یہودیوں کی روایات پڑھے تھے اتنا ہی ان سے متنفر ہوتے جاتے تھے جو ان کی فطری پاکیزگی کی دلیل ہے۔

ہر چند کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی درشت مزاجی کا ذکر تمام مورخین اسلام و اہل سیر نے کیا ہے تاہم بجز ایک واقعہ کے جو انجام کار اسلامِ عمر رضی اللہ عنہ پر مُنتج ہوا کوئی قابل ذکر واقعہ راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزرا۔ علامہ شبلی نے اپنی کتاب سیرت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تشدد پسندی کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی کنیز لُبینہ کو جو مسلمان ہو گئی تھی بری طرح زد و کوب کیا کرتے تھے یہاں تک کہ تھک جاتے تھے لیکن کنیزوں کی مار پیٹ سے تشدد پسندی کا استدلال درست نہیں کیونکہ ایام جاہلیت میں یہ معمولی بات تھی۔ تاہم یہ واقعہ کہ انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی سعید بن زید کے ساتھ بھی تشدد کیا اور مسلمان ہو جانے کی پاداش میں رسیوں سے باندھا تھا ان کی تند مزاجی کی دلیل میں پیش کیا جا سکتا ہے (سیرۃ النبی جلد 1) اس کے برعکس ایسے واقعات ان کی کتب سیرت میں مذکور ہیں جن سے ان کی رحم دلی اور نرم مزاجی کا بین ثبوت ملتا ہے۔ ان کے صاجزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا ہو اور اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو قرآن حکیم کی کوئی آیت سن کر وہ بالکل نرم پڑ جاتے تھے اور سختی کے ارادہ سے باز آ جاتے تھے۔ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں یہ تبدیلی اسلام لانے کے بعد آئی تھی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور حوصلہ مندی کا ہر شخص کو اعتراف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر مرد شجاع رحم دل ہوتا ہے۔ ان کی تشدد پسندی کا وہ واقعہ جو انجام کار ان کے مسلمان ہونے پر منتج ہوا مختلف تفاصیل کے ساتھ سوانح حیات عمر رضی اللہ عنہ کا ایک لازمی حصہ ہے اور اس مختصر مضمون میں بھی اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

علامہ جزری نے اس کا ذکر مختلف راویوں کے الفاظ میں کیا ہے منجملہ ان کے حضرت ابن زید رضی اللہ عنہ کے دادا اسلم کی روایت کے بموجب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان یہ ہے کہ:

"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین مخالفوں میں سے تھا۔ سخت موسمِ گرما میں ایک روز مکہ میں راستے پر جا رہا تھا کہ ایک قریشی نے (جن کا نام محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب الفاروق میں نُعیم بن عبداللہ فرمایا ہے ص43) مجھے پکارا اور جنب میں متوجہ ہوا تو انہوں نے کہا ابن خطاب! تم مسلمانوں کے خلاف بہت باتیں بناتے ہو لیکن تمہیں اپنے گھر کی بھی خبر ہے، اسلام تو وہاں بھی پہنچ گیا۔ تمہاری بہن گمراہ ہو گئی ہے۔ میں پیچ و تاب کھاتا ہوا اپنی بہن کے گھر پہنچا، دستک دی، آواز آئی۔ کون ہے؟ میں نے کہا ابن خطاب، وہاں کچھ اور لوگ بھی تھے جو چھپ گئے (بعض راویوں نے ان میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے) جو ایک تحریر پڑھ رہے تھے۔ میری بہن نے دروازہ کھولا۔ میں نے اسے کہا اپنی جان کی دشمن! میں نے سنا ہے کہ تم گمراہ ہو گئی ہو۔ ساتھ ہی میرے ہاتھ میں کوئی چیز تھی وہ میں نے اس پر دے ماری، وہ لہولہان ہو گئی اور بُری طرح روتے ہوئے اس نے کہا کہ خطاب کے بیٹے! تمہارا جو جی چاہے کرو میں تو مسلمان ہو چکی ہوں۔ ہر چند کہ میرا دل ان کی حالت پر پسیجا لیکن غصہ میں بھرا ہوا میں ایک چوکی پر بیٹھ گیا، ناگہا میری نظر اس تحریر پر پڑی۔ میں نے بہن سے کہا کہ وہ اٹھا کر مجھے دے، میں دیکھوں اس میں کیا لکھا ہے اس نے کہا کہ تم ناپاک ہو جب تک غسل نہ کرو اسے ہاتھ نہیں لگا سکتے کیونکہ اسے پاک ہو کر ہی کوئی شخص ہاتھ لگا سکتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس کے کہنے کے مطابق عمل کیا پھر اس نے وہ ورق مجھے دیا میں نے پڑھا "بسم الله الرحمٰن الرحيم" لفظ رحیم پڑھ کر مجھ پر ایک ہیبت سی طاری ہوئی۔ پھر اپنے آپ کو سنبھال کر میں نے دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا" سبح لله مافي السماوات والأرض وهو العزيز الحكيم" بقول راوی عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس تحریر میں کہاں کہیں اللہ کا نام آتا میں بے خود ہو جاتا تھا۔ چنانچہ "آمنوا بالله ورسوله" پر یہی کیفیت ہوئی اور جب "إن كنتم مؤمنين" پر پہنچا تو میں نے بے اختیار کہا " أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله " اس واقعہ کی دوسری روایات میں بعض جزئیات کی تفصیل ہے۔ علامہ نووی کی منقولہ روایت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بہن سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں (یعنی ان دس اصحاب میں سے ہیں جن کے جنتی ہونے کی بشارت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے) اس وقت وہ اور ان کی بیوی مسلمان ہو چکی تھیں۔ علامہ شبلی نے بحوالہ بلاذری و ابن سعد ، ابن عساکر اور ابن الاثیر بتایا ہے کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ارقم کے مکان میں جو دامنِ کوہِ صفا میں واقع ہے تشریف فرما تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی طرح شمشیر بکف خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کو تشویش ہوئی لیکن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا آنے دو۔ اگر بری نیت سے آیا ہے تو اس کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑح کر عمر رضی اللہ عنہ کا دامن پکڑ کر کھینچا اور تحکمانہ انداز میں آنے کا مقصد پوچھا؟ عمر رضی اللہ عنہ سوال کی ہیبت سے کانپ گئے اور عرض کیا کہ حضور پر ایمان لانے کے لیے آیا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوشِ مسرت سے اللہ اکبر کہا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی نعرہ اللہ اکبر اس طرح بلند کیا کہ فضا گونج اٹھی۔

اس واقعہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علانیہ اظہارِ اسلام کرنا اور مکہ کے مسلمان مردوں کی قلیل جماعت کا (؟) اس وقت اہل تحقیق کے نزدیک چالیس پچاس افراد سے زیادہ نہ تھی (جزری) اظہار مسرت کرنا اور اللہ کا نام بلند کرنا سب سے نزدیک مسلم ہے۔ بعض متاخرین اور عہدِ حاضر کے منقشین مثلا علامہ محمد حسین ہیکل اور طہ حسین وغیرہ نے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تشدد پسندی اور محض چند آیات کلامِ الہی کو سن کر مسلمان ہو جانے پر استعجاب کا اظہار فرمایا اور تنقید کی ہے۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بارے میں اس روایت کو اہمیت دی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مسلمان ہونے کا واقعہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:

"میں عہد جاہلیت میں شراب کا دھتیا اور اس کا رسیا تھا اور قریشی وارستہ مزاجوں کی ایک ٹولی میں شامل تھا۔ ایک روز میں نے ارادہ کیا کہ فلاں مے فروش کے پاس جاؤں اور شراب خرید کر پیوں، وہاں جا کر دیکھا تو کوئی نہ تھا، میں نے کہا چلو کعبہ کا طواف ہی کر لوں، وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز پڑھ رہے ہیں، میں نے کہا دیکھنا چاہئے کہ یہ کیا پڑھتے ہیں؟ اس خیال سے کہ مبادا وہ مجھے دیکھ کر برہم ہوں غلافِ کعبہ کی آڑ لے کر دبے پاؤں ان کے قریب پہنچ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھ رہے تھے جسے سن کر مجھ پر رقت طاری ہو گئی اور اسلام میرے دل میں سما گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر گھر کی طرف جانے لگے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلا۔ میری آہٹ پا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور خیال فرمایا کہ میں انہیں اذیت پہنچانے کے ارادہ سے ان کا پیچھا کر رہا ہوں۔ انہوں نے سختی کے ساتھ مجھے پوچھا کہ اس وقت یہاں تمہارے آنے کا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر اور کلامِ الہی پر ایمان لانے کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ "الحمدللہ" اے عمر ! تجھے اللہ نے ہدایت دی پھر میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور ثابت قدم رہنے کی دعا فرمائی۔"

علامہ ہیکل نے اس روایت کی تطبیق مسند امام احمد کی اس روایت سے فرمائی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ بیان مروی ہے۔

"میں مسلمان ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کے ارادہ سے نکلا، حضور مسجد میں پہلے سے موجود تھے اور سورہ الحاقہ پڑھ رہے تھے۔ میں نظمِ قرآن سے بڑا متاثر ہوا اور دل میں کہا کہ واللہ یہ تو شاعر ہیں جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی "﴿ إِنَّهُ لَقَولُ رَ‌سولٍ كَر‌يمٍ ﴿٤٠﴾ وَما هُوَ بِقَولِ شاعِرٍ‌ ۚ قَليلًا ما تُؤمِنونَ ﴿٤١﴾ ... سورة الحاقة" اب تو میں نے یہ خیال کیا کہ وہ کاہن (ستارہ شناس) ہیں کہ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ﴿ وَلا بِقَولِ كاهِنٍ ۚ قَليلًا ما تَذَكَّر‌ونَ ﴿٤٢﴾ تَنزيلٌ مِن رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿٤٣﴾ وَلَو تَقَوَّلَ عَلَينا بَعضَ الأَقاويلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذنا مِنهُ بِاليَمينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعنا مِنهُ الوَتينَ ﴿٤٦﴾ فَما مِنكُم مِن أَحَدٍ عَنهُ حـٰجِزينَ ﴿٤٧﴾ ... سورة الحاقة" (تا سورہ آخر) یہ آیات سن کر ایمان پورے طور پر میرے دل میں جگہ گر گیا۔"

بہ ظاہر یہ تمام روایات ایک ہی واقعہ کی مربوط کڑیاں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب امور مسلسل اور متصل واقع ہوئے لہذا ان میں تو افق و تطابق کچھ مشکل نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ دارارقم والی آیت سب سے آخری روایت ہو اور دین اسلام کی صداقت کا نقش حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قلب و ذہن پر اس سے پہلے ہی ہر قسم ہونے لگا ہو۔

اسلام لانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جراءتِ ایمان کا مظاہروں کا ذکر ان کے فرزند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جو اس وقت ایک نو عمر لڑکے تھے اس طرح بیان کیا ہے۔

"اگلی صبح کو جمیل بن معمر جُمعی کے پاس جا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بے دھڑک کہا کہ جمیل تمہیں پتہ ہے کہ میں دین اسلام میں داخل ہو گیا ہوں۔ جمیل نے انہیں پکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئے مسجد میں لائے اور سب کو پکار کر کہا کہ اے اہلِ قریش خطاب کا بیٹا گمراہ ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شخص جھوٹ کہتا ہے میں تو راہِ راست پر آ گیا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ "لا إله إلا الله محمد رسول الله" اس پر لوگوں میں ہیجان پیدا ہو گیا اور قریب تھا کہ جنگ و جدل کی نوبت آ جائے لیکن سر دست حضرت عاص بن وائل نے بیچ بچاؤ کر دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔"

اس صبح کا اپنا ایک اور واقعہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ جس روز میں مسلمان ہوا اس روز تمام رات مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کا خیال آتا رہا۔ صبح ہوتے ہی میں نے ابوجہل کے گھر پر جا کر دستک دی وہ باہر آیا اور کہا کہ مرحبا خوش آمدید! میرے بھانجے! آج کیسے آنا ہوا، میں نے کہا کہ یہ بتانے آیا ہوں کہ میں ایک اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جو وحی ان پر نازل ہوئی ہے اس پر ایمان لایا۔ یہ سنتے ہی اس نے کہا کہ تجھے اور تیری اس حرکت کو خدا غارت کرے اور دروازہ بند کر لیا۔

تمام مورخین و سوانح نگار اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مسلمان ہونا ایک طرف تو اسلامی عروج کا فتح الباب تھا اور دوسری جانب قریش اور دوسرے اہل مکہ کی عداوت اور عناد کا سراغاز ہو گیا۔ قریش کی مسلمانوں کو ایذا دہی جو اس وقت تک انفرادی حیثیت کی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد ایک منظم شکل اختیار کر گئی۔ انتہائی المناک اور سفاکانہ تعذیب کے ابتدائی چند مردوں میں حضرت خباب بن الارت، حضرت بلال، حضرت یاسر، حضرت صہیب، حضرت ابو فکیہہ، حضرت عثمان، حضرت ابوذر، حضرت زبیر بن العوام، سعید بن زید، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی اور حضرت عمار (رضی اللہ عنھم) تھے۔ جس کی ماں حضرت سمیہ کو ابوجہل نے مسلمان ہونے کی پاداش میں نیزہ مار کر ہلاک کر دیا اور ان کے باپ یاسر کو کافروں نے شہید کر دیا۔ عورتوں میں حضرت سمیہ کے علاوہ لُبینہ، زنیرہ، نہدیہ اور ام عبیس پر بھی انتہائی مظالم ڈھائے گئے۔ یہاں تک کہ متعدد مسلمان جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں وطنِ عزیز کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو کر مکہ سے حبشہ چلے گئے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہلِ خاندان کو جس میں عورتیں اور بچے شامل تھے پہاڑ کی ایک گھاٹی میں جو شعب ابوطالب کے نام سے مشہور ہے محصور کر دیا گیا، اور اشیاء خود و نوش بند کر دی گئیں، یہ مقاطعہ قریش نے منظم طور پر ایک معاہدہ کے تحت جس کو لکھ کر خانہ کعبہ پر آویزاں کر دیا گیا تھا عمل میں آیا، خاندانِ نبوت تین سال تک بے کسی اور فقر و فاقہ کی ایک ایسی اذیت میں مبتلا رہا جس کی نظیر تاریخ جبر و تعذیب میں نہ اس سے پہلے سنی گئی اور نہ اس کے بعد پیش آئی۔ محصورین کے علاوہ جو مسلمان باہر تھے بشمول حمزہ رضی اللہ عنہ و عمران رضی اللہ عنہ کو بھی چند در چند مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن مسلمانوں کے پائے استقلال میں جنبش نہ آئی۔ تین سال کے بعد جبکہ معاہدہ کی تحریر کرم خوردہ ہو گئی اور کچھ رحمدل حضرات سے جو اگرچہ مسلمان نہ تھے محصورین اور ان کے بچوں کی گریہ زاری نہ دیکھی گئی تو انہوں نے اس معاہدہ کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ہوتی گئی اور اسلام کی ترقی کے ساتھ دشمنانِ اسلام کی مخالفت بھی بڑھتی رہی۔ دورِ نبوی کا ایک سال ایسا آیا کہ مخالفین کی اذیت کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چچا اور بیوی کی وفات کا غم دیکھنا پڑا۔ اس سال کو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عام الحزن قرار دیا ہے۔ دنیوی سہاروں میں سے ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے محرومی نے دل برداشتہ کر دیا اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے کشائش کی آرزو کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مکہ سے ہجرت کا حکم آیا اور مناسب تہیہ اسباب کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر عازم مدینہ ہو گئے۔ یہی وہ رات تھی جس میں تمام قبائل قریش نے مل کر بیک وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کا عزم کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے جھٹ پٹے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب فرما کر ان تمام اشخاص کو امانتیں ان کے سپرد فرما کر واپس کر دینے کی ہدایت فرمائی پھر انہیں اپنے بستر پر سو جانے کا حکم دیا اور اعدائے دین کی نظر بچا کر گھر سے نکل آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی معیت میں سب سے پہلے غارِ ثور میں پناہ لی اور دو تین دن کے بعد مدینہ کی جانب روانہ ہو گئے۔

کچھ دنوں کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کا عزم کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے عزم سفر کی جو کیفیت بیان فرمائی ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جراءت و بسالت کا ناقابلِ یقین حد تک حیرت انگیز ثبوت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو تلوار، نیزے اور تیر کمان سے مسلح ہو کر کعبہ کی طرف آئے، اطمینان کے ساتھ کعبہ کا طواف کیا اور مخالفین کی مختلف ٹولیاں جو وہاں موجود تھیں ہر ایک کے سامنے درانہ آ کر کھڑے ہوئے اور نہ آواز بلند کہا کہ خدا ان اعدائے دین کو ضرور غارت کرے گا۔ پھر للکار کر کہا کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی ماں بے اولاد یا اس کی اولاد یتیم اور بیوی بیوہ ہو جائے وہ اس وادی سے باہر نکل کر مجھ سے نپٹ لے (محمد حسین ہیکل الفاروق ج1 ص55) دوسری طرف خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان یہ ہے کہ میں عیاش بن ربیعہ، ہشام ابن العاص اور ابن وائل چھپ کر روانہ ہوئے تھے لیکن عیاش بعد میں اپنی ماں کے کہنے پر راستہ سے واپس آ گئے جنہیں بعد میں ناقابل بیان آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ بنا بریں ہشام اور (؟) نے پہلی روایت کی صحت سے انکار کیا ہے لیکن راقم الحروف کے نزدیک ان دونوں روایتوں میں کوئی تناقض نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے محض دھمکی دی ہو اور لوگ ان سے خائف ہو کر مزاحم نہ ہوئے ہوں لیکن ہجرت دوسرے مہاجرین کی طرح چھپ کر کی ہو۔ لہذا یہ امر واقعہ روایت اولیٰ کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس اصحاب کے ساتھ ہجرت کی۔ ان اصحاب کی تفصیل مولانا محمد یوسف صاحب سنت پوری نے بحوالہ ابن ہشام اپنی کتاب "فضائل الشیخین" میں درج فرمائی ہے (ص22) یہ تھا سوانح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین ابواب میں سے صرف پہلے باب کا مختصر بیان۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور عہد خلافت کا بیان فرصت حیات و توفیق الہی پر موقوف ہے۔