بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے نام کے ساتھ ان کے آباء کا نام لیا جائے گا یا اُن کی ماؤں کا؟... اس بارے میں بکثرت سوالات کے پیش نظر قدرے تفصیل حاضر خدمت ہے۔
درست موقف
درست یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو اُن کے باپوں ہی کے نام سے بلایا جائے گا، ماؤں کے نام سے نہیں جیسا کہ عام لوگوں میں مشہور ہے۔محدثین کا یہی موقف ہےجیسا کہ امام بخاری نے کتاب الادب میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: باب ما یدعٰی الناس بآبائهم یعنی ''یہ بیان کہ لوگوں کو ان کے آباکے ناموں سے بلایا جائے گا۔'' اس باب کے تحت وہ عبد اللہ بن عمر ؓ کی درج ذیل حدیث لائے ہیں:
«إن الغادر ینصب له لواء یوم القیامة، فیقال: هٰذه غدرة فلان بن فلان ...»1
"خائن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی خیانت ہے۔''
ابن بطال اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان: «هذه غدرة فلان بن فلان» میں ان کا ردّ ہے جن کا خیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ اس صورت میں اُن کے باپوں کا پتہ نہیں چلے گا جبکہ حدیث مذکور اُن کے اس قول کے خلاف ہے۔"2
علاوہ ازیں دیگر محدثین اور شارحین حدیث نے بھی اس بات کا رد کیا ہے کہ روز قیامت لوگوں کے نام کے ساتھ ان کی ماں کا نام آئے گا۔ اس بارے میں ایک صریح حدیث بھی ہے مگر وہ اسناد ی اعتبار سے ضعیف ہونے کی بنا پر قابل استدلال نہیں ہے۔وہ حدیث سيدنا ابو درداء سے بایں الفاظ مروی ہے:
«إنکم تدعون یوم القیامة بأسمائکم وأسماء آبائکم فأحسنوا أسمائکم»3
"یقیناً تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے نام سے بلائے جاؤگے، چنانچہ تم اپنے اچھے اچھے نام رکھو۔"
اسے امام ابوداؤد نے عبداللہ بن ابی زکریا از ابوالدرداء کی سند سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ضعیف اس لیے ہے کہ ابن ابی زکریا نے ابودرداء کا زمانہ نہیں پایا۔جیساکہ امام ابوداؤدنے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد صراحت کی ہے اورحافظ ابن حجرنے بھی فتح الباری (10؍577) میں اسی طرح کہا ہے اور حافظ منذری نے مختصر السنن (7؍571)میں کہا ہے کہ ان کا ابودرداء سے سماع نہیں ہے۔
دوسرا موقف اور ان کے دلائل
جن علمانے کہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کو اُس کی ماں کے ناموں سے بلایا جائے گا، باپ کے نام سے نہیں۔ ان کے درج ذیل دلائل ہیں:
1. پہلی دلیل: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ ارشاد :﴿ يَومَ نَدعوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمـٰمِهِم...٧١﴾... سورة الإسراء
" جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔"
محمد بن کعب نے بإمامهمکی تفسیر میں کہا ہے: قیل یعني بأمهاتهم کہا گیا ہے ''یعنی ان کی ماؤں کے ناموں سے۔'' ان کے اس قول کو امام بغوی اور امام قرطبی نے ذکر کیاہے اور کہا ہے کہ اس میں تین حکمتیں ہیں : عیسی کی وجہ سے ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے شرف کی بنا پر اور اولادِ زنا کی عدم رسوائی کی وجہ سے ۔4
مگرمحمد بن کعب کے اس قول کے بارے میں علامہ شنقیطی نے کہا ہے: قول باطل بلا شك، وقد ثبت في الصحیح من حدیث ابن عمر5
"یہ قول بلا شک وشبہ باطل ہے، حالانکہ صحیح بخاری میں ابن عمرؓ کی حدیث سے ثابت ہے ...۔"
اس کے بعد اُنہوں نے ابن عمرؓ کی مذکورہ حدیث کا ذکر کیا ہے۔
اسی طرح زمخشری نے بھی امام کی تفسیر "أمهات" سے کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
ومن بدع التفسیر أن الإمام جمع الأم، وإن الناس یدعون بأمهاتهم6
"انوکھی تفسیر وں میں سے ایک تفسیر یہ ہے کہ 'امام' اُمّ کی جمع ہے اورلوگوں کوقیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا..."
زمخشری کی اس انوکھی تفسیر کا ردّ امام نا صرالدین احمد بن منیر مالکی نے ان الفاظ میں کیا ہے:
ولقد استبدع بدعا لفظا ومعنی، فإن جمع "الأم" المعروف الأمهات، إما رعایة عیسی (علیه السلام) بذکر أمهات الخلائق لیذکر بأمه فیستدعی أن خلق عیسی (علیه السلام ) من غیر أب غمیزة في منصبه، وذلك عکس الحقیقة، فإن خلقه من غیر أب کان له آیة، و شرفًا في حقه، والله أعلم7
"زمخشری نے لفظی اور معنوی بدعت کا سہارا لیا ہے،کیوں کہ اُمّ کی معروف جمع(امام نہیں بلکہ) 'امہات'ہے۔رہا عیسی کا خیال رکھتے ہوئے لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارنا تاکہ عیسی کی ماں کا ذکر کیا جائے تو امام زمخشری کا یہ کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ عیسی کی بغیر باپ کے پیدائش کے تذکرے سے ان کے منصب پر حرف آتا ہے، حالانکہ یہ حقیقت کے برعکس ہے کیوں کہ ان کی بغیر باپ کے تخلیق ، ان کے لیے معجزہ اور عظیم شرف ہے ۔''
بعض دیگر علمانے بھی مذکورہ تمام حکمتوں کا ردّ کیا ہے اور بعض نے اس ردّ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔8
دوسری دلیل: بعض کمزور بلکہ ، سخت ضعیف قسم کی روایات ہیں جو درج ذیل ہیں :
1۔ حدیث انس جس کے الفاظ یہ ہیں:
یدعى الناس یوم القیامة بأمهاتهم سترا من الله عز وجل علیهم9
''روز قیامت اللہ کی طرف سے ستر پوشی کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا۔''
اس حدیث کو ابن جوزینےالموضوعات10 میں روایت کیا ہے اور اس کو علامہ ذہبی نےمیزان الاعتدال 11میں ابن عدی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اس میں بأمهاتهم کی بجائے "بأسماءأمهاتهم" ہے۔
مگر اس حدیث کی سند اسحاق بن ابراہیم کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔
علامہ سیوطی کا اس حدیث کی تقویت کی طرف رجحان ہے، چنانچہ انہوں نے اس حدیث پر ابن جوزی کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے :
"قلت:صرح ابن عدی بأن الحدیث منکر فلیس بموضوع ، وله شاهد من حدیث ابن عباس رضی الله عنه أخرجه الطبراني"12
" میں کہتا ہوں ابن عدی نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث منکر ہے ۔چنانچہ یہ موضوع نہیں اور ابن عباس ؓ کی حدیث سے اس کی ایک مؤید روایت ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔"میں کہتا ہوں : اس حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں :
"إن الله تعالى یدعو الناس یوم القیامة باسمائهم سترا منه على عباده"13
''یقینا اللہ تعالی قیامت کے دن لوگوں کو ان پر پردہ پوشی کی خاطر ان کے ناموں سے بلائے گا۔"
مگر یہ حدیث درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر شاہد بننے کے قابل نہیں :
الف: اس میں لوگوں کو ان کے ناموں سے بلائے جانے کا ذکر ہے ماؤں کے ناموں سے بلائے جانے کا ذکر نہیں ۔
ب:اس کی سند سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔ کیوں کہ اس کی سند میں اسحاق بن بشیرابوحذیفہ ہے جو متروک بلکہ کذاب ہے۔ علامہ البانی نے اس کو الضعیفہ (434) میں موضوع کہا ہے ۔
تنبیہ : حافظ ابن حجر نے ابن بطال کا یہ قول:
في هذا الحدیث رد لقول من زعم انهم لا یدعون یوم القیامة إلا بأمهاتهم سترا على آبائهم14
"اس حدیث (ابن عمر کی جھنڈا نصب کرنے والی مذکورہ حدیث) میں ان لوگوں کے قول کا رد ہے جن کا خیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پر پردہ پوشی کی گئی ہے۔" ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:
"قلت: هو حدیث أخرجه الطبراني من حدیث ابن عباس وسنده ضعیف جدا ، وأخرج ابن عدي من حدیث أنس مثله، وقال: منکر أورده في ترجمة إسحاق بن إبراهیم الطبری"15
"میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ ابن عدی نے اس جیسی حدیث انسؓ سے بھی روایت کی ہے اور اسے منکر کہا ہے۔ انہوں نے اس کو اسحاق بن ابراہیم طالقانی طبری کے ترجمے میں روایت کیا ہے۔ "
میں کہتا ہوں:حدیث ابن عباسؓ میں "بأسمائهم" ہے "بأمهاتهم" نہیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر کا "حدیث أنس مثله"کہنا بھی درست نہیں کیوں کہ اس حدیث میں "بأمهاتهم" ہے۔
یہی وہم علامہ ابوالطیب عظیم آبادی سے بھی ہواہے کہ انہوں نے حدیث ابن عبا سؓ کو لفظ "بأمهاتهم" سے ذکر کیا ہے،نیز ان سے ایک لغزش یہ بھی ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حدیث ابن عباسؓ کو طبرانی نے بسند ضعیف روایت کیا ہے جیسا کہ ابن قیم نے حاشیۃ السنن میں کہا ہے جبکہ ابن قیم نے حدیث ابن عباسؓ کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ انہوں نے حدیث ابوامامہؓ کا ذکر کیاہے جو عنقریب آرہی ہے۔16
2۔ حدیث ابن عباس ؓ: اس حدیث کا ابھی حدیث انسؓ کے ضمن میں ذکر ہوچکا ہے اور یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ دو وجوہ کی بنا پر اس حدیث سے دلیل لینا درست نہیں ۔
3۔ حدیث ابو امامہ ؓ: یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں میت کو دفن کر دینے کے بعد اسے تلقین کرنے کا ذکر ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
إذا مات أحدکم من إخوانکم فسویتم التراب على قبره فلیقم أحدکم على رأس قبره ثم لیقل: یا فلان بن فلانة، فإنه یسمعه، ولا یجیب ثم یقول: یا فلان بن فلانة ... وفي آخره. فقال رجل: یا رسول الله فإن لم یعرف أمه قال: فینسبه إلى حواء، یا فلان بن حواء17
" جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی مرجائے اور تم اس کی قبر پر مٹی کو برابر کرلو تو تم میں سے کوئی ایک اس کی قبر کے سر پر کھڑا ہو ، پھر کہے : اے فلاں ! فلاں عورت کے بیٹے ،سویقینا وہ اس کی بات کو سنتا ہے لیکن جواب نہیں دے پاتا۔پھر کہے: اے فلاں!فلاں عورت کے بیٹے،، (اور اس حدیث کے آخر میں ہے) ایک آدمی نے سوال کیا ! یا رسول اللہ ! اگر وہ اس کی ماں کو نہ جانتا ہو؟ فرمایا : وہ اس کو حواءکی طرف منسوب کرے اور کہے: اے فلاں حواءکے بیٹے " مگر اس حدیث کو بطور حجت لینا درست نہیں کیوں کہ یہ سخت ضعیف ہے۔(طبرانی نے سعیدبن عبد اللہ الاودی کی سند سے ابو امامہؓ سے روایت کیا ہے اور حافظ ہیثمی نے کہا ہے:
"وفي اسناده جماعة لم اعرفه" 18اس کی سند میں کتنے ہی ایسے راوی ہیں جنہیں مَیں پہچان نہیں سکا۔ یعنی ان کو ان کے تراجم نہیں ملے۔
امام ابن القیم نے اس حدیث کو اس لیے بھی رد کیا ہے کہ صحیح احادیث کے خلاف ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
"ولکن هذا الحدیث متفق على ضعفه، فلا تقوم به حجة فضلا عن أن یعارض به ما هو أصح منه"19
'' لیکن اس حدیث کے ضعف پر اتفاق ہے، لہذا اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ اس کو صحیح حدیث کے مقابلے میں لایا جائے۔''
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کا عثمان بن عفان ؓ کی حدیث سے بھی رد ہوتا ہے۔ جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو فرماتے :
"استغفرو ا لأخیکم وسلوا له التثبیت ، فإنه الآن یسأل"20
" اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس موقع پر میت کے لیے استغفار اور ثابت قدمی کا سوال کیا جائے گا نہ کہ اس کو تلقین کی جائے گی۔ ابن علان نے اس حدیث کو حدیث ابی امامہ کے شواہد میں ذکر کیا ہے۔21
اور کس قدر عجیب بات ہے کیوں کہ استغفار ،ثابت قدمی کی دعا اور تلقین میں بہت فرق ہے اور صحیح احادیث سے جو تلقین ثابت ہے وہ قریب الموت آدمی کے بارے میں ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لقنوا موتاکم لا إله إلا الله»22
" اپنے مردوں کو( قریب المرگ لوگوں کو) لا إله إلا الله کی تلقین کرو۔''
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی قابل اعتماد حدیث ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ روز قیامت آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا بلکہ عبد اللہ بن عمر ؓ کی مذکورہ صحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اس کے باپ کے نام سے بلایا جائے گا۔جبکہ آیت مبارکہ سے استدلال کی حقیقت اور لفظ 'امام' کی بحث آپ پڑھ آئے ہیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر 'امام' کی تفسیر 'ماؤں' سے نہ کریں تو اس کی اصل تفسیر ہے کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ
روایات میں تطبیق کی کوشش
بعض علمانے مذکورہ روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے وہ یوں کہ جس حدیث میں باپ کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ صحیح النسب آدمی کے بارے میں ہوا اور جس میں ماں کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ دوسرے آدمی کے بارے میں ہے۔ یا یہ کہ کچھ لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے اور کچھ لوگوں کو ان کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا۔ اس جمع یا تطبیق کو عظیم آبادی نے علقمی سے نقل کیاہے۔23
بعض نے ایک دوسرے طریقے سے تطبیق دی ہے ،وہ یہ کہ خائن کو اس کے باپ کے نام سے اور غیر خائن کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا اور اس کی جمع کو ابن علان نے شیخ زکریا سے نقل کیا ہے۔24 بعض نے حدیث ابن عمرؓ کو اس پر محمول کیا ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں ہے، جو ولد الزنا نہ ہو یا لعان سے اس کی نفی نہ کی گئی ہو۔25 مگر یہ سب تکلفات ہیں کیوں کہ جمع اور تطبیق کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب دونوں طرف کی روایات صحیح ہوں جب کہ حدیث ابن عمر کے خلاف جو روایات ہیں وہ انتہائی ضعیف قسم کی ہیں۔ نیز اصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے باپ ہی کے نام سے پکارا جائے گا۔ ابن بطال لکھتے ہیں:
والدعاء بالآباء أشد في التعریف وأبلغ في التمیز وبذلك نطق القرآن و السنة26
"باپوں کے نام سے بلانا پہچان میں زیادہ واضح اور ممتاز کرنے میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و سنت بھی اسی پر شاہد ہے۔ "