ملّتِ اسلامیہ کے خلاف منافقین کی دسیسہ کاریاں

اگر اسلام اور مسلمانوں کے ضعف اور اضمحلال کی تشخیص کے لیے اہل علم ودانش کا نمائندہ بورڈ بیٹھے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اسلام اور مسلمانوں کے ضعف و اضمحلال کا سبب 'نفاق' کا کینسر ہے ، جو روز بروز اسے کمزور سے کمزور تر کرتا جا رہا ہے۔

دورِنبویؐ میں منافقین کی ریشہ دوانیاں

یہ خبیث مرض ہجرتِ نبویﷺ کے بعد عبد اللّٰہ بن اُبی ابن سلول کے سینے میں داخل ہوا، وہ اس سے اپنی حد تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام لیتا رہا لیکن مخلص اہل ایمان کی طاقت کے سامنے اسے پنپنے کا موقع نہ ملا اور رئیس المنافقین ابن سلول کو مجبوراً دین اسلام کا لبادہ اوڑھنا پڑا،اسے مجبوراً پنجگانہ نماز،ہفتہ وارانہ جمعہ اور سالانہ زکوٰۃ ادا کرنا پڑی اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے پڑے لیکن وہ نہاں خانہ دل سے پیغمبر اسلام محمد رسول اللّٰہﷺ اور ان کے پاک طینت مہاجرین وانصار کا بدترین مخالف رہا اور عمر بھران کے خلاف فضا بناتا رہا۔

جنگِ اُحد میں عین اس وقت مسلمانوں کی حمایت سے وہ دست کش ہو گیا جب کفار قریش تین ہزار کا مسلح لشکر لے کر اہل مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے اور اس وقت مسلمانوں کے پاس فقط ایک ہزار افراد تھے جن میں سے تین سو افراد کو یہ واپس لے آیا تھا تاکہ مسلمان اپنے آپ کو کم تعداد سمجھ کر ہمت ہار بیٹھیں اور خم ٹھونک کر مقابلہ نہ کر سکیں لیکن وہ قوتِ ایمانی سے معمور صحابہ کرام کی بے مثال ہمتِ مردانہ دکھانے کی وجہ سے اپنے ناپاک منصوبے میں ناکام رہا لیکن اس کا نفاق اسے چین سے بیٹھنے نہ دیتا تھا اس لیے وہ کبھی﴿يَقولونَ لَئِن رَ‌جَعنا إِلَى المَدينَةِ لَيُخرِ‌جَنَّ الأَعَزُّ مِنهَا الأَذَلَّ...٨﴾... سورة المنافقون" 1کی تڑیاں لگاتا اور کبھی ﴿ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا﴾ کے ناپاک مشورے دیتا اور کبھی وہ حرمِ رسولﷺ سیدہ عائشہ صدیقہ طاہرہؓ پر بہتان کو ہوا دیتا اور اس طرح بالواسطہ عصمتِ رسولﷺ کو داغ دار کرنے کی ناپاک سعی وجہد کرتا اور جب رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس اس کی شکایات پہنچتیں تو یہ جھوٹی قسمیں اُٹھا کر خود کو اور اپنے ساتھیوں کو بچا لیتا اور جب کبھی اس کی زہریلی بدگوئی ثابت ہو جاتی تو یہ ﴿كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ﴾ کا بہانا بنا لیتا ۔ المختصر جب وہ مرا تو وہ اپنا ایسا جتھا تشکیل دے کر مرا جو مستقبل میں مسلمانوں کے جسدِ واحد میں کینسر کا مہلک جرثومہ ثابت ہوا لیکن نزولِ وحی کے دور میں مسلمانوں کے جسدِ واحد میں اتنی ایمانی قوت مدافعت موجود تھی کہ اس کے اثرات نمودار ہو تےہی دَب جاتے تھے اور منافقین کو اپنی ہر طرح کی دسیسہ کاری پر ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ہمارے بارے میں کوئی وحی الٰہی نازل نہ ہو جائے جو ہماری سازش کو بے نقاب کر دے اور مسلمان ہمارا ایکشن نہ لے لیں، چنانچہ قرآنِ کریم نے ان کی ان الفاظ میں منظرکشی کی ہے:

﴿يَحذَرُ‌ المُنـٰفِقونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيهِم سورَ‌ةٌ تُنَبِّئُهُم بِما فى قُلوبِهِم ۚ قُلِ استَهزِءوا إِنَّ اللَّـهَ مُخرِ‌جٌ ما تَحذَر‌ونَ ﴿٦٤﴾... سور التوبة

''منافقین ڈرتے ہیں کہ مبادا ان پر کوئی سورت نازل ہو جائے جو ان کی پوشیدہ سازشوں کو بےنقاب کر دے۔ کہہ دیجئے تم ٹھٹھا مخول کرو، بے شک اللّٰہ ان سازشوں کو بے نقاب کرنے والا ہے جن کے بے نقاب ہونے سے تم ڈرتے ہو۔''

ان منافقین کو دورِنبوت میں زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی تھی اور یہ لوگ اسے تاوان سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے:

﴿وَمِنَ الأَعر‌ابِ مَن يَتَّخِذُ ما يُنفِقُ مَغرَ‌مًا وَيَتَرَ‌بَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ‌ ۚ عَلَيهِم دائِرَ‌ةُ السَّوءِ ۗ وَاللَّـهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٩٨﴾... سورةالتوبة

''اور (منافق) بدویوں میں ایسے بھی ہیں جو(فی سبیل اللّٰہ) خرچ کو تاوان سمجھتے ہیں اور تمہاری شکست کے انتظار میں ہیں، انہیں پر بڑی مصیبت ہے اور اللّٰہ سننے اور جاننے والا ہے۔''

اور اللّٰہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کا بطورِ خاص ذکر کر کے آگاہ فرمایا کہ اس پاک شہر میں بھی ان منافقوں کا ناپاک وجود ہے، لہٰذا پاک طینت مؤمنوں کو ان خبثا سے ہوشیار رہنے کی بڑی ضرورت ہے۔ سورۃ توبہ میں ہے:

﴿ وَمِمَّن حَولَكُم مِنَ الأَعر‌ابِ مُنـٰفِقونَ ۖ وَمِن أَهلِ المَدينَةِ ۖ مَرَ‌دوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعلَمُهُم ۖ نَحنُ نَعلَمُهُم ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَرَّ‌تَينِ ثُمَّ يُرَ‌دّونَ إِلىٰ عَذابٍ عَظيمٍ ﴿١٠١﴾...سورة التوبة

''اور تمہارے اردگرد کے بدویوں میں منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی ایسے ہیں جو نفاق پر جمے ہوئے ہیں۔ آپ انہیں نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر وہ دردناک عذاب کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔''

یہ منافقین اپنی طبعی بزدلی کی وجہ سے سچّے مسلمانوں سے ٹکر لینے کی سکت نہ رکھتے تھے، اس لیے یہ اس انتظار میں رہتے کہ کاش کوئی طاقت ان کے خلاف سر اُٹھائے تو ہم پیچھے بیٹھ کر ان کی شکست اور ذلت دیکھ کر اپنی آتش حسد کو بجھا سکیں، چنانچہ جب ان کو پتہ چلا کہ محمد (رسول اللّٰہﷺ) اور ان کے ساتھی یہود بنو قینقاع اور بنو نضیر کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں تو اِنہوں نے اُن کو مناصرت کا جھوٹا یقین دلایا جس کاذ کر قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہے کہ

﴿أَلَم تَرَ‌ إِلَى الَّذينَ نافَقوا يَقولونَ لِإِخوٰنِهِمُ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ لَئِن أُخرِ‌جتُم لَنَخرُ‌جَنَّ مَعَكُم وَلا نُطيعُ فيكُم أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قوتِلتُم لَنَنصُرَ‌نَّكُم وَاللَّـهُ يَشهَدُ إِنَّهُم لَكـٰذِبونَ ﴿١١﴾... سورة الحشر

''کیا آپﷺ نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کفار اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تمہارے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور اللّٰہ گواہی دیتا ہے کہ بےشک یہ جھوٹ بولنے والے ہیں۔''

اور غزوۂ تبوک کے وقت اُن کی خوشی دیدنی تھی کہ اب مسلمانوں کا ٹکراؤ روم کی سپر طاقت سے ہے جو اُنہیں ملیا میٹ کر دے گی لہٰذا یہ تماشا دیکھنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ چل پڑے جب مسلمانوں کے جرأت مندانہ اقدام کو رومیوں نے دیکھا تو بغیر لڑے واپس لوٹ گئے اور جب آپﷺ اپنی سواری پر واپس آ رہے تھے تو اُنہوں آپ کو پہاڑ سے گرانے کا خوفناک منصوبہ بنایا جو اللّٰہ نے ناکام بنایا اور سورہ توبہ میں ان کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے نازل ہوئی اور یہ جھوٹے عذر پیش کرنے لگے جنہیں رسول اللّٰہ ﷺ نے کمالِ حلم اور حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول فرمایا اور سواے تین صادق مؤمنین کے سب کو معاف کر دیا۔

خلافتِ راشدہ میں اہل نفاق کی سرگرمیاں

لیکن یہ لوگ حسبِ سابق موقع کی تاک میں بیٹھے رہے اور جونہی حضرت محمد رسول اللّٰہﷺکا سانحۂ ارتحال ہوا تو ان منافقین کا نفاق آفتاب نصف النہار کی طرح آشکار ہو گیا اور اُنہوں نے اسلام کے تیسرے رکن زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور بڑی سرعت کے ساتھ منافقین کا نفاق، ارتداد تک پہنچ گیا جس کےلیے خلیفہ اوّل سیدناابو بکر صدیق نے ایسی قوتِ ایمانی کا مظاہرہ کیا کہ ان کے جہاد فی سبیل اللّٰہ کی برکت سے مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کی کمر ٹوٹ گئی اور اُن کو دوبارہ اسی راستے سے اسلام میں داخل ہونا پڑا جس سے وہ فوج دَرفوج نکلے تھے۔

اگر اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر کو منافقین کے خلاف کھڑا نہ کیا ہوتا تو ان منافقین نے اسلام اور مسلمانوں کو جزیرۃ العرب میں دفن کر دینا تھا لیکن قربان جائیے سیدنا ابو بکر صدیق کی فراستِ ایمانی پر کہ اُنہوں نے منافقین کے گھناؤنے منصوبے کو دل کی ایسی آنکھوں سے دیکھ لیا جو دیگر صحابہ سر کی آنکھوں سے بھی نہ دیکھ رہے تھے۔آپؓ نے اپنی خلافت کا سارا عرصہ جزیرۃالعرب کو منافقوں سے پاک کرنے میں گزار دیا اور اپنے جانشین(خلیفہ)کی راہ سے سب طرح کے کانٹے دار راستے صاف کر دیے اور اسلام کے قلعے کو آستین کے سانپوں سے پاک کر دیا۔

حضرت ابو بکر صدیق اپنا مختصر دورِخلافت پوری جانفشانی سے پورا کر کے اعلیٰ علیین میں چلے گئے اور حضرت عمر بن خطاب ان کی جگہ دوسرے خلیفہ راشد بنا دیے گئے۔ اس خلیفہ راشد کی ہیبت اس قدر لرزہ خیزتھی کہ ان کا نام سن کر منافقین کی جان نکلنے لگتی تھی۔ ان کے دورِ خلافت میں اسلام جزیرۃ العرب سے باہر دوردراز سرزمینوں پر سایہ فگن ہو گیا اور بائیس لاکھ مربع میل تک مملکتِ اسلام وسیع ہو گئی اور کالے سانپوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ ان منافقوں میں خم ٹھونک کر اسلام کے سامنے کھڑا ہونے کی سکت نہ رہی لہٰذا اُنہوں نے خون آشان دسیسہ کاری کر کے عین مسجد نبوی کے محراب میں دورانِ امامت خلیفہ ثانی کو شہید کر دیا۔ آپ کو دودھاری خنجر سے زخمی کرنے والے ملعون کا نام فیروز ابو لؤلؤ تھا جو ایران کا مجوسی تھا اور اسے خنجر مہیا کرنے والا منافق ہرمزان اور عیسائی جفینہ تھا۔

ان کی شہادت کے بعد تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔ یہ طبعاً نرم خو اور فیاض انسان تھے، ان کے دورِ خلافت میں چھ سال کے اندر فتوحاتِ اسلامیہ کی بدولت قبرص اور سلطنتِ روما اور براعظم افریقہ کے بہت سے ممالک اسلام کے پرچم کے سائے میں آگئے اور مسلمانوں میں خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔ اسی دوران ابن سلول کا معنوی اور اعتقادی مسلم نما یہودی بیٹا ابن السوداءسرگرم ہو گیا اور اس نے یہودی فلسفے کی مسلمانوں میں تبلیغ شروع کر دی کہ جس طرح یہودیوں میں امامت فقط آلِ داؤد کا حق ہے،اس طرح اسلام میں بھی امامت فقط آلِ علی بن ابی طالب کا حق ہے۔ اس کالے سانپ نے خیرخواہی کے پردے میں مرکزِ اسلام کو کمزور کرنے کے لیے وہی سازشیں کر دیں جو عہدِ رسالت میں منافقین چھپ کر کیا کرتے تھے اور ولاۃِ اسلام کے خلاف ایسا جھوٹا پروپیگنڈا کیا کہ اس سے کئی سادہ لوح صادق الاسلام بھی متاثر ہو گئے اور وہ آپ کی سیاسی پالیسوں پر کھلم کھلا تنقید کرنے لگے۔ وہ تو اس وقت ہوش میں آئے جب منافقین نے خلیفۃ المسلمین سے عباے خلافت اُتارنے کا مطالبہ کر دیا۔آپؓ ان کے مطالبے کے آگےسرنڈر نہ ہوئےاور حضرت رسول اللّٰہﷺ کے اس عہد کو استقلال سے نبھایا جو آپ ﷺ نے ان سے لیا تھا کہ اے عثمان! شاید اللّٰہ تعالیٰ تجھے قمیص(خلافت) پہنائے، اگر ایسا ہو جائے اور منافقین اُسے اتارنے کا مطالبہ کریں تو قمیص مت اُتارنا اور صبر کرنا۔چنانچہ آپ نے صبر کیا، مدینہ منورہ کو خون ریزی سے بچا کر اپنا خون قربان کر دیا، ان منافقوں نے آپ کو اس مسجد(نبوی) میں نماز ادار کرنے سے روک دیا جسے آپ نے زرِ خالص سے خرید کر وسیع کیا تھا اور اس کنویں سے چالیس روز تک پانی نہ پینے دیا۔اور ان منافقوں نے آپ کے خون کے قطرے اسی قرآن پر گرائے جس پر آپ نے پوری اُمت کو متفق کیا تھا اور ماسواے منافقین کے، پوری اُمت آج تک لغتِ قریش پر لکھے جانے والے اسی نسخے کی تلاوت کرتی ہے اور جب ان منافقین نے جن میں عبد الرحمٰن بن ملجم مرادی (قاتل خلیفہ چہارم) بھی شامل تھا، مظلوم خلیفہ کو شہید کر ڈالا تو بڑے فخر سے کہا :اس خلیفہ کے قتل سے تو دو بکریاں بھی نہ ٹکرائیں۔

صحابہ کرام کی اکثریت مملکتِ اسلامیہ کی سرحدوں پر کفار سے برسرپیکار تھی اور باقی ماندہ حج پر گئے ہوئے تھے اور اُنہیں اندازہ نہ تھا کہ یہ دھرنا دینے والے منافق اُس نرم خو اور بےگناہ خلیفہ کو قتل کر دیں گے جن سے حضرت رسول اللّٰہﷺ اور فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔

بہر حال شہادتِ حضرت عثمان سے فتنہ کا دروازہ کھل گیا اور دار الخلافہ کی چابیاں منافقین کے ہاتھوں میں آ گئیں اور اُنہوں نے اپنے تحفظ کے لیے حضرت علی کو منصبِ خلافت سنبھالنے اور اہل مدینہ کو اُن کی بیعت کرنے پر مجبور کر دیا۔ جب آپ نے اُن کے مطالبے پر خلافت کی باگ ڈور سنبھال لی تو ان منافقین نے صوبوں پر اپنی مرضی کے گورنر متعین کروانے شروع کر دیے اور آپ کو کفار سے جہاد کرنے کی بجائے قصاصِ عثمان کے طلب گاروں سے بھڑا کر جنگِ جمل اور جنگِ صفین برپا کروا دی اور بالآخر ان خُبثا نے خلیفہ چہارم کو بھی شہید کر دیا۔

آپ کی شہادت کے بعد جب معاملہ خلافت سیدنا حسن المجتبیٰ کے ہاتھ آیا تو آپ نے ان منافقین کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے حضرت امیر معاویہ سے صلح کرلی اور اُمت میں ایک دفعہ پھر اتحاد قائم ہو گیا اور فتوحاتِ اسلامیہ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ اس دوران کالے سانپ پھربلوں میں گھس گئے جنہیں بڑی حکمتِ عملی سے ایک ایک کر کے نکالا گیا اور قصاصِ عثمان لیا گیا۔

اُموی خلفا کے دور میں منافقین کی چالیں

چنانچہ خلافتِ معاویہ بن ابی سفیان میں ان کی دال نہ گلی اور بظاہر ان کا فتنہ دب گیا لیکن جب آپ کی وفات ہوئی تو یہ منافقین پھر سرگرم ہو گئے اور اُنہوں نے سیدنا حسین بن علی کو فتنہ میں مبتلا کر دیا اور عین موقع پر بے وفائی کر کے اپنی ہی تلواروں سے اُنہیں میدانِ کربلا میں شہید کر ڈالا اور پھر توابین بن کر اپنے گناہ کی تلافی کے لیے نکلے اور اپنے ہی بنائے امیر مختار ثقفی کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے۔

بعد از خرابی بسیار جب ملتِ اسلامیہ امیر المؤمنین عبد الملک بن مروان اُموی قریشی اور اُن کے جانشینوں کی سلطنت تلے متحد ہو گئی اور خلافتِ اسلامیہ کی سرحدیں مشرق میں سندھ اور شمال میں چین اور یورپ میں فرانس تک وسیع ہو گئیں تو یہ منافقین حضرت زید بن علی بن حسین بن علی کے پیچھے پڑ گئے اور اُنہیں سیڑھی پر چڑھا کر عین موقع پر دھوکہ دیکر گرفتار کروا کے شہید کروا دیا، بعد ازاں اُنہوں نے عباسی ہاشمیوں کو فرنٹ پر رکھ کر اُمویوں کی خالص عربی حکومت کو ختم کردیا اور جب بنو عباس بن عبد المطلب بن ہاشم کی گرفت مضبوط ہوئی تو اُنہوں نے آلِ ابی طالب کو اُن کے خلاف کو اسی سیڑھی پر چڑھا کر حکومت کے ہاتھوں شہید کروایا جس پر اُنہوں نے سیدنا حسین بن علی اور ان کے پوتے زید بن علی (زین العابدین) ﷭ کو چڑھا کر شہید کروایا تھا۔ چنانچہ منافقین کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں سیدنا محمد بن عبد اللّٰہ بن حسن اور سیدنا ابراہیم بن عبد اللّٰہ بن حسن المثنیٰ میدانِ جنگ میں شہید ہو گئے۔

جب آلِ ہاشم کی عباسی سلطنت مستحکم ہو گئی تو ان منافقین نے محاذ اور نام بدل لیا اور یہ مغربِ عربی میں فاطمیوں کے نام سےلوگوں کو اپنی خلافت کے حق میں بہکانے لگے، حالانکہ اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ ابو الخطاب بن اَجدع جس کی طرف فرقہ خطابیہ منسوب کیا جاتا ہے، یہ نفاق کی چادر اوڑھ کر حضرت امام جعفر بن محمد الصادق ہاشمی کا شاگرد بنا اور پھر اس کی منافقانہ سرگرمیوں کی وجہ سے امام صاحب نے اسے اپنے حلقہ درس سے نکال دیا تھا لیکن اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے آپ کو اُن کا وصی قرار دیا اور پھر اس نے اپنے یہودی النسل شاگرد کمیمون بن قداح کی اپنے افکار پر تربیت کی اور اسے باطنی یہودیوں اور ظاہری اسماعیلیوں کے مذہبِ اباحیت کا سرغنہ بنایا۔اس نے اسلام کے فرائض کو ساقط اور محرمات کو حلال قرار دیا اور اِنہیں منافقین کو بحالتِ طواف قتل کر کے بئر زم زم میں پھینکوا دیا اور حجر اسود اُکھڑوا دیا۔

اسی فرقے کے بانی کمیمون بن قداح کے پوتے ابو سعید نے اپنا نام عبید اللّٰہ رکھ کر اپنے متعلق مشہور کر دیا کہ وہ اسماعیل بن جعفر الصادق کے پوشیدہ بیٹوں کی اولاد ہے اور وہ علوی ہونے کی وجہ سے خلافت کا مستحق ہے۔ بہت سے منافقین اس کے طرفدار بن گئے اور اس یہودی النسل نے فاطمی النسل ہونے کے دعوے پر مغرب میں حکومت قائم کر لی اور ان منافقین نے 297ھ سے لے کر 363ھ تک عباسی ہاشمی مقبوضات پر قبضہ کر لیا اور مصر وشام پر بھی قبضہ کر کے وہاں اباحیت کو رواج دیا اور اہل کتاب سے رشتے ناطے کر کے ان حکومتی مناصب پر فائز کر کے اُن کے ہاتھوں اہل سنت عوام اور خواص کی کھالیں اُتروائیں۔ ان کی سفاکیوں کا اندازہ لگانے کے لیے امام ابو بکر نابلسی کی اندوہناک شہادت کا واقعہ ملاحظہ فرمائیے کہ اس غیور اور جسور امام کی طرف سے عبیدی حکمرانوں کو یہ اطلاع پہنچی کہ اس نے فتویٰ دیا ہے کہ اگر کسی مجاہد اسلام کے پاس دس تیر ہوں تو وہ نو تیر عبیدیوں کی طرف پھینکے اور ایک تیر رومیوں کی طرف پھینکے تو اُنہوں نے آپ کو اپنے درقبار میں بلا کر آپ سے وضاحت طلب کی تو آپ نے جواب دیا کہ میرا یہ فتویٰ تو نہیں بلکہ میرا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کسی مجاہدِ اسلام کے پاس دس تیر ہوں تو وہ نو تیر تمہاری طرف پھینکے اور دسواں تیر بھی تمہارے بدن میں ہی پیوست کر دے۔ اُنہوں نے پوچھا کیوں؟ آپ نے جواب دیا : اس لیے کہ تم نے دین اسلام کی شکل وصورت بگاڑ دی اور صالحین کرام کو قتل کروا دیا اور تم نے اپنے اندر نورِ الہیہ کا دعویٰ کر دیا۔چنانچہ مصری نائب السلطنت کے عبیدی سپہ سالار جوہر نے آپ کو تلوار کی نوک سے کچوکے لگائے اور آپ کو پٹوا دیا اور پھر اپنے یہودی قصاب کو حکم دیا تو اس نے آپ کے سر سے کھال اُتارنی شروع کر دی، اس دوران آپ اللّٰہ کا ذکر کرتے رہے اور قرآن کی یہ آیت پڑھتے رہے: ﴿كانَ ذٰلِكَ فِى الكِتـٰبِ مَسطورً‌ا ﴿٥٨﴾... سورة الإسراء

جب قصاب نے آپ کے سینے تک کھال اُتار لی تو پھر اسے ترس آیا اور اس نے آپ کے دل پر چھرا گھونپ دیا جس سے آپ کی شہادت واقع ہو گئی 2۔ اندازہ کیجئے کہ جہاں کہیں ان منافقین کا زور چڑھا، وہاں اُنہوں نے اہل السنّہ کا کیا حشر کیا۔ أعاذنا الله من شرور المنافقين!

خلافتِ ہاشمیہ عباسیہ کے سقوط میں منافقین کا کردار

عام طور پر منافقین نے اپنی کرتوت پر پردہ ڈالنے کی غرض سے یہ مشہور کر رہاہے کہ ہلاکو خاں کے حملے کے وقت حنفی اور شافعی، شیعہ اور سنّی آپس میں لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کے محلوں کو آگ لگا رہے تھے، حالانکہ یہ بات قطعاً خلافِ واقعہ اور کذاب مؤرخین کی افسانہ طرازی ہے، حقیقت یہ ہے کہ منافقین نے اپنے سرغنہ ابن علقمی کو پراسرار طریقے سے ہاشمی عباسی اہل بیت کے 37 ویں خلیفہ محمد بن طاہر مستعصم باللّٰہ کا وزیر بنوایا اور خواجہ نصیر الکفر 3طوسی کو ہلاکو خاں کا مقربِ خاص بنوایا اور یہ دونوں اندروانی طور پر بدترین قسم کے کٹر رافضی تھے اور ہاشمی عباسیوں کی بجائے مسلم نما عبیدی یہودیوں کی حکومت کے قیام کے خواہاں تھے۔اُنہوں نے باہمی ساز باز سے ہلاکو خاں کو مستنصر باللّٰہ عبد اللّٰہ بن ظاہر کے دو رِخلافت میں بغداد پر یلغار کی دعوت دی۔ جب ہلاکو خاں حملہ آور ہوا تو اسے اہل اسلام کے لشکر سے شکست کھانی پڑی اور اس کے بہت سے سپاہی بغداد پر حملہ کرنے کے بعد ناکام ہوئے تو ہلاکو خاں نے ابن علقمی کو فتح کو حتی الوسع آسان بنانے کی دعوت دی اور ابن علقمی کو کہا کہ اگر تو ہمارے ساتھ مخلص ہے اور اپنے پروگرام میں سچا ہے اور ہماری اطاعت کا خواہاں ہے تو لشکر اسلام کی تعداد گھٹا دے، تب ہم تیری دعوت پر بغداد پر حملہ آور ہوں گے۔ جب ابن علقمی کو ہلاکو خاں کا خط ملا تو یہ خلیفۃ المسلمین مستعصم باللّٰہ کے محل میں داخل ہوا اور اُسے منافقت سے بھر پور تجویز دی کہ تاتاری اَفواج اپنے ملک کی طرف لوٹ گئی ہیں اور اب اُن کے دوبارہ حملہ آور ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، لہٰذا ہمیں اتنے سارے فوجی چھاؤنیوں میں رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر پندرہ ہزار سپاہی ملازمت سے فارغ کر دیے جائیں تو ملکی خزانے پر بوجھ کم ہو جائے گا۔بھولے خلیفہ کو منافق وزیر اعظم کی یہ تجویز پسند آئی اور اس نے بیک جنبش قلم پندرہ ہزار سپاہی فارغ کر نے کا حکم صادر کر دیا، چنانچہ منافق ابن علقمی یہ حکم لے کر لشکر کے پاس گیا اور ان میں سے اعلیٰ قسم کے تجربہ کار جنگ بازوں کو بغداد اور اس کے ملحقات کو چھوڑنے کا حکم سنایا اور اُنہیں مختلف شہروں میں تتربتر کر دیا، تاکہ وہ ہلاکو خاں کی یورش کے وقت پھر سے اکٹھے نہ ہو سکیں۔ بعد ازاں اس منافق نے مزید بیس ہزار مزید سپاہیوں کو فوج سے برخاست کرنے کی تجویز دے دی جو بھولے خلیفہ نے منظور کر لی اور بیس ہزار سپاہیوں کو فارغ کرنے کا حکم صادر کر دیا حالانکہ یہ پینتیس ہزار جانباز دو لاکھ تارتاریوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھے، ابن علقمی کی اس طرح کی مکارانہ تجاویز سے دار الخلافہ میں ایک لاکھ سپاہیوں میں سے صرف دس ہزار باقی رہ گئے۔

جب ابن علقمی نے منصوبہ مکمل کر لیا تو ہلاکو خان کو خط لکھا کہ فوجیں لے کر حملہ آور ہو جاؤ، میں نے حسبِ وعدہ تمہاری فتح کا منصوبہ مکمل کر لیا ہے، چنانچہ جب ہلاکو خاں اپنے ٹڈی دل لشکر کو لے کر بغداد کی طرف چلا تو اہل بغداد نے باہمی اتفاق سے دار الخلافہ کے باہر تاتاری لشکر پر یلغار کر دی اور اتنی ثابت قدمی سے لڑے کہ تاتاریوں کو دوبارہ شکست سے دوچار ہونا پڑا اور مسلمانانِ بغداد نے ان کا تعاقب کر کے بہت سے تاتاریوں کے سر اُتار لیے اور بعضوں کو قید کرلیا اور پھر وہ اطمینان وسکون سے اپنے خیموں میں آ کر سو گئے۔ اسی دوران اس منافق نے اپنے منافقین کو رات کی تاریکی میں بھیج کر دریائے دجلہ کے ہیڈورکس کے پھٹے گروا کر اس کاپانی بند کر دیا جس کی وجہ سے دجلہ کے بند ٹوٹ گئے اور پانی چھاؤنیوں کے خیموں میں داخل ہو گیا اور دار الخلافہ کے رضاکاروں کے آلاتِ حرب اور گھوڑے پانی میں غرق ہو گئے اور ان میں سے فقط وہی بچا جو اس دلدل سے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چھاؤنی سے باہر نکل آیا۔

اب کی بار ابن علقمی نے ہلاکوخاں کو اپنے گھناؤنے منصوبے کی کامیابی سے آگاہ کیا اور پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ چنانچہ ہلاکو خاں اور اس کالشکر بغیر کسی مزاحمت کے بغداد میں داخل ہو گیا اور اُنہوں نے اس قدر قتل وغارت کی کہ نہ کوئی بڑا بچا، نہ کوئی چھوٹا، جو بھی نہتا سامنے آیا، اس کی گردن تن سے جدا کر کے اُس کی لاش ٹکڑے کر دی۔ پھر ہلاکو خاں نے خلیفہ بغداد کو اس کے بیٹےسمیت اپنے سامنے بلوایا اور ان کو اپنے سامنے لٹا کر اپنے فوجیوں سے اُن کو جوتے مروائے اور پھر خلیفہ کو بوری میں بند کر کے اس کا دھوبی پٹڑا کروا کر قتل کر دیا، پھر وہ دار الخلافہ میں داخل ہوا اور سب کچھ لوٹ کر تمام سرکاری اہل کاروں کو قتل کروا دیا اور چالیس دن تک اُنہیں جو کوئی بغداد میں نظر آیا اسے قتل کروا دیا حتیٰ کہ مقتولین کی تعداد لاکھ نفوس تک پہنچ گئی اور لاشوں کے ڈھیر لگ گئے اور ان کی بدبو سے فضا آلودہ ہو گئی اور اس بدبو کے اثرات ملک شام تک جا پہنچے اور بہت سی مخلوق اس وبائی بدبو سے ہلاک ہو گئی۔جب چالیس دن بعد عام معافی کا اعلان ہوا تو گھر وں کے مورچوں میں چھپے لوگ باہر نکلے تو وہ ایک دوسرے کو پہچانتے نہ تھے اور وہ بھی دار الخلافہ بغداد میں پھیلی بدبو اور وبا سے فوراً ہلاک ہو گئے۔بایں طور ہاشمی عباسی خلیفہ کو قتل کروا کر اس منافق رافضی نے اہل بیتِ نبوت کی حکومت ختم کروا دی۔

بعد ازاں ذہین وفطین ہلاکو خاں نے اس منافق کو منافقت کا صلہ دینے کے بہانے اپنے سامنے بلوایا اور کہا اگر ہم اپنی تمام ملکیت بھی تجھے انعام میں دے دیں تو پھر بھی تجھ سے خیر کی توقع نہیں، جب تو نے اپنے ہم قبلہ مسلمانوں کا ہم سے یہ حشر کروایا ہے تو ہم تیرے مذہب کے مخالف ہو کر تجھ سے کس خیر کی توقع رکھیں، ہماری سمجھ میں تو یہی آیا ہے کہ ہم تجھے اس طرح قتل کروا دیں جس طرح ہم نے تیرے ہم قبلہ لوگوں کو قتل کیا ہے۔ پھر اس نے اسے اذیت ناک طریقے سے قتل کروا دیا۔

اس طینت کے لوگوں نے ، جہاں ان کو موقع ملا، صحیح العقیدہ مسلم حکمرانوں سے غداری کرکے ان کی حکومتوں کو ختم کروایا۔ اس ضمن میں اُنہوں نےغیرمسلم طاقتوں سے وفاداری کرنے میں کبھی عار نہ سمجھا ۔مسلمانوں کا ماضی اور حال اس پر شاہد ہے۔ حکومتوں کی کلیدی آسامیوں پر فائز ہونا اور حکومتی سرپرستی میں راسخ العقیدہ لوگوں کو راستے سے ہٹانا اور اپنے مخصوص مقاصد کو حاصل کرنے میں مکروہ ہربے استعمال کرنے میں یہ کبھی پیچھے نہیں رہے ہیں۔

ناظرین کرام! اسلام اور مسلمانوں کے برخلاف کفر اتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا بڑا خطرہ نفاق ہے اور حضرت رسول اللّٰہﷺ اور خلفاے راشدین کے منافقین اتنا بڑا خطرہ نہیں تھے،جتنا بڑا خطرہ آج ہیں۔ اس دور کے منافقین چھپے چھپے رہتےہیں، مفادات کو پامال کرتے ہوئے آج کل وہ اس فکر کے لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔اس دور میں ان کی حکومتیں اور چھاؤنیاں نہ تھیں،آج ان کے زیر تسلط ممالک اور حکومتیں ہیں۔اس دور میں ان کے پاس ایسے ذرائع ابلاغ نہ تھے جیسے آج ہیں۔ پہلے وہ صحابہ کرام اور اُمہات المؤمنین کی علیٰ الاعلان بدگوئیاں نہیں کرتے تھے،آج کل وہ ریڈیو اور ٹی وی چینل پر ہمز،لمز بلکہ واضح الفاظ میں ان کی توہین و تنقیص کرتے ہیں۔

موجودہ صدی کے منافق سے پہلے کسی منافق کی جرأت نہ تھی کہ علانیہ کہے کہ حضرت محمد رسول اللّٰہ ﷺ تبلیغ رسالت کا فریضہ مکمل طور پر سر انجام نہ دے سکے لیکن موجودہ صدی کا منافق واضح طور پر اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

''اور واضح ہے کہ اگر نبی ﷺ اللّٰہ کے حکم کے مطابق امامت کے معاملے کی تبلیغ کر دیتے اور اس میدانِ کار میں مساعی خرچ کر دیتے تو اسلامی ممالک میں ظاہر نہ ہوتے۔'4' نعوذ باللّٰہ

آج اُنہوں نے اپنے سیاسی، مذہبی اور ثقافتی مقاصد کے لیے شہرت پرست شیخ الاسلام خرید رکھے ہیں جو اپنے اپنے حلقہ ارادت میں اُن کی زبان بولتے ہیں، وہ بظاہر امریکہ کے دشمن اور اندر سے اس کے دوست ہیں۔سقوط کابل اور سقوطِ بغداد ان کی معاونت سے پایۂ تکمیل کو پہنچا، شام کی اقلیتی نُصیری حکومت کو علیٰ الاعلان سپورٹ کر رہے اوریمن میں ان کی اقلیت کو حکومت میں حصّہ دلوانے کے لیے دھرنے او رمظاہرے کراتے ہیں اور اپنے ملک میں سنّی اقلیت کو تہ تیغ کر رہے ہیں اور پاکستان کے سیاسی دھرنوں میں اپنے تربیت یافتہ غنڈے بھیجتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو دنیا میں رسوا کر سکیں۔

پس چہ باید کرد

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ

امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللّٰہ وجہہ ورضی عنہ وارضاہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ چار تلواریں دے کر مبعوث فرمائے گئے۔ایک تلوار مشرکین کے لیے قرآن مجید میں ہے:

﴿ فَإِذَا انسَلَخَ الأَشهُرُ‌ الحُرُ‌مُ فَاقتُلُوا المُشرِ‌كينَ...٥﴾... سورة التوبة

دوسری تلوار اہل کتاب کے لیے ۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّـهِ وَلا بِاليَومِ الـٔاخِرِ‌ وَلا يُحَرِّ‌مونَ ما حَرَّ‌مَ اللَّـهُ وَرَ‌سولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حَتّىٰ يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـٰغِر‌ونَ ﴿٢٩﴾... سورة التوبة

اور تیسری تلوار منافقین کے لیے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿ قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّـهِ وَلا بِاليَومِ الـٔاخِرِ‌ وَلا يُحَرِّ‌مونَ ما حَرَّ‌مَ اللَّـهُ وَرَ‌سولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حَتّىٰ يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـٰغِر‌ونَ ﴿٢٩﴾... سورة التوبة

چوتھی تلوار باغیوں کے لیے:

﴿ـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ جـٰهِدِ الكُفّارَ‌ وَالمُنـٰفِقينَ وَاغلُظ ...﴿٧٣﴾... سورةالتوبة

امام ابن جریر﷫ فرماتے ہیں کہ اس اثر کا تقاضا یہ ہے کہ جب منافقین اپنے نفاق کا مظاہرہ کریں تو ان کے خلاف جہاد بالسیف کیا جائے۔

لیکن اس سلسلے میں یہ بات یاد رہے کہ منافقین یا کافرین کے ساتھ جہاد بالسیف سلطانِ اسلام کی ذمہ داری ہے، گروہ واَحزاب کی ذمہ دا ری نہیں ہے کہ وہ چھوٹے موٹے جتھے بنا کر خود ہی جہاد کرنا شروع کر دیں۔ ان اَحزاب کو سمجھ لینا چاہیے کہ منافقین کے خلاف جہاد کرنا، کفار سے جہاد کرنے سے کم درجہ نہیں رکھتا بلکہ بعض علما نے پانچ وجوہات کی بنا پر قرار دیا ہے کہ منافقین کے خلاف جہاد وقتی نہیں بلکہ دائمی ہے۔

پہلی وجہ: کفار کے برخلاف جہاد اس وقت فرض ہو جاتا ہے، جب وہ مسلمانوں کے برخلاف جنگ کے منصوبے بنا رہے ہوں یا وہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دیں یا وہ اپنی ماتحت مسلمان اقلیت پر برما کے بدھوں کی طرح ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں اور جب وہ صلح کر لیں یا جزیہ دینا منظور کر لیں تو ان کے ساتھ جہاد موقوف ہو جاتا ہے، جیسے حضرت رسول اللّٰہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار قریش کے ساتھ دس سال صلح کر لی تھی جبکہ منافقین کے خلاف جہاد دائمی ہے کیونکہ یہ اسلام کی چار پائیوں اور بستروں میں گھسے ہوئے پسو کی طرح ہر وقت مسلمانوں کا خون پیتے رہتے ہیں۔ جگہ اور طریقہ بدلتے رہتے ہیں۔

دوسری وجہ: منافقین کی دشمنی پوشیدہ ہوتی ہے، اس لیے مسلمان ان کے خلاف اس طرح کمربستہ نہیں رہ سکتے جس طرح کہ وہ کفار کے خلاف کمربستہ رہتے ہیں کیونکہ کفار کی دشمنی علانیہ ہوتی ہے اور مسلمان ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

تیسری وجہ: منافقین مسلمانوں میں شامل ہو کر اُن کی جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی سادگی اور غفلت سے فائدہ اُٹھا کر خود ہی اُنہیں قتل کر دیتے ہیں جس طرح قاتلین عثمان نے حضرت علی کی صفوں میں گھس کر حوارئ رسول حضرت زبیر اور محمد بن طلحہ سجاد اور عمار بن یاسر کو قتل کر دیا تھا جبکہ کفار عموماً باہر سے حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کا حملہ منافقوں کی اندرونی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتا۔

چوتھی وجہ: منافقین کی عداوت مسلمانوں کا مذاق اُڑانے اور اُنہیں اشاروں، کنایوں اور اُن کی تحقیر سے شروع ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے اور علانیہ کفار کی حمایت اور اُن کے جھنڈے تلے لڑنے پر ختم ہوتی ہے۔

پانچویں وجہ: کفار کے ساتھ جہاد بسااوقات فرضِ عین ہوتا ہے اور بسا اوقات فرضِ کفایہ ، وہ عذر اور اصحابِ عذر سے ساقط بھی ہو جاتا ہے جبکہ منافقین کے ساتھ جہاد کسی وقت اور کسی مرد اور عورت سے ساقط نہیں ہوتا کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت رسول اللّٰہ ﷺنے فرمایا کہ

''اللّٰہ نے مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیا مبعوث فرمائے، ان کے حواری بھی بنائے جو ان کی سنت پر عمل کرتے اور ان کے احکام کی پیروی کرتے تھے پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ لے لیتے ہیں جوایسی باتیں کرتے ہیں جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے اور وہ کام کرتے ہیں جن کا اُنہیں کوئی حکم نہیں دیا گیا ہوتا۔ سو جو کوئی اُن سے اپنے ہاتھ سے جہاد کرے، وہ مؤمن ہے اور جو اُن سے اپنی زبان سے جہاد کرے وہ مؤمن ہے اور جو اُن سے دلی نفرت کی صورت میں جہاد کرے وہ مؤمن ہے اور اگر کوئی اتنا بھی نہیں کرے تو اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں۔''5

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے دوستی نہ رکھیں اور نہ اُن پر اعتبار کریں۔ قرآن کریم میں ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم لا يَألونَكُم خَبالًا وَدّوا ما عَنِتُّم قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن أَفوٰهِهِم وَما تُخفى صُدورُ‌هُم أَكبَرُ‌ ۚ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الـٔايـٰتِ ۖ إِن كُنتُم تَعقِلونَ ﴿١١٨﴾ هـٰأَنتُم أُولاءِ تُحِبّونَهُم وَلا يُحِبّونَكُم وَتُؤمِنونَ بِالكِتـٰبِ كُلِّهِ وَإِذا لَقوكُم قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ ۚ قُل موتوا بِغَيظِكُم ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ‌ ﴿١١٩﴾... سورة آل عمران

''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اُٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض اُن کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں،وہ اس سے شدید تر ہے۔ ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں،اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتبِ آسمانی کو مانتے ہو۔ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمہارے رسول اور تمہاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف اُن کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی اُنگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ اپنے غصّہ میں آپ جل مرو، اللّٰہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔''

مذکور آیت کریمہ کے مضمون سے معلوم ہوا کہ ایک صحیح مسلمان کو تمام مہاجرین و اَنصار صحابہ کرام اور اہل بیتِ عظام بشمول آلِ عباس بن عبد المطلب ، آلِ عقیل، آلِ جعفر، آلِ علی بن ابی طالب صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہم سے محبت رکھنی چاہیئے جبکہ ان میں سے اکثر کے ساتھ نفرت کرنا اور چند کے ساتھ محبت کرنے کا دعوی کرنا قرآن مجید کے منزل من اللّٰہ ہونے پر ایمان کے منافی ہے ۔

دوم: ایک مخلص مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ وعظ و تذکیر کو ترک نہ کرے ، اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ بے راہ روں کو ہدایت عطا فرمادے۔قرآن مجید میں ہے:

﴿ أُولـٰئِكَ الَّذينَ يَعلَمُ اللَّـهُ ما فى قُلوبِهِم فَأَعرِ‌ض عَنهُم وَعِظهُم وَقُل لَهُم فى أَنفُسِهِم قَولًا بَليغًا ﴿٦٣﴾... سورة النساء

''یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کی باتوں کو اللّٰہ جانتا ہے، لہٰذا ان سے صرفِ نظر کیجئے اور اُنہیں نصیحت کیجئے اور اُن کے دلوں میں اُتر جانے والی بات کہیے۔''

سوم: نہ تو ہم ان کی طرف سے دفاع کریں اور نہ ان کی طرف سے جھگڑا کریں کیونکہ اللّٰہ کا فرمان ہے:

﴿إِنّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ لِتَحكُمَ بَينَ النّاسِ بِما أَر‌ىٰكَ اللَّـهُ ۚ وَلا تَكُن لِلخائِنينَ خَصيمًا ﴿١٠٥﴾وَاستَغفِرِ‌ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ كانَ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ﴿١٠٦﴾ وَلا تُجـٰدِل عَنِ الَّذينَ يَختانونَ أَنفُسَهُم ۚ إِنَّ اللَّـهَ لا يُحِبُّ مَن كانَ خَوّانًا أَثيمًا ﴿١٠٧﴾... سورة النساء

'' اے نبیؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللّٰہ نے تمہیں دکھائی ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو۔اور اللّٰہ سے در گزر کی درخواست کرو، وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔جو لو گ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم اُن کی حمایت نہ کرو اللّٰہ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔''

چہارم: اگر وہ مسلمانوں کے اندر رہ کر کفار کی دامے، درمے، سخنے مدد کریں تو ان پر سختی کریں اور ان کے خلاف جہاد الحجۃ والبرہان کریں اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو ان سے جہاد بالسیف والسنان کریں۔ قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ جـٰهِدِ الكُفّارَ‌ وَالمُنـٰفِقينَ وَاغلُظ عَلَيهِم ۚ وَمَأوىٰهُم جَهَنَّمُ ۖ وَبِئسَ المَصيرُ‌ ﴿٩﴾... سورة التحريم

''اے نبیﷺ! کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہےاور وہ (بری سوچ لے کر دنیا سے جانے والوں کی) بری جگہ ہے۔''

پنجم: انہیں 'سید' نہ سمجھا جائے بلکہ اُن کی تحقیر کی جائے۔ حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا:

«لا تقولوا للمنافق سيد، فإنه إن يك سيد فقد أسخطتم ربكم عزوجل»6

کہ منافق کو سید نہ کہو کیونکہ اگر وہ (تمہارا) سیدہوا تو تم نے اپنے ربّ عزوجل کو ناراض کیا۔''

لہٰذا ایسے منافقوں کو ووٹ دینا اور انکی تائید کرنا حرام اور رب کی ناراضگی مول لینے والا عمل ہے۔

ششم: ان کی نماز جنازہ میں شمولیت نہ کی جائے اور نہ ان کی قبر پر جایا جائے۔ قرآن کریم میں اللّٰہ عزوجل کا حکم ہے: ﴿وَلا تُصَلِّ عَلىٰ أَحَدٍ مِنهُم ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُم عَلىٰ قَبرِ‌هِ ۖ ...﴿٨٤﴾... سور ة التوبة

''اے پیغمبر! اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہونا ہے۔''

ہفتم: اہل ایمان کو ان کی حکومتوں اور تنظیموں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے عزائم سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، ہمیں اللّٰہ تعالیٰ پریقین ہے کہ وہ ان کی خواہشات کو ہمیشہ کی طرح ناکام کرے گا۔ ان شاء اللّٰہ ﴿وَحيلَ بَينَهُم وَبَينَ ما يَشتَهونَ كَما فُعِلَ بِأَشياعِهِم مِن قَبلُ... ﴿٥٤﴾... سورة سبا

ولله الأمر من قبل ومن بعد، وربنا الرحمن المستعان على ما تصفون


حوالہ جات

1. سورۃ المنافقون:8 ''اگر ہم لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا۔''
سورۃ المنافقون:7 ''جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وه ادھر ادھر ہو جائیں۔''
سورۃ التوبہ:65 ''کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔'' (ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑھی ﷫)

2.سیر اعلام النبلاء از امام ذہبی :16؍ 148

3. اس کا اصل نام تو نصیر الدین طوسی ہے، لیکن امام ابن تیمیہ﷫ اپنی مشہور زمانہ تصنیف 'منہاج السنہ' میں اسے نصیر الکفر کے نام سے لکھتے ہیں، مقالہ نگاربھی اس عظیم امام کی اتباع میں اس کا نام نصیر الکفر طوسی ہی درج کرتا ہے۔

4. کشف الاسرار :ص 155

5. صحیح مسلم: 50

6. سنن ابی داؤد:4977