'غيرت کے نام پر قتل'اور شریعتِ اسلامیہ

کیا غیرت کے نام پر ہونے والے ہر قتل کی سزا قصاص ہے؟

اسلام اور اس کی جدید تجربہ گاہ کے نام پر سینۂ ارضی پر وجود میں آنے والی ریاست پاکستان اپنے قیام کے 65 برس بھی تشخص اورشناخت کے بحران میں مبتلا ہے۔ عظیم اکثریت کا نمائندہ طبقۂ اہل علم اس ملک کو اس کی اصل بنیاد اور اسلامی تقاضوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے، ان کے لیے شریعتِ اسلامیہ کا ہر فرمان قابل اتباع ہے اور وہ اس کو بہر طور مفکر وبانیانِ پاکستان کی خوابوں کے مطابق ایک کامیاب اسلامی معاشرہ بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار احکامات کی طرح یہ فرمان بھی واجبُ الاتباع ہے :

﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء

''اور تیرے ربّ کی قسم! یہ مؤمن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو فیصلہ کن حیثیت نہ دے لیں۔ پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں۔ اور دل وجان کے ساتھ انہیں قبول وتسلیم کر لیں۔''

اس جیسی بہت سی آیاتِ کریمہ میں ایسے معاملات میں، جن میں شریعت کا صریح حکم موجود ہے، اپنی طرف سے نت نئی قانون سازی کرنا ناجائز اور اتباعِ نبوت سے انحراف قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ وطن عزیز کا دوسرا طبقہ وہ ہے، جو مغربی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ، مغربی تہذیب وتمدن کو اپنے لیے 'رول ماڈل'سمجھتا ہے۔ سول سوسائٹی اور حقوقِ نسواں کے نعرے لگانے والا یہ طبقہ، ایک طرف خواتین کے لیے ہدایاتِ نبویؐہ کو نہ تو درخورِ اعتنا سمجھتا ہے، اور نہ ہی معاشرہ وریاست کی صورت گری میں مذہب کو بنیادی کردار دینے پرآمادہ ہے۔ اس طبقہ کی بھرپور تائید عالمی ادارے، مغربی حکومتیں اور میڈیا اپنے ذرائع ووسائل کے ساتھ کرتے ہیں۔

پاکستان میں جرائم غیرت کے حوالے سے آخری قانون سازی آج سے دس برس قبل اس وقت سامنے آئی جب اکتوبر2004ء میں اقوامِ متحدہ نے اپنے اجلاس نمبر 69کے ایجنڈا نمبر98 کے تحت، اپنے رکن ممالک سے یہ مطالبہ کیا کہ

''وہ 'بیجنگ ڈیکلریشن اینڈ پلیٹ فارم فار ایکشن' اور 'جنر ل اسمبلی کے سپیشل سیشن' کے نتیجے میں تیار ہونے والی دستاویزات پر عمل درآمد کروائیں۔ طبقہ نسواں کے خلاف عزت کے نام پر ہونے والے جرائم کی مختلف شکلوں کو روکنے کے لیے اپنی کوششیں: قانون سازی، انتظامی اقدامات اورمنصوبہ بندی کے تحت جاری رکھیں اور اُنہیں مزید آگے بڑھائیں۔ایسے جرائم کے مقدمات کی فی الفور اور جامع انداز میں تحقیقات کریں اور مرتکبین کےخلاف مؤثر قانونی اقدامات کرتے ہوئے اُنہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔اس سلسلے میں میڈیا کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں، ایسے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کریں جن میں ایسے جرائم کی وجوہ ، تدارک، اور اس کے خاتمہ کے لیے متعلقہ افراد مثلاً پولیس، عدلیہ، مقننہ کو ٹریننگ دی جائے۔''1

حکومتِ پاکستان نے اس سلسلے میں فوری پیش قدمی کرتے ہوئے، Criminal Law (Amendment) Act, 2004 کے نام سے تین ماہ کے اندر اندر ترمیمی ایکٹ منظور کرلیا، جس پر صدر جنر ل پرویز مشرف نے 4 جنوری 2005ء کو دستخط ثبت کرکے اسے کتابِِقانون کا حصہ بنا دیا جس میں ''جرائم غیرت کو کارو کاری جیسی رسومات وغیرہ تک وسیع کرتے ہوئے، اس کے مرتکب کو اسلامی قانون قصاص ودیت کی عمل داری سے باہر کر دیا گیا۔ اس میں ورثا کے لیے معافی کا حق سلب کرتے ہوئے، ریاست کو مقتول کا سرپرست بننے کی راہ اپنائی گئی اور سزا کو 15 سال سے بڑھا کر 25 سال قید کردیا گیا۔ بوقتِ ضرورت عدالت قتل غیرت کو، حرابہ یعنی فساد فی الارض اور دہشت گردی کے تحت بھی سماعت کرسکتی ہے۔اس کے لیے اعلیٰ پولیس افسران کی خدمات لینے کے علاوہ ، عدالتِ عالیہ صوبائی حکومتوں کے بھی اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔''2

29؍مئی 2014ء کو لاہور میں فرزانہ نامی حاملہ خاتون کے قتل کا المناک واقعہ پیش آیا۔ جڑانوالہ کی رہائشی فرزانہ کو گھر سے بھاگ کر اپنے آشنا محمد اقبال کے ساتھ عشق کی شادی کرنے کی پاداش میں اس کے اقربا نے لاہور ہائیکورٹ کے باہر اینٹیں مار مار کر قتل کردیا۔ اس بہیمانہ واقعہ کو امریکی وزراتِ خارجہ، برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ نیوی پیلے نے انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے، اس بارے سخت کاروائی اور فوری قانونی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔

وزیر اعظم پاکستان نے اس قتل پر نوٹس لیتے ہوئے اس کی رپورٹ ایک دن کے اندر اندر پیش کرنے کی ہدایت کی۔ بعد کے دنوں میں ملک سیاسی انقلابی دھرنوں کی زَد میں رہا۔ آخر کار اکتوبرمیں شعبۂ ترقی نسواں،حکومتِ پنجاب Women Development Department کی تحریک پر ایک اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس سمت مناسب قانون سازی تجویز کرے گی۔ اس کمیٹی میں پانچ ممبران صوبائی اسمبلی کے علاوہ، تین صوبائی محکموں (وزراتِ داخلہ، قانون، ترقی نسواں) کے سیکرٹری حضرات، آئی جی پولیس کے ساتھ چاروں مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماے کرام (مولانا محمد راغب نعیمی، ڈاکٹر محمد حسین اکبر، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی اور راقم الحروف) پر ایک وسیع تر کمیٹی تشکیل دی گئی جو جناب رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں فوری بنیادوں پر میٹنگیں منعقد کرکے، اس شرم ناک سلسلے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی تجاویز پیش کرے گی۔

کمیٹی کے پہلے اجلاس منعقدہ 11 نومبر 2014ء جو پنجاب اسمبلی کے میٹنگ روم نمبر1 میں ہوا، میں علماے کرام سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنا موقف تحریری طور پر پیش کریں، تاکہ اس کی روشنی میں قانون سازی کی طرف پیش قدمی کی جاسکے۔ ذیل میں اس سلسلے میں راقم الحروف کا موقف ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے، جو حکومتی کمیٹی کے ارکان کو بھی پیش کردیا گیا ہے :

اس سلسلے کی پہلی میٹنگ میں درج ذیل سوالات اُبھر کر سامنے آئے ...

1. 'غیرت' کی تعریف کیا ہے اور غیرت کے جرائم کونسے ہیں؟

2. کیا غیرت کے نام پر قتل کو 'قتل عمد' قرار دیا جاسکتا ہے؟

3. غیرت کے نام پر قتل میں ورثا سے معافی کا حق سلب کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

4 اس جیسے واقعات کی روک تھام شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں کیوں کر ممکن ہے؟

'غیرت' کی تعریف

عربی زبان کی مشہورِ زمانہ لغات؍ ڈکشنریوں میں غیرت کی تعریف یہ کی گئی ہے:

الْغَيْرَةُ مُشْتَقَّةٌ مِنْ تَغَيُّرِ الْقَلْبِ وَهَيَجَانِ الْغَضَبِ بِسَبَبِ الْمشَارَكَةِ فِيمَا بِهِ الاِخْتِصَاصُ، يُقَال: غَارَ الرَّجُل عَلَى امْرَأَتِهِ مِنْ فُلاَنٍ، وَهِيَ عَلَيْهِ مِنْ فُلاَنَة يَغَارُ غَيْرَةً وَغِيَارًا: أَنِفَ مِنَ الْحَمِيَّةِ وَكَرِهَ شَرِكَةَ الْغَيْرِ فِي حَقِّهِ بِهَا، أَوْ فِي حَقِّهَا بِهِ.3

''غیرت دل کی حالت بدل جانے اور غصہ کے سبب ہیجانی کیفیت طاری ہوجانے کو کہتے ہیں، جس کا سبب کسی ایسے شے میں دوسرے کی دخل اندازی ہوتا ہے جس کو انسان اپنے ساتھ مخصوص سمجھتا ہے۔'' جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آدمی نے اپنی بیوی کے بارے میں فلاں شخص پر غیرت کھائی۔اور فلاں عورت نے فلاں دوسری عورت پر (اپنے شوہر کےبارے میں)غیرت کھائی۔ یہ الفاظ اُسوقت بولے جاتے ہیں جب کسی کی غیرت وحمیّت خاک میں مل جائے اور وہ مرد؍عورت دوسرے شخص کی اپنے حق میں دخل اندازی کو برا جانے۔''

اسلامی شریعت کی رو سے 'غیرت'ایک مبارک اور قابل تعریف وصف ہے جیساکہ نبی کریمﷺ نے اس وصف کو اللہ تعالیٰ، اپنے اور نیک مسلمانوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے فرمایا:

قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرُ مُصْفِحٍ عَنْهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: «أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، فَوَاللهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللهُ أَغْيَرُ مِنِّي، مِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا، وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللهِ...4

وَفِي رِوَايَةٍ: إِنَّهُ لَغَيُورٌ، وَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ. وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي

''صحابی رسول سعدبن عبادہ نے کہا کہ اگر میں نے کسی شخص کو اپنے بیوی کے ساتھ پالیا تو میں تلوار کی دھار سے اس کا خاتمہ کردوں گا۔ یہ بات نبی کریمﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: لوگو! کیا تمہیں سعد کی غیرت پر تعجب ہے؟ اللہ کی قسم ! میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں، اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔اسی غیرت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ہر ظاہری اور باطنی فحاشی وبے حیائی کو حرام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی شخص غیرت والا نہیں ہوسکتا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ سعد بڑا غیور شخص ہے، میں اس سے زیادہ غیرت مند اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیورہے۔''

اللہ تعالیٰ کو کس بات پر غیرت آتی ہے، فرمانِ رسولﷺہے:

«يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ! وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنَ الله أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ...»5

''اے اُمّتِ محمد! اللہ کی قسم، روے کائنات میں کسی شخص کو اس سے زیادہ غیرت نہیں آتی، جب اللہ کا کوئی بندہ یا اس کی بندی بدکاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔''

ہر مسلمان كو اپنی بیوی یا اپنی محرمات عورتوں کے بارے میں غیرت کے جذبات رکھنے چاہیئں اور جو آدمی اس غیرت سے خالی ہو، اصطلاحِ شرع میں اسے'دیوث' کہتےہیں جس کی نبی کریمﷺ نے بڑی مذمت کی ہے :

«ثَلاَثَةٌ لاَ يَنْظُرُ اللهُ عَزَّ وَجَل إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ، وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ، وَالدَّيُّوثُ»6

''تین طرح کے لوگوں کی طرف اللہ روزِ قیامت دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا، ماں باپ کا نافرمان، مردوں کی مشابہت کرنے والی عورت اور بے غیرت شخص۔''

غیرت ایک مبارک وصف ہے، جس کی اہمیت وحکمت امام غزالی﷫ نے یوں بیان کی:

وَإِنَّمَا شُرِعَتِ الْغَيْرَةُ -لِحِفْظِ الأَْنْسَابِ- وَهُوَ مِنْ مَقَاصِدِ الشَّرِيعَةِ، وَلَوْ تَسَامَحَ النَّاسُ بِذَلِكَ لاَخْتَلَطَتِ الأَْنْسَابُ، لِذَا قِيل: كُل أُمَّةٍ وُضِعَتِ الْغَيْرَةُ فِي رِجَالِهَا وُضِعَتِ الصِّيَانَةُ فِي نِسَائِهَا.7

''غیرت کو اس لیے مشروع کیا گیا ہے کیونکہ یہ شریعت کے اہم مقاصد کی محافظ ہے۔ اگر لوگ اس میں کوتاہی کرنے لگیں تو نسب ونسل میں شبہ واختلاط واقع ہوجائے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر اُمّت کے مردوں میں غیرت کا مادہ ودیعت کیا گیاہے اور اس کی عورتوں میں اپنی حفاظت کرنے کا احساس موجود ہوتا ہے۔''

شارحِ بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ لکھتے ہیں کہ

''غیرت انسانی فطرت میں شامل ہے، اور جو غیرت مند نہیں، گویا بدفطرت ہے۔''8

اس جذبۂ غیرت کی بنا پر عزت و عِرض کے تحفظ کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں قتل ہوجانے والا درجۂ شہادت پر فائز کیا جاتا ہے ، فرمانِ نبوی ہے: «... مَنْ قُتِل دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ»9

''جو شخص اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرتے مارا جائے، وہ شہید ہے۔''

غیرت کاتعلق صرف مردوں سے ہی نہیں بلکہ عورت کے ساتھ بھی ہے جیسا کہ اُمہات المومنین، اپنی سوکنوں کے بارے میں غیرت کھاتیں۔ غیرت کی یہ صورت بعض شرائط کے ساتھ جواز کا پہلو رکھتی ہے، جب کہ ناجائز غیرت میں قبائلی عصبیت اور فرقہ وارانہ مخاصمت شامل ہیں، جن کا شریعتِ اسلامیہ نے کوئی اعتبار نہیں کیا بلکہ اُنہیں حرام قرار دیا ہے۔10 الغرض غیرت کرنا ایک محبوب ومطلوب امر ہے، بےغیرتی ناپسندیدہ اور قابل وعید رویّہ ہے۔

'جرائم غیرت' کا مصداق

اسلامی تناظر میں'غیرت'جرم وسزا سے الگ ایک مستقل مفہوم اورتشخص رکھتی ہے،تاہم 'قتل غیرت' اور غیرت کے جرائم مغربی معاشروں کی اصطلاحیں ہیں،جنہیں Honour Killing یا Crime of Houner وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، گویا یہ جذبہ ہر قوم ومعاشرے میں پایا جاتا ہےتاہم اس حوالے سے جرم وسزا کی نوعیتیں ہر معاشرے میں مختلف ہیں۔ اسلام میں غیرت کے جرائم ، جرم وسزا کی کوئی مستقل صنف نہیں، اور نہ ہی اُن کی الگ سے کوئی سزا ہے، بلکہ غیرت کے حوالے سے ہر جرم پراُس کی شدت ونوعیت کے مطابق سزا دی جاتی ہے، مثلاً قتل، زِنا، فحاشی، اختلاطِ مردوزَن ہر ایک میں غیرت کی نوعیت مختلف ہے، اور ہر ایک کے لیے عدل وانصاف کے تقاضے پورے کئے جانے چاہئیں۔

پاکستان میں قانونی طور پر جرائم غیرت کی تعریف اور مصداق مختلف ہیں، جن میں کارو کاری، سیاہ کاری اور کالا کالی وغیرہ کو ہی سامنے رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے، چنانچہ 'عورت فاؤنڈیشن' کے زیر اہتمام 'کرائمز آف آنر' نامی کتاب کی مصنفہ ملیحہ ضیا لکھتی ہیں :

"Offence committed in the name or on the pretext of honour means an offence committed in the name or on the pretext of karo kari, siyah kari or similar other customs or practices," which allow family members to kill women, and also men, on the pretext of having brought dishonour to the family...11

''غیرت کے نام پر ارتکاب کیے جانے والے جرائم مثلاً کارو کاری، سیاہ کاری یا اس سے ملتی جلتی رسوم وروایات ۔'' جو خاندان کے ارکان کو اس احتمال کی بنا پر عورت اور مرد کو قتل کرنے کی اجازت دیتی ہیں کہ اس سے خاندان کو بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔''

پاکستانی معاشرے میں'جرائم غیرت'کے تحت کاروکاری، کالا کالی، سیاہ کاری کی قبائلی رسومات سے لے کر خفیہ آشنائی، ناجائز راہ ورسم اورتعلقات، بدکاری اور عشقیہ شادی وغیرہ شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کے بارے میں شرعی حکم وموقف جداگانہ ہے۔پاکستانی معاشرے میں قبائلی رسوم ورواج کے زیر اثر ، خواتین پر ہونے والے مظالم کی شریعتِ اسلامیہ میں کوئی گنجائش نہیں ، اور بعض دیگر جرائم کے سلسلے میں قانون کو خود ہاتھ میں لے کر دی جانے والی سزا کی بھی اسلام مخالفت کرتا ہے۔ ہمارے مسائل کی وجہ شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات سے ناواقفیت اور اس کا احترام نہ کرنا ہے، وگرنہ شریعتِ محمدیہ میں ہر ہر جرم کے ساتھ عین پورا پورا انصاف موجود ہے۔مردو زَن دونوں ہی اللہ ارحم الرّاحمین کی اشرف مخلوق ہیں، اور اللہ تعالیٰ دونوں کے حقوق کے پورے محافظ ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کو قتل عمدقرار دینا ...؟

اسلام میں ہر جرم کی سزا اُس کی نوعیت و شدت کے مطابق دی جاتی ہےکہ یہی عدل وانصاف کا تقاضا ہے۔عشق وفسق کے رویے اختیار کرنا ، گو کہ اسلام کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہیں لیکن اس کی سزا یہ نہیں کہ ایسا کرنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ بلکہ ایسا کرنے والے کو تادیبی اور انسدادی سزا دی جانی چاہیے۔مرد وزَن کے بے محابا تعلقات اور اُن میں خفیہ آشنائی بھی ناجائز اور حرام ہیں، لیکن جب تک کوئی مرد وعورت بدکاری کے حقیقی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا ، اس وقت تک اس کو بدکاری کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ حتیٰ کہ کنوارے مرد وعورت اگر زناکاری بھی کرلیں تو شریعتِ اسلامیہ میں اُن کی سزا، قتل کی بجائے سو کوڑے اور جلاوطنی سے زیادہ نہیں۔ غیرت کے حوالے سے جرائم کی بعض سنگین صورتیں مجرموں کے لیے سزاے موت کو شرعاً لازم تو کرتی ہیں، تاہم ورثا کے لیے پھربھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی گنجائش نہیں ہے، ایسا کرنا صرف مسلمان حاکم کا استحقاق ہے۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ جس جرم کی سزا قرآن وسنّت نے مقرر کر دی ہو، اس کی جگہ از خود دوسری سزا مقرر کردینا چاہے وہ کم ہو یا زیادہ،ایک مسلمان کے لیے ایسا رویہ اختیار کرنا ناجائز ہے۔نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:

«لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالمَارِقُ مِنَ الدِّينِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ»12

''کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے والے کسی مسلمان کا خون بہانا تین صورتوں کے سوا جائز نہیں: قصاص، شادی شدہ زانی، دین سے نکل کر ارتداد کی راہ اختیار کرنے والا۔''

اس سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ مردوعورت کی بدکاری کے علاوہ کسی کو خفیہ یارانے اور بدکاری پرقتل کی سزا نہیں دی جاسکتی اور یہ سزا دینا بھی مسلم حاکم کا فریضہ ہے۔ اسلام میں بدکاری اور اس کے مبادیات کو بھی گناہ قرار دیتے ہوئے، ان پر 'زنا'کے لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے، لیکن اس لفظ کا استعمال اس گناہ کی شدت کے اظہار کے لیے ہی ہے، حقیقی زنا وہی ہے جو بدکاری کا فعل ہے اور اس کے ثبوت کے معروف تقاضے اور مخصوص سزا ہے۔ مردو زَن میں آزادانہ راہ و رسم،بے محابا میل جول اور خفیہ آشنائی کے بارے میں یہ فرمانِ نبوی ﷺہے :

«...فَزِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي، وَالفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَيُكَذِّبُهُ»13

''آنکھوں کا زنا ، نظربازی ہے۔ زبان کا زنا فحش گوئی ہے۔ دل کا زنا خواہش وہوس ہے اور شرم گاہ اس کی کلّی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔''

اس طرح کے جرائم کی سزا مسلم حاکم کو بطورِ تعزیر مقرر کرنے کا شرعاًاختیار حاصل ہے، بلکہ بکثرت ہوجانے کی صورت میں اسے ضرور تادیبی قانون بنانا چاہیے۔ان ابتدائی جرائم سے قطع نظر جہاں تک غیرت کے نام پر قتل کا تعلق ہے تو اس بارے میں احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ نبی ﷺنے عملاً بدکاری کی صورت میں بھی کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔جیساکہ سیدنا ابوہریرہ ، انصاری سردار سعد بن عبادہ کا نبی کریمﷺ سے یہ مکالمہ روایت کرتے ہیں:

أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا»، قَالَ سَعْدٌ: بَلَى، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ»14

''آپ کا کیا خیال ہے کہ کوئی اپنی بیوی کے ساتھ دوسرےشخص کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کردے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ سعد بولے: ہرگز نہیں،اسکی قسم جس نے آپکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ تو نبی ﷺ نے جواب دیا: سنو، سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے...؟''

اس سے اگلی حدیث میں اس واقعہ کی مزید وضاحت موجود ہے :

قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ وَجَدْتُ مَعَ أَهْلِي رَجُلًا لَمْ أَمَسَّهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «نَعَمْ»، قَالَ: كَلَّا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنْ كُنْتُ لَأُعَاجِلُهُ بِالسَّيْفِ قَبْلَ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ، إِنَّهُ لَغَيُورٌ، وَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللهُ أَغْيَرُ مِنِّي»15

''سعد بن عبادہ کہنے لگے : یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پالوں تو میں اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا حتی کہ چار گواہ لے آؤں، تو نبی کریمﷺ بولے: ہاں... سعد کہنے لگے: ہرگز نہیں، قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں تو جلد ہی اس سے قبل، تلوار سے اس کا کام تمام کردوں گا۔ تو نبی ﷺ نے کہا: سنو اپنے سردار کی سنو، یہ بڑا غیّور ہے اور میں اس سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔''

اس حدیث کی تشریح میں شرعی حکمتوں کے نامور ماہر علامہ ابن قیم الجوزیہ ﷫ لکھتے ہیں :

وَآخِرُ الْحَدِيثِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ لَوْ قَتَلَهُ لَمْ يُقَدْ بِهِ؛ لِأَنَّهُ قَالَ: بَلَى وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ، وَلَوْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْقِصَاصُ بِقَتْلِهِ لَمَا أَقَرَّهُ عَلَى هَذَا الْحَلِفِ، وَلَمَا أَثْنَى عَلَى غَيْرَتِهِ، وَلَقَالَ: لَوْ قَتَلْتَهُ قُتِلْتَ بِهِ.

وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ وَلَا نَهَاهُ عَنْ قَتْلِهِ؛ لِأَنَّ قَوْلَهُ ﷺ حُكْمٌ مُلْزِمٌ، وَكَذَلِكَ فَتْوَاهُ حُكْمٌ عَامٌّ لِلْأُمَّةِ، فَلَوْ أَذِنَ لَهُ فِي قَتْلِهِ لَكَانَ ذَلِكَ حُكْمًا مِنْهُ بِأَنَّ دَمَهُ هَدَرٌ فِي ظَاهِرِ الشَّرْعِ وَبَاطِنِهِ، وَوَقَعَتِ الْمَفْسَدَةُ الَّتِي دَرَأَهَا اللَّهُ بِالْقِصَاصِ، وَتَهَالَكَ النَّاسُ فِي قَتْلِ مَنْ يُرِيدُونَ قَتْلَهُ فِي دُورِهِمْ وَيَدَّعُونَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَرَوْنَهُمْ عَلَى حَرِيمِهِمْ، فَسَدَّ الذَّرِيعَةَ وَحَمَى الْمَفْسَدَةَ وَصَانَ الدِّمَاءَ...16

''اس حدیث کا آخری حصّہ اس امر کی دلیل ہے کہ اگر وہ قتل کردے تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا، کیونکہ سعد نے کہا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق سے مبعوث کیا ہے۔ اگر قاتل پر قصاص واجب ہوتا تو آپ ﷺ اس حلف کو برقرار 17نہ رہنے دیتے اور سعد کی غیرت کی تعریف نہ فرماتے اور یوں کہتے: اگر تو نے قتل کیا تو تجھے بھی جواباًقتل کیا جائے گا۔ ...

نہ تو آپﷺ نے اُس کو ٹوکا، نہ ہی قتل سے منع کیا کیونکہ آپﷺکا قول ایک لازمی حکم بن جاتا اور آپ کا فتویٰ اُمّت کے لیے عام اُصول ٹھہرتا۔اب آپ اگر زانی کے قتل کا حکم دے دیتے تو یہ آپ کا آرڈر ہوجاتا کہ اس طرح اس کا خون ظاہر وباطن شرع میں رائیگاں ٹھہرا۔ لوگ اس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے قتل وغارت کیا کرتے اور یہ دعویٰ کردیتے کہ اُنہوں نے اس مقتول کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا تھا، سو آپ نے سدِذریعہ، فساد کے خاتمہ اور جانوں کی حرمت برقرار رکھنے کے لیے محض قاتل کے دعوے کو غیرمعتبر قرار دیا۔ ''

ان واضح احادیثِ مبارکہ سے علم ہوگیا کہ غیرت کے نام پر قانون کو خود ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی کو قتل کردینا نبی کریمﷺ کے منع کردینے کی بنا پرایک گناہ ہے۔اور دوسری حدیث سے علم ہوا کہ ثبوت مہیا نہ کرسکنے کی بنا پر اس سے روکا گیا ہے ، جس میں نبی کریمﷺ نے نَعَم یعنی ہاں ارشاد فرمایا ہے۔ جس کا مفہومِ مخالف یہ ہوا کہ اگر ثبوت یعنی گواہ پورے ہوں تو ایسا کیا جاسکتا ہے، مزید یہ کہ آخر حدیث میں سعد کی غیرت کی تعریف کرتے ہوئے ، اللہ اور اس کے رسو ل کو اس سے زیادہ غیرت مند بتایا گیا ہے۔

قتل عمد کی سزا کے لیے مقتول کا معصوم الدم ہوناضروری ہے

اس فرمانِ نبوی میں سعد بن عبادہ کو منع تو کیا گیا ہے، لیکن آپ ﷺنے نہ تو اس کو قتل عمد قرار دیا ہے اور نہ ہی اس کی سزا قتل بالارادہ والی ہے، کیونکہ'قتل عمد'جرم وسزا کی ایک مخصوص اصطلاح ہے، جس میں قصاصاً جوابی قتل کیا جاتا ہے۔ اس جرم کو قتل عمد قرار دینا درست نہیں ہے۔ یہاں 'قتل عمد' لغوی معنی کے لحاظ سے تو عمداً ہی ہے لیکن شرعی معنیٰ کے لحاظ سے نہیں۔ جس طرح ہر گواہ، گواہ ہی ہوتا ہے، چاہے وہ جھوٹا ہو یا سچا... اسی طرح قاضی کے حکم پر جلاد کا مجرم کو قتل کرنا بھی لغوی معنی ٰ کے لحاظ سے قتل عمدہی ہوتا ہے، جب کہ جرم وسزا کی اصطلاح میں اُنہیں قتل عمد نہیں کہا جاتا۔ایسے ہی جنگ میں مقابل کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا مسلمان بھی قاتل ہی ہوتا ہے ، لیکن اسے قاتل نہیں کہتے۔

دراصل غیرت کے نام پر قتل ، ایک پہلے جرم کا ردّ عمل ہے، اور اس قتل کو پہلے جرم کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اگر تو پہلاجرم واقع ہوا ہو اور اس کی سزا بھی موت ہو جیسے شادی شدہ فرد کا زنا جو اس کے لیے موت کی سزا عائد کردیتا ہے، تب بعد میں اس کو قتل کرنے والا قاتل عمد نہیں کہلائے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے جرم کو شرعی تقاضوں کے مطابق ثابت کرے۔

1. فقہ حنبلی کے مشہور عالم ابو النجا موسیٰ بن سالم مقدسی (م 960ھ) نے اپنی معروفِ زمانہ کتاب زاد المستقنعمیں قتل عمد کی تعریف یوں کی ہے : فَالْعَمْدُ أَنْ يَقْصِدَ مَنْ يَعْلَمُهُ آدَمِيّاً مَعْصُوماً فَيَقْتُلَهُ بِمَا يَغْلِبُ عَلَى الظَّنِّ مَوْتُهُ بِهِ

''قتل عمد وہ ہوتا ہے، جس میں کسی معصوم الدم شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جائے تو اس کو اس طرح قتل کیا جائے، جس طرح مرجانے کا غالب امکان ہوتا ہے۔''

2. زاد المستقنعکی الشرح الممتع میں نامور مفتی شیخ ابن عثیمین ﷫ کہتے ہیں:

مثال رابع: لو رمى شخصًا يظنه الزاني المحصن، والزاني المحصن غير معصوم؛ لأنه يرجم حتى يموت، فتبين أنه ليس هو الزاني المحصن، فهٰذا ليس بعمد.18

''اس کی چوتھی صورت یہ ہوئی کہ کسی نے دوسرے شخص کو شادی شدہ زانی سمجھ کر قتل کردیا۔ اورشادی شدہ زانی معصوم الدم نہیں ہوتا کیونکہ اس کی سزا سنگساری ہے، یہاں تک وہ مر جائے۔ پھر اس کو پتہ چلا کہ وہ شادی شدہ زانی نہ تھا، چنانچہ یہ بھی قتل عمد نہ ہوا۔''

3. قتل عمد کے جرم کی چھ شرائط ہیں ، جن میں سے دوسری یہ ہے کہ

ثانيًا: أن يكون المجني عليه معصوم الدم: ومعنى كونه معصوم الدم ألا يكون دمه مباحًا، فإن كان دمه مباحًا لم يجب القصاص على قاتله عمدًا؛... ولقد سبق أن أوضحنا أن الشريعة الإسلامية جعلت القتل الموجب للعقوبة القتل بغير حق، أما القتل بحق؛ كقتل الحربي والمرتد عن دينه، والبغاة، والزاني المحصن، وقاتل النفس عمدًا، فإنه قتل لا يترتب عليه الإثم؛ لأنه قتل بحق؛ ولكن يعزر مقترف هذه الجريمة لافتياته على الإمام.

فقد صرح الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة والزيدية والإمامية والظاهرية بأنه يجب أن يكون المقتول معصوم الدم، أما إن كان الشرع قد أباح دمه لكونه حربيا أو مرتدا، أو زانيا محصنا، أو قاطع طريق تحتم قتله، فإن قاتله لا يقتل به وإن كان بغير إذن من الحاكم، ولا يجب عليه دية ولا كفارة؛ لأنه مباح الدم في الجملة، وإن توقفت المباشرة على إذن الحاكم فيأثم بدونه خاصة، ويعزر قاتل هؤلاء لافتياته على الإمام.19

''قصاص کی دوسری شرط یہ ہے کہ جس پر زیادتی کی جائے، وہ معصوم الدم ہو۔ معصوم الدم کا مطلب یہ ہے کہ اس کا خون جائز نہ ہو۔اگر اس کا خون بہانا جائز ہے تو ایسے قاتل عمد پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے ہم بتا چکے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ نے سزاے قتل، ایسے قتل پر سنائی ہے جو ناحق ہو۔ جو قتل حق کے ساتھ ہو مثلاً مرتد، جنگی دشمن، باغیان، شادی شدہ زانی، قاتل کاقتل، تو ایسے قتلوں کے ارتکاب پر گناہ واقع نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب قتل حق کے ساتھ ہیں۔تاہم ایسے قتل کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے کیونکہ حکمران کےحق میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس نے قانون ہاتھ میں لینے کا جرم کیا ہے۔

حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، زیدی، امامیہ اور ظاہریہ سب کا اتفاق ہے کہ قصاص لینے کے لیے مقتول کا معصوم الدم ہونا ضروری ہے۔اگر شریعت نے ان کے خون کو جنگی دشمن یا ارتداد کی بنا پر جائز قرار دیا ہو، یا شادی شدہ زانی، ڈاکہ زنی کی بنا پر تو ان کاقاتل ، جوابا ً قتل نہیں کیا جائےگاچاہے وہ حاکم کی اجازت کے بغیر ایسا کرے۔ اسپر دیت وکفارہ لاگونہیں ہوگا کیونکہ یہ سب لوگ اُصولی طور پر مباح الدم ہیں۔اگر حاکم کی اجازت کے بغیر ایسا کیا گیا تو قانون کو ہاتھ میں لینے کے وہ مجرم ہوں گے اور اس جرم کی سزا میں قاتل کو تعزیر دی جائے گی۔''

اس سلسلے میں فقہاے کرام کے جملہ مسالک (حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ، ظاہریہ، زیدیہ، امامیہ) کے ہاں کلی اتفاق پایا جاتا ہے ، جس کی تفصیل آئندہ شمارے میں مستقل مضمون میں ملاحظہ کریں۔

4. قتل عمد کے بارے میں فقہاے کرام کااجماع ہے :

فلا خلافَ بين المسلمين في تحريم القتل العمد العُدوان بغير حق، وأن صاحبَه يستحقّ القتل في الدنيا حدًّا، ما لم يكن مستحلًّا لذلك فيكون كفرًا، ويستحق العقاب بالنار في الآخرة20

''مسلمانوں میں ایسے قتل عمد کی حرمت پر کوئی اختلاف نہیں جس میں بغیر حق کے زیادتی کی جاتی ہو۔ اور ایسا قاتل دنیا میں بطورِ حد قتل کیا جائے گا جب تک وہ اسے (اعتقادًا)جائز نہ سمجھے جو موجبِ کفر اور آخرت میں آگ کی سزا کا مستحق ہے۔''

اس سے معلوم ہوا کہ قتل عمد، وہی ہے جس میں مقتول معصوم الدم نہ ہو اور اس کی سزا بطورِ قصاص قتل ہو۔ اس بنا پر غیرت کے نام پر قتل کرنے والا اگر مقتول کا جرم زنا ثابت کردیتا ہے، تو اس کو قتل عمد کا مجرم اور جواباً ؍قصاصًا قتل نہیں کیا جائے گا۔

مذکورہ بالا بحث ایسی صورت کے بارے میں ہے جب کہ مقتول شادی شدہ ہو اور بدکاری کو قانوناً ثابت کردیا جائے، تاہم اگر مقتول اس سے کمتر جرم کا مرتکب ہو مثلاً کنوارے کی بدکاری یا مبادیات زنا کا ارتکاب، تب بھی قاتل کو شبہ کا فائدہ حاصل ہوگا، اور ایسی صورت میں یہ قتل عمد سے نکل کر قتل خطا کی ذیل میں آجائے گا، کیونکہ شبہات سے حدود زائل ہوجاتی ہیں۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :

«ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ»21

''جہاں تک ممکن ہو، مسلمانوں سے حدود کو مؤخر کرو۔''

ایسا ہی ایک فتویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے پوچھا گیا کہ کسی وقوعہ میں عملاً بدکاری واقع نہ ہوئی ہو ، یا مقتول مبادیاتِ زنا اور بوس وکنار میں مشغول تھا، جس کے بارے میں قاتل کو مغالطہ لگا اور اس نے قتل کردیا، تواُنہوں نے ایسے قاتل کو قتل خطا کا مجرم قرار دیتے ہوئے جواب دیا:

وأما إن کان الرجل لم یفعل بعد فاحشة ولکن وصل لأجل ذلك فهٰذا فیه نزاع، والأحوط لهٰذا أن یتوب من القتل من مثل هذه الصورة وفي وجوب الکفارة علیه نزاع، فإذا کفّر فقد فعل الأحوط فإن الکفارة تجب في قتل الخطإ وأما قتل العمد فلا کفارة فیه عند الجمهور: کمالك وأبي حنیفة وأحمد في المشهور عنه، وعلیه الکفارة عند الشافعي وأحمد في الروایة الأخرٰی22

''جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مقتول نے عملی طور پر بدکاری کا ارتکاب نہ کیا ہو لیکن وہ داخل اس نیت سے ہوا ہو تو ایسی صورت میں علما کے مختلف موقف ہیں جن میں سے محتاط ترین یہ ہے کہ ایسے قتل کی صورت میں قاتل اللہ سے ہی توبہ کرلے۔

جہاں تک ایسے قتل کا کفارہ ادا کرنے کا تعلق ہے تو اس کا کفارہ ادا کرنا زیادہ محتاط رویہ ہے۔ یاد رہے کہ کفارہ قتل خطا میں عائد ہوتا ہے۔ جہاں تک قتل عمد کا تعلق ہے تو جمہور علما (مثلاً امام مالک، ابوحنیفہ اور امام احمد کے مشہور موقف) کے مطابق اس میں کفارہ نہیں ہوتا، البتہ امام شافعی اور امام احمد کے دوسرے موقف کے مطابق وہاں بھی کفارہ ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔''

گویا امکانِ بدکاری کی صورت میں بھی قاتل کو قاتل تو قرار دیا جائے گا، لیکن وہ قتل عمد کی بجائے قتل خطا قرار پائے گا، جس میں دیت مع کفارہ دیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل اور کامل دلائل آئندہ شمارے میں مستقل مضمون میں ملاحظہ کریں۔

موجودہ صورتِ حال کا حل

پاکستانی معاشرہ اس وقت جس المیہ سے دوچار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت عوام کے سماجی اور دینی رجحانات کو مدنظر رکھ کر قانونی اقدامات نہیں کررہی ، اس سے معاشرے میں شدید بے چینی اور بے راہ روی پروان چڑھ رہی ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ (ڈرامے اور فلمیں)عشق ومحبت کو ایک مقدس قدر اور مقصدِ حیات کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ تعلیمی ادارے اس بدتصور کی تجربہ گاہ اور عدالتیں انسانی حقوق کے نام پر اس کی ضامن ومحافظ بنی ہوئی ہیں۔ سارا زور آخر کار غیرت کے نام پر جرائم میں نکلتا ہے، جس سے تھوڑا بہت خوف باقی ہے۔ مقننہ این جی اوز کے ساتھ مل کر، اس آخری دیوار کو بھی گرانا چاہتی ہے، جس کے بعد قانونی سطح پر یا افرادِ خانہ کی طرف سے معمولی رکاوٹ ومزاحمت کا امکان ہی باقی نہ رہے اور جو ایسا کرے وہ الم ناک سزا کا مستحق قرار پائے۔

غیرت کے نام پر ان جرائم کو کو صرف قانونی نقطہ نظر سے روکنے یا جائزہ لینے کی بجائےاس سے پہلے ان تمام مراحل کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ اور اس نازک موڑ پر ہمیں یہی فیصلہ کرنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم عشق ومحبت کو تو ایک مقدس قدر سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کا کوئی شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کے لیے کسی آشنا یا عاشق کا نام سننے پر آمادہ نہیں۔ ہمیں واضح طور پر دومتخالف راستوں میں ایک کا انتخاب اور اس کے لوازم اور نتائج وعواقب کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ اس دو رخی سے معاشرے میں ہر طرف المیے جنم لے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ محبت وعشق کو مقدس قرار دیتے اور عدالتیں انسانی حق بتاتی ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ کلبوں، پارکوں میں محبت کے نام پر عصمت دری کا جرم ہورہا ہے اور گلیوں محلوں میں قتل وغارت۔ عدالتیں ایسے مسائل سے بھری پڑی ہیں اور حکومتیں ان کی روک تھام کی بجائے آخری بندھن بھی توڑدینا چاہتی ہیں۔

آخری سالوں میں ہونے والی قانون سازی کا منظر نامہ تو یہ ہے کہ عشق وفجور اور بےراہ روی اختیار کرنے والے تو معصوم تصور ہوں اور ان کو روکنے والے کسی تفصیل میں جائے بغیر سیدھا قانون کی کڑی گرفت میں۔ اس قانون کا طرفہ تماشا دیکھیے کہ زنا کا کیس تو ایس پی اور عدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر درج نہ ہو،گویا زنا کو اس طرح قانونی تحفظ دے دیاگیا کہ جرم کی ایف آئی آر؟؟؟ ناممکن بنا دی گئی، دوسری طرف عوام الناس اور خاندان کے مردوں کو قانون کی دھمکی کے ذریعے اس سے منع کرنے کی قانون سازی کی جارہی ہے۔ اس سے پاکستانی معاشرہ کس تضاد اور ہلاکت کا شکار ہوگا، اور حالات ہمیں کدھر لے جائیں گے، اس کا اندازہ ہر ذی شعور کرسکتا ہے۔

لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ ایک طرف مذہب اور ان کی درست سماجی روایات اُن کو غیرت مند بننے کی تلقین کرتے ہیں، ہم میں کوئی مردوعورت بھی اپنے شریکِ حیات کے بارے میں کسی اورکی معمولی دلچسپی قبول کرنے پرآمادہ نہیں۔ کوئی شریف مسلمان اپنی بہن بیٹی اور اپنے بھائی بیٹے کی غلط کاریوں کو سندِ جوازدینے کو تیار نہیں اور جرم کے خلاف نفرت کا یہی تقاضا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ صورتِ حال کو ٹھنڈے دل سے سوچا سمجھا جائے، اور اپنے دین اور درست کلچر کی روشنی میں اس کا حل نکالا جائے۔ جب قانون درپیش مسائل کا ہمارے سماج اور شریعت سے ہم آہنگ حل نہیں نکالتا تو لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں عدالتوں سے داد رسی کی اُمید نہیں ہوتی۔جہاں تک نرے قانون کی بات ہے تو 'کریمنل لاء امینڈمنٹ ایکٹ2004ء' میں، وہ تمام ترامیم کر دی گئی ہیں جو اب پیش کی جاری ہیں، یعنی اسے قتل عمد قرار دینا اور ورثا سے قتل غیرت کی صورت میں معافی کا حق واپس لینا۔ لیکن آج دس برس بعد اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اب مزید قانون کی سختی سے کیا حاصل ، جب وہ مذہب ومعاشرہ سے ہی متصادم ہو۔

شریعتِ اسلامیہ میں اس عین منصفانہ حل موجود ہے، بےراہ روی کی مذمت اور روک تھام، عشق وفسق اور آزادانہ اختلاطِ مردوزن پر پابندی، بوس وکنار اور مبادیاتِ زنا پر تعزیری سزائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کہیں کوئی قانون کو ہاتھ میں لے تو اس معاملہ پر اسے سزا دی جائے، تاہم اگر وہ اپنے اقدام کو قانونی طور پر ثابت کردیتا ہے ، تو اسے صرف مزید زیادتی کی سزا دی جائے، اور شرع وقانون کے تقاضے فوری طور پر پوری کیے جائیں۔ہمارا موجودہ قانونی نظام دیگر بہت سے معاشرتی مسائل مثلاً دہشت گردی، چوری چکاری سمیت اس پیچیدگی کو حل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، اس نظام کو سادہ تیز تر اور انصاف پر قائم کیا جائے۔ صرف قانون کو سخت سے سخت تر بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔

حالیہ واقعہ کا شرعی حل

پیش نظر واقعہ جس میں فرزانہ کو بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا، اس میں راقم کا موقف یہ ہے کہ اس کیس میں شادی کے بعد زنا کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے، گو کہ والدین سے بغاوت کرکے کی جانے والی شادی اور اس سے قبل خفیہ یارانے ضرور مشکوک اور قابل گرفت ہیں۔ تاہم فرزانہ کے اس الم ناک انجام میں درج ذیل زیادتیاں ہوئی ہیں :

1۔ فرزانہ اور اقبال کا خفیہ یارانہ اور فسق وعشق ان سارے مسائل کی جڑ ہے، جس کا تدارک نہیں کیا گیا۔

2۔ اس کے ورثا کا قانون کو ہاتھ میں لے کر ، اسے خود قتل کردینا ایک غلط رویّہ ہے۔

3۔ سابقہ مشکوک اقدامات پر قتل کرنا بھی زیادتی ہے، جسے قتل کا مقدمہ ہی قرار دیا جائے گا، الا یہ کہ قاتلین، مقتولہ کی بدکاری ثابت کردیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو زیادہ سے زیادہ رعایت کی صورت میں یہ قتل خطا کی صورت بنتی ہے۔

4۔ اس کو وحشت ناک انداز میں اینٹیں مار کرموت کے گھاٹ اُتارنا دہشت گردی کے مترادف ہے، اس لیے ان مجرموں پر سابقہ دو سزاؤں کے ساتھ حرابہ(فساد فی الارض) کی مزید سزا بھی عائد کی جاسکتی ہے۔

5۔ یہ سزائیں فوری بنیادوں پر نافذ کی جانی چاہئیں، انصاف کو مؤخر کرنا بھی ناانصافی کے مترادف،قانون شکنی کی حوصلہ افزائی اور مزید جرائم کے امکانات پیدا کرتا ہے۔

میڈیا کے مطابق اس واقعہ میں دہشت گردی کی عدالت نے چار قاتلوں کو تین تین مرتبہ سزائے موت، اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے،ان چار قاتلوں میں فرزانہ کے والد، بھائی، کزن اور سابقہ منگیترشامل ہیں جبکہ ایک بھائی غلام احمد کو 10 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔23

فرزانہ کے کیس کا تو شریعت وقانون کی نظر میں فیصلہ ہوچکا ،جس میں بعض چیزیں خلافِ شریعت بھی ہیں، مثلاً نبی کریمﷺ کے واضح فرمان کی رو سے باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاسکتا، اس کو دیت ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔ تاہم اُصولی طور پرحکومتِ پنجاب کو درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھ کر قانون سازی کرنا چاہیے۔

سفارشات

1. 'غیرت' شرعی طور پر ایک پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ، رسولِ کریمﷺ اور مسلمان غیرت مند ہیں۔بے غیرتی قابل مذمت امر ہے۔ تاہم اس جذبے کو درست اور شریعت کی حدود میں رہناچاہیے اور اس کے ناجائز استعال کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

2. بےحیائی،فحاشی اور خفیہ یارانے وغیرہ کی روک تھام کی قانون سازی کرنی چاہیے اور ان مبادیاتِ زنا کی تعزیری سزا جاری کرنا چاہیے۔ غیرت کے جرائم ، ایک سابقہ جرم کا ردعمل ہیں، اگر عمل کو کنٹرول کرلیا جائے تو ردعمل میں بھی توازن پیدا کیا جاسکتا ہے۔

3. قانون میں غیرت کی تعریف کرتے ہوئے جن بہت سے جرائم کویکجا کردیا گیا ہے، ان سب کا حکم شرعاً ایک نہیں۔ان میں بعض صریحاً قتل ، ظلم اور زیادتی ہیں، اور بعض میں جرم کی شدت کم ہے، مثلاً خفیہ یارانے اور میل جول وغیرہ۔ شریعتِ اسلامیہ میں 'غیرت کے نام سے جرائم ' کی بجائے ہر مسئلہ کا حکم جداگانہ طور پر دیکھا جاتا ہے۔

4. نوعیت جرم: غیرت کے نام پر کسی بھی ابتدائی یا سنگین تر صورت میں بھی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے قتل نہیں کیا جاسکتا، ایسا کرنا شرعاً ممنوع اورگناہ ہے، تاہم وقوعہ بدکاری کے دوران اس کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ معاشرے میں قانون ہاتھ میں لینے جیسے واقعات بڑھ جانے کی صورت میں اس کے انسداد کے لیے بھی تعزیری سزا نافذ کی جانی چاہیے۔

5. جرائم غیرت ، سابقہ جرائم کا رد عمل ہیں، اس کی قانونی وشرعی حیثیت کا تعین سابقہ جرائم کی روشنی میں ہی ہوگا۔

6. اگر کوئی غیرت کے نام پر قتل کربیٹھے تو اس کے سلسلے میں قانونی وشرعی تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ بدکاری واقع ہونے کی صورت میں قاتل کو ثبوت مہیا کر دینے پر سزا میں رعایت ملے گی ۔ [اس کی بعض سنگین تر صورتوں میں، جن میں مقتولین بالکل معصوم ہوں، قتل عمد کے ساتھ حرابہ (فساد فی الارض) کی سزا بھی شامل کی جاسکتی ہے۔ تاہم اس کی ہر صورت قتل عمد نہیں ، جب کہ شادی شدہ شخص کی بدکاری ثابت ہونے پر وہ معصوم الدم نہ رہے، بلکہ شبہ واحتمالِ گناہ پیدا ہونے کی بنا پر یہ قتل خطا کے ذیل میں بھی چلا جاتا ہے۔]

7. ورثا کو معافی یا دیت وصول کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، یہ شریعتِ اسلامیہ سے کھلا انحراف ہے۔ غیرت کے نام پر قتل وغیرہ کی صورت میں بھی شریعت نے اس حق سے اُنہیں محروم نہیں کیا۔

8. حدود اللہ کا اپنی روح سے بروقت نفاذ ہی مسائل کا حقیقی خاتمہ کرسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال کی اصل وجہ سماجی تضادات اورقانون و طریقہ اجرا کی اُلجھنیں ہیں، جن میں مزید شدت پیدا کرنے کی بجائے قانون کو متوازن،اورطریقۂ نفاذ کو بامقصد کرکے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

خلاصہ: پاکستانی رسوم ورواج میں غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کی بہت سی شکلوں کی سزا قتل نہیں،یہ غیرت کا ناجائز استعمال ہے۔غیرت کے نام پر قتل کا ارتکاب شرعاًممنوع ہے،تاہم ایسے قتل کی سزا، سابقہ جرم کی روشنی میں،قانون وشرع کے تقاضوں کے مطابق دی جائے گی، اور عملاً بدکاری ثابت کردینے پر مجرم کو سزا میں رعایت ملے گی۔قانون کو مزید سخت کرنے کی بجائے قانون کو شرع کے مطابق بنا کر، حدود اللہ کے ساتھ عملاً نافذ کیا جائے۔ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات

1. Crimes of Honor resolution، حوالہ بالا، شق نمبر3 (الف تا ط)

2. دیکھیے: گزٹ آف پاکستان، مجریہ 11 جنوری 2005ء، حصہ اوّل، ص 1 تا 6

3. لسان العرب وتاج العروس زیر مادہ،فتح الباری :9؍320

4. صحیح مسلم ، باب القضاء عدة المتوفی عنہا زوجہا، رقم 17

5. صحیح بخاری: 1044، باب الصدقۃ فی الکسوف

6. سنن نسائی، مستدرک حاکم؟؟؟

7. احياء علوم الدین: 3؍168

8. فتح الباری:9؍330

9. جامع ترمذی: 1421

10. مزید تفصیل کے لیے : الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ: 31؍341

11. Honour Killings in Pakistan and Compliance of Law از ملیحہ ضیا لاری، ص 31، عورت فاؤنڈیشن، لاہور اور Criminal Law (Amendment) Act 2004, Article 2 (ii)

12. صحيح بخاری: 6878

13. صحيح بخاری: 6243، باب زنا الجوارح دون الفرج

14. صحیح مسلم:14، باب انقضاء العدۃ المتوفی عنہا زوجہا

15. صحیح مسلم: 17

16. زاد المعاد فی ہدی خیر العباد: 5؍366

17. کسی واقعہ پر نبی کریمﷺ کا خاموش ہوجانا اور اس کو برقرار رکھنا بھی شرعی دلیل ہے، جسے تقریری حدیث کہتے ہیں۔حافظ ابن قیم ﷫اسی سے استدلال کررہے ہیں۔

18. الشرح الممتع على زاد المستقنع از ابن عثیمین :ج14... كتاب الجنايات

19. الجنایات في الفقه الإسلامي از شيخ حسن علی شاذلی :1؍85، مزید 170 تا 185

20. مراتب الإجماع از ابن حزم اندلسی: ص 137، 138

21. سنن ترمذی: 1489

22. مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ:ج34؍ص١٦٨،١٦٩

23. بی بی سی، اُردو سروس، لندن... مؤرخہ 19 نومبر 2014ء