تعمیر معاشرہ میں مسلمان معلّم کا کردار

اسلام میں علم کو مرکز ی مقام حاصل ہے ۔ اسلام جس طرح دین ہدایت ہے ، اسی طرح اس کو بجاطور پر ''دین علم'' بھی کہ اجا سکتا ہے ۔ آنحضور ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہو ئی تھی ۔اسی نے علم کی اہمیت کو واضح اور اجاگر کر دیا تھا ،ارشاہوا:

﴿اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَ‌أْ وَرَ‌بُّكَ الْأَكْرَ‌مُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾... سورةالعلق

''اپنے رب کے نام سے پڑھئے جس نے پیدا کیا ،جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا اور آپ کا رب معزز و محترم ہے جس نے انسان کو قلم سکھایا ۔اس نے وہ کچھ سکھایا جو انسان نہیں جانتا تھا ۔'' غور کیجئے اس پہلی وحی میں علم کے متعلق کتنی بنیادی باتوں کا تذکرہ ہوا :

(۱)پڑھنے کا حکم ،مسلمان ہونے کے لئے پڑھنا ضروری ہے ۔اسی بات کو نبی کریم ﷺنے یو ں بیان فرمایا :۔

طلب العلم الفریضه علی کل مسلم

''علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردوزن)پر فرض ہے''۔(مشکوةکتاب العلم)

(۲)تعلیم کی بنیاد معرفت ِالٰہی ہے ۔ یعنی اپنے رب کے نام سے اس کے حکم کے مطابق پڑھئے ۔کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور ہدایت دینے والا ہے ۔لٗہذا اس کے ساتھ تمہارا کوئی مضبوط ہونا لازمی ہے۔

(۳)انسان بذات خود بڑاا عاجز،بے بس اور ایک حقیر چیز سے پیدا ہونے والا ہے ۔یہ تو اس کا اللہ تعلی کے ساتھ تعلق اور اس کی ذات پر ایمان اور علم کا حصول ہے اس کو بلند مرتبے پر فائز کرتا ہے ۔

(۴)اللہ تعلی بڑا فیاض اور کریم ہے ۔اس کی شان کریمی کا عطیہ ہے کہ وہ خود انسان کو ان چیزوں کی علم عطا فرما رہا ہے جس سے انسان بالکل نا واقف تھا ۔

(۵)علم اور تعلیم و تتلّم کے ساتھ ساتھ ذرائع ِتعلیم یعنی قلم وغیرہ کی بھی اللہ تعلی نے تعریف و توصیف بیان فرمائی ۔بلکہ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعلی نے ''قلم ''کی قسم کھا کر پوری ایک سورت کا عنوان ''قلم ''بنا دیا ہے ۔اس طرح اسلام علمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا ۔کسی بھی تہذیب کے صحت مند ارتقااور نشو نما کے لئے جو عوامل ضرور ہیں ان میں تعلیم سر فہرست ہے ۔اسلام ہی کو یہ امتیاز حا صل ہے کہ جہاں دنیا کے دیگر نظاموں نے تعلیم کو زندگی کی اولین ضرورت قرار دیا ۔تعلیم ایک ہمہ گیرہے جس کا کام ہے وہ غلط اور صحیح،حق اور باطل ،مفید اور مضر نیک اور بد کو الگ الگ چھانت کر رکھ دے اور ہدایت اور گمراہی کو واضح کر دے ۔جس کے ذریعے نئی نسلوں کی اخلاقی ،ذہنی اور جسمانی نشونما بھی ہوتی رہے اور وہ اپنے عقائد ونظریات،تہذیب و ثقافت کی اقدار بھی تعلیم سے اخذ کرتے رہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم کی ذندگی کا انحصار ہی اس تعلیم پر ہے ۔ایک چینی کہاوت اس بات کی کتنی صحیح عکاسی کرتی ہے:''تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لئے ہے تو فصل کاشت کرو ۔اگر دس سال کے لئے ہے تو درخت لگائو،اگر دائمی ہے توافراد پیدا کرو۔''اور افراد کی تعمیر صرف تعلیم ہی سے ممکن ہے اور استاد یہی کام انجام دیتا ہے۔قرآن کریم میں رحمت للعالمین ﷺکی بعثت کے جو اغراض و مقصد بتائے گئے ہیں ۔اس میں تلاوتِ قرآن ،تعلیم ِکتاب و تعلیم حکمت اور تزکیہ ءنفس کا بالخصوص ذکر ہے۔

﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾... سورة الجمعة

''وہی ذات تو ہے جس نے ان پڑھوں کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث فرمایا جو ان کو قرآن پاک کی آیت پڑھ کر سناتا ہے انہیں گناہوں سے پاک کرتا ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے یقیناً اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ۔''نبی پاک ﷺ نے خود اپنے بارے میں ارشاد فرما یا :انما بعثت معلّما''بیشک مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔''چنانچہ اس معلمِ اعظمﷺنے سر زمین حجا ز کے صحرائی کلاس رام میں عرب کے جاہل اور اُجدْبدوئو کو خوف ِخدا ،راستی اور صدق وصفاکی تعلیم دی کہ وہ دیکھتے دیکھتے نہ صرف خود اقوام ِعالم کے رہبرو رہنمابن گئےبلکہ اپنے تدبرو تفکر سے علم و فنون کے بند خزانوں کے دروازے سارے ۔نوع انسان کےلئے کھول دیئے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

''العلماءورثةالانبیاء....... الخ''

علماءانبیاء نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ورثہ علم ہے جس نے علم حاصل کیا ۔اس نے انبیاء کے ورثہ سے وافر حصہ پالیا ۔پس تعلیم کا بنیادی مقصد ان پیغبرانہ فرائض کی بجا آوری ہے یعنی انسانوں کو اس مقصداور مشن کی تعلیم دینا ،اس کو صحیح الفکر بنا نا ،ان میں اپنے دین کا حقیقی اور سچا شعور پیدا کرنا اور انہیں مکمل وبا شعور مسلمان،محب ّوطن شہری بنانا ہے اور ہے دور حاضری کی ضرورت پوری کرنے کےلئے دور حاضر کرنا سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے ماہر تیار کرنا ۔

تعلیم کو با مقصد ہونا چاہئے ۔

واضح مقصد اور نصب العلین کی حرارت ہی کسی منصوبہ میں جان ڈال سکتی ہے اور جذبوں کو زبان عطا کرسکتی ہے ۔ تعلیم بذات خود منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اما غزالی اپنی شہرہ آفاق کتاب ''احیاءالعلوم'' میں لکھتے ہیں :''تعلیم کا مقصد یہی نہیں ہونا چاہیے کہ نو جوان ذہن کے علم کی پیاس بجھادے ۔بلکہ اس کے ساتھ اس کے اخلاق و کردار اور اجتماعی زندگی کے اوصاف نکھارنے کا احساس بھی پیدا کرنا چاہئے ۔ہمارے سامنے انسانی زندگی کا مثالی نم،ونہ رسول اکرم ﷺ کی مبارک ذات ہےجس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔)

﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾... سورةالاحزاب

(بیشک تمہارے لئے نبی پاکﷺ کی ذات بہترین نمونہ مجود ہے)اور آپﷺ چونکہ معلم اعظم تھے۔لٰہذا آج کے مطعین کےلئےآپﷺکی ذات ارفع کی پیروی کرنا لازمی ہے۔ پھر اسلام ،انسانی زندگی کو مذہبی اور غیر مذہبی حصوں میں تقسیم کرتا اسی طرح اسلامی نظامِ تعلیم کو دینی اور لاوینی شعبوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ۔اسلام نظام تعلیم کا مقصد وہ مکمل تعلیم ہے جو ایک طرف خود کائنات اور کا ئنات میں انسان کے مقام کے خالق کائنات اور انسان کے درمیان تعلق کی وضاحت کرے تو دوسری طرف اس زندگی کے بعد آنے والی ابدی زندگی کے لئے بھی تیار کرے''۔

اسلامی معاشرہ میں استاد کی قدرو منزلت ۔

فرمان نبوی ہے کہ

''خیرکم من تعلم القرآن و علمه''

''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے پھر (آگے دوسروں کو سکھائے۔''

''رشک صرف دو آدمیوں پر جائز ہے ایک وہ جس نے مال دیا پھر اسے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی تو فیق بخشی اور دوسرے وہ جسے اللہ نے علم و حکمت عطا فرمائی پھر وہ اس کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتا اور ان کو حکمت کی تعلیم دیتا ہے ''

من دلَّ علی خیر فله مثل اجر فاعله(مسلم)

''جس نے (دوسروں کو )نیکی کی کوئی بات بتائی تو اس پر عمل کر نے والے کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا''جوو شخص طلب علم کے گھرسے نکلتا ہے۔اسے اللہ تعلی جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ۔''

طالب علم کی رضا کے لئے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔آسمان و زمین کی ہر مخلوق عالم کے لئے اللہ سے بخشش کرتی ہے۔۔۔۔۔۔

''عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو اتنی فضیلت حا صل ہے جتنی چودھویں رات کے چاند کو سارے ستاروں پر''

عالم کو ایک عبادت گزار کے مقابلے میں وہی فضیلت حاسل ہے جو مجھے یعنی نبی پاک ﷺکو، تمہارے ادنیٰ صحابی پر ،بیشک اللہ تعلی اس پر رحمت نازل کرتا ہے۔فرشتے اور آسمان و زمین کی ہر مخلوق حتیٰ کہ اپنے بلوں کے اندر چونٹیاں اور پانی کے اندر مچھلیاں بھی اس کئ لئے دعائے خیر کرتے ہیں ۔پھر آپﷺ نے یہ آیت قرآن ارشاد فرمائی: ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ یعنی اللہ سے علماءہی صحیح طور پر ڈرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مشہور مقول ہے کہ :تمہارے باپ تین ہیں : تمہارا باپ جس نے جنا ،دوسرا جس نے تمہیں بیٹی دی ،اور تیسرا جس نے تمہیں علم سکھا یا ۔نبی کریم ﷺکا فرما ن ہے :''اللہ تعلی اس آدمی کو سر سبز و شاداب رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی پھر آگے لوگوں تک پہنچائی ۔''استاد کا کردار یہ معلم کی فضیلت اور تقدس محض اس بنا پر ہے کہ وہ کار ِنبوی کی وراثت اور تسلسل کا ذمہ دار ہے۔آنحضور ﷺ آخری پیغمبر ہیں ۔آپ ﷺ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا ۔اس لئے آپﷺکے بعد یہ مشن اساتذہ کے کندھوں پر ہے کہ وہ امت کی بہترین انداز میں رہنمائی کریں اور انہیں راہ حق سے نہ بھٹکنے دیں ۔اس عظیم مقام و مرتبہ کی عظمت جتنی مسرت بخش ہے،اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی نازک اور اہم ہے ۔معلمین کرام اگر اپنی ذمہ داریوں کی تعین اس پہلو سے کریں اور اس نقطئہ نظر سے اپنے فرائض منصبی اور اہمیت ِکارپرغور کریں تو اضطراب کے بے شمار پہلوان کے سامنے آئیں گے ۔معلم بچوں کی تربیت ،معاشرے کی رہنمائی اور امت مسلمہ کی تعمیروترقی کا ذمہ داری پر فائز ہو ا کرتے تھے ۔ لٰہذا اس ذمہ داری کی بکمال و تما م انجام وہی معلم کو محترم اور معتبر بناتی ہے اور اپنے فرائض میں کوتاہی ،غفلت اور حلیہ جوئی اسے اللہ کے نزدیک ناراضی کا باعث اور عوام میں بے آبرو دبے وُقعت بناتی ہے۔مقامِ غور ہے کہ استاد جن جن برگزیدہ ہستیوں کا وارث ٹھہرایا گیا ہے وہ کتنی بے غرض تھیں وہ تو پتھر کہا کر بھی اپنے فرائض ادا کیا کتی تھیں ۔گالیا سُن کر بھی اپنی قوم کے لئے 'ہدایت کے لئے دعائے خیر کیا کرتی تھیں ۔انتہائی مشکل اور نا مُساعد حالات میں بھی کسی دنیاوی منفعت اور جاہ طلبی کے بغیر پوری جان ماری سے معاشرے کی خدمت جاری رکھی ،اسے جہالت لے ظلمتوں سے نکالنے کی سعی کی اور ان کو اپنے رب کی فرما بردارو مطیع بندہ بنے کا راستہ بتایا ۔آج کے معلم یہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ ہم جیسے کمزور انسان اتنے مثالی کردار کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں لیکن تھوڑا سا غور کرنے کے بعد یہ بات بے وزن محسوس ہونے لگتی ہے ۔کیونکہ معلم کا عظیم منصب ہم نے خود نہیں چُنا تھا ،بلکہ اللہ نے ہمیں مسلمان بننے کی سعادت بخشی پھر اس کے بعدمعلم بننے کی سعادت بھی اسی کی عطا کردہ ہے ۔ہمیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئےکہ اس نے خود اپنی نوازش سے مقام عطا کیا ۔نہ صرف یہ مقام دیا بلکہ ساتھ ہی ہمارے نان نفقہ کا بندوبست بھی اسی ذمہ داری کے ساتھ وابستہ کردیا ۔معلم تو قوم کا مُربیّ ہے،وہ ان کو تعلیم دیتا ہے پھر ان کی تربیت کرتا ہے۔پھر معلم قوم کا مُزکیّ ہے کیونکہ ان کا تزکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں گناہوں سے پاک صاف کرتا ہے ۔اس معلم کے مزکی اور عربی منصب پر فائز ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ معلمین ِکرام پوری دلسوزی سے ، جا نفسانی اور خلوصِ دل سے اپنے فرائض انجام دیں ،مسلم امت کی تعمیر کےلئے نسلِ نَو کی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھار کھیں ۔انہیں اسلامی نظریہ دیں ۔نظرییہ قوم کو روحانی قوت عطا کرتا ہے نظر یہ کے بغیر قوم بے تربیت افراد کا مجموعہ بن جاتی ہے۔یہ جذبہ ایمانی تو ہے جو انسان کو بے تیغ بھی لڑنے کےلئےآمادہ کردیتا ہے،جنگیں صرف سازو سامان سے نہیں جیتی جا سکتیں ۔مادی فائدوں ،دنیاوی لزتوں کے لالچ کے بغیر اپنے فرائض پوری تندہی سے انجام دیں ۔تاکہ روزِقیامت اللہ کے ہاں سرخروہوں،باقی رہ گئی بات دنیاوی حرص و ہَوَس کی تو اس کی کوئی حد نہیں ہوتی اور صبرو قناعت سے بڑھ کر کوئی نومت نہیں ہے ۔اساتذہ کو تو نہ صرف خودصبر و قناعت اختیار کرنا ہے بلکہ اپنے شاگردوں کو اس کی تعلیم دینا اور اس کی تربیت بھی کرنا ہے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔''جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا پھر ان کےلئے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جتنی وہ اپنی ذات کے لئے کرتا ہے ۔تو اللہ تعلی اس منہ کہ بل جہنم میں ڈال دے گا ''۔تو جومعلمین و معلمات اپنی ذمہ داریاں (جو نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میںاساتذہ پر عائد ہوتی ہیں )اُسی اضطراب و احساس کے ساتھ پھری کر رہے ہیں ،جس اضطراب اور فکر سے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں ،بے شک اللہ کے بھی سرخرو اور بندوں میں بھی محترم اور معزز ہیں ۔اور اگر اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کرتے ہیں تو روزِ قیامت اللہ کو کیا جواب دیں گے جبکہ وہاں حلات کی ناسازگاری ،ماد ی سہولتوں کی کمیابی اور ملازمتی آسائٹوںکی نایابی ،قوم کی عدم توجہی ،طلبہ کی عدم دلچسپی میں سے کوئی بھی عذر کام نہ آسکے گا۔جو اساتذہ اپنے مقام و منصب کو سمجہ کر بطریقِ احسن اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو وہ تاریخ کے اوراق میں اپنا ذکر ثبت کر جاتے ہیں ۔ان کے شاگرد ان سے ابدی رشتہ جوڑلیتے ہیں ،ان کی شاگردی پر تادمِ مرگ فخر کرتے رہتے ہیں ۔ان کی تیار کردہ ٹیم دنیا کے لئے حیات بخش انقلاب کی نوید بنتی ہے اور رسوم و رواج کی زنجیروں ،جہالت کی تاریکوں کو دور کرکے اپنی پوری قو م اور ملت کے لئے رُشد و ہدیت کا باعث ثابت ہوتی ہے ۔امام احمد بن حنبل ،امام ابو حنیفہ ،امام غزالی ،امام ابن تیمیہ جیسے بڑے بڑے اساتذہ کے ذکر خیر کے بغیر ہماری تاریخوں ادھوری رہ جاتی ہے۔

مسلمان معلمین کی ذمہ داریاں

مسلمان معلم پر دوہری ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں ایک تو وہ جو محض معلم ہونے کے ناطے ان کے لئے ضروری ہے ۔دوم وہ جو مسلما ن معلم ہونے کی بنا پر ہیں ۔ بنیا دی طور پر ہر معلم معمارِقوم ہوتا ہے۔وہی ہر وقت نسلِ نو کی تربیت کرتا رہتا ہے اور ان کو مختلف علم وفنون پڑھا تا رہتا ہے،ذاتی نمونہ و کردار سے ان کی تربیت کرتا رہتا ہے۔حتیٰ کہ تمدن کے تمام شعبوں کوسنبھال نے والےمردان ِ کار استا د ہی کی تعلیم و تربیت کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔چاہئے وہ مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہوں یا عدلیہ کو لانے والے ،وہ وکیل ہوں یا انجینئر،ڈاکٹرہوں یا پروفیسر ۔وہ فوج میں ہویا پولیس میں ۔بہر حال ہر کوئی زندگی کے جس شعبہ میں کام کررہا ہے وہ اپنے استاد کی تربیت کا عکس ہوتا ہے۔ لٰہذا استاد کا بنیادی فریضہ انسان سازی میں اگرچہ نصابِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کی بھی گہرا اثر ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑہھ کر اس کا اہم ستون استاد ہی ہے وہ پورے نظام ِتعلیم کا مرکزو محور ہے۔نصاب تعلیم اسی نے پڑھانا ہے اس لئے جس طرح جاہےپڑھائے ۔لٰہذا اگر استاد اپنی اہمیت و ذمہ داری محسوس کرلے اگر اس کو اپنے مقام سے آگہی ہو اگر اس کو ااحساس ہو کہ وہ اول و آخر مسلمان ہے اور اس نے اسلامی انقلاب کےلئے نسل نو کو تیار کرنا ہے ۔تو ہر قسم کے حلات میں بھی آنےوالی نسل نو کی بے پناہ قوتوں کو اسلام کے لئے مسخر کر سکتا ہے۔ع

آگاہ اپنی حقیقت سے ہو اے دمقان ذرا

کہ دانہ بھی تو کھیتی بھی تو حاصل بھی تو

استاد کےلئے چار میدانِ عمل ۔

چار عملی میدان ہیں جہاں استاد کو اپنا مقام پہچاننا اور اس کے مطابق کام کرنا ہے:

(۱)اپنی ذات کی تعمیر

(۲)علم میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا

(۳)شاگردی کی تعمیرسیرت

(۴)اپنا تعلیمی ادارہ ۔

اپنی ذات کی تعمیر :اسلامی نظام تعلیم کا پہلا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل میں اپنے خالق کی عظمت جاگزیں ہو ۔اللہ پر اس کا ایمان مضبوط ہو ۔احکام ِالہٰی کے سامنے وہ تابع ہو نبی اکرم ﷺ کی شریعت کا پابند ہو ۔آخرت کی جو ابدی کا احساس ہروقت اس کو غلط کام سے روکے ۔دوسرے لوگوں کے ساتھ وہ عدل کا برتائو کرے۔ اعلٰی اخلاقی اقدار کا پابند ہو ۔خوش اخلاق اور نرم خو ہو۔علم کو عبادت سمجھ کر حصل کرے نہ کہ معاش کی خاطر ۔علم تو تعمیر سیرت کے لئے ہے۔خود شناسی کے لئے ہے۔ روح کی پاکیزگی ،اخلاق کی بلند ی اور کردار کی تعمیر کے لئے ہے وسیلہ معاشی او فکر معاشی کے لئے ہمارے تیرہ صد سالہ دور ماضی میں تعلیم ہمیشہ مُفت رہی اور کبھی بھی طلبہ سے فیس وصل نہ کی گئی ۔ حکومت خود تعلیم کا سارا بندوبست کرتی تھی ۔تعلیم ایک مشن ہے:چنانچہ ایک حقیقی استاد کوئی پیشہ ورکتابیں پڑھانے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ ہروقت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اپنے مضمون کے بارے میں جدید ترین معلومات حاصل کرتا رہتا ہے وہ ایک مشنری ہوتا ہے ۔ محض روزی کمانے کے لئے اور بھی بہت سے کام کئے جا سکتے ہیں ،اسی طرح استا د بھی بن گئے ،مگر حقیقی استاد کا معاملہ بالکل اور ہوتا ہے۔حقیقی استاد ہی ہے جو اپنی زندگی کا مشن سمجھتا ہو کہ جو علم ہم کو اگلوں سے پہنچا ہے ،جو نظریات تہذیب ، اعقائد ،انکار ،عا دات ،خصائل جو کچھ بھی ہمیں اپنے اسلاف سے ملا ہے۔ اس کو ہم صحیح شکل میں عمدگی اور پوری دیانت داری کے ساتھاگلی نسل تک پہنچا دیں ۔تو ایسا شخص واقعی استا د ہے اور اگر کوئی اس جذبے سے کام نہیں ہے۔پھر ایک معلم اپنی رفتار ،گفتار ،غرض ہر بات میں معلم ہوتا ہے ۔اس کی ایک ایک چیز شاگردوں پر اثر ڈالتی ہے ۔وہ صرف کتاب نہیں پڑھتے بلکہ وہ خود اس کی بھی مطالعہ کرتے ہیٍں ۔جس وقت وہ کلاس میں داخل ہوتا ہے جب پڑھا ھوتا ہے ،پڑھانے کے دوران اس کی دلچسپی یا بیزاری ہر بارت پورے وقت میں طلبہ پر اثر انداز ہوتی ہے پھر وہ کلاس سے باہر ،بازار میں ،اپنے گھریلو معاملات میں ،ہر وقت طلبہ کے لئے نمو نہ ہوتا ہے گالی دینے والا استاد زبان سے گالی دینے کو تو نہ کہے مگر عمل سے وہ گالی دے رہا ہوتا ہے ۔ایک بد مزاج استاد جو ذرا سی بات پر تو مشتعل ہو جائے لیکن زبان سے طلبہ کو بد مزاج بننے کی تعلیم دے مگر عمل سے وہ طالب علم کو یہی سبق دے رہا ہوتا ہے کہ جو بات تمہاری مرضی کے برعکس ہو فوراً بھڑک اٹھو اور جو شخص تمہاری مرضی کے خلاف کام کرے اس پر فوراً برس پڑو لہٰذا یہ دیکھنا استاد کا کام ہے وہ معاشرے کو کس قسم کے انسان دے رہا ہے اور کس نوع کے کردار تعمیر کر رہا ہے ۔

شاگردوں کی تعمیر سیرت :

نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے:الاکلکم راع و کلکم مسئول عن رعیته''سنو تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پو چھا جائے گا''۔چنانچہ ایک حقیقی معلم اپنے شاگردوں سے شفقت و محبت اور نرمی سے پیش آتا ہے۔ وہ ان کو دبکانے کے بجائے اپنی ذات سے مانوس کرتا ہے ۔ جو سوال وہ کریں اس کا جواب وہ شفکت سے دیتا ہے ۔ کلاس روم میں وقت پر پہنچتا ہے ۔وقت پورا ہونے پر کلاس چھوڑتا ہے اور خواہش مند بچوں کو کلاس کے علاوہ بھی وقت دیتا ہے ۔ان کی تعمیر سیرت کی بہت فکر کرتا ہے ۔ ان کے دلوں میں ایمان خوف خدا اور اتباع شریعت ،آخرت کی جو ابدہی کا احساس اجاگر کرنے کی کو شش کرتا ہے ۔ان کے ذہنوں سے تمام آلودگیوں کو دور کرنے اور دین کے بارے میں اغیار کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات دور کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتا ہے ان میں حمیت اور جذبہ جہاد بیدار کرتا ہے ۔اپنے طلبہ کی سیرت سازی کی خاطر خود بھی پابند دین و شریعت کے عملی نمونہ پیش کرتا ہے ۔پھر ایک اچھا استاد اپنے طالب علموں کے دلوں میں بھی مقصد اور نصب العین کی لگن پیدا کرتا ہے ان کو بیکار مشاغل سے اجتناب کرنے اور دین اسلام کو سر بلند کرنے کی لگن سے سر شار کرتا ہے۔وہ ان کو دنیا سے بے نیازی اور مادیت پرستی سے اجتناب کی تلقین بھی کرتا ہے کیونکہ جو علم صرف تلاشِ معاشی اور تن آسانی کا ذریعہ بن جائے ،وہ آستین کا سانپ ہے او رجو علم دل و نگاہ کو پاک صاف کرے وہی :اصلی علم ہے ۔پھر ایک اچھے معلم کے لئے ضروری ہے کہاپنے شاگردوں کو محنت کا عادی بنائے ۔قانون قدرت کے تحت جھولی اسی کسان کو بھرتی ہے جو اپنا خو ن پسینہ ایک کردے ۔آج کاہلی ،سستی ،ضیاع وقت اور کام کو ٹالنے کی عادت ہماری امتیازی خصوصیت بن چکی ہے ۔نتحیتاًتعلیم و تتلم کا معیاربہت گر چکا ہے چنانچہ شاگردوں کے دلوں میں محنت کی عظمت راسخ کرنا اور جانفشانی سے کام کرنے کی عادت ڈالنا استاد کے لئے بہت ضروری ہے تاکہ وہ نِت نئے تجربات کرے اور قدرت کی نعمتوں کو انسان کی فلاح و بہبو کے لےاستعمال کرنے میں سب سے آگے آگے ہو ۔کسی بھی قوم کے لئے قومی اتحاد و یکجہتی اولین ترجیع ہوتی ہے ۔ اورہمارے پاس تو اسلامی عقائد و فنکار ہیں ۔ہمارا اپنا نظریہ ہے جو اس یکجہتی کی بنیاد بن سکتا ہے اور مختلف ثقافتوں اور ززبانوں کو متحد رکھ سکتا ہے ۔

چند برس پہلے کا قصہ ہے کہ مختلف لسانی و صوبائی تعّصّبات کو ہندو اساتذہ کےہوا دے کر ہماری یکجہتی اور قوم و حدت کو بہت نقصان پہنچایا بلکہ آدھا پاکستان بھی گنوادیا اور باقی پاکستان میں بھی اپنی تعصبات کازہر گھولا جا رہا ہے ۔تو ایک اچھے معلم کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو ان صوبائی ولسانی تعّصبات سے نکال کر ان کے ذہنوں کو اسلامی اخوت سے آشنا کرے ۔نظریہ پاکستان اور جذبہ حبُ الوطنی کا درس دے ، پھر اچھا استاد وہ ہے جو خود تخلیقی قوت رکھتا ہو اور آگے یہی تخلیقی قوت اپنے شگردوں کو منتقل کرے ۔اک تخلیقی ذہن رکھنے والا استاد اسباب و و سائل نہ ہونے کے باوجود مسلسل محنت سے اپنے کام میں لگا رہتا ہے وہ اپنے شاگردوں میں بھی یہ عادت راسخ کر دیتا ہے۔

استاد اور تعلیم گاہ :

ایک مسلمان معلم اپنے تعلیمی ادارے میں پوری کوشش سے اپنا پورا وزن اسلام کےحق میں ڈالتا ہے ۔یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ اسلام دشمن یا سلام بیزار لوگ ہر موقع پر یکجا ہو جاتے ہیں ۔ مگر اسلام پسند لوگ اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔اس لئے مسلمان استاد کا فرض ہے کہ اپنے تعلیمی ادارے میں اپنے طلبہ کے درمیان اسلامی قدروں کے نفاذکےلئے ایک مضبوط ستون بن کر کھڑا ہو جائے ۔وہ برحال پہلے اللہ کا بندہ ہے او ر پھر گورمنت کا ملازم ۔لازمی ہے کہ ہر حالت میں ہر مقام پر:

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ... ﴿٢﴾... سورة المائدة

(نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ زیادتی کے کاموں میں باہم تعاون نہ کرنا)کے حکم قرآنی کی تعمیلکرتے ہوئے خیر کے موقع پر سب سے آگے آگے ہو اور اس کی ووٹ لازماً اسلامی کے حق میں جائے اور دینداروں کی تقویت کا باعث بنے۔ یہی عصر حاضر میں معلمین کےلئے چیلنج ہیں جن کو بحُسن و خوبی مکمل کرکے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔آج کے دور میں جنگیں میدانِ جنگ میں کم لڑی جاتی ہیں اور فکر و نظریا تی محاذ پرزیدہ تو معلمین ہیں جو قوم کو اعلیٰ قیادت مہیا کرتے ہیں ۔ ان کو بلند مقصدِحیات کا شعور دیتے ہیں اور ان کے لئے فکری و نظریاتی جہت مقرر کرتے ہیں ۔اس طرح ان کو بامِ ان کو بامِ عروج پر پہنچاتے ہیں ۔لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام ِ تعلیم نے مسلمان کو نہ صرف ان کے شاندار ماضی سے بیگانہ کیا آندہ کے لئے بھی ان کو دین بیزاراور تہذیب ِ مغرب کا دلدار بنادیا ۔پھر اس فرنگبت زدہ نظام تعلیم کو نتیجے میں جو قائدین مسلمانوں کو میسر آئےوہ سب اسلام سے دور ،اپنے دین سے تفور،اہل مغرب کے مفا دات کے پجاری اور ان سے بڑھ کر ان کے وفارار ثناخواں تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ بیشتر مسلمان ممالک جسمانی طور پر آزاد ہونے کے باوجود ذہنی طور پر امریکہ و بر طانیہ کے تسلط سے آزادنہ ہو سکے ۔بلکہ مغرب کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ۔نہ صرف قائدین بلکہ تقریباً تمام جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی مغربی طور اطوار کا دلدادہ بن گیا او راپنی اقدار و روایات کو رجعت پسند اور دقیانوسی قرار دینے لگا ۔مادیت کی ہمارے معاشرے میں ایک دوڑ شروع ہوگئی ۔اپنے فرائض سے پہلو تہی اور حقوق کے حصول کے لئے تشدد و تخریب کاری کا عنصر بڑھنے لگا ۔یہ تعلیمی ادارے جن کو مادرِ علمی کہا جاتا ہے ،جہا ں سے علم و حکمت کے اُجالے پھوٹنا تھے ،آج یہا ں عصبیت پرستی اور کلاشن کوف کلچر کا راج اخلاق اقتدار تباہ ہو رہی ہیں اور تعلیمی معیار زوال ی انتہا پر ہے ۔آج کوئی حولہ مئوثر نہیں آتا ۔دین کے نام پر پکا ریئےیا مشرقی تہذیب و اقتدار کی دہائیدیجئے۔دلوں میں ندامت کا کوئی احساس نہیں جاگتا ۔بزرگوں کے حولے سے بات ''جزیشن گیپ''کے مغربی طرزفکر نے غیر مئو ثر بنا کر رکھ دی ہے۔اسی کی زد میں آکر خود اساتذہ کی تاقیر اور احترام بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔اس صورت حال کے پیدا ہونے کے یقیناً بہت سے عوامل ہیں جس میں نو جوان نسل کی اپنی کو تاہی بھی ہے، والدین کی تغافل بھی اور نصاب تعلیم کی خامیا ں بھی ہیں مگر قومی زندگی کےذمہ دار منصب پر فاےئز ہونے کی وجہ سے اساتذہ کو بھی اپنا جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ اس قومی بحر ان کے وجود میں آنے میں اساتذہ کی ذمہ داری کہا تک ہے ۔اس لئے کہ زندہ قومو ں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ بقول ِ اقبال

صورت شمشیر ہےدست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر ہر زماں اپنے عمل کا احتساب

اگر استا د اپنی کو تاہیوں کا تھو ڑا سا اوراک بھی کر لیں تو یہ احساس ہی ترقی کی جانب سفر پہلا قدم ہو گا ۔ مغربی مادہ پرست معاشرہ کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ وہاں ہر چیز کو پیسے کے ترازو میں تولا جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے یہی رحجا ن ہماری شعبہ تعلیم و تدریس میں بھی گھس آیا ہے ۔اب تدریس ایک منصب نہیں رہا ، بلکہ بڑھئی اور موچی کی طرح کی ایک پیشہ بن گیا ہے ۔ہماری (B.A ۔(M.A ایم ۔اے ۔اور بی۔اے کی ڈگریاں گریڈ 15،16 اور 17کی ملازمت کے حصول کی ذریعہ بن کر وہ گئی ہیں ۔اگر پڑھی لکھی نسل کو حسبِ منشا ملازمت نہیں ملتی تو وہ سکولوں میں تدریس کا پیشہ اپنا لیتے ہیں۔ پھر انہیں اپنی تذلیل کا احساس، ناقدری کا احساس، محرومی کا احساس، اور ضروریا تِ زندگی کے لئے آمدنی کے ناکافی ہونے کا احساس اتنا دل برداشتی ہوتا ہے کے اسے تدریس سے، تعلیمی ادارے سے، اور اپنے طالب علموں سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ اس کی کار گرد گی پست ترین ہو کر رہ جاتی ہے۔ غور فرمایئے کہ روزانہ پانچ گھنٹے اس لا پرواہ، دل برداشتہ اور تندخو استاد کے ساتھ گزار کر بچوں کی شخصیت کس سانچےمیں ڈھلے گی۔ پھر جب یہی بچے گستاخی سے ہمیں آگے جواب دیتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ جب ہم شاگرد تھے تو ہم ایسے گستاخ اور بد زبان تو نہ تھے۔ واقعی ٹھیک! مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہما رے استا د بھی تو ہمارے جیسے نہ تھے۔ ہمارے استاد تو شوقِ علم اور ذوق تحقیق کم ہوتا گیا ہم زوال پذیر ہوتے گئے۔ سکولوں کالجوں کی بات جانے دیں، خود ہماری یونیورسٹی کے اساتذہ بھی کی عملی لیاقت کو چلانے کے عادی ہوتے ہیں۔ پھر مزید ستم یہ کہ ہماری اساتذہ کی علمی لیاقت کو جلانے کے لئے دوران سیشن یا طویل تعطیلات گرما کے دوران کوئی تعلیمی لیکچر، کسی سیمینا ر یا ورکشاپ،کسی ریفریشر کورس کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ الا ماشاءاللہ،نہ حکومتی سطح پر نہ تعلیمی اداروں کی جانب سے نہ اساتذہ تنظیموں کی طرف سے۔ محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم و تحقیق کا میدان ہم نے مغربی اقوام کے لئے چھوڑدیا ہے آج ہمارا اچھے سے اچھا استاد وہ ہے جوذاتی زندگی میں عباد ت گزار اور دیانت دار ہے مگر منصبِ تدریسی کے تقاضے پورے کرنے والے، اپنے علم و تحقیق کو مسلسل جِلا دیتے رہنے والے اساتذہ بالکل معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ نو جوان نسل کی بے مقصد زندگی، نظم و ضبط سے عاری اور بے سلیقہ طور پر تنقید کرنا تو اساتذہ کا روزمرہ کا موضوع ہے۔ مگر ہم لوگ اس لحاظ سے اپنا جائزہ بہت کم لیتے ہیں کہ ہمارے کمرے جماعت، ہمارے تعلیمی شیڈول، ہمارے تعلیمی ادارے اور خود ہمارا طرز عمل تو انہیں نظم و ضبط کے بجائے بدنظمی اور خود غرضی کی تعلیم دینا ہے۔ ٹیوشن ،گائیڈبکس استعمال کرنے کی ترغیب، ڈیوٹی کے اوقات میں ذاتی کام، سرکاری ملکیت اشیاء کو ذاتی استعمال میں لانا، کلاسوں میں پانچ دس منٹ کی تاخیر سے جانا، جلدی کلاسیںچھوڑ دینا ،داخلوں امتحانات اور نتائج کی تیاری میں اصول کے خلاف کام کرنا یہ سارے عملی مظاہر جب طلباء کے سامنے ہوں اور اس استاد کے ہاتوں وہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھیں جس کو وہ علم و تقدس کے اعلی معیار پر فائز سمجھتے ہوں تو یہ سب کچھ پھر اُن کے اپنے لئے کیوں یہ جائز اورمستند ہوگا؟

خواتین اساتذہ میں یہی مسائل کچھ اور طرح سے بھی رنگ دکھاتے اور مسائل پیدا کرتے ہیں کہ اساتذہ کے اس اخلاقی و عملی طرز عمل کے ساتھ فیشن، اسراف، مغرب زدگی، بے حیائی او ر عریانی کا ایک جو از طالبات کے پاس ہے اور وہ ہے خود اساتذہ کے خوبصورت میچنگ والے لباس، جوتے ہینڈ بیگ، بلکہ ہم اگر کسی حد تک رُکے ہوئے ہیں تو خود اس کی تکمیل ہماری اس فیشن پرستی نے کردی ہے اب اگر بچے اسلامی شعائر سے نالاں ہیں، تو کیا ہم نے اپنی شخصیت سے اور اپنے رویے سے یہ چیز یں ان کے لئے پسند یدہ بنا نے کی کو شش کی بلکہ ہمارا طرزعمل تو شاگردوں کی روحانی اور اخلاقی موت کے مترادف ہے۔ یقین کیجئے کہ اساتذہ کی اخلاقی شعور سے بے نیاز ی نے اگلی نسل کی بد دیانت ، خائن ،لالچی بنا کر معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ۔ علمی سے بے پر وا ہی نے نقل ، سفارش اور اثر و سوخ سے اسناد حاصل کرنے والے نا لائق ڈاکٹر ،انجینئر ،وکیل ،جج،استاد اور سائنسدان ان معاشرے کو دیئے جن کی بے بصیرتی اور پیشہ ورانہ مہا رت میں کوتاہی نے معاشرہ میںہر ذمہ دارانہ ڈیوڈٹی کا معیا ر گرادیا ۔اور پھر اساتذہ کی نظریا تی شعور سےمحرومی ،اگلی نسل کو جب حبُّ الوطنی ،دین اسلام سےمحبت مضبوت ایمان اور جذبہ نہ دے سکی تو انہوں نے پھر ہر نظریے ،ہر پکار اور نعرے کو آنکھیں بند کر کے اپنانا شروع کردیا بغیر دیکھے کہ اس سے ہمارا ایمان خطرے میں نہیں پڑتا ،یہ وطن کی بنیادوں کیوتو نہیں مسمار کر رہا ۔چنانچہ آج کی نسل نہ مسلمان ہے اور نہ محّب وطن بلکہ وہ پہلے سندھی ،بلوچی اور پنجابی اور سرحدی بنی۔بعد میں کچھ اذر۔۔۔۔بقول ِ اقبال

گلا تو گھونٹ دیا اہل ِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئےصدا لا الہ الا اللہ

اگر استاد اپنے پیشے کے تقدس اور اس کی اہمیت پر غور کریں کہ بڑے بڑے قومی رہنمائوں سے لے کر معمولی کلر اور پرائمری پاس تاجر سب ہی اس کے زیر تربیت رہ کر آتے ہیں اور ان میں سے ہر کسی کا بگاڑ اساتذہ کے کھاتے میں آتا ہےتو یہ بات ان کے اپنے طرز عمل میں اصلاح کی ضرورت اور اہمیت پر انہیں خود ہی آمادہ کر سکتی ہے ۔ مزید برآں جب یہ احساس جا گزیں ہو جائے کہ یہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں شاگرد ہمارے پاس امانت ہیں ۔اور ہم اس امانت کے لئے خدا کے ہاں جوابدہ ہیں اور یہ روز قیامت ہمارے لئے سر خرو ئی یا سیا ہ روئی کا سبب اور میزان بنیں گے تو پھر ہم کو ہر گھڑی طالب علم کے حقوق ادا کرنے کی فکر ہو گی ادر اپنے منصب کا یہ شعور ہما ری دین و دنیا سنواردے گا ۔ یاد رکھئے اگر کسی استا د کا اپنے طلبہ پر کوئی اثر نہیں ،وہ ان کو غنڈہ گردی اور ایجی ٹیشن سے نہیں روک سکتا ۔تو وہ بحیثیت ِ استاد با لکل نا کارہ ہے وہ اپنے ادارے یہ اپنے معا شرے کے لئے کسی قدرو قیمت کا حامل نہیں ۔اساتذہ تو اپنے طلباءکے لئے قابل ِ بھروسہ مشیر و رہنماہوتے ہیں ۔اچھے قابل استاد آج بھی طلبہ کے درمیان عزت و تکریم و احترام کی نگاہ سے دیکھےجاتے ہیں ۔اگر نئی نسل نظم و ضبط کی پابندی اور اپنے نظریہ ایمانی سے سر شار اسلام کی معاشرتی و اخلاقی اقدار پر یقین رکھتی ہو یقیناً اعتراف کیا جائے گا کہ ان کے اساتذہ بہت اچھے تھے ۔جنہوں نے جنہوں نے ان کو صحیح تعلیم وتربیت اور رہنمائی فراہم کی ہے ۔ اس کے بر عکس اگر طلباء سر کشی ، کج روی ت،توڑپھوڑ، ہنگامہ آرائی کا مظاہرہ کریں ،منشیات اور کلاشن کوف کی غلط عادات بڑھتی جائیںتو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ان کی تربیت غلط ہاتوں میں ہوئی ہے۔

احیائے اسلام اور معلم

آج کا دور احیائے اسلام کا دور ہے ۔ افغانستان میں روسی فوجیوں کی آمد (۱۹۷۹ ء)پر افغانستان میں جو علم ِ جہاد بلند ہوا ،اس کی زمامِ کار کابل یونیورسٹی کے پانچ سر کردہ مسلمان غیور اساتذہ کے ہاتھ میں تھی ان جذبہ جہاد سے معمور ایمانی قوت سے سر شار اساتذہ نے پوری افغان کو اپنی قلیل تعداد اور کم مائیگی و تہی دامنی کے باوجود روس کے خلاف جہاد پر آمادہ کیا اور بلا خر آج کی دنیا کا یہ سب سے بڑا معجزہ رونما ہوا کہ روس جیسی سپر پاور کو افغان جیسی چھوٹی قوت نے ناکوں چنے چبوا کر افغانستان سے نکل جانے پر مجبور کردیا ان بہادر غیور افغانوں کی مثال سامنے رکھتےہوئے فلسطین میں مسجدوں کے قائدین اور معلمین نے تحریک ِ انتقاضہ کا آغاز کیا اور اپنی غلیلوں میں چھوٹے چھوٹے کنکر رکھ کو اسرائیلی فوجیوں کو سراسیمہ و پریشان کر کے رکھ دیا ۔آج یہ تحریک انتقاضہ کا برابر آگے بڑھ رہی ہے، اسرائیل لیےچیلنج کی حثیت اختیار کرتی جارہی ہے۔اسی طرح روس کے اندر وسط ِ ایشامیں مسلمان اساتذہ نے اپنی قوموں کی اسلامی تعلیم دے کر بیدار کر دیا ہے۔اب روس کا جغرافیہ سکڑ کر تبدیل ہوتا جا رہا ہے ۔انہی بہادر افغانوں کو دیکھ کر مظلوم کشمیری مسلمانوںکے جذبہ کی حریت کو بھی مہمیز لگی ۔انہوں نے ظالم بھارت کے خلاف علم جہاد بلند کیا ، کشمیری مجاہدین کے قائدین بھی وہاں کے مُتد یّن اور خدا ترس استاد ہی ہیں جو مدتوں سے کشمیری مسلمانوں کو ایمانی قوتوں سے سر شار کر رہے تھے ۔او ر جذبہ حریت ان میں بیدار کر رہے تھے ۔آج پوری دادی کشمیر مجاہدین کے خون سےلالہ زار ہے ۔ ان شاءاللہ عنقریب کشمیر ان دیندار اساتذہ قائدین کی سرکر گردگی میں آزاد ہو کر رہے گا ۔اب پاکستانی اساتذ کو چلنج در پیش ہے۔پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے جو لا ا لہا ا لا اللہ کے نام پر وج ود میں آیا ہے پورے ۵۱ برس گزرنے کے باوجود یہاں اسلامی قانون نافذ نہیں ہو سکا ،ہنوزفرنگی قانون نافذ ہے ، اسلامی اخلاقی قدریں معاشرہ سے نا پید ہوتی جا رہی ہیں ۔علمی اخلاقی زوال قوم کو مادی لحاظ سےبھی نقصان پہنچارہا ہے ۔آج پڑھا لکھا با اختیا ر طبقہ جو ایمان اور نظریاتی لحاظ سے تہی دامن ہے۔ پاکستان کی جڑوں کوکھوکلا کر رہا ہے ۔ یہ سب کچھ پاکستان کے اساتذہ کے لئے ایک حقیقی چیلنج ہےکیا پاکستانی اساتذہ دور حاضر کے اس چلنج کو قبول کرتے ہیں اور ملک سے غیر اسلامی نظام اور غیراسلامی قانون ختم کر دانے اور اسلامی و اخلاقی اقدار رائج کرنے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں ۔ان تمام معاملات میں اسا تذہ کو اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہو گا اور اس کے مطابق اپنے فرائض کو پوری ذمہ داری سے ادا کرنا ہو گا ۔یہ ایمان کا تقاضہ ہے، حبّالوطنی کا تقاضاہے۔ پر وقار پیشے کے تقدس و احترام کا تقاضا ہے اور عصر حاضر کی ایک اہم ضرورت ہے۔خواتین کو بھی اپنے میک اپ اور آرائش و زیبائش چھوڑ کو پرو قار سادگی کے ساتھ تعلیمی اداروں میں آنا جاہئے ۔ تا کہ نو خیز بچیوں کا ذہن صرف اسی زیب و زینت میں الجھ کر نہ رہ جائے۔بلکہ مسلمان استاد ان کو حدود ستر و حجاب سے آشنا کرائیں اور اپنے عملی نمونے سے قرآنی احکامات کی اہمیت اپنی طا لبات کے ذہنوں میںراسخ کریں ۔یہ ایمان کا تقاضا ہے۔اور اپنے پر وقار پیشے کے تقدس کا بھی تقاضا بگڑتی ہوئی صورت ِ حال کے لئے اصلاح ِ احوال کا تقاضا ہے۔ اے اللہ ہم اساتذہ کو اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کرنے کی تو فیق عطا فر ما ۔

﴿رَ‌بَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَ‌حْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِ‌نَا رَ‌شَدًا ﴿١٠﴾... سورة الكهف

''اے پرور دگار ہم پر اپنی رحمت نازل فرما اور ہمیں رشدہ و ہدایت عطا فرما