افغانستان اور سوڈان میں امریکی جارحیت
عالم اسلام کےلئے چیلنج اور لمحہ فکریہ
20اور21اگست کی درمیانی رات کو امریکہ نے افغانستان کےمتعددمقامات پر اور سوڈان کی ایک دواساز فیکٹری پر بمباری کرکے جس بربریت بہمیت اور دہشت گردی کابدترین مظاہر ہ کیا ہے وہ عالم اسلام کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہونا چاہئے ۔امریکہ نے اس درندگی کامظاہر کرکے
٭ایک تو جارحیت کا ارتکاب کیا۔
٭دوسرے ان کی خود مختاری کوپامال کیا۔
٭تیسرے بلاثبوت اور بے جواز کاروائی کی۔
یوں نہایت بے شرمی اور دھنائی سے بین الاقوامی اور ضابطوں کو پامال کیا۔
امریکہ کی طرف سے اس بہیمانہ کاروائی کےجواز میں کہا جارہا ہےکہ کینیا اورتنزانیہ میں امریکہ کے دوسفارت خانوں کو بم کےدھماکوں سےجو اڑایا گیا ہے اس میں اسامہ بن لادن ملوث ہے جو افغانستان میں مقیم ہے اسی کو ختم کرنے کیلئے یہ کاروائی کی گئی ۔لیکن اس کےبرعکس جہادی تنظیموں کایہ موقف ہے کہ اسامہ بن لادن ایک عظیم مجاہد اور نہایت دلیر کمانڈر ہےاللہ تعالیٰ نے اسے مال ودولت سے بھی نواز ہے او رجذبہ جہاد سے بھی سرشار کیا ہے۔یوں وہ کفر کے مقابلے میں اپنی جان اور مال کےساتھ جہاد کررہا ہے۔ اور یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ گذشتہ کئی سالوں سے وہ مسلسل برسرپیکار اور جہاد کس سرپرستی اور قیادت کررہا ہے۔
اس دور میں ایسے شیر دل مجاہد نہایت کمیاب ہیں۔ اس اعتبار سےاسامہ بن لادن عالم اسلام کا ایک عظیم سرمایہ اور ملت اسلامیہ کاایک ہیروہے۔بالخصوص اخلاقی اورمذہبی فریضہ ہے۔
وہ دہشت گر دہے نہ دہشت گردوں کاسرپرست اور معاون وہ صرف مجاہد اورمجاہدین کامعاون وہ صرف مجاہد اور مجاہدین کامعاون ہے اور دہشت گردی اورجہاد میں زمین آسمان کافرق ہے ۔جہاد صرف اللہ کی رضا کیلئے کیاجاتا ہے اس لئے اس شرط میں ان شرطوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے جوشریعت اسلامیہ نے بتلائی ہیں۔مثلا بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہیں کرنا بلکہ صرف ان کافروں کومارنا ہے جو جنگ میں حصہ لیتے اور لڑنے کے قابل ہیں۔ جس کامطلب یہ ہے بے گناہ شہریوں کادہشت گردی کانشانہ بنانا قظعا جہاد نہیں ہے بلکہ ایک ظالمانہ کروائی ہے جس سے شریعت نے نہایت سختی سے روکا ہے۔اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہےکہ ایک مجاہد دہشت گردی کی ظالمانہ کاروائی کرے یا اس میں کس کاحصہ لے ۔کیونکہ اس اس کاعظیم عمل جہاد برباد ہوجاتا ہے جوکوئی بھی مجاہد پسند کرتا ہے نہ کرسکتا ہے۔
امریکہ نے یہ کاروائی بلاجواز کی ہے اور وہ ابھی تک اپنے دعوے کاثبوت پیش کرنے سے قاصر رہا ہےجس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ نشہ طاقت میں مخمور ایک پولیس مین یا دادگیری کاکردار ادا کرنا چاہتا ہے۔اس نےاپنی طاقت کے گھمنڈ میں اس بات می بھی کوئی پروا نہیں کی کہ عالم اسلام سے اس کے دوستانہ تعالقات وروابط ہیں اور اس بلاجواز کاروائی بلکہ کھلی دہشت گردی سے یہ تعلقات متاثر ہوں گے۔
پاکستا ن سمیت پورے عالم اسلام کیلئے یہ صورت حال ایک لمحہ فکریہ ہے۔اس نے یہ کاروائی کرکےپورے عالم اسلام کی غیرت کوچیلنج کیا ہے یہ حملہ صرف اسامہ بن لادن یا افغانستان پر نہیں ہے بلکہ عالم اسلام پر حملہ ہےاس کی غیرت پر حملہ ہے اور اس کےوقار اورخود مختاری پر حملہ ہے۔اگر عالم اسلام نے اس پر بھر پور احتجاج کرکے اس کو معذرت خواہی اور آئندہ ایسی مذموم حرکت نہ کرنے کاعہد کرنے پر مجبور نہ کا تو پھر کسی بھی اسلامی ملک کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاسکےگی۔اس مرگ آسا سکوت پر اس کی شوخ چشمانہ جسارتوں میں اضافہ اور ناپاک عزائم میں مزید پختگی آجائے گی۔
اس لئے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ تمام مسلمان ملکوں کر سربراہ سرجوڑ کر بیٹھیں سربراہی کانفرنس کااجلاس فوری طور پر طلب کیا جائے اور اس میں امریکہ کی مذکورہ کاروائی کی مذمت اور آئندہ اس کااعادہ کرنے پر اس کو سخت تنبیہ کی جائے۔نیز افغانستان کےساتھ یکجہتی کااظہار اور اس کی حفاظت وسالمیت کاعہد کیا جائے۔
افغانستان میں طالبان کی کامیابی ایک طرف تو خود افغانستا ن کی محدت وسالمیت کی ضمانت ہے ان کی مکمل کامیابی سے افغانستان کی تقسیم کاخواب بکھر کر رہ اجائے گا(انشاء اللہ) دوسرے ان کےذریعے سے افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بڑی توقع ہے۔جیساکہ بہت سےعلاقوں میں انہوں نےاسلامی حدور نافذ کردی ہیں اور اس کی برکت سے وہاں امن وامان قائم ہوگیا ہے۔بنابریں ضروری ہےکہ عالمس اسلام افغانستان کی صورت حال سے علیحدگی اختیار نہ کرے بلکہ اسے اپنے سینے کےساتھ لگائے اس کادست وبازو بنے اس کی مشکلات میں اس کاہاتھ بٹائے اور امریکہ اسامہ بن لادن یا اور اس قسم کے بعض مجاہدین کےخلاف ننگی جارحیت اور دہشت گردی کاجومزیدار اردہ رکھتا ہے اس کاپوری سختی کے ساتھ نوٹس لیا جائے اور مومنانہ عزم وقوت سے ا س ککا مقابلہ کرنے کااعلان کیا جائے۔امریکہ کو یہ بھی بتایا جائے کہ اس قسم کی کاروائیا ں جو اس نےخوست(افغانستان)اورخرطوم(سوڈان) میں کی ہیں یہ صرف عالمی امن کی تباہی کاباعث ہی نہیں ہوں گی جیساکہ سوڈان نے اپناعندیہ ظاہر کیا ہے ہمیں بھی سوڈان ہم نوائی کرتے ہوئے اس مسئلے کواقوام متحدہ می پیش کیا جائے جیساکہ سوڈان نے اپناعندیہ ظاہرکیا ہے ہمیں بھی سوڈان کی ہم نوائی کرتے ہوئے اس مسئلے کوعالمی فورم میں پیش کرکے مستقبل میں اس انسداد کیلئے مضبوط پیش بندی کی کوشش کرنی چاہئے۔موجود حالات عرصہ محشر کامنظر پیش کررہے ہیں اس وقت غفلت کوتاہی اور مسلمان ممالک کی خود مختاری کی حفاظت میں عزم وارادہ کی کمزوری نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے
چند سال قبل افغانستان میں طالبان کےنام سے جوتحریک اٹھی تھی جس کامرکز قندھار تھا دیکھتے ہی دیکھتے اس کادائرہ پھیلتا اوربڑھتا ہی گیا تاآنکہ کابل پر بھی اس کاغلبہ اور تسلط ہوگیا ۔ہونا تویہ چاہئے تھا کہ کابل پر اس کااقتدار مستحکم ہونے کےساتھ ہی تمام دھڑے جنگ بند دردیتے اور اس کے اقتدار کو تسلیم کرکے افغانستان کے داخلی امن واستحکام میں اس کاہاتھ بٹاتے۔کیونکہ کابل ہی دارالحکومت اور مرکز قوت ہے اس پر قبضہ وغلبہ کے بعد دوسرے دھڑوں اورگرپوں کاکابل پرقابض حکمرانوں کے ساتھ قتال وجدال کاکوئی جواز نہیں تھا۔
لیکن چونکہ بین الاقوامی اور ان کے مہروں کاطالبان کااقتدار پسند نہیں تھا اس لئے انہوں نےطالبان کےمخالف گروپوں کی نہ صرف حمایت جاری رکھی بلکہ انہیں ایک اتحاد کی لڑی میں پردیا یوں ان کو منتشر قوت کو مجتمع کرکے انہیں ایک بڑے متحارب گروپ کی شکل دے دی۔جس سے ٹکرانا او ر اس زیر کرنا بظاہر بہت مشکل تھا یہ یہی وجہ ہےکہ چار سال سے وہاں باہم کشت وخون کا سلسلہ جاری ہے اور ایک دوسرے کو زیروزبر کرنے میں ہزاروں افراد مارے جاچکےہیں۔دوسال قبل بھی طالبان کےشمالی اتحاد کےعلاقوں کی طرف پیش قدمی کی تھی اور خاصی کامیابی حاصل کرلی تھے لیکن بالاخر پسبائی اختیار کرنی پڑی اور طالبان وہاں تک اپنے اقتدار کو وسیع کرنےمیں کامیات نہ ہوسکے۔لیکن چونکہ اقتدار کی وسعت ومرکزیت طالبان کی مجبوری تھی اس کے بغیر افغانستان کی تعمیر نو اور اس کاداخلی امن واستحکام ممکن نہیں لئے ان کےعزم وحوصلے میں کمی نہیں آئی اور وہ شمالی اتحادسے برابر بر سرپیکار رہے۔ادھر شمالی اتحاد کے حمائتوں اور پشتیبانوں کے اپنے مقاصد تھے جو ان کو طالبان کااقتدار تسلیم نہیں کرنے دیتے تھے چنانچہ انہوں نےابھی اپنے یا سرپرستوں کے گھٹیا مقاصد کیلئے طالبان سے جنگ جاری رکھی یوں وقتا فوقتا خون ریزجھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا کبھی طالبان کسی علاقے میں بڑھتے ہوئے نظر آتے تو کبھی دوسرے ان کے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوجاتے۔
اب دوسال کی مسلسل محنت وکاوش کے بعد طالبان پھر ایک بڑی کامیابی سےہمکنار ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے مخالف اورمتحارب گروہ شمالی اتحاد کو اس کے زیر قبضہ علاقے سے نکالنے میں تک بہت سرخرو ئی حاصل کرلی ہے۔دشمن اپنی اس ہر ہزیمت وذلت پر بڑا سیخ پا ہے اور طالبان کی اس کامیابی پر پاکستان کوطعن وتشنیع کا ہدف بنارہا ہے۔حالانکہ پاکستان بالکل غیر جانبدار ہے۔وہ کسی گروہ کی حمایت یا پیشبانی نہیں کررہا جیسے الزام تراشی کرنے والا برادر ملک خود شمالی اتحاد کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ اس کو اصل تکلیف یہی ہے کہ اس کی امداد وحمایت کے باوجود اس کاحمایت یافتہ یا پروردہ گروہ عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگیا ہے اور پورےافغانستان میں طالبان کا اقتدار مستحکم ہوتا نظر آنے لگا ہے جسے وہ بوجوہ پسند نہیں کرتا۔
بہرحال اب تک کی تازہ ترین صورت حال یہی ہے کہ طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور افغانستان کے جو علاقے ابھی تک ان کےغلبہ واقتدار سے باہر تھے ان پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے اوربظاہر یہ امکان صاف نظر آرہا ہے کہ پورے افغانستان میں طالبان ہی غالب اورحکمران ہونگے اور ان کے اقتدار کو اب چیلنج کرنا نہایت مشکل ہوگا۔ اور ہماری دعا بھی یہی ہے کہ طالبان کو جوعروج وغلبہ حاصل ہواہے وہ برقراررہے تاکہ تو افغانستان کس تقسیم کے جو خدشات محسوس ہوتے تھے وہ ختم ہوجائیں اور افغانستان اپنی تاریخی شکل میں محفوظ رہے۔ دوسرے سالہا سال سے خانہ جنگی کاجوسلسلہ چالاآرہا ہے وہ بند ہوجائے اور افغانستان کے عوام سکھ کاسانس لیں اور حکمران اس کی تعمیر نو کاآغاز کر سکیں۔
اس موقعے پر ہم مناسب بلکہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ طالبان کی قیادت سے کچھ باتیں عرض کریں کیونکہ طالبان کی یہ کامیابی ہمارے لئے بھی خوشی اور مسرت کاباعث ہے اس لئے ہماری خواہش ہے کہ یہ کامیابی مستقل دائمی ہوتا کہ یہ مسرت بھی مستقل اوردیرپاہوسکے:
1۔ہماری پہلی گزارش یہ ہےکہ طالبان نے اپنے زیر تصرف علاقوں میں اسلامی حدودنافذ کردی ہیں جس کی برکت سے وہاں مثلی امن قائم ہوگیا ہے اور چوری ڈکیتی اور قتل اور غارت گری کاسلسلہ بہت حدتک رک گیا ہے ۔ان کایہ اقدام نہایت مستحسن ہے۔اس کاسلسلہ پوری قوت اور حکمت عملی کے ساتھ وسیع کرنے اور پورے ملک میں جاری کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ سعودی عرب کے بعد دنیا میں افغانستان دوسری ریاست ہو جہاں اسلامی حدود نافذ ہوں اور اس کی برکات کا لوگ عام مشاہدہ کریں۔
2۔ہماری دوسرے گزارش یہ ہے کہ اس دور میں اسلامی نظام کانفاذ بہت بڑیسعادت بھی ہے اور وقت کی نہایت اہم ضرورت بھی۔یہ سعادت طالبان کے حصے میں آرہی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وقت کی اس اہم ضرورت کو وہ اس طرح پورا کریں کہ اس میں دنیا کو انگشت نمائی کاموقعہ نہ ملے بلکہ کراہتی بلکتی انسانیت کےسامنے مثالی حکومت کاایک بہترین نمونہ آئے تاکہوہ بھی دوسرے نظاموں اور نظریات کوچھوڑکر اسلام کو اپنانےکیلئے آمادہ ہو۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک تو وہ قبائلی اور علاقائی روایات تقدس کادرجہ نہ دیں اور ان میں تشدد کی بجائے اتنی لچک کامظاہرہ ضرور کریں جس کی گنجائش اسلامی تعلیمات سےنکلتی ہے۔یعنی اصل بنیاد اسلامی تعلیمات وہدایات ہوں نہ کہ ملکی یا علاقائی رسوم وروایات۔
3۔تیسری گزارش یہ ہے کہ آج کل انتہاء پسندی کامرض عام ہےجس کی وجہ سےدشمنیاں بھی بڑھتی ہیں اور دشمن کوبدنام کرنے کاموقعہ بھی ملتا ہے۔اس کےمقابلے میں اعتدال وتوزن ہے جس کی تاکید اور اختیار کرنے کی تلقین اسلام نےبھی کی ہے۔طالبان کیلئے ضروری ہےکہ انتاء پسندسے گریز کرتے ہوئے۔اعتدال وتوازن کواختیار کریں۔یہ اعتدال ہر معاملے میں ضروری ہے۔
٭دشمن کےساتھ معاملہ کرنے میں تاکہ وہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجائے۔
٭اپنی اصلاحات کےنفاذ میں تاکہ لوگ رضاء ورغبت سے انہیں اپنالیں۔
٭بین الاقوامی تعلقات میں تاکہ غیر مسلموں کےدل ودماغ پر بھی اچھے اثرات قائم ہوں۔
٭فقہی مسائل میں تاکہ فقہی اختلاف رکھنےوالے دوسرے مذہبی گروہوں کاتعاون بھی اسے حاصل ہو۔
4۔چوتھی اور آخری گزارش یہ ہےکہ اسلامی احکام کےنفاذ میں فقہی جمود اورحزبی تعصب کی بجائے فقہی توسع کی اختیار کیا جائے۔اس سےہماری مراردیہ ہے کہ ہرمعاملے میں کسی ایک فقہ پر اصرار کرنےکی بجائے اہم معاملات میں کھلے دل سےبحث کے بعد ایسی رائے کو اختیار کیا جائے جوقرآن وحدیث کےزیادہ قریب نمونہ بھی سامنے آسکے گا۔اور اس سے اہل سنت کے تمام مکاتب فکر میں فکری ونظریاتی وحدت وہم آہنگی بھی پیدا ہوگی جو اسلام کےنفاذ کیلئے بہت ضروری ہے۔اس کیلئے سعودی حکومت کاطرز عمل ہمارے لئے ایک اچھانمونہ ہے۔سعودی عوام وخواص کی اکثریت اگرچھ فقہی طور پر حنبلی ہے ۔لیکن حکومت نےجدید مسائل کی تحقیق کیلئے جو اسلامی فقہ اکیڈمی بنائی ہوئی ہے۔اس میں عالم اسلام کے کبار علماء کوشامل کیا گیا ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کس فقہ کےپیروکار ہیں۔یہی وجہ کہ حنبلی حنفی شافعی اور سلفی ہرمکتب فکر علماء اس کےممبر ہیں اور وہ پیش آمدہ مسئلے میں کسی ایک فقہ کی روشنی میں غور فکر نہیں کرتے بلکہ اولاقرآن وحدیث کی نصوص کودیکھتےہیں اور پھر بلا تخصیص تمام فقہی کاوشوں سے استفادہ کرتے اور قرآن وحدیث کے اقرب اور ارفق للناس(لوگوں کی زیادہ سہولت والے)قول کو اختیار کرتے ہیں۔
طالبان کی قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ علماء کا ایک ایسا ہی بورڈ قائم کریں جس میں اہل سنت کےمکاتب فکر جید اور بالغ نظر علماء شامل ہوں اور وہ ہر اہم معاملے کاجائز قرآں وحدیث کی روشنی میں لیں اور اس میں تمام فقہی سرمائے سے استفادہ کریں۔سعودی جامعات ومدارس میں فقہی توسع کی کارفرمائی ہے یعنی ان میں بھی فقہی جمود نہیں ہے بلکہ حسب ضرورت تمام فقہوں سے استفادہ کیا جاتا ہے اور دلائل کامقارنہ کرنے کےبعد راجح قول کو اختیار کرنےکی تلقین وترغیب دی جاتی ہے۔اس سے طلباء بھی منرومحراب کےوارث بنتے اور افتاء وقضاء کےمناصب پر فائز ہوتے ہیں فقہی جمود سے محفوظ رہتے ہیں اور وہ بالعموم ہر معاملے میں کھلے دل سے قرآن وحدیث کےدلائل کاجائزہ لینے کےبعد ہی کسی ایک رائے کو اختیار کرتے ہیں۔پہلے مرحلے میں ہی کسی ایک فقہ کی لگی بندھی رائے کی پابندی نہیں کرتے۔پاک وہند اور افغانستان کے مدارس دینیہ میں بھی نصاب تعلیم اورطرز تعلیم اس نہج پر متب کرنے اور اختیار کرنے کی ضرورتا ہے۔تاکہ فقہی جمود ختم اور اس جگہ فکرنظر میں وسعت پیدا ہو حزبی تعصب کی جگہ رواداری اور یکجہتی کو فروغ حاصل ہو اور ان مدارس سے ایسے علماء پیدا ہوں جو عصر حاضر کے چیلنجوں کو سمجھ سکیں او ر ان کاتوڑ مہیا کرسکیں۔
افغانستان میں طالبان سے وابستہ علماء کو اللہ نے ایک نہایت اچھاموقعہ فراہم فرمایا ہے۔اگر وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاکر مذکورہ نہج پرفقہی توسع کے ساتھ اپنے ملک میں جامعات ومدارس کی بھی اصلاح کردیں ۔تویقینا ان کایہ ایک تاریخی اقدام بھی ہوگا اور اسلام کےنفاذ کےطرف ایک صحیح پیشرفت بھی ۔اس سے افغانستان کاوہ اسلامی رخ نکھر کا اور نمایاں ہوگا۔جس کی اس وقت دنبا کوشدید ضرورت ہے۔