تفید مطلق اور عموم قرآن کی تخصیص کا مسئلہ

تخصیص عام اور تقید مطلق کو عموما '' زیادہ علی الکتاب '' بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ بقول حافظ ابن حجر عسقلانی وحافظ ابن قیم ﷫ وغیرہ.......متقدمین کی اکثریت تحصیص پر نسخ کا شبہ ہوا ہے لیکن ''تخصیص'' اور ''نسخ'' دو مختلف نوعیت کی چیزیں ہیں۔

سنت متواترہ سے عموم قرآن کی تخصیص جائز ہونے کے بارے میں جمہور علماء کے مابین کوئی اختلاف رائے پایا جاتا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ﷫ فرماتےہیں:

''عموم قرآن کی بعض خبر احاد سے تخصیص کے بارے میں اختلاف ہے''

آں ﷫ مزید فرماتے ہیں :

کوفیوں کے نزدیک سنت عموم قرآن کی تخصیص نہیں کرتی''

بعض فقہائے حنفیہ کی کتب میں تعارض کے وقت عام کو خاص پر مقدم کردینا یا خبر واحد کے ذریعہ عموم قرآن کی تخصیص کا جائز نہ ہونا بصراحت مذکور ہے اسی طرح بعض لوگوں نے تخصیص کا جائز نہ ہونا بصراحت مذکورہ ہے اسی طرح بعض لوگوں نے تخصیص کا مطلقا انکار بھی کیاہے لیکن ان کے مابین بھی تفصیل کا اختلاف ہے۔ فقہائے حنفیہ سے قاضی عیسیٰ بن ابان (ت221ہ) کا موقف یہ ہے کہ اگر قرآن کی تحصیص مقطوع بہ دلیل کے ساتھ ہوتو جائز ہے ورنہ نہیں۔ مشہور حنفی فقیہ عبیداللہ الحسین ابو الحسن کرخی (340) فرماتے ہیں:

''اگر تخصیص اپنے مخصص کے ساتھ منفصل یعنی دور دور ہو تو جائز ہے ورنہ متصل ہونے کی صورت میں جائز نہیں ہے''

جبکہ قاضی محمد بن طیب بن محمد جعفر ابوبکر اشعری (403ھ) اس بارے میں توقف کو ترجیح دیتے ہیں۔

تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے

حافظ ابن حجر ﷫ فرماتے ہیں :

''جمہور علماء عموم قرآن کی خبر احاد سے تخصیص کے جواز کے قائل ہیں''

علامہ آمدی نے بھی الاحکام فی اصول الاحکام میں (6)ائمہ اربعہ سے اس کا جواز نقل کیا ہے........ امام رازی ﷫ فرماتے ہیں:

'' لسُّؤَالُ الثَّالِثُ: وَهُوَ الْمُعْتَمَدُ أَنْ نَقُولَ: الْفُقَهَاءُ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهُ يَجُوزُ تَخْصِيصُ عُمُومِ الْقُرْآنِ/ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ فَهَبْ أَنَّ عُمُومَ قَوْلِهِ تَعَالَى: وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا يُوجِبُ سُكُوتَ الْمَأْمُومِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْإِمَامِ، إِلَّا أَنَّ

قَوْلَهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»

وَقَوْلَهُ: «لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»

أَخَصُّ مِنْ ذَلِكَ الْعُمُومِ، وَثَبَتَ أَنَّ تَخْصِيصَ عُمُومِ الْقُرْآنِ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ لَازِمٌ فَوَجَبَ الْمَصِيرُ إِلَى تَخْصِيصِ عُمُومِ هَذِهِ الْآيَةِ بِهَذَا الْخَبَرِ، وَهَذَا السُّؤَالُ حَسَنٌ'

یعنی تیسرا سوال یہ ہے اور یہی معتمد ہے کہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد سے قرآن کے عمومی حکم کی تخصیص جائز ہے پس آیت:«وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ .. الخ»کا عموم امام کی قراءت کے وقت ماموم (یعنی مقتدی ) پر سکوت کو واجب قرارد یتا ہے مگر رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی تو یہ ارشاد نبوی اس عام حکم سے زیادہ خاص ہے اور یہ چیز ثابت ہے کہ عموم قرآن کی خبر واحد سے تخصیص لازم ہے پس اس آیت کی بھی اس خبر کے ساتھ تخصیص واجب ہے او ریہ سوال بہتر ہے ''

تفسیر نیشاپوری میں ہے:

هذا وقد سلم كثير من الفقهاء عموم اللفظ إلا أنهم جوّزوا تخصيص عموم القرآن بخبر الواحد وذلك هاهنا

قوله صلى الله عليه وآله: «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب»

اکثر فقہا نے عموم لفظ کو تسلیم کیا ہے تاہم انہوں نے خبر واحد سے حدیث قرآن کے عمومی حکم کی تخیص کو جائز قرار دیا ہے اور یہ تخصیص یہاں نبی ﷺ کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ ''سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ''

علامہ ابن حاجب ''مختصر الاصول '' اور اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

أن تخصيص عام القرآن بالمتواتر جائز اتفاقا وأما بخبر الواحد فقال بجوازه - ص 207 - الأئمة الأربعة ، وقال ابن أبان من الحنفية : إنما يجوز إذا كان العام قد خص من قبل بدليل قطعي منفصلا كان أو متصلا . وقال الكرخي : إنما يجوز إذا كان العام قد خص من قبل بدليل ، منفصلا قطعيا كان أو ظنيا ، انتهى .

جناب ابو الحسنات عبدالحئی لکھنؤی صاحب فرماتے ہیں

''وامابخير واحد فقال بجواز ه الائمة الاربعه''

یعنی خبر واحد سے عام تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے''

اور علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ﷫ فرماتے ہیں :

الحاصل آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ﴾ عندالحنفيه بلاشبہ عام مخصوص منہ البعض ہے پس حدیث متفق علیہ '' لاصلوۃ لمن لم یقرابفاتحةالکتاب''سے اس آیت کی کی تخصیص کی جائے گی اور اس آیت کے حکم سے قراءت فاتحہ خلف امام خارج کی جائے گی اور اگر فرض کیا جائے کہ یہ آیت عند الحنفیہ عام مخصوص البعض نہیں ہےتو امام خارج کی جائے گی اور اگر فرض کیا جائے کہ یہ آیت عتدالحنفیہ عام مخصوص البعض نہیں ہے تو بھی اس کی تخصیص احادیث قراءت خلف امام کی جائے گی کیونکہ عام فقہاء اور ائمہ اربعہ کے نزدیک کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے جائز ہے''(11)

برائے تخصیص عموم چند مخصوص باتیں

1۔''ظاہر عموم پڑ عمل لازم ہے حتی کہ دلیل اس کی تخصیص پردلالت کرتی ہو(12)

2۔''ابن حاجب نے مخصص پر بحث ونظر سےقبل عموم پر عمل کرنے کی ممانعت پر اجماع نقل کیا ہے لیکن اس پر یوں تعاقب کیا گیا ہے کہ ابو اسحاق اسفرائینی اور ابو اسحاق شیرازی نے اس قول کے خلاف حکایت کی ہے ۔ حنفیہ عموم کے لئے بہر حال وجوب انقیاد کے قائل ہیں ابن شریح ابن خیران اور قفال کا قول ہے کہ اس پر بحث واجب ہے''13

3۔'' تخصیص احتمال سے ثابت نہیں ہوتی''14

4۔تحصیص نسخ کے دعویٰ سے اولی ہے''15

5عمو م پر بقا اصل ہے حتی ٰ کہ خصوص ثابت ہوجائے''(16)

6۔''اگر دلیل اجازت دیتی ہو تخصیص عموم غیرمستنكرہے(17)

7۔ منطوق قرآن کے خصوص سے عموم مفہوم سنت کی تخصیص جائز ہے(18)

8۔ بعض کے نزدیک عموم متواتر کی عموم آحاد سے تخصیص محل نظر ہے(19)

9۔بعض کے نزدیک عموم کے قیاس سے تخصیص اصول میں جائز عمل ہے ''(20) چنانچہ بعض حنفیہ نکاح میں ولی کی شرط کے قائل نہیں ہیں اور عورت کی ولی کے بغیر شادی جائز سمجھتے ہیں اور اسے بیع پر قیاس کرکے احتجاج کرتے ہیں ۔ اشراط ولی کے بارےمیں جو احادیث وارد ہیں:مثلا''لانكاح الابولي''(ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ احمد)یعنی ''جس نکاح میں ولی نہ ہو وہ نکاح ہی نہیں ہے اور '' ايما امراة نكحت نفسهابغير إذن مواليها فنكاحها باطل فنكاحهاباطل....الخ''(ابوداؤد احمد والدارمی)

''جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے''....وغیرہ تویہ حضرات انہیں چھوٹی بچی کے نکاح پر محمول کرتے ہیں۔ اس طرح یہاں قیاس سے عموم کی تخصیص ہوئی جو کہ عندالحنفیہ اصول میں درست ہے۔

10۔'' عموم کے قرائن کے ساتھ تخصیص جائز ہے ''(21)

11۔ ''منصوص کا حکم خاص ظاہر وعام سے ارجح ہے''(22)

12۔'' عام پر عطف خاص اہتمام بالخاص کافائدہ دیتا ہے(23)

13۔ خصائص قیاس سے ثابت نہیں ہوتے ''(24) چنانچہ امام رازی اپنی ''تفسیر الکبیر'' میں آیت﴿فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء" کے تحت فرماتے ہیں:

ظاہر آیت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نص کی قیاس کے ساتھ تخصیص جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نبی ﷺ کے قول اور حکم کی علی الاطلاق متابعت واجب ہے اور اس سے کسی دوسری طرف عدول جائز نہیں ہے.... اور یہ آیت عموم قرآن اور خبر کی قیاس پر تقدیم کو واجب قرار ۃدیتی ہے...الخ''(25)

14۔گو علمائے حنفیہ کے برخلاف نص قرآن یا سنت قطعیہ پر زیادت ہونا خبر صحیح کے لئے مضر نہیں ہے۔حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر خبر زیادت کے ساتھ وارد ہو تو اس سے نسخ لازم آتا ہے لہذا غیر مقبول ہے........لیکن اسی طرح بعض حنفیہ کےبرخلاف اگر کوئی خبر کتاب یا سنت کے عمو م کی تخصیص میں وارد ہوتو وہ مقبول ہے''(27)

بصورت ''زیارت علی الکتاب خبر واحد کو رد کرنے والوں کی زبر دست تردید فرمائی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ محمد جمال الدین القاسمی وغیرھمانے ان تما م دلائل کواپنی کتاب میں پوری تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے جس کا خلاصہ ھدیہ قارئین ہے،:

''قرآن کے ساتھ سنت تین طرح کی ہوسکتی ہے : ایک وہ جو ہر اعتبار سے قرآن کے موافق ہو دوسری وہ جو قرآن کریم ساکت ہے اوریہ تیسری قسم نبی ﷺ کی طرف سے احکام پر مشتمل ہیں لہذا ان کی اطاعت بھی واجب ہے ۔اگر کوئی رسول ﷺ کی طرف انہی معاملات میں کرے جو قرآن کے موافق ہوں تو آپ ﷺ کی خاص اطاعت کا کوئی مطلب باقی نہ رہاحالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾''یعنی جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی ہے اس نے اللہ کی اطاعت کی'' جوشخص یہ کہتا ہے کہ وہ قرآن سے زائد صرف انہی احکام کو قبول کرگا جو متواتر یا مشہور ہوں تووہ اس حکم الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے حالانکہ وہی لوگ کسی عورت کے ساتھ اس کی پھوپھی اور خالہ کو جمع کرنے کی حرمت رضاعی نسبت سے حرام رشتوں کی تحریم خیار شرط شفعہ حضر میں رھن دادی کی میراث تخير االامة حائضه کےلئے صوم وصلاۃ کی ممانعت رمضان میں روزہ دار کے جماع کرلینے پر کفارہ کے وجوب وفات پر معتدہ کا وجوب احداد کھجور کی نیند سے وضو کا جواز ایجاب الوتر کم ازکم دس درہم مقدار مہر کی تعین پوتی کا بیٹی کے ساتھ وراثت میں چھٹا حصہ مجوسی سےجزیہ لینا دوسری بار چور کا ہاتھ کاٹنا استبراءالمبينه بحصيضة وغيرہ کے قائل ہیں حالانکہ یہ تمام احادیث آحاد ہی تو ہیں بلکہ ان میں سے بعض ثابت اور بعض غیر ثابت بھی ہیں...الخ(28)

علمائے حنفیہ کے نزدیک تخصیص معنبر ہونےکی چندمثالیں

اس بارے میں میں متعدد مثالیں حافظ ابن قیم ﷫ کے مندرجہ بالااقتباس میں گزرچکی ہیں مزید چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

1۔مشہور حنفی عالم ملاجیون قرآن کریم کی آیت ﴿وَإِذَا قُرِ‌ئَ الْقُرْ‌آنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٢٠٤﴾... سورة الاعراف" کوعندالحنفیہ عام مخصوص منہ البعض بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

لايقال ان قوله تعالي (واذاقرئي القر،آن ) لما كان عاما بين الصلوة وخارجها فاختصاصه في حق الصلوة والمؤتم تخصيص للعام فيكون مخصوص البعض وهو ظن فكيف يتمسك به لانه لماكان ظنيا خرج عن الفرضية بمعني انه لايكفر جاحده فبقي الوجوب وهو كالفرض في حق العمل

یہ نہ کہا جائے کہ اللہ تعالی کا فرمان جب قرآن پڑھا جائے ......جب نماز اور بیرون نماز دونوں حالتوں کےلئے عام ہے تو پھر اس کو نماز اور مقتدی کے حق میں خاص کرنا عام کو خاص کرنا اس طرح سے بعض چیزیں مخصوص ہوجاتی ہے اور یہ ظنی ہے۔

پھر اس سے استدلال کیوں کیا جاسکتا ہے؟اس لئےکہ جب وہ ظنی ہے فرضیت سےنکل گیا بایں اعتبار کہ اس کے منکر کو کافرقرارنہیں دیا جاسکتا ۔پس اب صرف وجوب باقی رہ گیا اور یہ وجوب عمل کے حق میں فرض ہی کی طرح ہے''۔

تخصیص کا یہ دعوٰی السراج المنیر''(31) از علامہ شربینی خطیب خیرالکلام ''(32)للحافظ محمد گوندلوی اورتحقیق الکلام ''(33)للمحدث المبارکفوری وغیرہ میں مذکور ہے۔

شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنے ایک فتوی میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :

''وحال آیت کریمہ(وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ......الاية) این است کہ ہرکام امام سورۃ دیگر ضم کند مقتدی خاموش گرویدہ سماعت کند کہ برائے سورۃ فاتحہ کہ امام ام الکتاب است مستثنیٰ است از مفہوم بعض احادیث صحیحہ وعلماء محققین ومحدثین ومفسریں دریں باب بسیار گفتگو کردہ اند......الخ''(34)

یعنی آیت کریمہ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾کا حال یہ ہے کہ جب امام کوئی دوسری سورت تلاوت کرے تو مقتدی خاموش رہیں اور اسے سنیں لیکن سورۃ فاتحہ کہ جو ام الکتاب ہے بعض احادیث صحیحہ کے مفہوم کے مطابق اس عام حکم سے مستثنیٰ ہے۔ علمائے محققین اور مفسرین کتاب اس باب میں بہت تفصیل سےگفتگو کی ہے''

2۔حافظ ابن حجر عسقلانی چند اور مثالوں کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:

بعض لوگ ان خبر واحد کو رد کرتے ہیں جن میں قرآن سے زائد احکام مذکور ہوتے ہیں مگر ان پر تعاقب اس طرح کیاگیا ہے خود وہ لوگ وضو میں کہنیوں تک ہاتھ دھونا قبول کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی زائد حکم ہے اور اس کے عموم کا حصول بھی نصاب سرقہ کی طرح خبر واحد سے ہی ہے''(35)

اخبار آحاد سے''زیادت علی الکتاب '' کے متعلق امام شافعی اور امام محمد ﷫ کے مابین ہونےوالا مناظرہ:

مشہور ہے کہ:

ایک مرتبہ امام محمد﷫ علمائے مدینہ پر طعن کررہےتھے کہ مدینہ والے جس مقدمہ میں دو گواہ نہیں ہوتے اس میں ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرتے ہیں ۔ امام شافعی نے امام محمد ﷫ کے اس طعن سے پہلے تو بیزاری اس طرح ظاہر کی کہ تم اس شہر کو برا کہتے ہویا اس شہر والوں کوبرا کہتے ہو تو یہاں کےشہری مہاجرین وانصار ہیں۔امام محمد کو اما شافعی ﷫ کے اس جواب سے عبرت ہوئی تو امام شافعی نےان کے طعن کا سبب دریافت کیا ۔ امام محمد ﷫نے فرمایا: علمائے مدینہ ایک گواہ اور قسم کی بناء پر خبر آحاد سےفیصلہ جائز رکھتے ہیں حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو گواہوں کی شہادت کا حکم بیان فرمایا ہے ۔ امام شافعی ﷫ نےپوچھا : کیا آپ کے نزدیک خبر واحد سےقرآن پر زیادتی نہیں ہوسکتی؟ امام ﷫ نے جواب دیا: ہاں یہ زیادتی نہیں ہوسکتی۔ امام شافعی﷫ گویاہوئے کہ ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنےسے منع کرتے ہیں اور اسے زیادت علی الکتاب کہتے ہیں تو قرآن مجید میں وارثوں کے حق میں وصیت کا حکم ہے آپ خبر واحد(حدیث:لاوصية لوارث) كی بنا پر وارث کےلئے وصیت کیوں ناجائز قراد دیتے ہیں ؟یا اثاث البیت کے مقدمہ میں اگر مرد اور عورت دونوں مدعی ہوں اور کوئی گواہ موجود نہ ہو تو آپ کیوں فیصلہ کرتےہیں؟ امام﷫ نےجواب دیاکہ عورت کی مخصوص چیزیں عورت کو دلاتے ہیں اور مرد کی مخصوص چیزیں مرد کو تو اما شافعی نے اپنی کتاب (الرسالۃ) میں انواع بیان میں سے سنت سے بیان القرآن کے ضمن میں ایک مستقل باب اس عنوان کے ساتھ باندھا ہے:''باب مانزل عاما دلت السنة خاصة علي انه يراد به الخاص''اوراس میں بتایا ہےکہ ''انواع بیان '' میں سنت سےبیان القرآن دراصل سنت سے عموم قرآن کی تخصیص ہے''(37)

حافظ ابن حزم ﷫ نے بھی ''الاحکام '' میں اس رائے کو درست قرار دیا ہے اور سنت سے تخصیص قرآن کے جواز پر متعدد مثالوں سے استدلال کیا ہے۔(38)

تخصیص عموم قرآن پر جمہور کی حجت

حضرت عرباض بن ساریہ سےمروی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ لوگوں سے خطاب فرمارہے تھے:

(ايحسب احدكم متكئا على اريكته قد يظن ان الله لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن الا وإني والله قد وعظت وامرت ونهيت عن اشياء إنها لمثل القرآن او اكثر وإن الله عز وجل لم يحل لكم ان تدخلوا بيوت اهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا اكل ثمارهم إذا اعطوكم الذي عليهم)

'' کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے؟ خبردار! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی (اہم اور ضروری) ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ ۱؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے و ستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے (یعنی جزیہ''

ہم بخوبی یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآن وسنت میں سے ہم پر دونوں چیزیں کی اطاعت کے وجوب میں فرق نہیں ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے:

﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾... سورة النجم

اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے

اور اللہ عزوجل فرماتاہے:

﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ... ٢١﴾... سورة الاحزاب

اور ارشاد ہوتا ہے:

﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ﴿٨٢﴾... سورة النساء

'' کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے ''

ان آیات میں عزوجل نے اپنے بندوں کو واضح طور پر اس بات کی اطلاع دی ہے کہ اس کےنبی کا کلام اس رب کی مراد کے عین موافق ہے ان کے درمیان نہ کسی قسم کاتعارض ہے نہ اختلاف اور نہ ہی سنت رسول باعتبار اہمیت وجوب قرآن سے کسی طرح کم تر ہےـــــــ اس سے لوگوں کا بطلان ظاہر ہے سنت سے قرآن کی تخصیص کے عدم جواز کے قائل ہیں۔

تخصیص عموم قرآن کی چند مثالیں

قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن کی سنت آحاد کے ذریعہ تخصیص پر علمائے امت کا اتفاق ہےمثلا:

1۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح میں محرمات کے ذکر کے بعد فرمایا ہے﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾

''اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں''-----لیکن امام نووی ﷫ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے یہ حدیث کہ نهى النبیﷺ أن تنكح المرأة على عمتها أو خالتها(44)

یعنی نبی ﷺ نے پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی سے نکاح کرنے سے فرمایا ہے''-----بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

''احتج الجمهور بهذا الاحاديث وخصو ابها عموم القرآن في قوله تعالي﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾وقدذهب الجمهور الي جواز تخصيص عمو م القرآن بخبر الاحاد.....الخ ''(45)

''جمہور نے احادیث سے دلیل پکڑی ہے اور ان سے قرآن کے اس عموم کی تخصیص کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ﴾(43).

''اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں'اور جمہور کایہ مسلک ہےکہ خبر آحاد سےقرآن کےعموم کی تخصیص جائز ہے''۔

بقول جناب خالد مسعود صاحب جناب حمید الدین فراہی صاحب نے اپنی مستقل کتاب احکام الاصول '' میں دکھایا ہےکہ ''خالہ اور پھوپھی کے محرمات میں ہونے کی احادیث قبرآنی نصوص سے کس طرح مستنبط ہیں(46)

2۔ آیت قرآن :﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ...١١﴾... سور ة النساء

'' اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اوﻻد کے بارے میں حکم کرتا ہے ''

---کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد''لایرث القاتل شیئا'(48)

یعنی قاتل کاوارث میں کوئی حصہ نہیں ہے''

(ملاحظہ:اگرچہ ترمذی کی سند میں روای اسحاق بن ابی فروہ متروک ہے لیکن بیہقی نے حضرت عمر اور ابن عباس وغیرہما سےایسے آثار نقل کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کے لئے وارثت میں کوئی حصہ نہیں ہے)

اور ایک دسری حدیث :

'' لا يرث المسلم الكافر، ولا الكافر المسلم ''

یعنی ''مسلمان کافر کا اور مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا''

نیز ارشاد نبوی :

لانورث ماتركناه صدقة(50)

کے ساتھ متفقہ طور پر مخصص قرار دیا ہے۔

3۔ اس کی تیسری مثال قرآن کریم کی آیت :﴿وَالسَّارِ‌قُ وَالسَّارِ‌قَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا...﴿٣٨﴾... سورة المائدة"(51)ہے۔یعنی

'' چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو '

..........اگر رسول اللہ ﷺکی سنت کلام اللہ کی شارح ومبین نہ ہوتی تو اس آیت کے مطابق ہر چوری کرنےوالے کا ہاتھ کاٹنا واجب ہوتا خواہ اس نے چھوٹی چوری کی ہویا بڑی کیونکہ اس آیت میں اللہ عزوجل نے ہر سارق وسارقہ کا حکم مطلق وعام رکھا ہےلیکن تمام اہل علم حضرات کا اس بات پر اتفاق ہےکہ نبی ﷺ نے اپنی سنت میں امر کی وضاحت فرمادی تھی جو بلاشبہ تخصیص کےحکم میں ہی داخل ہے کہ چور کا ہاتھ اس وقت تک نہیں کاٹا جائے گا جب تک کہ وہ ایک مقررہ قیمت سے زیادہ چوری کا مرتکب نہ ہوا ہو۔

اگرچہ نصاب سرقہ کی تعیین میں اختلاف ہے لیکن صحیح روایات کےبموجب نصاب چوتھائی دینار کی قیمت کے مساوی ہے ۔(52)چنانچہ حضرت عائشہ اور عمر نے فرمایا ہے کہ سارق نے چوتھائی دینار مساوی شئےچرالی ہوتو اس پر قطع ید ہے۔(53)

ایک اور دوسر روایت میں ہے کہ نصاب سرقہ پانچ درہم ہے۔حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ ''رسول اللہ ﷺ اور ابوبکروعمر نے ڈھال کی چوری پرقطع ید کی سزادی تھی۔ راوی بیان کرتا ہے کہ ''میں نےپوچھا کہ ڈھال کی قیمت کیا ہوتی تھی؟حضرت انس نے فرمایا کہ پانچ درہم''(54)

حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ '' حضرت ابوبکر نے ایسی ڈھال چرانےپر بھی ہاتھ کاٹنےکی سزادی تھی جس کی قیمت تین درہم نہ تھی یا جسے میں تین درہم میں خریدنا پسند نہ کروں (55)

(یہاں واضح رہے کہ اس دور میں ایک دینار کی قیمت 12درہموں کے مساوی ہوتی تھی (56)پس ربع دینار تین درہم کے مساوی مالیت ہوئی)

حضرت ابن مسعود اور حضرت عمر کا قول ہے کہ'' ہاتھ پانچ درہم مالیت کا چیزچوری کرنے پر قطع کیا جائےگا'' اس سے کم پر نہیں(57) چونکہ عہد رسالت کے بعد درہم کی قیمت گرگئی تھی لہذا ابن مسعود وغیرہ دس درہم یا ایک دینا ر کے سرقہ پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا کرتے تھے۔(58)حضرت عمر کے پاس بھی ایک چور لایاگیا جس نے کپڑا چرایا تھا۔ آپ نے حضرت عثمان سےکہا کہ اس کی قیمت کا اندازہ لگاؤ۔انہوں نے اس کی قیمت کااندازہ آٹھ درہم لگایاتوآپ نے چور کاہاتھ نہیں کاٹا(59)

ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں ہے کہ اولا حضرت عمر نے ہاتھ کاٹنےکاحکم دیا تھا۔ اس پر حضرت عثمان نے کہا کہ '' اس کی چوری دس درہم کے برابر نہیں ہے تو حضرت عمر نے حکم دیاکہ اس کی قیمت لگائی جائے چنانچہ اسکی قیمت آٹھ درہم لگائی گئی تو آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا''

نصاب سرقہ کی تعیین وتفصیلات کے لئے حاشیہ (60) کےبیان کی گئی کتب کی طرف مراجعت مفید ہوگی۔

4۔ اس کی چوتھی مثال یہ حکم الہی ہے:

﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْ‌ضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّ‌ضَاعَةِ...٢٣﴾... سورة النساء"یعنی

''(وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں )

اس آیت میں اللہ عزوجل نے رضاعی ماں اور رضاعی بہن کے رشتوں کو حرام قرار دیا ہے لیکن رضاعت کی مقدار بیان نہیں کی ہے لہذا اگر ظواہر کتاب اور اس کے عموم کولیا جائے تو قلیل رضاعت بھی اسی طرح موجب حرمت قرار پائےگی جس طرح کثیر رضاعت مگرعلماء میں... ایک جماعت اس طرف گئی ہےکہ جب رسول اللہ ﷺ سےثابت ہےکہ''لاتحرم المصة والاالمصتان''(62)

''ایک مرتبہ یا دو مرتبہ چوسنا حرام نہیں کرتا ''

تویہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ نبیﷺ نے تحریم بالرضاعۃ کی تخصیص '' مصته يا''مصتان''(ایک یا دومرتبہ چوسنا)سےزیادہ دوھ پینے کے ساتھ فرمائی ہے۔

5۔اس کی پانچویں مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ...﴿٣﴾... سورةالمائدة

ظاہر ہے کہ یہ حکم تمام اجزائے میتہ کو شامل ہے لیکن اس آیت کی تخصیص رسو ل اللہ ﷺ کے اقوال مبارک سے ہوتی ہے''هلا استمتعتم باهابها؟(تم نے اس کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟)

لوگوں نے کہا : انها ميته(یہ مردار ہے) تو آپ نے فرمایا:(انما حرم اكلها)

(اس کھانا حرام ہے)


حواشی.......................

1۔فتح الباری لابن حجر ج8ص207'492اعلام الموقعین ج1ص39

2۔ فتح الباری ج8ص191

3۔نفس مصدر ج12ص200

4۔شرالمنار ص289'294 ارشاد الفحول ص138'139'143'144

5۔ فتح الباری ج5ص281ج2ص162

6۔الاحکام للامدی ج2ص22

7۔تفسیر الکبیر للرازی ج4ص501

8۔تحقیق الکلام للمبارکفوری ج2ص59بحوالہ تفسیر نیشاپوری

9۔کمافی غیث الغمام للکنوی ص205

10۔غیث الغمام للکنوی ص 77

11۔تحقیق الکلام للمباکفوری ج2ص58۔59

12۔کمافی فتح الباری ج2ص25'148ج12ص621معالم السنن ج1ص389

13۔ کمافی فتح الباری ج12ص18

14۔نفس مصدر ج2ص175ج5ص191'192

15۔ نفس مصدر ج2ص52تا59

16۔ نفس مصدر 12ص56تا89

17۔ نفس مصدر ج 5ص7

18۔ نفس مصدر ج 1ص50

19۔ نفس مصدر ج 4ص343

20۔ نفس مصدر ج 9ص187

21۔ نفس مصدر ج 9ص211

22۔ نفس مصدر ج2ص25

23۔ نفس مصدر ج2ص416

24۔ نفس مصدر ج 9ص399

25۔کما فی مقدمہ تحفہ الاحوذی للمبارکفوری ص 24

26۔غیث الغمام لابو الحسنات عبدالحئی اللکنوی ص277'278

27۔حصول المامول من علم الاصول للنواب صدیق حسن خان ص59

28۔ فتح الباری لابن حجر ج13ص237تا239(ملحقا) وقواعدالتحدیث للقاسمی 149تا150

29۔الاعراف 204

30۔تفسیر احمد للملاجیون

31۔خیر الکلام للحافظ کوندلوی ص 404تا406

33۔تحقیق الکلام للمبارکفوری ج2ص59

34۔کما فی توضیح الکلام ج2ص119

35۔فتح الباری ج13ص235

36۔تاریخ ابن خلکان ج1ص439الطبقات الکبری للسبکی ج1ص253

مناقب الامام الشافعی للبہیقی الانصاف مع الکشاف لشاہ ولی اللہ ص28حجۃ البالغہ لشاولی اللہ ج1ص142

37۔الرسالہ للامام الشافعی ص 24تا73

38۔ الاحکام لابن حزم ص189

39۔ سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج3ص135الاحکام لابن حزم ص189

40۔النجم3تا4

41۔الاحزاب 21

42۔النساء82

43۔النساء 24

44۔صحیح البخاری مع فتح الباری ج9ص120صحیح المسلم کتاب النکاح 1408مؤطاج2ص532سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج2ص183جامع الترمذی مع تحفہ الاحوذی ج 2ص189تا190سنن النسائی کتاب النکاح 2ص98تا99

45۔ فتح الباری ج9ص162

46۔رسالہ تدبر لاہور عدد37ص36مجریہ ماہ نومبر 1991

47۔النساء11

48۔ جامع الترمذی مع تحفہ الاحوذی ج3ص184سنن ابن ماجہ 2645'2735

49۔ صحیح البخاری مع فتح الباری ج12ص50،صحیح المسلم کتاب الفرائض1214،

سنن ابی داؤد مع عون المعبودج3ص84، جامع الترمذی مع تحفہ الاحوذی ج3ص182،الکفایہ فی علم الروایہ للخظیب ص13 ،مؤطا کتاب الفرائض ج2 ص519

50۔ صحیح البخاری مع فتح الباری ج12ص6صحیح المسلم کتاب الجہاد 1760،235

51۔المائدہ38

52۔ صحیح البخاری مع فتح الباری ج12ص96سنن ابی داؤد مع العون ج3ص84

جامع الترمذی مع تحفہ الاحوذی ج2ص330

53۔ مصنف عبدالرزاق ج1ص223،235تفسیر القرطبی ج2ص 160 المغنی لابن قدامہ ج8ص242

54۔ سنن الکبریٰ للبیہقی ج8ص260، المغنی لابن قدامہ ج8ص242

55۔ مصنف عبدالرزاق ج10ص236،مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص124سنن الکبریٰ للبیہقی ج8،ص259،کنزالعمال للمتقی الہندی ج8،ص53،

56۔تحفہ الاحوذی للمبارکفوری ج2ص331،

57۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص124،تفسیر القرطبی ج2ص 161، المغنی لابن قدامہ ج8ص242، کنزالعمال للمتقی الہندی ج8،ص139

58۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص124 ج2ص124سنن الکبریٰ للبیہقی ج8،ص160،کتاب الخراج لابی یوسف ص201 تفسیر ابن کثیر ج2ص52،اختلاف ابی حنیفہ وابی لیلیٰ ص155،

59۔۔ مصنف عبدالرزاق ج10ص233، سنن الکبریٰ للبیہقی ج8،ص 260،

60۔فتح الباری لابن حجر ج12ص303بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد لابن رشد ج2ص373،شرح عمدہ الرعایہ للکنوی ج4،ص128تا129، التعلیقات السلفیہ للفوجیانی علی سنن النسائی ج2 ص253تا254

61۔النساء آیت:23

62۔کتاب الرضاع ابواب نمبر 17،20،23،سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج2،ص182جامع الترمذی مع تحفہ الاحوذی ج2،ص 198،سنن النسائی کتاب النکاح باب نمبر 51 سنن ابن ماجہ کتاب االنکاح باب نمبر35،

63۔ االمائدہ :3

64۔فتح الباری لابن حجر ج9ص258