عربی اور اردو زبانوں کے خلاف پنجاب اسمبلی میں آواز
رکن صوبائی اسمبلی جناب عبدالرشید بھٹی نے گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں پنجاب کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے قومی زبان اور قرآن کی زبان، عربی کی جس طرح مذمت فرمائی، اس سے عام پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں مثلا اسرائیلی، بلوچی، پشتو، وغیرہ کی ترویج و اشاعت کے حق میں آواز اٹھانا کوئی غیر مستحسن بات نہیں ہےلیکن کیا ضروری ہے کہ ایک چیز کی حمایت کو دوسرے کی مذمت سے مشروط کر دیا جائے۔ یہ بات سمجھ میں نہین آ سکی کہ مسعود کھدرپوش اور ان کی فکر سے متاثر حضرات ہمیشہ اردو اور عربی زبانوں پر کیوں برستے رہتے ہیں جو مملکت پاکستان میں ابھی تک اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر سکی۔ ان کے بیانات کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا اصل مقصود پنجابی زبان کی پُر شور وکالت نہیں ہے، بلکہ اردو اور عربی زبان کی بھرپور مذمت ہے۔ کیونکہ جن لوگوں نے محض زبانی جمع خرچ کی بجائے فی الواقع خطہ پنجاب کی ماں بولی کی خدمت کی، ان کی جانب سے کبھی اردو یا عربی زبان کے خلاف حرفِ مذمت ادا نہیں ہوا۔ بابا فرید گنج شکر، وارث شاہ، میاں محمد بخش، سلطان باہو، باب بلھے شاہ، اور شاہ حسین کی شاعری کے بغیر پنجابی زبان و ادب اس طرح ہے جیسے کسی جسم سے روح نکال دی جائے۔ وہ آج بھی پنجابی شاعری کے بنیادی ستون سمجھے جاتے ہیں۔ کیا ان میں سے کسی ایک برگزیدہ ہستی نے کبھی شکایت کی کہ عربی زبان کو ان پر مسلط کر دیا گیا ہے؟ یہ شرف محض آج کے کوتاہ فکر زبانی جمع خرچیوں کو حاصل ہے کہ عملا وہ پنجابی زبان کی قابل قدر خدمت کرنے کی توفیق سے تو محروم ہیں البتہ بیان بازی کا مستقل شغل ضرور اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ ان حضرات کی طرف سے انگریزی زبان کے خلاف ان شدید جذبات کا اظہار دیکھنے میں نہیں آتا جس کا تختہ مشق وہ عربی اوراردو زبانوں کو بناتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جناب عبدالرشید بھٹی نے فرمایا کہ
"آج تک جتنی بھی آسمانی کتابیں اتریں، وہ سب اُن قوموں کی اپنی زبانوں میں نازل ہوئیں لیکن ہم پر اردو کے علاوہ عربی بھی مسلط کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں ہم مذہب سے دور ہو گئے ہیں اگر ہم پانچ وقت اذان عربی کی بجائے اپنی زبان میں سنیں اور نماز بھی اپنی زبان میں ادا کریں تو ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو" (نوائے وقت 24 جون 1995ء)
جناب عبدالرشید بھٹی نے اہل پنجاب کی مذہب سے دوری اور ان میں پائے جانے والے قول و فعل کے تضاد کی جو تشخیص فرمائی ہے، اس سے ان کے لم و دانش اور تنقیدی شعور کی سطح کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ایسے عجوبہ روزگار قسم کے "دانشوروں" کا وجود نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ بقول غالب
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں زبان و ادب کے کردار پر معمولی سی نگاہ رکھنے والا شخص بڑی آسانی سے ان کے طرز استدلال کے بودے پن کو محسوس کر سکتا ہے۔ ان کے بیان کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن میں آتے ہیں جن کا جواب دینا ان کی ذمہ داری ہے۔
کیا فاضل رکن اسمبلی یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ عبرانی اور عربی زبانوں کے علاوہ کن زبانوں میں آسمانی کتب نازل ہوئیں؟ پاکستان کے بڑے شہروں کی آبادی کثیر اللسان ہے۔ مساجد میں وہ عام طور پر زبان کی تفریق سے بالا ہو کر حاضری دیتے ہیں، اگر مقامی زبانوں میں اذان و نماز کی بدعت ڈال دی جائے تو ایک نیا لسانی فتنہ کھڑا نہیں ہو جائے گا؟ کیا وہ خدائے پاک سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں کوئی وحی نازل کیوں نہیں ہوئی، کیا عربی زبان کی افادیت سے انکار ممکن ہے؟ اس طرح کے متعدد سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں۔
ان کے بیان کا یہ حصہ کہ "ہم پر عربی زبان مسلط کر دی گئی ہے" بھی ناقابل فہم ہے۔ آخر کس نے ان کو پابہ زنجیر کر کے ان کے حلق سے عربی زبان اُتاری؟ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی حکومتوں نے عربی زبان کی وہ سر پرستی نہیں فرمائی جس کی شدید ضرورت تھی۔ برصغیر پاک و ہند سے مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کے بعد انگریزوں نے پہلا قدم عربی وفارسی زبانوں کو دیس نکالا دینے کی صورت میں کیا، اور وہی صورت اب تک چلی آتی ہے۔ اب صرف عربی مدارس کے گِنے چُنے طلباء ہی ہیں جو عربی زبان کو کسی نہ کسی طرح سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ فاضل رکن اسمبلی دوران تقریر ہوا میں تیر چلا رہے تھے اور بے بنیاد مفروضات کی بنیاد پر رنگِ خطابت دکھا رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے زبان و نسل کی بنیاد پر قومیت پرستی کا جو فتنہ آج سے دو سو سال پہلے کھڑا کیا تھا، اس سے بعض مسلمانوں کے ذہن بھی متاثر ہوئے ہیں، وہ یورپ کی فکری محکومی کے زیر اثر حقائق کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی عادی نہیں ہیں۔ اہل پنجاب کی مذہب سے دوری کو عربی زبان میں نماز ادا کرنے سے منسلک کرنا نہ صرف کج فہمی کی دلیل ہے بلکہ تناقضِ فکر کا شاہکار بھی ہے۔
اسلام اور عربی باہم لازم و ملزوم ہیں، ایک کی تقویت منطقی طور پر دوسرے کی تقویت پر منتج ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امتِ مسلمہ کو جسدِ واحد سے تشبیہ دی۔ ملتِ اسلامیہ میں اتحاد و یک جہتی کو فروغ دینے کے لئے عربی زبان سے زیادہ موژر کوئی اور زبان نہیں ہو سکتی۔آکر یہ کیونکر فرض کر لیا گیا ہے کہ عربی زبان میں اذان و نماز ادا کرنے سے اہل پنجاب میں مذہبی دوری پیدا ہو گئی ہے۔ مذہبی وابستگی اور رُشد و ہدایت کا تعلق کسی مخصوص زبان میں اظہار سے زیادہ سلیم الفطرت ہونے اور توفیق خداوندی کے عطا ہونے میں ہے۔ اگر فاضل رکن اسمبلی کے مفروضات کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ عربی زبان بولنے والے بعض گروہِ ملاحدہ کے متعلق کیا ارشاد فرمائیں گے؟ دور جدید کی شام، مصر، جنوبی یمن اور عراق کی اشتراکی اور سیکولر حکومتیں ان کے اس دعوے کی تردید کے لئے کیا کافی نہیں ہیں۔ مذہب سے دوری کا بنیادی تعلق قرآن مجید اور دیگر الہامی کتب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے تناسب پر ہے۔ کیا انگریز بائیبل کا انگریزی میں ترجمہ کرنے اور دیگر مذہبی رسومات کو انگریزی میں ادا کرنے سے مذہب کے قریب آ گئے ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ اصل کتب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اہل پاکستان میں بالعموم اور اہل پنجاب میں بالخصوص مذہبی دوری کی وجوہات کا تعیین کرنا زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کا حقیقت پسندانہ اور معروضی جائزہ لیں، تو یہ بات اظہر من الشمس ہو گی کہ اس مذہبی دوری کے پس پشت محرکات میں، ذرائع ابلاغ کا منفی کردار، مذہب بیزار علوم کی سر پرستی و اشاعت، مادہ پرستی و جنسی ہوس ناکی کی بنیاد پر فروغ پانے والی تہذیبِ مغرب کی مجنونہ تقلید، قرآن و سنت کی تعلیمات میں عدم دلچسپی اور اسے محض مُلا کا شغل قرار دینے کی مجرمانہ روش، ثقافت کے نام پر ثقافت، عریانی، فحاشی اور اخلاق باختگی کی حوصلہ افزائی، اسلامی نظام کے مقابلے میں مغرب سے اُدھار لئے ہوئے نظام کا عمل نفاذ، اسلام سے فقط جذباتی تعلق اور اس طرح کے متعدد عناصر کے عمل دخل کو آخر کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ فاضل رکن اسمبلی نے ان وجوہات سے آخڑ اغماض کیوں برتا؟
یہ محض دعوی نہیں بلکہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی زبان فصاحت و بلاغت اور حسنِ اظہار کے اعتبار سے عربی زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قواعد، تلفظ، الفاظ کی بندش، صنائع و بدائع، مخرج و مشتق، ایجاد و اختصار، آہنگ و صوت اور اعراب و اوقاف کی جو باریکی و گہرائی عربی زبان میں ملتی ہے۔ دنیا کی کوئی زبان عربی کے اس فخڑ میں شریک ہونے کی دعویدار نہیں ہو سکتی۔ عربی زبان کی وُسعت اور پھیلاؤ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ہر مصدر سے دو سو کے قریب نئی تراکیب اور الفاظ بنائے جا سکتے ہیں۔ انگریزی زبان میں بیش بہا جدید علوم کے ذخیرے کے باوجود اس کی تنگ دامنی ملاحظہ ہو کہ ماموں، چچا، پھوپھا اور خالو کے لئے ایک ہی لفظ "انکل" بولا جاتا ہے۔ اسی طرح "کزن" اور "آنٹی" کے الفاظ کئی رشتوں پر محیط ہیں۔ تذکیر و تانیث میں بھی بعض اوقات الگ الگ الفاظ کی بجائے "He"اور "She" کے اضافہ سے مطلب نکالا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عربی زبان کی فصاحت ملاحظہ ہو کہ اس میں مہینے کی ہر رات کے لئے الگ الگ الفاظ موجود ہیں، چاند کی پہلی تاریخ سے لے کر 14 تک کے مختلف نام ہیں۔ مختلف مہینوں کی حاملہ اونٹنیوں کے لئے بالکل جُدا الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ صرف شیر کے لئے 4 سو الفاظ ملتے ہیں۔ اور گھوڑے کے لئے کم از کم تین سو الفاظ، فصاحت و بلاغت اور وسعت پذیری کا یہ معاملہ محض عام بول چال اور معاشرتی لین دین تک محدود نہیں ہے۔ مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک سیاسی ، تہذیبی اور عملی علوم میں عروج دیکھا، یورپ نے ان سے سائنسی علوم سیکھے۔ زبان و ادب کے علاوہ فلسفہ، طب، منطق، کیمیا، تاریخ، فقہ، عمرانیات، علم نجوم، اور جغرافیہ میں مسلمانوں کے شاہکار علمی کارنامے اب بھی ورطہ حیرت میں ڈالتے ہیں۔
مشہور مؤرخ پی کے ہٹی اپنی مایہ ناز تصنیف "تاریخِ عرب" میں مسلمانوں کے شاندار علمی کارناموں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھنے پر اپنےآپ کو مجبور پاتا ہے:
"دنیا کا سب سے بڑا مؤرخ طبری مسلمان تھا، دنیا کا سب سے بڑا جغرافیہ دان المسعودی بھی مسلمان تھا۔ دنیا کا عظیم ترین سائنس دان ابن سینا بھی مسلم تھا اور دنیا نے ابن خلدون کی وفات کے سات سو سال بعد تک بھی اس سے بڑا ماہر عمرانیات نہیں دیکھا۔ ان کے علاوہ زکریا رازی، الخوارزمی، یعقوبی، فارابی، ابن رشد، غزالی، ابن الہیثیم، ابن البیطار، ابوالقاسم الزھراوی، ابن ماجہ اور ان جیسے سینکڑوں حکمائے اسلام کی تصانیف عربی زبان میں تھیں۔ علوم و فنون میں ترقی کے ساتھ ساتھ عربی زبان کا دامن بھی وسیع ہوتا چلا گیا۔ کئی صدیوں تک عربی زبان میں علوم و فنون کا سب زبانوں سے زیادہ ذخیرہ موجود رہا"۔
عربی زبان صرف عربوں کے لئے ذریعہ فکر و مباہات نہیں رہی بلکہ جو بھی اس کے قریب آیا اس کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر اور اس کی نگاہِ ناز کا قتیل ہو کر رہا۔ عربی اپنے علاوہ باقی سب کو "عجم" یعنی گونگا کہتے ہیں لیکن عجمیوں نے بھی عربی زبان پر بعض اوقات اس قدر عبور حاصل کر لیا کہ ان کی لیاقت پر عرب بھی شرمائے۔ محدثین میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ، اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ سب غیر عرب تھے۔ فلسفہ میں فارابی، ابن سینا، ابن طفیل اور ابن باجہ کی مادری زبان عربی نہیں تھی۔ ایران، ترکستان، شمالی افریقہ اور سپین کے مسلمانوں نے عربی زبان کو اپنے علمی کمالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ جہاں جہاں اسلام کی روشنی پھیلی وہاں وہاں "اللہ اکبر" کی صدائے مسحور ک"ن کانوں میں گونجتی گئی اور قلوب "لا الہ الا اللہ" کی مستی میں ڈوبتے چلے گئے۔ ایران ولوں کو اپنی فارسی پر ناز تھا لیکن عربی زبان کے مقابلے میں ان کی مادری زبان کا سکہ نہ چل سکا۔ تاریخ میں کہیں بھی مسلمانوں کی جانب سے مقامی زبانوں مین اذان اور نماز پڑھنے کا مطالبہ ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔ حافظ شیرازی کے کئی اشعار بلکہ بعض پوری غزلیں عربی زبان میں ہیں۔
اہل یورپ نے بھی عربی زبان کی تحصیل میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں جن یورپی مفکرین کا حصہ سب سے نمایاں ہے، انہوں نے عربی سے مختلف فنون میں کتابیں فراہم کیں۔ فرانس بیکن اور ان کے ہم عصر یورپی حکماء عربی زبان کے بہت بڑے عالم تھے۔ گذشتہ چند صدیوں میں سے مشہور فرانسیسی مفکر روسو اپنے قیامِ مصر کے دوران اچھی خاصی عربی سیکھ چکا تھا۔ ڈارون کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے نظریہ ارتقاء پر ابن مسکویہ کی تصانیف کو براہِ راست عربی میں پڑھا تھا۔ مشہور جرمن شاعر گوئٹے عربی زبان کا بہت دل دادہ تھا۔ یورپین مستشرقین اور مؤرخین میں ڈوزی، واشنگٹن ارونگ، لین پول، پی کے ھٹی نے اسلامی تاریخ پر قلم اٹھانے سے پہلے عربی کے بنیادی ماخذوں کا مطالعہ کیا۔
مشرقِ وسطی کی جدید سیاسی تاریخ میں" لارنس آف عریبیہ"کا کردار بے حد ڈرامائی ہے۔ وہ نہ صرف عربی زبان پر عبور رکھتا تھا بلکہ عربوں میں گھل مِل کر رہتا، ان کی تہذیب و ثقافت اپنائے ہوئے تھا۔ عربی زبان کی سب سے بڑی گرامر کسی عرب نے نہیں لکھی بلکہ یہ کارنامہ مشہور مستشرق ابن منظور نے "لساُن العرب" لکھ کر سر انجام دیا ہے۔ احادیث کے مجموعہ صحاح ستہ سے حدیث ڈھونڈنے کے لئے ایک انگریز سکالر نے "المفہرس لالفاط الحدیث" کے نام سے کام کیا ہے۔ یورپ کی کوئی بھی قابل ذکر یونیورسٹی ایسی نہیں ہے جہاں عربی زبان و ادب کے لئے الگ شعبہ موجود نہ ہو۔ افسوس تو یہ ہے کہ اہل یورپ عربی میں شاندار علمی کارنامے سر انجام دیں اور ہمارے مسلمان اس کی ناقدری کرتے ہوئے اذان کو بھی مقامی زبانوں میں دینے کی بات کریں۔
اب ذرا برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ماضی قریب کی تاریخ پر غور فرمائیے۔ جن صاحبانِ علم و دانش نے تاریخ، مذہب اور دیگر علوم میں قابل ذکر تصانیف چھوڑی ہیں ان کی غالب اکثریت عربی زبان کا صاف ستھرا مذاق رکھتی تھی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کا علمی گھرانہ، سرسید احمد خان اور ان کے رفقا، مولاان اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ حسن نظامی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالماجد دریا آبادی رحمۃ اللہ علیہ، سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ، ابوالاعلی موددی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ، علامہ نیاز فتح پوری، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور فیض احمد فیض جیسے اکابرین ِ ملت و معروف علمی و ادبی شخصیات عربی زبان و ادب پر قابل رشک حد تک عبور رکھتی تھیں۔ اب اتنے دیو قامت حضرات پیدا ہونا بند ہو گئے ہیں۔ اس قحطُ الرجالی کی بڑی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے فارسی و عربی کی تحصیل میں دلچسپی لینا کم کر دی ہے۔ اپنے ماضی سے رشتہ کٹ جانے کی وجہ سے سخت علمی انحطاط طاری ہو گیا ہے۔
عربی زبان میں نماز ادا کرنے اور اذان دینے کی اہمیت صرف مذہبی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے مسلمانون کے عظیم تہذیبی تشخص و ثقافتی شناخت کے تحفظ و تسلسل کے یہ دونوں ادارے اہم ترین ذریعہ رہے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے کسی بھاری بھر کم علمی دلیل کی ضرورت نہیں ہےکہ ایسے علاقے جہاں مردر زمانہ کے ساتھ مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت کا خاتمہ ہو گیا، وہاں مسلمانوں کے علیحدہ وجود کا بھی خاتمہ ہو چکا ہوتا، اگر ان علاقوں میں صدائے " لا الہ الا اللہ" کے ساتھ "اللہ اکبر" کی ندائے توحید محکوم مسلمانوں کے کانوں میں مسلسل نہ گونجتی رہتی۔
روس کے جابرانہ تسلط سے حال ہی میں آزاد ہونے والی مسلمان ریاستوں اور اشتراکی چین کے زیر تسلط مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ کی عبرت آموز مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ چند ماہ پہلے مجلس التحقیق الاسلامی کی عمارت میں سنٹرل ایشیاء کی مرکزی ریاستوں سے پاکستان آئے ہوئے ایک بیس رُکنی وفد سے راقم کو ملنے کا اتفاق ہوا۔ وفد کے ارکان اپنی ریاستوں کے اعلیٰ عدالتوں کے جج اور پولیس کے سینئر افسران تھے، جو پاکستان میں "جرم و انصاف" کے موضوع پر چھ ہفتوں کی تربیت کے ضمن میں آئے تھے۔ اس مجلس میں محترم جسٹس (ریٹائرڈ) رفیق تارر صاحب اور جسٹس خلیل الرحمن صاحب بھی موجود تھے۔ دوران گفتگو یہ جان کر بے حد افسوس بلکہ صدمہ ہوا کہ وفد کے معزز ارکان اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی بے بہرہ تھے۔ کلمہ طیبہ کے علاوہ عملا انہیں کچھ بھی تو معلوم نہ تھا۔ تاجکستان سے تشریف لائے ہوئے ایک اعلیٰ پولیس افسر سے جب راقم نے "مکۃ المکرمہ" کے بارے میں استفسار کیا تو وہ ندامت کی تصویر بن گئے اور مجھ سے ہی اس کی وضاحت چاہی۔ لیکن وفد کی اکثریت اذان کے الفاظ سے واقف تھی اور مطالب بھی یاد تھے۔ وہ اس لئے کہ وہاں اشتراکی جابرانہ دور کے دوران بھی پیدائش کے بعد بچوں کے کانوں میں اذان دینے کی رسم جاری رہی۔ حال دیگر اہل علم حضرات حال ہی میں چین کے مسلم علاقوں کا دورہ کر کے تشریف لائے ہیں، وہاں کی جو تصویر وہ پیش کرتے ہیں، وہ بے حد المناک ہے۔ مسلمانوں کو آہستہ آہستہ "مسلم نام" نہ رکھنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ البتہ وہاں بھی "اذانِ بلالی" کی صدائے ایماں اب بھی مسلمانوں کا ان کے شاندارماضی سے رشتہ جوڑے ہوئے ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنے "شہاب نامہ" میں صوبہ بہار کے ایک دو دراز شہر میں بطور سب ڈویژنل آفیسر کے اپنی تعیناتی کے واقعات و مشاہدات لکھتے ہوئے اس علاقے کے مُلا اور علماء کے کردار کو سراہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہاں اگر مسلمانوں کا الگ تشخص تھوڑا سا قائم ہے تو محض مُلا کی بے غرض کوششوں کی وجہ سے،جنہوں نے ہر حالات میں مسلمانوں کو اُن کے تہذیبی سرمائے سے دور نہیں ہونے دیا۔ وہاں کی بظاہر ویران مساجد میں بھی "اذان" کی سحر انگیز آواز سن کر وہاں بسنے والے قلیل مسلمانوں کے وجود کا احساس ہوتا ہے ورنہ رہن سہن اور دیگر سماجی معاملات میں ان کو ہندوؤں سے الگ کرنا بے حد مشکل ہے۔
برصغیر پاک و ہند اور دیگر مسلما اکثریتی علاقوں میں سفر کرنے والے یورپین سیاحوں نے مساجد میں علی الصبح نماز فجر کے لئے دی جانے والی اذانوں کی سحر انگیز گونج کی دل پذیری اور حلاوت کا ذکر خصوصیت سے کیا ہے اور اسے مسلم ثقافت کے نشان امتیاز سے تعبیر کیا ہے۔ جس شخص کو خدائے عزوجل نے سحر خیزی کی توفیق بخشی ہو، وہی صبح کی اذان کی اثر انگیزی اور اس سے پیدا ہونے والی قلب و نظر کی وجد آفرین کیفیات کو محسوس کر سکتا ہے۔
"دی آکسفورڈ انسائیکلو پیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ" کی یہ سطور ملاحظہ ہوں:
"The most characieristic sound of devotional Expression in Muslim communties may be the call to prayer (adhan) and the reciation of Quran (Quran-Al-Quran) Neither of these is considered by Muslim to be Music rather. They are texts that are delivered and sometimes amplified or enhanced, using selected musical devices. Which are always subordinate to the text. In Middle Eastern Communities. These sounds are familiar to almost everyone. The call to prayer is heared five times daily, often board cast over loud speakers from mosques. Quranic recitation permeates life..... similar sounds signty Muslim Community life world wide. (Page 364,Vol:1)
"مسلم معاشرے میں مذہبی صوتی اظہار کی نمایاں ترین صوت نماز کے لئے آواز (اذان) اور تلاوتِ قرآن مجید کہی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ دونوں صورتیں موسیقی میں شامل نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک نصاب کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کو ادا کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ان کے تاثر اور اثر انگیزی کو بڑھانے کے لئے موسیقی کی کچھ منتخب تراکیب بھی استعمال کی جاتی ہیں، البتہ وہ اصل نصاب کے تابع ہی رہتی ہیں۔
مشرقِ وسطی میں یہ آوازیں تقریبا ہر ایک کے لئے جانی پہچانی ہیں۔ روزانہ پانچوں وقت اذان سُنی جاتی ہے، اکثر اوقات اسے مساجد کے میناروں میں نصب لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے نشر کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت حیات افروز ہے۔۔۔۔ اس طرح کی آوازیں پورے عالم کے مسلم معاشروں کی تشخیص کی علامت ہیں" (صفحہ 364)
نماز اور ازان تو ایک طرف عرصہ دراز تک ملتِ اسلامیہ نے قرآن مجید کا کسی اور زبان میں ترجمہ جائز قرار نہیں دیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس وقت کے علماء کی اکثریت نے ان کی اس کاوش کی زبردست مخالفت کی اور اسے تحریفِ قرآن کے مترادف قرار دیا۔ مسلمانوں کو قرآن مجید کے اصل متن سے جس قدر عقیدت اور مناسبت رہی ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امر ہرگز تعجب انگیز نہیں ہے کہ آج بھی قرآن مجید کے اردو اور دیگر زبانوں میں تراجم عربی متن کے ساتھ شائع ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل کسی شخص نے لاہور سے عربی متن کے بغیر قرآن مجید کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا، اس کی اس قدر شدید مخالفت کی گئی کہ وہ دوبارہ شائع نہ ہو سکا۔
قرآن پاک کو نہ صرف تحریر میں بلکہ زبانی ادائیگی (ترتیل و تلاوت) میں بھی محفوظ کر لیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کے سات معروف لہجے (سبع قرات) آج بھی ویسے ہی مقبول و محفوظ ہیں جیسے کہ چودہ سال پہلے۔ دنیا کی کسی دوسری کتاب ، الہامی یا غیر الہامی، کو یہ مقام و منزلت حاصل نہیں ہے۔ قرآن مجید کا یہ بھی اعجاز ہے کہ اسے ساٹھ سال کا بوڑھا بھی یاد کر سکتا ہے اور آٹھ سال کا بچہ بھی۔ جناب طارق صدیقی، وفاقی سیکرٹری (ریٹائرڈ) جناب محمد شفیع غوری، ایڈیشنل کمشنر (ریٹائرڈ) ان خوش بخت افراد میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن مجید سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد حفظ کیا۔ اسی طرح کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
کوئی کتنا ہی گیدی خر، گاؤدی اور کم عقل کیوں نہ ہو، آخر کتنی دیر میں نماز یاد کر لے گا؟ اذان اور نماز وغیرہ کے مطالب سیکھنے کے لئے کتنے دن چاہیئں؟ ایک اوسط عقل کے فرد کے لئے ایک ہفتے میں ان کو سمجھنا اور یاد کرنا مشکل نہیں ہے۔ اگر ایک شخص اپنی زندگی میں ایک ہفتہ بھی اس مقصد کے لئے نہیں نکال سکتا تو وہ مسلمان کہلانے کا دعوی کس منہ سے کر سکتا ہے؟ جناب والا! آپ اعتراف کیوں نہیں کر لیتے کہ قرآن و سنت کی محبت آپ کے دلوں سے اُٹھ گئی ہے۔ بات سیدھے سبھاؤ کرنے کی بجائے اپنے نفس باطل کو "مذہبی دوری" کے فریب خوردہ لبادے میں اوڑھ کر کیوں دکھاتے ہیں؟
قیام پاکستان کے فورا بعد آغا خان سوم نے عربی زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جاتی تو آج نہ تو انگریزی کا استعماری تسلط برقرار رہتا اور نہ ہی جناب عبدالرشید بھٹی جیسے "دانشوروں" کو فلسفیانہ موشگافیوں کرنے کا موقع ملتا۔
جناب عبدالرشید بھٹی نے اپنے محولہ بالا خطاب میں عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ اردو زبان محض ایک زبان نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیب ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے شاندار پہلوؤں کو اپنے اندر جذب کیا ہوا ہے۔ یہ کسی خاص خطہ کی زبان نہیں ہے۔ یہ ایک گلدستہ ہے جس کی جمال آفرینی میں فارسی اور عربی زبان کے پھولوں کے علاوہ ہندی اور پنجابی زبان کی خوش رنگ پنکھڑیوں کا بھی حصہ ہے۔ اس کی رگوں میں پنجابی زبان کا گرم خون اس طرح دوڑ رہا ہے جس طرح اس کے دل و دماغ میں عربی کی حکمت اور فارسی کی حلاوت رچی بسی ہوئی ہے۔ ایک عظیم الشان زبان جس کے سینے میں مسلمانوں کا عظیم علمی و ثقافتی ذخیرہ محفوظ ہے۔ اس کی سرپرستی کی بجائے اس کے خلاف محاذ آرائی برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے تاریخ سے سنگیں روگردانی ہے۔
پاکستان میں اردو زبان کی ترویج و ترقی کی جس قدر ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔
بھارت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندی کو اردو زبان کی جگہ دے دی ہے۔ وہاں کی اردو زبان میں مستعمل عربی اور فارسی کی اصطلاحات و تراکیب کی جگہ ہندی اور بھاشا کے متبادلات و یو-پی جیسے صوبے میں بھی اردو زبان کے تحفظ کی ساری کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ اب اردو زبان کا مستقبل صرف پاکستان سے وابستہ ہے۔
کیا فاضل رکن اسمبلی اردو زبان کے ساتھ پاکستان میں بھی وہ سلوک دیکھنا چاہتے ہیں جو بھارت کی متعصب ہندو جنتا روا رکھے ہوئے ہے؟
جب سے سندھ میں اردو سندھی کے لسانی جھگڑے نے سر اٹھایا ہے، پاکستان کے ایک مخصوص طبقے نے اردو بولنے والوں کی مکالفت کے جوش میں خود اردو زبان کے خلاف نیا محاذ قائم کر لیا ہے۔ کبھی یہ محاظ مقامی زبانوں کی ترویج کے دعووں کی صورت میں رونما ہوتا ہے تو کبھی کسی اور شکل میں۔ اگر آج مہاجر قومی موومنٹ کے ایک طبقے سے بالفرض کوئی جرم و سرزد ہوا ہے تو اس میں اردو زبان کا کیا قصور ہے۔ اگر زبان کے بولنے والوں کے جرم کی وجہ سے زبانوں کی حمایت یا مخالفت کی جائے تو انگریزوں سے زیادہ دور جدید میں کسی قوم نے برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا۔ جب ان کے مصدقہ ظلم و ستم کے باوجود انگریزی زبان کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاتا تو پھر ایم-کیو-ایم کی وجہ سے اُردو زبان کی مخالفت کہاں تک جائز ہے؟
اسمبلیوں کے ارکان ایوان اسمبلی میں، اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ عوامی نمائندے کی حیثیت سے بات کرتے ہیں۔ کیا جناب عبدالرشید بھٹی یہ وضاحت کریں گے کہ انہوں نے مزعومہ بیان رائے عامہ کی ترجمانی کرتے ہوئے دیا؟ اگر نہیں، بلکہ یقینا نہیں، تو پھر وہ عوامی ووٹ کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ رائے عامہ کی اس ننگی توہین کرنے والے شخص کو ان کی نمائندگی کا تاج سر پر سجانا کہاں زیب دیتا ہے۔ ہماری اسمبلیوں کے فاضل ارکان جو معمولی سی باتوں پر ذاتی استحقاق کا معاملہ کھڑا کر دیتے ہیں، انہوں نے کھل کر عبدالرشید بھٹی کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ سیاسی رفاقت کی بنیادی پر اتنے بڑے مسئلے پر خاموش رہنا کہاں کی دینداری ہے؟ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی رکن اسمبلی کے خلاف قراردادِ مذمت پاس کریں تاکہ آئندہ کوئی بھی رکن اپنے ہفواتی فرمودات کے اظہار کے لئے ایوان کو استعمال نہ کرے۔ دیگر اربابِ حل و عقد کو بھی اس غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے