تفسیری افادات۔۔۔۔۔ از حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ

راقم الحروف ، طالب علمی کے زمانہ سے امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصانیف کے مطالعہ کا شیدائی رہا ہے، خاص طور پر حافظ ابن قیم کے تفسیری نکات نے بہت زیادہ متاثر کیا۔

آج سے پچاس سال قبل جب کہ میں مالیر کوٹلہ میں مدرسہ کوثر العلم میں مدرس تھا، یہ کوشش کرتا رہا کہ حافظ ابن قیم کی تمام تصانیف جمع کی جائیں اور ان میں سے تفسیری اجزا علیحدہ کر کے ان کا ترجمہ یا تلخیص کر دی جائے۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے کئی تصانیف میں سے تفسیری مباحث کا ترجمہ کیا گیا۔ زیادہ تر بدائع الفوائد کے چار اجزا میں سے تفسیری نکات کا ترجمہ کیا گیا ہے۔

ظاہر بات ہے، یہ ترجمہ پچاس سال پہلے کا ہے، ہو سکتا ہے کہ کہیں ترجمہ میں روانی محسوس نہ ہو یا کہیں جھول نظر آئے یا ترجمہ غلط ہو جائے۔ اس لیے قارئین کرام سے درخواست ہے کہ جہاں کہیں وہ ترجمہ میں غلطی محسوس کریں تو الدين النصيحة کے مطابق اپنی تصحیح سے مطلع فرمائیں۔

واضح رہے کہ اس ترجمہ کے کافی عرصہ کے بعد ایک کتاب "التفسیر القیم" کے نام سے جس میں مولانا محمد اویس ندوی مرحوم نے تمام تفسیری عبارات ابن قیم کی مختلف تصانیف سے انتخاب کر کے یکجا کر دی ہیں، دستیاب ہوئی۔ ان تفسیری افادات کے مطالعہ سے اچھا خاصہ تفسیری ذوق پیدا ہو سکتا ہے اور سلف صالحین کے طریقہ کار کو دائرہ میں رہتے ہوئے فہم قرآن کا ذوق حاصل ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حقیر کاوش کو قبول فرمائے اور توشہ آخرت بنائے۔(مترجم)

تفسير النصف الآخر من سورة الفاتحة


چند سوالات

سوال: (صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ) لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں یہ فقرہ بدل واقع ہوا ہے۔ جس سے صراط مستقیم کی تشریح و توضیح مقصود ہے۔ لیکن یہاں تو مخاطب اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے حضور میں اس کی وضاحت کی ضرورت ہی کیا ہے؟

جواب: اس آیت کا نزول بندوں کی تعلیم کے لیے ہوا ہے۔ یہاں یہ جتلانا مقصود ہے کہ دعا کرنے والے کو دعا کے وقت اس امر کا احساس و خیال ہوناچاہیے کہ کس قسم کا عقیدہ رکھنا لازمی ہے۔ جس سے اس کے عقیدہ ایمان کی پرورش کامل طور پر ہو سکے۔ کیونکہ دعا، عبادت کا مغز ہے اور مغز ہڈی میں ہوتا ہے اور ہڈی گوشت و خون میں ہوتی ہے۔

جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ عقیدہ ایمان کا تصور دعاء کے وقت ضروری ہے تو یہ امر بھی لازم ہو گیا کہ خدا سے طلب ، التماس اور سوال حمدوثناء کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سورة فاتحہ میں طلب ہدایت کے الفاظ ہیں، خیر و سعادت کی آمیزش بھی ہے۔ گویا داعی اس طرح اپنے اعتقاد کو بھی ظاہر کر رہا ہے اور ساتھ ہی اس صحیح عقیدے کے ذریعہ کہ راہ حق وہ صراط مستقیم ہی ہے اور یہ بھی یہ یہ راہ ان لوگوں کی ہے جن کو خدا نے اپنی نعمت و رحمت سے نوازا ہے، داعی خدا کے حضور میں پہنچنا چاہتا ہے۔ جب بندہ (ٱهْدِنَا ٱلصِّرَ‌ٰ‌طَ ٱلْمُسْتَقِيمَ) کہتا ہے اور مخالفین حق کو بھی یہی کہتے ہوئے سنتا ہے کہ ہم بھی حق پر ہیں۔ تو ایسے وقت میں بندے پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ان کے خلاف عقیدہ رکھے اور اس حق کے ظاہر کرنے کی کوشش کرے جو واقعی حق ہے۔ اس لیے (صِرَ‌ٰ‌طَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ) بطور بدل وضاحت کے لیے لایا گیا ہے تاکہ زبان بھی اسی حق کے اظہار کی عادی ہو جائے۔ جو دل میں پیوست ہے۔ یہ اہم دعا دو بڑے فائدوں پر مشتمل ہے:

1۔ فائدہ الخبر، یعنی رستہ کی استقامت کے بارے میں خبر دینا اور یہ بتلانا کہ یہ رستہ وہی ہے جواس نے اپنے اہل نعمت کے ساتھ خاص کیا ہے۔

2۔ لازم فائدہ الخبر، یعنی داعی خود اس راہ کی استقامت (سیدھے ہونے) کا اقرار کرتا ہے۔ اور اس اقرار کے بعد اپنے رب کے قرب چاہتا ہے۔

الحاصل یہ آیات چار فوائد پر مشتمل ہیں:

1۔ اس راہ مستقیم کی طرف ہدایت کی دعا مانگنا۔

2۔ اس دعا کے ذریعہ رستہ کی استقامت کی خبر دینا۔

3۔ اس استقامت کی تصدیق و اعتراف۔

4۔ اس تصدیق کے ذریعہ خدا سے قرب حاصل کرنا۔

پانچواں فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کا حکم اس لیے دیا ہے کہ یہ بندہ اس کا محتاج ہے اور یہ کہ نجات و سعادت کا دارومدار محض اسی کی ذات پر ہے۔ ایسی صورت میں بندہ پر لازم آتا ہے کہ جو کچھ وہ طلب کرتا ہے اس پر غور کرے۔ اور معافی کے فہم و تدبر میں پوری کوشش صرف کر دے۔ یہاں "الصراط" کے وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں کہ اگر بندہ ان پر غور کرے، اور کامل توجہ سے کام لے۔ تو اس سوال و طلب کی رغبت و حرص میں مزید اضافہ ہو جائے۔ اور اس سے اپنے آپ کو کبھی بھی بے نیاز نہ پائے۔

سوال2: "الصراط" پر ال تعریف کے لیے کیوں لایا گیا ہے۔ نکرہ لانے میں کیا قباحت تھی؟

جواب: عربی بلاغت کا یہ قاعدہ ہے کہ جب موصوف پر الف لام داخل ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ موصوف اس صفت کا زیادہ حقدار ہے۔

حدیث میں ہے"انت الحق ووعدك الحق وقولك الحق" اخیر میں فرمایا "والجنة حق والنار حق " مزکورہ بالا قاعدہ کی روشنی میں اس روایت کے الفاظ میں غوروفکر کریں۔ایسی اشیاء کے ناموں کے بعد حق پر الف لام نہیں لایا گیا ہے جو غیر قدیم (حادث) ہیں یعنی جنت اور جہنم لیکن اسم رب ، اس کے وعدہ اور کلام کے بعد حق پر ال لایا گیا ہے۔

اگر اهدنا صراطا مستقيما کہا جاتا تو یہ معنی ہوتے کہ ایک غیر معین رستہ کی طرف ہدایت کر دے۔ حالانکہ یہاں وہ معین رستہ مراد ہے جو رب تعالیٰ نے اپنے انعام یافتہ بندوں کے لیے بنایا ہے۔ اور اسی راہ پر چل کر انسان اپنے کالق کی رضا اور خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہ حق وہی دین حق ہے جس کے علاوہ کوئی دین بھی صحیح معنوں میں دین کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ یہی دین ہے جو ایک جانا بوجھا راز ہے۔ جس کی معرفت ، تصدیق اور تمام غلط راہوں سے اس کی امتیازی شان دل میں سمائی ہوئی ہے۔ اسی بنا پر صراط کو یہاں معرفہ لایا گیا ہے۔

سوال 3: مندرجہ ذیل آیات میں صراط کو نکرہ کیوں لایا گیا ہے:

(1) ﴿وَيَهْدِيَكَ صِرَ‌اطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢﴾... سورة الفتح

(2) ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٢﴾... سورة الشورى

(3) ﴿وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٨٧﴾... سورة الانعام

(4) ﴿قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَ‌بِّي إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ...﴿١٦١﴾...سورةالانعام

جواب: ان سب آیات کا حل ایک ہی ہے۔ ان آیات میں جملہ خبریہ مستعمل ہے۔ صراط مستقیم کے بارے میں خبر دی جارہی ہے۔ طلب و سوال مقصود نہیں ہے۔ الف لام کو وہاں لایا جاتا ہے جہاں عبارت میں پہلے اس کا ذکر آچکا ہو یا مخاطب کو پہلے سے علم ہو۔ یہاں دونوں باتوں میں سے کوئی بھی نہیں پائی جاتی۔ لہذا نکرہ لایا گیا ہے۔ اسم کی اصل حالت تنکیر (نکرہ لانا) ہی ہے۔ سورة الفاتحہ میں معاملہ ہی دوسرا ہے۔ جب مونین کے نزدیک ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک صراط مسقتیم ہے۔ جس کی طرف اس نے اپنے پیغمبروں کو ہدایت فرمائی ہے تو اب دعا کے مقام پر یہ امر واضح ہے کہ جس سے ہدایت طلب کی جا رہی ہے، وہ ہی "الصراط" کا علم رکھتا ہے۔ یہاں الف لام کا لانا عجیب لطافت و حکمت پر مبنی ہے۔ اس مقام پر امام سہیلی رحمة اللہ علیہ نے دوسری توجیہ کی ہے جس کو مصنف رحمة اللہ علیہ نے کمزور قرار دیا ہے۔

سورة الفتح کی ابتدائی آیات کی تفسیر

غور کریں: رب تعالیٰ نے اپنے حبیب خاتم المرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سورة الفتح کی ابتدائی آیات میں پانچ قسم کے عطیات کو بیان فرمایا ہے:

1۔ روشن اور ممتاز فتح و کامیابی

2۔ اگلی اور پچھلی لغزشوں کی معافی

3۔ صراط مستقیم کی طرف ہدایت

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمت کی تکمیل

5۔ کامل نصرت و تائید کی بخشش

اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت و نصرت دونوں کو جمع کر دیا ہے۔ ان دونوں ہی کے ذریعہ فلاح و سعادت کمال کو پہنچتی ہیں۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کے دین کا علم اور اس کی اطاعت کا نام ہے۔ اسی کو علم صالح اور عمل نافع بھی کہہ سکتے ہیں۔

"نصر" سے مراد یہ ہے کہ اس کے دین کو جاری اور نافذ کرنے کی پوری قدرت حاصل ہو۔ یہ نصرت (مدد) دو قسم کی ہے:

1۔ برہان، حجت، قوت بیان، دلائل : اس صورت میں دلوں کو مغلوب و تابع کیا جاتا ہے۔

2۔ تیغ و سنان اور ظاہری اسلحہ:ان کے ذریعے انسانی اجسام کو شکست دی جا سکتی ہے۔

قرآن نے ان دونوں اصولوں کو متعدد جگہ یکجا بیان کیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں کو ذریعہ ہی دین کی تکمیل اور غلبہ دین حاصل ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا:

﴿هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ...﴿٣٣﴾... سورة التوبة

"یعنی خدا وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا، ہدایت اور دین حق دے کر تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے۔"

سورة حدید میں فرمایا:

﴿لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ...﴿٢٥﴾... سورة الحديد

" بے شک ہم نے بھیجا رسولوں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ۔ اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو اُتارا ۔ تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قائم ہو جائیں۔

یہاں الکتاب سے مراد ہدایت ہے۔ اس کے بعد فرمایا:

﴿وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾

"اور ہم نے لوہا اُتارا، اس میں سخت قوت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔"

یہاں الحدید سے مراد مادی قوتیں اور اسلحہ ہے، اس آیت مین بھی ہدایت (الکتاب) اور نصرت (الحدید) کو یکجا ذکر کیا گیا ہے۔ سورة آل عمران کی ابتداء میں ہے:

﴿الم ﴿١﴾ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ﴿٢﴾ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَ‌اةَ وَالْإِنجِيلَ ﴿٣﴾ مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْ‌قَانَ...﴿٤﴾... سورة آل عمران

"اللہ ہی اکیلا معبود ہے، وہ زندہ اور نگران ہے۔ اس نے حق کے ساتھ کتاب کو اُتارا، اس طور کہ وہ پہلی آسمانی کتب کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اور اس نے تورات و انجیل کو اتارا، اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے اور الفرقان نازل کیا۔"

یہاں ہدایت کے ساتھ الفرقان کو بیان کیا گیا ہے۔"الفرقان" سے مراد وہ مدد ہے جس کے ذریعے حق و باطل میں فرق کیا جا سکے۔ یہاں ہدایت و نصرت کو یکجا اس لیے لایا گیا ہے کہ ان دونوں سے حق و باطل میں پورا پورا امتیاز ہو جاتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ نے اپنی نصرت و تائید کو فرقان کہا ہے:

﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْ‌قَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ... ﴿٤١﴾... سورة الانفال

"اور جو ہم نے اُتارا اپنے بندے پر، فرقان کے دن جب کہ دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ ہوئی"

یوم الفرقان ، بدر کا دن ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید اور ان کے دشمنوں کی رسوائی سے حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیا۔ اور اسی قبیل سے یہ آیت ہے:

﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ الْفُرْ‌قَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرً‌ا لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٨﴾... سورة الانبياء

"اور ہم نے موسی اور ہارون علیھما السلام کو الفرقان ، روشنی اور ذکر عطا کیا"

الفرقان سے مراد وہ نصرف الہی ہے جس کے ذریعے فرعون اور اس کی فوجوں پر غلبہ حاصل ہوا۔ ضیاء اور ذکر سے مراد تورات ہے۔

سوال3: صراط کا ماخذ کیا ہے اور اصلی معنی کیا ہیں؟

جواب: عربی زبان کا محاورہ ہے صراطت الشئي یعنی میں نے اس کو بسہولت نگل لیا۔ رستہ کو صراط اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ گزرنے والے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی منتقل کر دیتا ہے۔ گویا ان کو نگل جاتا ہے۔ صراط اسی رستہ کو کہیں گے جس میں یہ پانچ اوصاف پائے جائیں

1۔ مستقیم (سیدھا) 2۔ آسنا 3۔آباد،چلتا پھرتا 4۔کشادہ

5۔منزل مقصود تک پہنچا دینے والا

ٹیڑھے، دشوار گزار اور بند رستہ کو صراط نہ کہیں گے۔ عربی کلام کے مواقع استعمال پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ جریر رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے کہ

(أميرالمومنين على صراط إذا أعوج الموارد مستقيم)

"جبکہ دوسرے گذر گاہیں کج اور ٹیڑھی ہیں۔ تو امیرالمومنین سیدھے رستہ پر ہیں"

صراط بروزن فعال ہے۔ یہ وزن زیادہ تر ان اشیاء کے لیے آتا ہے جو دوسرے پر مشتمل اور چھا جانے والی ہوں۔ رستہ میں چلنے والا اسی طرح اس میں سما جاتا ہے جس طرح کہ حلق میں نگلی ہوئی چیز حلق میں۔ اسی وزن پر یہ الفاظ آتے ہیں۔ ان کے معانی پر غور کریں: لحاف،فراش،خمار،رداء، غطاء،کتاب----یہ وزن تینوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔

1۔ مصدر: جیسے قتال، خراب

2۔ بمعنی منعول: جیسے کتاب ، غراس، بناء

3۔ بطور آلہ: خمار (اوڑھنی)، غطاء (ڈھکنا)، سداد (ڈاٹ)

یہ الفاظ بطور آلہ کے استعمال ہوتے ہیں اور مفعول اس میں وہ چیز ہے جو ڈھانکی اور اوڑھی جاتی ہے۔ اسی تیسری قسم سے ہے: آلہ بمعنی مالوہ۔ سورة الاحقاف میں بجائے صراط کے طریق لایا گیا ہے۔ اس میں ایک خاص نکتہ ہے۔ مکمل آیت ہوں ہے:

﴿إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِ‌يقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٣٠﴾... سورة الاحقاف

یہاں مومن جنوں کا کلام نقل کیا گیا ہے۔ پہلے انہوں نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے موسی علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ بتلایا ہے کہ جو کتاب وہ سُن کرآئے ہیں وہ تو ان کی تصدیق ہی کرنے والی ہے۔ گویا انہوں نے ہر طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ﴿مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّ‌سُلِ﴾(الاحقاف:9) کو دہرایا ہے۔یعنی میں کوئی پہلا رسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں۔ میں ان کی تصدیق اور پیغام کو زندہ کرنے والا ہوں۔ اسی بنا پر انہوں نے لفظ طریق استعمال کیا۔طریق بمعنی مطروق۔ یعنی پامال چلتا پھرتا آباد رستہ۔ اس پر پہلے بھی انبیاء کرام چل چکے ہیں۔ یہ کوئی اچھوتا اور انوکھا رستہ نہیں ہے۔

ظاہر ہے کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کیا ہوا رستہ انوکھا اور نیا نہیں ہے تو مکاطبین کو یہی زیب دیتا ہے کہ جس طرح وہ رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ اسی طرح نبی خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آئیں۔ لفظ طریق لا کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی پرزور تاکید و تنبیہ کر دی گئی۔

سوال4: صراط الذین ، یہاں الذین مبہم لفظ کیوں لایا گیا ۔ کیا صراط النبین مناسب نہ تھا؟

جواب: اس طرز بیان سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ انعام یافتہ ہونا محض اس بنا پر ہے کہ وہ صراط مستقیم کو پا چکے ہیں۔ اس قسم کا انداز بیان قرآن مجید میں بہت سی آیات میں ملے گا۔ اس کا نام تعلیق الحکم بالصله۔ اس میں جو لطافت ہے وہ صراحة نام ذکر کر دینے میں نہیں ہے، مطلب یہ ہوا کہ انعام اس بنا پر ہے کہ وہ راہ ہدایت پر چل رہے تھے۔ حسب ذیل آیات میں بھی یہی طرز اختیار کیا گیا ہے:

﴿لَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُ‌هُمْ...﴿٢٧٤﴾... سورة البقرة

﴿وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿٣٣﴾... سورة الزمر

﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ﴾

فائدہ: اس آیت میں دل سے تقلید کا ازالہ اور یہ یقین دلانا ہے کہ جس نے اس ہدایت کی طرف راہ پالی، وہ انعام الہی کا حقدار ہو گیا۔ یہاں سائل اللہ تعالیٰ سے ہدایت و انعام کا طالب ہے۔ یہی سوال اس کے ذہن میں پرورش پا رہا ہے۔

ذکر کئے گئے پہلے فوائد کی طرف نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ فائدہ نمبر 1 کا منشا یہ تھا کہ اہل ہدایت انعام یافتہ ہیں۔ اور فائدہ نمبر 2 سے مقصود ہدایت کی طلب اور سوال ہے۔ فائدہ نمبر 3 ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ، انعام یافتہ لوگوں کے تمام طبقات کو شامل ہے۔کسی اسم خاص کے لانے سے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ الذین سے مراد انبیاء کرام ، صدیقین،صالحین، شہداء سب ہیں۔ یہ سوال نہایت اہم ہے، اور یہ مطلوب نہایت ہی شاندار مطلوب ہے۔ اگر دعا کرنے والا اس دعا کی اہمیت اور عظمت کو پہچان لے تو اس کا ایک سانس بھی اس سے خالی نہ جائے۔ اس سوال نے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کو سمیٹ لیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دن رات میں اس کا بار بار دہرانا فرض کیا ہے۔ کوئی دوسری سورت اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔

سوال5: "مغضوب عليهم" کے وزن پر منعم عیلھم کیوں نہ کہا گیا۔ انعمت لا نے میں میں کیا حکمت تھی؟

جواب: قرآن حکیم کا یہ معلوم و معروف انداز بیان ہے کہ خیر و احسان اور جودوکرم کے افعال کو صراحة براہ راست خدا کی طرف منسوب کرتا ہے اور جزا اور انتقام کے افعال کے واسطے فاعل کو ذکر کے بغیر صیغہ مجہوم لاتا ہے۔ ادب و احترام کا تقاضا بھی یہی ہے۔ یہی اسلوب اس آیت میں بھی برتا گیا ہے۔ فعل انعام کی نسبت صراحة خدا کی طرف کی گئی ہے اور غضب کے بیان میں فاعل کو ذکر نہیں کیا گیا۔

قرآنی شواہد

1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں:

﴿الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿٧٨﴾ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ﴿٧٩﴾ وَإِذَا مَرِ‌ضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠﴾... سورة الشعراء

"وہ خدا جس نے مجھ کو پیدا کیا پھر وہی مجھ کو ہدایت دیتا ہے اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور سیراب کرتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے"

ان آیات میں پیدا کرنے اور ہدایت دینے اور کھلانے پلانے کی نسبت حضرت خلیل علیہ السلام نے خدا کی طرف کی ہے۔ اور بیماری کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مرضت کہا امرض نہیں کہا۔ (یعنی وہ مجھ کو بیمار کرتا ہے)

2۔ مومن جنوں کا قول قرآن نے ہوں نقل کیا ہے:

﴿وَأَنَّا لَا نَدْرِ‌ي أَشَرٌّ‌ أُرِ‌يدَ بِمَن فِي الْأَرْ‌ضِ أَمْ أَرَ‌ادَ بِهِمْ رَ‌بُّهُمْ رَ‌شَدًا ﴿١٠﴾... سورة الجن

"اور ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ شر کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی چاہی ہے"

یہاں ارادہ رُشد کے فاعل کو صراحة بیان کیا گیا ہے، لیکن ارادہ شر کی نسبت خدا کی طرف نہیں کی گئی۔

3۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:

﴿فَأَرَ‌دتُّ أَنْ أَعِيبَهَا﴾

میں نے چاہا کہ اس کشتی کو عیب دار بنا دوں۔(الکھف:79)

یہاں کشتی کو عیب دار کرنے کی خواہش کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن آگے چل کر یتیم بچوں کے قصہ میں فعل خیر کے ارادہ کی نسبت اللہ کی طرف کی ہے:

﴿فَأَرَ‌ادَ رَ‌بُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِ‌جَا كَنزَهُمَا رَ‌حْمَةً مِّن رَّ‌بِّكَ...﴿٨٢﴾... سورة الكهف

"پھر تیرے رب نے چاہا کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ تیرے رب کی رحمت کی بنا پر ایسا ہوا۔

﴿أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّ‌فَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة" تھی۔ لیکن ﴿وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بَا...﴿٢٧٥﴾... سورةالبقرة" یہاں اس قسم کی قباحت نہ تھی اسی انداز پر حسب ذیل آیات کو پڑھیں اور ان پر غور کریں:

﴿حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ...﴿٣﴾... سورة المائدة

﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّ‌مَ رَ‌بُّكُمْ عَلَيْكُمْ...﴿١٥١﴾... سورةالانعام

﴿حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ...﴿٢٣﴾... سورة النساء

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَ‌اءَ ذَٰلِكُمْ...﴿٢٤﴾... سورة النساء

﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّ‌مْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ...﴿١٦٠﴾... سورةالنساء

آخری اس آیت میں تحریم کے فاعل کو صراحة بیان کیا گیا ہے۔ مگر مومنین کے حق میں یوں کہا گیا ہے۔ ﴿حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ﴾

دوسری وجہ: اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے انعام سے سرفراز فرمایا، اس بنا پر اس کا شکر مومنوں پر واجب ہے۔شکر کی صورت یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو ذکر کیا جائے اور اس کی اطاعت میں سرگرم رہا جائے۔ اس شکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس ضمیر کو بھی ظاہر کر دیا جائے۔ جس کے بیان سے منعم حقیقی کا ذکر زبان پر آجاتا ہے۔ اسی بنا پر انعمت علیھم کو منعم علیھم پر فوقیت حاصل ہوئی۔ یہ کلام توحید کی دو بنیادوں ذکروشکر پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے:

﴿فَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِي وَلَا تَكْفُرُ‌ونِ ﴿١٥٢﴾...سورة البقرة

"تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا، میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری مت کرو"

تیسری وجہ: ہدایت کا انعام صرف خدا کی طرف سے ہے اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا۔اس لیے ضرورت تھی کہ خصوصیت کے ساتھ ضمیر واحد کے ذریعہ اس حقیقت کو بے نقاب کیا جاتا۔ یعنی تو ہی تنہا اس نعمت کا مالک ہے اور بخشنے والا ہے۔ لیکن غضب کا معاملہ دوسرا ہے۔ اللہ خود صراط مستقیم سےہٹنے والوں پر غصہ ہوا، اور اُس نے اپنے صالحین بندوں کو حکم دیا کہ وہ بھی اس کی پیروی میں ان پر غضب ناک ہوں۔ بندگی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ رب جس سے راضی ہو اس سے بندہ خوش اور رب جس سے ناراض ہو ۔ مومنین کی بھی یہی شان ہے کہ وہ اس سے ناراض ہوں۔ اس لیے یہاں فاعل کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس غضب میں صالحین بھی حصہ دار ہیں۔ بخلاف انعام کے وہ محض اللہ کے ساتھ خاص ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

چوتھی وجہ: مغضوب عليهم کی حیثیت ہی ایسی ہے کہ ان سے اعراض و بے توجہی لازمی ہے۔ اس لیے صرف صفت کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہے۔ ان کی ذات کو بتلانا مقصود نہیں ہے۔ لیکن اہل نعمت کے ذکر میں ان کی ذات سرتا پا ہدایت کی طرف اشارہ ضروری تھا۔اس لیے الذین لایا گیا۔ المغضوب میں ال بھی الذین کے معنی میں ہے۔ لیکن وہ بات کہاں جو الذین کو صراحة لانے میں ہے۔

سوال7: کیا وجہ ہے کہ سورة فاتحہ میں اھدنا کا تعلق مفعول الصراط کی طرف براہ راست ہے۔لیکن دوسری آیات میں ایسا نہیں ہے، وہاں حروف جارلام اور الی کا ذکر بھی موجود ہے۔

جواب: فعل ہدایت کا تعلق اپنے مفعول سے کبھی براہ راست ہوتا ہے اور کبھی بواسطہ ل یا الی ہوتا ہے۔ یہ تینوں صورتیں قرآن میں مذکور ہیں۔ براہ راست کی مثال ایک تو یہی آیت ہے۔

دوسری﴿وَيَهْدِيَكَ صِرَ‌اطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢﴾... سور ة الفتح---- بواسطہ الی، جیسے:

﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٢﴾... سورة الشورى

بواسطہ "ل" جیسے:الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـٰذَا

﴿إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ...﴿٩﴾... سورة الاسراء

انداز بیان کا یہ فرق ایک خاص قاعدہ کے ماتحت ہے۔ جب کسی فعل کا استعمال متعدد حروف جارہ کے ساتھ ہوتا ہے تو ہر ایک حرف جر کے ساتھ ایک خاص معنی ہوں گے جو دوسرے حرف جر لانے کی صوت میں مراد نہ ہوں گے۔ اس لیے کہ حروف کے معانی مختلف ہیں۔ مثلا رغبت فیہ، رغبت الیہ اور عدلت الیہ، اور عدت منہ میں فرق ہو گا۔ اس معنوی اختلاف کو نہ سمجھنے سے آیات کا فرق ملحوظ نہیں رہ سکتا۔ اور ظاہر بین نحویوں نے ھدیت لکذا اور الی کذا کو ایک جیسا قرار دے دیا۔ لیکن فقہاء اہل عربیت اس سطحیت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ فعل کے معنی ہر ایک حرف کے ساتھ الگ متعین کرتے ہیں اور دوسرے حرف کا ساتھ دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔ پھر وہ اس نام اور اس فعل کو نگاہ میں رکھتے ہیں جس کو اس حرف سے مناسبت اور لگاؤ ہے۔ پھر دوسرے فعل کو پہلے فعل کے معنی پہنا دیے جاتے ہیں۔ یہ سیویہ اور اس کے اصحاب کا طریقہ ہے جو بغیر لطافت ذہنی کے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔

اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ مثال سے سمجھیں: قرآن میں ہے (عَيْنًا يَشْرَ‌بُ بِهَا عِبَادُ ٱللَّهِ) یہاں یشرب کو یروی کے معنی پہنائے گئے ہیں۔ اس لیے یہاں باء کو لایا گیا ہے۔ جو کہ یروی کے ساتھ استعمال ہوتی ہے۔ اس مختصر طریقے سے ایک فعل یشرب کا ذکر صراحة اور دوسرے فعل کا اشارة ہو گیا۔ يشرب بها، يشرب منها سے کہیں زیادہ لطافت و فصاحت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ری (سیرابی) کی طرف اشارہ ہو گیا۔ اگر صرف یروی بھا کہا جاتا تو شرب کے معنی طاہر نہ ہوتے۔یشرب با سے دونوں باتیں حاصل ہو گئیں۔

اسی اصول کے ما تحت یہ آیت بھی ہے: ﴿وَمَن يُرِ‌دْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٥۔۔۔(الحج)۔۔۔۔ فعل ارادہ کا استعمال باء کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ یہاں ھم کے معنی برد کو پہنائے گئے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ محض ھم (نیم پختہ ارادہ) بھی اگر الحاد کا ہو جائے تب بھی عذاب کا سزاوار ہو گا۔اس قاعدے اور نطائر و شواہد کو جان لینے کے بعد اصل مقام پر غور کریں۔ لفظ ہدایت کا استعمال جب الی کے ساتھ ہو گا۔ اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ اور جب "ل" آئے گا تب معنی ہوں گے کسی شے یا شخص کو مطلوب کے ساتھ خاص کر دینا۔ کہا کرتے ہیں کہ "هديته لكذا" یعنی ذكرته له ،جعلته له ،هياته وغیرہ۔

﴿إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ...﴿٩﴾... سورة الاسراء" کے معنی ہوں گے کہ قرآن خاص اس رستہ کو بتلاتا ہے جو تمام راستوں سے زیادہ درست ہے۔(مترجم)

اور جب ہدایت کا تعلق مفعول سے براہ راست ہو گا تو ان میں سے کسی ایک معنی کی خصوصیت نہ ہو گی بلکہ تمام معنی مراد ہوں گے۔ (ٱهْدِنَا ٱلصِّرَ‌ٰ‌طَ ٱلْمُسْتَقِيمَ) کہنے کا منشا یہ ہوا کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے سوال کر رہا ہے کہ مجھے سیدھی راہ بتلا دے، اس کو میرے لیے واضح کر دے۔ دل میں اس کا الہام ڈال دے اور اس پر قادر بنا دے۔ اس راہ کے علم و ارادہ سے سرفراز فرما دے۔ معنی کی یہ وسعت اور جامعیت حرف جز نہ لانے سے ہی پیدا ہوئی ہے۔

سوال8: اللہ تعالیٰ نے اہل ہدایت ہی کو نعمتوں کے ساتھ خاص کیوں کیا ہے۔ کیا کافر خدا کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتے؟

جواب: اس بارے میں اہل علم کے دو گروہ ہیں:

1۔ ایک کا خیال ہے کہ کافر پر اللہ کی نعمت ہی کوئی نہیں ہے۔ اللہ نے خود فرمایا ہے:

﴿وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم...﴿٦٩﴾... سورة النساء

"یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جو انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہوں گے"

اس آیت میں فرمانبرداروں کے لیے انعام یافتہ طبقات کی معیت و رفاقت کو خاص کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ کفار اس سے محروم ہیں۔ نیز فرمایا: (وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِى عَلَيْكُمْ)

اور تاکہ پوری کر دوں اپنی نعمت تم پر"

اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ انعام، سزا اور انتقام کے منافی ہے۔ اس شخص کے لیے کون سی نعمت ہو سکتی ہے جو دائمی عذاب کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

جبکہ دوسرا گروہ، کفار کے لیے نعمت کا قائل ہے۔ اس کے دلائل یہ ہیں:

﴿وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا...﴿٣٤﴾... سورة ابراهيم

"اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو تم شمار نہیں کر سکتے"

﴿يَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ...﴿٤٠﴾... سورةالبقرة

"اے بنی اسرائیل! میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی ہیں"

یہ خطاب یہود سے ہو رہا ہے جب کہ وہ کفر کی حالت میں تھے۔ سورة نحل میں ہے:

﴿كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ ﴿٨١﴾ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿٨٢﴾... سور ة النحل

"اللہ اس طرح پوری کرتا ہے اپنی نعمت تم پر تاکہ تم مسلمان بن جاؤ۔ پھر بھی اگر تم اعراض کرو تو اے نبی تمہارے نبی پر واضح طور سے پیغام دینا ہے"

﴿يَعْرِ‌فُونَ نِعْمَتَ اللَّـهِ ثُمَّ يُنكِرُ‌ونَهَا وَأَكْثَرُ‌هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ ﴿٨٣﴾... سورة النحل

"اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہنچانتے ہو۔ پھر اس کا انکار کر دیتے ہیں اور اکثر ان میں سے کافر ہیں"

یہ آیت اس بارے میں نص واضح ہے کہ کافر بھی خدا کی نعمت سے مستفید ہوتے ہیں۔ اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ مومن و کافر سب ہی خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کھلی ہوئی حقیقت کا انکار ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے۔ حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے ان دونوں گروہوں کے درمیان اعتدال و میانہ روی کی راہ یہ بتلائی ہے کہ کامل نعمت اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ اس میں کوئی کافر ان کا شریک نہیں ہے۔ باقی رہی مطلق نعمت یعنی نعمتوں میں سے کچھ حصہ تو اس میں مومن و کافر سب شریک ہیں۔ نعمت کاملہ اور رحمت تامہ کا دامن ابدی سعادت اور دائمی راحت سے بندھا ہوا ہے۔ یہ غیر مشترک اور مخصوص ہے اور مطلق نعمت سے ساری مخلوق بلا تخصیص فائدہ اٹھاتی ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ (يَـٰبَنِىٓ إِسْرَ‌ٰٓ‌ءِيلَ ٱذْكُرُ‌وا) میں اللہ تعالیٰ یہود کو وہ نعمتیں یاد دلا رہا ہے جو اس کے آباء و اجداد پر نازل ہوئیں۔ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک ایک کر کے اپنی نعمتوں کا شمار کیا ہے: فرعون سے نجات، سمندر میں رستہ بن جانا، موسی علیہ السلام سے چالیس رات کا وعدہ، ان کے بعد بنی اسرائیل کی گمراہی، پھر توبہ اور معافی، بادلوں کا سایہ ، من و سلوی کا اُترنا وغیرہ وغیرہ۔ ان نعمتوں کے ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہود ایمان و اطاعت پر آمادہ ہو جائیں اور خدا کی نافرمانی سے باز ارہیں ورنہ وہی حشر ان کا بھی ہو گا جو ان کے اسلاف کا ہو چکا ہے۔ ان کے اسلاف پر انعام، ان پر انعام کے ہم معنی ہے۔ اس لیے ان پر بھی شکر لازم ہے۔ اب بجائے شکر کے کفر اور بجائے تصدیق کے تکذیب و عداوت اختیار کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ بہرحال یہاں حالت کفر میں نعمت کاملہ مراد نہیں ہو سکتی۔

سوال9: غیر المضغوب علیھم کے بجائے لا المغضوب علیھم کیوں نہیں کہا گیا؟

جواب: اصل مین لا کا استعمال اثبات کے بعد ہوتا ہے۔ کہا کرتے ہیں:

(جاءني العالم لا الجاهل) " میرے پاس عالم آیا، جاہل نہیں"

لا عطف کے لیے آتا ہے۔ لیکن غیر، اپنے ماقبل کا تابع ہوتا ہے اس میں وصفی معنی پائے جاتے ہیں اور لا کے ہم معنی نہیں ہے۔ یہاں عطف کے بجائے صفت کے معنی زیادہ مناسب ہیں۔ عطف اور وصف کے فرق کو سمجھ لینے سے اس آیت کی لطافت واضح ہو جائے گی۔ لا المغضوب علیھم کے معنی اس سے زیادہ نہ ہوں گے کہ مغضوب علیھم سے صراط کی نسبت سلب کر لی جائے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : (جاءني العالم لا الجاهل)---- اس کے معنی بس اتنے ہی ہیں کہ عالم کے لیے مجئی (آنا) ثابت اور جاہل سے اس فعل کی نفی کر دی جائے۔ مگر غیر اپنے سے پہلے کلمہ کی صفت ہوتا ہے۔ اس طرف بیان سے دو وصف حاصل ہوئے۔ ایک وصف ثبوتی (منعم علیھم) دوسرا سلبی غیر المغضوب علیھم۔ لا کے ذریعے جو فائدہ حاصل ہو سکتا تھا وہ بھی حاصل ہو گیا اور ساتھ میں مزید حمد و ثنا ثابت ہو گئی۔ اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ اہل ایمان غضب والوں سے قطعا مختلف ہیں، وہ غضب کے مستحق نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر یہاں بطور صفت کے لایا گیا ہے نہ کہ بصورت استثناء۔ دوسری حالت میں وصفی معنی فوت ہو جاتے جو کہ اصل مقصود ہیں۔

دوسرا فائدہ: اہل کتاب یہود و نصاری اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم ہی انعام یافتہ ہیں، مسلمان نہیں۔ تو اس کے جواب میں کہا گیا کہ انعام یافتہ تم نہیں بلکہ تمہارے غیر ہیں۔ اور مسلمانوں سے خطاب ہے کہ نعمت والے تم ہو نہ کہ تمہارے غیر۔ یہاں لفظ غیر پوری طرح مغائرت (اجنبیت) کو بتلا رہا ہے۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس آیت میں یہودونصاری کا صراحة نام نہیں لیا گیا ہے۔ ان کے وصف کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سے ان کی صفات مغضوبیت و ضلالت کو بے نقاب کرنا مقصود ہے۔ اور یہ کہ ان کی راہ انعام یافتہ مومنین کی راہ سے بالکل الگ ہے۔ اس لیے کہ انعام کامل، غضب و ضلال کے یکسر منافی ہیں۔ یہ انعام کامل کسی مغضوب علیہ اور ضال کے لیے ثابت نہیں ہو سکتا۔

سوال10: غیر باوجود اضافت کے نکرہ ہی رہتا ہے۔ اس کو الذین(معرفہ) کی صفت کیسے قرار دے سکتے ہیں؟

جواب: اس اعتراض کے کئی جواب دئیے جا سکتے ہیں۔ جن کا تذکرہ آئندہ صفحہ پر آئے گا۔ بعض لوگوں نے غیر کو بدل بھی بنایا ہے جو درست نہیں۔ بدل بنانا تین وجوہ سے درست نہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے:

1۔ مبدل منہ (متبوع) اور بدل (تابع)---- ان دونوں میں سے دوسرا اسم اصل مقصود ہوتا ہے۔ اور پہلا اسم بطور تمہید لایا جاتا ہے۔ مثلا:

﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا...﴿٩٧﴾... سورة آل عمران

"اللہ کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، ان پر جو رستہ کی استطاعت رکھتے ہیں"

یہاں من استطاع بدل واقع ہےاصل مقصود یہی ہے۔ الناس محض تمہید کے لیے آیا ہے۔ اسی طرح عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ:

(اعجبني زيد علمه)---- یعنی مجھے زید، اس کے علم نے لبھا لیا۔

یہاں اصل مقصود علمہ ہے۔ زید صرف تمہید مذکور ہے۔ اسی انداز پر دو آیتیں ہیں:

﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ...﴿٢١٧﴾... سورة البقرة

" وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں حرمت والے مہینے، اس میں لڑائی کے بارے میں"

یہاں اس قتال سے ہے نہ کہ محض شہر حرام سے۔ یہاں اصل مطلوب قتال ہے نہ کہ الشھر الحرام----اسی طرح فرمایا:

﴿لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ ﴿١٥﴾ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ﴿١٦﴾... سور العلق

" ہم ضرور گھسٹیں گے پیشانی کے بالوں سے ، جھوٹی خطاکار پیشانی کے بالوں سے"

اس آیت سے بھی اصل مقصود ناصیة کاذبة ہے۔ الناصة صرف تمہیدا لایا گیا ہے۔

اب اصل آیت کی طرف نظر کرین۔ یہاں منعم علیھم کا ذکر اور صراط کی نسبت ان کی طرف در حقیقت مطلوب و مقصود ہے۔ اور غیر المضغوب بطور تکملہ اور تتمہ کے لایا گیا ہے۔ یہ وصف اصل مقصد کے لیے کمال و وضاحت پیدا کردیتا ہے۔خود مقصود بالذات نہیں ہے۔

وجہ دوم: بدل، مبدل منہ کے لیے تاکید و تکرار کا حکم رکھتا ہے۔ اگر مبدل منہ کی جگہ بدل کو رکھ دیا جائے تو کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ مثلا قرآن کے علاوہ اگر کسی عبارت میں یوں کہا جائے: "(لله حج البيت على من استطاع إليه سبيلا)" تو غلط نہ گا۔ یا کوئی اس طرح دعا مانگے:"اهدني صراط من أنعمت عليه " تو اس کی صحت میں کلام نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر غیر المغضوب کو بدل مان لیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے کہ اس لفظ کو ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی جگہ رکھ سکتے ہیں حالانکہ اس صورت میں کلام کا اصل مقصود ہی فوت ہو جاتا ہے۔ مقصد تو یہ تھا کہ صراط کی نسبت ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی طرف کی جائے نہ کہ غَيْرِ‌ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی طرف۔ نیز غیر کے لانے سے اصل غرض تو یہ تھی کہ اہل نعمت کو حمد و ثنا میں لفظ غیر کے ذریعہ اضافہ کیا جائے۔

وجہ سوم: غیر بدل واقع ہو ہی نہیں سکتا۔ صفت حال استثناء: انہی تینوں صورتوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اصل وضع کے اعتبار سے اس کا استعمال مستقل طور پر نہیں ہو سکتا۔ صرف تابع کی حیثیت سے اس کو لایا جا سکتا ہے۔ "جاءني غير ربد " بہت ہی کم بولا جاتا ہے۔ بدل اور صفت میں فرق یوں سمجھیں کہ اول الذکر میں مبدل منہ بطور زینہ کے لایا جاتا ہے۔ اور مقصود بدل ہوتا ہے۔ جبکہ صفت میں اصل مطلوب موصوف ہوتا ہے۔ صفت وضاحت یا تشریح یا کسی اور فائدہ کے لیے لائی جاتی ہے۔ اب غور کر لیں---- کیا یہاں غیر المغضوب بدل واقع ہو سکتا ہے؟

جواب دوم: الذین اسم موصول مبہم غیر معین ہے، اس لیے اس کی صفت نکرہ--- غیر کو لانا درست ہے۔ (اصل مبحث میں کچھ سوال و جواب ہے جس کی افادی حیثیت عام فہم نہیں۔ اس لیے نظر انداز کر دیا گیا۔مترجم)

جواب سوم: یہاں غیر اضافت کی وجہ سے معرفہ ہو گیا ہے۔ غیر کے بعد معرفہ ہونے سے مانع، اس کا ابہام--- عموم ہے۔ لیکن یہاں دو متضاد----وصفوں---- کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے اس لیے ابہام جاتا رہا اور تعین پیدا ہو گیا۔ یہاں غیر، انعمت اور مغضوب کے درمیان واقع ہے۔ اس کی نظیر کلام عرب میں یوں ملتی ہے:

(نحن بنو عمرو بن لهجان الا زهر،النسب المعروف غير المنكر)

یہاں غیر، معروف اور منکر کے درمیان واقع ہوا ہے۔ اس لیے اس کا النسب معرفہ کی صفت قرار دینا صحیح ہوا۔ اسی طرح کہا کرتے ہیں (المحسن غير المسيء والبر غير فاجر)

سوال11: ﴿صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ کو بصورت بدل لانے کی کیا ضرورت تھی۔

مبدل منہ تو نیت میں ساقط الاعتبار ہوتا ہے۔

جواب: مبدل منہ---علی الاطلاق ساقط الاعتبار نہیں ہوتا، بلکہ اس کی دو قسمیں ہیں:

1۔ بدل بعض اور بدل اشتمال---- یہاں مبدل منہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔

2۔ بدل الکل---- اس صورت میں بدل بمنزلہ تاکید اور یاد دہانی کے لیے لایا جاتا ہے۔

اور اس کے کلام میں نسبت اسنادی---- کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ:

﴿اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾... سورة الفاتحة" بتا ہم کو سیدھی راہ"---- تو دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ راہ ہمارے ساتھ ہی خاص ہے۔ یا ہم سے پہلے کوئی دوسرا بھی اس راہ پر چلا ہے۔ ﴿صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ سے یہ سوال حل ہو جاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے اس کی مثال یوں سمجھو کہ تم کسی انجان کو رستہ بتلا رہے ہو کہ یہ راہ تمہاری منزل مقصود تک پہنچے گی تو پھر تم اس کے اطمینان اور مزید تاکید کے لیے یوں کہتے ہو کہ یہ راہ وہ ہے جس پر تم سے پہلے بہت سے مسافر چل کر اپنی منزل مقصود پاچکے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس صورت میں انجان مسافر کے دل میں سفر کا جو عزم اور بلند ہمتی پیدا ہو سکتی ہے وہ صرف رستہ بتلادینے سے پیدا نہیں ہوتی۔ عام انسانی فطرت یہی ہے کہ کسی نمونہ کو دیکھے اور پھر میدان عمل میں کود پڑے۔