بیجنگ میں خواتین کی عالمی کانفرنس

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام چین کے شہر بیجنگ میں چوتھی عالمی بیجنگ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 85 ممالک سے تقریبا 35000 ہزار خواتین اس میں شرکت کر رہی ہیں جن میں 21800 غیر سرکاری تنظیمیں (این۔جی ۔اوز) بھی شامل ہیں۔ کانفرنس کا ابتدائی اجلاس 30 اگست سے 8 ستمبر تک چلے گا جس میں این۔جی۔اوز بھی شرکت کریں گی۔ پھر اس کا باقاعدہ اجلاس 8 ستمبر سے 15 ستمبر تک چلے گا۔ جس میں پانچ ہزار سے زائد سربراہ حکومتی نمائندے مندوبین کی حیثیت سے شرکت کریں گے۔ پاکستان سے بھی ایک درجن سے زائد این۔جی۔اوز اس میں شرکت کر رہی ہیں۔ جبکہ حکومت پاکستان کے ویمن ڈویژن نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ قاہرہ کانفرنس کی طرح اس کانفرنس کی صدارت بھی بے نظیر کو حاصل ہو گی۔ نیو یارک میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس فورم کے لیے 121 صفحات پر مشتمل ڈرافٹ تیار کیا گیا جسے بیجنگ ڈاکومنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ڈرافٹ یو۔این۔او کی طرف سے حقوق نسواں کی علمبردار کا رکن ڈیل اولیری نے تیار کیا ہے۔ اس ڈرافٹ کے نکات درج ذیل ہیں:

1۔ عورت اور مرد میں کوئی فطری فرق موجود نہیں ہے۔

2۔ عورت کا روایتی کردار جو وہ ماں،بہن،بیٹی، بیوی کی حیثیت سے انجام دیتی ہے، اس کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ یعنی معاشرتی ڈھانچہ تبدیل ہونا چاہیے۔

3۔ اسمبلیوں اور دیگر منتخب اداروں میں خواتین کا کوٹہ 50٪ ہونا چاہیے۔

4۔ معاشرتی ڈھانچہ کو بھی اس طرح تبدیل کرنا کہ مرد عورت میں مکمل برابری حاصل ہو سکے۔

5۔ نوکریوں میں بھی 50٪ کوٹہ عورتوں کے لیے مخصوص کیا جائے۔

6۔ بچے پیدا کرنے کا حق عورت کو ملنا چاہیے۔یعنی یہ معاملہ اس کی مرضی و منشا پر ہو۔

7۔ اسقاط حمل کو جائز قرار دیا جائے اور اس کا حق و اختیار عورت کے پاس ہو۔

8۔ عورتوں کو ہم جنس پرستی کی قانونی اجازت دی جائے، جسم فروشی کی بھی قانونی اجازت ہو۔

9۔ شادی شدہ زندگی کی مکمل حوصلہ شکنی۔

10۔ مذہب پر زبردست تنقید کی گئی کہ یہ عورت کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

بنیاد پرستی پر بھی بھرپور تنقید کی گئی ہے اور دنیا بھر میں ایک سیکولر معاشرہ قائم کرنا ، اس کانفرنس کا ہدف ہے۔

ماہ اگست کے شروع میں اسلام آباد میں مسلم خواتین پارلیمنٹیرین سیکشن کا ایک اجلاس ہوا۔ جس میں انہوں نے بیجنگ کانفرنس میں یکساں موقف اختیار کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ ایران جس نے قاہرہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کے پارلیمانی وفد کی سربراہمریم بہروزی نے اس موقع پر ایک بیان دیا کہ اس دفعہ ایرانی وفد بھرپور طریقے سے بیجنگ کانفرنس میں شرکت کرے گا۔

بیجنگ کانفرنس سے متعلق پوری مسلم دنیا میں ایک زبردست اضطراب پایا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر اور غیر حکومتی سطح پر، اس میں شرکت اور عدم شرکت کی متعلق مختلف آراء پیش کی جا رہی ہیں۔ بہرصورت لبرل اور سیکولر طبقہ تو اس میں شرکت کا زبردست آرزو مند ہے۔ ان کا خیال ہے اتنے بڑے خواتین کے عالمی فورم سے علیحدگی، خواتین کے ساتھ زیادتی ہے۔ مسلم لیگی رہنما بیگم مہناز رفیع کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ

اس کانفرنس کا موضوع مساوات، ترقی اور امن ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر منقعد ہو رہی ہے۔ 1985ء میں نیروبی میں منعقد ہونے والی تیسری عالمی خواتین کانفرنس نے پوری دنیا کی خواتین کو مل کر عالمی سطح پر اپنے مسائل کے حل اور ترقی کے لیے کام کرنے کا شعور دیا تھا۔ جس کے نتیجے کے طور پر اس دہائی میں عورتوں کی ترقی کے لیے کام کرنے والی مزید کئی تنظیمیں اور پریشر گروپ وجود میں آئے۔ یہ تنظیمیں خواتین کی ترقی اور ان کے مسائل ، صحت و تعلیم و ملازمت وغیرہ کو حل کرنے میں بڑی معاون ثابت ہوئی ہیں۔ اب بھی خواتین کے ایسے مزید مسائل ، اس کانفرنس این۔جی۔اوز فورم اور حکومتی فورم پر اُٹھائے جائیں گے۔ اس طرح عورتوں کی مساوات ترقی اور امن کے عمل کو مزید فروغ حاصل ہو گا۔ اس کانفرنس کے طے شدہ نکات کے مطابق ہم اپنے ملک میں اپنا آئندہ لائحہ عمل تشکیل دیں گے۔ آخر اسلام بھی تو عورت اور مرد میں تفریق نہیں کرتا۔ اسلام نے تو عورت کو اتنے حقوق دیئے ہیں جو ابھی تک بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں خواتین کو نہیں مل سکے۔ تنقید کرنے والے مرد خصوصا علماء نہین چاہتے کہ عورتیں ترقی کریں اور آگے بڑھیں۔

یہ شرکت کرنے والی خواتین شہناز وزیر علی، مہناز رفیع،حنا جیلانی، تہمینہ دولتانہ اور عطیہ عنایت اللہ وغیرہ سب اسی سیکولر ذہن کی نمائندہ ہیں۔

اس کے برعکس ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دیندار و سنجیدہ دینی اور سماجی جماعتیں علماء و دانشور اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کی شدت سے مخالفت کر رہی ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بیجنگ کانفرنس کا مقصد نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا میں ایک سیکولر اور غیرمذہنی مادر پدر آزاد معاشرہ قائم کرنا ہے۔ جس کا آغاز پہلے سیٹلائیٹ سسٹم کے ذریعے مغربی ثقافتی یلغار سے ہوا۔ ڈش انٹینا نے تمام مغربی فحاشی و عریانی ہر مسلم گھرانے کے بیڈ روم تک پہنچا دی۔ پھر اس پر عمل درآمد کے لیے پہلے قاہرہ کانفرنس کا انعقاد ہوا اور اب بیجنگ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔

تاریخ کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر قوم کے زوال میں فحاشی و عریانی کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ خود مسلمانوں کے لیے جہاد اور بے حیائی دونوں باہم متضاد چیزیں ہیں۔ جب تک امت مسلمہ ایمان و جہاد کی راہ گامزن رہی، وہ سربلند اور بلند مقام و مرتبہ کی حامل رہی،۔ اور جب ان میں کمزوری رونما ہوئی اور مغربی اقوام برسراقتدار آگئیں تو انہوں نے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو کمزور ، ذلیل اور بے غیرت بنانے کے نت نئے حربے آزمانے شروع کئے۔چنانچہ نو آبادیاتی دور سے آج تک مسلم دنیا کی تہذیب ، ثقافت، مذہبی و اخلاقی اقدار پر جتنے حملے کئے گئے ہیں، یہ تازہ حملے ان سب پر بازی لے گئے ہیں۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ بہبود آبادی کے نام قاہرہ میں جو کانفرنس منعقد ہوئی، اس کے لیے اسلامی ملک کا انتخاب کیوں کیا گیا اور اب بیجنگ کانفرنس کے نکات ترتیب وار دیکھتے جائیں۔کیا یہ قاہرہ کانفرنس کے کاز کو آگے بڑھانے کا منصوبہ نہیں۔ اس میں بھی بیگم بے نظیر بھٹو کو صدارت کی پیشکش کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالم اسلام میں بدکاری،بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کا عالمی صہیونی منصوبہ ہے۔ کیونکہ مغربی ممالک تو پہلے ہی اس دلدل میں سر تاپا غرق ہیں۔ وہاں زنا کا شاکر ہونے والی بیس فیصد لڑکیاں جو بارہ سال کی عمر سے بھی کم ہوتی ہیں، اپنے ہی باپ کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ وہ یہی معاشرہ ہمارے ہاں بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اس شیطانی منصوبہ کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا اور بالخصوص مسلم دنیا میں فیملی سسٹم بالکل برباد کر دیا جائے۔ شادی نکاح تو مذہب و اخلاق کی پابندیاں ہیں۔ لہذا ان تمام اخلاقی و مذہبی اقدار کو ختم کر کے مادرپدر آزاد معاشرہ (جسے انسانی کے بجائے حیوانی معاشرہ کہنا زیادہ موزوں ہے) قائم ہو، کبھی بہبود آبادی کے پرفریب نام سے کبھی مساوات مرد و زن کے دھوکہ سے عورت کو شرم و حیا سے عاری بنایا جائے۔بچوں کے تعین کا اختیار اس کی اپنی صوابدید پر ہو۔ مانع حمل اشیاء اور ادویات ہر مقام سے بسہولت دستیاب ہوں۔ اسقاط حمل کا حق اس کو قانونا حاصل ہو۔ اس کے لیے اسے گھر سے باہر نکال کر ہر شعبہ زندگی میں گھسیٹ کر لایا جائے۔ بلکہ قانونا اس کو ہر جگہ 50٪ کوٹہ (بالفاظ دیگر مکمل اور بھرپور شرکت) کا "حق" دیا جائے، تاکہ وہ گھر کے "حرم اور حفاظت گاہ" سے نکل کر ، اندرون خانہ ذمہ داریوں سے آزاد ہو ر ہر جگہ چرتی جگتی پھرے۔ اس آزادانہ شہوت رانی کو سکول کے بچوں کے لیے بھی یقینی بنایا جائے۔ پرائمری سکولوں میں باقاعدہ جنسی تعلیم کا اہتمام ہو۔ سکولوں، دفتروں، فیکٹریوں غرض ہر جگہ کنڈوم کا بندوبست ہو۔ پھر اس آزادانہ جنس پرستی میں ہم جنس پرست کو بھی قانونی تحفظ دیا جائے۔

عالمی ادارے بخوبی جانتے ہیں کہ اس پروگرام پر مزاحمت صرف مسلم ممالک کی طرف سے ہو گی۔ لہذا وہ مرحلہ اور یہ سارے اقدام حل کرتے نظر آتے ہیں۔ بیک وق تین اسلامی ملکوں میں انتخابات کے ذریعے تین خواتین کا برسراقتدار آنا (یعنی ترکی،پاکستان،بنگلہ دیش)----پھر بہبود آبادی کانفرنس کے لیے قاہرہ کا انتخاب اور اس میں پاکستان کی خاتون سربراہ کو صدارت کا منصب دینا۔ پھر بیجنگ (جو چین کا دارالخلافہ ہے، یہاں چین میں بھی مسلم آبادی بہت ہے) میں اس چوتھی عالمی خواتین کانفرنس کا انعقاد ، پھر اس میں بھی پاکستان کی خاتون سربراہ کو مہمان خصوصی بنا کر ---- اس مزاحمت کو توڑا جا رہا ہے۔

دین اسلام تو دین فطرت ہے۔ مرد و عورت کے درمیان جو صنفی، جسمانی اور نفسیاتی فرق ہے۔ اس کو ملحوظ رکھ کر اسلام نے ہمیں بہترین عائلی نظام دیا ہے۔ عورت کے شخصی و ذاتی حقوق تو رد کے برابر ہیں مگر دائرہ کار کی جو تقسیم اسلام نے مقرر فرمائی ہے، وہ عورت و مرد کے فطری اور جسمانی و نفسیاتی فرق کو ملحوظ رکھ کر ہی فرمائی ہے۔ خالق کائنات اپنی مخلوق کی فطرت، اس کی بہتری اور فلاح کو خود انسان سے بہتر جانتا ہے۔ جب بھی معاشرتی نظام میں عورت ماں اور بیوی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے سے انکار کرے گی، تو نتیجہ زبردست تباہی و ہولناکی کی شکل میں برآمد ہونا ضروری ہے۔ لہذا اسلام کے نکاح و طلاق کے قوانین ، زنا اور اختلاط مرد و زن کی ممانعت، اسقاط حمل کی ممانعت، بے حیائی پھیلانے کی ممناعت، پھر مالی لحاظ سے عورت کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈال کر اسلام نے عورت کو بہترین حقوق عطا کر دیئے ہیں۔

یہ مسلمان پاکستانی خواتین جو دنیا بھر کے تمام معاشروں سے زیادہ اپنے گھروں میں خود مختار اور اپنے گھروں کی ملکہ ہیں اور مرد اپنی کمائی لا کر عورت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اور پھر گھر کے اکثر فیصلے خواتین خود کرتی ہیں۔ یہ خواتین جب عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ مغربی خاتون کا معاملہ تو دوسرا ہے جو پہلے ذلت کی ایک انتہا پر تھی۔ جب وہ آزاد ہوئی تو دوسری انتہا پر پہنچ گئی۔ مگر مسلمان خواتین کو اس بے حیائی کی دلدل میں کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں تو چودہ سو سال قبل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گراں مایہ حقوق عطا فرما دئیے تھے جو فی الواقع محسن نسواں تھے۔ کیا ہماری خواتین کو آج مغربی دھوکہ بازوں کے روپ میں کوئی اور محسن نسواں نظر آ گیا ہے؟ ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج بیشتر مسلم ممالک میں جہالت اور ناخواندگی ہے۔ جس کی وجہ سے عورتوں کو اپنے حقوق کا شعور نہیں۔وہ مردانہ تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کا دامن عصمت مردوں کے ہاتھوں تار تار ہو جاتا ہے۔ وہ غربت اور بیماری کے ہاتھوں پریشان ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے آج یہی فی الواقع مسائل ہیں۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ عورتوں کو ان کے حقوق و فرائض کا صحیح شعور دیا جائے۔ ماؤں کی خدمت اور بیویوں سے حسن سلوک کی قرآنی و نبوی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ تاکہ مرد عورتوں کا استحصال نہ کر سکیں۔ عورتوں کے خصوصی صحت کے مراکز قائم کئے جائیں۔ ہمیں خواتین کو اسلام کے دئیے گئے ان حقوق کو اپنے معاشروں میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے، ان کے عدم نفاذ سے مخالف اسلام لوگوں کو یہ کہنے کی گنجائش ملتی ہے کہ مسلم خواتین کو بھی اسی طرح اپنے لیے حقوق کی جنگ لڑنی پڑے گی، جس طرح مغربی خواتین اپنے لیے تحریک چلا رہی ہیں۔

کیونکہ وہ طبقہ جو عورت کے نام نہاد حقوق اور ترقی و مساوات کی بات کرتا ہے ۔ وہ عورت کے خلاف ہونے والے انہی مظالم ، اسی جہالت، صحت و صفائی کی حالت زار اور اس کے حقوق کی دہائی دے کر پاکستانی عورت کو مغربی عورت کی نقالی میں بے حیائی اور پستی کے اتھاہ کنوئیں میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ بیجنگ کانفرنس کا ایجنڈہ ہمارے علماء اور دانشوروں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت سے اس کی مزاحمت کی توقع عبث ہے۔ جس طرح اس نے معاشرہ کی بھرپور مخالفت کے باوجود قاہرہ کانفرنس میں شرکت کی اور پھر بعد میں اس کے لائحہ عمل کے پیش نظر ملک بھر میں آٹھ سو کے قریب "بہبود آبادی" کے مراکز کھول دئیے ۔بالکل اسی طرح اب عورت کی عزت اور عصمت کو ڈبونے کے شیطانی منصوبہ میں شرکت کے بعد وہ مکمل طور پر اس کے لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونے کے لیے سرکاری سطح پر بھرپور تحریک چلائیں گے۔

اس موقعہ پر ملی یکجہتی کونسل نے حکومت سے اس کانفرنس کے مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ کہ یہ اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ہے۔ سینیٹر سمیع الھق نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "بیجنگ کانفرنس لادینی اور اسلام دشمن ایجنڈے کے مطابق منعقد کی جا رہی ہے"

حقیقت یہ ہے کہ اس کانفرنس میں عورتوں کو ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کی آزادی دلانے کے مطالبے تذلیل نسواں بلکہ تذلیل انسانیت کے مطالبے ہیں۔ اقوام متحدہ اپنی حدود سے بہت آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ مسلم ممالک کی فقہ بھی ترتیب دینے لگی ہے۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی حدود متعن کرنے کا کام بزعم خود اس نے سنبھال لیا ہے۔ اسی طرح وہ عالمگیر یہودی ریاست کی تکمیل کے خواب کو برائے کار لانا چاہتی ہے۔ اس موقع پر علماء دانشور اور ہر صاحب شعور کا فرض ہے کہ وہ عوام کو ان اسلام دشمن اور عورت دشمن منصوبوں کے ناپاک عزائم سے آگاہ رکھیں۔ اور ایسی کانفرنس کے بائیکاٹ کے لیے وہ بھرپور مہم چلائیں کہ یہ ناپاک عزائم اپنی موت آپ مر جائیں۔ بلکہ مسلم ممالک کو ان کا صحیح تشخص اُجاگر کرنے پر آمادہ کر دیں۔ اللہ کرے خیروشر کے اس تصادم میں خیر اُبھرے اور کشمیر، بوسنیا، چیچنیا کے پس منظر میں مسلمانوں کو سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا کرے۔

اس کانفرنس میں شرکت تو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ

"یہودی اور عیسائی ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگ جاؤ۔ صاف کہہ دو کہ رستہ وہی ہے جو اللہ نے بنایا ہے۔ وگرنہ اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے پاس نہیں ہے۔"(بقرہ:120)

ہمیں اپنا لائحہ عمل اسی آیت کی روشنی میں طے کرنا ہے۔ وگرنہ اللہ کے غضب سے مسلمانوں کو بچانے والا کون ہے؟


ضروری وضاحت: زیر نظر شمارہ جلد 26 کا عدد 11،12 اور جلد 27 کا عدد نمبر 1 ہے لہذا ربیع الاول تا جمادی الاولیٰ 1416ھ بمطابق اگست،ستمبر، اکتوبر 1995ء پر مشتمل ہے۔


حواشی

اس سے قبل کوپن ھیگن میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ دنیا میں 70٪ عورتیں غربت کا شکار ہیں۔ اسی طرح ویانا میں حقوق انسانی کانفرنس میں بھی خواتین کے استحصال اور جرائم کے مسائل کا موثر جائزہ لیا گیا۔ تیسری خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس 1985ء میں نیروبی میں ہوئی۔ اسی طرح قاہرہ کانفرنس پچھلے سال ہوئی۔ جس میں یہ طے کیا گیا کہ زچہ بچہ کی صحت کو بہتر بنایا جائے گا۔ اسی طرح 2010ء تک بہبود آبادی کا پروگرام دنیا کی ہر عورت تک پہنچ جائے گا۔

پاکستان سے اس کانفرنس میں جتنی خواتین سرکاری سطح پر شامل ہو رہی ہٰن سب لبرل، اور پاکستانی معاشرہ کو مغرب کی نگاہ سے دیکھنے والی ہیں۔ ان خواتین کا اصل مقام تو مغرب ہے، بہتر ہے کہ یہ خواتین وہاں ہی تشریف لے جائیں اور اسلامی احکامات پر مطمئن مسلم خواتین کے اطمینان و سکون کو گارت نہ کریں۔ نہ ہی اسلام کو بدنام کریں۔ اگر صحیھ اسلامی حکومت قائم ہوتی تو وہ ایسی دریدہ دہن خواتین کی زبان ہی گدی سے کھینچ دیتی۔

قاہرہ کانفرنس کے نکات: (1) بچوں کو تولیدی تعلیم (Reproductive Education)کے نام سے جنسی تعلیم دی جائے۔ یہ تعلیم پرائمری سطح سے ہو۔ (2) کنڈوم کلچر کو رائج کیا جائے۔ ہر جگہ سے کنڈوم باآسانی دستیاب ہو۔(3) والدین بچوں کے جنسی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ بالفاظ دیگر بچوں کو زنا کے عملی مواقع مہیا کیے جائیں۔(4) اسقاط حمل قانونا جائز ہو۔

ہمارے ہاں سے جو خواتین سرکاری اور غیر سرکاری طور پر اس کانفرنس میں شرکت کر رہی ہیں۔ وہ ذرا یہ تو بتائیں کہ بیجنگ کانفرنس کے پورے ایجنڈے میں کون سا نکتہ پاکستانی خاتون کے مسائل کا حل ہے۔ نیز ذرا یہ بتا دیں کہ وہ پاکستانی خواتین کے کون سے مسائل ساتھ لے کر جا رہی ہیں۔ جن کا مناسب حل وہ وہاں سے لے کر آئیں گی؟؟؟