اشاعتِ اسلام اور تلوار

جھاد اسلام کی بلند چوٹی ہے لہذا اس کا جذبہ اسلام کی بقاء اور ترقی کی کلید ہے۔ مسلمان اقلیتوں (بلکہ بوسنیا اور چیچنیا وغیرہ مسلمان اکثریت والے علاقوں) کے خلاف ننگی جارحیت کا اعتراف تو سیکولر ممالک بھی کرنے پر مجبور ہیں لیکن دوسری طرف یہی لادین قوتیں (اقوام متحدہ جیسے مشترکہ عالمی ادارے سمیت) نہ صرف اس ظلم و ستم کے خلاف کوئی عملی کاروائی کرنے سے گریز کر رہی ہے بلکہ اس سلسلہ میں "جہاد" کے نام پر کاروائیاں انجام دینے والوں کو دہشت گرد قرار دینے سے بھی نہیں چوکتیں۔ حد یہ ہے کہ اس وقت امریکہ اور یورپ کا پروپیگنڈا اسلامی بنیادی پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف عروج پر ہے۔ یہ درست ہے کہ اب بقولے "الكفر ملة واحدة " اس بہانے برائی کی قوتیں یک زبان ہو گئی ہیں، تاہم مجاہدین کی تربیت اور غزہِ فکری کے طور پر ضروری ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی آداب اور غازیانہ سلیقہ سے بھی آگاہ کیا جائے ورنہ خطرہ ہے کہ کفر و شرک کا فتنہ ختم کرنے والے خود مسلمانوں کے درمیان فتنہ ریزی کا باعث نہ بن جائیں۔

عام دینی جرائد میں جب ہم جہاد کے بارے میں فرضِ کفایہ اور فرضِ عین کی بحثوں کا الجھاؤ دیکھتے ہیں تو بڑی کوفت ہوتی ہے کہ اس وقت مسئلہ، جہاد کے نعرے مارنے یا ان کی مخالفت کا نہیں بلکہ عوامی سطح پر جہاد کی تنظیم اور اس کے آداب کا ہے۔ اگرچہ قتال کا حکم بنیادی طور پر مسلمانوں کی جماعت اور امام کو ہوتا ہے، افراد اُمت کو براہِ راست نہیں۔ لہذا اس کے فرض عین ہونے کا بڑا تعلق بھی مسلمان حکومتوں سے ہے جبکہ افراد ِ اُمت کی تنظیم اور تنظیمی یونٹوں میں والدین کی اجازت کا مسئلہ اور مسلمان گروہوں کا اتھاڈ وغیرہ شرعی آداب، فرضِ کفایہ کے تحت ہی آتے ہیں، ورنہ جہاد و قتال کا نعرہ لگانے والے تمام حضرات افرادِ خانہ سمیت خود محاذ جنگ پر ہوتے حالانکہ وہ خود ایسا نہیں کر رہے۔

محدث میں گاہے بگاہے جہاد کی تنظیم اور آداب پر خامہ فرسائی بھی ہوتی رہی ہے تاہم زیر نظر مضمون بعض انتہا پسند جہادی گروہوں کے اس نعرہ کا استدراک ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلتا ہے۔ جو مولانا کیلانی نے جہاد کے موضوع پر اپنی زیر تسوید کتاب سے اشاعت کے لئے دیا ہے۔ البتہ اس تاریخی جائزہ کے ضمن میں حکمرانوں کے لئے جہاد کے بعض آداب پر روشنی بھی پڑتی ہے جن کی بعض (؟) نشان ذدہ فقہی جزئیات محلِ نظر ہیں۔ امید ہے کہ موصوف کتاب کی اشاعت سے قبل ان پر تحقیق نظر فرما لیں گے (محدث)

مستشرقین کا یہ پروپیگنڈہ بہت پرانا ہو چکا ہے کہ "اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے" اور اس اعتراض کے کافی و شافی جواب بھی دئے جا چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اعتراض نہ عقلی اعتبار سے درست ہے اور نہ نقلی اعتبار سے، مزید برآں تاریخی واقعات بھی اس اعتراض کی تائید کی بجائے ترید کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم مختصر سا جائزہ پیش کریں گے:

1۔ اسلامی تعلیمات کی کسوٹی پر

نقلی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ نظریہ اسلام کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہے۔ ارشاد ہے:

﴿لَا إِكْرَ‌اهَ فِي الدِّينِ...﴿٢٥٦﴾... سورة البقرة

"دین میں کوئی جبر نہیں"

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:

﴿أَفَأَنتَ تُكْرِ‌هُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴿٩٩﴾... سورة يونس

"کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن بن جائیں"

اور اللہ تعالیٰ عوام کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:

﴿فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ‌...﴿٢٩﴾... سورة الكهف

"جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے"

ایسے واضح ارشادات کی موجودگی میں کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم یا آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہو گی اور ان واضح احکام کے بعد کسی کو اسلام لانے پر مجبور کیا ہو گا۔ مزید وضاحت کے لئے یہ آیت ملاحظہ کریں!

﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ اسْتَجَارَ‌كَ فَأَجِرْ‌هُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ... ﴿٦﴾... سورةالتوبة

"اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اُس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو"

غور فرمائیے کہ تلوار یا دباؤ کے استعامل کا اس سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے، جب ایک مشرک کسی مسلمان کی پناہ میں آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو یہاں تک کہ اسلام لے آئے یا پھر موت کے گھاٹ اتار دو۔ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اسلام کی تبلیغ پورے طور پر کر دو، مانے یا نہ مانے، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ پھر اگر وہ نہیں مانتا تو بھی اس پر زیادتی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس کے بجائے تمہیں یہ چاہئے کہ ایسی صورت میں اسے کسی محفوظ مقام پر پہنچا دو، یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اسبق ایک عیسائی تھا۔ آپ کی بڑی خواہش تھی کہ وہ مسلمان ہو جائے کیونکہ آدمی سمجھ دار اور ہوشیار تھا۔ آپ نے اسے یہ بھی کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ اسے کوئی اچھا منصب عطا کرنا چاہتے تھے لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکارکر کر دیتا اور آپ (لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ) کہہ کر چُپ ہو جاتے۔ (الجہاد فی الاسلام،ص163)

2۔ عقل کی کسوٹی پر

عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لئے غلط ہے کہ تلوار کے زور سے کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی اور اگربہ جبرواکراہ کوئی شخص ایک بات مان بھی جائے تو اسے اس بات پر قائم نہیں رکھا جا سکتا۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ دل و جان سے اسلام کے فدائی اور شیدائی بن گئے۔ بلاشبہ کچھ لوگ مرتد بھی ہوئے۔ لیکن اُن کا شمار ایک فی ہزار بھی نہیں اور یہ مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔

اگر تلوار کے ذریعہ کوئی بات منوائی جا سکتی تو قریش مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں سے اپنی بات کیوں نہ منوالی۔ جبکہ انہوں نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور بھی صرف کر لیا تھا یا جن مشہور فاتحین نے بہت سے علاقے فتح کئے، ان میں سے کیا کوئی ایسا بھی مفتوح علاقہ بطورِ مثال پیش کیا جا سکتا ہے جس نے فاتح قوم کے نظریات کو محض تلوار کے زور سے دل و جان سے تسلیم کر لیا ہو؟

مندرجہ بالا واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے ایک غلام کو بھی مسلمان نہیں بنا سکے تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ وسیع و عریض مفتوحہ علاقہ میں انہوں نے مفتوحین کو تلوار سے مسلمان بنا لیا ہو گا۔

تاریخی حقائق کی کسوٹی پر

اگر "تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلنے" کے نظریہ کو درست سمجھ لیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں:

1۔ ابتداء میں جو لوگ مسلمان ہوئے اور 13 سال تک مکہ میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے انہیں کون سی تلوار نے مسلمان کیا تھا؟

2۔ مدینہ پہنچ کر جنگِ بدر کے میدان میں مسلمانوں کے پاس کون سی تلوار تھی؟ تلوار اگر تھی تو وہ قریش کے پاس تھی۔ لیکن نتیجہ یہ نکلتا کہ جنگِ بدر تک کے چودہ سال میں صرف 313 مجاہدینِ اسلام جنگ میں شریک ہوئے ہیں لیکن ایک سال بعد جنگِ اُحد میں یہ تعداد سات سو تک جا پہنچی ہے۔ یعنی ایک سال میں تعداد دُگنی سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ اضافہ کون سی تلوار نے کیا تھا؟

3۔ جنگِ اُحد میں بھی تلوار دشمن کے پاس تھی جو تعداد میں چار پانچ گنا بھی تھا اور مسلح بھی لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سی تعداد مسلمانوں سے آ ملتی ہے اور 2 سال بعد جنگِ خندق کے موقع پر مجاہدین کی تعداد 3 ہزار یعنی جنگِ اُحد سے بھی چار گنا ہو جاتی ہے۔

4۔ صلح حدیبیہ میں تلوار کا مسئلہ ہی سامنے نہیں آیا۔ لیکن مسلمانوں کی جمعیت میں لا تعداد اضافہ ہو گیا۔

5۔ یہودیوں سے جنگیں ہوئیں۔ ان میں بھی تلوار یہودیوں کے پاس تھی۔ جیسا کہ ان کا اپنا بیان ہے۔ ان کی مشہور جنگ خیبر تھی۔ جس میں مسلمان صرف چودہ سو تھے اور یہود دس ہزار۔ اس کے نتیجہ میں بھی بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے۔

6۔ فتح مکہ میں یہی صورت حال پیدا ہوئی۔ قریش مکہ کو عام معافی تو مل چکی تھی۔ پھر انہیں اسلام لانے پر کون سی تلوار نے مجبور کیا۔

7۔ طائف میں محاصرہ اٹھا لینے کے بعد اہل طائف کو اسلام لانے کی کیا مجبوری پیش آ گئی تھی۔

مندرجہ بالا پہلوؤں پر غور کرنے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ مفروضہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ لیکن ایک حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا اور وہ یہ کہ "اسلام نہایت کثرت سے پھیلا ہے" اب ہمیں ایسے اسباب تلاش کرنے چاہیئں جو اس کثرتِ کا باعث بنے۔ ہمارے خیال میں یہ اسباب اسلام کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے:

اشاعتِ اسلام کے اسباب


1۔ معاشرتی مساوات

کوئی شخص یا کوئی قوم جس وقت اسلام لاتی ہے، اس وقت سے اُسے سابقہ مسلمانوں کے سے جملہ حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو کثرتِ اشاعت اسلام کا سب سے بڑا ذریعہ بنی۔

جرمن قوم اگر کوئی علاقہ فتح کرے۔ تو مفتوح قوم کتنا ہی جرمن قوم کی طرح عادات و اطوار اور لباس کو ڈھالنے اور اپنے آپ کو فاتح قوم کے رنگ میں رنگنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ پھر بھی وہ جرمن قوم میں شمار نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جرمن قوم اسے اپنی قوم جیسے اور حقوق عطا کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہے، یہی حال دوسری فاتح اور مفتوح قوموں کا ہے۔ لیکن مسلمان اگر کسی علاقے کو فتح کریں اور مفتوح علاقہ اسلام لے آئے۔ تو فاتح و مفتوح کے درجہ میں چنداں فرق نہیں رہتا۔ مفتوحہ علاقہ اسلامی سلطنت کا ایک حسہ بن جاتا ہے۔ اس پر نہ کوئی جزیہ ہے نہ خراج اور نہ ہی حکمران کی تبدیلی۔ غرضیکہ اسلامی حکومت مفتوحہ علاقے میں کسی قسم کی انتظامی تبدیلی نہیں کرتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ حکمران اپنے ذاتی اوصاف کی بنا پر اسلامی حکومت میں پہلے سے بھی زیادہ معزز بن جائے۔ ہمیں تاریخ سے ایسے واقعات مل جاتے ہیں کہ کئی حکمرانوں اور قوموں نے اسلام اسی وجہ سے قبول کیا تھا۔

یزگرد کے مقدمہ الجیش کے سالار کا نام سیاہ تھا۔ یزدگرد نے تین سو بڑے بڑے رئیس اور پہلوان اس کے ہمراہ کئے کہ اصطخر کی طرف جا کر اسلامی فوج کا مقابلہ کرے جب اسلامی فوجیں تشر پہنچیں تو سیاہ اپنے سرداروں کے ساتھ ان اطراف میں مقیم تھا۔ ایک دن اس نے تمام ہمراہیوں کو جمع کر کے کہا کہ:

"ہم لوگ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ (عرب) ہمارے ملک پر غالب آ جائیں گے، اس کی روز بروز تصدیق ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم الگ خود اسلام قبول کر لیں"۔۔۔ چنانچہ اسی وقت سب کے سب مسلمان ہو گئے" (فتوح البلدان: ص374)

ان لوگوں کے اسلام لانے پر سیایجہ ،فوط اور اندر غار بھی مسلمان ہو گئے۔ یہ تینوں قومیں اصل میں سندھ کی رہنے والی تھیں جو خسرو پرویز کے عہد میں گرفتار ہو کر آئیں اور ایرانی فوج میں داخل کی گئی تھیں۔

یہی صورتِ حال شام اور مصر کی اطراف میں بھی تھی اور لوگ عہد فاروقی میں کثرت سے مسلمان ہوئے جو کہ اسلام کی فیوض و برکات کی وجہ سے مسلمان ہوئے تھے، تلوار کے زور سے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے، دوسروں کو کیسے بنا سکتے تھے؟

اسی معاشرتی مساوات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام ذات پات میں تمیز کا قائل نہیں ہے نہ گورے کو کالے پر کچھ فوقیت ہے، نہ عربی کو عجمی پر بلال رضی اللہ عنہ حبشی کو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ "سیدنا" کہہ کر پکارتے ہیں۔ مسجد میں آقا و غلام، گورے اور کالے، نچلی اور اونچی ذات والے، امیر اور غریب سب ایک ہی صف میں ایک ہی حیثیت سے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ اسلام ہی کو شرف حاصل ہو رہا ہے کہ پہلے بھی اور آج بھی معاشرے کا نچلا طبقہ، جسے اونچا طبقہ عموما دھتکار دیتا ہے، ہمیشہ اسلام کے دامن میں آخر پناہ لیتا رہا ہے۔ ابھی چند سالوں کی بات ہے اخبارات میں ایک خبر اس طرح کے عنوان کے شائع ہوئی تھی:

"جنوبی بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آ کر 1300 ہریجنوں نے اسلام قبول کر لیا" (نوائے وقت، 4جولائی 1981ء)

بتلائیے ان ہریجنوں کو کون سی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا؟

پھر 5 جولائی کو اسی اخبار نوائے وقت میں ہندوستان کی وریزاعظم مسز اندرا گاندھی کی طرف سے یہ خبر شائع ہوئی۔ جس میں وزیراعظم نے کہا تھا:

"مجھے تکلیف ان لوگوں کے اسلام لانے پر نہیں، بلکہ اسباب پر ہے؟"

اور یہ "اسباب" جن پر وزیراعظم صاحبہ کو افسوس ہوا وہ تو ان کے مذہب کا جزولاینفک ہے۔ ہندومت برہمن کو تو بالاتر مخلوق سمجھتا ہے لیکن شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ شودر برہمن کا پیدائشی غلام ہے اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت ان کی گردن سے اُتر نہیں سکتا۔انہی "اسباب" کو اسلام نے ختم کیا۔ اور انہی اسباب کے خاتمہ کی وجہ اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔

اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ ان ہریجنوں نے ہندومت کی ذات پات کی اس انسانیت کش تقسیم سے تنگ آکر آخر اسلام ہی کیوں قبول کیا۔ کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کر لیا۔ اس بات کا جواب، نوائے وقت، 31 جولائی 1981ء کی مندرجہ ذیل خبر سے آپ کو مل جائے گا۔ خبر کا عنوان ہے: "پانڈیچری میں ذیرہ ہزار مزید ہریجن مسلمان ہو گئے"

"پانڈیچری: 30 جولائی (ن۔ر) ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی۔کرشنا مورتی نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی لیکن مسلمانوں ہونے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے ہمارے لئے یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں۔۔ واضح رہے کہ اس سے ماقبل تامل ناڈو کے موﷺع منائشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور پر مذہبِ اسلام قبول کر لیا ہے" (نوائے وقت، حوالہ مذکور ص1)

2۔قانونی مساوات

قانونی مساوات سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز فرد حتی کہ صدرِ مملکت بھی قانون کی دسترس سے بالاتر نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اسلامی ریاست کے علاوہ اور کہیں پایا جانا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس ریاست میں اقتدارِ اعلیٰ، اللہ کی ذات ہے۔ جبکہ باقی سب لوگ ایک ہی سطح پر اس کے محکوم اور اطاعت گذار بندے ہیں۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کر دیا: "جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو تو آج لے سکتا ہے" پھر جب آپ کے قبیلہ قریش کی ذیلی شاخ کی ایک عورت فاطمہ مخزومیہ نے چوری کی تو آپ سے اس جرم کی سزا موقوف کرنے کی سفارش کی گئی۔ آپ نے فرمایا:

"پہلی اُمتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اُسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتے تو ان کی سزا موقوف کر دی جاتی۔ یہ تو فاطمہ مخزومیہ کی بات ہے، اللہ کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی پاتھ کاٹ دیتا" (بخاری، کتاب الحدود، باب اقامة الحدود)

خلافت راشدہ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے انتخاب کے بعد پہلا خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس کے یہ الفاظ قابل غور ہیں: "تمہارا کمزور میری نگاہ میں قوی ہے اور قوی میری نگاہ میں کمزور ہے" جس کا مطلب واضح الفاظ میں یہ تھا کہ تمام قانونی طاقتیں کمزور کے ساتھ ہیں جب تک کہ اُسے ظالم سے اس کا حق نہ دلوادوں اور طاقتور کو قانون کی طاقت سے، روکنے کی پوری کوشش کروں گا۔

چنانچہ ان خلفاء نے ایسا نظامِ عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلاتاخیر انصاف حاصل ہوتا تھا۔ دورِ فاروقی میں شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ شہنشاہ کا دربار اور اس کی شان و شوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا:

" تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسی شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے۔ لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اسے کوڑے لگائے جائیں، چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں، وہ پردے میں نہیں بیٹھتا۔ اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا۔ مال و دولت میں اُس کو ہم پر ترجیح نہیں۔" (الفاروق از شبلی نعمانی، ص125، مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز۔ لاہور 1976ء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہو گئی۔ جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کیا کہ اس یہودی سے اپنی ذرہ چھین کر اسے کیفرکردار کو پہنچا دیتے بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس یہودی پر دعوی دائر کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بطورِ گواہ ان کے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ اور ان کے غلام تھے۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کر دیا کہ یہ شہادتیں اسلامی ضابطہ عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔ بیٹے کی شہادت باپ کے حق میں اور غلام کی شہادت اپنے آقا کے حق میں ناقابل قبول ہے۔ حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں لیکن عدل کا تقاضا یہی تھا، مقدمہ خارج کر دیا جائے۔

یہ صورتِ حال دیکھ کر یہودی نے ذرہ بھی واپس کر دی اور خود بھی مسلمان ہو گیا۔

غور فرمائیے، اس یہودی کو اسلام لانے پر کس بات نے مجبور کیا تھا؟ اور یہ بھی سوچئے کہ اس بات سے کیا وہ اکیلا ہی مسلمان ہوا ہو گا؟ اور یہ بھی کہ وہ مسلمان تو ہوا، لیکن اس نے ذرہ کیوں واپس کر دی؟ ایسے واقعات دراصل انفرادی نتائج کے حامل نہیں ہوتے بلکہ ایک جہاں کے افکار و نظریات میں تلاطم برپا کرتے ہیں۔

3۔ کردار کی پاکیزگی

ہمارے خیال میں اشاعتِ اسلام کا تیسرا بڑا سبب مسلمانوں کے کردار کی بلندی اور پاکیزگی ہے۔ صدرِ اول کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ ان کا اپنا عمل و کردار تھا۔ ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے پاک تھی۔ دشمن ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔

دمشق اور حمص میں شکست کھانے کے بعد عیسائی انطاکیہ پہنچے اور وہاں جا کر ہرقل شہنشاہِ روم سے فریاد کی کہ اہل عرب نے تو تمام شام کو پامال کر دیا۔ ہرقل نے ان میں چند تجربہ کار اور معزز آدمیوں کو دربار میں بلا کر کہا" عرب تم سے زور میں، جمعیت میں، سروسامان میں الغرض ہر لھاظ سے کم ہیں، پھر تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے"؟ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ البتہ ایک تجربے کار بوڑھے نے عرض کی۔

"عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ برابری سے ملتے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بدکاری کرتے ہیں، اپنے عہد کی پابندی نہیں کرتے، اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ، ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے" (الفاروق، ص189)

اس بوڑھے عیسائی کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ پھل پک کر تیار ہو چکا ہے اور عنقریب اسلام یہاں بھی غالب آنے والا ہے۔ محمد بن قاسم سندھ اور ملتان کے علاقہ میں تھوڑی ہی مدت رہا۔ وہ عظیم جرنیل ہونے کے علاوہ جہاں بانی کی صفات سے مالا مال تھا۔ حکومت اور سندھی بت پرستوں سے مذہبی روادار نے سندھیوں کے دلوں کو اس طرح مول لیا تھا کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس گیا تو سندھی اس کی تصویریں بنا بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے۔ وہ اسے رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے پھر جب انہیں محمد بن قاسم کی دردناک موت کا حال معلوم ہوا تو سارے ملک نے سوگ منایا۔ (تاریخِ اسلام، حمید الدین، ص308)

یہ سندھی لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے، پھر آخر کیا چیز تھی جس نے انہیں محمد بن قاسم کا اس قدر گرویدہ بنا دیا تھا۔ محمد بن قاسم نے انہیں مسلمان بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی نہیں کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ از خود اسلام کے قریب تر آرہے تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان بھی ہو گئے تھے۔ کیا یہ تلوار کا کرشمہ تھا؟

4۔ معاملات کی صفائی

اسلام میں حلال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ وہ جائز و ناجائز کی بڑی تفصیل سے وضاحت کرتا اور ناجائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو حرام قرار دیتا ہے یعنی دین اور معاملات کی صفائی بالخصوص ایسے حالات میں ایک امتحان بن جاتی ہے جب کہ کسی محنت یا حق کا معاوضہ تو پیشگی وصول کیا جا چکاہو اور اس حق یا محنت کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اختیار بھی کلیة معاوضہ وصول کرنے والے کے ہاتھ میں ہو۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص یا ادارہ حلال و حرام اور جائز وناجائز میں تمیز کرتا ہو تو وہ فی الواقع قابل تعریف ہے۔ اور دوسرے لوگ اس کے کرداد کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

شام کی فتوحات کے سلسلہ میں کچھ جنگی مصلحتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو حمص سے واپس دمشق جانا پڑا۔ مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اہلیانِ حمص سے جزیہ وصول کر چکے تھے اور ان کی دفاعی حفاظت کی ذمہ داری قبول کر چکے تھے۔

آپ نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا:

"ہم کو جو تعلق تمہارے ساتھ تھا وہ اب بھی ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لئے جزیہ جو خدمت کا معاوضہ ہے، تم کو واپس کیا جاتا ہے"

چنانچہ کئی لاکھ کی وصول شدہ رقم واپس کر دی گئی۔

عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زایدہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا:

"تورات کی قسم! جب تک ہم زندہ ہیں، قیصر حمص قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہرِ پناہ کے دروازے بند کر دئیے اور ہر جگہ پہرہ بٹھا دیا"۔۔۔ (الفاروق: ص191)

اب دیکھئے یہودی حمص پر عیسائیوں کا فیصلہ گوارا نہیں کر سکتے اور ان پر مسلمانوں کو ترجیح دےرہے ہیں۔ عیسائی خود بھی ہرقل کے بجائے مسلمانوں کے چلے جانے پر آنسو بہاتے ہیں۔ تلوار کا کام تو ختم ہو چکا تھا، اب ان لوگوں کے دلوں کو کس چیز نے مسحور کر دیا تھا؟

5۔ عفوودرگذر

جب کسی دشمن پر پوری طرح قابو پا لیا جائے، اس وقت اس کے جرائم سے چشم پوشی کر کے اُسے معاف کر دینا بڑے حوصلہ کا کام ہوتا ہے۔ یہ بات بھی اشاعتِ اسلام کے اسباب میں سے ایک بڑا اہم سبب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ:

1۔ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر ایک بدو، درخت سے لٹکی ہوئی تلوار سونت کر کھڑا ہو گیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو اس بدو نے جو کہ آپ کے دشمن قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا، کہا: " اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے"؟ آپ نے کہا "میرا اللہ!" یہ سنتے ہی اس پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی۔ آپ نے تلوار سنبھالی۔ بعد ازاں اسے معاف کر دیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ خود ہی مسلمان نہیں ہوا بلکہ اس کا قبیلہ بھی مسلمان ہو گیا۔ اشاعتِ اسلام کا یہ کام اس وقت ہوا جب تلوار نے اپنا کام چھوڑ دیا تھا۔

2۔ صلِحِ حدیبیہ کے وقت ابتدائی سفارتی بات چیت کے دوران نوجوانانِ قریش 200کی جمعیت اکٹھی کر کے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے جنہوں نے مسلمانون سے شکست کھائی اور وہ گرفتار ہو گئے۔ آپ نے خیر سگالی کے طور پر سب کو چھوڑ دیا۔ پھر صلح حدیبیہ میں بھی ظاہر طور پر توہین آمیز شرائط قبول کر کے لڑائی پر امن کو ترجیح دی جس کا اثر یہ ہوا کہ بے شمار قبائل از خود مسلمان ہو گئے۔

3۔ فتح مکہ کے دوران آپ نے اپنے ازلی دشمنوں پر پوری طرح قابو پا لینے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا۔ تو اس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اور ایسے کئی دوسرے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سخٹی، جبر یا تلوار وہ کام کبھی نہیں کر سکتی جو نرمی اور عفوودرگذر سے از خود سر انجام پایا جاتا ہے۔

قول فیصل

مندرجہ بالا خصوصیات کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جو اسلام کی اشاعت کا باعث بنیں۔ لیکن بایں ہمہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں قوت و شوکت کا بھی ایک گونہ ضرور تعلق ہے۔ گو یہ دسواں حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ معاندینِ اسلام جو اس بات پر سارا زور صرف کر دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، وہ بھی ایک انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسرا گروہ اس الزام کی مدافعت میں سارا زور اس بات پر صرف کرتا کہ اسلام کی اشاعت محض اس کی ذاتی خوبیوں کی بنا پر ہوئی۔ ہمارے خیال میں اسلام کے حامیوں کا یہ گروہ بھی دوسری انتہا کو پہنچ گیا۔

مانا کہ اسلام میں یہ خوبیاں موجود ہیں۔ لیکن ان خوبیوں کو آشکارا کرنے اور "حق" کو بروئے کار لانے کے لئے بھی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ قوت اسلام کو تلوار کے ذریعہ بھی مہیا ہوئی۔ اگر اشاعت اسلام میں تلوار کا کچھ بھی حصہ نہ تھا تو قتال کی ترغیب کیوں دی گئی۔

اشاعتِ اسلام میں تلوار کا حصہ

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے دو حصے ہیں (1) امربالمعروف (2) نہی عن المنکر

امر بالمعروف کو مانن اور انکار کر دینا، مخاطب کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ ایک شخص کسی دوسرے کو عقیدہ توضید، آخرت یا اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے اور وہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ تو اس پر نہ جبر کیا جا سکتا ہے نہ تلوار سے ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے لیکن جہاں تک نہی عن المنکر کا تعلق ہے تو یہ فریضہ قوت کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔

اسلام محض عقائد کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ جاوید تہذیب ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا اور اس کے قانون کے نفاذ کے لئے قوت چاہتا ہے۔ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو۔ زنا، چوری، ڈاکہ، قتل و غارت کی وارداتیں ہو رہی ہوں، لوگوں کا امن و چین غارت ہو رہا ہو۔ تو اسلام حرکت میں آئے گا اور تلوار ہاتھ میں لے کر اس کی اصلاح کرے گا خواہ یہ علاقہ مشرکین کا ہو یا اہل کتاب کا اور خواہ اس میں مسلمان ہی رہتے ہوں۔

حضور کی مکی زندگی میں چونکہ اسلام کے پاس قوت نہیں تھی۔ لہذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں طرح کے کام زبانی تبلیغ سے سر انجام دئیے جاتے رہے قرآن جیسا معجزانہ کلام، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سا بلند کردار، آپ کے جاں نثاروں کی قربانیاں، خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی جان تک تبلیغ میں کھپا دینا اور بہترین طریقِ تبلیغ، اِن سب کی طرح کی کوششوں کے باوجود یہ تو ہو نہ سکا کہ قریشِ مکہ ایمان لے آتے۔ بیشک اسلام کی حقانیت کے دل سے معترف ہو چکے تھے لیکن اسلام کچھ پابندیاں بھی عائد کرتا تھا جو انہیں گوارا نہ تھیں۔ انہیں اپنے بعض مفادات سے بھی دستبردار ہونا پڑتا تھا جس کے لئے وہ قطعا تیار نہ تھے۔ جو مزے انہیں اپنی پسند اور بے ضابطہ زندگی میں حاصل ہو رہے تھے، اسلام لانے کی صورت میں ان میں سے اکثر سے دست بردار ہونا پڑتا تھا۔

تلوار کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ بگڑی ہوئی طبیعتوں کو راہِ راست پر لے آتی ہے۔ وہ ہدایت کے رستے کی رکاوٹوں کو دور کر دیتی ہے پھر جو طبائع نیکی کی طرف مائل ہوتی ہے، ان کے لئے رستہ صاف ہو جاتا ہے اور جب تک مصیبت اور ظلمت کے یہ پردے چاک نہ ہوں، تبلیغ خواہ کتنی ہی دل نشین انداز میں ہو، غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر تلوار کا اشاعت میں کچھ حصہ نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔

تلوار کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ تبلیغ کے بیج کے لئے زمین کو نرم کر دیتی ہے۔ اسلام کی تلوار نے حق کی دشمن اور باطل قوتوں کا قلع قمع کر کے اسلام کے بیج کے لئے زمین کو ہموار اور نرم بنا دیا۔ اسلام کے بیج میں اتنی اہلیت اور قوت ہے کہ اگر اسے فضا ساز گار میسر آ جائے تو پھل پھول کر تناور اور سدا بہار درخت بن سکتا ہے۔

2۔ جہاد فی سبیل اللہ اور عام جنگوں میں فرق


مستشرقین نے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ عام دنیا کی جنگوں اور جہاد میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کا مقصد کشور کشائی اور اپنی ہمسایہ قوموں کو مفتوح بنا کر ان سے مالی مفاد حاصل کرنا ہے۔ اس دلیل کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ سونا اور پیتل ایک ہی چیز ہے کیونکہ دونوں چیزیں دھات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا رنگ بھی ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔

ہم پہلے بتلا چکے ہیں کہ اسلام میں کشور کشائی مقصود بالذات نہیں، مقصود بالذات نظامِ عدل کا قیام ہے۔ یہ نظام عدل بعض دفعہ کشور کشائی کے بغیر بھی میسر آجاتا ہے۔ اگر کشور کشائی کے بعد بھی یہ نظام قائم نہ ہو تو اسلامی نقطہ نظر سے ایسی فتح کا کوئی جواز نہیں۔ ہم ذرا غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے۔ جہاد اور عام جنگیں، اپنے مزاج، مقاصد، طریق کار، انجام کار اور نتائج غرض ہر بات میں ایک دوسرے سے مختلف اور متبائن ہیں۔ ذیل میں ہم انہیں یک جا طور پر پیش کرتے ہیں:

(1)مقاصد کا فرق

دنیا میں ہمیشہ یہ چلا ارہا ہے کہ بھائی، بھائیوں کی مدد میں لڑے ہیں۔ قبیلے قبیلوں کی حمایت میں، خاندان، خاندانوں کی عصبیت میں، حتی کہ ملک، ملک کی حمایت و حفاظت میں جانیں دیتے رہتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی قوم یا ملک کے ذاتی مفادات یا سیاسی مفادات کو دنیا میں پیدا شدہ کسی بھی واقعہ سے آنچ آنے لگے تو وہ لڑائی کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کی قوم دوسروں کو مفتوح بنا کر سربلند ہو اور دنیا میں اپنا نام پیدا کرے۔ دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی کوئی جنگ ہوئی، انہی میں سے کسی ایک مقصد کے تحت ہوئی ہے لیکن اسلام ان تینوں مقاصد میں سے کسی کو بھی درست تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ وہ جنگ کا مقصد صرف یہ قرار دیتا ہے کہ دنیا سے فتنہ کا خاتمہ ہو اور اللہ کا بول بالا ہو۔ فتنہ و فساد کا خاتمہ اگر جنگ کئے بغیر ہو سکتا ہے تو جنگ کی کوئی ضرورت نہیں۔

اب دیکھئے کہ قرآنِ کریم نے صلح حدیبیہ کو فتحِ مبین قرار دیا ہے، حالانکہ یہاں سرے سے کوئی جنگ ہوئی ہی نہیں۔ پھر اگر جنگ ہوئی ہی نہیں تو فتح کیسی اور فتحِ مبین کیسی؟ یہ صلح اس لحاظ سے فتحِ مبین قرار دی گئی کہ فتنہ و فساد کو خٹم اور نیست و نابود کرنے کے لحاظ سے جتنے شاندار نتائج اس صلح سے برآمد ہوئے، اگر جنگ برپا ہو جاتی اور اس میں مسلمانوں کو فتح بھی حاصل ہو جاتی تو اس کے ایسے شاندار نتائج متوقع نہ تھے۔

پھر جس طرح بدن کے کسی پھوڑے کے زہر سے بقی بدن کو بچانے کے لئے اس کا اپریشن ضروری ہوتا ہے، اسی طرح معاشرے کے فتنہ پرداز عناصر کے زہر سے باقی معاشرہ کو بچانے لئے اور اس فسادی گروہ کا قلع قمع کرنے کے لئے جنگ کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کی چیز پھاڑ کی وجہ سے کوئی اسے ظالم یا درندہ صفت نہیں کہتا۔ کیونکہ اس کا مقصد بگاڑ کی نجائے اصلاح ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام صرف فتنہ وفساد کے دفعیہ کے لئے جنگ کو جائز بلکہ ضروری قرار دیتا ہے اور یہ انسانیت کی بہبود کے لئے برپا کی جاتی ہے۔ پھر جس طرح ڈاکٹر فی نفسہ مریض کا ہمدرد اور خیر خواہ اور ان کے لئے رحم کے جذبات رکھتا ہے بعینہ اسلام فی نفسہ ایک صلح پسند دین ہے۔ جنگ سے وہ حتی الامکان گریز کرتا ہے مگر جہاں اس کے بغیر چارہ نہ رہا ہوم صرف اِسی وقت، اُسے ضروری سمجھتا ہے۔

(2)طریق کار میں فرق

دنیا کی عام جنگوں میں جنگ جیتنے کے لئے ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اندھا دھند کشت و خون ، بے دریغ بمباری، دشمن کی املاک کی بربادی، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عہد شکنی کرنا اور خفیہ معاہدات، یہ سب کچھ مقصد کے حصول کے لئے ضروری سمجھے جاتے۔ اگر افواج سے اخلاق یا کسی ضابطہ جنگ کی پابندی کا ذکر کیا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ بھلا جنگ کا ضابطہ اخلاق سے کیا تعلق؟ ضابطہ اخلاق سے کوئی بات طے نہ ہونے سے ہی تو جنگ برپا ہوتی ہے۔ پھر جنگ کے دوران اس جابطہ اخلاق کے کیا معنی؟

لیکن اسلام مجاہدین کو جنگ لڑنے کا مکمل جابطہ پیش کرتا ہے اور اس پر کاربند رہنے کی سختی سے ہدایت کرتا ہے۔ اسلامی نقطہ نگای سے ایسی جنگ جس سے اس کے مقرر ضابطہ کی پابندی نہ کی گئی ہو، جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہلا سکتی۔ پھر اس ضابطہ کا بھی اصل الاصول یہ ہے کہ دشمن کا جانی نقصان صرف اس حد تک جائز اور درست ہے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اور یہ نقصان بھی ان حدود و قیود کے تحت ہو جن کا ذکر کیا جا چکا ہے۔

(3)انجام کا فرق

فتح کے بعد بالعموم فاتح اقوام دشمن کے شہر کو نذر آتش کر دیتی ہیں۔ قتتلِ عام کا بازارگرم کرتی ہیں اور جوشِ انتقام میں ہر طرح سے وحشت و بربریت کا ؐظاہرہ کرتی ہیں۔ لیکن اسلام ایسی تمام حرکات کو گناہِ عظیم قرار دیتا ہے۔ اگر اصل مقصد فتنہو فساد کا خاتمہ تھا جو فتح کے ذریعہ ھاصل ہو گیا، اب اس کے بعد ایسی حرکات کا کوئی جواز نہیں۔ جن کے بعد ایسا فتنہ و فساد اسلامی مقصدِ جنگ سے عین متصادم ہو۔ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہی تو دین کا اصل مقصد ہے۔ اگر جنگ کے بعد بھی یہ فتنہ و فساد کھڑا کیا جائے تو جنگ کرنا ہی بے مقصد اور عبث فعل بن جاتا ہے۔

مختصرا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عام دنیا کی جنگیں فتنہ و فساد اور ظلم کے وجود کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور اپنے نتیجہ میں فتنہ و فساد ہی لاتی ہیں جبکہ اسلام میں جنگ ، ایسی جنگوں کو ختم کرنے کے لئے لڑی جاتی ہے۔ چنانچہ انتقامی کاروائیوں سے اس لئے روکا گیا کہ وہ آئندہ کسی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔

(4)نتائج میں فرق

جنگ و جدال کے نتیجہ میں انسان اپنے دشمن، بدخواہ اور حاسد تو پیدا کر لیتا ہے، دوست اور جان نثار ساتھی پیدا نہیں کر سکتا۔ تلوار کا زخم نفرت اور عداوت ہی پیدا کرتا ہے، محبت اور ہمدردی عطا نہیں کر سکتا۔ لہذا مفتوح قوم کو جس وقت بھی اپنے پاؤں پر سنبھلنے کا موقعہ ملتا ہے تو وہ فاتح قوم سے انتقام لینے کی تیاری شروع کر دیتی ہے اور اس طرح دنیا میں فتنہ و فساد کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔

لیکن اسلامی جنگوں کے نتائج اس سے برعکس نکلتے ہیں۔ یہاں دشمن کی بجائے دوست اور ہمدرد پیدا ہوتے ہیں۔ نفرت کے بجائے عقیدت اور محبت بڑھتی ہے۔ طائف کا محاصرہ اٹھانے کے بعد وہ لوگ انتقام کے مواقع تلاش نہیں کرتے بلکہ فورا حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں۔ صلحِ حدیبیہ کی بظاہر توہین آمیز شرائط کے باوجود اور قدرت رکھنے کے باوجود مسلمانوں کی صلح جویانہ پالیسی خالد بن ولید اور عمرو بن عاص جیسے عظیم جرنیلوں کے ذہنوں کے رُخ موڑ دیتی ہے اور وہ اسلام کے سچے خدمت گذار بن جاتے ہیں۔ سہیل بن عمرو جو قریش مکہ کے نمائندہ اور صلحِ حدیبیہ کے ایک فریق تھے، اسی واقعہ سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور خطیبِ اسلام کہلاتے ہیں۔

مکہ کی فتح کے بعد صرف اہل مکہ ہی اس "اخلاقی صرب" سے اسلام کے ہم نوا نہیں بن جاتے بلکہ تمام قابئل عرب اسلام قبول کر کے اس کی قوت میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ بتلائیے کسی دنیوی جنگ نے بھی ایسی نتائج اخذ کئے ہیں؟

اسلام کو کشور کشائی سے جس قدر نفرت ہے، واضح رہے کہ دور نبوی کی تمام جنگوں میں سے صرف غزوہ خیبر اور غذوہ مکہ پر کشور کشائی کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ باقی جنگیں یا تو دفاعی مقاصد کے لئے لڑی گئیں یا سرحدوں کی حفاظت کے لئے۔ اسی طرح اس اعتراض کی بھی کوئی حیثیت نہیں کہ مسلمانوں نے بھی عام دنیا کی طرح مالی منفعت حاصل کرنے کے لئے کشور کشائی کی تھی؟

مفتوحہ علاقوں سے مالی منفعت کے حصول کا مسئلہ یوں سمجھئے کہ ایک دنیا دار بھی دنیا کماتا ہے۔جس میں وہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر ہر وہ حربہ استعمال کر گزرتا ہے جس سے وہ دنیا کا مال حاصل کر سکے۔ اس کے بالمقابل ایک دیندار تمام شرعی پابندیوں کا لحاظ کر کے بھی دنیا کماتا ہے۔ دنیا کا مال پہلے شخص کو بھی مل جاتا ہے جو اس کا مقدر ہوتا ہے اور دوسرے کو بھی جو اس کا مقدر ہوتا ہے۔ اس مقام پر حصولِ مال میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں حالانکہ دوسرے شخص کا کمایا ہوا مال دنیا داری نہیں بلکہ عین دین سمجھا جائے گا۔ بالکل یہی صورت حال دُنیوی مقاصد کے تحت لڑی جانے والوں جنگوں اور جہاد فی سبیل اللہ کے بعد تحصیل مال کی ہے اور ان دونوں میں جو فرق ہے اسے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔

3۔ اسلام اور جنگ جوئی


اسلام پر تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام نے جہاد کو فرض قرار دے کر ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ لہذا اسے ایک امن پسند مذہب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عرب قبائل ہمیشہ آپس میں برسر پیکار رہتے تھے۔ اسلام نے آکر صرف یہ تبدیلی پیدا کی کہ ان جنگجو قبائلیوں کا رخ اندرونی خلفشار اور باہمی جنگوں سے ہٹا کر بیرونی دنیا کی طرف موڑ دیا لیکن ان کی جنگجوئی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی۔ جیسے وہ اسلام لانے سے پیشتر برسر پیکار رہتے تھے ویسے ہی اسلام لانے کے بعد بھی رہے۔ انہیں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ:

﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ﴾

" ان ( کفار و مشرکین) کو جہاں پاؤ، قتل کردو"

علاوہ ازیں اسلام ایک عالمگیر سلطنت کا داعی ہے۔ قرآن میں ہے:

﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ...﴿١٩٣﴾... سورةالبقرة

"اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے اور دین صرف اللہ کے لئے ہوجائے"

لہذا اسلام نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک دارالاسلام جہاں اسلامی حکومت قائم ہو۔ اور دوسرے دارالحرب جہاں غیر مسلم حکومت ہو۔ آسان الفاظ میں یوں کہئے کہ ایک حصہ عالم اسلام ہے اور دوسرا عالمِ جنگ۔ دارالاسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دارالحرب یا غیر مسلموں سے برسرپیکار رہ کر انہیں دارالاسلام میں شامل کرتا چلا جائے تا آنکہ ساری دنیا کو اپنے دائرہ اقتدار میں لے لے۔

یہ ہے ان عقلی اور نقلی دلائل کا خلاصہ جن سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسلام کوئی امن پسند یا صلح جو مذہب نہیں بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ہر وقت برسرپیکار رہنا چاہتا ہے۔

پیشتر اس کے کہ اس کا اعتراض اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے مندرجہ ذیل باتوں کی وضاحت ضروری ہے:

(1)مشرکین اور اہل کتاب کا فرق

جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اہل کتاب پر تین شرطیں پیش کی جاتی ہیں:

1۔سب سے پہلے یہ کہ وہ اسلام لائیں۔ اگر یہ نامنظور ہو تو وہ

2۔ اطاعت گزار بن کردارالاسلام میں رہیں اور جزیہ یا اس کی متبادل کوئی صورت قبول کریں۔ اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو وہ

3۔ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔

لیکن مشرکین کے لئے اطاعت گزار بن کر رہنے کی بھی کم از کم حجاز میں گنجائش نہیں۔ ان پر بھی تین ہی شرائط پیش کی جاتی ہیں جیسا کہ سورہ توبہ کے آغاز میں مذکور ہے یعنی

1۔ اسلام قبول کر لیں۔ اگر یہ منظور نہ ہو تو

2۔ دارالسلام چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر

3۔ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔۔۔۔ گویا ان کے لئے شرط نمبر2، اطاعت گزار بن کر رہنے کی بجائے حجاز کو چھوڑ کر چلے جانے کی ہے۔

مشرک کی عام تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی کتاب کا قائل نہ ہو۔اور اللہ کے متعلق کوئی واضح عقیدہ نہ رکھتا ہو یا اس کی ذات و صفات میں دوسروں کو بھی شریک بناتا ہو۔ اس وضاحت سے یہ بات صاف ہو گئی کہ اسلام کی نظر میں تمام غیر مسلم ایک سطح پر نہیں۔ وہ اہل کتاب سے نسبتا نرم رویہ اختیار کرتا ہے۔ لیکن مشرکین کے معاملہ میں سخت ہے۔

مندرجہ بالا دونوں آیات مشرکین سے تعلق رکھنی ہیں اور اس سختی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک مشن ہے جو فتنہ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی نظر میں چونکہ سب سے بڑا فتنہ شرک ہے۔ لہذا شرک کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہے گویا شرک کی موجودگی ہی جنگ کے لئے آئینی جواب ہوتی ہے۔

(2)اقامت پذیری

بلحاظِ توطن دارُالاسلام کی تین اقسام ہیں:

(1)حرمین یعنی حرم مکہ اور حرم مدینہ: ان مقامات میں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں۔ اہل کتاب یا مشرک یہاں اقامت اختیار نہیں کر سکتے۔

(2)جزیرہ عرب یا حجاز: اس میں اہل کتاب معاہد کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں۔ ہاں اگر بغاوت یا بد عہدی کریں تو انہیں دارالاسلام کے کسی دوسرے مقام میں منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن مشرکین کو اس خطہ میں برداشت نہیں کیا گیا۔

(3)باقی دارُالاسلام میں اہل کتاب تو اطاعت گذار بن کر پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن مشرکین کو گوارا ہونے کی حد تک برداشت کیا گیا کہ وہ جزیہ دے کر اس علاقہ میں رہ سکتے ہیں (؟) (اسلام کا قانونِ جنگ و صلح، ص158)

مشرکین پر سختی کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ہر وقت اسلام پر کسی آفت کے پڑنے اور اندریں صورت بدعہدی کے منتظر رہتے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود سورہ توبہ میں اعلان کر کے ان کو چار ماہ سوچنے کی اجازت دی اور ان سے طے شدہ معاہدات کو کالعدم قرار دے دیا۔ اگر یہ اقدام نہ کیا جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اُٹھنے والا ارتداد کا فتنہ شاید دس گنا زیادہ طاقت سے اُبھرتا اور اسلام کی تاریخ بھی کوئی اور ہی رنگ اختیار کرتی۔

ان تصریحات کے بعد اب ہم اصل اعتراض کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جس کا پہلا حصہ ہے کہ اسلام میں جو جنگجو قبائل داخل ہوئے تھے، اسلام نے صرف ان کا رُخ دنیا کی طرف پھیر دیا تھا۔ لہذا ان کی جنگجو فطرت میں کوئی فرق نہ آیا۔ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے:

سابقین اولین کی امن پسندی

پہلی وجہ یہ ہے کہ بے شک عرب کے اکثر قبائل فطرتا جنگجو واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کے سب افراد جنگجو نہیں تھے۔ بلکہ ان میں کثیر طبقہ ایسا بھی تھا جو اس قتل و غارت کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ وہ کمزور تھے، مظلوم تھے پھر ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو صلح پسند اور امن پسند تھا اور قتل و غارت اور ظلم و جور سے نفرت رکھتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے حلف الفضول کا واقعہ اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ ایسے ہی لوگ ابتداء اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ چونکہ قتل و غارت اور ظلم و فساد کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو ختم کرنے کی صورت صرف یہی تھی کہ ایسے شرپسندوں کا جنگ کے ذریعہ قلع قمع کیا جائے لہذا جب کمزور مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت ملی تو بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار تھی۔ ارشاد باری ہے:

﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْ‌هٌ لَّكُمْ...﴿٢١٦﴾... سورةالبقرة

"تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے"

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُ‌وا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْ‌ضِ...﴿٣٨﴾...سورةالتوبة

"مسلمانو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین پر بچھے جاتے ہو"

اور دور نبوی کی سب سے پہلی جنگ میں مسلمانوں کی "جنگ جوئی" کی کیفیت اس انداز میں بیان کی گئی ہے:

﴿كَمَا أَخْرَ‌جَكَ رَ‌بُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِ‌يقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِ‌هُونَ ﴿٥﴾ يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُ‌ونَ ﴿٦﴾... سورة الانفال

"جب تمہارے پروردگار نے تمہیں تمہارے گھر سے نکالا اور اس وقت مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔ وہ لوگ حق بات میں اس کے ظاہر ہونے کے بعد تم سے جھگڑنے لگے گویا موت کی طرف دھکیلے جانے لگے ہیں اور وہ سوگ کو سامنے دیکھ رہے ہیں"

اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّ‌ضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ...﴿٦٥﴾... سورةالانفال

"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! مومنوں کو جنگ کی ترغیب دو"

ان تمام آیات سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ کم از کم جنگِ بدر تک بہت سے مسلمان جنگ سے نفرت کرتے تھے اور اسے ناگوار سمجھتے تھے۔ یہی لوگ اسلام کا ابتدائی اور قیمتی سرمایہ تھے۔ اگر یہ لوگ فطرتا جنگجو ہوتے تو ان احکامات و ارشادات کی کیا ضرورت تھی؟

اصل بات یہی ہے کہ اسلام کے یہ ابتدائی جان نثار صلح جو اور امن پسند تھے۔ ظلم و فساد کے خاتمہ کے لئے جب ان پر جنگ کا "فریضہ" عائد کر دیا گیا تو انہوں نے اسے ناگوار سمجھنے کے باوجود اللہ کا حکم سمجھ کر سر انجام دیا۔ البتہ نوجوان اور جرات مند طبقہ مکہ زندگی میں بھی لڑائی کی اجازت مانگتا رہا مگر انہیں صبر ہی کی تلقین کی جاتی رہی۔

جارحانہ اقدامات

اس بحث کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جنگجو لوگ ہمیشہ وہی کہلائے جا سکتے ہیں جو جارحانپ اقدامات کریں۔ اس معیار پر غور کرنے کے لئے ہمیں دورِ نبوی کی جنگوں کے اسباب پر سرسری نظر ڈالنا ہو گی:

(1)غزوہ بدر، احد اور احزاب خالص مدافعانہ جنگیں تھیں کیونکہ دشمن کافروں کا مقصد یہ تھا کہ اسلام اور اہل اسلام کا کلی طور پر استیصال کر دیا جائے۔

(2)غزوہ خیبر اور غزوہ مکہ دشمن کی طرف سے عہد شکنی کی وجہ سے پیش آئیں۔ یہ لوگ اگر اپنے عہد پر قائم رہتے تو یہ جنگیں بپا ہی نہ ہوتیں۔

(3)سریہ موتہ اور غزوہ تبوک، سفیر کے قتل اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے پیش آئیں۔ کیونکہ وہ کیا حکومت ہے جو اپنے سفیر کے قتل پر بھی خاموش رہتی ہے یا اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرتی۔

(4)غزوہ حنین (اوطاس اور طائف) میں دشمن نے خود للکارا تھا اور مسلمانوں کو جس بے سروسامانی کی حالت میں یہ جنگ لڑنا پڑی، اس کی کیفیت بھی ملاحظہ فرمالیجئے:

فتح مکہ کے فورا بعد ہوازن اور ثقیف کے جنگجو قبائل نے مقابلہ کی ٹھانی اور ایک بڑے لشکر کو حنین کے مقام پر لا ڈالا۔ عورتیں اور بچے بھی ہمراہ لے آئے کہ کسی کو بھاگنے کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبورا جن حالات میں یہ جنگ لڑنا پڑی، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ نے عبداللہ بن ربیعہ سے، جو ابوجہل کے بھائی تھے، تین ہزار درہم قرض لئے (مسند احمد، ج4 ص36) اور ہفوان بن امیہ جو کہ ان کا رئیس اعظم تھا اور ابھی تک اسلام نہیں لایا تھا اس سے اسلحہ جنگ مستعار لیا، اس نے سو زرہیں اور اس کے لوازمات پیش کئے (موطا، ابوداؤد باب الضمانة) اس طرح آپ نے کافروں سے ہی اسلحہ اور زر نقد اُدھار لے کر یہ جنگیں لڑیں۔

(5)یہود سے جو غزوات ہوئے۔ مثلا غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ سب یہودیوں کی عہد شکنی اور کھلی بغاوت کے نتیجہ میں پیش آئے تھے۔

غور فرما لیجئے کہ ان میں کون سی جنگ کو جارحانہ جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے۔

دارالاسلام اور دارالحرب

دارالاسلام اور دارالحرب کی اصطلاحیں فی الواقعہ فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں۔ لیکن انہیں عالم اسلام اور عالم جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی مغالطے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

(1)اسلام غیر مسلموں کے سارے علاقے کو "عالم جنگ" قرار نہیں دیتا۔ ہماری رائے میں صحیح بات یہ ہے کہ غیر جانبدار ممالک سے جنگ کی اجازت نہیں۔ یعنی ایک ایسی غیر مسلم حکومت جو امن و امان سے رہتی اور رہنا پسند کرتی ہے، وہ نہ مسلمانوں سے خود چھیڑ چھاڑ کرتی ہے نہ مسلمانوں کے خلاف دشمن کی حمایت کرتی ہے، اس سے لڑائی کا کوئی جواز نہیں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی۔ ارشاد باری ہے:

﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِ‌جُوكُم مِّن دِيَارِ‌كُمْ أَن تَبَرُّ‌وهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾... سورة الممتحنة

"اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کی بھلائی اور احسان کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے سلسلہ میں نہیں لڑتے۔ اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اس آیت میں غیر جانبدار ممالک سے لڑائی سے منع ہی نہیں کیا گیا بلکہ بہتر سلوک کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

گویا " دارالحرب" دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے۔ دوسرے حربی علاقہ جہاں جنگ کا امکان ہے۔(؟)

(2) حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہو سکتے ہیں جن سے صلح یا تجارت وغیرہ کے معاہدات طے پائے ہوں۔ اور ان کی مدتِ صلح عموما دس سال ہوتی ہے۔ جب تک ایسے ممالک بغاوت یا بد عہدی نہ کریں ان سے جنگ کا کوئی امکان نہیں، نہ ہی اس کی اجازت ہے۔

(3)اس کے بعد جو ممالک بچ جائیں وہ فی الواقع "دارالحرب" ہیں۔ لیکن ان پر بھی "حالاتِ جنگ" کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ حالاتِ جنگ اور چیز ہے اور خطرہ جنگ اور چیز۔ اس کی مثال یوں سمجھئے ۔ جیسے روش اشتراکیت کا علمبردار ہے اور امریکہ جمہوریت اور سرمایہ داری کا۔ نیز دونوں قسم کے نظریات چونکہ آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لہذا ان دونوں ملکوں میں جنگ کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ عین ممکن ہے کہ ان دونوں ممالک میں ایک طویل مدت تک حالات جنگ پیدانہ ہوں۔

یہی صورت حال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے اور بھارت ایک قومی نظریہ کا حامی ہے۔ نظریات کے اس تضاد نے ہر وقت کا خطرہ تو پیدا کر دیا ہے لیکن حالاتِ جنگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔

حالاتِ جنگ صرف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی ملک اپنے حقوق سے تجاوز کر جاتا ہے جو حریف ملک کے لئے ناگوار ہوتے ہیں۔ مثلا روس اپنا یہ حق سمجھتا ہے کہ گرم پانی تک اس کی رسائی ہو۔ لہذا افغانستان، پاکستان اور ایران وغیرہ پر اس کا تسلط قائم ہونا چاہیے۔ لیکن حریف ممالک روس کے اس "حق" کو ناجائز سمجھتے ہیں روس نے افغانستان میں اپنا یہ حق استعمال کرنا شروع کر دیا تو جنگ چھڑ گئی۔ اور پاکستان اور ایران کے لئے حالاتِ جنگ پیدا ہو گئے۔(؟)

مغربی اقوام کے نزدیک طاقت ہی سب سے بڑا حق ہے۔ ان کے نزدیک جنگ کے آغاز کے لئے مقدس حقوق جائز سمجھے گئے ہیں۔ انہی حقوق میں سے کسی ایک حق کا استعمال کر کے وہ حالاتِ جنگ پیدا کر دیتے ہیں لیکن اسلام اس طرح کے حقوق کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے اس وقت تک حالاتِ جنگ پیدا نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان صورتوں میں سے کوئی صورت پیدا نہ ہو۔ جن کی تفصیل کتب وحی میں گزری ہے۔ اسلام میں لڑائی کے جواز کا عام قانون ظلم اور فتنہ کا استیصال ہے۔ کوئی ملک اسلامی ریاست پر چرح کر آ جائے یا سرحدوں پر یورش کرے یا سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرے۔ یا مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض سے روکے تو یہ سب ظلم اور فتنہ کی مختلف شکلیں ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ملک اشاعتِ اسلام میں رکاوت پیدا کرتا ہے یا صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ان پر مظالم ڈھاتا ہے تو اس طرح حالاتِ جنگ پیدا ہو جاتے ہیں۔

ان تصریحات سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اسلام صرف مدافعانہ جنگ ہی کا قائل نہیں بلکہ وہ ظلم و جور کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے خواہ یہ ملک کے اندر ہو یا باہر۔ اب اسے کوئی مصلحانہ جنگ کہہ لے یا جارحانہ جنگ۔ اسلام نے بہرحال جنگ کرنے اور ا سے رک جانے کے اصول متعین کر دئے ہیں اور مسلمانوں کو انہیں اصولوں پر کاربند رہنا لازم کر دیا ہے۔


حواشی

مفسرین اس آیت کا شانِ نزول یہ لکھتے ہیں کہ انصارِ مدینہ یہود کو ان کے اہل علم ہونے کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اور اسی بنا پر اپنے بچوں کو یہودی بنانے کی نذر مانتے تھے۔ اس طرح مدینہ میں کچھ ایسے افراد بھی موجود تھے جو اصل میں تو عربی النسل تھے۔ مگر مذہبا یہودی بن گئے تھے۔ مدینہ سے جب یہود کا اخراج ہوا تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ نو یہود بھی جلا وطن ہوں گے یا مدینہ میں رہیں گے۔ اس وقت یہ آیت اُتری۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں اپنی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ یہودی رہیں تو ان کو جلا وطن ہونا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر یہ مدینہ میں رہ سکتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایرانی فتوحات کے دوران زرتشیوں اور مجوسیوں کو اہل کتاب کے زمرہ میں شمار کیا کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب کا اعتقاد رکھتے تھے۔