حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی
(سیر و سوانح و افکار و عقائد)
دُنیا کی تمام زندہ قومیں اپنےمشاہیر کی یاد سے اپنے دلوں کو گرماتی اور تازہ دم ہوجاتی ہیں لیکن ملّت اسلامیہ اپنے مزاج کے لحاظ سے بالکل جداگانہ نوعیت کی ہے۔ یہ قوم اپنی رُوح کی تازگی کے لیے ہمیشہ حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ سےحصول فیض کرتی ہے اور ان برگزیدہ شخصیتوں کی یاد سے اپنے دلوں کوگرماتی ہے جن کی زندگیاں اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھلی ہوں او رانسانیت کاجیتاجاگتا نمونہ بن گئی ہوں۔ یہ شخصیتیں جہاں فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد ختم نہیں ہوتیں بلکہ حیات جاوید پاتی ہیں۔ حافظ شیرازی نے خوب فرمایا: ؎
ہر گز نہ میرو آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
ان ہی بزرگ شخصیتوں میں ایک نمایاں اور ممتاز شخصیت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ہے ۔ آپ تو حید خالص، اتباع رسولؐ،اقامت دین،اصلاح معاشرہ او راحیائے اسلام کےعلمبردار تھے۔ آپ کو اس جہان رنگ و بُو سے رخصت سفر باندھے ہوئے آٹھ سو سال گذر چکے ہیں لیکن آپ کی یاد زندہ اور ذکر خیر گلاب و یاسمین کی مانند عطر بیز ہے۔
ولادت باسعادت : شیخ عبدالقادر جیلانی کی ولادت ایران کے ایک صوبہ جیلان (گیلان) میں470ھ میں ہوئی۔
نسب نامہ : آپ کا سلسلہ نسب تمام مستند کتابوں میں مرقوم ہے اور جوآپ کی آل اور اولاد مریدین و معتقدمین کے پاس ابتداء ہی سے نسلاً بعد نسل محفوظ چلا آتا ہے۔
آپ کاآبائی سلسلہ حضرت حسن ؓ او رمادری سلسلہ حضرت حسینؓ سے ملتا ہے اس لیے آپ حسنی حسینی سید تھے ۔ مختلف قرابتوں کے لحاظ س آپ کا نسب حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ سے بھی جاملتا ہے ۔اسی وجہ سے آپ صدیقی، فاروقی اور عثمانی بھی ہیں۔
تعلیم و تربیت : آپ نے ایک علمی گھرانے میں جنم لیا تھا۔ آپ کے والد سیدنا ابوصالح موسیٰ اپنے وقت کے ممتاز عارف باللہ تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ اُم الخیر فاطمہ ثانیہ بھی عظیم المرتبت نیک خاتون تھیں۔لہٰذا آپ کی سب سے بڑی تربیت گاہ آغوش والدین اور اُن کا گھر تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم والدین سے حاصل کی۔ قرآن مجید ان ہی سے حفظ کیا۔ ابھی آپ دس برس کے ہی تھے کہ اچانک 481ھ میں آپ کے والد ماجد نے انتقال فرمایا۔ آپ کو داغ یتیمی سہنا پڑا۔ آپ کی والدہ جو ایک نہایت زیرک خاتون تھیں اور سچی مسلمان تھیں نے اس دریتیم کی مستقبل کی تمام راہوں اور زندگی کے تمام گوشوں کو سنوارنے اور چمکانے کی جانب پوری توجہ دی۔ آپ نے اپنی عظیم ماں کی نگرانی میں اٹھارہ سال کی عمر تک جیلانی ہی میں تعلیم حاصل کی۔ مزیداعلیٰ تعلیم کا جیلان میں انتظام نہیں تھا اُن کی بلند حوصلہ والدہ نے بخوشی آپ کو 488ھ میں بغداد روانہ کردیا۔ یہی وہ سال ہے جس میں امام غزالی نے تلاش حق و حصول یقین کے لیے بغداد کو خیرباد کہا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ایک جلیل القدر امام سے جب بغداد محروم ہوا تو دوسرا جلیل القدر مصلح اور داعی الی اللہ وہاں وارد ہوا۔
اساتذہ و شیوخ : مملکت اسلامیہ کے دارالخلافہ بغداد میں آپ شیخ طریقت ابوالخیر حماد بن مسلم الدباس کی خدمت میں حاصر ہوئے۔ ان سے رموز طریقت حاصل کیے پھر زہاد میں بلند مرتبت قاضی ابوسعید محزمی سے تکمیل کی اجازت حاصل کی۔ ان کے علاوہ ان کے اساتذہ میں ابوالفداء ابن عقیل بغدادی محمد بن حسن الباقلانی او رابوزکریا تبریزی جیسے نامور علماء اور ائمہ فن شامل ہیں۔عبادت و مجاہدات کی طرف طبعی کشش کے باوجود آپ نے تحصیل علم میں صناعت و زہد سے کام نہیں لیا بلکہ پوری دستگاہ حاصل کی۔
حلیہ مبارک : آپ کا بدن نحیف، قد میانہ، رنگ گندم گوں، سینہ چوڑا، ریش ایک گونہ سرعت تھی۔ آ پ کے کلام کے رُعب سے سننے والے پر ہیبت طاری ہوجاتی۔ یہی حالت آنکھوں کی تھی جس کی طرف ایک بار نظر اُٹھا کر دیکھ لیتے وہ مطیع ہوجاتا۔
محامد و اخلاق : ظاہری اور باطنی تکمیل کے بعد اصلاح و ارشاد کی طرف متوجہ ہوئے ۔ مسند درس اور مسند ارشاد کو بیک وقت زینت دی۔ بغداد کے رہنے والے آپ کی تقاریر پرٹوٹ پڑتے۔ آپ کو اللہ نے ایسی وجہات و قبولیت عنایت فرمائی جو بڑے بڑےبادشاہوں کونصیب نہ ہوئی۔ بادشاہ وزراء آپ کی مجلسوں میں نیاز مندانہ حاضر ہوتے۔
بایں رفعت و منزلت حد درجہ منکسرالمزاج تھے۔ غریبوں اور فقیروں کے سامنےبیٹھتے اس کے برخلاف کسی معزز آدمی اور ارکان سلطنت کی تعظیم میں کھڑے نہ ہوتے ۔ خلیفہ کی آمد پرقصداً گھر چلے جاتے۔ خلیفہ آکر بیٹھ جاتا تو پھر تشریف لاتے تاکہ تعظیماً کھڑا نہ ہونا پڑے ۔ آپ کے دیکھنے والے اور دیگر معاصرین آپ کے حُسن اخلاق، علو حوصلہ، تواضع و انکساری، سخاوت و ایثار اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ الامام الحافظ ابوعبداللہ محمد بن یوسف البرزالی الاشبیلی ان الفاظ میں آپ کی تعریف کرتے ہیں:
کان مجاب الدعوة سریع الدمعة دائم الذکر کثیر الفکر دقیق القلب، دائم البشر، کریم النفس، سخی الید، عزیر العلم شریف الأخلاق،طیب الأعراق مع قدم راسخ في العبادة والاجتهاد''آپ مستجاب الدعوات تھے، (اگر کوئی عبرت اور رقت کی بات کی جاتی تو 9 جلدی آنکھوں میں آنسو آجاتے، ہمیشہ ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ بڑے رقیق القلب تھے۔ خندہ پیشانی، شگفتہ رو، کریم النفس، فراخ دست، وسیع العلم، بلند اخلاق، عالیٰ نسب، عبادت او رمجاہدات میں آپ کا پایہ بلند تھا۔''
ایک بزرگ حرادہ فرماتے ہیں:
مارأت عیناي أحسن خلقا ولا أرسع صدر اًولا أکرم نفساً ولا ألطف قلبا ولا أحفظ عھداً ووداً من سیدنا الشیخ عبدالقادر لقد کان مع جلالة قدره و علو منزلته و سعة علمه یقف مع الفقیر و یوقر الکبیر و یبدأ بالسلام ویجالس الضعفاء و یتواضع للفقراء وما قام لأ حد من العظماء ولا الأعیان ولا ألم بباب وزیر ولا سلطان''میری آنکھوں نے شیخ عبدالقادر سے بڑھ کر کوئی خوش اخلاق، فراخ حوصلہ، کریم النفس، رقیق القلب، محبت اور تعلقات کا پاس کرنے والا نہیں دیکھا۔ آپ اپنی عظمت علو مرتب اور وسعت علم کے باوجود چھوٹے کی رعایت فرماتے، بڑے کی عزت کرتے، سلام میں سبقت کرتے۔ کمزوروں کے پاس اُٹھتے بیٹھتے،غریبوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آتے حالانکہ آپ کسی سربرآوردہ یا رئیس کے لیے کھڑے نہیں ہوتے اور نہ کسی وزیر یا حاکم کے دروازہ پر گئے۔''
مفتی عراق محی الدین ابوعبداللہ محمد بن حامد بغدادی لکھتے ہیں:
أبعد الناس عن النحس ۔أقرب الناس إلی الحق، شدید البأس إذا انتھکت محارم اللہ عزوجل لا یغضب لنفسه ولا سینتصر لغیره''غیر مہذب بات سے انتہائی در ، حق اور معقول بات سے بہت قریب اگر حدود الہٰی او راحکام الہٰی پر دست درازی ہوتی تو آپ کو جلال آجاتا۔ اپنے معاملہ میں کبھی غصہ نہ آتا۔ اللہ کے علاوہ کسی چیز کے لیے انتقام نہ لیتے۔''
آپ محبت، سخاوت فرماتے۔ حکم دیا تھا، رات کووسیع دستر خوان بچھے۔ خود مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے، کمزوروں اور غریبوں کی ہم نشینی فرماتے، طلباء کی باتوں کو برداشت فرماتے اور تحمل سےکام لیتے۔ ہر شخص یہ سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی ان کامقرب نہیں۔ ساتھیوں میں سے جوغیر حاضر ہوتااس کا حال دریافت فرماتے او راس کی فکر کرتے۔ تعلقات کا بڑا پاس او رلحاظ تھا۔غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر کرتے۔ اگر کوئی کسی بات پرقسم کھا لیتا تو اس کو مان لیتے او رجوکچھ جانتے تھے اس کا اخفا فرماتے۔
روحانیت کی لہر: آپ نے خلوص کے ساتھ وعظ و ارشاد، اصلاح نفوس اور تزکیہ قلوب کی طرف توجہ دی اور نفاق جب دنیا کی تحقیر و تذلیل، ایمان شعور کے احیاء، عقیدہ آخرت کی تذکیر اور اس سرائے فانی کی بے ثباتی کے مقابلے میں اس حیات جاودانی کی اہمیت، تہذیب اخلاق، توحیدخالص اور اخلاص کامل کی دعوت پر پورا زور صرف کیا۔ آپ کی کرامت کی کثرت پرمؤرخین کا اتفاق ہے۔ شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام او رامام ابن تیمیہ کا قول ہے کہ ''شیخ کی کرامتیں حد تواتر کو پہنچ گئیں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی کرامت عالم اسلام میں روحانیت کی نئی لہر پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی عطا فرمائی ۔ آپ کاوجود اسلام کے لیے باد بہاری تھا جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی روح ڈال دی۔
شیخ عمر کیسانی کہتے ہیں کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں یہودی او رعیسائی اسلام نہ قبول کرتے ہوں او ررہزن، خونی اور جرائم پیشہ توبہ سےمشرف نہ ہوتے ہوں۔ فاسد الاعتقاد اپنے غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں۔
جبائی کا بیان ہے کہ مجھ سے شیخ نے ایک روز فرمایاکہ ''میری تمنا ہے کہ زمانہ سابق کی طرح صحراؤں او رجنگلوں میں رہوں۔ نہ مخلوق مجھے دیکھے نہ میں اس کو دیکھو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کانفع منظور ہے۔ میرے ہاتھ سے پانچ ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان ہوچکے ہیں۔ عیار اور جرائم پیشہ لوگوں میں سے ایک لاکھ سے زائد توبہ کرچکے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ اس سلسلہ میں بچپن ہی سے آپ لوگوں کی اصلاح کی طرف توجہ فرماتے تھے۔کبھی کسی پر زیادتی نہ کرتے، کبھی گالی نہ نکالتے۔ ہمیشہ سچ بولتے، اٹھارہ سال کی عمر میں جب آپ حصول علم کے لیےبغداد جارہےتھے تو راستہ میں آپکا قافلہ لٹ گیا۔ ایک ڈاکو نے آخر کار آپ سے بھی پوچھا لیاکہ تمہارے پاس کیا ہے۔ فرمایا: چالیس اشرفیاں ہیں۔پوچھا کہاں ہیں۔ فرمایاگڈری میں بغل کےنیچے سلی ہوئی ہیں۔ وہ سمجھا مذاق ہے، چلا گیا۔ایک دوسرے نے پوچھا تو پھر اس کو بھی بتا دیا۔انہوں نے اپنے سردار سے ذکر کیا۔ سردار نے بلاکر پوچھااور گڈری کھولنے کےمتعلق کہا۔کھولی گئی تو چایس اشرفیاں نکل آئیں۔ اس نے تعجب سے پوچھا: آپ نے اپنا راز فاش کیوں کیا۔ تو فرمایا: ''والدہ صاحبہ نے عہد لیا ہے کہ ہر حالت میں سچ بولنا۔ میں ان کےعہد میں خیانت نہیں کرسکتا۔ سردار یہ کلام پُر تاثیرسن کر رو دیا۔ کہنے لگا تم اپنی والدہ کے عہد میں خیانت نہیںکرتے۔ میں کئی سالوں سے اللہ کےعہد میں خیانت کررہا ہوں۔فوراً توبہ کی۔ اس کے ساتھیوں نےبھی اس کے ساتھ توبہ کرلی۔مال قافلہ کو واپس کردیا۔ حضرت نےفرمایا۔ یہ پہلا گروہ تھا جس نےمیرے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
استقلال: آپ بہت مستقل مزاج تھے۔ تائید غیبی نے آپ کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ حق و باطل ، نور و ظلمت، الہام صحیح اور کید شیطانی میں پورا امتیاز پیدا ہوگیا تھا۔ آپ پر یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہوگئی تھی کہ شریعت محمدی کے احکام اور حلال و حرام میں قیامت تک کے لیے تغیر و تبدل کا امکان نہیں جو اس کے خلاف دعویٰ کرے وہ شیطان ہے۔ فرماتے ہیں : ایک دفعہ ایک جنگل میں ایک عظیم روشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے کنارےبھرگئے۔ اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی۔ اس نے مجھ سے خطاب کرکے کہا:
اے عبدالقادر میں تمہارا خدا ہوں۔ وقد احللت لک المحرمات اوقال ما حرمت علی غیرک ''میں نے تمہارے لیے وہ تمام چیزیں حلال کردی ہیں جو دوروں کے لیے حرام ہیں۔''
میری زبان پر بے سا ختہ:
أعوذ بالله من الشیطان الرجیم جاری ہوا۔ پھر دھتکار کر کہا دور ہو مردود! یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت میں تبدیل ہوگئی اور وہ صورت دھواں بن گئی او رایک آواز آئی عبدالقادر تم کو تمہارے علم اور تفقہ نے بچا لیا ورنہ اس طرح ستر صوفیوں کو گمراہ کرچکا ہوں۔ میں نے کہا اللہ کی مہربانی نے مجھے تیری زد سے محفوظ رکھا ہے ۔ یہ بھی آپ کاارشاد ہے
کہ حدود الہٰی میں سے کوئی حد ٹوٹتی ہو تو سمجھ لو کہ تم فتنہ میں پڑ گئے ہو اور شیطان تم سے کھیل رہا ہے فوراً شریعت کی طرف رجوع کرو۔ اس کومضبوط تھام لو۔ نفس کی خواہشات کو جواب دو۔ اس لیے کہ ہر وہ حقیقت جس کی شریعت تائید نہیں کرتی، باطل ہے۔
توحید کا صحیح تصّور : اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کا مقصد ہی اپنی عبادت قرار دیا ہے۔
وما خلقت الجن والإنس إلاليعبدون۔ اسی لحاظ سے تمام انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث ہی توحید کی اشاعت کے لیے کیا۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِعلامہ اقبال نے اسی تصور کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
خودی کا سرنہاں لا الٰہ الا اللہ ..... خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند ..... بتان وہم وگمان لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند ..... بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
حضور علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اسی توحید کے تصور کو ہی لوگوں کے ذہنوں میں بٹھایا۔ قرآن مجید میں ہے :الا تعبدوا الا اللہ اننی لکم منہ نذیر وبشیرہ ''اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ بے شک میں نذیر اور بشیر ہوں۔ (پ11 ہود)
شیخ عبدالقادر جیلانی بہت بڑے موحد تھے۔ آپ کے درس و اسباق میں ہمیشہ توحید کے پیمانے جھلکتے رہے۔ توحید کا مضمون آپ کے مقالات کی جان اور مواعظ کی روح رواں تھا۔آخری دم تک آپ توحید کی نشرواشاعت میں منہمک رہے۔ زندگی کے آخری لمحات میں اپنے بیٹے شیخ عبدالوہاب کو فرماتے ہیں۔
علیك بتقویٰ اللہ ولا تخف أحدً اسوی اللہ ولا ترج أحداً سوی اللہ ووکل الحوائج إلی اللہ عزوجل ولا تعتمد إلا عليه واطلبھا جمیعا منه ولا تثق بأحد غیر اللہ عزوجل التوحید التوحید۔''خدا کا خوف لازم کر! خدا کے سوا کسی سے نہ ڈر اور نہ ہی اس کے سوا کسی سے امید رکھ اپنی تمام حاجتیں اللہ ہی کو سونپ اور اس کے سوا کسی پربھروسہ نہ کر جو مانگنا ہو اسی سےمانگ۔ اس کے سوا کسی کی مدد پر تکیہ نہ کر اللہ بڑی عزت و جلال والا ہے توحید کو مضبوط پکڑ، توحید کو لازم پکڑ۔''
نافع و ضاّر اللہ تعالیٰ ہی ہے:
لا محیص لمخلوق من القدر المقدور الذي خط لوح المسطور وإن الخلائق لو جھدوا أن ینفعوا المرأ بماله یفضه اللہ تعالیٰ لم یقدر عليه ولو جھدوا أن یضروہ بمالم يفضه اللہ لم یستطیعوا کماور دفي خبر ابن عباسؓ قال قال اللہ تعالیٰ وإن یمسك اللہ بضر فلا کاشف له إلاھو وإن یردك بخیر فلا رآد لفضله یصیب به من یشآء من عباده''کسی مخلوق کو اس ارادے سے کہ خدا نے کیا او رلوح محفوظ میں رکھ دیا چارہ نہیں ہے اگر تمام مخلوق کسی کو نفع پہنچانا چاہے جو اللہ نے اس کی قسمت میں نہیں کیا تو مخلوق اس نفع کو پہنچانے پر قدرت نہیں رکھتی اور اگر تمام مخلوق کسی کو نقصان پہنچانا چاہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں نہیں کیا تو مخلوق اس کو نقصان پہنچانے پرقدرت نہیں رکھتی۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت کردہ حدیث میں آیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو فرمایا: ''فرمان الہٰی ہے، اگر تجھے اللہ تکلیف پہنچانا چاہیں تو اس کو اس کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا اور اگر اللہ تجھے بھلائی دیں تو اس کے فضل و کرم کو روکنے والا کوئی نہیں۔'' اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل و کرم پہنچاتا ہے۔''
خدا تعالیٰ کے سامنے مخلوق کی مثال: فرماتے ہیں:''کل مخلوق کو خدا تعالیٰ کے سامنے ایسے سمجھ جیسے ایک بادشاہ ہے جس کا ملک بہت وسیع ہے، حکم سخت او ردل ہلا دینے والا رعب ہے۔ اس کے ایک شخص کو گرفتار کرکے اس کے گلے میں طوق او ربیڑیاں پاؤں میں ڈال کر ایک صنوبر کے درخت کے ساتھ ایک دریا کے کنارے جس کی موجیں زبردست ،پاٹ بہت بڑا، بہاؤ بہت زوروں پر ہے۔ لٹکا دیا ہے اور خود بادشاہ ایک نفیس او ربلند کرسی پر ہے کہ اس تک پہنچنا مشکل ہے اور اس بادشاہ کے پاس تیر، تلوار ، نیزہ اور کمان وغیرہ آہنی ہتھیار ہیں کہ اس کا اندازہ اس بادشاہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اب ان چیزوں میں سے جو چیز چاہتا ہے اٹھا کر لٹکے ہوئے قیدی پرمارتا ہے او رقیدی چونکہ جکڑا ہوا ہے اور اونچی جگہ لٹکا ہوا ہے اس لیے نہ وہ ہل سکتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی چھڑاسکتا ہے جو لوگ اپنی آنکھوں سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ وہ اگر اس قیدی سے ڈریں اور نفع و نقصان کی امیدیں رکھیں اور بادشاہ سے نہ رکھیں تو اس کے لیے افسوس ہے۔کیا جوشخص ایسا کرے عقل کے نزدیک بے عقل، بے ادراک، دیوانہ ، چوپایہ او رانسانیت سے خارج نہیں ہے یعنی یقیناً وہ ایسا ہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق اس بےبس قیدی کی مانند ہے، زندگی ، موت خوشی، غمی، سب کچھ مخلوق کو اسی کی طرف سے آتا ہے کسی کی مجال نہیں کہ دم مار سکے۔
لفظ اِلٰہ کے معنی: إن الخلق یفزعون و یتضرعون إليه في الحوادث والحوائج فھو یألھم أی یجیر ھم مسمی إلھا''بیشک اللہ تعالیٰ کی مخلوق اس کی بارگاہ میں عاجزی و گریہ زاری سے اپنی ضرورتوں او رحاجتوں کو پیش کرتی ہے پس وہ ان کی رفع حاجات فرماتا ہے او رپناہ دیتا ہے اس لیے اس کا نام الٰہیہ (معبود) ہے۔''
مسئول و معطی : فلیکن لك مسئول واحد وھمة واحد وھو ربك عزوجل الذي نواحي الملوك بیده و قلوب الخلق بیده''تجھے ایک ہی سےمانگنا چاہیے اور تیرا دینے والا بھی صرف ایک ہے او رتیرا مقصود بھی ایک ہے او روہ تیرا پروردگار ہے جس کے قبضہ میں بادشاہوں کی پیشانیاں ہیں اور جس کے قبضہ میں تمام مخلوق کے دل ہیں۔''
بقول اقبال اس کے باوجود ہماری حالت یہ ہے:
بُتوں کو تجھ سے اُمیدیں خدا سے نااُمیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ''جب بندہ کسی بلا میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پہلے خود اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر نجات نہیں پاتا تو مخلوقات میں اوروں سےمدد مانگنا ہے مثلاً بادشاہوں یا حاکموں یا دنیاداروں یا امیروں سے اور دکھ درد میں طبیبوں سے۔ جب ان سے بھی کام نہیں نکلتا۔اس وقت اپنے پروردگار کی طرف دعا و گریہ زاری و حمد و ثنا کے ساتھ رجوع کرتا ہے۔ پھر جب خدا کی طرف سے بھی مدد نظر نہیں آتی تو (بے بس ہوکر) خدا کا ہی ہورہتا ہے۔ ہمیشہ سوال و دعا ، اور گریہ زاری اور ستائش و اظہار حاجتمندی رجاء و خوف کے ساتھ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو دعا سے تھکا دیتا ہے اور قبول نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ تمام اسباب علیٰحدہ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت اس میں قضا و قدر کا نفاذ ہوتا ہے اور اس کے اندر کام کرتا ہے تب بندہ کل اسباب و حرکات سے بے پروا ہوجاتا ہے اور روح صرف رہ جاتی ہے۔ اسے فعل حق کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ ضرور بالضرور صاحب یقین موحد ہوتا ہے۔ قطعی طور پر جانتا ہے کہ درحقیقت خدا کے سوا نہ کوئی کچھ کرنے والا ہے ، نہ حرکت و سکون دینے والا ہے۔ نہ اس کے سوا کسی کے ہاتھ میں اچھائی ، بُرائی،نفع و نقصان، بخشش و حرمان، کشائش و بندش ، موت و زندگی، عزت وذلت،غناو فقر، اس وقت (احکام قضا و قدر) میں بندہ کی یہ حالت ہوتی ہے، جیسے شیر خوار بچہ دایا کی گود میں یا مردہ غسال کے ہاتھ میں یا (پولو)گیند سوار کے ہاتھ میں الٹا پلٹا جاتا ہے او ربگاڑ بنایا جاتا ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کوئی حرکت نہیں نہ اپنے لیے نہ کسی او رکے لیے ،یعنی بندہ اپنے مالک کے فعل میں اپنے نفس میں غائب ہوجاتا ہے او راپنے مالک او راس کے فعل کے سوا نہ کچھ دیکھتا سنتا ہے، نہ کچھ سوچتا سمجھتا ہے۔ اگر دیکھتا ہے تو اس کی صفت ، اگر سنتا ہے تو اس کا کلام، اس کے علم سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ اس کی نعمت سے لطف اٹھاتا ہے۔ اس کے قرب سے سعادت پاتا ہے۔ اس کے وعدہ سے خوش ہوتا ہے، سکون او راطمینان حاصل کرتا ہے۔ اس کی باتوں سےمانوس ہوتا ہے اوراس کے غیر سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی یاد میں سرنگوں ہوتا ہے اور جی لگاتا ہے ۔اسی کی ذات پراعتماد اور بھروسہ کرتا ہے۔اس کےنور معرفت سے ہدایت پاتا او راس کا خرقہ و لباس پہنتا ہے۔ اس کے علوم عجیب و نادر پرمطلع ہوتا ہے۔ اس کی قدرت کے اسرار سے مشرف ہوتا ہے اس کی ذات پاک سے سنتا ہے اسے یاد رکھتا ہے۔ پھر ان (نعمتوں) پر حمد و ثنا و شکر و سپاس بجا لاتا ہے۔
وحدانیت اور غیر اللہ کی بے ثباتی: اللہ کے علاوہ ہر چیز کے فنا ہونے کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
''اسی پر نظر رکھو جوتم پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے سامنے رہو جو تمہارے سامنے رہتا ہے۔ اس سے محبت کرو جو تم سے محبت کرتا ہے۔ اس کی مانو جو تمہیں بلاتا ہے۔ ہاتھ اسے دو جو تمہیں گرنے سے سنبھالے گا اور تم کو جہل کی تاریکیوں سےنکالے گا او رہلاکتوں سے بچائے گا۔ نجاستیں دھو کرمیل کچیل سے پاککردے گا۔ تم کو تمہاری سڑاند او ربدبُو اور پست ہمتی اور نفس بدکار و رفیقان گمراہ و گمراہ کن سے نجات دے گا، جو شیاطین ، خواہش اور تمہارے جاہل دوست ، خدا کی راہ کے راہزن او رتم کو ہرنفیس،ہرعمدہ اور پسندیدہ چیز سے محروم رکھنے والے، کب تک عادت؟ کب تک خلق؟ کب تک تمنا؟ کب تک رعونت؟ کس وقت تک دنیا؟ کب تک آخرت؟ کب تک ماسوائے حق؟ کہاں چلے تم؟ (اس |خدا کو چھوڑ کر جو) ہرچیز کا پیداکرنے والا ہے اور بنانے والا ہے۔ اوّل ہے، آخر ہے، ظاہر ہے، باطن ہے، دلوں کی محبت، روحوں کا اطمینان، گرانیوں سے سبکدوشی، بخشش و احسان ، ان سب کا رجوع اسی کی طرف ہے اور اسی کی طرف سے اس کا صدور ہے۔''
ایک دوسرے مقالہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
''ساری مخلوق عاجز ہے نہ کوئی تجھ کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ حق تعالیٰ اس کو ان کے ہاتھوں سے گرا دیتا ہے۔اس کا فعل تیرے اندر اور مخلوق کے اندر تصرف فرماتا ہے جو کچھ تیرے لیے مفید ہے یامضر ہے۔ اس کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے۔ اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔جو موحد اور نیکوکار ہیں وہ باقی مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جو ظاہر او رباطن دونوں اعتبار سے دنیا سے برہنہ ہیں۔ گو دولت مند ہیں لیکن حق تعالیٰ ان کے اندر ان پر دنیا کا کوئی اثر نہیں پاتا۔ یہی قلوب ہیں جو صاف ہیں جو شخص اس پر قادر ہوا اس کو مخلوقات کی بادشاہت مل گئی۔ بہادر وہی ہے جس نے اپنے قلب کو ماسوائے اللہ کے پاک کرلیا او رقلب کے دروازہ پرتوحید کی تلوار اور شریعت کی شمشیر لے کر کھڑا ہوگیا کہ مخلوق میں سے کسی کو بھی اس میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ اپنے قلب کومقلب القلوب سے وابستہ کرتا ہے۔ شریعت اس کے ظاہر کو تہذیب سکھاتی ہے اور توحید معرفت اس کے باطن کومہذب بناتی ہے۔''
ایک جگہ دنیا کی بے ثباتی کا یوں ذکر فرماتے ہیں|:
''آج تو اعتماد کررہا ہے اپنے نفس پر ، مخلوق پر، اپنے دیناروں پر اپنے درہموں پر، اپنی خرید و فروخت پر اور اپنے شہر کے حاکم پر، ہر چیز کو جس پر تو اعتماد کرے تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس سے تو خوف کرے یا توقع کرے وہ تیرامعبود ہے اور ہر وہ شخص جس پر نفع او رنقصان کے متعلق تیری نظر پڑے او ر تو یوں سمجھے کہ حق تعالیٰ ہی اس کے ہاتھوں اس کاجاری کرنے والا ہے تو وہ تیرا معبود ہے۔''
دنیا میں اپنا مقسوم اس طرح مت کھا کہ وہ بیٹھی ہوئی ہو اور تو کھڑا ہو بلکہ اس کوبادشاہ کے دوازہ پر اس طرح کھا کہ تو بیٹھا ہو اور وہ طباق اپنے سر پر رکھے ہوئے کھڑی ہو۔ دنیا خدمت کرتی ہے اس کی جو حق تعالیٰ کے دوازے پرکھڑا ہوتا ہے اور جو شخص دنیا کے دروازے پرکھڑا ہوتا ہے اس کو ذلیل کرتی ہے۔کھا حق تعالیٰ کے ساتھ عزت و تونگری کے قدم پر ''
ایک دوسرے پر موقع پر ارشاد فرماتے ہیں:
''دنیا ہاتھ میں رکھناجائز، جیب میں رکھنی جائز، کسی اچھی نیت سے اس کو جمع رکھنا جائز باقی قلب پررکھنا جائز نہیں (کہ دل سے بھی محبوب سمجھنے لگے) دروازہ پر اس کو کھڑا ہونا جائز باقی دروازے سے آگے گھسانا جائز ہے نہ تیرے لئے عزت ہے۔''
حکام سے دُوری اور اُن کو خدا خوفی کی تعلیم : آپ کبھی کسی خلیفہ یا وزیر کے دربار میں نہ گئے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس قسم کی خوشامد سے روکتے تھے۔ درباری علماء کی پُرزور تردید فرماتے تھے اور خوف |خدا پیدا کرتے تھے۔
ارشاد عالیہ ہے:
''اے علم و عمل میں خیانت کرنے والو! تم کو اس سے کیا نسبت، اے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمنوں! اے بندگان خدا کے ڈاکوؤ! تم کھلے ظلم او رکھلے نفاق میں ہو۔ یہ نفاق کب تک رہے گا۔ اے عالمو! اے زاہدو! شاہان و سلاطین کےلیے کب تک منافق بنے رہو گے؟ کہ ان سے دنیا کا سر و مال اور اس کی شہوات و لذات لیتے رہو، تم اور اکثر بادشاہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے مال او راس کے بندوں کےمتعلق ظالم اور خائن بنے ہوئے ہیں ۔ بارالہٰا! منافقوں کی شوکت توڑ دے اور ان کو ذلیل فرما یا ان کو توبہ کی توفیق دے اور ظالموں کا قلع قمع فرما اور زمین کو ان سے پاک و صاف کردے یا ان کی اصلاح فرما دے۔''
وہ عالم کی شان کے خلاف سمجھتے تھے کہ عالم ہوکر امراء و رزا ءکے در کا بھکاری بنے۔ کیونکہ علم غیور ہوتا ہے یہ غیروں کے دروازوں پرنہیں جاتا بلکہ وقت کے فراعین و نماردہ کے سامنےنعرہ حق لگاتا ہے۔
اقبال نے فرمایا تھا:
اے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن ..... نعرہ لا پیش نمرود بزن
ایک جگہ اس گروہ کو فرماتےہیں:
''تجھے شرم نہیں آتی کہ تیری حرص نے تجھ کو ظالموں کی خدمت گاری او رحرام خوری پر آمادہ کردیا ہے تو کب تک حرام کھاتا او ردنیا کے ان بادشاہوں کا خدمت گار بنے رہے گا ، جن کی خدمت میں لگا ہوا ہے ۔ ان کی بادشاہت عنقریب مٹ جائے گی اور تجھے حق تعالیٰ کی خدمت میں آنا پڑے گا جس کی ذات کو کبھی زوال نہیں۔''
مرشد جیلانی ہمیشہ حکام و سلاطین کے غلط افعال پر تنقید کرتے اور اس پر کسی وجاہت اور اثر ونفوذ کی مطلق پرواہ نہ کرتے تھے۔ حافظ عمادالدین ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
کان یأمر بالمعروف وینھی عن المنکر للخلفاء والوزراء والسلاطین و القضاةوالخاصة والعامة و یصدھم بذٰلك علیٰ رؤوس الأشھاد ورؤوس المنابر وفي المحافل وینکر علیٰ من یولي الظلم ولا تأخذ في اللہ لومة لائم''آپ خلفاء وزراء سلاطین ، قضاۃ خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے اور بڑی صفائی اور جرأت کے ساتھ ان کو بھرے مجمعے میں علی الاعلان ٹوک دیتے ، جو کسی ظالم کو حاکم بناتا۔اس پر اعتراض کرتے اور خدا کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی آپ پروا نہ کرتے تھے۔''
تصرف الہٰی: حضرت جیلانی ہمیشہ ذکر و فکر میں مشعول رہتے او رملنے والوں کوبھی اس کی تلقین فرماتے۔
ایک جگہ فرمایا:
لامعین إلااللہ ''اللہ کے سوا کوئی فوق الاسباب مددگار و مشکل کشا نہیں۔''
إن ھذ ه الأمر کلھا بید اللہ یعرفھا في طرائقھا ولیضیافي حقائقھا لا مقدم لما أخر ولا مؤخر لما قدم ولا یجتمع اثنان إلا بقضائه وقدره''تمام امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ انہیں ان کے طریقوں پر جس طرح چاہے پھیرتا ہے او ران کی حقیقتوں پر گزارتا رہتا ہے جس کو خدا پیچھے کردے اسے کوئی آگے کرنے والا نہیں۔ جب تک اس کی قضا و قدر پر چاہے دو آدمی باہم مل بھی نہیں سکتے۔''
معلوم ہوا کہ تصرف فی الامور کا مقام کسی کو خدا کے سوا حاصل نہیں۔ کیونکہ یہ خاصہ خدائی ہے۔ ایک جگہ انبیاء کے نام گنا کر تحریر فرماتے ہیں:
لم یستغن من التوبة والاستکانة والافتقار إلی اللہ عزوجل''تمام انبیائے کرام خدا کے حضور توبہ کرنے عاجزی کرنے اور اس کے محتاج ہونے سے بے نیاز نہیں ہیں۔''
بلکہ یہاں تک ارشاد ہے:
لا تتحرك إلا للہ '' اللہ کے سوا کسی اور کے لیے حرکت بھی نہ کر''
اللہ کی توحید کو تصرف فی الامور میں عجیب طریقہ سے پیش کرتے ہیں۔کہیں فرمایا:
لایأتي بالخیر إلا الله ''اللہ کے سوا کوئی بھلائی نہیں لاسکتا۔''
کہیں فرمایا:
لا یصرف السوء إلا اللہ ''خدا کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں۔''
سلطان باہو نے اسی کی ترجمانی کرکے فرمایا تھا:
چو تیغ لا بدست آری .... بیا تنہا چہ غم داری
مجو از غیرحق یاری ... کہ لافتاح الا ہو
حقیقی شرک : شاہ صاحب نے شرک کی بہت مذمت کی ہے او رتوحید کا پرچم دنیا میں بلند کیا۔فرماتے ہیں|:
ألا إن الرجل منھم أشرك بالله عزوجل حیث طمع في مخلوق مثله لا یملك ضرّا و لانفعاً ولا عطاء ولامنعاً''خبردار! جس نےاپنے جیسی مخلوق سے امید رکھی اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا۔ مخلوق میں سے کوئی نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع نہ کسی کے اختیار میں عطا ہے نہ منع۔''
مخلوق سے شرک رکھنے کو بھی شاہ صاحب نے شرک قرا ردیا۔ فرماتے ہیں:
لیس الشرك عبادة الأوثان بل ھو متابعتك لھواك وأن تختار مع ربك عزوجل شیئاً سواه من الدنیا و مافیھا و الأخوة وما فیھا فما سواه عزوجل غیره فإذا رکنت إلی غیره فقد أشرکت''صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ تیری اپنی خواہشات کی اتباع کرنا اور اللہ کے سوا کسی فرد بشر کو اللہ تعالیٰ کی طرح پسند کرنا بھی شرک ہے چنانچہ دنیا و آخرت کی کسی شے کی طرف بھی جو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہے دل لگانا اللہ کے سوا کسی اور کے لیے حرکت بھی نہ کر جیسا کہ اللہ کی طرف لگانا چاہیے صریح شرک ہے۔''
آپ کی ساری زندگی ہی توحید کی اشاعت میں گزری۔
کتاب و سنت کی تعلیم: حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا: ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھا کتاب اللہ و سنۃ رسولہ ''میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اللہ کی کتاب او راس کے رسول کی سنت۔''
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے اسی کی تائید میں ارشاد فرمایا:
إن کمال الدین في شیئین في معرفة اللہ تعالیٰ و اتباع سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم''دین کامل دو چیزوں میں ہے۔ اللہ کی معرفت (جو قرآن سے حاصل ہوتی ہے) اور سنت (حدیث کی پیروی)''
یہی نہیں بلکہ آپ نے ان دونوں کومضبوطی سے پکڑنے کے بارے میں فرمایا:
فعلیك بالتمسك بالکتاب والسنة والعمل بھا أمرًاو نھیاً أصلاً وفرعاً فیجعلھما جناحیه یطیربھما في الطریق الواصل إلی اللہ عزوجلآپ(ہر امت۔مرید) پر لازم ہے کہ قرآن و حدیث کو مضبوط پکڑو اور ان دونوں پر ہی محل کرو۔ ان کے امر کو بجا لاؤ او رنہی سے باز رہو۔ اصول اور فروع میں ان کے پابند رہو۔ یہ دو پرہیں جن سے پرواز کرکے آدمی اللہ تک پہنچتا ہے۔''
قرآن و سنت کو شاہ جیلانی نے طائر لاہوتی کے پر قرار دیا ہے جن کے ذریعے اُڑ کر اللہ کی ملاقات کی جاتی ہے۔ ہر مسلمان کو ان کے ارشاد پرعمل کرکے قرآن و سنت کو دین قرار دے کر ماسوا سے بے نیاز ہونا ضروری ہے۔ ایک جگہ یوں فرماتے ہیں:
فیعمل بما في الکتاب والسنة وبصم عما سوی ذالك''صرف قرآن و سنت پر عمل ہو اس کے سوا ہر چیز سے بہرے ہوجاؤ''
آپ نے دین کی تکمیل ہی قرآن و سنت پر بتائی ہے۔
إذا تمت الأوامر والنواھي أنزل الله علی رسوله في حجة الوداع الیوم أکملت لکم دینکم''جب دین اسلام کے اوامر و نواہی پورے ہوگئے تو خدا تعالیٰ نے حجۃ الوداع میں اپنے رسول پر آیت الیوم اکملت لکم دینکم اتاری (یعنی اے مسلمانوں تم پر دین مکمل ہوگیا)''
انکے نزدیک راہ نجات صرف قرآن و سنت ہے۔ دراصل ان ہی دو چیزوں سے ہر قسم کا اختلاف ختم ہوسکتا ہے۔ انکے علاوہ ہلاکت اور تباہی ہے۔
لیس لنانبي غیرہ فنتبعه ولا کتاب غیر القرآن فنعمل به فلا تخرج عنھما فتھلك''محمد ﷺ کے علاوہ کوئی نبی نہیں جن کی ہم تابعداری کریں او ر قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں جس پر عمل کریں اگر ان کے علاوہ کسی اور طرف گیا تو ہلاک ہوجائے گا۔''
او رپھر سلامتی بھی ان دو چیزوں میں فرمائی:
والسلامة مع الکتاب والسنة والھلاکة مع غیرھما بھما یرتقي العبد إلی حالة الولایة والبدلیة''صرف قرآن و حدیث پرعمل کرنے میں سلامتی ہے اس کے علاوہ جس چیز پرعمل کرے گا برباد اور ہلاک ہوگا۔ صرف قرآن و حدیث پر عمل کرکے اولیاء اور ابدال بن سکتے ہیں۔''
مرشد جیلانی کی تعلیمات مسلمانوں کےلیے چراغ راہ ہیں۔
تصانیف : حضرت شیخ کی تصانیف متعدد کتابیں ہیں:غنیۃ الطالبین، فتوح العیب، الفتح الربانی،فیوضات ربانیہ ، بشائر الخیرات ان کے علاوہ آپ کی کتابوں میں جلاء الخاطر، الیواقیت والحکم اور مواہب الربانیہ شامل ہیں۔
وفات : حضرت شیخ نوے سال تک اس دنیا فانی میں رہے۔ آخر 561ھ میں بغداد ہی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ وہیں اپنے استاد ابوسعید محزمی کے مدرسے باب الازج میں مدفون ہوئے۔بیماری کی حالت میں وفات سےقبل آپ نے اپنے بیٹے عبدالوھاب کو توحید پر قائم رہنے کی وصیت کی۔آپ کے صاحبزادے عید عبدالجبار نے پوچھا،جسم میں کہاں تکلیف ہے؟ فرمایا میرے کل اعضاء مجھے تکلیف دے رہے ہیں مگر میرے دل کو کوئی تکلیف نہیں او روہ خدا کے ساتھ صحیح ہے۔پھر آپ کا وقت اخیر آیا تو فرمانے لگے۔''میں اس خدا سے مدد چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔وہ پاک و برتر ہے او رزندہ ہے جسے فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ۔ پاک ہے وہ جس نے اپنی قدرت سے عزت طاہر کی او رموت سے بندوں پر غلبہ دکھایا|۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔محمدﷺ خدا کے رسول ہیں۔'' اور آپ کے صاحبزادہ شیخ موسیٰ فرماتے ہیں: آپ نے لفظ ''تعزز'' فرمایا او ریہ لفظ صحت کے ساتھ آپ کی زبان سے ادا نہ ہوا۔ تب آپ بار بار اُسے دہراتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے آواز بلند کرکے اور سخت کرکے لفظ ''تعزز'' اپنی زبان سے ٹھیک ٹھیک فرمایا۔ پھر (تین بار)اللہ اللہ اللہ فرمایا۔اس کے بعد آپ کی آواز بند ہوگئی اور زبان تالو سے چپک گئی اور روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔ اللھم اغفرلہ وارحمۃ۔
حوالہ جات۔ دائرۃ المعارف (للبستانی)
۔ المتنظم (ابن جوزی) البدایہ والنہایہ (حافظ ابن کثیر، ذیلی طبقات الحنابلہ (ابن رجب) بحوالہ تاریخ دعوت عظمت اوّل) تاج العروس شیخ شریف مرتضیٰ) بحوالہ عنیۃ الطالبین اوّل)
۔ البدایہ والنہایہ صفحہ 149 جلد 12
۔ شعرانی
۔ ابن کثیر میں حدیث میں کمال کاذکر ہے۔
۔ الطبقات الکبریٰ للشعرانی: جلد1 ص127
۔ الطقبات الکبریٰ للشعرانی: جلد1 ص 128
۔ قلائمہ الجواہر
۔ ایضاً :ص9
۔ قلائد البحر: ص9
۔ ذیل طبقات حنابلہ (ابن رجب)
۔ جلاء العینین صفحہ 130
۔قلائد الجواہر
۔ قلائد الجواہر
۔الطبقات الکبریٰ الشعرانی ج1 ص120۔طبقات حنابلہ ابن رجب۔
۔الطبقات الکبریٰ
۔ فتوح الغیب
۔ غنیۃ الطالبین
۔فتوح الغیب مقالہ نمبر 17
۔خطبہ غنیۃ الطالبین
۔ فتوح الغیب۔ مقالہ نمبر 20
۔فتوح الغیب مقالہ نمبر 3 ترجمہ مولوی محمد عالم صاحب کاکوری..... الغیب صفحہ 11،12،13
۔ فتوح الغیب مقالہ نمبر 62
۔ فیوض یزدانی ترجمہ فتح الربانی مجلس نمبر 13
۔فیوض یزدانی مجلس نمبر 20
۔ فیوض یزدانی مجلس نمبر 21
۔فیوض یزدانی مجلس نمبر 51
۔فیوض یزدانی مجلس نمبر 51ترجمہ فتح الربانی
۔ فتح الربانی مجلس نمبر 13
۔ قلائد الجواہر ص8
۔ غنیۃ الطالبین
۔غنیۃ الطالبین
۔ غنیۃ الطالبین
۔ غنیۃ الطالبین
۔ غنیۃ الطالبین
۔فتوح الغیب
۔ موطا۔ امام مالک
۔ غنیۃ الطالبین
۔ غنیۃ الطالبین
۔ غنیۃ الطالبین
۔ غنیۃ الطالبین
۔فتوح الغیب
۔فتوح الغیب
۔معجم المطبوعات
۔ تکملہ رموز الغیب