پاکستان میں موجودہ انتخابات

موافق او رمخالف آراء کا جائزہ

1977ء میں قومی اتحاد نے نظام مصطفیٰ کے نام پر جو تحریک چلائی، عوام نے اس تحریک کو اپنے خون سے سینچا او رپروان چڑھایا۔ بالآخر یہ تحریک اللہ کے فضل و احسان سے بار آور ہوئی اور مسلمانوں کوان کی توقعات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے انعامات سے نوازا۔اس وقت قائدین تحریک کے دو مطالبات تھے۔اسلامی نظام کا نفاذ اور سابقہ بوگس انتخابات کےبجائے دوبارہ انتخابات کا انعقاد۔ تحریک کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک مخلص اور اسلام کے شیدائی بندے کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد فرمائی اور بھٹو صاحب کو ، جن سے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جارہا تھا، بھی بہ نفس نفیس اقتدار سے الگ کرایا۔ گویا دوبارہ انتخابات کے لیے از خود ہی بنیاد مہیا ہوگئی۔

لیکن عوام جنہوں نے قربانیاں دے کر تحریک کو کامیاب بنایا تھا۔ ان کے پیش نظر صرف اسلامی نظام کا عملی نفاذ او راس سے والہانہ محبت تھی۔ عوام کو دوبارہ انتخابات کےمسئلہ سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اگر انتخابات کے دوبارہ انعقاد کو ہی تحریک کا بنیادی مسئلہ قرار دیا جاتا تو اس قوت سے تحریک کا زور پکڑنا یقیناً ناممکنات سے تھا۔

اس کامیابی کے فوراً بعد ہی ہماری بدقسمتی کا دور شروع ہوگیا۔ ابھی قربانیاں پیش کرنے والوں کے خون کے دھبے بھی صاف نہ ہوئے تھے کہ بعض جماعتیں قومی اتحاد سے نکلنا شرو ع ہوگئیں۔ انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے یہ کہنا شروع کردیاکہ تحریک کا اصل مقصد بھٹو کو راستہ سے ہٹانا تھا۔ وہ مقصد پورا ہوچکا لہٰذا اب اس قومی اتحاد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اتحاد سے باہرنکلتے ہی اسلامی نظام والی بات تو نظر انداز کردی اور موجودہ حکومت سے انتخابات کےانعقاد کا مطالبہ شروع کردیا۔

ان لیڈروں کی یہ روش عوام سے بدترین قسم کی غداری تھی لیکن ستیاناس ہو اس خود غرضی ، جاہ طلبی اور ہوس اقتدار کا ، کہ آہستہ آہستہ قومی اتحاد کے باہر اور اندر کی سب جماعتوں نے ''انتخابات''، ''انتخابات'' کی رٹ لگانا شروع کردی اور یہ واویلا اس وقت شروع کیا گیا جبکہ نئی حکومت اسلامی نظام کے نفاذ کے ابتدائی مراحل کا اعلان کررہی تھی او راس طرف تھوڑی بہت پیش رفت بھی ہوچکی تھی۔ دین بیزار سیاسی جماعتوں کو تو اسلامی نظام درکار ہی نہ تھا جو چند جماعتیں اسلامی نظام چاہتی بھی تھیں۔ انہیں یہ تکلیف ہونے لگی کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا سہرا تو ان کے سربند ھنا چاہیے تھا۔لہٰذا وہ بھی یہ چاہتی تھیں کہ جنرل ضیاء الحق کس طرح جلد از جلد اقتدار سے الگ ہوجائے اور اس کی آسان صورت یہی تھی کہ انتخابات جلد از جلد ہوں۔بالفاظ دیگر ان سیاسی پارٹیوں کے اغراض و مفادات گو مختلف تھے تاہم جنرل ضیاء الحق کو اقتدار سے جلد از جلد علیحدہ کرنے او راس طرح اسلامی نظام میں رکاوٹ کا باعث بننے اور عوام سے غداری کے جرم میں سب برابر کے شریک رہے۔

جنرل ضیاء الحق نے اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق جو چند اعلانات کیے ان پر عملدرامد نہ ہوسکا وہ بس صدالبصحرا ہی ثابت ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو فرسودہ نظام کی بیورو کریسی کا طلسماتی چکر ہے۔ جس میں مغربی نظام کے پروردہ وہ افراد پیش پیش ہیں جو اسلامی نظام میں اپنی موت دیکھتے ہیں اس لیے وہ نہایت چابکدستی سے حکومت کی پالیسیوں کو ناکام بنا کر اس حکومت کو فیل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ لیکن اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان سیاسی قائدین کی موجودہ حکومت سے عدم تعاون کی معاندانہ پالیسی ہے کہ ہر لیڈر مسلسل اس قسم کے بیان دیتا رہتا ہے کہ حکومت کو جلد از جلد انتخاب کروا کر اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے اور اسے منتخبہ نمائندوں کے سپرد کردینا چاہیے او رنوبت بایں جارسید کہ پچھلے ادوار کی گرتی ہوئی معیشت اور معاشرہ میں پھیلی اور بڑھتی ہوئی ہر طرح کی بدعنوانیوں کاذمہ دار بھی موجودہ حکومت کو قرار دے کر اسے بدنام کرنا شروع کررکھا ہے بات اس سے آگے بڑھ گئی اور اب ہر سیاسی لیڈر نے جنرل ضیاء الحق کی ہر بات کی خواہ وہ درست ہی کیوں نہ ہو مخالفت کرنا اپنا شعار بنا لیا ۔ مثلاً جنرل صاحب نے کہا کہ''ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام بہتر ہے او راسلامی نظریہ کے قریب تر بھی ہے ۔'' لیکن سیاسی بزرگوں نے کہا : ''تم کون ہوتے ہو یہ بات کہنے والے! یہ بات منتخبہ حکومت پر چھوڑ دو۔ انتخابات کراؤ اور اپنی راہ لو'' اب اگر یہی بات قائد اعظم کہہ دیں تو سب اسے تسلیم کرنے کو تیار ہیں او رضیاء صاحب کریں تو ان کی مخالفت کرنا اپنا ضروری فریضہ سمجھتے ہیں۔

ایسی صورت حال ہی عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کے مسئلہ میں پیش آئی۔ایک ایک سیاسی جماعت نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا منعقد کرانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا جنرل صاحب کو یہ انتخابات نہ کرانے چاہیئیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مدت سے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے ۔ جبکہ ان انتخابات کے نتیجہ میں بہت سے عوامی مسائل حل ہوجاتے ہیں اور سیاسی لیڈران انتخابات کی محض اس وجہ سے مخالفت کررہے ہیں کہ اس طرح عوام پر ان کی گرفت کمزور پڑ جانے کا خطرہ ہے۔

متناسب نمائندگی کامسئلہ بھی ایسا ہے ۔ جسے سب سیاسی جماعتوں نے یکے بعد دیگرے مسترد کردیا ہے۔ حالانکہ انہی پارٹیوں میں سے بہت سوں کے منشور میں اسے پسندیدہ قرار دے کر قوم سے اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ غرض ہمارے سیاسی لیڈروں کے پاس ہر مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ اسے منتخبہ حکومت پر چھوڑ دیا جائے او رہرمشکل کا حل یہ ہے کہ عوام کے جملہ مسائل بس منتکبہ حکومت ہی حل کرسکتی ہے۔ گویا انتخاب امرت دھارا ہے جب کوئی مسئلہ درپیش ہوا ۔ اسے ہی اس کا علاج ٹھہرایا گیا۔

سیاسی قائدین کے اس رویہ نے موجودہ حکومت کو سخت پریشان کردیا ہے ۔ ایسے حالات میں ملک کی بہتری یا اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں کیاکچھ پیش رفت ہوسکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ حکومت نے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ مقرر کرکے ان سیاسی بزرگوں کی کسی حد تک زبانیں بند کردی ہیں۔

مگر دیندار طبقہ جو اسلام کا درد رکھتا اور اس کے لیے قربانیاں پیش کرچکا تھا۔ اس صورت حال سے سخت مضطرب ہوا اور اس نے موجودہ حکومت سے واضح الفاظ میں یہ مطالبہ شروع کردیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا او رایک اسلامی ریاست کا اصل مقصد اسلامی نظام کا دور دورہ ہے نہ کہ انتخابات کا انعقاد۔لہٰذا موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اپنی تمام تر توجہ اصل مقصد کی طرف مبذول کرے اور انتخابات کو اس وقت تک ملتوی کردینا چاہیے۔ جب تک کہ اسلامی نظام عملی طور پر نافذ نہیں ہوجاتا۔ اس مطالبہ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ نئے انتخابات اسلامی طرز پر ہونے چاہیئیں۔جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ نظام عملاً رائج ہو۔ مغربی طرز انتخاب سے اس لیے گریز کرنا چاہیے کہ یہ اپنے دامن میں بے شمار برائیاں اور قباحتیں سمیٹے ہوئے ہونےکی وجہ سے اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی ایک ناجائز فعل ہے۔اس طرز انتخاب کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ضلالت و بہیمیت ہی برسراقتدار آئے گی او راسلامی نظام کی طرف جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ اس پر پانی پھر جائے گا۔ اس مطالبہ کا تیسرا پہلو یہ بھی تھا کہ عوام کو اور خود پاکستان کو سیاسی بھیڑیوں سے بچایا جائے۔ جونت بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ خود تو افتراق و انتشار کا شکار ہیں ۔اب ملک کو بھی داؤد پر لگا رکھا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ سیاسی لیڈروں کی امنگوں کے سراسر خلاف ہے ۔لہٰذا سیاسی سطح سے اس کے خلاف ایک شور اُٹھ کھڑا ہوا۔ دین بیزار جماعتوں سے تویہ واویلا متوقع تھا ہی ۔ حیرت یہ ہےکہ دین پسند جماعتیں بھی سامنے آگئیں او ردلائل کے زور سے موجودہ طرز انتخاب کو درست اور جائز ثابت کیا جانے لگا ۔آج ہم انہی دلائل کا جائزہ لینا چاہتے ہیں:

دلیل اوّل: پہلی دلیل یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق واقعی ایک مخلص آدمی ہے لیکن اگر وہ موجودہ بدعنوانیوں سے گھبرا کر اقتدار کسی دوسرے ش|خص کے حوالے کرکے چلا جائے جیسا کہ صدر ایوب نے یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر اپنی راہ لی تھی یا جس طرح بھٹو صاحب نے یحییٰ خاں سے اقتدار چھین کر اس پر قبضہ کرلیاتھا۔اسی طرح کوئی دوسرا شخص جنرل ضیاء الحق کو بھی علیحدہ کردے او راس کا جانشین کوئی بدکردار آدمی بن جائے تو اگر ہم انتخاب کا راستہ بھی روک دیں تو ہمارے پاس دوسری ایسی کون سی قوت ہے جس کی بنا پر اسے اقتدار سے ہٹایا جاسکے۔ لہٰذا ہمیں کسی قیمت پر انتخابات کی مخالفت نہ کرنا چاہیے۔

بظاہر یہ دلیل وزنی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ دلیل کئی لحاظ سے محل نظر ہے۔

سب سے پہلی قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ کیا موجودہ سربراہ واقعی بدکردار آدمی ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ انداز فکر برمحل او رحسب موقع ہے لیکن اگر معاملہ اس سے مختلف ہے تو پھر اس انداز فکر کا یہ کون سا موقع ہے؟ جنرل ضیاء کی خلوص نیت کا اعتراف تمام اسلامی دنیا کو ہے او روہ بیانات کی حد تک اسلامی نظام کی طرف پیش رفت بھی کرچکا ہے۔ وہ بیوروکریسی اور سیاسی نبرد آزماؤں کی عدم تعاون اور معاندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان احکامات اور اعلانات پر عملدرآمد نہیں کراسکا جبکہ شریعت کی رو سے اہالیان پاکستان پر اس کی اطاعت لازم و واجب ہوجاتی ہے اور اسلامی نقطہ نگاہ سے دوبارہ انتخابات پر زور دینا او راسے اقتدار سے ہٹانے کی فکر کرنا ایک جرم عظیم ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:

عن أم الحصین قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وإن أمر علیکم عبد مجدع یقود کم بکتاب اللہ فاسمعوا له وأطیعوه (رواہ مسلم)

''حضرت اُم حصین کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی نکٹا غلام بھی تمہارا امیر مقرر کردیا جاوے تو اس وقت تک اس کی بات سنو اور مانو جب تک وہ تمہیں اللہ کے حکم کے مطابق چلاتا ہے۔''

اس ارشاد میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ وہ تمہارا منتخب نمائندہ ہو یا چور دروازے سے نہ آیا ہو، نہ ہی یہ تخصیص ہے کہ وہ خوبصورت ، تنومند، کھاتا پیتا آدمی ہو۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کے مطابق چلاتا ہو۔ خواہ وہ بدشکل اور حسب و نسب کے لحاظ سے کمتر ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک وہ شرعی نظام کے نفاذ میں کوشاں رہے۔ از روئے شرع مبین اس کی اطاعت واجب ہے لہٰذا ہم اپنے تمام دیندار بھائیوں سے درخواست کریں گے کہ سرکار دو عالم کے فرمان کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے خالص خوشنودی خدا کو سامنے رکھ کر شرعی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں جنرل ضیاء کا ہاتھ بٹائیں او ران خود سیاسی لیڈروں کے بھرے میں نہ آئیں۔

دلیل میں جس اضطراری حالت کی وجہ سے فرار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس اضطرار و اضطراب کا بیشتر حصہ تو ان سیاسی لیڈروں کے روزمرہ معاندانہ بیانات کا مرہون منت ہے۔ اب اسے جنرل صاحب کی طبیعت کی نرمی کہیئے یا کمزوری طبع۔ کہ سیاسی بزرگ ان کے فراد کی بات سوچ رہے ہیں۔ ورنہ اگر جنرل صاحب تھوڑی سی جرأت سے کام لیں تو یہ سیاسی بزرگ خود فرار کی راہیں تلاش کرنے لگیں۔

اس دلیل کا دوسرا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی بدکردار آدمی اقتدار پر مسلط ہوجاتا ہے تو کیا واقعی اسے انتخابات کے ذریعہ ہٹایا جاسکتا ہے۔؟ ہمارے خیال میں اس کا جواب سراسر نفی میں ہے اور اس دعویٰ کے ثبوت کےلیے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ اگر کوئی بدکردار آدمی انتخابات کے ذریعہ اقتدار سے الگ کیا جاسکتا ہے تو وہ بدکردار ہی کیا ہوا؟ 1965ء میں قوم کی اکثریت نے مس فاطمہ جناح کی حمایت کرکے صدر ایوب کو اقتدار سے الگ کرنا چاہا تھا مگر عوام کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ صدر ایوب کو اقتدار سے الگ نہ کیا جاسکا۔ اسی طرح 1977ء میں قوم کی اکثریت نے انتخاب کے ذریعہ بھٹو صاحب سے نجات حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تو کیا اس اکثریت کو اپنے مشن میں کامیابی ہوئی تھی؟ اب ان شواہد کے بعد بھی اگر کوئی صاحب اس بات پر مصر ہوں کہ انتخابات پُرامن ذریعہ انتقال اقتدار ہے تو بس اس کی خوش فہمی کی داد ہی دینا چاہیے۔

کسی بدکردار آدمی کو اقتدار سے ہٹانے کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے اور وہ عوامی تحریک ہے، انتخابات نہیں۔ اسی تحریک کے ذریعہ صدر ایوب کو فرار کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا اور اسی عوامی تحریک کے ذریعہ قوم کو بھٹو صاحب سےنجات ملی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ پاکستان میں عوامی تحریک بھی صرف اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب اس کے ڈانڈے اسلام سے ملائے جائیں دوسرا کوئی نظریہ تحریک میں جان نہیں ڈال سکتا۔

تصریحات بالا سے یہ بخوبی واضح ہے کہ کسی بدکردار آدمی سے نجات حاصل کرنے کے لیے موجودہ طرز انتکاب کو ایک کامیاب ذریعہ قرار دینا تجربہ کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔

دوسری دلیل: موجودہ طرز انتخابات کے انعقاد کے حق میں دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ موجودہ طرز انتخاب اور اسلامی طرز انتخاب کے اقتضاف میں بعد المشرقین ہے۔ ہمارے عوام مغربی طرز انتخاب کے قواعد و ضوابط سے تو خوب مانوس ہیں۔ لیکن اسلامی طرز انتخاب سے عوام کو روشناس کرانے او ران کا ذہین ہموار کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے تو کیا اس طویل مدت کے لیے انتخابات کے انعقاد سے دست کش ہوجانا چاہیے؟ اس درمیانی خلا کو پُر کرنے کے لیے بہتر طرز عمل یہی ہے کہ انتخابی طرز عمل میں ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ خراب عناصر کو مشکل سے آگے بڑھنے کا موقع ملے ۔ نمائندے ایسے منتخب کئے جائیں جو دیندار ہوں۔ جرائم اور بدعنوانیوں سے طبعاً نفرت کرتے ہوں۔ پھر ایسے نمائندوں کے لیے بھرپور پروپیگنڈہ کیا جائے او رانہیں کامیاب بنا کر اسمبلیوں میں بھیجا جائے تاآنکہ اسمبلی میں ایسے نیک افراد کی اکثریت ہو جائے۔ موجودہ حالات میں معاشرہ کی اصلاح او راسلامی نظام کی ترویج کی یہی واحد صورت ہے۔

کیا ووٹوں سے اسلام آسکتا ہے؟ اس دلیل کو زیادہ سے زیادہ جبری انتخاب کی شکل میں دفاعی طریقہ کار تو کہا جاسکتا ہے ۔لیکن ایسے مطالبے کی صورت میں ہمیں افسوس ہے کہ ہم ان حضرات کی تائید نہیں کرسکتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آج تک عوام کے ووٹوں کی اکثریت کے ذریعہ نہ اسلام آیا ہے اور نہ کبھی آسکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو انبیاء علیہم السلام ضرور اس پُرامن ذریعہ انتقال اقتدار کواپناتے ۔بنی نوع انسان کی اصلاح و فلاح کے لیے اللہ کی کتاب قرآن کریم سے بہتر دستور ناممکن ہے اور قرآن کریم کی اشاعت و تبلیغ کے لیے جو انتھک او رجان توڑ کوششیں اولوالعزم پیغمبران خصوصاً حضور اکرم ﷺ نے فرمائیں۔ دوسرا کوئی نہیں کرسکتا۔ آپؐ کو جان نثار اور مخلص پیروکاروں کی ایک جماعت بھی مہیا ہوگئی جو اسلام کے عملی نفاذ کے لیے صرف تبلیغ و اشاعت او رپروپیگنڈا پرانحصار نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنی پوری کی پوری زندگیاں اسی قالب میں ڈھال لی تھیں۔ صحابہؓ کی جماعت گویا قرآنی تعلیمات کےمجسم چلتے پھرتے نمونے تھے۔لیکن تیرہ سال کی انتھک کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہوسکا کہ حضور اکرمﷺ مکہ میں اسلامی ریاست قائم کرلیتے بلکہ جس دور کو بعض حضرات خلافت و ملوکیت کا تقابلی دور بتاتے ہیں اس دور میں یہ بات سامنے بھی آگئی کہ حضرت حسین ؓ اقلیت کی وجہ سے جام شہادت نوش کرگئے لیکن اکثریت کا ساتھ نہ دے سکے۔ پھر جب اس بہترین دستور کو عملا ً نافذ کرنے کے لیے دنیابھر کے بہترین کارکن اسے کثرت رائے کی بنیاد پر رائج نہیں کرسکے۔ تو آج کے دور میں یہ صورت کیونکر ممکن ہے۔؟

اسلامی نظام کی ترویج کے لیے اقتدار کی ضرورت سے انکار نہیں۔ لیکن رائے عامہ کو محض تبلیغ و ترغیب کے ذریعے ہموار کرنا او راس طرح اسلامی انقلاب لانا ایک خیال خام ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہجرت ،جہاد اور حسب حال ایسے ہی دوسرے ذرائع اختیار کرنا پڑیں گے۔ جیسا کہ انبیاء کرام اور مجاہدین اسلام کا دستور رہا ہے۔

دین پسند جماعتوں میں جماعت اسلامی ایک فعال جماعت ہے جس کی جڑیں خاصی مضبوط اور شاخیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلام کا نعرہ بلند کرنے میں اس جماعت کی کوششیں شک و شبہ سے بالا ہیں ۔مخلص کارکنوں اور صالحین کی ایک معتدبہ جماعت بھی اسے میسر ہے ۔ پھر عرصہ دراز سے وہ معاشرہ کی اصلاح کے لیے تبلیغ و اشاعت کا کافی کام بھی کررہی ہے۔ مزید برآں دین پسند عوام میں اس کی شہرت بھی اچھی ہے ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود جب سے اس نے الیکشن میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ ہربار وہ مایوس کن حد تک ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ 1971 ء میں یحییٰ خان نے انتخابات کروائے او رپاکستان کی تاریخ میں غالباً یہی ایک موقعہ ایسا آیا ہے جبکہ انتخابات فی الواقع آزادانہ او رمنصفانہ وقوع پذیر ہوئے۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ الیکشن سے صرف ایک دن پہلے تک تمام سیاسی مبصرین اور اخبارات کی یہی رائے تھی کہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا انتخابی مقابلہ برابر کی چوٹ ہے لیکن جب نتیجہ نکلا تو پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی جبکہ جماعت اسلامی کو صرف 4 نشستیں حاصل ہوسکیں۔

ایسے مایوس کن نتائج سے جماعت کے کارکنوں کے حوصلے پست ہوگئے اور ان کے جذبات شدید مجروح ہوئے۔ اپنے اس دردنہاں کو سربراہ جماعت کے پاس لے گئے۔ مولانا مودودی صاحب نے فرمایا: ''جن لوگوں نے کرسی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی تھیں وہ سن لیں کہ وہ غلطی پر تھے او رجنہوں نے محض رضائے الہٰی کو ملحوظ رکھا تو ان کا ثواب ضائع نہیں ہوگا۔''

مولانا موصوف کا جواب بڑا معقول تھا جن لوگوں نے خلوص دل سے اسلامی نظام کی ترویج کے لیے مال یا وقت کی قربانی دی تھی۔بیشک اللہ تعالیٰ ان کا اجر ضائع نہیں کرے گا لیکن یہاں اصل مسئلہ اجر کے ضیاع کانہ تھا بلکہ اسمبلیوں میں نشستیں حاصل کرنے کا تھا یا یہ سوچنے کا موقع تھا کہ آیا عوام کے ووٹوں کی کثرت سے اسلام لایا بھی جاسکتا ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ کہیں ان مخلص کارکنوں کی قیادت ہی کسی غلط راستہ پر تو نہیں ہورہی؟ اور ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسی ناکامی محض مغربی طرز کے انتخابات کے نتیجہ میں واقع ہوئی تھی کیونکہ ایسے انتخابات کے نتائج سے اصلاح و فلاح کی توقع رکھنا عبث ہے او رہمیشہ ضلالت اور حیوانیت ہی فروغ پاتی ہے او راس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مبارک ہے :

وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ(6؍117)

''(اے نبی!) اگر آپ لوگوں کی اکثریت کے پیچھے لگیں گے تو یہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے۔''

تیسری دلیل : تیسری دلیل مارشل لاء کے سلسلہ میں پیش کی جاتی ہے کہ فوج کا اصل کام سرحدوں کی حفاظت ہے حکومت کرنا نہیں ہے۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد انتخابات کروا کر اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے۔ اس وقت فوج کی توجہ حکومت اور سرحدی حفاظت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے اور آج جبکہ ہمسایہ ملک افغانستان میں جنگ کی وجہ سے سرحدون کی حفاظت کی ضرورت بھی زیادہ ہے تو فوج کو جلد از جلد اقتدار سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔

او رجن لوگوں کے ذہن میں سرکشی، رعونت او رانتقام کا عنصر موجود ہے ۔ وہ ان معانی کو الفاظ کا یہ جامہ پہناتے ہیں کہ فوج ہماری چوکیدار ہے ۔ چوکیدار کا کیا حق ہے کہ وہ گھر کا مالک بن بیٹھے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں تیسری بار مارشل لاء لگ چکا ہے اگر چوتھی بار بھی لگ گیا تو دوسرے ممالک کو پاکستان میں مداخلت کاجواز مل جائے گا او رکبھی یہ کہا جاتا ہے کہ جس ملک میں مارشل لاء لگ جائے وہ پچاس برس پیچھے جا پڑتا ہے۔

یہ سب باتیں جمہوریت کے پرستاروں کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ ہم تو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آج تک ملک کو شرابی حکمرانوں اور سیاسی بھیڑیوں سے فوج ہی بچاتی چلی آرہی ہے۔ ورنہ کب کا معاملہ صاف ہوچکا ہوتا۔ مارشل لاء کےدور میں ہی ملک کو کچھ نہ کچھ استحکام نصیب ہوتا رہا ۔ اس لحاظ سے مارشل لاء عوام اور پاکستان کے لیے کئی بار باعث رحمت ثابت ہوا۔رہا سرحدوں کی حفاظت کا مسئلہ او رسرحدوں پر جنگ کا خطرہ تو اس قسم کے خطرہ سے سیاسی لیڈر حسب ضرورت ڈراتے ہی آئے ہیں۔جب 1977ء میں تحریک چلی تو اس وقت بھی خطرہ تھا او رآج بھی خطرہ ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ جنگ کی صورت پیش آجائے تو اندرونی خلفشار جیسا ہوگا ۔ جنگ کے دوران قوم بنیان مرصوص بن ہی جایا کرتی ہے۔

اس کے برعکس اصل خطرہ انتخابات سے ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔

انتخابات کا التوا کیوں ناگزیر ہے: یہ تو قومی اتحاد کی خوش فہمی ہے کہ وہ الیکشن جیت جائے گی اور جیتنے کے بعد ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے گی۔ لیکن موجودہ صورت حال سے متعلق عمومی تاثر کچھ ایسا ہے کہ موجودہ الیکشن میں پھر لادین سیاستدانوں کے جیتنے کا امکان ہے۔ پیپلزپارٹی تو اب اپنےنعرہ سے ''اسلام ہمارا دین ہے''' سے بھی دست بردار ہوچکی ہے او ربرملا سوشلز م کا نعرہ لگانے لگی ہے پھر بھٹو کا انتقام لینا اس کے پروگرام میں شامل ہے۔ خفیہ آپریشن لائنز تجویز ہورہی ہیں او رجن جن افراد کو نشانہ بنانا ہے ان کی خفیہ فہرستیں بھی مرتب ہورہی ہیں۔ اگر موجودہ انتشار میں کوئی ایسا پارٹی برسراقتدار آگئی تو السام اور علمائے دین کا جو حشر ہوگا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ کسی مرحلہ پر دین بیزار پارٹیوں کا اسلام پسندوں کے خلاف محاذ بنے گا ۔ خواہ آپس میں ان کے دل کبیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ دینداروں کے خلاف ہمیشہ ایسے محاذ بنتے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں تو ان کے بازی لے جانے کا قوی امکان ہے کیونکہ غیر ملکی مفادات بھی انہی سے وابستہ ہیں۔لہٰذا بیرونی سرمایہ پانی کی طرح بہے گا۔ یہ اتحاد صوبائی خود مختاری کے نام پر ملک کی سالمیت کو تباہ کرے گا۔ بیرونی مداخلت کا سلسلہ بھی چل نکلنے کا امکان ہے۔ اندرونی حالات اسلام اور اسلامی نظام کا جو حشر ہوگا وہ ہر صاحب بصیرت کی آنکھوں کے سامنے ہے۔

اس کے بعد قومی اتحاد کے جیتنے کا جو امکان رہ جاتا ہے وہ ہماری نظر میں بہت کم ہے۔کیونکہ اس میں افتراق و انتشار کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔اگر یہ جماعت جیت بھی جائے تو اس کے داخلی مسائل اتنے زیادہ اُٹھ کھڑے ہوں گے کہ اسے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اور اس پربھرپور توجہ صرف کرنے کا موقع ملنا ہی مشکل نظر آتا ہے او راس کا وہی حال ہوگا جیسا بھارت میں جنتا پارٹی کا ہوا۔ پھر ایسی اکثریت جو دستور میں ترمیموں کا ازحد ضروری کام کرسکے اس کا تو امکان ہی بعید ہے۔

اب غور فرمائیے کہ ان صورتوں میں کوئی ایک صورت بھی پیش آگئی تو اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جو موقع آج بھی میسر ہے۔ وہ بھی ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ ان حالات میں کیا یہی مناسب نہیں کہ موجودہ حکومت کا جو سرکاری سطح پر اسلامی نظام کے نافذ کرنے میں کوشاں ہے ہر ممکن طریق سے ہاتھ بٹایا جائے اور اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کو ابھی اسلامی طرز انتخاب سے روشناس کرایا اورانکے ذہنوں کو اس کے لیے ہموار کیا جائے۔

ایک اعتراض او راس کا جواب : انتخابات کرانے کے حامیوں کی طرف سے یہ اعتراض بڑے شدومد سے اٹھایا جارہا ہے کہ اگر مغربی طرز کے انتخابات اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہیں تو یہ آواز آج سے پہلے کیوں نہیں اٹھائی گئی۔ پاکستان کی دستور سازی کی تاریخ میں اس کاذکر تک نہیں ملتا جب مختلف مکاتب فکر کے 22 علمائے دین کے تعاون اور اتفاق سے قرار داد مقاصد منظور ہوئی تھی۔ اسی طرح 1956ء میں جب دستور مکمل ہوا تو تمام سیاسی حلقوں نے اسے بہترین اسلامی دستور کی حیثیت سے قبول کیا۔بعد ازاں بھی کسی دور میں موجودہ طرز انتخاب کی مخالفت نہیں کی گئی نہ ہی اسلامی طرز انتخاب پیش کرنے کے متعلق کچھ کام ہوا۔ آخر اس نکتے کو آج ہی اتنی اہمیت کیوں ملی؟

لطف کی بات ہے کہ قومی اتحاد کے ایک ممتاز رہنما نے ایک جلسہ میں تقریر کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ جس حدیث کی رو سے فلاں فلاں مولانا الیکشن کے لیے کھڑے ہوئے تھے اس حدیث کی رو سے بھی موجودہ الیکشن بھی جائز ہیں اور ساتھ ہی یہ فقرہ بھی چست کردیا کہ ''معلوم ہوتا ہے کہ یہ تار کسی اور جگہ سے ہلائی جارہی ہے۔''

غور فرمائیے کہ اس قسم کے طرز استدلال سے کسی کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف سے پُرزور دلائل پیش کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف سے ماوجدنا علیہ آبآءنا کی دلیل سے جواب دیا جارہا ہے۔

اب ہم مغربی طرز انتخاب کے ناجائز ہونے کے قرآن و سنت سے دلائل پیش کریں گے جن کا ہمیں قرآن و سنت ہی سے جواب بھی درکار ہے۔پھر اس کے بعد اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آیا آج سے پہلے کسی نے مغربی جمہوریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے یا نہیں؟

مغربی طرز ِ انتخابات کے ناجائز ہونے کے دلائل:

1۔ اکثریت کا تتبع : اس طرز انتخاب کی بنیاد عوام کے ووٹوں کی کثرت و قلت پر ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ اگر آپ عام لوگوں کی اکثریت کے پیچھے لگیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے۔ارشاد باری ہے:

وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ (6؍117)

''اگر آپ اکثریت کے پیچھے لگ گئے تو وہ آپ کو راہ ہدایت سے بہکا دیں گے۔''

2۔ کُرسی کی ہوس : ارشاد نبوی ہے:

ما ذئبان جائعان أرسلا في غنم قوم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال والشرف لدینه (ترمذی)

''بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑے ہوئے دو بھوکے بھیڑیے اتنی تباہی نہیں مچا سکتے جتنی انسان کی حبّ جاہ و مال اسکے دین کیلئے تباہ کن ہوسکتی ہے۔''

3۔ درخواست امیدواری : ارشاد نبوی ہے:

إنا واللہ ما نولي علیٰ ھٰذا العمل أحد اسأله ولا أحدأ حرص عليه (متفق علیہ)

''خدا کی قسم ہم کسی ایسے شخص کو حاکم نہیں بناتے جو اس کیلئے درخواست کرے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو حاکم بناتے ہیں جو اسکی حرص رکھتا ہو۔''

وفي روایة قال لا نستعمل علیٰ عملنا أراده (متفق علیہ )

ایک دوسری روایت میں یوں ہے آپؐ نے فرمایا: ''ہم اپنے انتظامی امور میں کسی ایسے شخص کو شامل نہیں کرتے جو اس کا ارادہ رکھتا ہو۔''

بدکردار آدمی کی رائے : اس بات سے قطع نظر کہ ووٹ بیعت کے قائم مقام ہے یا نہیں۔ اگر بقول جمہوریت پسندوں کے ووٹ ایک مقدس امانت او رپاکیزہ شہادت ہے تو موجودہ طرز انتخاب میں ہربُرے بھلے کو ووٹ دینے کا یکساں حق دیا گیا ہے ۔ لیکن اسلام میں بدکردار آدمی کی شہادت قابل قبول نہیں۔ ارشاد باری ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا  (4؍24)

''جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں پھر چار گواہ پیش نہیں کرسکتے ان کو 80 دُرے مارو اور آئندہ کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔''

5۔ بُرے اور بھلے کی رائے یکساں نہیں ہوسکتی: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ  (5؍100)

''(اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ آیا بُرے اور بھلے لوگ ایک جیسے ہوسکتے ہیں اگرچہ بُرے لوگوں کی کثرت تمہیں بھلی ہی کیوں نہ لگے۔''

اسی طرح ایک بے شعور او رجاہل انسان کی رائے کی قدروقیمت بھی وہی قرار نہیں دی جاسکتی جو ایک عالم اور باشعور انسان کی رائے کی قیمت ہوتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ(نیز)قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ (13؍16)

''کیا عالم اور بے عالم برابر ہوسکتے ہیں؟ (اے پیغمبر!) ان سے پوچھئے کہ آیا بینا اور نابینا برابر ہوسکتے ہیں؟''

6۔ عورت کا حق رائے دہندگی : ریاست و سیاست کے میدان میں اسلام مساوات مرد وزن کا قائل نہیں ذمہ داری کے مناصب یا کلیدی اسامیان (وزارت ہو یا صدارت یا کسی محکمہ کی ادارت)عورتوں کے سپرد نہیں کی جاسکتی۔اس کا مقام شمع خانہ ہے رونق محفل نہیں۔

حضور اکرمﷺ کو جب یہ اطلاع ملی کہ بنت کسریٰ (پوران، نوشیروان کی پوتی) کو اہل فارس نے بادشاہ بنا لیا ہے تو آپؐ نے فرمایا:

کیف یفلح قوم ولوا أمرهم امرأة (بخاری)

''وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نےاپنا سربراہ ایک عورت کو بنا لیا ہے۔''

ووٹ دینے کے سلسلے میں اگر اختلاط مردوزن ، یا بے حیاوی او رفحاشی کا خطرہ بھی ہو تو ایسی صورتوں میں عورت کو ووٹ دینے کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی او راس پر قرآن کریم کی بے شمار آیات شاہد ہیں۔

7۔ قانون سازی: انسانوں کےلیے قانون دستور سازی کے جواز او راس کی تفصیلات سے قطع نظر اگر اسمبلیوں میں کثرت رائے کا احترام کرتے ہوئے ایسے قانون بنائے جائیں جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہوں جیسے سود کا جواز، شراب کی حالت یا ہم جنس کا نکاح وغیرہ تو یہ شرک ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ۔ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (5؍44،45،47)

''اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ 0کتاب و سنت) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو یہی لوگ کافر ہیں۔ظالم ہیں۔ فاسق ہیں۔''

8۔ تفرقہ بازی: اس طرز انتخاب میں الیکشن کے دوران بے شمار سیاسی پارٹیاں جنم لیتی اور جوڑ توڑ میں مصروف ہوکر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہوجاتی ہیں او رملی وحدت کو پارہ پارہ کرکے افتراق انتشار کا باعث بنتی ہیں۔ قرآن کریم کی رُو سے یہ بات شرک کے مترادف ہے۔

ارشاد باری ہے:

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا  (30؍31۔32)

''نماز قائم کرتے رہو اور مشرکین سے نہ ہوجاؤ (یعنی ان سے) جنہوں نے اپنے دین کوٹکڑے ٹکڑے کردیا اور فرقہ فرقہ ہوگئے ۔''

9۔ حریف کی تذلیل: اس طرز انتخاب میں سیاسی سرگرمیوں کی مدت میں اپنے سیاسی حریف پر کیچڑ اچھالنے ، اس پر الزام لگانے، بہتان تراشی کرنے،اس کے راز ہائے دورن اور گناہ ہائے تاریک کا پردہ فاش کرنے پر کوئی گرفت نہیں کی جاتی۔ حالانکہ یہ چیزیں عمومی احکامات کی رو سے حرام اور کبیرہ گناہ ہیں۔ ارشاد باری ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ (49؍11)

''اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری کا تمسخر نہ اُڑائے ۔ عین ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں۔''

اور حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے عظیم الشان خطبہ میں جسے انسانی حقوق کے چارٹر کا مقام حاصل ہے ۔ مسلمانوں سے یوں خطاب فرمایا:

''مسلمانو! تم پر ایک دوسرے کی جانیں، مال اورعزت اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ شہر(مکہ) او ریہ مہینہ (ذی الحجہ) او رآج کا (عرفہ کا)دن حرمت والے ہیں۔''

10۔ اسراف و تبذیر : ہر درخواست دہندہ الیکشن کے دوران اپنی کنویسنگ پر پانی کی طرح پیشہ بہاتا ہے جبکہ یہ ہوس اقتدار، درخواست گزاری اور ان کے لیے کنویسنگ سب ناجائز امو رہیں او ران پر خرچ کرنا تبذیر ہے۔ عوام کا کاروباری نقصان الگ اور قومی خزانہ پراخراجات کا بار الگ ہوتاہے یہ طرز انتخاب دراصل مغربی عیاشی کی ایک شکل ہے۔ پاکستان جیسا غریب ملک اس کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔ان اخراجات میں کچھ اسراف کی تعریف میں آتے ہیں اور بعض دوسرے تبذیر میں او ریہ دونوں چیزیں مذموم فعل ہیں۔ ارشاد باری ہے:

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (17؍؟)

''بلا ضرورت خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔''

......تلک عشرۃ کاملۃ......

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مغربی جمہوریت کے یہ نقصانات اور شریعت مطہرہ کی رو سے عدم جواز آج ہی یک لخت منظر عام پر آگئے ہیں یا پیشتر ازیں بھی کسی نے ان کی نشاندہی کی ہے۔

ڈاکٹراقبال..... جو نظریاتی طور پر پاکستان کے بانی ہیں او رپاکستان میں ہر طبقہ ان کے پیغام کو گوش ہوش سے سنتا ہے.... نے قیام پاکستان سےبہت پیشتر مسلمانوں کو مغربی جمہوریت کے نقائص اور تباہ کاریوں سے پوری طرح آگاہ کردیا۔

آپ کو اس طرز انتخاب پر پہلا اعتراض یہ تھاکہ اس میں ہر ایرے غیرے سے ووٹ لیا جاتا ہے او رایسے ووٹوں کی قدروقیمت بھی وہی کچھ ہوتی ہے جو ایک ذی شعور اور تجربہ کار انسان کے ووٹ کی ہوتی ہے۔اسے وہ خلاف عقل قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر دو سو گدھوں کی عقل اکٹھی کی جائے تو بھی وہ ایک پختہ کار انسان کی عقل کے برابر نہیں ہوسکتی۔ فرماتے ہیں ؎

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو

کہ از خر دو صد فکر انسانے نمی آید

مغربی طرز انتخاب اسی قباحت کو ایک دوسرے مقام پریوں واضح کرتے ہیں ؎

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

ڈاکٹر موصوف کو اس طرز انتخاب پر دوسرا اعتراض یہ تھا کہ یہ ملی وحدت کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے جس سے غیر ملکی نظریات فروغ پاتے ہیں اور ملک کی آزاد ہر آن خطرہ میں رہتی ہے۔ فرماتے ہیں۔ ؎

الیکشن ممبر، کونسل صدارت ..... بنائے خوب آزادی کے پھندے

اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں ..... نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

وہ اس طرز انتخاب کی تباہ کاریوں سے خوب واقف تھے۔ چنانچہ مسلمانوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ اس کی ظاہری شکل و ہیئت دیکھ کر دھوکا نہ کھا جائیں کیونکہ یہ نظام بھی فی الحقیقت جبرواستبداد کی ایک نئی شکل ہے۔ فرماتے ہیں ؎

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب....تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام..... جس کے پردے میں نہیں غیر از نوائے قیصری

اسی سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو .... آہ اے نادان قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

درج بالا تصریحات میں ڈاکٹر موصوف نے اس طرز حکومت کی خرابیوں کی طرف بڑے واضح الفاظ میں نشاندہی کردی ہے۔

علامہ اقبال کے بعدبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کوہر طبقہ میں عزت و احترام کا نگاہ سے دیکھا جاتا ہے او ران کے ارشادات و فرمودات پرعمل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جمہوریت کے متعلق ان کا ریویو بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں10 مارچ 1941ء کو جو تقریر فرمائی۔ اس کے درج ذیل اقتباس پر عور فرمائیے:

''میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ جمہوری پارلیمانی نظام حکومت ، جیسا کہ انگلستان او ربعض دوسرے مغربی ممالک میں ہے۔ برصغیر کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے........'' (نوائے وقت 17 جون 1979ء)

اس اقتباس میں بار بار کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ قائداعظم یہ حقیقت کئی بار مسلمانوں کو سمجھا چکے ہیں۔

رہا یہ سوال کیا کسی عالم دین نے آج تک اس طرز انتکاب کوجائز قرار دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انگریز بہادر جس تہذیب کے بیج یہاں بوگیا تھا۔ اس نے علمائے دین کے وقار کو معاشرہ کی نظروں میں ختم کرکے رکھ دیا تھا۔ علمائے حق اس وقت بھی حق کی بات کہتے رہے۔ مجموعی طور پر نہ سہی انفراداً ہی سہی۔ تاہم کہیں نہ کہیں سے یہ صدا اٹھتی رہی۔ مگر اس نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا تھا۔

معاصر جریدہ ترجمان القرآن نے دستور سازی کی تاریخ کا حوالہ دیا ہے۔ 1949ء میں جب قرارداد مقاصد منظور ہوئی تو مختلف مکاتب فکر کے 22 علماء نے یہی غنیمت سمجھا کہ چلو جمہوریت کے ساتھ اللہ کی حاکمیت او راسلام کا نام تو آگیا ہے۔ اس قرار داد کی شق نمبر 3 کے الفاظ یہ تھے۔

''جمہوریت،آزادی،مساوات،رواداری اور اجتماعی انصاف کے اصولوں پر اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کیا جائے گا۔'' اب اس جمہوریت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانا علماء سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری تھی۔کیا کبھی اسلامی نظریاتی کونسل یا اسلامی مشاورتی کونسل کی سفارشات کو ''جو قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے پر مشتمل ہوتی تھیں۔ ایوان حکومت میں کبھی شرف قبولیت بخشا گیا۔ پاکستان کے دین بیزار سربراہ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایسی کونسلیں تو تشکیل دے دیا کرتے تھے لیکن انگریز کی یہ معنوی ذریت اسلام سے کبھی مخلص نہ رہی۔ سابقہ ادوار اور آج کے دور میں صر ف یہ فرق ہے کہ آج کا سربراہ مملکت اسلام کے ساتھ مخلص ہے۔ وہ علماء کی قدر کرتا ہے او ران کی بات سنتا ہے ۔ علماء کی کہی بات آج ایوان حکومت اوراسی طرح سیاسی سطح تک پہنچ جاتی ہے جو اس سے پہلے نہیں پہنچ پاتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت علماء کی طرف سے جواز یا عدم جواز کی بحث کی ضرورت پوری کی جارہی ہے ورنہ اس سے قبل تو کبھی انتخابات کے خلاف اس آواز کو سننا بھی گوارا نہیں کیا گیا بلکہ حتمی طور پر انتخابات کے اعلانات ہوتے رہے اور علماء بھی اسے اضطراری صورت سمجھ کر خاموش رہے کیونکہ جب حکومت انتخابات کرا رہی ہو تو اسلامی نقطہ نظر سے یہ بھی درت نہیں کہ اقتدار کے چشمے کلی طور پر لادین عناصر کے قبضے میں دے کر دیندار میدان سے ہٹ جائیں بلکہ اس صورت دفاع اسلام کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ اس وقت کسی نہ کسی صورت لادینیت کے سامنے رکاوٹ پیدا کی جائے تاکہ بُرائی کا زور کم ہوجائے ۔ اس صورت میں دفاعی نقطہ نظر سے انتخابات میں حصہ لنے کا شرعی جواز بھی پیدا ہوجاتا ہے لیکن موجودہ حالات میں جو بحث چل رہی ہے وہ فروغ اسلام یا شریعت کے عملی نفاذ کے لیے انتخابات او رجمہوریت کی ہے۔ لہٰذا مغربی طرز انتخاب کے عدم جواز کے لیے جو قرآنی آیات یا احادیث پیش کی گئی ہیں۔ ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ قومی اتحاد کے دینی رہنما ان سے یا اسلامی طرز انتخاب سے ناواقف ہوں گے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ ان آیات و احادیث کا جواب قرآن و سنت سے ہی پیش کرتے یا ان کی کوئی واضح او رصحیح تر توجیہہ بیان فرماتے۔ ہم یہ پوچھتے ہیں کیا ان کے عدم قبول کی یہ وجہ معقول او رکافی ہے کہ انہیں اس شدومد سے آج سے پہلے کبھی پیش نہیں کیا گیا جیسے کہ آج کیا جارہا ہے کیااس کی یہ وجہ تو نہیں کہ جن حضرات کے مفادات پر زد پڑنے کا امکان ہے وہ اب چیخنے لگے ہیں کہ ؎
ہائے اس کمبخت کو کس وقت خدا یا آیا

حاشیہ

۔ واضح رہے کہ جنرل صاحب کے یکم جنوری 1978ء کے خطاب سے قبل جس میں آپ نے کتاب و سنت کی بالادستی کی پالیسی کا اعلان کیا تھا یہی لوگ کہتے تھے کہ ایسا اعلان بھی منتخب حکومت ہی کرسکتی ہے ۔ گویا کلمہ پڑھنے کے لیے بھی عوام کا منتخب نمائندہ ہونا ضروری ہے۔

۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابتری حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ لوگ جنر ل صاحب کی تنائی اور اسلامی مشینری کے فقدان کا ذکر شدومد سے کرتےہیں۔ جب یہی سوال ان سے کیا جاتا ہے کہ تو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تربیت افراد کی ایک ٹیم موجود ہے۔ جسے اقتدار حاصل کرکے وہ ہرناکے پربٹھائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ اسلام سے مخلص ہیں تو یہی ٹیم اقتدار میں شریک ہوکر بااقتدار سے علیحدہ ہوکر بھی کیوں نہیں پیش کرتے۔ کیونکہ نعرہ تو اسلامی نظام کا لگاتے ہیں۔ کیا اگر جنرل صاحب کے ذریعے ان کی تربیت یافتہ افراد کے تعاون سے اسلام کا دور دورہ ہو تو وہ اسلام قبول نہ ہوگا۔

۔ سیلاب کے دنوں میں مختلف جماعتوں نے سیلاب زدہ افراد کی امداد و علاج کے لیے کیمپ لگائے تھے اس وقت عام لوگوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ پیپلزپارٹی کے خیرات دہندہ لوگ ، اپنے دور حکومت ہونے کے باوجود، اپنی امدادی رقوم جماعت اسلامی کے کیمپ میں دیا کرتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ جماعتاسلامی کے کارکنوں کی دیانت مسلم تھی جبکہ پیپلزپارٹی کے کارکنون کے متعلق ان کا اپنا نظریہ بھی یہ تھا کہ یہ لوگ امدادی رقوم یااس کا اکثر حصہ خود ہی ہڑ کرجائیں گے۔

۔ واضح رہے کہ اسلام میں سیاست بھی دین ہے اس لیے سیاسی تفرقہ بازی کو دین سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۔یہ غلط فہمی نہ رہے کہ اس بارے میں علمی میدان خالی ہے۔ علماء کی ضخیم کتابیں اس مواد پر موجود ہیں البتہ اس حد تک یہ بات درست ہے کہ عوامی سطح پر اس کا شور و غوغا حالات کی ناموافقت سے نہیں ہوسکتا۔ اب حالات ایسے سامنے آئے ہیں کہ عوام بھی انتخاب نہیں چاہتے اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ آواز پہلی دفعہ اٹھی ہے۔

۔ اسلامی طرز انتخاب پر بہت کچھ کام ہو بھی چکا ہے اور اگر نیت بخیر ہو تو قلیل عرصہ میں مزید بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ اس طرز انتخاب سے عوام سے عوام کو روشناس کرنے کے لیے ایک طویل مدت کی ضرورت ہمارے خیال میں عذرلنگ کے علاوہ کچھ نہیں۔