قتل شبہ عمد
(10)
قولہ : اگر آلہ کومسلسل استعمال کیا گیا ہو تو احناف کے نزدیک اس صور ت میں بھی قتل شبہ عمد ہوگا..... البتہ امام شافعی کے نزدیک اس صورت میں قتل شبہ عمد ہوگا۔ (ترجمان القرآن فروری 1979ء، صفحہ 13 دفعہ نمبر 15)
اقول: ہم پہلے کسی موقعہ پر غالبا ً بالتفصیل عرض کرچکے ہیں کہ ہتھیار میں تلوار کو خاص کرنا یاایسی شروط عائد کرنا جن سے عموماً مستعملہ چیزیں خارج ہوجائیں۔محض فنکاری ہے۔اس فنکاری میں ماہر و مستغرق قاضی صاحب موصوف نے اس موقع پر بھی حسب معمول یہ فرق بیان کرتے ہوئے فقہ حنفی کوسند صحت سےنوازنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ امام شافعی کا مؤقف بالکل واصح ہےکہ ایک ایسا آلہ جس سے عموماً قتل واقع نہ ہوتا ہو لیکن تعدد صربات جب موجب قتل ہوں تو اس آلہ کو بھی آلہ قتل شمارکیا جائے گا اور من وجہ یہی فرق ہے قتل عمد اور شبہ عمد میں۔ لیکن اس میں نیت قاتل کو دخیل سمجھنا یقیناً ابطال حدود کے مترادف ہے کیونکہ اعتبار نیت عنداللہ مسموع ہے جبکہ دنیا میں اجر اء حدود میں ظاہر اور شہود و قرائن کو معتبر سمجھا جاتا ہے کہ نیت دل کافعل ہے جس کو قاتل بڑی آسانی سے تبدیل کرسکتاہے۔ علامہ ابن رُشد فرماتے ہیں:
وعمدةمن أثبت الوسط أن النیات لا یطلع علیھا إلا الله تبارك و تعالیٰ وإنما الحکم بما ظھر فمن قصد ضرب آخر بآلة تقتل غالبا کان حکم لحکم الغالب۔ہاں اگر کوئی قاتل بآواز بلند پکارے کہ میں مارتا ہوں فلاں بن فلاں کو رنگ ایساقد ویسا منہ طرف قبلہ شریف بمدنیت صالح بحضور چند افراد تو پھر ممکن ہے کہ وہ افراد کہیں اس کی نیت تادیب تھی نہ کہ قتل۔ لہٰذا تعدد ضربات کے باوجود یہ قتل شبہ عمد ہوگا۔ ورنہ ہر ذی فہم اس بات کا ادراک کرسکتا کہ ایک شخص معمولی آلہ تادیب کو متعدد مرتبہ استعمال کرکے قصداً دوسرے شخص کو قتل کردیتا ہے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ کیا صرف آلہ تادیب ہی رقع قصاص کے لیے کافی ہے؟
حدیث: موصوف نے فقہ حنفی کی تائید میں حدیث ''العمدقود'' پیش فرمائی ہے کہ اس میں عمد کافردکامل مراد ہے جو کہ صرف قتل عمد متحقق ہوتا ہے حالانکہ قوالی ضربات میں بھی عمد کافرد کامل من وجہ موجود ہے تو پھر اس تفریق کا کیا معنی؟ امام ابن حزم حضرت حسن بصری سے فرماتے ہیں کہ:
''من ضرب آخر بعصافأعاد عليه الضرب فمات فعليه القود'' (محلی 8ج1 ص386)
امام شبعی فرماتے ہیں:
' ''إذا أعاد عليه الضرب بالحجر والعصا فھو قود'(ایضاً)
یعنی جب تعدد ضربات بھی عمد پر دال ہے تو شبہ عمد کی اس صورت میں بھی قصاص ضروری ہوگا۔
امام شافعی فرماتے ہیں:
''أو والی عليه السوط حتی یموت..... فعليه القود'' (کتاب الام :ج5 ص97)
یعنی کوڑے سے توالی ضربات بھی موجب قصاص ہے او رعقل و نقل کے اعتبار سےاسی صورت میں امام شافعی کاموقف صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص غیر آہنی یا عام آلہ قتل کے علاوہ کسی معلوم آلہ سے مسلسل وار کرکے کسی کوعمد کردے تو اس سے قصاص لیاجائے گا اگر وہ تعدد ضربات کےعلاوہ مرجائے تو اسےشبہ عمد یا امام مالک کےمطابق قتل خطأ کہاجائے گا کیونکہ تعدد ضربات اس احتمال کو خارج کردیتی ہیں جو تادیب و تہذیب سے پیدا ہوتا ہے ورنہ حدیث توواضح ہے کہ ''قتیل السوط والعصا شبہ العمد'' لیکن اس کا صحیح عمل عدم تسلسل کی صورت ہے جس کے دیگر لوازمات موجود ہوں۔
امام مالک کامؤقف: اس بحث کے علاوہ امام مالک کا مؤقف بھی خصوصی توجہ کامتقاضی ہے کہ قتل صرف دو قسم کاہوتا ہے یعنی قتل عمد اور قتل خطأ۔کیونکہ جب کوئی شخص کسی کو عمداً ایسے آلہ سے قتل کرتا ہے جوعموماً قتل کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔اس کو تو شبہ عمد کہہ کر معاف کردیا جائے اور جو اس کے علاوہ آہنی اور جری آلہ سے قتل کرے وہ عمد ہو اس وجہ سے ناقابل فہم ہے کہ ارادہ تو دونوں کا یکساں ہے پھر یہ فرق چہ معنی دارد؟ یعنی فرق صرف ارادہ و نیت کا ہوناچاہیے اگر وہ عمداً قتل کرتا ہے خواہ اس کی کوئی صورت بھی کیوں نہ ہو اسے، عمد کی سزا یعنی قصاص ہونی چاہیے۔ اگر اس سے یہ قتل خطأ ہو ا ہے تو پھر دیت لی جائے اور یہ ارادہ اقرار و قرائن سے معلوم ہوگا ۔لہٰذا اس دور میں علماء کو شبہ عمد کی بحث پر نظر ثانی کرتے ہوئے امام ماک کے مؤقف کوسنجیدگی سے دیکھنا چاہیےجس کے اختیار کرنے سے بہت سی الجھنوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟
قولہ: لاٹھی، کوڑا خواہ چھوٹا ہو یا بڑا کے ذریعہ قتل شبہ عمد ہوگا۔(دفعہ نمبر 10 مثال نمبر 2)
اقول: یعنی امام شافعی کے نزدیک بڑی لاٹھی یاثقیل پتھر موجب قصاص ہوگا اور احناف میں سے ابویوسف ، محمد کا بھی یہی خیال ہے کیونکہ ایسی چیزوں سےبالعموم قتل واقع ہوجاتے ہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہ ثقیل و خفیف کی شرط کو معتبر نہیں سمجھتے بلکہ علی الاطلاق اسے شبہ عمد کہتے ہیں او راس حدیث کو بطور دلیل پیش کیاجاتا ہےکہ
''قتیل خطاء العمل قتیل السوط والعصا'' حالانکہ اس سے ایک تو تعدد کی مذکورہ صورت مستثنیٰ ہے ۔دوم صورت ثقل مستثنیٰ ہے یعنی کیااس اطلاق کا یہ معنی ہے کہ اگر کوئی شخص شہتیر کو لاٹھی سمجھ کر پھینک دے تو یہ بھی شبہ عمد ہی ہوگا۔علامہ فراء حنبلی فرماتے ہیں:
أو یقتل غالبا ً بثقله ....... کالحجارة والخشب فھو قتل عمد یوجب القود (الاحکام السلطانیہ صفحہ 256)
علامہ مادردی فرماتے ہیں:
أو ما یقتل غالباً بثقله غالباً کالحجارة والخشب فھو قتل عمد یوجب الحد (الاحکام السلطانیہ صفحہ231)
اس کے بعد موصوف نے تیسری مثال گلا گھونٹ کر قتل کرنے کی دی ہے جس کو امام ابوحنیفہ شبہ عمد اور امام شافعی ،احناف میں سے امام ابویوسف و محمد اور امام احمد، نخعی، عمر بن عبدالعزیز وغیرہ نے اس کو عمد قرار دیا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
أوتابعه عليه الخنق........ فمات فعليه القود (کتاب الام: ج5 صفحہ 97)
اور یہاں بھی عمد اسی وقت متحقق ہوگا جب اس میں تسلسل و توالی ہو جیسا کہ پہلےگزر چکا ہے اور یکبارگی بھی ہوسکتا ہے۔ علامہ جزیری مالکیہ کے تحت فرماتے ہیں:
أو عنقه بیده فیحب عليه القود في کل ذٰلك إن قصد بذلك موته أو علم أنه یموت من ذٰلك (فقہ علی المذاہب : ج5 ص277)
علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
''أحدھما أن یجعل في عنقه خراطة و یعلقه في خشبة..... فیخنق و یموت فھذا عمد سواء مات في الحال أو بقي زمنا..... والثاني أن یخنقه وھو علی الأرض بیدیه أو مندیل أوحبل أویغمه بوسادة أو بشيء یضعه علی فيه وأنفه أویضع یدیه علیھما فیموت فھذا إن فعل به ذٰلك مدة یموت في مثلھا غالباً فمات فھو عمد فيه القصاص'' (المغنی: ج9 ص325)
یعنی اگر کوئی شخص کسی کا گلا دبا دے خواہ ہاتھ سے ہو یا رسی سے یا اس کے منہ یا ناک پر رومال ، تکیہ یا ہاتھ رکھ کر سانس بند کردے اور وہ مرجائے تو یہ قتل عمد موجب قصاص ہوگا۔ اسی طرح خصیتین کے ملنے او رغرق کرنے کا مسئلہ ہے یعنی اگر اس میں تعدد و تسلسل ہے یا پانی کی کثرت اس کا قرینہ ہے تو وہ قتل عمد ہوگا جبکہ امام ابوحنیفہ کےنزدیک یہ تمام صورتیں شبہ عمد کی ہیں اور موصوف اس سلسلہ میں تقریباً منفرد ہیں جبکہ صحیح موقف وہی ہےجو امام شافعی وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
دھوکہ دہی: قاضی صاحب موصوف فرماتے ہیں احناف کے نزدیک اگر کوئی کھانےپینے کی چیزوں میں زہر ملا دے او رکوئی شخص کھاکر ہلاک ہوجائے تو اس کو تعزیری سزا دی جائے یعنی قصاص نہیں لیاجائے گا۔
محترم قارئین ہم ا سے قبل بھی متعدد مرتبہ یہ بات بڑے افسوس سے لکھ چکے ہیں کہ فقہ حنفی کی ایسی موشگافیوں کو عوام کے سامنے رکھنے سے کیا فائدہ ؟ لیکن ایک مقلد سے ایسے ہی حق اطاعت کی توقع رکھی جاسکتی ہے ۔ حالانکہ احادیث میں واضح طور پر ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے خیبر کے موقع پر بشر بن البراء کے بدلہ یہودی کو قتل کرنےکا حکم دیا تھاکہ اس نے دھوکہ سے زہر کھلا دی تھی یعنی دھوکہ سےزہر کھلانے والے پر قصاص ہے۔ علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
''النوع الخامس أن یسقیه سما أو یطعمه شيئا قاتلا فیموت به فھو عمد موجب للقود إذا کان مثله یقتل غالباً الخ'' (المغنی :ج9 ص328)
بہرحال اس واضح حدیث کی موجودگی میں عوام کو دھوکہ دہی کی ترغیب دینا کہاں تک اصلاح معاشرہ کی کوشش ہے ؟ اور محض سرسری اور سطحی احتمالات و شبہات کی وجہ سے اگر احناف قصاص جیسی انتہائی حد کو جاری کرنے سے شرماتے ہیں تو ایک خون مسلم تو رائیگاں جائے اور جناب خاموش تماشائی بنے رہیں۔
ایک تجویز: قاضی موصوف نے احناف کی پوری وکالت کرنے او رہرجائز و ناجائز طریقہ سے حنفیت کی تائید کرنے میں جب ناکامی محسوس کی تو احناف کے فیصلہ کو مقتضائے حال کے مطابق نہ سمجھتے ہوئے ایک تجویز پیش کی ہے کہ امام شافعی و امام احمد کےقول پر عمل کرلیاجائے ۔ ہم خدا کا شکر اداکرتے ہیں کہ تقلیدی جمود ٹوٹا او ربڑی شان بےنیازی سے ٹوٹا۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ایک تجویز اور رکھتے ہیں کہ موصوف حنفیت سے تائب ہوکر ''آسمان سےگرا کھجور پر اٹکا'' کا مصداق نہ بنیں بلکہ سیدھے اس بات کا اعتراف کرلیں کہ پوری فقہ حنفی اور دیگر فقہ ائمہ کو کتاب و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے ۔ جوبات کتاب و سنت کےمطابق ہو اسے اخذ کرلیا جائے ورنہ ترک کردیا خواہ کسی فقہ سے وہ ملا کیوں نہ ہو۔ ''خذما صفیٰ ودع ما کدر'' کیونکہ حالات کا تقاضا کوئی فقہ بھی پورا نہیں کرسکتی کہ یہ خاصہ ہے صرف قانون خداوندی اور معصوم پیغمبر کی شریعت کا ۔ اگر یہ بات فقہ حنفی میں ہو جیساکہ احباب کوشش کررہے ہیں تو پھر دونوں میں فرق کیا رہے گا او ریہی ہے مسلک اہلحدیث اور دعوت محدثین اور اس کا یہ دعویٰ ہے کہ حالات کی اگر صحیح ترجمانی کوئی قانون یافقہ کرسکتی ہے تو وہ قانون الہٰی اور فقہ محمدی ہے نہ کہ فقہ حنفی وغیرہ او راس واضح اعتراف حقیقت کے باوجود فتاویٰ عالمگیری یافقہ حنفی وغیرہ کے نفاذ کا مطالبہ حقیقتاً عوام کوگمراہ کرنے کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
مجھے امید ہے کہ موصوف او ران کا حلقہ احباب میری اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کریں گے او رپھر فقہ حنفی کی اس قدر جوش و خروش اورکذب ودجل سے ترجمانی کی نوبت نہیں آئے گی۔ انشاء اللہ العزیز۔
حکومت وقت : اس موقع پر ہم حکومت وقت کو مطلع کرنابھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اہلحدیث حضرات وقتاً فوقتاً یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور دلائل سے اسے زینت بخشتے ہیں کہ اگر آپ اس ملک کی فلاح و بہبود میں مخلص ہیں تو پھر یہاں فی الفور قرآن و سنت کا وہ نظام فی الفور نافذ کردیاجائے جسے نبی علیہ السلام لے کر آئے اور خلافت راشدہ کے دور میں اس کی تعمیر سامنے آئی کیونکہ یہی قیامت تک کے ہمہ قسم کےمسائل کاواحد حل ہے اور اگر اس کے علاوہ کسی انسانی قانون کی طرف توجہ دیتے ہوئے کسی فقہ کو نافذ کیا گیا تو پھر یہی نہیں کہ اہلحدیث حضرات اس کے پابند و مکلف نہ ہون گے بلکہ اس کی بھرپور مزاحمت کرتےہوئے کتاب وسنت کے کامل وغیر متغیر قانون کےنفاذ کی جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور حکومت کو یقین کرلینا چاہیے کہ یہ فرمان نبوی برحق ہے کہ ''یرفع اللہ بہ اقواما و یضع بہ اخرین'' یعنی کتاب اللہ پرعمل کرنے سے اللہ بہت سی اقوام کو نہایت بلند مقام سے نوازتا ہے اور دوسروں کو نہایت ذلیل و رسوا کردیتا ہے۔ شاید ہماری موجودہ ذلت کا سبب بھی یہی بات ہو۔لہٰذا حکومت کو اس فرض منصبی کی فوری ادائیگی پرسنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ عنداللہ خلاصی بھی اسی میں ہے اور عوام سے کیے ہوئے وعدوں کابھی یہی تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور حکومت کو اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی توفیق بخشے۔ آمین۔