(یہ ہدایت سماحۃ الشیخ) عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ۔حفظہ اللہ کی طرف سے اُن تمام مسلمانوں کے نام ہے جو اس پرمطلع ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کے ساتھ ان کی حفاظت کرے او رہمیں اور تمام مسلمانوں کو جاہل سرکش لوگوں کی باتوں سےبچائے۔ آمین
وصیّت نامہ کا واقعہ:السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ...... امابعد۔ مجھے اس بات کی خبر ہوئی کہ حرم نبوی کے خادم شیخ احمد کی طرف کچھ باتیں منسوب کی گئی ہیں۔ اُن کا عنوان یہ ہے: ''یہ وصیت نامہ مدینہ منورہ سے شیخ احمد خادم حرم نبوی کی طرف سے ہے۔'' اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ میں جمعہ کی رات کو کافی دیر تک قرآن پاک کی تلاوت اور اسمائے الہٰی کے وظیفہ میں مصروف رہا اور جاگتا رہا جب تلاوت قرآن پاک اور وظائف کے ورد سے فارغ ہوا او رسونے کے لیے بستر خواب پر آیا تو ایک روشن چہرے والے مقدس انسان کی زیارت سے مشرف ہوا۔ وہ مقدس ہستی رسول کریمﷺ تھے۔ جوقران پاک لے کر ہمارے پاس تشریف لائے جنہوں نے احکام شریعت کی وضاحت فرمائی اور جو تمام جہانوں کے لیے باعث رحمت بن کر تشریف لائے۔
آپؐ نےفرمایا: ''اے شیخ احمد!''
میں نے عرض کیا: ''اے تمام مخلوقات سے زیادہ مکرم ہستی! بندہ حاضرہ ہے۔ فرمائیے کیا ارشاد گرامی ہے؟''
آپ نے فرمایا: ''میں لوگوں کے بُرے اعمال کی وجہ سے شرمسار ہوں۔مجھے اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کی ہمت نہیں بلکہ اس کے فرشتوں کے سامنے حاضر ہونے کی ہمت نہیں پاتا۔کیونکہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار اشخاص مرتد ہوکر مرتے ہیں۔''
پھر ذکر کیا کہ لوگ گناہوں کا بہت ارتکاب کرتے ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ یہ وصیت نامہ اللہ کی طرف سے باعث رحم ہے۔ پھر کچھ قیامت کی علامات کاذکر کیا۔ آخر میں لکھا ہے کہ : ''اے شیخ احمد! لوگوں کو اس وصیت نامہ سے آگاہ کردو۔ یہ تقدیر کی قلم سے لوح محفوظ سےمنقول ہے ، جو اسے لکھے گا او رایک شہر سے دوسرے شہر میں، اور ایک مقام سے دوسرےمقام پر بھیجے گا تو جنت میں اس کے لیے ایک محل تیار ہوگا۔ جو شخص اسے نہیں لکھے گا او رایک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں بھیجے گا تو قیامت کے روز میری شفاعت سے محروم ہوگا۔ جو اسے لکھے گا اگر وہ فقیر ہے تواللہ تعالیٰ اُسے غنی کردے گا۔ اگر مقروض ہے تو اس کاقرض ادا ہوجائے گا۔ اگر اس پر کوئی گناہ ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف فرمائے گا اور اس کے والدین کے گناہوں کا دفتر بھی دھو ڈالے گا جوشخص اسے لکھنے میں پس و پیش کرے گا تو دنیا و آخرت میں روسیاہ ہوگا۔
پھر تین مرتبہ قسم اٹھا کر کہا: ''یہ حقیقت ہے۔ اگر میں نے جھوٹ بیان کیا ہوتو کافر ہوکر مروں۔ جو اس کی تدیق کرے گا آگ کے عذاب سے نجات پائے اور جو اسے جھٹلائے گا وہ کافر ہوکر مرے گا۔''
وصیت نامہ کی تردید: یہ اس جھوٹے وصیت نامے کا خلاصہ ہے جو اُس نے رسول اکرم ﷺ کے متعلق جھوٹ باندھا ہے۔ میں اس جھوٹے وصیت نامے کو کئی سال سے متعدد مرتبہ سن چکا ہوں۔ اسے لوگوں میں کثرت سے پھیلایا جارہا ہے اور وقتاً فوقتاً اس کی نشرواشاعت کی جارہی ہے اور دن بدن لوگوں میں کثرت سے رواج پارہا ہے۔ اس کے الفاظ مختلف اوقات میں مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا کاتب کہتا ہےکہ اس نے آنحضرتﷺ کی خواب میں زیارت کی اور حضور اکرمﷺ نے اُسے یہ وصیت نامہ عطا کیا:اے قاری! آخری اشتہار میں ..... کا ہم نے تمہارے سامنے ذکر کیا ہے! جھوٹ باندھنے والے نے کہا کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس کی زیارت سے اس وقت مشرف ہوا جب کہ وہ سونے کی تیاری کررہا تھا۔ ابھی تک بستر خواب پر لیٹا نہیں تھا تو اس کا صاف واضح مطلب یہ ہے کہ اس نے بیداری کی حالت میں حضور اقدسﷺ کی زیارت کاشرف حاصل کیا۔ اس وصیت نامہ میں مفتری نے چند ایسی باتیں ذکر کی ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور مکروفریب کا پلندہ ہے۔ اس مضمون میں، میں ابھی کو اس حقیقت سے آگاہ کروں گا۔ میں نے گذشتہ سالوں میں لوگوں کو اس کی حقیقت سےآگاہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ یہ سفید جھوٹ ہے بلکہ جھوٹوں کا پلندہ ہے۔ اس کی کچھ حقیقت اور اصلیت نہیں۔ یہ بالکل بے بنیاد او رغلط ہے۔
جب میں نے آخری اشتہار پڑھا تو اس کی تردید میں کچھ لکھنا بے سُود تصور کیا کیونکہ اس کے جھوٹ ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا اور اس کے لکھنے والے کے متعلق مفتری ہونے میں کوئی شک نہیں رہا۔ میرا خیال تھا کہ جو شخص معمولی سوجھ بوجھ کا مالک ہوگا یافطرت سلیمہ اسے ودیعت کی گئی ہوگی اس پراس وصیت نامے کاقطعاً کچھ اثر نہ ہوگا۔مگر بعض احباب نے مجھے بتایا کہ یہ لوگوں میں کثرت سے رواج پاچکا ہے۔ اس کی لوگوں میں بہت شہرت او رچرچا ہوچکا ہے اور وہ اسے درست اور سچ تصور کرتے ہیں۔
وصیت نامہ کے تردیدی دلائل : بدیں وجہ مجھ پر اور میرے جیسے دیگر اہل علم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہاس کی تردید میں مضامین لکھیں اور لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ یہ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پرجھوٹ باندھا گیا ہے تاکہ عوام الناس میں کسی کو دھوکا نہ ہو۔ جو شخص صاحب علم اور صاحب ایمان ہے یافطرت سلیمہ اور عقلیم صحیح کا مالک ہے جب اس پر غور کرے گاتو اُسے واضح ہوجائےگا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور افتراء ہے، اس کے جھوٹ ہونے پر کئی دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
دلیل نمبر1 : میں نے شیخ احمد کے بعض اقرباء اور رشتہ داروں سے، اس جھوٹ کے متعلق جس کا نام وصیت نامہ ہے، دریافت کیاتو انہوں نےجواب دیا کہ یہ شیخ احمد پر سراسر جھوٹ اور افتراء ہے۔ انہوں نے ایسی کوئی بات ہرگز نہیں کی۔ اگر بالفرض ہم یہ تسلیم کرلیں کہ شیخ احمد یا اُن کےکسی او ربڑے بزرگ نے رسول اکرمﷺ کی خواب میں زیارت کی یا بیداری کی حالت میں آنحضرتﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور آپؐ نے اُن کووصیت فرمائی کہ ہم بلا تردد اور بغیرکسی شک و شبہ کے کہیں گے کہ وہ جھوٹا ہے یا جس نے اُسے وصیت کی ہے وہ شیطان ہے۔ وہ رسول اکرمﷺ کی ذات گرامی ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اُن میں سے بعض درج ذیل ہیں|:
بیداری میں رسول کریمﷺ کی زیارت : 1۔ اس عالم آب و گِل سے آنحضرت ﷺ کے رحلت فرمانے کے بعد کسی شخص نے رسول کریمﷺ کی بیداری کی حالت میں زیارت نہیں کی اور نہ کوئی کرسکتا ہے جو جاہل صوفی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے بیداری کی حالت میں رسول اکرمﷺ کی زیارت کی یا نبی اکرم ﷺ محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں یا اس جیسا عقیدہ رکھتا ہے تووہ غلط ہے بلکہ نہایت غلط ہے اور یہ انتہائی تلبیس او ردین میں کئی نئے امور کا خلط ملط کرنا ہے۔ ایسے شخص نے بہت بڑی غلطی کی۔ اس نے کتاب و سنت او راہل علم کے اجماع کی مخالفت کی کیونکہ مُردے قیامت کے روز اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔ اس کےبرعکس دنیا میں مُردے ہرگز نہیں اٹھیں گے جیسے اللہ وجل فرماتا ہے:
ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (المؤمنون)
''پھر (اس دنیاوی زندگی کے بعد) تم فوت ہوجاؤ گے ۔بعدازاں قیامت کے روز تم کو اٹھایا جائے گا۔''
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ مُردے قیامت کے روز قبروں سے اُٹھیں گے۔ اس سے پیشتر دنیا میں اُن کو نہیں اٹھایا جائے گا جوشخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ صریحاً جھوٹا ہے اس کاجھوٹ بالکل عیاں ہے یا یوں کہیئے کہ اس نے یہ بات بالکل غلط کہی ہے کیونکہ وہ حق کی پہچان نہیں کرسکا بلکہ اُسے دھوکا ہوگیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے تابعین اور آپ صالحین نے حق کو پہنچانا تھا۔ اس لیے ان کی اقتداء اور پیروی میں جادہ حق دکھلائی دیتا ہے۔
وصیت نامہ خلاف شریعت ہے: 2۔ نبی اکرم ﷺ خواہ بقیدحیات ہوں یا روح جسد عنصری سے پرواز کرچکا ہو۔ کسی صورت میں خلاف حق بات نہیں کہہ سکتے۔ یہ وصیت نامہ آنحضرتﷺ کی شریعت کے سراسر خلاف ہے۔ یہ ظاہر طور پر شریعت کےخلاف نظر آرہا ہے۔ اس کی چند ایک وجوہات ہیں:
اس کا راوی مجہول الحال ہے: ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ کی زیارت خواب میں ممکن ہے او ریہ ماننے میں بھی ہم کودریغ نہیں کہ جس نے آنحضرتﷺ کی آپؐ کی اصلی شکل و شباہت میں زیارت کی تو وہ آپ کی زیارت سے مشرف ہوا لیکن یہ سب کچھ ایمان کی پختگی اور تصدیق پر منحصر ہے او راس کی عدالت ، ضبط اور دیانت و امانت پر منحصر ہے۔ پھر کیا اس نے آنحضرتﷺ کو اُن کی اصلی شکل وشباہت میں دیکھا یا کسی اور شکل میں دیکھا۔ اگر نبی اکرمﷺ سے کوئی حدیث مذکور ہو اور اس کے بیان کرنے والا ثقہ نہ ہو، غیرعادل ہو۔ اس کا حافظہ خراب ہو اور قابل اعتماد نہ ہو اور قابل حجت نہ ہو۔ یا ثقہ راویوں سےمروی ہو لیکن اس شخص کی روایت کےخلاف ہو جس کا حافظہ اس سےقوی ہو اور زیادہ ثقہ ہو اور دونوں روایات میں موافقت کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو دونوں میں سے ایک کو منسوخ قرار دیا جائے گا اور اس پرعمل نہیں کیاجائےگا اور دوسری روایت کو ناسخ قرار دیں گے اور وہ قابل عمل ہوگی۔بشرطیکہ اس میں ناسخ کی تمام شرائط موجود ہو۔ جب یہ طریقہ کارگر نہ ہو او راس کا امکان نہ ہواور نہ ہی دونوں روایات کو جمع کرنے کی کوئی صورت نظر آئے تو ایسی صورت میں اس شخص کی روایت جس کا حافظہ کمزور ہو یااس کی عدالت مشکوک ہو، کو ترک کیا جائے گا۔اس پر شاذ کا حکم ہوگا اور اس پر عمل نہیں ہوگا۔
جب ایک روایت پرعمل کرنے کے معاملہ میں یہ حال ہے تو آنحضرتﷺ کی وصیت کے متعلق کیا حکم ہوگا۔ جس کے بیان کرنے والے کاکوئی علم نہیں کہ اس نے یہ کس سے نقل کیا او رجس کی عدالت و امانت سے ہم واقف نہیں تو یہ وصیت نامہ اور اس جیسی دیگر تحریرات کے متعلق یہی حکم ہے کہ اسے پس پشت ڈال دیا جائے اور اس کی طرف مطلقاً توجہ نہ کی جائے خواہ اس میں شریعت کے خلاف کوئی شے نہ ہو۔ اب اس وصیت نامے کا کیا حال ہوگا جس میں کئی ایسی باتیں مذکور ہوں جو باطل اور خلاف شریعت ہوں اور آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی پرجھوٹ ہوں اور ایسی باتوں پر متضمن ہو جو دین کے لیے شریعت کا حکم رکھتی ہوں۔ حالانکہ ایسے امور کا اللہ نے حکم نہیں فرمایا۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من کذب علي مالم أقل فلیتبوء مقعده من النار
''جس شخص نے میری طرف ایسی باتیں منسوب کیں جو میں نے نہیں کیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔''
وصیت نامہ کے راوی کو توبہ کرنی چاہیے: اس وصیت نامہ کےمفتری نے رسول کریم ﷺ کے متعلق کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جن کا آپؐ نے قطعاً ذکرنہیں فرمایا۔ بلکہ اس نے آپؐ پر سراسر جھوٹ باندھا ہے۔ اگر ایسا شخص توبہ نہ کرے اور لوگوں میں یہ اعلان نہ کرے کہ میں نے رسول خدا ﷺ پر جھوٹ باندھا ہے تو اس وعید کا مستحق ہے کیونکہ جو شخص لوگوں میں جھوٹ او رغلط باتوں کا پروپیگنڈہ کرتا ہے اور ان باتوں کو دین کا جزو تصور کرتا ہے تو ایسے شخص کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی حتیٰ کہ وہ توبہ کرے اور لوگوں کے سامنے اعلان کرے تاکہ ان کو علم ہوجائے کہ اس نے اس جھوٹ سے رجوع کرلیا ہے او راس کے وجود نے اس کی تکذیب کی ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (159) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرہ)
''جو لوگ ہماری واضح نشانیاں او رہدایت کو چھپاتے ہیں (اور لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں) حالانکہ ہم نے کتاب (قرآن مجید) میں واضح بیان کیاہے۔ ایسے لوگوں پر اللہ کی او رلعنت کرنے والوں کی لعنت ہے ۔ ہاں البتہ (اس لعنت کے مصداق وہ لوگ نہیں ہوں گے) جنہوں نے توبہ کرلی او رانے اعمال کی درستی کرلی۔ پھر (لوگوں کے سامنے) اپنے عقیدہ اور اعمال کی وضاحت کی ۔ ایسے لوگوں کی میں توبہ قبول کرتا ہوں میں تو بہت ہی توبہ قبول کرنے والا ہوں او ربہت مہربان ہوں|۔''
ان آیات کریمہ میں اللہ عزوجل نے اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو شخص (اپنے کسی ذاتی مفاد عاجلہ کی خاطر) حق کو چھپاتا ہے او رلوگوں کے سامنے بیان کرنے سے گریز کرتا ہے او رمصلحت وقت کی آڑ لیتا ہے تو ایسے شخص کی توبہ قبول نہ ہوگی تاوقتیکہ اپنے عقیدہ اور عمل کی اصلاح نہ کرے یعنی لوگوں کے سامنے حق بیان کرے تو اس کی توبہ کو اللہ تعالیٰ شرف قبولیت بخشے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل کردیا او راپنی نعمت کی تکمیل کردی یعنی ان میں رسول اکرم ﷺ کومبعوث فرمایا اور |آپؐ پر شریعت کاملہ کے احکام نازل فرمائے۔ جب تک شریعت کی تکمیل نہ ہوئی اور شریعت کے احکام کی پوری پوری وضاحت نہیں ہوئی آنحضرت ﷺ کا روح مبارک جسد عنصری سے جدا نہیں ہوا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي(المائدہ)
''آج میں نے تمہارے لیے دین مکمل کردیا ہے اور تم پراپنی نعمت (قرآن کریم) کو پورا کردیا ہے۔''
وصیت نامہ کا مقصد دین میں من گھڑت باتیں شامل کرنا ہے: اس وصیت نامے کا مفتری چودہویں صدی ہجری میں ہوا ہے اس نے چاہا کہ دین اسلام میں کچھ نئی باتیں ملا کر دین کو خلط ملط کردے اور ان کے لیے ایک نیا دین مشروع قرار دے جس جنت کا انحصار ہو جو اس کی پابندی کرے وہ جنت کامستحق ہو اور جو اس کی پابندیوں سے روگردانی کرے اس کا جنت میں داخلہ بند ہو اور اس کاٹھکانہ دوزخ ہو۔نیز اس کی یہ خواہش ہے کہ اس وصیت نامہ کو جو اس نے خود جھوٹا اختراع کیاہے۔ قرآن پاک سے افضل تصور کرے (نعوذ باللہ من ذالک) کیونکہ اس نے اس میں جھوٹ باندھا ہے کہ جواسے لکھ کر ایک شہر سے دوسرے شہر میں یا ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچائے گا۔ اس کے لیے جنت میں اعلیٰ قسم کا محل تیار ہوگا اور جو اسے نہیں لکھے گا اور دوسرے شہروں میں بھیجنے سے گریز کرے گا تو قیامت کے روز اس پر رسول اکرم ﷺ کی شفاعت حرام ہوگی۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اس وصیت نامہ کے جھوٹے ہونے پر کافی دلائل موجود ہیں۔ اس وصیت نامہ کو بنانے والا بڑا بے شرم او ربے حیا او رجھوٹ بنانے پر بڑا دلیر ہے۔
یہ فضیلت قرآن پاک لکھنے سے بھی حاصل نہیں ہوتی: اس لیے کہ جو شخص تمام قرآن کریم لکھ کر ایک شہر سے دوسرے شہر میں بھیجتا ہے یا ایک مقام سےدوسرے مقام پر پہنچاتا ہے تو اس کے لیے یہ فضیلت حاصل نہیں جبکہ وہ قرآن پاک پرعمل نہ کرے۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس جھوٹ کو لکھنے والااور ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھیجنے والا ثواب حاصل کرے اور جو شخص قرآن پاک نہیں لکھتا اور اسے ایک شہر سے دوسرے شہر میں نہیں بھیجتا۔ وہ رسول اکرم ﷺ کی شفاعت سے محروم نہیں ہوگا۔ بشرطیکہ وہ مومن ہو او رآنحضرتﷺ کا پیروکار ہو۔ یہ ایک ہی جھوٹ جو اس وصیت نامے میں مذکور ہے اس کے باطل اور غلط ہونے کے لیے کافی دلیل ہے او راس کے ناشر کے جھوٹا ہونا کا واضح ثبوت ہے او راس کی بے شرمی او ربے حیائی اور کور چشمی کا کافی دلیل ہے اور رسول کریم ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت سے عدم واقفیت کا بین ثبوت ہیں۔ خواہ اس وصیت نامہ کو بنانے والے ہزار قسمیں کھائے یا اس سے بھی زیادہ قسمیں کھائے اور کہے یہ وصیت نامہ درست ہے او رحقیقت ہے۔ خواہ وہ دعویٰ کرے کہ اگر میں اس وصیت نامہ کے معاملہ میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر قہر الہٰی نازل ہو اور میں کسی عذاب الہٰی میں مبتلا ہوجاؤں۔ پھر بھی ہم (اس کی بات کا اعتبار نہیں کریں گے اور ) اس کو جھوٹا کہیں گے اور اس وصیت نامہ پر مہر صداقت ثبت نہیں کریں گے بلکہ ہم خداوند قدوس کی بار بار قسم کھاکر کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور غلط بات ہے۔ ہم اس بات پر اللہ کو گواہ کرتے ہیں او رجو فرشتے ہمارے پاس موجود ہیں اور جو مسلمان اس پر اطلاع پائیں سب کو گواہ کرتے ہیں کہ ہم جب اللہ پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو یہ گواہی دیں گے۔ الہٰی! یہ وصیت نامہ سراسر جھوٹ او رباطل ہے اور رسول خدا ﷺ کی ذات گرامی پربہتان تراشی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل وخوار کرے جس نے یہ جھوٹ باندھا اور جس سزا کا وہ مستحق ہے وہ اسے دے۔
اللہ کے سوا کوئی غیب دان نہیں
دلیل نمبر2: جو کچھ اوپر ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ اس کے باطل ہونے او رجھوٹ ہونے پر کئی دلائل مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار اش|خاص کافر ہوکر مرتے ہیں۔ یہ علم غیب کی بات ہے۔ آنحضرتﷺ کے دنیا سے رحلت فرمانے کےبعد سلسلہ وحی منقطع ہوگیا۔ جب حضور اکرم ﷺ کا روح مبارک آپؐ کے جسد اطہر میں مقید تھا اس وقت آپؐ غیب کی صفت سے متصف نہیں تھے تو جسد اطہر سے روح پاک کے پرواز کرجانے کے بعد آپ عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں اور اپنی امت کے حالات سے کیسے باخبر ہوسکتے ہیں؟ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ(..؟؟؟)
''اے نبی کریم ﷺ لوگوں کو بتا دو کہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی غیب دانی کا دعویٰ ہے۔''
ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ(الفرقان)
''(لوگوں کو ) بتا دو کہ اس کائنات ارض و سماری میں اللہ عزوجل کے ماسوا کوئی غیب دان نہیں۔''
ایک حدیث شریف میں مذکور ہے ۔ آنحضرت ﷺ بیان فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا روز ہوگا تو کچھ لوگوں کو میرے حوض کوثر سے دور ہٹا دیا جائے گا۔ میں جب ان کی یہ حالت دیکھوں گا تو (فرشتوں سے)کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابی ہیں( فرشتے)مجھے جواب دیں گے کہ آپ کو علم نہیں کہ ان لوگوں نے آپ کے رحلت فرمانے کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں۔تب میں نیک بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کہوں گا کہ جب تک میں ان میں رہا ہوں تو میں گواہ تھا جب تیرا پیغام اجل پہنچ گیا تو پھر تیری ہی نگہبانی تھی اور تو ہرشے پر قادر ہے۔
کشائش، رزق قرض کی ادائیگی ، گناہوں کی معافی ، اس پر مشروط نہیں
دلیل نمبر 3: اس وصیت نامہ میں مذکور ہے کہ جو اسے لکھے گا اگر وہ فقیر ہے تو اللہ تعالیٰ اسے غنی کردے گا ۔ اگر وہ گنہگار ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردے گا اور اس وصیت نامہ کے بدلے اس کے والدین کو بخش دے گا......... الی آخرہ۔
یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور مفتری کے جھوٹ کا پول کھولنے کی واضح دلیل ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس کے شرم و حیا کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ او راس کے بندوں سے ہرگز شرم نہیں آتی کیونکہ یہ تینوں امور جن کا اوپر ذکر ہوا ہے قرآن پاک کی کتابت سے بھی حاصل نہیں ہوتے پھر اس وصیت نامہ کے لکھنے سے کیسے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ ظاہر بات یہ ہے کہ یہ خبیث دین میں گڑ بڑ پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش ہے کہ لوگوں کی توجہ اس طرف ہو اور اس کی فضیلت پر انحصار کریں اور ان اسباب کو ترک کردیں جو اللہ عزوجل نےاپنےبندوں کے لیے مشروع قرار دیے ہیں اور جن اسباب کو غناء قرض کی ادائیگی او رگناہوں کی معافی کا سبب بتایا ہے ان سے رو گردان کریں۔ ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ہم ذلت و رسوائی کے اسباب اختیار کریں اور خواہشات نفسانی اور شیطان کی پیروی کریں۔
اس کا نہ لکھنا ذلّت کا باعث کیسے ہوسکتا ہے
دلیل نمبر 4: جوشخص اسے نہیں لکھے گا وہ دنیا اور آخرت میں روسیاہ ہوگا اور ذلیل و خوار ہوگا۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے او راس وصیت نامہ کے باطل ہونے اور جھوٹ بتانے والے کے کذب پربہت بڑی دلیل ہے ۔ ایک خرد مند اسے کیسےتسلیم کرسکتا ہے جسے چودہویں صدی میں ایک شخص نے ایجاد کیا ہو جو مجہول الحال ہو۔ جو رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر جھوٹ باندھتا اور کہتا ہے کہ جو شخص اسےنہیں لکھے گا وہ دنیا اور آخرت میں روسیاہ ہوگا۔ جو اسے لکھے گا اگر وہ فقیر ہے تو وہ غنی ہوجائے گا اور اس کا دین سلامت رہے گا او راس نے جو گناہ کئے ہیں سب معاف کردیئے جائیں گے۔ سبحانک ھٰذا بھتان عظیم۔
دلائل اور واقعہ دونوں اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ کسی مفتری نے جوھٹ باندھا ہے اور ایسا کرنے پر بڑی جرأت ہوئی ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ اور ا س کے بندوں سے ذرہ بھر شرم نہیں آتی۔ بے شمار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہ وصیت نامہ نہیں لکھا۔ اس کے باوجود ان کے چہرے سیاہ نہیں ہوئے او رلاکھوں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے سینکڑون دفعہ لکھا اس کے باوجود کاقرض رفع نہیں ہوا۔اور ان کی فقیری اور تنگدستی نے ان کا دامن نہ چھوڑا۔ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ٹیڑھا پن پیدانہ ہوجائے اور گناہوں سے زنگ آلود نہ ہوجائیں۔ یہ جزا شریعت نے بھی اس شخص کے لیے مقرر نہیں کی جس نے اس سے افضل اور اعظم کتاب یعنی قرآن مجید کو لکھا تو اس سے کم درجہ کی شے یعنی وصیت نامہ کے لکھنے سے جو سراسر جھوٹ کا پلندہ اور غلط باتوں پرمشتمل ہے ، کیسے ہوسکتی ہے۔اس کے کئی جملے کفریہ ہیں۔ خداوند تعالیٰ کس قدر رحیم اور بُردباد ہے کہ اس جھوٹ بتانے والے پردلیری کرنے والے کی باز پرس نہیں کرتا۔
اس کی تکذیب کُفر کیوں کر ہوسکتی ہے
دلیل نمبر 5: جو شخص اس کی تصدیق کرے گا وہ آگ سے نجات پائے اور جو اسے جھٹلائے گا وہ کافر ہوجائے گا۔ یہ بھی بڑی دلیری سے اس نے جھوٹ بنایا ہے او رسراسر غلط بات ہے ۔ یہ مفتری لوگوں کوکہتا ہے کہ میرے جھوٹ کی تصدیق کرو ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ان کے لیے آگ کے عذاب سے رہائی کا باعث ہوگا۔ خدا کی قسم یہ بہت بڑا کذب ہے۔ اس نے اللہ پرجھوٹ باندھا ہے۔ اس نے یہ بالکل غلط بات کہی ہے۔اس لیے میں تو کہتا ہوں کہ جو شخص اس کی تصدیق کرے گا وہ کفر کا مستحق ہوگا اور جو اسے جھٹلائے گا وہ کافر نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ سراسر جھوٹ او رغلط بات ہے اس کی بنیاد ہی غلط ہے ہم اللہ کو گاہ کرکے کہتے ہیں کہ یہ صاف جھوٹ ہے اور اس کا بنانے والاجھوٹا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے لیے ایسے شریعت پیش کرے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔وہ دین میں ایسی باتیں داخل کرنا چاہتا ہے جو دین میں داخل نہیں۔ خدا کی قسم دین کی تکمیل ہوچکی ہے ۔ اس جھوٹ سے چودہ سوسال پہلے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے دین کو پورا کردیا۔
جھوٹے شخص کی قسم قابل اعتبار نہیں: اے پڑھنے والے بھائیو! خبردار! اس قسم کی جھوٹی باتوں کی تصدیق مت کرو۔ ایسی باتیں تم میں رواج نہ پائیں۔ کیونکہ حق ایک روشنی ہے تلاش کرنے والے کو اس میں شبہ نہیں پڑتا۔ مگر حق کو دلیل کے ساتھ تلاش کرو اور جو دقت پیش آئے اس کےمتعلق اہل علم کی طرف رجوع کرو۔ ابلیس لعین نے تمہارے والدین (حضرت آدم علیہ السلام او رحضرت حواء علیہ السلام) کو دھوکا دیا تھا اور قسمیں بھی کھاتار ہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔اس سے بچ جاؤ۔میں بار دگر کہتا ہوں کہ اس سے اور اس کے تابعداروں سے جو جھوٹ باندھتے ہیں! بچ جاؤ۔ وہ اور اس کے پیرو کار کتنی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں او رکتنے معاہدے توڑتے ہیں۔لوگوں کو گمراہ او رپھسلانے کے لیے کتنے دلکش اور خوشنما اقوال پیش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو شیطانوں کی شر سے اور گمراہ کرنےوالے فتنوں اورٹیڑھا کرنے والوں کے ٹیڑھا پن سے بچائے اور اللہ کےدشمنوں کی تلبیس او رمکرو فریب کے جال سے محفوظ رکھے۔ یہ لوگ اللہ کے نور (دین اسلام) کو اپنے موہنوں سے(پھونکیں مار مارکر) بجھانے کی کوشش کرتے ہیں او ردین کو خلط ملط کرنا چاہتے ہیں (لیکن ان کی ایک نہیں چلتی)کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو پورا کرنے والا ہے او راپنے دین کا مددگار ہے۔ خواہ اللہ کےدشمن یعنی شیطان اور اس کے تابعدار کفار او رملحد لوگ اسے بُرا مانیں۔
بُرائی کو روکنے کے لیےکتاب و سنت کافی ہیں: جہاں تک بُرائیوں کے عام ہونے کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ یہ بات درست ہے ۔ قرآن کریم اور سنت مطہرہ نےمنکرات اور فواحش سے بہت ڈرایا دھمکایا ہے۔ اندونوں (قرآن کریم اور سنت نبوی) کی پیروی میں ہدایت ہے اور ہدایت کے لیے یہ دونوں کافی ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سوال کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرماوے او رحق کی پیروی کرنے کی توفیق بخشے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک احسان عظیم ہےکہ حق پر پختہ رہنےکی توفیق بخشے۔ ہم اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ ہماری توبہ قبول فرمائے اور گناہون اور لغزشوں سےچشم پوشی فرمائے۔وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
قیامت کی علامت کاذکر: رہی یہ بات کہ اس میں قیامت کی علامات اور شرائط کا ذکر ہے تو اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ نے حدیثوں میں علامات قیامت کا مفصل ذکر فرمایا ہے ۔ قرآن کریم نے بھی بعض شرائط اور علامات کاذکر کیاہے ۔جوشخص ان سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ کتب سنن میں مناسب مقام پر ان کاذکر پائے گا۔علاوہ ازیں اہل علم اور اہل ایمان کی مؤلفات میں بھی ان کاذکر موجوو ہے۔ لوگوں کو اس مفتری کی طرف رجوع کرنےکی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے حق و باطل کو ملا دیاہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ اچھاکارساز ہے۔ اللہ کی مدد کےبغیر ہم نہ گناہ سے بچنے کی ہمت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کی نصرت و یاری کے بغیر نیکی کرنے کی توفیق ہے۔
والحمد للہ رب العلٰمین و صلی اللہ وآلہ وسلم علی عبدہ و رسوله الصادق الامین وعلیٰ اله و أصحابه و أتباعه بإحسان إلی یوم الدین۔