عربی شاعری پر کچھ لکھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مطلق شاعری کے متعلق ضروری امور درج کردیئے جائیں۔
شاعری پر سب سے پہلی تالیف: غالباً ارسطو ہی نے سب سے پہلے ''شاعری'' پر ایک کتاب ''بوطیقا'' تصنیف کی ہے۔جس کی تلخیص ابن رُشد نے کی ہے اور اس کے کچھ حصے شیخو لویس نے اپنی کتاب علم الادب میں شامل کیے ہیں۔
تعریف: عام طو رپر شاعری کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایسے کلام موزوں کا نام ہے جو بالارادۃ موزوں کیا گیا ہو۔ ابن رشیق نے بھی اپنی کتاب ''العمدہ'' میں تعریف کی تائید کی ہے لیکن اکثر ادباء وزن اور قافیہ کو شعر کے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔
جان اسٹورٹ مل کہتا ہے کہ جذبات کو برانگیختہ کرنے والی چیز شاعری ہے۔ اس کے خیال کے مطابق تصویر تقریر و وعظ شعر میں داخل ہوجاتے ہیں، اس لیے شاعری کو اس طرح محدود کیاجاتا ہے کہ شاعری میں شاعر صرف اپنے آپ سے خطب کرتا ہے اور تقریر وعظ وغیرہ میں مخاطب حاضرین ہوتے ہیں۔
ارسطو کے نزدیک شاعری ایک قسم کی مصوری یا نقالی ہے۔ فرق یہ ہے کہ مصور صرف مادی اشیاء کی تصویر کھینچتا ہے اور شاعر جذبات و احساسات کی تصویر پیش کرتا ہے۔
مولوی حمیدالدین صاحب نے جمہرۃ البلاغۃ میں لکھا ہے کہ شاعر کے لفظی معنی ذی شعور اور احساسات رکھنے والے کے ہیں۔ مختلف جذبات کی وجہ سے انسان مختلف حرکتیں کرتا ہے، کبھی ہنستا ہے، کبھی روتا ہے او رکبھی موزوں الفاظ سےاپنے تاثرات ظاہرکرتا ہے۔
شاعری اور فلسفہ کا فرق: افلاطون نے ''فلسفی'' کوشاعر کہا ہے، افلاطون فیلسوف ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کا فلسفیانہ نظام خود ایک آرٹ ہے ۔ بلکہ وہ آرٹ سے بھی ماوراء ہے اور شاعر ایک تکوینی ذہن رکھتا ہے ، وہ فطرت اور واقعات دہر سے متاثر ہوکر دل کی بھڑاس نکالنا شروع کردیتا ہے وہ کسی کے سمجھانے کے لیے نہیں بلکہ خود سمجھ کر شیخ اٹھتا ہے ؎
پھوٹ پڑتے ہیں تماشا اس چمن کا دیکھ کر
نالہ بے اختیار، بلبل نالاں ہیں ہم
حقیقی او ربلند پایہ شاعر فیلسوف ہوتاہے یوں تو بقول شوپن ہائر (Shopen haur)کے ہر انسان مابعد الطبیعاتی حیوان ہے لیکن نہ ہر انسان شاعر ہے اور نہ ہر شاعر فلسفی۔
وہ شاعر جو نظم نگاری ہی کی حد تک محدود نہیں بلکہ جس پر اسرار کائنات خود بخود منکسف ہوتے ہیں جو بنایا نہیں جاتا بلکہ پیدا ہوتا ہے وہ اپنے اندر کائنات کےمتعلق حقیقت بینی کی وہی صفت رکھتا ہے جوایک فلسفی کا حصہ ہوتا ہے۔ ٹے فی سن نے ایک پھول دیکھ کر کہا تھا کہ اگر کوئی اس کو پورا طرح سمجھ لے تو وہ خدا، اپنی ذات او رکائنات کی ماہیت سے واقف ہوجائے گا۔ ''ہر ورق دفتر یست معرفت کردگار'' ابونواس کہتا ہے کہ وکل شئ لہ ایۃ۔ تدل علی انہ واحد۔
فلسفہ دراصل ہمہ گیر توجیہ یا دوسرے الفاظ میں حسب امکان بشری حقائق کائنات کے معلوم کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ فلسفی انتہائی علل و اسباب معلوم کرنے کرتا ہے اس کو ایک مسلسل جستجو رہتی ہے ۔ وہ عالم طبعی (مادیات ) حیات ، ذہن ، سماج، حکمت اور اقدار کے وسیع موضوع میں کام کرتا ہے ۔ یقیناً فیلسوف کا کام بہ نسبت شاعر کے بہت زیادہ ہے۔ (اقبال)
جہاں داری سے ہے مشکل ترکار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
فلسفی حقائق کو خشک پیرایہ میں بیان کرتا ہے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اگر حقائق کو ایسے دلچسپ او رجذبات کے ابھارنے والے پیرایہ میں بیان کرنا ہو تو شاعری کی ضرورت ہوتی ہے۔
شاعری کے امتیازات
1 ۔ شاعر کسی کے سمجھانے کے لیے نہیں چلاتا بلکہ خود سمجھ کر چیختا ہے۔
2۔ شاعر ، فلسفی یا مؤرخ کی طرح چیز کے ہر پہلو کو دیکھ کر مستقل رائے قائم کرنے کا ذمہ دار نہیں اس لیے ممکن ہے کہ شاعر ایک چیز کی تعریف کرے اور اس کی مذمت بھی او رممکن ہے کہ وہ ایک اچھی چیز کی مذمت کرے اور بُری چیز کی تعریف۔ الغرض شاعر کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر چیز کو من حیث الحقیقہً حسب الواقع پیش کرے۔
''بخار'' کی حقیقت طبیب کے نزدیک عفونتی یاجراثیمی اثر کا نتیجہ ہے جس سے بدن کی حرارت بڑھ جاتی ہے اور لرزہ پھریری شرو ع ہوتے ہیں اور جب اس کی نوبت ختم ہوجاتی ہے تو پسینہ آتا ہے ۔ لیکن شاعر و متنبی کہتا ہے۔
وزائرتي کان بھا حیاء ........ فلیس تزور إلافي الظلام
بذلت لھا المطارف والحشایا ........ فعا فتھا و باتت في عظامي
یضی الجلد عن نفسي و عنھا ........ فتو سعه بأنواع أسقام
اراقب وقتھا من غیر شوق ........ مراقيه المشوق المستھام
ویصدق وعدھا و الصدق شر ........ إذا ألقاك في الکوب العظام
أبنت الدھر عندي کلبنت ........ فکیف و صلت أنت من الزھام
(ترجمہ) ''ایک میری ملاقات کرن ےوالی ہے جو بوجہ حیا وشرم کے صرف شب ہی کو تشریف لاتی ہے۔ اس کے لیے میں تو شک (چادر وغیرہ) پیش کرتا ہوں تو وہ اس کو ناپسند کرتی ہے اور میری ہڈیوں میں شب گزارتی میری جلد میں میری جان او راس ملاقاتی کے لیے گنجائش نہیں ہے اس لیے وہ قسم قسم کی بیماریوں سے میرے جسم کو گھلاتی اور جلد کو وسیع کرتی ہے مجھے اس کے وقت کا عاشق مشتاق کی طرح انتظار رہتا ہے لیکن رغبت سے نہیں وہ وعدہ کی سچی ہے او رایسی سچائی سے توبہ ہی بھلی جس سے آدمی مصیبتوں میں مبتلا ہوجائے۔ اے زمانہ کی صاحبسادی زمانہ کی تمام بیٹیاں (مصائب) میرے پاس موجود ہیں بلکہ مجھے تعجب ہے ان بیٹیوں کے اژدھام میں سے آپ کو میرے تک رسائی کا راستہ کیسے مل گیا۔''
اگر ایک آدمی کو قتل کیا یا سولی پر لٹکایا دیاجائے تو یہ منظر کس قد ربھیانک ہوگا لیکن ابوالحسن انباری المتوفی 328ھ آج سے ایک ہزار سال پہلے وزیر ابوطاہر کا مرثیہ کہتا ہے جس کو عضد الدولہ نے قتل کروا کے سولی کا حکم دیا تھا او راس کریہہ منظر کی تعریف کرتا ہے۔کہتے ہیں کہ اس قیصدہ کو سن کر عضدالدولہ رشک کرنے لگا کہ کاشی مجھے سولی دی جاتی اور یہ مرثیہ میری ہی شان میں ہوتا۔
علو في الحیاة وفي الممات ........ لحق أنت إحدی المعجزات
کان الناس حولك إذا قاموا ........ وفود نداك أیام الصلات
کأنك قائم فیھم خطیبا ........ وکلھم قیام للصلوة
مددت یدیك نحوھم احتفاء ........ کمدهم إلیھم بالھبات
ولما ضاق بطن الأرض عن أن........ یضم علاك من بعد الممات
أصادوا لجو قبرك و استعاضو ........ عن الاکفان ثوب الأفیات
لعظمك في النفوس تبیت ترعی ........ بحراس وحفاظ ثقات
ولو قد حولك النیران قدما ........ کذلك کنت أیاما الحیاة
رکبت مطیة من قبل زید ........ علاھا في السنین الماضیات
وتلك قضیة فیھا تأس ........تباعد عنك تعییر العداة
ولم أرقبل جذعك قبل جدعا ........ تمکن من عناق المکومات
أسات علی النوائب فاستثارت ........ فأنت قتیل ثأرالنائبات
علیك تحیة الرحمٰن تتری ........ برحمات غواد رائحات
(ترجمہ) ''زندگی میں بھی بلندی او رمرنے کے بعد بھی بلند ، واقعی تو ایک زبردست معجزہ ہے۔ گویا کہ لوگ تیرے اطراف تیرے عطیوں کے حاصل کرنے والی جماعتیں جو ایام تقسیم میں جمع ہوتی تھی۔ ایسامعلوم ہوتا ہےکہ تو کھڑے ہوکر خطبہ پڑھ رہا ہے او رسب لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ تو نے ان کی طرف اپنے ہاتھ ایسے پھیلائے ہیں جیسے کہ بخشش دیتے وقت پھیلاتا تھا۔ چونکہ آغوش زمین تیری وسیع بلندیوں کے لیے تنگ ہے تیرے لیے فضا کو قبر بنانا پڑا او ربجائے کپڑوں کے چلنے والی بیکراں ہواؤں کو کفن بنایا گیا ۔ تیرے اطراف تیری شان و شوکت کے خاطر ایک محافظین کی معتبر جماعت معین کی گئی او رجس طرح ایام زندگی میں مہمان نوازی کی آگ جلائی جاتی تھی، تیرے اطراف آج بھی آگ جلائی گئی ہے، تو اس سواری پر سوار ہوا جس پر گزشتہ سالوں میں حضرت زید بن علی جیسی مقدس ہستی بلند ہوچکی ہے او ریہ ایک ایسی مثال ہے کہ جس کے بعد نکتہ چینیوں کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہتا ، میں نے آج سے پہلے کسی درخت کے تنے کو مجسم شرافتوں سے معانقہ کرتے نہیں دیکھا۔ تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام اور رحمت کے صبح و شام برسنے والے ابر برستے رہیں۔''
زمین کا زلزلہ یابھونچال کتنی خوفناک چیز ہوا کرتی ہے ۔ لیکن شاعر کے تخیل میں اپنے ممدوح کے عدل و انصاف سے طرب میں آکر ملک کی سرزمین کا سرڈھننے یا رقص کرنے کا نام ہے۔
شاعر کہتا ہے:
ما زلزلت مصر من کید یرادبھا ........ وإنما رقصت من عدله طربا
چاند کا ابر میں چھپ کر آنکھوں سے اوجھل ہوجانا معمولی بات ہے، لیکن شاعر کہتا ہے کہ ماہ کامل میرے ممدوح کے چہرہ کی آن بان چمک دمک دیکھ کر اتنا شرمندہ ہوا کہ اس کو ابر میں جاکر منہ چھپانا پڑا۔
أری بدر السماء یلوح حینا ........ و یبدوثم یلتحف السحایا
وذاك لأنه لما تبدی ........ وأبصر وجھك استحیا وغابا
3۔ شاعر بادشاہ کانام لےکر پکار سکتا ہے اس کو اس کی ماں کی طرف منسوب کرتا ہے جو دوسرے مواقع میں خلاف تہذیب س سمجھا جائے گا۔
4۔ نظم کے مقبول مشہور محفوظ ہونے کا جتنا امکان ہے اتنا نثر کے لیے نہیں۔ چنانچہ یہ مسلم ہے کہ بہ نسبت ''نظم'' کے قدماء عرب نے نثر بہت کہی ہے لیکن نثر کے دس قطعات بھی محفوظ نہ ہوسکے۔ اور نظم سے شاید دس نظمیں بھی ضائع نہ ہوسکیں۔
5۔آرٹ کی سات قسموں یعنی موسیقی، شاعری، سنگ تراشی،رقص، معماری، مصوری،خوشنویسی کی طرف یوں ہی طبیعت کا میلان زیادہ ہوتا ہے او رہ رایک میں دلکشی پائی اتی ہے او رموسیقی جو سب سے زیادہ محرک اور جذبات کو ابھارنے والی شے ہے او رجس سے روح نہایت مست ہوجاتی ہے، کلام موزوں کا ایک ضروری جز ہے اس لیے فن شاعری کو جو فضیلت اور اہمیت و مقبولیت حاصل ہے ظاہر ہے۔
6۔ شعراء کے ہاتھ میں قوم کی باگ ہوتی ہے، جدھر چاہتے ہیں قوم کو جھونک سکتے ہیں۔ میدان جنگ میں رجز کے چار مصرعے جو کام کرسکتے ہیں جنگی باجے نہیں کرسکتے۔ ذہنیت کے بدلنے یا جدید ذہنیت کی تخلیق میں شاعری کو جو دخل ہے وہ دوسری کسی چیز کو بھی نہیں۔ استقلال و ثبات کی تعلیم کتابوں سے اس قدر نہیں ہوسکتی، جتنی شاعری سے ہوسکتی ہے۔
7۔ شاعر کے لیے فخریہ کلام جائز ہے۔
8۔ شاعر سب کچھ کہہ جاتا ہے لیکن قابل مواخذہ نہیں ہوتا۔ اس کے قول و عمل میں توافق لازمی نہیں چنانچہ ایک شاعر رندمشرب پرہیزگاروں کی سوسائٹی کا ایسا صحیح نقشہ پیش کرتا ہے کہ خود پرہیزگار بھی پیش نہیں کرسکتا او رایک متقی پرہیز گار شاعر جس نے تقویٰ اور ورع کے حلقہ سے باہر قدم نہیں رکھا رند اور اوباشوں کا ایسا چربا اتار سکتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاعر کسی میخانہ کا زبردست پیرمغاں ہے۔
9۔ شاعری سے بعض گمنام شخصیتوں کو وہ شہرت حاصل ہوئی کہ ہمیشہ کے لیے ان کا نام بلند ہوگیا اوربعض بلند ہستیوں یا قبیلوں کو شاعر نے اتنا گرایا کہ ہمیشہ کے لیے ان کانام صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ شماخ بن ضرار نے عرابتہ کی شان میں یہ شعرکہا:
إذا مارأیته رفعت لمجل ........ تلقا ھا عرابة بالیمین
(ترجمہ )'' عظمت و بزرگی کا کوئی نشان بلندکیا جاتا ہے تو عرابہ اس نشان کو فوراً اپنے سیدھے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔''
عرابہ کا نام اس شعر کی وجہ سے عرب میںمشہور ہوگیا اور آج تک یہ مصرع ضرب المثل ہے۔
عرب میں محلق ایک گمنام شخص تھا لوگ ان کے ساتھ صمدھیانہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے اعشی نے میلہ عکاظ میں ایک قصیدہ پڑھا۔ تمہید کے بعد یہ شعر تھے۔
لعمري لقد لاحت عيون كثيرة *** إلى ضوء نار في يفاع تحرق
تشب لمقرورين يصطليانها *** وبات على النار الندى والمحلق
(ترجمہ) ''میری زندگی کی قسم اس آگ کی طرف جو بلند مقام میں جلائی جاتی ہے بہت سی آنکھیں دیکھ رہی ہیں، دوسردی زدہ اشخاص کے لیے یہ جلائی گئی ہے جو اس سے مستفید ہوئے ہیں اور آگ کے پاس محلق اور ندیٰ شب گزارتے رہے۔'' اس کے بعد محلق کی بیٹیاں شرفاء عرب کے مشہور افراد کے ساتھ بیاہی گئیں۔
نمیر ایک مشہور قبیلہ تھا، اس قبیلہ کے افراد بڑے ناز سے اپنا نمیری ہونا بیان کرتے تھے۔ غرور کے لہجہ میں بھاری آواز سے نمیر کا نام لیتے تھے اس قبیلہ کے ایک فرد سے جریر کو رنجش ہوگئی۔ گھر آکر اپنے فرزند سےکہا ،آج چراغ میں تیل زیادہ رکھنا اس قبیلہ کی ہجو کہنا ہے۔ ہجو شروع کی جب یہ شعر قلم سے نکلا۔
فغضّ الطّرف إنك من نميرٍ ... فلا كعباً بلغت ولاكلابا
جریر اُچھل پڑا او رکہا ''والله أخزتیه آخر الدھر'' ''بخدا اس شخص کو ہمیشہ کے لیے رسوا کردیا۔'' اب یہ نوبت پہنچی کہ اگر کسی نمیری سے اس کا خاندان دریافت کیا جائے تو نمیر کا نامنہ لیتا۔ بلکہ وہ چارپشت چھوڑ کر اوپر کی پشتوں کا نام بتاتا۔ شاعر کےمقبول ہونے پر قبائل عرب میں شاندار دعوتیں اور جشن ہوتے تھے کیونکہ شاعر سے ان کی عزت کی حفاظت ان کے شاہکار کی یاد اور ان کی شہرت وابستہ ہوتی تھی۔
اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان اور عرب کی تعریف و تاریخ پر مختصر نوٹ پیش کیا جائے۔
لغت عربیہ : دنیا کی زبانوں کی جڑ تین بسیط زبانیں ہیں، آرین، سامی،منگولی، عربی سامی زبان کی ایک مقبول اور وسیع فصیح ترین شاخ ہے۔ جس نے ایشیا کے مغڑبی حصہ جزیرہ نمائے عرب میں پرورش پائی او راسلام کے بعد مذہبی سردار ہونے کی وجہ سے اسلام کے اشاعت اور توسیع کےساتھ ساتھ تمام عالم میں پھیل گئی۔
عربی کی شاخوں میں جنوبی شاخ بہت زبردست ہے۔ اس کامرکس یمن تھا۔ شمالی شاخ بھی مختلف قبائل کی طرف منسوب تھی۔ ان سب شاخوں میں قریش کی زبان فصیح ہے جن کے مطابق قرآن مجید نازل ہوا، او ریہی زبان خلافت راشدہ اور زمانہ مابعد میں علمی اور زندہ زبان قرار دی گئی اور علوم فنون کا سرمایہ اس زبان میں منتقل ہوگیا۔ اقوام عالم کی تاریخ بھی اسی زبان میں محفوظ کی گئی اور ہنوز عرب ،عراق،شام،مصر، الجزائر،مراکش اور زنجبار کے لوگوں کی زبان ہے اور اس وقت مجلس اقوام کی مسلمہ زبان بھی ہوچکی ہے۔
امتہ عربیہ : قدماء او رمتاخرین (محدثین) کے دو بڑے حصوں میں منقسم ہے۔ قدماء وہ لوگ ہیں جو جزیرہ نمائے عرب کے اصلی باشندے ہیں، ان کے تین طبقے ہیں۔
(الف) عرب بائدہ۔ اس طبقہ کے تاریخی حالات ہم تک نہیں پہنچے۔ سوائے ان حالات کے جو قرآن مجید و احادیث سے معلوم ہوئے او ریہ جدیس،عاد،ثمود،ذعمالقہ،عبدضخم کے قبائل پر مشتمل ہے۔
(ب) عرب عاربہ ۔ یہ قحطان کی وہ اولاد ہیں جوفرات کے کناروں کو چھوڑ کر یمن میں جابسے کہلان اور حمیر اس طبقہ کے دو مشہو رقبیلے ہیں۔
(ج) عرب مستعربہ ۔ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ جنہوں نے بعد میں ''عدنان کے نام سے شہرت پائی اس طبقہ کے مشہور قبائل ربیعہ، مضر، ایاد و انمار ہیں۔
دوسرا حصہ ،محدثین یا متاخرین کا ہے جو اسلام کے بعد بحر اخضر اطلانٹک وشن سے ماوراء بحر فارس تک اور دجلہ فرات کے بالائی حصوں سے لے کر ماوراء جاوا وسوما طرہ تک پھیلے ہوئے ہیں او رمختلف لہجے رکھتے ہیں۔
عربی شاعری کے ادوار : عربی شاعری زمانہ کے لحاظ سے پانچ دور میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔
1۔ دور جاہلیت ۔ جس کی مدت ڈیڑھ سو سال رہی اور جو اسلام کےشروع پر ختم ہوا۔
2۔ دور اوائل اسلام۔ یہ ظہور اسلام سے شروع ہوکر خلافت عباسیہ کے آغاز تک رہا جس میں خلافت امویہ کا زمانہ شامل رہے گا یعنی 132 ھ تک
3۔ دور عباسی۔ خلافت عباسیہ کے قیام سے شروع ہوکر تاتاریوں کے ہاتھ پر ان کے زوال تک قائم رہا 656ھ تک اس دور میں مصر کی فاطمی خلافت کا زمانہ اور اندلس کی امویہ حکومت کا دور شامل ہے۔
4۔ سلطنت ترکیہ۔ سقوط بغداد سے لے کر نئی روشنی کے دور کےشروع تک یعنی 1220ھ تک۔
5۔ دور مششع یا نئی روشنی ۔ یہ مصر میں محمد علی کے خاندان کے حکومت کے آغاز سے 1357ھ کے آخر تک۔
دور جاہلیت (ڈیڑھ سو سال تک ظہور اسلام)
عربی شاعری کی ابتداء ''رجز'' سے ہوئی جو دو چار شعر سے زائد نہ ہوتی تھی۔ سب سے پہلے جس شخص نے قصیدہ کہا وہ مہلہل بن ربیعہ ہے۔ یہ قصائد ان کے مقتول بھائی کی مرثیہ خوانی او راس کے قصاص کے لیے تحریص و ترغیب پر مشتمل تھے۔ مہلہل پہلا شخص ہے جس نے تیس شعر کا قصیدہ کہا۔ مہلہل کا اصلی نام ''عدی'' تھا، چونکہ اس نے قصیدے کہے اس وجہ سے اس کا نام مہلہل ہوگیا۔ ''ہلہل الثوب'' کی معنی کپڑے بننے کے ہیں۔
مہلہل کے بعد امرؤ القیس، علقمہ،عبید پیداہوئے۔ اس سے پہلے شاعری رجزیہ اشعار یامقطعات تک محدود تھی جن کے لیے عنبر بن عمر بن تیم درید بن زید بن نہدا عصر بن سعد بن قیس، عیلان،زہیربن خباب الکلبی،افوہ اودی اور ابی دواوالا یادی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان کا زمانہ مہلہل سے کچھ زیادہ دور نہ تھا۔
اس میں شک نہیں کہ ان شاعروں سے پہلے بھی ایسے افراد ہوچکے ہوں گے جنہوں نے سبحع سے رجز اوررجز سےمقطعات اور مقطعات سے قصائد نظم کرنے کی ترقی کی ہو، امراؤالقیس خود کہتا ہے۔
عوجا على الطلل المحيل لعلنا ... نبكي الديار كما بكى ابن خذام
تباہ شدہ کھنڈرات کے نشانوں پررونے کے لیے ذرا ٹھہر جاؤ، ہم بھی ابن خذام کی طرح دو آنسو بہا لیں۔
ما أرانا نقول الأ معارا ........ أو معادا من لفظنا مکرودا
ہم جو کہتے ہیں وہ صرف کہے ہوئے الفاظ کی تکرار یا اعادہ سے زیادہ نہیں۔ عنترہ کہتا ہے کہ:
ھل غادر الشعر من مستردم ........ أم ھل عرفت الدار بعد توھم
شعراء نے کہنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے یا کچھ غورو خوض کے بعد گھر کے نشانات سمجھ میں آگئے۔
شاعر ی کا استعمال: اس دور کی شاعری حسب ذیل عنوانوں میں تقسیم ہوسکتی ہے۔
تشبیب یا غزل : جس میں جنس لطیف کے محاسن کیفیات اور ان کے سفر اور قیام گاہوں کا ذکر ہوتا ہے ،چونکہ عرب اس دور میں ایک خانہ بدوش آزاد قوم رہی اور ان کے قبائل کی قیام گاہوں کا دارومدار پانی کی موجودگی پر تھا۔ ان کا تمام تر سرمایہ اونٹ تھا اور ان کے بہادرانہ شاہکاروں کے لیے شہسواری نہایت اہم تھی، پہاڑوں اور چٹیل میدان اور وہاں کے مختلف پہاڑی درختوں او رپھولوں کے مناظر ان کا ماحول تھا۔ اس لیے اس دور کی غزل میں انہیں اشیاء کاذکر ملے گا۔
مفاخرہ : اس میں خاندانی کارناموں کا جو اکثر خود داری، شجاعت، سخاوت ،مہمان نوازی ،ایفاء ،وعدہ کے بینظیر شاہکار ہوتے تھے،ذکر کیا جاتا تھا۔
مدح : یہ صنف اس دور کے آخری زمانہ کی پیداوار ہے، اور نہ مدح اور خوشامد جاہلیت کے عربوں کے اوصاف اور اصول کے بالکل خلاف ہے۔ شروع میں ممکن ہے کہ کسی محسن کے احسانات کے معاوضہ میں بطور شکر یہ کچھ اشعار کہہ دیئے گئے ہوں۔ اس فن کے علمبردار زہیر، نابغہ اور اعشیٰ ہوئے۔ مدح میں ممدوح کے ذاتی و خاندانی خصائص۔ رجاحت عقل ،عفت ،شجاعت اور اخلاق کو بیان کیا جاتا تھا۔
مرثیہ : کسی مرنے والی کی خوبیوں کوبیان کیا جاتا ہے۔ ایسے مرثیوں میں بڑے بڑے بادشاہوں ،مملکتوں اور قبائل کے نام و نشان مٹ جانے۔جانوروں، شیروں کے مرجانے او رطویل العمر حیوانات سانپ، گدھ وغیرہ کے بالآخر ہلاک ہونے کا بھی ذکر ہوتا ہے۔
ہجا : اس میں کسی آدمی کے ذاتی و خاندانی نقائص کو گنایا جاتا ہے، لیکن اس دور میں زیادہ فحش ..؟؟؟؟؟ گذاف کی حد تک یہ فن نہ پہنچا تھا۔
اعتذار : شاعر اپنے اوپر لگے ہوئے الزام کی صفائی پیش کرتے ہوئے اپنے خفا ہونے والے ممدوح کو منانے کی کوشش کرتا ہے۔
وصف نیچری شاعری : یعنی کائنات کے کسی چیز کی تشریح او رکسی منظر کو دلچسپ پیرایہ میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے یا تو اس چیز کو بہت مرغوب بنا کر پیش کیا جائے یا اس کو بھیانک صورت اور مکروہ منظر میں بیان کیا جائے۔اس دور میں اونٹ، گھوڑے، درندے،شکار،حشرات الارض، نباتات، آسمان،تارے،بارش،بجلی،پہاڑ،چٹیل میدان،گرمائی اور ربیعی قیام گاہیں اور ان کے بقیہ نشانات گرجا،راہب کے مینار وغیرہ اس فن کے موضوع رہے۔ اسی طرح انسان کے بعض کیریکٹر بھی بیان کیے گئے ہیں۔
حکیمانہ : اس دور میں ایسا کلام کھانے میں نمک کی طرح بہت کم ملتا ہے ۔ لیکن جو ملتا ہے وہ نہایت سادہ،مختصر مقبول اور مؤثر سچائی کے قالبوں میں ڈھلا ہوا۔
خیالات
1۔ اس دور کی شاعری میں معانی صاف اور اکثر حقیقت واقع کےمطابق ملتی ہیں۔
2۔ مبالغہ او رغلو سے احتراز کیا گیاہے۔
3۔ دقیق و غریب مفہوم بہت کم نہ تو تشبیہوں میں جدت نہ استعارے ،کنایات حسن تعلیل وغیرہ ک بھی پتہ نہیں ملتا۔
الفاظ و اسالیب
1۔ الفاظ پوری طرح سے مفہوم کو ادا کرتے ہیں۔
2۔ الفاظ میں شان و شوکت پائی جاتی ہے۔
3۔ چند ایسے قدیم عربی الفاظ ملتے ہیں جو بعد میں متروک ہوگئے۔
4۔ مجاز، معتدل طور پر استعمال کیا گیاہے۔
5۔ اجنبی زبانوں کے الفاظ شاذو نادر ملتے ہیں۔
6۔ صنائع و بدائع یعنی جناس،مقابلہ مطابقت وغیرہ نہیں پائے جاتے۔
7۔ پیرایہ سنجیدہ ہوتا ہے۔ ایجاز کوترجیح دی جاتی ہے۔
اس دور کے شعرا کے مشاھیر
طبقہ اوّل : امرؤ القیس ،زہیر،نابغہ۔
طبقہ ثانیہ : اعشی،لبید طرفہ۔
طبقہ ثالثہ: عنترہ،عمر بن کلثوم،حارث بن حلزہ،عروہ بن درد،درید بن صمد،ذ مرقش اکبر۔
دوسرا دور اسلامی ( از ظہور اسلام تا 132 ھ)
بوجہ نزول قرآن مجید و ثقافت اسلامیہ کے اس دور کی شاعری میں انقلاب ہوا۔
شاعری کا استعمال
1۔مذہبی عقائد کی ترویج،2۔جنگ او ربہادرانہ مقابلوں کے لیے تحریص و ترغیب،3۔ہجاء،۔وقائع نگاری،5۔ مدح ،6۔ پاکبازانہ تعشق و تغزل۔
خیالات
بلحاظ خیالات کے اس دور کے شعرا زیادہ تر جاہلی شعراہی کے نقش قدم پر چلتے رہے،البتہ جدید اسلامی تہذیب کارنگ اور اس کا اثر کچھ نمایاں رہا۔
الفاظ و اسالیب
الفاظ و اسالیب میں بھی اس دور کی شاعری کا رنگ جاہلیت کے شعراء کا رنگ رہا۔ سنجیدگی اور جاذبیت میں کچھ ترقی ہوئی۔
شعرا کے مشاہیر: کعب بن زہیر۔ خنساء ۔ حطیئہ ۔حسان بن ثابت ۔ نابغہ جعدی۔عمر بن معدیکرب۔ عمرو بن ابی ربیعہ۔ اخطل۔ فرزوق۔ جریر۔ کمیت۔ جمیل۔ کثیر۔ نصیب۔ راعی۔ ذوالرمہ۔
تیسرا دور عباسی (از 133ھ تا 656ھ تک)
اگر یہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا کہ یہی دور اسلامی ترقیوں،فتوحات اور اسلامی تہذیب و حضارت کا ممتاز زمانہ رہا ہے۔ عربی زبان میں تمام علوم و فنون منتقل ہوئے۔تاریخ عالم منضبط کی گئی۔ مختلف تمدنوں سے عرب کو سابقہ پڑا۔ جغرافیائی نقطہ نظر سے عربی زبان دنیا کی کثیر آبادیوں تک پہنچی اور عربی شاعری عالم کے مختلف تاریخی و جغرافیائی ،تمندی خلط ملط سے بیحد متاثر ہوئی۔
شاعری کا استعمال حسب ذیل اغراض کے تحت رہا
1۔ خاندانی کارناموں پرمفاخرت مذہبی سیاسی علمی کاموں میں تقابل، سیاسی اغراض کے تحت شاعری کا پرچار۔ خاص طور پر بنی اُمیہ کے خلفاء نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔
2۔ خوشامدی اسالیب کا اختیار۔ 3۔ رندانہ شاعری جس میں شراب کی تعریف۔بزم نشاط ۔ ساقی مطرب اور شاہد پرستی، گانے کی توصیف وغیرہ شامل ہے۔ 4۔ وصف نیچرل شاعری،چنانچہ باغات،چمنوں کے مناظر،فطرت کی صناعیوں کی تشریح،شکار اور دیگر تشبیہات وغیرہ۔ 5۔ وعظ،حکمت و فلسفیانہ اقوال ۔6۔ بعض علوم و فنون کے قواعد کو بغرض آسانی حفظ نظم کرنا۔
خیالات: 1۔ مفکرانہ توجیہ۔ 2۔ فرضی خیالات کا تصور۔ 3۔ تشبیہات میں جدت ،استعارے، حسن تعلیل کے لیے نئے نئے پیرائے۔ 4۔ فلسفیانہ نکات او رمذہبی اصول ثابت کرنےکے لیے بہترین دلچسپ طرز۔
الفاظ و اسالیب: 1۔ الفاظ غریبہ کا ترک استعمال۔2۔ عجمی الفاظ کی زیادتی۔3۔ پیرایہ کی لطافت لیکن الفاظ کی شوکت کے بقا کے ساتھ۔ 4۔ صنائع بدائع میں جدید اختراعات او ران کی کثرت۔
مشہور شعرا: بشار،بونواس،مسلم،ابوالعتاہیہ،ابن الرومی، ابوتمام بختری،ابن المعتز ،ابن ہانی،امیر تمیم،ابوفراس،ابوالعلاء المعری شریف رضی
چوتھا دور ترکی حکومت کا (از 657ھ تا 1220ھ)
اس دور میں چونکہ اکثر اسلامیہ ممالک کے زمام سلطنت عجمی بادشاہوں کے ہاتھ آچکی تھی۔ اس لیے عربی شعراء کی سرپرستی میں بہت کمی ہوگئی۔ نیز اس زمانہ سے شعر گوئی کو کسب مال و جاہ کاذریعہ بنانا موقوف ہوگیا۔نیز صوفیانہ رنگ چھا گیا۔
شاعری کااستعمال : 1۔ نعتیہ قصائد دربار رسالت سے۔ التجاء ۔مناجات بہ بارگاہ رب العزّت۔2۔ اولیائے کرام کی مدح۔ 3۔ صوفیانہ شاعری۔ 3۔ غیر حقیقی غزل او ربجائے محبوبہ کے محبوب کاذکر، جو ایرانی شاعری کا پرتو تھا اور صوفیانہ مذاق کی وجہ سے اکثر علماء و مشائخ نے اس طرز کو رائج کیا تھا۔ 5۔بدائع صنائع کی خاطر غزلیات و مقطعات کا کہنا۔6۔ نیچرل شاعری رہٹ، تکیہ،فرش، جانماز،پنکھا،چھری، دوات،چراغ، بخودانی وغیرہ چیزوں پر طبع آزماوی۔7۔ رندانہ شاعری۔ 8۔ فحش ہجو۔9۔ پہیلیاں (معمے)۔
خیالات: نازک خیال۔ ضرب المثل او رفلسفیانہ نکات میں جدت پیدا کرنے کی بجائے صرف تشبیہ اور استعارات کے استعمال پر زوردیا گیا۔
الفاظ و اسالیب : 1۔صرف آسان الفاظ کا استعمال۔چنانچہ پرشوکت لفظ کا استعمال بھی ترک ہوا، بلکہ عامی اور ترکی الفاظ بھی استعمال ہونے لگے۔ 2۔ آسان ترکیب اور عامی مثلوں کا استعمال۔ 3۔ صنائع بداوع پر زور دیاگیا خصوصاً فن توریہ اور جناس پر۔4۔ تصغیربے نقطہ، یا صرف نقطہ دار الفاظ کا استعمال لزوم مالایلزم مالا یستحیل بالا نعکاس کی صنعتیں۔ تاریخی مادے۔ 5۔ مشہور اشعار کی تضمین، تشطیر، تخمیس۔6۔ اقتباس۔
مشہور شعراء : شیخ شرف الدین انصاری(متوفی 662ھ)۔ ابن جمال الدین شہاب الدین تلعفری (المتوفی675ھ)۔ ابن الوردی (المتوفی 687ھ)۔ امام بوصیری۔ابن حجۃ (المتوفی 837ھ) ۔صفی الدین حلّی فخر الدین بن مکانس (المتوفی 864ھ) ابن معتوق۔
پانچواں دور نئی روشنی (1221ھ سے 1357ھ تک )
اس دور میں مغربی تہذیب کااثر اور مادہ پرستی کی طرف میلان سیاسی ہیجان جدید فلسفی و طبعی نظریے او راختراعات و ایجادات نیز مختلف اقوام کا گہرا ربط و ضبط یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن سے شاعری بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
عربی ممالک خاص طور پر شام اور مصر میں امیر مبلغین کی مساعی۔ یورپ کے مستشرقین کی کوششیں یہ سب امور ایسے پیدا ہوچکے ہیں جس سے عربی شاعری میں ایک جدید انقلاب نمایاں ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ اس دور کے نصف اوّل تک تو سخت جمود رہا اور شاعری میں کوئی ترقی نہ ہوسکی لیکن موجودہ دور میں عربی ممالک کی پھر لغت فصحیٰ کی طرف توجہ شروع ہوئی اور نئے نئے شاعر پیدا ہوئے۔
استعمال : 1۔ فطرتی مناطر،وجدانات،جذبات پرطبع آزمائی ہونے لگی۔2۔ جدید آلات ریل، بجلی، ٹیلی فون وغیرہ پر اشعار کہے گئے۔
اسالیب : موجودہ دور کے کلام میں بدیع جناس کی کمی کی گئی اور سادگی کی طرف رجوع کیا گیا چنانچہ اس صدی کے اکثر شعراء نے چوتھی پانچویں صدی کے شعراء کارنگ اختیار کرلیا ہے۔
شعراء:محمود سامی بارودی۔ حضنی ناصف بک۔ شوقی شیخ شہاب۔
میں نے بوجہ طوالت جغرافیائی لحاظ سے عربی شاعری پر تبصرہ نہیں کیا۔ حالانکہ اس لحاظ سے بھی عربی شاعری پر کافی کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر یمن،حجاز،شام،مصر،ہند،عراق، اندلس وغیرہ کے شعراء کے درمیان اپنے ممالک کے رسم و رواج اور عقائد کے لحاظ سے بہت کچھ فرق پایا جاسکتا ہے۔نیز رعایا اور بادشاہوں اور شاہی افراد کی شاعری میں بھی بہت کچھ فرق ہوسکتا تھا۔ اب ہم عربی شاعری کو پانچ عنوانوں میں تقسیم کردیتے ہیں او رہر عنوان کے تحت ان ضروری خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن سے عربی شاعری کا درجہ اور امتیاز معلوم ہوسکے چند نمونے پیش کرتے ہیں۔جو یہ ہیں غزل،فخر،مدح،وصف،حکیمانہ۔
غزل: عربی شاعری میں سب سے زیادہ غزلیات پائی جاتی ہیں چنانچہ مطلق غزلیات کو نظر انداز بھی کردیں تو مدحیہ قصائد بھی اکثر غزل ہی سے شروع ہوتےہیں۔
1۔ عربی زبان میں غزل مسلسل ہوتی ہے۔جس میں محبوب کا سراپا یا وصل و ہجر کا واقعہ یا کوئی دلچسپ واردات مفصل طور پربیان کی جاتی ہے۔
ابی ابن ربیعہ:
ليت هنداً أنجزتنا ما تَعدْ ........وشَفَتْ أنفسنا مما تَجِدْ
واستبدتْ مرة ً واحدة ً ........ إنما العاجز من لا يستبدْ
ولقد قالت بحارات لھا ........ ذات یوم و تعرت تبترد
أکما ینعتني تبصرنني ........ عمر کن اللہ أمر لا یقتصد
فَتَضاحَكنَ وَقَد قُلنَ لَها........حَسَنٌ في كُلِّ عَينٍ مَن تَوَد
حَسَدٌ حُمِّلنَهُ مِن أَجلِها ........وَقَديماً كانَ في الناسِ الحَسَد
'' کاش کہ ہند اپنا وعدہ پورا کرتی اور ہماری روحانی تکلیفوں کا علاج کردیتی یک مرتبہ خود نماوی و خودداری ظاہر کرنے لگی، بے شک خود داری نہ کرنا تو عاجزی کا کام ہے۔ ایک روز اپنے کپڑے اتارے ہوئے تھی او رہوا کھا رہی تھی اپنی سہیلیوں (پڑوسنوں) سےکہنے لگی،تمہاری جان کی قسم کیا میں واقعی ایسی ہی حسین ہوں،جیساکہ میرا عاشق تعریف کرتا ہے یا وہ کچھ مبالغہ کرتا ہے، سب ہنس کر کہنے لگیں کہ ''چاہنے والے کی آنکھ میں اپنے محبوب کی ہر چیز قابل تعریف ہی ہوتی ہے۔'' اور یہ صرف حسد سے کہا اور قدیم زمانے سے حسد تو چلاآتا ہے۔''
امیر تمیم :
عانقْت لامَ صُدْغها صادُ لثمي ........فأرتها المرآةُ في الخد لِصّا
فاسترابت بما رأت ثم قالت.......أكتابا أرى ولم اَرَ شخصا
ودَعَتْني لمحوِه فتمكَّن ........ من الوجنتين لَمْساً وقرصا
ثم قالت ألا امْحُهُ محو من يج ........هد في محوِه ومن يتقصّى
قلت بالقشط يمَّحِي قالت اقشط ........بالثنايا وأتْبع القشط مَصّا
قلت إن الذي أمرتِ به فر ........ ضٌ علينا مؤكّد ليس يُعصى
ورأت إثر ما محوت فقالت .......كان لصّا فصار والله فَصّا
قلت إن الفصوص تطبع باللّث ........ م على خدِّ كلُِّ من كان رَخْصا
(ترجمہ) ''اس کے زلف کے لام سے میرے چومنے کا صاد ہم آغوش ہوا یعنی میں نے اس کا بوسہ لیا۔ آئینہ میں دیکھنے سے اس کے رخسار پر نشانہ نظر آیا، وہ اس سے جھینپی اور مشکوک نگاہ سے کہا کہ کیا بات ہے کہ کچھ کتابت کا نشان نظر آرہا ہے لیکن لکھنے والے کا تو پتہ نہیں مجھے بلایااس نشان کے میٹنے کی فرمائش کی۔ میں نے دونوں رخساروں کو اچھی طرح چوما اور کاٹا۔ کہنے لگی اس کو ایسا مٹا دو کہ جس کے مٹانے میں پوری کوشش صرف کرنے کا پتہ چلے۔میں نے کہا کہ اس کو تو چھیل کر مٹایا جاسکتا ہے۔ اس نے کہا ہاں دانتوں سے چھیل دو اور پھر چوس لو، میں نے کہا کہ یہ ایسا فرمان ہے جس کی تعمیل فرض ہے او راس میں فروگذاشت جائز نہیں۔میرے مٹانے کے بعد اس نے اس کے نشان کو دیکھا تو کہنے لگی کہ یہ نشان تھا اب تو نگینہ بن گیا، میں نے کہا بے شک ایسے نگینے ہی بذریعہ بوسے نرم رخسار پربنائے جاتے ہیں۔''
ایضاً :
شبهتها بالبدر فاستضحكت و قابلت قولي بالنكر
و سفهت قولي وقالت:متى سمجت حتى صرت كالبدر؟
البدر لايرنو بعين كما أرنو،ولايبسم عن ثغر
ولا يميط المرط عن ناهد ولا يشد العقد في نحر
من قاس بالبدر صفاتي،فلا زال أسيرا في يدي هجري!
(ترجمہ) ''میں نے مجبوبہ کو چاند سے تشبیہ دی ، اس نے ہنس کر میرے قول کی تردید شروع کی، اس نے میرے کلام کا مذاق اڑایا او رکہنے لگی،اتنی میں کب بدمذاق ہوگئی کہ چاند جیسی بن گئی،نہ تو چاند میری طرح آنکھ سے ناز و انداز کی نظر ڈال سکتا ہے او رنہ میری طرح دانت دکھا کر مسکرا سکتا ہے او رنہ ابھرے ہوئے سینہ سے چادر ہٹاتا ہے او رنہ سینہ کو مالا سے مزین کرتا ہے جو میرے اوصاف کاچاند سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے وہ ہمیشہ فراق کے ہاتھوں پابہ زنجیر رہا کہ اس نے میری اس قدر تحقیر کی۔''
البھا زہیر المتوفی 656ھ
يعاهدني لاخانني ثم ينكث === وأحلف لا كلمته ثم أحنث
وذلك دأبي لايزل ودأبه === فيا معشر العشاق عنا تحدثوا
أقول له صلني يقول نعم غدا === ويكسر جفنا هاذئاّ بي ويعبث
وما ضر بعض الناس لو كان زارني === وكنا خلونا ساعة نتحدث
أمولاي إني في هواك معذب === وحتام أبقى في الغرام وأمكث
فخذ مرة روحي ترحني ولا أرى=== أموت مرارا في النهار وأبعث
فاني لهذا الضيم منك لحامل === ومنتظر لطفا من الله يحدث
أعيذك من هذا الجفاء الذي بدا=== خرئقك الحسنى أرق وأدمث
ترددن الناس في فأكثروا === أحاديث فيها مايطيب وينخبث
وقد كرمت في الحب مني شمائل === ويسأل عني من أراد ويبحث
(ترجمہ) '' وہ مجھ سے معاہدہ کرتا ہے کہ مجھ سے بیوفائی نہ کرے گا پھر عہد شکنی کرتا ہے۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ اس سے کبھی نہ بولوں گا۔ پھر قسم توڑ دیتا ہوں ۔ یہ میری اور اس کی مسلسل عادت ہے۔اے لوگو! سنو اور سناؤ۔ میں اس سے وصل کی درخواست کرتا ہوں اور وہ کہتا ہے کہ کل، اور آنکھ مار کے میرا مذاق اڑاتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے ملے یا تنہائی کا موقع دے تو کسی کاجی کیوں جلتا ہے۔میری سرکار میں آپ کے عشق میں معذب ہوں، کب تک اس عذاب میں رہوں ایک ہی مرتبہ مجھے مار ڈالو، تاکہ آرام کی نیند سو جاؤں۔یہ کیا مصیبت ہے کہ دن میں کئی بار مرتا ہوں او رپھر زندہ کیا جاتا ہوں میں نے آپ کے یہ ظلم سہے او راب خدائے تعالیٰ سے مہربانی کا منتظر ہوں۔آپ جیسے خوش اخلاق ہستی سے ایسی جفاکیوں ہورہی ہے، لوگ میرے بارے میں مختلف اچھی باتیں کہتے ہیں لیکن آپ کی محبت میں میرے خصائل منزہ ہیں جس کو چاہے اس کی تحقیقات کرے۔''
2۔ عرب کا معشوق عفت و عصمت کا حرم نشین ہوتا ہے وہاں تک رسائی مشکل ہوتی ہے اگر وہاں رخ کریں تو تلواروں کا سامنا ہوتا ہے۔چنانچہ متنبّی کہتا ہے:
ديار اللواتي دارهن عزيزة ، بطول القنا يحفظن لا بالتمائم
''میں ان حرم نشینوں کے گھر کا ذکر کرتا ہوں جن کی رہائش گاہیں گندم گوں نیزوں کے ذریعے محفوظ ہوتی ہیں نہ کہ تعویذوں سے۔''
عرب میں محبوبہ کے ایسے محافظوں کو رقیب کہتے ہیں، الغرض عرب کے عاشقانہ جذبات مناسب پرجوش شریفانہ اور سچے ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف ایرانیوں کا محبوب شاہد بازاری ہوتا ہے۔جو ہر ایک کے ہاتھ لگ سکتا ہے اس کے چاروں طرف عشاق کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔
3۔ عربی غزلیات میں خود داری او رعزت نفس کے جذبات قائم رہتے ہیں۔ عرب کا عاشق طالب ہے، گدا نہیں،جانباز ہے،غلام نہیں، آمادہ مصائب ہے لیکن ذلیل نہیں۔ وہ معشوق سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔
فلا تحسبي أني تخشعت بعدكم ... لشيءٍ ولا أني من الموت أفرق
(ترجمہ) '' یہ خیال نہ کرنا کہ تمہارے بعد میں ذلیل ہوگیا او رنہ یہ کہ پاؤں کو زنجیر میں بند پاکر اپنے وقار کے خلاف حرکت کرتا ہوں۔''
لیکن ایران کا شاعر اپنے آپ کو ذلیل قرار دیتا ہے۔ عاشق کی گلی کا کتا کہتا ہے۔
4۔ فارسی شاعری میں معشوق حسن ِصور ت کے لحاظ سے جس قدر بےمثل و بےنظیر ہے اسی قدر اخلاق کے لحاظ سے دنیا کے تمام عیوب کا مجموعہ ہے۔ وہ جھوٹا ہے، بدعہد ہے۔ ظالم ہے،سفاک ہے،مکار ہے،دغا باز ہے، فتنہ گر ہے،حیلہ ساز ہے،شریر ہے،کینہ پرور ہے،نہایت احمق ہے،ہرایک کی بات مان لیتا ہے اور ہرایک کے قابو میں آجاتا ہے۔
فخریہ : شعرائے عرب صاحب تیغ و علم ہوتے ہیں،اس لیے انہوں نے اپنے معرکے لکھے اور فخریہ قصائد نظم کیے، عمر بن ہند نے یہ معلوم کیا کہ عرب میں عمرو بن کلثوم کے سواکوئی ایسا شخص نہیں جس کی ماں عمرو بن ہند کی ماں کی اطاعت و خدمت سے انحراف کرے۔ عمرو بن ہند اور اس کی ماں نےقبیلہ کے ممتاز افراد کو دعوت دی۔ زنانہ دعوت خانہ میں عمرو بن ہند کی ماں نے عمر بن کلثوم کی ماں سے کسی چیز کی طرف اشارہ کرکے اس کے اٹھا لانے کو کہا۔ عمر بن کلثوم کی ماں واتغلبا، ہائے تغلب کہہ کر چیخی، عمر بن کلثوم اور اس کے ساتھیوں نے تلوار نیام سے کھینچ لی۔ عمرو بن ہند کا سرقلم کرلیا اور ایک مشہور قصیدہ کہا جو کعبہ میں آوازیں کیا گیا اور اس کو معلقات کی فہرست میں درج ہونے کا شرف حاصل ہوا کہ اس قصیدہ سے قبیلہ ثعلب میں شجاعت ،بہادری ،دلیری بڑھ گئی جو کئی سو سال تک قائم رہی، یہ قصیدہ اس قبیلہ کے بچہ بچہ کو یاد تھا۔
أَلاَ هُبِّي بِصَحْنِكِ فَاصْبَحِيْنَـا... وَلاَ تُبْقِي خُمُـوْرَ الأَنْدَرِيْنَ
أَبَا هِنْـدٍ فَلاَ تَعْجَـلْ عَلَيْنَ... وَأَنْظِـرْنَا نُخَبِّـرْكَ اليَقِيْنَ
بِأَنَّا نُـوْرِدُ الـرَّايَاتِ بِيْضـاً... وَنُصْـدِرُهُنَّ حُمْراً قَدْ رُوِيْنَـا
بِاَيِّ مَشِيْئَـةٍ عَمْـرُو بْنَ هِنْـدٍ... نَكُـوْنُ لِقَيْلِكُـمْ فِيْهَا قَطِيْنَـا
بِأَيِّ مَشِيْئَـةٍ عَمْـرَو بْنَ هِنْـدٍ... تُطِيْـعُ بِنَا الوُشَـاةَ وَتَزْدَرِيْنَـا
أَلاَ لاَ يَجْهَلَـنَّ أَحَـدٌ عَلَيْنَـا... فَنَجْهَـلَ فَوْقَ جَهْلِ الجَاهِلِيْنَـا
إِذَا بَلَـغَ الفِطَـامَ لَنَا صَبِـيٌّ ... تَخِـرُّ لَهُ الجَبَـابِرُ سَاجِديْنَـا
(ترجمہ) '' اپنا ساخر نکالو اور صبوحی شراب کا دور چلنے دو، اندرین کی شراب سب ختم کرڈالو۔ اے پدر ہند جلد بازی سے کام نہ لو۔ ہم کو مہلت دو۔ ہم تم کو حقیقت سمجھا دیں گے کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ اپنے سفید نشانوں کو لے کر جنگ پرجاتے ہیں اور سرخ اور خون سے سیراب ہوکر پلٹتے ہیں۔ عمر بن ہند تو نے کس خیال سے چغلخوروں کا کہنا مان کر ہم کو حقیر سمجھا۔ خبردار کوئی بھی ہمارے ساتھ جہالت کا برتاؤ نہ کرے ورنہ ہم ان کی جہالت کا جہالت سے جواب دینے کو تیار ہیں۔
جب ہمار ابچہ شیر خواری کا زمانہ ختم کرتا ہے تو اس کے سامنے بڑی بڑی زبردست ہستیوں کو سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔ علامہ شبلی کہتے ہیں کہ عور کرو شعراء فارس اس کے مقابلہ میں کس چیز پر فخر کرسکتے ہیں، نظامی،عرفی نے بڑے زور کے فخریئے لکھے ہیں لیکن فخر کی ساری کائنات یہ ہے کہ ہم اقلیم سخن کے بادشاہ ہیں۔ الفاظ او رحروف ہمارے باجگزار ہیں۔ مضامین ہمارے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھے تو یہ کہہ دیا کہ ہم پری پیکر ہیں۔ چنانچہ عرفی کہتا ہے ؎
سربرزدہ ام بامہ کنعان زیکے جیب ........ معشوق تماشا طلب و آئینہ گیرم
میگوئم و اندیشہ ندارم زطریفاں ........من زہرہ رامش گروہن بدر منیرم
ایرانی شاعر ہمیشہ غلام رہے۔غلامی میں پلے وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے پیدا ہوئے۔
شعر4۔83 صفی الدین حلی، المتوفی 570ھ
سل الرماح العوالي عن معالينا
واستشهد البيض هل خاب الرجا فينـا
لقد مضينا فلم تضعف عزائمنا
عمــــا نــروم ولا خابت مساعيـنـــــا
قوم اذا خاصموا كانوا فراعنة
يوما وان حكــمـــوا كانوا موازينــــا
إذا ادّعوا جاء ت الدنیا مصدقة ........ دان دعوا لأیام اٰمینا
انا لقوم أبت أخلاقنا شرفا
أن نبتـــدي بالأذى من ليس يؤذينــــا
قوم اذا خاصموا كانوا فراعنة
كأنّ اللّيلَ حارَبَها ففِيهِ | هِلالٌ مِثْل ما انعَطَفَ السّنانُ |
ومِن أُمّ النّجُومِ عليه دِرْعٌ | يُحاذِرُ أن يُمَزّقَها الطّعَانُ |
وقد بَسَطَتْ إلى الغَرْبِ الثرَيّا | يداً غُلقَتْ بأنْمُلِهَا الرّهانُ |
كأنّ يَمِينَها سَرَقَتْكَ شيئاً | ومَقْطوعٌ على السَّرَقِ البَنانُ |
لا تَقولوا حَطَّنا الدَهرُ فَما | هُوَ إِلّا مِن خَيالِ الشُعَراء |
هَل عَلِمتُم أُمَّةً في جَهلِها | ظَهَرَت في المَجدِ حَسناءَ الرِداء |
سافِرْ إذا حاولتَ قَدْرا | سارَ الهلالُ فصارَ بَدرا |
والماءُ يكسِبُ ما جرى | طيباً ويخْبُثُ ما استقرا |
وبنقلة الدُرَرِ النفي | سةِ بُدِّلتْ بالبحرِ نَحْرا |
وَصْلاً إن امتلأتْ يدا | كَ فإن هُما خلَتا فهجْرا |
فالبدرُ أنفقَ نورَه | لما بَدا ثمّ استَسَرّا |