مقالہ نگار یہ سیدھا سادھا مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ تعلیمی جہاد کے کسی محاذ پر بھی نظریاتی لگن کے بغیر مثبت نتائج کی آس لگائے رکھنا جنت الحمقاء میں بسنے کے مترادف ہے۔ نظریاتی لگن کا واضح شعور او را س کی پیہم تعمیل تعلیمی دنیاکے تمام مدارج کے لیے ضروری ہے تعلیمی قیادت کے فکروعمل پر اس کی واضح چھاپ تو قطعی لازمی ہے۔ پاکستان کی تعلیمی تاریخ کے مختلف ادوار کا تجزیاتی حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالرؤف یہ تلخ حقیقت مزید واضح کرتے ہیں کہ زمانہ تعلیم میں سطحیت ،بے اعتنائی، نااہلی، پیوست ، بدعنوانی، ضیاع او رناکامی کے غلغلہ کا بنیادی سبب نظریاتی لگن کا مایوس کُن فقدان ہے۔اس افسوسناک صورت حال سے نہ صرف تعلیم اپنے اساسی مقصد میں بُری طرح ناکا ہوئی بلکہ ملّی معیشت و معاشرت کےتمام شعبے بھی جمود و بحران کاشکار ہوتے رہے۔
نظریاتی لگن سے عاری تعلیم کی تاریکیاں: ماضی کی لغزشوں کے اعادہ سے اجتناب اور بے مقصدیت کے بھنور سے نجات کے لیے مقالہ نگار نے نظریاتی لگن کے باضابطہ احیاء او رمؤثر فروغ کو مقدم قرا ردیا ہے۔ماضی میں نظریاتی لگن سے معمور تعلیمی کارکنوں سے زیادتی ہوئی یا انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا۔نتیجہ یہ ہواکہ کئی اچھے بھلوں نے بھی موقع پرستی کو شعار بنا لیا۔ متعدد ''دانشور'' تو نظریاتی ارتداد کی بھولی بھلیوں میں بھٹک گئے۔ چنانچہ دنیائے تعلیم پر رفتہ رفتہ بعص ایسے تہی مغزوں کا تسلّط ہوتا چلا گیا جو یا تو نظریاتی حرارت سے قطعی محروم تھے یا حق کے لیے ڈٹ جانے کی جسارت سے یکسر عاری۔ اس سے تعلیم و تہذیب میں خصوصاً او رملّی معیشت و معاشرت میں عموماً جو ہنگامے بپا ہوئے ان کی گوناگوں تاریکیاں آج ہم سب کےلیے باعث کرب و اضطراب ہیں|۔
ملّی تعلیمی پالیسی میں نظریاتی لگن کی اوّلیت: ملّی تعلیمی پالیسی کے منفرد محاسن پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالرؤف اس امر پر اظہار مسرت کرتے ہیں کہ تعلیمی تاریخ میں پہلی بار نظریاتی لگن کو غیر مبہم انداز میں اوّلیت دی گئی ہے۔ اس لیے اگر ہم اپنے نئے خوابوں کی تکمیل کے واقعی متمنی ہوں تو نظریاتی تطہیر و ترویج اور ملّی تعمیر نور کے اس سنہری موقع سے حتمی استفادہ ضروری ہے۔
نظریاتی لگن کے لیے فروغ کے عملی اقدام: تعلیمی دنیا کی بنیادی علتوں اور قباحتوں کے مؤثر علاج و انسداد کے لیے حساس مقالہ نگار نے جو قدرے غیر روایتی نسخہ تجویز کیاہے اس کے اجزائ کچھ اس رنگ کے ہیں:
1۔ تعلیم و تدریس میں نظریاتی شعور سے عاری کارکنوں کی فوری تطہیر۔
2۔ نظریاتی لگن سے معمور تعلیمی کارکنوں کی صلاحیتوں سے مؤثر استفادہ۔
3۔ دنیائے تعلیم کی تمام سطوح میں نظریاتی لگن کے حقیقی فروغ کے لیے عملی اقدام۔
4۔ تمام تعلیمی افراد اور اداروں میں نظریاتی صحت و توازن کی دیکھ بھال کا مناسب اہتمام۔
5۔ نظریاتی لگن کی ترویج کے لیے خیال انگیز تصانیف، دستاویزی فلموں اور بامقصد نشریات کی اشاعت۔
6۔ نظریاتی لگن کے مختلف پہلوؤں پر ٹھوس تحقیق کے لیے ادارہ تعلیم و تحقیق جامعہ پنجاب میں ایک منظم مرکز کا قیام۔ (ادارہ)
نظریاتی لگن کی ضرورت اور افادیت: کسی تعلیمی منصوبہ کی معقول تشکیل اور مؤثر تعمیل میں نظریاتی لگن اساسی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم سے متعلق افراد کی تمام سطوح میں نظریاتی حرارت باعث رحمت ہے، مگر تعلیمی سیادت کے فکروعمل پر اس کی واضح چھاپ تو قطعی لازمی ہے۔نظریاتی لگن پورے شدومد سے برسر عمل ہو تو ملت کا مستقبل درخشاں ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اس لگن میں سقم، تقلیل یا فقدان نہ صرف تعلیمی دیےّ ہی گُل کردیتی ہے بلکہ ملّی معیشت و معاشرت کے تمام شعبے بھی ویران ہوجاتے ہیں۔
مایوس کُن تاریخی پس منظر: یہ امر باعث ملال ہے کہ ماضی میں نظریاتی عنصر بُری طرح نظر انداس ہوتا رہا۔ نظریاتی اداروں سے بے رُخی برتی گئی۔ نظریاتی قدروں کو پائمال کیا گیا، نظریاتی لگن سے سرشار تعلیمی کارکنوں سے زیادتی ہوتی رہی، اُن کی دل شکنی کی گئی، انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی اچھے بھلوں نے بھی تنگ آکر موقع پرستی کو شعار بنالیا۔ متعدد ''دانشور'' تو نظریاتی ارتداد کی بھول بھلیوں میں بھی بھٹک گئے۔چنانچہ دنیائے تعلیم پر رفتہ رفتہ بعض ایسے تہی مغزوں کاغلبہ ہوتا چلا گیا جو یا تو نظریاتی حرارت سے قطعی محروم تھے یا حق کے لیے ڈٹ جانے کی جسارت سے یکسر عاری۔ اس سے تعلیم و تہذیب میں خصوصاً او رملّی زندگی میں عموماً جو ہنگامے بپا ہوئے اُن کی گونا گوں تاریکیاں آج ہم سب کے لیے باعث ندامت و اضطراب ہیں۔
نظریاتی گمراہی کے بھیانک عواقب: دراصل تعلیمی قیادت میں نظریاتی قحط ہی کے سبب ہماری تعلیم و تہذیب بے اعتنائی ،موقع پرستی، نااہلی، منافقت، ضیاع او ربدعنوانی کی دلدلوں میں دھنستی چلی گئی ۔ سراسر کھوکھلا ہونے کی وجہ سے ہمارا بے جان نطام تعلیم طلبہ کے رُوح و قلب کو گرمانے اور تعمیر و تخلیق کے دیّے جلانے میں قطعی ناکام ہوا۔ اس صورت حال نے مثبت اور انقلابی درس و تدریس ہی کے راستے مسدود نہ کیے بلکہ ملّی معیشت و معاشرت کی تعمیر نو کے دروازے بھی مقفل کردیے۔ بے مقصد نصاب، درکُن درسی کتب، ناقص طریق تدریس، عدم ضبط و نظم، جذباتی گروہ بندیاں اور تحقیق و تخلیق کا کباڑہ ہماری درس گاہوں کو دیمک کی طرح چاٹتا گیا۔ تعلیمی تنزل سے مجرمانہ اغماض کا ایک عمومی نتیجہ یہ مرتب ہوا کہ ملّی زندگی کے تمام شعبے بحرانوں او رالمیوں کی بھینٹ چڑھتے چلے گئے۔
ہمارا مسموم تعلیمی ورثہ: ادوار ماضی میں جو افراد تعلیمی نشو وارتقاء میں سدراہ بنے ان میں کچھ اس قسم کے حضرات سرفہرست بتائے جاتے ہیں۔
(الف) مختلف تدریسی اور انتظامی سطوح کے بعض ایسے کارندے جو نظریاتی شعور سے قطعی عاری تھے۔
(ب) بظاہر بھلےچنگے تعلیمی کارکن جن میں نظریاتی شعور برائے نام موجود تھا۔
(ج) سیاسی موسم کے حسب حال ہر لحظہ نئی کروٹ بدلنے والے عیار موقع پرست۔
(د) بدیشی نظریاتی فلسفوں کے کوتاہ بین پرستار۔
حقیقی نظریاتی لگن سے سرشار تعلیمی کارکنوں کے وجود سے انکار نہیں۔ ایسے بچے کھچے سر پھرے اب بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ مگر مناسب تحریک و تحفظ کے فقدان کی وجہ سے اس قسم کے متعدد افراد گوشہ گمنامی میں پڑے ہیں۔ بسااوقات حساس طبقوں کو یہ اندیشہ بھی ستاتا ہے کہ اگر خدانخواستہ تخلیقی کارکنوں کو یہ مخلص طبقہ بھی مزید تغافل کا شکار رہا یا یہ لوگ بھی موقع پرستوں کے بے پناہ ہجوم میں شامل ہوگئے تو مکتب اور زندگی کے بچاؤ کی رہی سہی اس بھی جاتی رہے گی۔ملّی تعلیمی پالیسی نے پہلی بار نظریاتی لگن کو غیر مبہم انداز میں اوّلیت دی ہے۔ بجا ہے کہ اس موثق تحفظ سے مذکورہ بالا قسم کے خدشوں کے پنپنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ تاہم یہ امر بدیہی ہے کہ اگر ہم اپنے خوابوں کی تعبیر کے واقعی متمنی ہوں تو تعلیمی لگن کی بالادستی کوعملی صورت دیئے بغیر چارہ نہیں۔
علاج و انسداد کےلیے چند تجاویز: اس مقالے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام میں نظریاتی لگن کو واقعی اوّلیت دیتے ہیں تو اس کے لیے متعلقہ اقدامات میں مزید تامل و التواء خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے تعلیمی دنیا کی نظریاتی صورت حال میں صحیح استحکام کے لیےمندرجہ ذیل تجاویز پرفوری غور ضروری ہے۔
1۔ تعلیم و تدریس میں نظریاتی شعور سے عاری کارندون کی فوری تطہیر۔
2۔ نظریاتی لگن سے معمور تعلیمی کارکنوں کی صلاحیتوں سے مؤثر استفادہ۔
3۔ دنیائے تعلیم کی تمام سطوح میں نظریاتی لگن کے حقیقی فروغ کے لیے عملی اقدام۔
4۔ تمام تعلیمی افراد اور اداروں میں نظریاتی صحت و توازن کی دیکھ بھال کا معقول اہتمام۔
5۔ نظریاتی لگن کی ترویج کے لیے خیال انگیز تصانیف ، معلومات افزا دستاویزی فلموں اور بامقصد نشریات کی باضابطہ اشاعت۔
6۔ نظریاتی لگن کے مختلف پہلوؤں پر ٹھوس تحقیق کے لیے ایک منظم مرکز کا قیام۔
1۔ نظریاتی شعور عاری تعلیمی کارندوں کی تطہیر: ان تمام تعلیمی کارندوں کی تطہیر ضروری ہے جو یا تو نظریاتی شعور سے قطعی عاری ہیں یاگمراہ کن نظریاتی فلسفوں کے مقلد ہیں۔ ایسے تہی مغزوں کو مالی نقصان سے بچانے کے لیے انہیں تعلیم کی بجائے اس قسم کے محکموں میں متعین کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔مثلاً محکمہ امور حیوانات، بناسپتی گھی بورڈ، شعبہ مرغبانی، محکمہ خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ۔
2۔ نظریاتی لگن سے سرشار کارکنوں کا معقول استعمال: نظریاتی لگن سے معمور اس بچی کھچی تعلیمی قوت افراد کی نشاندہی او راس کا مؤثر استعمال ضروری ہے، جودسترس زمانہ سے محفوط رہی ہے۔ نظریاتی لگن کے فروغ اور ملّی تعلیمی پالیسی کے انقلابی اغراض کی تکمیل کے لیے ان نظر انداز شدہ تعلیمی کارکنوں کی تخلیقی صلاحیتوں سے فوری استفادہ بے حد ضروری ہے۔
3۔ نظریاتی لگن کے فروغ عام کےلیے مؤثر اقدام: نظریاتی شعور کے فروغ کا معاملہ تغافل کاشکار رہا یا جذباتیت میں اُلجھا رہا۔ تعلیمی کارکن جہاں کہیں بھی کام کرتے ہوں انہیں اس اساسی حقیقت سے واضح طور پر روشناس کرانا اشد ضروری ہے کہ اُن کے ذاتی فکروعمل اور فنی مشاغل میں نظریاتی لگن کا مثبت او رنمایاں اظہار قطعی لازمی ہے۔
4۔ نظریاتی صحت کی مناسب دیکھ بھال: تعلیمی دنیا کے تمام افراد اور اداروں میں نظریاتی صحت و توازن کی چھان پھٹک او ردیکھ بھال کا مناسب اہتمام بھی ضروری ہے۔ اس سے نظریاتی ابہام اور بے یقینی کے مریضوں کے بروقت علاج کے امکان روشن ہوجائیں گے۔
5۔ نظریاتی تصانیف ، فلموں اور نشریات کی اشاعت: مختلف ذہنی سطوح کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے مؤثر قسم کی نظریاتی کتب کی تصنیف و اشاعت ہونی چاہیے۔ اسی طرح نظریاتی فلموں اور نظریاتی نشریوں کی اشاعت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔
6۔ نظریاتی تحقیق کے لیے منظّم مرکز کا قیام: نظریاتی لگن کے مختلف پہلوؤں پر ٹھوس تحقیق کے لیے ایک منظم مرکز کا قیام بھی ضروری ہے۔مجوزہ تحقیقی مرکز کے لیے موزوں ترین مقام ادارہ تعلیم و تحقیق، جامعہ پنجاب ہے۔
بقاء اور احیاء کا منطقی لازمہ: نظریاتی نشاۃ ثانیہ کی اُبھرتی ہوئی تحریک کو مثبت و مؤثر سمتیں دینے کے لیے دنیائے تعلیم و تہذیب میں اس قسم کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس حقیقت کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ نظریاتی لگن کے بغیر تعلیم اور زندگی میں تعمیر و تکلیق کی آس لگائے رکھنا جنت الحمقاء میں بسنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اگر ہم ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے اپنی بقاء اور احیاء کے واقعی خواہشمند ہوں تو ان تمام تعمیری اطراف کی جانب بلاتامل پیش رفت لازمی ہے جو ملّی تعلیمی پالیسی میں نظریاتی لگن کو اوّلیت دینے کا منطقی نتیجہ ہیں۔
یہ زندگی تری، تجھے شرم و حیا نہیں
مقصود ِ زیست سے جو بشر آشنا نہیں وہ نام کا بشر ہے مگر کام کا نہیں
انسان معاملات میں جوبھی کھرا نہیں وہ لاکھ پارسا ہو مگر پارسا نہیں
جو اپنی مشکلات بھی خود حل نہ کرسکے وہ کوئی ہو کسی کا بھی مشکل کُشا نہیں
مکروفریب، بادہ و ساغر، سرود و رقص یہ زندگی تری، تجھے شرم و حیات نہیں
لایا ہے کون اُن کو عدم سے وجود سے جو لوگ کہہ رہے ہیں وجود خدا نہیں
اللہ کا کرم ہے کہ اللہ کے سوا یہ سرکسی کے سامنے اب تک جھکا نہیں
مست مے نشاط جو رہتا ہو رات دن اک راہ زن ہے قوم کا وہ راہنما نہیں
گھبرا نہ اے مریض، خدا پرنگاہ رکھ ایسا کوئی مرض نہیں جس کی دوا نہیں
دُکھ ہو، کہ سُکھ تو مرضی مولا پر سرجھکا مومن نہیں جو پیکر صبر و رضا نہیں
اُس سے کسی بھی فائدے کی آس رکھ نہ تُو سینے میں جس کے دل تو ہے خوف خدا نہیں
تو سامنے رہےمرے میں سامنے ترے اس کے سوا کوئی بھی مرا مُدعا نہیں
وہ جارہا ہے محفل دنیا سے دوستو عاجز کو رنگ محفل دُنیا جچا نہیں