اسلام کا قانون قصاص

[قسط (9)]

قولہ: قاضی صاحب موصوف نے دفعہ نمبر 6 ش12 میں لکھا ہے کہ ''مرد اور عورت کے درمیان نفس سے کم میں قصاص جاری نہ ہوگا۔'' (ترجمان القرآن جلد 90 ع 4 ص21)

اقول: اس مسئلہ میں احناف او رمالکیہ و شوافع کے درمیان اختلاف ہے او راس اختلاف کی اصل بنیاد اس بات پر ہ کہ کیا عورت او رمرد کے اعضاء میں مماثلت ہے یا نہیں؟ احناف کے نزدیک یہ مماثلت مفقود ہے جبکہ جمہور کے نزدیک مماثلت و مساوت موجود ہے۔ احناف اپنے مؤقف کی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چونکہ مرد وزن کے اعضاء کی دیت میں فرق ہے لہٰذا مساوات نہ رہی۔ اب ہم دیکھنا یہ چاہتے ہیں کہ کون سا مؤقف صحیح اور قرین شریعت ہے لیکن تفصیل سے قبل یہ بات ذہن نشین رہے کہ احناف بھی مردوزن میں بحیثیت نفس مساوات تسلیم کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جب مردوزن باعتبار نفس آپس میں مساوات رکھتے ہیں تو اعضاء جو کہ نفس کے تابع ہیں ان میں مساوات نہ ہو۔ لیکن مرد و عورت کے اعضاء میں عدم مماثلت کو ناقص و تام اعضاء پر قیاص کرنا یقیناً غلط مبحث ہی نہیں بلکہ علم و آگہی سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے کیونکہ یہاں تو عدم مماثلت مبنی برجنس ہے جبکہ وہاں جنس کے اعتبار سے قطع نظر صفات |ظاہریہ کو معتبر سمجھا جاتاہے۔ حالانکہ جو مماثلت معتبر ہے وہ ظاہری ہے اسی وجہ سے یمنی، یسری اور ناقص و کامل کا فرق کیا جاتا ہے او ردوسری عدم مماثلت دین کی بنا پر ہوسکتی ہے۔

قولہ: قصاص لیتے وقت تمام ورثاء کا موجود ہونا ضروری ہے کیونکہ ہوسکتا ہے جو ولی غائب ہو وہ معاف کردے (دفعہ نمبر 5 ش4)

اقول: لیکن جب موصوف کو یہ تسلیم ہے کہ ایک وارث باقی ورثاء کی طرف سے باجازت قصاص لے سکتا ہےتو پھر حاصری کا وجوب چہ معنی؟ اسی طرح جب نابالغ کے بلوغ ہونے کا انتظار شرط نہیں تو یہ انتظار کیوں؟ جب کہ وہاں بھی ممکن ہے کہ بالغ بعد از بلوغت اُسے معاف کردے یا دیت اخذ کرلے بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ ولی نابالغ کو حق عفو سےمحروم کیا جانا بھی تسلیم ہو۔

آلہ قصاص: اس بات میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ کیا قصاص بالمثل ضروری ہے یا نہیں۔؟

احناف کے نزدیک قصاص صرف تلوار ہی سے لیا جاسکتا ہے جب کہ باقی جمہور علماء کا مسلک ہے کہ جس طرح قاتل نے قتل کیا ہو اُسی طرح قتل کرنا چاہیے الا یہ کہ کوئی شرعی مانع موجود ہو۔ قاضی موصوف نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کو ترجیح دیتے ہوئے جمہور کے دلائل کے متعلق فرمایا کہ: ''ان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ'' جیسی آیات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدی اور زیادتی منع ہے حالانکہ یہاں تعدی صوری و معنوی مراد ہے تبھی تو موصوف کے آئندہ معارضہ کا جواز ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ قرطبی نے ''فمن اعتدیٰ علیکم'' کے عموم کو متفق علیہ کہا ہے علامہ جزیری مماثلت کے اس عمومی مفہوم کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

''یشترط أن تراعی المماثلة في طریق القتل و تراعی في الکیفیة و المقدار ففي التجویع یحبس مثل تلك المدة و یمنع عنه عن الطعام في الإلقاء في الماء إذا لنا ر یلقی في ماء و نار'' (فقہ علی المذاہب : ج5 ص306)

اس کے علاوہ انہی ورآیات کے تحت خود شوافع و احناف کا دعویٰ ہے کہ ایسی چیز میں جن کا وزن وغیرہ نہ ہوسکے اُن میں مماثلت ضروری ہے۔چنانچہ علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

''فقال الشافعي و أبوحنیفة و أصحابھما و جماعة من العلماء علیه في ذٰلك المثل ولا یعدل إلیا لقیمة إلا عند عدم المثل ۔لقوله تعالیٰ فمن اعتدى عليكم و قوله تعالیٰ وان عاقبتم فعاقبوا قالوا وھذا عموم في جمیع الأشیاء کلها..... لا خلاف بین العلماء أن ھذا الآیة أصل في المماثلة في القصاص فمن قتل بشيء قتل بمثل ما قتل به وھو قول الجمهور۔'' (تفسیر قرطبی:ج2 ص358)

یعنی اس آیت کے عموم تماثل میں کسی کو اختلاف نہیں او رجمہور کا بھی اس آیت کی بنیاد پر یہی مسلک ہے کہ قتل میں مماثلت ہونی چاہیے لیکن افسوس کہ اعضاء و جوارج اور دیگر تعزیری معمولات میں مماثلت کو بنیاد بنانے والے یہاں پر کیوں کلیہ تماثل سے فرار اختیار کرتے ہیں۔

بنابریں میں اس مقام پر اس حقیقت کا واشگاف الفاظ میں اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میرے مطالعہ و مشاہدہ یا معلومات کی حد تک یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچی ہےکہ حضرات احناف ایک طرف جہاں باب الجبل کا سہارا لے کر مذہبی دنیا میں عیش و عشرت کے طالب ہیں وہاں انہیں اس بات میں بھی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ اگرانہیں کسی مقام پر حدیث کے برعکس اپنے مسلک کو ٹھیس پہنچتی نظر آئے تو وہ حدیث کو ضرور ترک کردیں گے۔ اس ضمن میں خواہ اُن کے اپنے اصول بھی نظر انداز ہوجائیں۔ یعنی آپ دیکھیں کہ بہرطور انہیں جمہو رکی مخالفت مقصود ہےقطع نظر اس سے کہ قرآن و حدیث سے اس کی تاوید ہوتی ہے یا نہیں؟ ان کے اصول انہیں اجزت دیتے ہیں یا نہیں؟ جیسا کہ آپ اس موقع پر دیکھ رہے ہیں دراصل یہ تمام فتنہ تقلیدی ہی کی شرانگیزیاں ہیں ۔ أعاذنا اللہ منه۔

احادیث: ان آیات کے علاوہ بہت سی احادیث بھی مسلک جمہور کی مؤید ہیں مثلاً حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں میں رکھ کر پھسل دیا جس کی وجہ سے وہ قتل ہوگئی تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس سے ایسے ہی قصاص لیا۔ (منتقی)

علامہ شوکانی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

''وفیه أیضا دلیل علی أنه یجوس القرد بمثل ما قتل به المقتول وإليه ذھب الجمهور و یؤید ذلك قوله تعالیٰ وان عاقبتم و قوله تعالیٰ فاعتدوا عليه و قوله تعالیٰ وجزاء سيئة  سيئة مثلها '' (نیل الاوطار:ج7 ص19)

اسی طرح قبیلہ عکل کے افراد کو بھی نبی علیہ السلام کا قصاص مثل میں قتل کرنا جمہور کی تائید کرتا ہے۔ نیز آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ''من حرق حرقنا ه ومن غرق غرقناه'' (بیہقی)

یہ حدیث اسنادی لحاظ سے محل نظر ہونے کے ساتھ اس کا پہلا حصہ اگرچہ موانع شرعیہ میں آسکتا ہے لیکن یہ بھی محل نظر ہے جیسا کہ علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

''لا یعذب بالنار إلارب النار صحیح إذالم یحرق فإن حرق حرق یدل عليه عموم القرآن قال الشافعي إن طرحه في النار عمدا طرح في النار حتی یموت'' (تفسیر قرطبی : ج2 ص359)

یعنی قصاص نہیں بلکہ عمومی انتقام و سزا کے طور پر یہ مانع معتبر ہوگا چنانچہ موصوف ہی ابن ماجشون کے جواب میں فرماتے ہیں:

''وذھب الجمھور إلی أنه یقتل بذلك لعموم الآیة'' (ایضاً : ج2 ص358)

یعنی آگ او رزہر کے قصاص میں قاتل کو ویسے ہی قتل کرنا جمہو رکا مسلک ہے ۔ بہرحال دوسرے جزء سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ قصاص بالمثل جائز ہے۔ لیکن ان الفاظ کے متعلق یہ کہنا کسی طرح بھی درست نہین کہ غرق کی نسبت آنحضرتﷺ نےاپنی طرف کی ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کہ واضح الفاظ ''جمع متکلم'' کے ہیں واحد متکلم کا صیغہ نہیں۔ اس فرق کا علم اگر فاضل مضمون نگار کو نہ ہو تو کم ا زکم صَرف کی ابتدائی کتب پڑھنی چاہیئیں کہ ''اطلبوا العلم من المھد إلی اللحد'' کے تحت اس میں شرم و حیا کا کوئی واسطہ نہیں۔ مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ احناف اسی حدیث کو وجوب قصاص کی دلیل بناتے ہیں لیکن استیضائے قتل قصاص میں اس پر عمل نہیں کرتے۔ علامہ جزیری فرماتے ہیں:

''قد استدل أحناف بھذا الحدیث في وجوب القصاص ولم یعملوا به في الاستیفاء'' (فقہ علی المذاہب: ج5 ص308)

بہرحال متعدد ایسے مقامات بطور استشہاد پیش کیے جاسکتے ہیں جن میں آنحضرتﷺ نے جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ اپنی نسبت کی وساطت عام مسلمانوں کو مخاطب فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے نزدیک یہ بات ایسے ہے تو جس بات کو نبی علیہ السلام امت مسلمہ کا اصول قرار دیں وہ تو قاعدہ کلیہ نہ ہو؟ او رجسے موصوف کا ضمیر تقلیدی قرائن سے ترجیح دے وہ قاعدہ مطردہ؟ تو فرمائیے کیا یہی ''فلاوربك'''' فليحذر'' ''من يشاقق الرسول'' ''إن تنازعتم'' اور ''أطيعوا'' جیسے سینکروں فرامین الٰہیہ کا منشاء و مراد اور تقاضا ہے۔

؎ جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے

قود کا تحقق : قاضی صاحب موصوف نے اپنی تحریر دلپذیر میں احناف کی تائید میں حدیث ''لا قود إلابالسیف'' کو پیش فرمایا ہے کہ اس میں قصاص صرف تلوار ہی سے کہا گیا ہے لیکن ہمیں افسوس ہے کہ لفظ ''سیف'' کی تخصیص و تقیید کو موصوف نے خود یوں ختم کردیا ہے کہ یہاں سیف سے مراد ''سلاح'' ہے یعنی ہر وہ آہنی آلہ جو تلوار کی طرح چیر پھاڑ کر ٹکڑے کرسکتا ہو۔ اس عموم سے معلوم ہوا کہ تلوار کے علاوہ تلوار جیسے آہنی آلہ سے قصاص لیا جاسکتا ہے۔'' (ص 11)

حالانکہ یہ اصول بھی احناف کے خلاف ہے لیکن ہم موصوف سے یہ سوال کرنے میں مجاز ہیں کہ سیف سے ''سلاح'' کا معنی او رپھر اطلاق و عموم کس آیت یا حدیث کی بنا پر ہے او راگر یہ آپ کو بھی تسلیم ہے تو جمہور کے نزدیک بھی تو یہی چیز ہے۔

اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز ہیں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

موصوف کی وسعت نظر : حدیث ''لا قود إلا بالسیف'' ابن ماجہ صفحہ 196 پر دو سندوں سے مذکور ہے لیکن دونوں اسناد میں جابر اور مبارک بن فضالہ راوی ضعیف و مدلس ہیں۔ لیکن اس سےقطع نظر موصوف کے مبلغ علم اور وسعت نظر کا اندازہ اس سے لگائیے کہ غیر شعوری طور پر وہ قود کے تحقق کو تلوار یا اس کے مثل آہنی آلہ سے خاص کر رہے ہیں حالانکہ یہ بات اُن کے بیان کردہ اصول کے خلاف ہی نہیں بلکہ علم لغت سے معمولی دلچسپی رکھنے والا مبتدی بھی جانتا ہے کہ قود کا تحقیق اس تقیید کے علاوہ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے:

''أقاد عمرؓ من ضربة الدرة'' اور حضرت علیؓ کے متعلق ''أقاد علي ابن أبي طالب من ثلاثة أسواط'' (تفسیر قرطبی: ج6 صفحہ 207)

تو کیا حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما نے کوڑے کے بدلے تلوار سے بدلہ لیا تھا؟ بلکہ قود کا اطلاق اس وقت بھی درست ہوتا ہے جب کہ تلوار کے بغیر کسی اور آلہ سے قصاص لیا جائے۔

دراصل معلوم یوں ہوتا ہے کہ موصوف کو اس کے لغوی و اصطلاحی معنی میں مغالٰطہ ہوا ہے کیونکہ ویسے تو قود قصاص کو کہتے ہیں۔لیکن مذکورہ حدیث میں اس کا محل دو وجہ سے ممکن ہے۔ اوّل یہ کہ اس وقت آخر قتل بالسیف تھا تو بالمثل بھی ویسے ہی ہونا تھا۔ چنانچہ آپ نے اغلب پرمحمول کرتے ہوئے یہ فرمایا: دوم قود اور سیف میں معنی کا توسع ہوسکتا ہے جیسا کہ خود موصوف بھی تسلیم کرتے ہیں۔

دوسری غلط فہمی: علم لغت میں عدم دسترس کے باعث موصوف کو دوسری غلط فہمی یہ ہوئی کہ انہوں نے سلاح کے ضمن میں تلوار کے تشابہ کو ضروری خیال کیا ہے۔حالانکہ جب سیف کے معنی ''ما یضرب بہ'' میں خود اتنی وسعت ہے تو سلاح میں تو بالاولیٰ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ازہری کی تقیید کے باوجود علامہ زبیدی نے استشہاداً شعر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلاح کا اطلاق عصا یعنی لاٹھی پر ہوتا ہے۔

ولست بعرفة عرك سلاحي

عصا مثقوبة تقص الحمارا

عود الیٰ المقصود: غرض یہ کہ قصاص میں مماثلت جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے الا یہ کہ کوئی شرعی مانع موجود ہو امام ابن العربی فرماتے ہیں|:

''والصحیح من أقوال علمائنا أن المماثلة واجبة'' (قرطبی: ج2 ص358)

امام قرطبی احناف کے دلائل پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

''والصحیح ما ذھب إليه الجمهور'' (ایضاً : ج2 ص359)

ائمہ کا عمل: یہ تو آپ معلوم کرچکے ہیں کہ قرآن و سنت کے مطابق جمہور کا جو عمل ہے اس کے برعکس احناف کا مذہب کن دلائل پر کتنا قوی ہے؟ لیکن ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ احناف بعض اوقات بعض جزوی مسائل میں اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ فلاں فلاں تابعی نے یوں کہا لہٰذا ایسے کیوں ممکن نہیں؟ ہمارے لیے یہ بات اس وجہ سے اگرچہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ ہم کسی کے مقلد نہیں او رہمارا ایمان ہے کہ کائنات میں گذرے ہوئے، آنے والے اور موجود انسانوں کی آراء اگر کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کا حکم ان كے اپنے  فتوؤں کے خلاف ہو تو ہمارے لیے آنحضرتﷺ کا حکم ہی قابل اطاعت ،مشعل راہ او رباعث نجات ہوگا اور ''وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا'' کا تقاضا بھی یہی ہےاو رہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ؎

ما أھل حدیثیم و غارانہ شناسیم

برحدیث نبوی چوں و چرا نہ شناسیم

اور اس کے بعد اگر کسی صحابی، امام، تابعی، بزرگ، ولی، قطب،ابدال یا بعد میں آنے والے کا قول اگر حدیث نبوی کے مطابق ہوتو فبہا۔ ورنہ وہ مردود تصور ہوگا او راسے مطابق سنت اخذ کرنےکی صورت میں اصل مبنی سنت نبوی ہی سمجھا جائے گا اور اس کی تائید وغیرہ محض اضافہ و اتفاق امر ہوگا۔

لیکن احناف مقلدین کے نزدیک بہرصورت اپنے پیشرو حضرات کی طرح حدیث نبوی کو تو ترک کیا جاسکتا ہے لیکن اپنی رائے یا قول امام کو ترک نہیں کیا جاسکتا جس کی تائید مین متعدد امثلہ پیش کی جاسکتی ہیں لیکن بخوف طوالت ہم اس مسئلہ میں اپنی طرف سے رائے زنی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔علامہ قرطبی کے ریمارکس جو انہوں نے امام ابوحنیفہ کے قول کے متعلق دیا ہے کو قارئین کی نظر کرنا بھی کافی سمجھتے ہیں او ردرخواست کرتے ہیں کہ وہ فقہ حنفی کے مالہ و ما علیہ کو اچھی طرح سمجھیں کہ تقلید کا اصل ہدف کیا ہے۔علامہ قرطبی اس مسئلہ پر تفصیلی بحث لکھنے کے بعد رقم طراز ہیں:

''وھذا منه رد للکتاب والسنة وإحداث مالم یکن عليه أمر الأمة و ذریعة إلى دفع القصاص الذي شرعه الله للنفوس فلیس عنه مناص'' (قرطبی: ج2 ص360)

یعنی امام ابوحنیفہ کا یہ قول و فتویٰ کتاب و سنت کے رد کرنے کے مترادف ہے او راُمت مسلمہ کے متفقہ فیصلے سے بغاوت ہے او راللہ تعالیٰ نے از راہ شریعت جس قصاص کو انسانوں پر لازم کیا ہے اُسے ختم کرنےکا بہانہ ہے حالانکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔

بہرحال ہم از راہ تفصیل یہ بتانا چاہتے ہیں کہ متعدد اصحاب علم کا بھی یہی خیال ہے کہ قصاص بالمثل ہوگا۔ امام بیہقی فرماتے ہیں:

1۔ أخبرنا..... أنبأنا أشیاخنا الذین أدرکوا النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أن رجلا رمی رجلا بحجر فأقاده النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم به۔

2۔ أخبرنا...... عن مرداس أن رجلا رمی رجلا بحجر فقتله فأتی به النبي صلی اللہ علیہ وسلم فأقاده منه۔

أخبرنا..... أن عبداللہ بن مروان أقادرجلا من رجل قتله بعصا فقتله بعصا (سنن الکبریٰ:ج8 ص43،62)

عن أیاس بن معاویة قال کل شيء یقتله فإنه یقاد به نحو الحجر العظیم والخبشة العظیمة التي تقتل۔

عن هشام بن عروة أنه حدثه أن ابنا لصھیب أخذا بنالحاطب فضربه بخشبة معه حتی ظن أنه قد قتله فذکر الحدیث وإنه مات منھا وإن الصھیب دفع إلی ولي حاطب فضربه بعصا معه في الرأس حتیٰ تظاهرت شؤون رأسه فمات و عروة بني الزبیر جالس لا ینکره۔

قال قتادة إن قتل بحجر قتل بحجر وإن قتل بخشبة قتل بخشبة وھو قول أبان بن عثمان۔

7۔ عن میمون بن مهران أن یهود یاقتله مسلم بفهر فکتب میمون في ذٰلك إلیٰ عمر بن عبدالعزیز فکتب إليه عمر یأمره بدفعه إلیٰ أم الیهودي فدفعه إلیھا فقتله بفھر۔

قال مالك إن قتله بحجر أوعصی أو بالنار أو بالتغریق قتل بمثل ذٰلك یکرر عليه أبداحتی یموت '' (محلی ابن حزم: ج10صفحہ 371)

بہرحال ان آثار و روایات جیسی مصنف عبدالرزاق میں دوسری عبارتوں سے معلوم ہوتی ہے کہ متفق علیہ بات یہی ہے کہ قصاص بالمثل ہوگا۔ امام ابن حزم ان آثار کو نقل فرمانے کے بعد رقم طراس ہیں کہ:

''وبه یأخذ مالك والشافعي و أبوثور و أحمد بن حنبل و إسحاق و ابن المنذر و أصحابھم و غیرھم'' (محلی: ج10 ص371)

حصول مقصد: اس کے علاوہ اگر عقلی طو رپربھی دیکھا جائے تو انسان کا طبعی تقاضا یہی معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کو اسی طرح قتل کیا جائے جس طرح اُس نے مقتول کو قتل کیا تھا اور ولی قصاص کی تشفی جوکہ قصاص کا اصل مقصد ہے وہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے۔ علامہ عبدالرحمٰن الجزیری فرماتے ہیں:

''ولأن المقصود من القصاص التشفي وإنما یکمل إذا قتل بمثل ما قتل'' (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ: ج5 ص306)

لیکن نامعلوم ولی قصاص کو حق عفو سے اسی بنا پر محروم کرنے والے کہ اُسے نابالغ یا مجنون کے حق کا اسقاط حاصل نہیں کیونکہ اسی طرح تشفی کا حصول ناممکن ہے۔ اس مقام پر حصول تشفی کی کاطر اس تمثیلی اقدام سے کیوں گریزاں ہیں۔کیا محض مخالفت تو مقصود نہیں کمامر۔ بہرحال ؎

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

شرعی موانع: شرعی موانع میں بعض نے از راہ معارضہ اگرچہ حدیث ہی یعنی ''لا یعذب بالنار الارب النار'' کوبھی پیش کیا ہے جس کی توجہیہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہ مکافات عمل میں مانع نہیں بلکہ اقدام عمل میں مانع ہے جیسا کہ علامہ جزیری بھی مثلہ کے تحت فرماتے ہیں:

''وحدیث النھي عن المثلة محمول علی من وجب قتله لا علی وجه المکافات'' (الفقہ علی المذاھب: ج5 ص306)

دوسرا مانع بعض نے لواطت کو شمار کیا ہے یعنی لواطت چونکہ نصاً حرام ہے لہٰذا اس کے ذریعے قصاص نہیں لیا جاسکتا او راسی طرح شراب کا مسئلہ ہے۔ علمائے جمہو رایسی صورت میں قاتل کو تلوار سے قتل کرنے کے قائل ہیں اور شوافع کے نزدیک اصول مماثلت کے تحت لواطت کا کام لکڑی سے اور شراب کا کام پانی سے لیتے ہوئے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

''..... وھو قول الجمهور مالم یقتله بفسق کاللوطیة وإسقاء الخمر فیقتل بالسیف وللشافعیة قول إنه یقتل بذلك فیتخذ عود علی تلك الصفة ویطعن به في دبرہ حتی یموت و یسقی عن الخمر ماء حتیٰ یموت'' (تفسیر قرطبی: ج5 صفحہ 358)

اس مقام پر جمہور کا مذہب اس وجہ سےصحیح معلوم ہوتا ہے کہ لواطت کی حد تو مقرر ہے لہٰذا اسے وہی سزا دی جائیگی۔ علامہ جزیری فرماتے ہیں:

''أمالو ثبت اللواط بأربعة شھود فیکون حده الرجم بالحجارة حتی یموت وکان غیر محصن'' (الفقہ علی المذاھب : ج5 ص304)

او رجہاں تک شراب کا تعلق ہے وہ چونکہ نص صریح سے حرام ہے لہٰذا ایسے شخص کو کثرت سے پانی پلا کر ختم کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ ایک مانع جادو کوبھی سمجھا گیا ہے چنانچہ یہاں بھی عدم مماثلت کے تحت جمہو رکا قول ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی بھی حد معلوم و متعین ہے جس سے اصل مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ علامہ جزیری فرماتے ہیں:

''وکذلك بالسحر و ثبت عليه بالبینة أوإ قرار فیتعین قتله بالسیف ولایلزم بفعل السحر مع نفسه حتی یموت لأن الأمر بالمحصیة محصیة'' (الفقہ علی المذاھب: ج5ص304)

ان موانع کے علاوہ بعض نے کثرت طعام، بھوک،پیاس وغیرہ کو بھی شامل کیا ہےاور ایسی صورتوں میں بعض نے کہا ہے کہ اُن کو تلوار ہی سے قتل کیا جائے گا۔ وللتفصیل الفقه علی المذاھب للجزری و تفسیر قرطبي۔ والله أعلم۔

ایک مفروضہ: قاضی صاحب موصوف نے اپنے زور قلم سے ایک مفروضہ کے ذریعہ بھی احناف کے موقف کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا'' سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے تلوار کے علاوہ قصاص لینے کی صورت میں ایک دفعہ سے قتل نہ ہو تو پھر دوبارہ وار کیا جائے گا۔یعنی متعدد ضربات وجود میں آئیں گی اب اگر ایک ضرب کے بعد مجرم کو ترک کردیا جائے تو قصاص ممکن نہ ہوگا اور بصورت دیگر مماثلت قائم نہ ہوگی اور تعدی ہوگی۔ حالانکہ موصوف کو یہ معلوم ہوناچاہیے کہ جو معارضہ انہوں نے جمہور کےمسلک کے ضمن میں تعدد ضربات کا پیش کیا ہے وہی معارضہ قصاص بالسیف کی صورت میں متحقق ہوسکتا ہے۔مثلاً اگر کسی شخص نے گولی یا پتھر وغیرہ سے قتل کیا تو قصاص میں اُسے تلوار سے قتل کرنے میں مماثلت نہ ہوگی اور ممکن ہے کہ تلوار سے قتل کرنے کی صورت میں نقص آلہ یا قصور جلّاد کی وجہ سے وہ ضرب واحد میں قصاصاً قتل نہ ہوسکے تو بھی خون بغیر بدلہ کے رہ جائے گا یا تعداد ضربات معرض وجود میں آئیں گی۔ فما کان جوابکم فھو جوابنا۔

شرعی ہدایت: موصوف نے اپنی تحریر میں بڑے پُرفریب الفاظ میں کہا ہے کہ شرعی ہدایت بھی ہے کہ جانور کو آسان طریقہ سے قتل کیا جائے اور آلہ قتل کو اچھی طرح درست کرلیا جائے لیکن اس مقام پر مذکور حدیث سے استدلال خود فریبی کے مترادف ہے کیونکہ واضح ہے کہ اس حدیث کا محل او رمابہ النزاع مسئلہ میں بُعد المشرقین ہے او راس بات کو تسلیم کر بھی لیاجائے تو آنحضرتﷺ نے جو عمل یہودی کے ساتھ کیا اُس کاکیا حکم ہوگا؟ اسی طرح وفدر علی وذکوان کے متعلق سلوک پر کیا فتویٰ ہے؟ اور رجم کی سزا بھی کیا اس شرعی ہدایت کے منافی نہ ہوگی؟ نیز موصوف ''یصلبون'' کے تحت پھانسی کی جو تعریف رقم فرما چکے ہیں کیا وہ بھی اس شرعی ہدایت کا تقاضا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ صرف قول امام کو صحیح اور راجح ثابت کرنےکی ناکام و مذموم کوشش ہے ورنہ اس سے قطع نظر اگر مقتضائے شریعت اور قرآنی سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل منتہائے احسان یہ ہے کہ اسی طرح بدلہ لیاجائے۔ چنانچہ امام حزم فرماتے ہیں:

''وھذا صحیح و غایة المحسان في القتلة ھوأن یقتله بمثل ما قتل ھو وھٰذا ھو عین العدل والإنصاف والحرمات قصاص'' (محلی : ج10 ص375)

اور بالخصوص جب موصوف خود تلوار جیسے آہنی آلہ کو قصاص میں آلہ قتل تسلیم کرتے ہیں تو پھر شرعی ہدایت کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔

قولہ: اکراہ تام میں فعل جبر کرنے والے کی طرف ان تمام صورتوں میں منسوب ہوگا جن کے اندر مجبور شخص صرف ایک آلہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہو او رجن کے اندر صلاحیت نہ رکھے ان صورتوں میں فعل مجبور کی طرف منسوب ہوگا یعنی جماع اور اقوال کے اندر مجبور الہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے کہ کوئی دوسرے کے منہ سے کلام نہیں نکلوا سکتا۔(دفعہ نمبر 10)

اقول: دراصل موصوف کو اکراہ تام وغیرہ کی تعریف سے مغالطٰہ ہوا ہے ورنہ ہر ایک جانتا ہے کہ اکراہ کا تحقق جماع او رکلام میں بھی ممکن ہے ورنہ اکراہ کی اصطلاح ختم کرنا ہوگی اور کسی کے ہاتھ سے کوئی قتل اور چوری وغیرہ کیسے کروا سکتا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر یا مبسوط الایضاح او رالواضی وغیرہ میں اکراہ کی جو تعریف کی گئی ہے ان میں یہ لفظ مشترک ہے کہ:

''وأما في اصطلاح الفقهاء فقد ذکر في المبسوط أن الإکراه اسم لفعل یفعله المرء بغیره فینتفي به رضاه أو یفسد به اختیاره من غیر أن ینعدم به الأھلیة في حق المکره'' (فتح القدیر: ج7 ص292)

اسی عبارت میں خط کشیدہ الفاظ خصوصی توجہ کے محتاج ہیں کہ اس تعریف کے پیش نظر جماع و اقوال میں جب انتفاء رضا یا فسد اختیار بغیر انعدام صلاحیت کے ممکن ہو تو ان پر اطلاق اکراہ یا اس کا تحقق کیوں ناممکن ہے؟ اور خود قاضی صاحب اس تعریف کی یوں ترجمان فرماتے ہیں۔ اکراہ تام ہو یا ناقص اس سے مجبور کی رضا ختم ہوجاتی ہے۔

علاوہ ازیں اقوال سلسلہ میں ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ کلام الٰہی میں بھی اکراہ کا اطلاق ہوا ہے۔ یعنی ''مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ'' اس آیت کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے علامہ ابن الہمام حنفی نے اس آیت کو بطور استشہاد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ''وإن أکره علی الکفر باللہ تعالیٰ والعیاذ بالله أو سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقید أو حبس أو ضرب لم یکن ذٰلك إکراها حتی یکرأ بأمر یخاف منه علی نفسه و علی عضو من أعضائه'' ( فتح القدیر: ج7 ص299)

موجب اکراہ کی تفریق تو یہاں اگرچہ ناقابل فہم ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا کفر کا اطلاق قول پر بھی ہوتا ہے یا نہیں او راسی طرح کیا سب رسول اللہ ﷺ بھی قول کے علاوہ تحقیق پذیر ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یقیناً اس کاجواب اثبات میں ہے جیسا کہ موصوف نے دفعہ نمبر13 میں تسلیم کیا ہے تو پھر موصوف کا یہ کہنا کہ اقوال میں نسبت مجبور کی طرف ہوگی علمی بے مائیگی ہی کا مظہر ہوگا۔

اور دوسری صورت یعنی جماع میں اگرچہ آلہ تناسل کا انتشار و استادگی مشعر بالرضا ہے لیکن یہ بھی محض سطحیت ہے او ریقیناً عدم رضا کی شرط یاشق بھی تعریف اکراہ میں اس قسم کے سطحی ذہن کے اطمینان کے لیے رکھی گئی ہے لیکن موصوف کے وسعت مطالعہ پر آپ جتنی داد دیں کم ہے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اکراہ علی الجماع کی ایک صورت میں تو تمام کا اتفاق ہے جس کی نسبت سلطان کی طرف ہوگی۔ البتہ غیر سلطان میں اختلاف ہے لیکن اس میں بھی صرف امام ابوحنیفہ ہی منفرد ہیں۔چنانچہ علامہ عبدالرحمٰن الجزیری اس تفصیل کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''ومن أکره السلطان حتیٰ زنا بامرأة فلا حد عليه لأن السبب الملجي إلی الفعل قائم وھو قیام السیف وکذاالمرأة المکرھة لا تحد بالإجماع فإن حصل الإکراه من غیر سلطان اختلف فيه..... الشافعیة والمالکیة والحنابلة والصاحبان قالوا لایقام الحد علی المکره بغیر سلطان'' ( الفقہ علی المذاھب:ج5 ص؟؟؟)

یعنی ائمہ ثلاثہ کے علاوہ امام محمد اور قاضی ابویوسف کے نزدیک میں امور بالا میں اکراہ مستحق و معتبر ہوگا۔

قولہ: اکراہ ناقص سے وہ اکراہ مرا دہے جس میں قتل نفس ، قطع عضو یا اعضاء یا کل مال لینے سے کم درجہ کی دھمکی دی گئی ہو او رایسی صورت میں عمل کرنے پر حد مجبور پر ہوگی اور جابر کو محض تعزیری سزا ہوگی۔'' (دفعہ نمبر 11)

اقول: کیا دو تہائی مال پر اکراہ کا اطلاق نہ ہوگا؟ تحفظ عزت بھی اکراہ ناقص کے تحت غیر معتبر ہوگا؟ حبس دوام بھی اکراہ کے دائرے میں شامل نہیں؟ اور کیا ضرب شدید سے بھی اکراہ تام کا تحقق ممکن نہیں؟ اور کیا اُن کا غم اضطرار کو واجب نہیں کرتا؟ علاوہ ازیں موصوف فرماتے ہیں:''اکراہ کی یہ قسم ان امور میں مؤثر ہوگی جو رضا پر موقوف ہیں، حالانکہ جب موصوف ہی کے اعتراف کے مطابق اکراہ ناقص سے بھی رضا معدوم ہوجاتی ہے تو پھر اس نوٹ کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟

اکراہ سے اباحت: اس چیزمیں اختلاف نہیں کہ اکراہ سے محرمات کی اباحت بھی مشعر ہوتی ہے کہ: ''إلامن أكره'' او ر''إلاما اضطررتم إليه'' کے الفاظ کا یہ تقاضا ہے ۔ قاضی موصوف فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص ایسی اباحت پر عمل نہ کرے تو گنہگار ہوگا یعنی اس نے اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہیں کیا او راپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ (ملخصاً)

لیکن یاد رہے یہاں مسئلے کی صورت ارتکاب اباحث اور عزیمت کے انتخاب سے متعلق ہے چنانچہ اگر کوئی شخص ارتکاب اباحت کرتا ہے تو بھی درت اور اگر کوئی عزیمت و استقلال کا مظاہرہ کرتا ہےتو اسے گنہگار کہنا یقیناً گنہگار ہونے کے مترادف ہے کہ ایسی صورت میں ان صحابہ و ائمہ رضوان اللہ علیہم کے متعلق کیا خیال ہوگا۔ جنہوں نے ارتکاب اباحت پر عزیمت کو ترجیح دی۔ اس موقع پر موصوف نے غیر شعوری طور پر صحابہ کرام کی گستاخی کا ارتکاب کیا ہے جس پر انہیں معافی مانگنی چاہیے۔

علاوہ ازیں موصوف تشریح نمبر 2 میں خود فرماتے ہیں ۔ جرائم پر اکراہ کے مقابلے میں عزیمت کا مظاہر کرنا چاہیے کیونکہ کسی مسلمان کونقصان پہنچانے سے بہتر ہے کہ خود کو خاطر پیش کردیا جائے۔ حالانکہ وہ بھی ارتکاب اباحت میں شامل ہے او رپھر کیا فرماتے ہیں قاضی باغ بیچ اس مسئلہ کے کہ اگر کسی شخص کومجبور کیا جائے کہ تم فلاں معین شخص کو قتل کرو۔ لیکن وہ اس کے قتل کے عوض اپنے آپ کو قتل کرلیتا ہے تو (آپ کے ارشاد کے مفہوم کے مطابق کیا وہ شہید ہوگا یا خود کشی کا مرتکب ۔ بینوا توجروا۔

قولہ: مجبور مقتول موروث کی وراثت سے محروم نہ ہوگا او رجابر محروم ہوگا او ریہ اختلاف مذکورہ اختلاف کی نسبت پر مبنی ہے۔ (ملخص دفعہ13)

اقول: جب یہ بات نصاً ثابت ہوچکی ہے کہ اکراہ کی صورت میں نسب فعل جابر کی طرف ہوگی تو یقیناً مجبور محروم از وراثت نہ ہوگا اورجابر کی طرف تحقیق نسبت کی بنا پر وہ شرعاً وراثت مقتول سے محروم ہوگا۔کیونکہ موانع وارث میں یہ بھی شامل ہے ۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے:

''من قتل قتیلا فلا یرثه ومن لم یکن له وارث غیره و إن کان والد أوولدہ فلیس للقاتل میراث۔''

علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:

''أجمع أھل العلم علی أن قاتل العمدلایرث من المقتول شیئا.......'' (مغنی:ج7 ص161)

اور قتل خطاء میں جمہور کا یہ مسلک ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:

'' فأما القتل خطأ فذھب کثیر من أهل العلم إلیٰ أنه لا یرث أیضاً نص عليه أحمد و یروی ذلك عن عمرو علي و زید و عبداللہ بن مسعود و عبداللہ بن عباس وروي نحوه عن أبي بکر رضي اللہ عنهم وبه قال شریح و عروة و طاؤس و جابر بن زید النخعي والشعبي والثوري و شریك والحسن بن صالح ووکیع و الشافعي و یحیی بن آدم و أصحاب الرأي'' (مغنی:ج7 ص161)

اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ ہر قتل جو بغیر حق کے ہو وہ مانع ارث شمار ہوگا۔ ان کے الفاظ ہیں|:

والقتل المانع من الإرث ھو القتل بغیر حق وھو المضمون بقود أودیة أو کفارة کالعمد و شبه الحمد والخطأ وما جری مجری مجری الخطأ (ایضاً)

اس بحث کی تفصیل او رمانع ارث کی حیثیت سے جزوی اختلاف کی وضاحت اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز۔