سابق مفتی دیار مصر فضیلۃ الشیخ حسنین محمد مخلوف کا فتویٰ اسلام میں سنّت نبویؐ کا مقام نہایت ارفع و اعلیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سنّت نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیمات کی شمع فروزاں سے بے اعتنائی کرکے کبھی جادہ مستقیم پر گامزن نہیں ہوسکتے کیونکہ رسول خدا ﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ قرآن پاک کی ہدایت کے خدوخال کی نشاندہی کی۔ اگر ہم سنت نبوی کو یہ کہہ کر ترک کردیں کہ ہمیں کتاب مقدس کی ہدایت کے ہوتے ہوئے کسی اور ہدایت یا رہنمائی کی ضرورت نہیں تو سخت غلطی ہے جوسراسر گمراہی کا موجب ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ فداہ ابی و اُمی کی تعلیمات اور قرآن کریم کی تعلیمات دونون اپوزیٹ اور متضاد نہیں جن کا اجتماع ناممکن ہو بلکہ دونوں کی تعلیمات اور ہدایت حقیقتاً ایک ہی ہے۔ کیونکہ سنّت نبوی کو قرآن کریم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ رسول خداﷺ نے جو کچھ کیا اور جو کچھ فرمایا وہ کتاب اللہ کی روشنی میں فرمایا۔ اس امر کی خود قرآن کریم شہادت دیتا ہے۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
گفتہ او کفتہ اللہ بود ........ گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
اندریں حالات سنت نبوی کی پیروی ، کتاب اللہ کی پیروی اور سنت نبوی کا انکار کتاب اللہ کے انکار کے مترادف ہے۔ دونوں کی پیروی کے مجموعہ کا نام اسلام ہے اگر دونوں میں کسی ایک کوٹھکرا دیں تو ہم اسلام کے جادہ مستقیم سے کوسوں دور ہوجائیں گے اور ضلالت کے گڑھے میں جاگریں گے۔
بعض لوگوں نے ائمہ کی تقلید کے جال میں پھنس کر سنت نبوی کو ٹھکرا دیا او رکہا کہ ہمارے امام صاحب اس حدیث کو بہترجانتے تھے جب انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو ہم کیسے کریں۔ درحقیقت یہ رسول کریم ﷺ کے فرمان کا انکار اور سنت نبوی سے روگردانی ہے۔ان کی قیامت کے روز آنکھیں کھلیں گی۔جب یہ رسول خدا ﷺ کے نافرمانوں کے زمرہ میں شامل کیے جائیں گے اور آنحضرت ﷺ ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ الہٰی! یہ میرے اُمتی کہلانے والے تیری مقدس کتاب اور میری سنت کو پس پشت پھینک کر اپنے علماء اور صلحاء کی پیروی میں مگن رہے۔
اس طرح بعض لوگوں نے یہ کہہ کر سنت نبوی سے منہ موڑ لیا کہ آج چودہ سو سال کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ حدیث تاجدار مدینہ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہے۔ یہ کام سرور کائنات ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے کیا اور کرنے کو فرمایا۔ اس کے برعکس قرآن کریم محفوظ ہے اور قطعی الثبوت ، اس میں شک و شبہات کی گنجائش نہیں اس میں تغیر و تبدل کی جرات نہ کسی کو ہوئی اور نہ ہوگی۔بریں وجہ ہم قرآن پاک پر عمل کرتے ہیں اور حدیث کی پیروی واجب نہیں سمجھتے ۔حدیث ظنی ہے یہ شکوک و شبہات سے بالاتر نہیں۔
دراصل یہ لوگ منکرین حدیث ہیں جو مختلف قسم کے بھیس بدل کر عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ائمہ حدیث نے اپنے اپنے وقت میں ان کو مدلل او رمسکت جواب دے کر خاموش کردیا اور بتایا کہ قرآن کریم کی پیروی سنت نبوی کی پیروی کے بغیر ناممکنات میں سے ہے او رسنت نبوی کی پیروی حقیقتاً قرآن کریم کی پیروی ہے بلکہ قرآن پاک اس امر کی شہادت دیتا ہے رسول خداﷺ کی پیروی اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (نساء)
آج پھر ایک طبقہ انکار حدیث او رانکار سنت نبوی کے لیے بہانے تراش رہا ہے۔یہ کہتے ہیں کہ دنیاوی افسروں او رحکام کی طرح رسول اکرم ﷺ کی بھی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت سے آپ پیغمبرانہ عہدہ جلیلہ پر فائز تھے ۔اس لحاظ سے آپ کے احکام کی پیروی اللہ کی پیروی ہے اور دوسری حضور اکرم ﷺ کی شخصی حیثیت تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ملک او رمعاشرے کے رسم و رواج کے مطابق کچھ کام سرانجام دیئے۔ ان کی حیثیت بس ایک ملکی رواج سے زیادہ نہ ہوگی ۔ ایسے امور کو سنت کا نام دینا اور سنت کہہ کر ورد کرنا جہالت اور دیوانہ پن ہے ایسی سنتوں کی پیروی کوئی موجب ثواب نہیں او رایسی سنتوں کا ترک کرنا موجب گناہ نہیں۔
دراصل ان لوگوں کے ذہن میں انکار حدیث کا بھوت سوار ہے۔اسی لیے وقتاً فوقتاً نئے نئے شگوفے کھلاتے رہتے ہیں۔ ورنہ ایک پختہ ذہن اور راسخ العقیدہ مومن ایسی باتیں کبھی ذہن میں لاہی نہیں سکتا۔ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر پیغمبر ﷺ کی واقعی دو حیثیتیں تھیں تو پھر آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ نے اس کی وضاحت کیوں نہ فرمائی؟ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضور اکرمﷺ کی دو حیثیتوں کےقائل ہوتے تو رسول خدا ﷺ کی حرکات و سکنات تک کی پیروی میں عشق کی بازی کیوں لگاتے؟ پھر ہمارے پاس کون سا معیار ہوگا جس کی رو سے ہم یہ فیصلہ کرسکیں کہ یہ حکم آنحضرتﷺ نے پیغمبرانہ حیثیت سے فرمایا او ریہ حکم ملکی رسم و رواج کے مطابق ہے۔ یہ حکم حضور اکرمﷺ نے رسول خدا ہونے کی حیثیت سے فرمایا او ریہ حکم حضرت محمدؐ بن عبداللہ کی حیثیت سے دیا یا یہ کام رواجی ہے او ریہ کام شرعی حیثیت کا حامل ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ سنت نبوی کے دشمن اسے ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سنت نبوی کی شمع فروزاں کے محافظ ہر زمانہ میں بھیجتا رہا ہے اور قیامت تک یہ شمع یونہی فروزاں رہے گی۔ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
چنانچہ درج ذیل فتویٰ میں محترم جناب حسنین محمد مخلوف سابق مفتی دیار مصر نے سنت نبوی کے تارک کو خارج از اسلام قرا ردیا ہے۔ (سیف الرحمٰن،بی اے)
اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو دین اسلام دے کر مبعوث فرمایا۔ دین اسلام وہ دین ہے جس کے متعلق ارشاد خداوندی ہے۔ ان الدين عند الله الإسلام ''اللہ کے نزدیک (قابل قبول) دین اسلام ہی ہے۔''
نیز یہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا نیز فرمایا: وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران) جو شخص اسلام کے ماسوا کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین ہرگز ہرگز قبول نہیں کیاجائے گا اور آخرت میں اسے خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ یہ لوگوں کے لیے ہدایت کا موجب ہے اور روشنی ہے۔ اس میں ہدایت کے اور اسلام اور کفر میں امتیاز کرنےوالے دلائل موجود ہیں۔ یہ کتاب الہٰی بتدریج آہستہ آہستہ نازل ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے اپنے دین کی تکمیل کردی او رفرمایا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدہ) اور اپنی نعمت (قرآن کریم) تم پر مکمل بھیج دیا او راسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس سے چمٹے رہنے کا حکم فرمایا: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(عمران) تم اللہ کے دین کو اکٹھے ہوکر مضبوطی سے تھام لو اور ٹولے ٹولے مت بنو۔
نیز اپنی او راپنے رسول حضرت محمدﷺ کی اطاعت کا ہراس کام میں حکم دیا جو اس کی طرف اس کے پیغمبر حضرت محمدﷺ پر نازل کیا۔ چنانچہ فرمایا: أطيعوا الله وأطيعوا الرسول (المائدہ) اللہ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی پیروی کرو۔
ایک او رمقام پر فرمایا:وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (النور) اگر تم اس (رسول اکرمﷺ)کی پیروی کرو گے تو ہدایت یافتہ ہوگے۔ رسول خداﷺ کے ذمے تو صرف احکام الہٰی لوگوں تک پہنچانا ہے ۔رہا ہدایت کا معاملہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
ایک اور موقع پر فرمایا: مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (نساء) جو شخص رسول کریمﷺ کی اطاعت کرتا ہے تو درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتاہے اور جو شخص آنحضرتﷺ کی اطاعت سے منہ پھیر لیتا ہے (تو کوئی بڑی بات نہیں) ہم نے آپ (ﷺ) کو ان پرنگران بنا کر نہیں بھیجا۔
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (النساء) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی پر کمربستہ ہوجاتا ہے اور اس کی (مقررکردہ) حدود سے تجاوز کرتا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ میں داخل کرے گا او راس میں سےباہر آنے کی اُمید ہرگز نہیں ہوگی بلکہ اس میں ہمیشہ اور ابدالاباد کے لیے رہے گا (پھر وہاں پر کوئی آرام و آسائش کا سامان نہیں میسر ہوگا بلکہ) ذلیل اور رسوا کرنے کرنے والے عذاب میں بند ہوگا۔ رسول اکرمﷺ کی اطاعت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب ہم حضور اکرمﷺ کی اوامر کی پیروی کریں آپ کی منہیات سے باز رہیں اور آپ کے اقوال و افعال کی پوری پوری پیروی کریں۔
کیونکہ حضور اکرم ﷺ کے تمام اقوال و افعال وحی الہٰی کے ماتحت سرزد ہوتے ہیں۔ جیسے فرمان ایزدی ہے ۔وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم) یعنی حضور اکرم ﷺ کا تکلم اور گفتگو ہمیشہ وحی الہٰی کے مطابق ہوتی تھی۔ اسلامی شریعت میں نبی کریمﷺ کے اقوال و افعال اور اوامر و نواہی کو اصول ثانی کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ پہلا بنیادی اصول کتاب الہٰی ہے جو آنحضرت ﷺ پر تدریجاً کلمہ اور آیت کی شکل میں نازل ہوئی۔ اس لیے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اسلام ان دو اصولوں پر قائم ہے جب تک ان دونوں پر ایمان نہ لایا جائے اور تمام حالات اعمال اور اعتقادات میں ان کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے اس وقت تک کسی کا ایمان درست نہیں ہوگا۔
مسلمانوں نے اس شخص پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے جو قرآن پاک کی کسی آیت یا کلمہ قرآن کا انکار کرتا ہے یا ایسی سنت کا انکار کرتا ہے جو پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہو جیسے کوئی شخص سفر کے ماسوا عصر کی چار رکعت سنت کا انکار کرتا ہے او رجیسے کوئی عصر کی نماز میں قرأت بالجہر پر یقین رکھتا ہے حالانکہ یہ بات قطعی طور پر پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عصر کی نماز میں چار رکعت سنت ہیں اور اس کی فرض نماز میں قرأت سری ہے۔
بریں وجہ ہم نے یہ فتویٰ صادر کیا ہے کہ جو شخص رسول اکرمﷺ کی کسی سنت کو خواہ قولی ہو یا فعلی جو قطعی الثبوت ہو، ترک کرتا ہے او ریہ گمان کرتا ہے کہ سنتوں کی حیثیت اسلام کے ثابت اور متحقق ہونے کے لیے اصول ثانی کی نہیں اور اس کو ترک کرنا جائز تصور کرتا ہے تو ایسا شخص بالاجماع دین اسلام سے خارج ہے او راللہ کا نافرمان ہے کیونکہ جہاں اس نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اپنے رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کو بھی لازم ٹھہراتا ہے۔
دین اسلام امت محمدیہ کےلیے انفرادی او راجتماعی طور پر حق،ہدایت،علم،نور،فضیلت اور کمالات لے کر آیا او راللہ نے اپنے رسول کریمﷺ کو دین اسلام دے کر تمام روئے زمین کے لوگوں کے لیے جو قیامت تک ہونے والے ہیں مبعوث فرمایا۔ایسے نبی کے احکام اور اوامر و نواہی کی تعلیم میں حیلہ سازی کرنا واضح گمراہی اور صریح کفر ہے۔ا س لیے ان دونوں اصولوں کی ترغیب دلانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو ان کا علم ہوجائے اور اسلام میں ان کا عقیدہ یہ ہو کہ یہ دونوں (قرآن و سنت) اسلام کے بنیادی اصول ہیں او ران میں کوتاہی برتنے والے کو ہر ممکن طریقہ سے انتباہ کیا جائے تاکہ حق اور دین اسلام کا قیام ہو اور کفر،گمراہی اور فساد کی جڑ کاٹی جائے۔ اللہ ہی ان امور کی توفیق دینے والا ہے او رراہ راست کی ہدایت دینے والا ہے۔
اس عقیدہ کی نشرواشاعت تمام اسلامی ممالک میں ضروری ہے ۔ رہا ہدایت کا معاملہ تو وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ والله یھدي من یشاء إلی صراط مستقیم۔
(فضیلۃ الشیخ )حسنین محمد مخلوف سابق مفتی دیار مصر
ماخوذ از اخبار العالم الاسلامی باب 4 دسمبر 1978ء۔ عدد نمبر 605