تعارف و تبصرہ کُتب

(1)


فضائل القرآن : مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مرتب : جناب حفیظ الرحمٰن احسن

صفحات : 155

قیمت : 25؍8 روپے

پتہ : البدر پبلی کیشنز، اُردو بازار لاہور

کسی زمانہ میں بانی جماعت اسلامی حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ہفتہ وار ''درس حدیث'' دیا کرتے تھے ، ان دروس کا اندازہ تدریسی کے بجائے دعوتی ہوتا تھا، اس لیے وہ خاصے مقبول رہے۔

حدیث سے مولانا موصوف کے اس شغف اور دلچسپی سے جہاں تفہیم الحدیث کے لیے نئی نئی راہیں کھلی ہیں وہاں اس واویلا اور غوغا کی بھی قلعی کھل گئی ہے جو حدیث کے سلسلے میں مولانا کے خلاف بلند کیا گیا تھا۔ ہاں بعض اعتبارات سےمولانا سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی حیثیت علمی سے زیادہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس معاملہ وہ کافی حد تک احناف سے قریب ہیں۔ راقم الحروف نے ایک دفعہ مولانا سےکہا تھاکہ آپ تفہیم القرآن کی طرح تفہیم الحدیث کا سلسلہ بھی شروع کردیں، انہوں نے جواب دیاتھا کہ صحت او رحالات اس کے اب متحمل نہیں رہے۔ تفہیم القرآن کے سلسلے میں جتنے وسائل سے کام لیا ہے، تفہیم الحدیث کے لیے ان سے دس گنا فرصت، صحت اور وسائل درکار ہیں، اسانید اور متون کے سلسلے کی ذمہ داریاں دیکھ کر حوصلہ نہیں پڑتا۔ بہرحال مولانا سے قریب رہ کر جو میں نے محسوس کیا ہے، وہ یہ ہے کہ: احادیث کی اہمیت ،ضرورت او رشرعی حیثیت کے بارے میں، جمہور اہل السنۃ والجماعۃ کاجونظریہ ہے، بنیادی طور پرمولانا کافکر ان سےمختلف نہیں ہے بعض جزوی روایات یا''فقہی درایت'' کے بعض پہلوؤں کے سوا ہمیں اور کہیں بھی ان کے فکر اور نظریہ میں جھول نظر نہیں آتا۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ فقہی درایت کے بارے میں ، شروع میں مولانا کے افکار جو جو تصلب تھا، اب اس میں بھی لچک پیدا ہوگئی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب ''فضائل القرآن'' مولانا کے انہیں دروس کا ایک مجموعہ ہے جسے جناب حفیظ الرحمٰن صاحب نے مرتب کیا ہے۔ گو بقول مرتب، اس کو مولانا کی تحریر کی حیثیت حاصل نہیں ہے تاہم ان کا تقریری مواد ٹیپ ریکارڈ کو ہی سامنےرکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔

مولانا کے درس کا انداز یہ رہا ہے کہ وہ مشکوٰۃ سامنے رکھتے ،حدیث کی عبارت پڑھ کر سناتے، ضرورت ہوتی تو اس کےمطابق اس صحابی کا مختصر تعارف بھی کرا دیتے جس سے وہ حدیث روایت کی گئی ہے، اس کے بعد اس کا ترجمہ، پھر اس کی عام فہم تشریح اور توضیح فرماتے تھے۔ آخر میں سامعین کو موقع دیتے کہ احادیث سے متعلقہ مباحث کے بارےمیں سوالات کریں یا اور جو کچھ کوئی پوچھنا چاہے تو پوچھ لے۔ لیکن موجودہ مجموعے ان سوالات او رجوابات سے خالی ہیں او ریہ کمی راقم الحروف کو بالخصوص کھٹکتی ہے۔ درس حدیث کے لیےمولانامشکوٰۃ کادرس دیتے تھے یہ کتاب بھی اسی کے ایک باب کا ترجمہ ہے۔

مولانا کی ''تفہیم الحدیث'' کا یہ اسلوب خاصا معلوماتی، عام فہم اور دلکش ہے۔ جن حضرات نے مولانا کے یہ درس سنے یا اس سلسلے کے مرتب مجموعے ملاحظہ فرمائے ہیہں، وہ ان دروس کا صحیح اندازہ کرسکتے ہیں۔ حدیث کے سلسلے میں مولانا کی تشریح ، اسلوب بیان اور توضیح عصری زبان ، تقاضوں او راحوال و ظروف کے عینمطابق ہے۔اگر مولانا ''احادیث'' پرعلمی اور تحقیقی کام کی گرانباری کے خوف سے اسے ہاتھ نہیں لگاتے تو حدیث کی کسی کتاب کے سلسلے میں''دعوتی انداز'' پر کام کرجاتے تو کیا ہی اچھا ہوتا یا سیرت پر جو سلسلہ شروع کیا ہے،احادیث کو اسی حیثیت سے مدون فرما دیتے تو اس کی ضرورت تھی۔

زیر تبصرہ مجموعہ (66)احادیث پرمشتمل ہے اور ہر حدیث ایک ذیلی عنوان سے شروع کی گئی ہے۔ گویا کہ (66) عنوانوں سے متعلق مباحث اس مجموعہ میں آگئے ہیں، جو حضرات قرآن حکیم کی جامعیت او ربرکات کا صحیح او رعلیٰ وجہ البصیرۃ شعور حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں ا س مجموعہ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ بالخصوص ان علماء اور اہل قلم دوستوں کو اس کاضرور مطالعہ کرنا چاہیے جوبدلے ہوئے حالات کے مطابق تشریح و تعبیر کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں تاکہ عصری تقاضوں کے مطابق ''بیان و زبان'' کے نئے اسلوب اختیار کرنے میں اس سے مدد لی جاسکے۔

(2)

نام کتاب : اسلام اور معاشی تحفظ (ترجمہ)

ترجمہ : جناب پروفیسر عبدالحمید صدیقی (مرحوم)

(اصل ) مشکلات الفقرو کیف عالجہا الاسلام : علامہ یوسف قرضاوی

صفحات : 170

قیمت : 9 روپے

پتہ : البدر پبلی کیشنز، 40۔ اردو بازار لاہور

علامہ یوسف قرضاوی دور حاضر کے ان افاضل کی صف اوّل کی ایک عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے السامی معاشیات کا نہایت دقت نظر سےمطالعہ کیا ہے۔ علامہ موصوف اس سلسلے میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں جو قابل رشک بھی ہے اور باعث فخر بھی۔ موصوف کی نگارشات میں دو باتیں بالخصوص نمایاں نظر آتی ہیں، ایک یہ کہ وہ غیروں کے علوم سے مرعوب نہیں ہیں، اس لیے ان کی تحریر میں نقالی کے جراثیم بالکل نہیں پائے جاتے۔

دوسری خوبی ان کی یہ ہے کہ کتاب و سنت کی تعلیمات کے سلسلے میں علامہ موصوف کو پوراشرح صدر حاصل ہے۔ اس لیے وہ اپنی نگارشات می|ں اسلام پر نازاں تو نظر آتے ہیں لیکن اس سلسلے میں معذرت کی بات ان میں دکھائی نہیں دیتی۔

مشکلات الفقر و کیف عالجہا الاسلام مؤلفہ علامہ موصوف انہی حقائق کا ایک مرقع ہے، گو دیکھنے میں اس میں ''زکوٰۃ'' کا ہی ذکر ملتا ہے تاہم اس میں جو انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس نے اسلامی معاشیات کے بہت سے ابواب کے سمجھنے کے لیے راہ آسان کردی ہے۔

اسلامی او رمعاشی تحفظ اسی کا ترجمہ ہے جودرویش منش اور خاموش فاضل پروفیسر عبدالحمید صدیقی  نے کیا تھا۔ ترجمہ کیا ہے اس پراصل کاگمان ہوتا ہے۔

کتاب سات ابواب پرمشتمل ہے او رہرباب میں |''در منشورہ'' کا ایک بحر بے کنار ہے جوپھیلا ہوا ہے۔

باب اوّل: غربت اور افلاس کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر۔

باب دوم: سرمایہ داری اشتراکیت او راسلام۔

باب سوم: افلاس کو دور کرنےکے لیے اسلامی تدابیر

باب چہارم: اسلامی ن|ظام معیشت میں زکوٰۃ کی اہمیت

باب پنجم: زکوٰۃ کے علاوہ رفع احتیاج کی دیگر اسلامی تدابیر

باب ششم: اسلام میں صدقہ واحسان کی اہمیت

باب ہفتم: اسلامی نظام معیشت کی کامیابی کے لیے چند ناگزیر شرائط

یہ ایک مختصر سی کتاب ہے۔ اگر مختلف اسلامی مدارس میں اساتذہ طلبہ کے لیے اس کے مطالعہ کا موثر انتظام کردیں تو اسلامی معاشیات کی نوعیت سمجھنے کے لیے طلبہ کو ایک ذہن مل سکتا ہے بلکہ ہماری خواہش ہے کہ تفسیر حدیث اور فقہ کے مختلف ابواب پڑھاتے ہوئے اس سلسلے کے جدید افکار اور ان کے بارے میں مختلف اقوام و علل کا جو تعامل ہے ، ساتھ ساتھ ان سے بھی روشناس کرانے کی کوشش کی جایا کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ عصر رواں کے عصری تقاضوں اورمسائل کے سلسلے میں وہ دنیا کو اسلامی رہنمائی مہیا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ عربی طلبہ بڑے زرخیز ذہن اور استنباط و اجتہاد کے حامل ملکہ کے مالک ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ان کو جدید لائنوں سے آشنا کرا دیا جائے تو وہ ''دور حاضر'' میں ایک اجنبی عنصر کی حیثیت سے ایک بے جوڑ او ربے کار عنصر نہیں رہیں گے اسلاف کا یہی طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ اپنے دور کے عصری مسائل سے کبھی بے تعلق نہیں رہے تھے اس لیے ان کے افکار میں نہ مرعوبیت نظر آئی او رنہ بے خبر بلکہ استاذانہ شان سے ان کاتجزیہ کرکے خلق خدا کو اس سلسلے میں اسلامی رہنمائی بھی مہیا کرتے رہے۔ یہ بات آج بھی ہوسکتی ہے ۔ بہرحال مندرجہ بالا کتاب قابل مطالعہ ہے۔ ہر پڑھے لکھے آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کاضرور مطالعہ کرے۔ تاکہ معاشیات کے نام پر سوشلزم کی ذریت کی شاطرانہ چالوں اور وساوس کے فتنہ سے وہ بچ سکیں۔

(3)

نام کتاب : رجب المرجب کے کونڈوں کی کتاب

مؤلف : مولانامحمود الحسن بدایونی

صفحات : 34

قیمت : ایک روپیہ

پتہ : اسلامی اکادمی ناشران و تاجران کتب، اُردو بازار لاہور

رجب میں کونڈے بھرنے کی رسم عام ہے۔ معروف اورمشہور بھی ہے یہ کیوں او رکیسے پیدا ہوئی ہے۔مندرجہ بالا کتاب میں اسی کی تفصیل ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

جھوٹی کہانی: حضرت امام جعفر صادق کے عہد میں مدینہ منورہ میں ایک لکڑہارا رہتا تھا۔ اکثر فاقوں میں اس کی گزرتی، تنگ آکر گھر بار چھوڑ کر نکل گیا،بعد میں بیوی ایک وزیر کے گھر میں خادمہ بن کر پیٹ پالنے لگی، ایک دن وہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی کہ حضرت امام جعفر صادق آکر رُک گئے اور عقیدت مندوں سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ماہ رجب کی کیا شان ہے پھر خود ہی بتایا کہ جو قسمت کا مارابھوکا ننگا اس کی 22 تاریخ کو کونڈے بھرے گا اس کی وہ مشکل دور ہوجائے گی۔ اگر نہ ہو تو قیامت میں آکر میرا گریبان پکڑ لینا۔ لکڑے ہارے کی بیوی نےسن کر ایسا کیا تو چند دنوں کے بعد اس کا خاوند سونا چاندی او رجواہرات کا انبار لےکر گھر آیا او رنہایت ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی گزارنے لگا۔ یہ وہ جھوٹی کہانی ہے جو شکم پرستوں نے گھڑ کر عوام سے حلوے مانڈے کھائے او ران کا استحصال کیا۔ اس رسالے کے آخر میں پاک و ہند کے متعدد علماء کے دستخط ہیں جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ رجب کے کونڈوں کی کہانی محض بے اصل اور رسم خلاف شرع اور بدعت محدثہ ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ جوقوم جتنی بدعات ایجاد کرے گی اس سے اتنی سنت کی سعادت چھن جائے گی یہی وجہ ہے کہ بدعتی لوگوں کی جھولی سنت کے گلدستہ سے عموماً خالی ہوتی ہے۔ یہ رسالہ قابل مطالعہ ہے بلکہ اس کو عام کیا جائے۔ (عزیز زبیدی)

(4)

نام کتاب : دارالاسلام اور مودودی

تالیف : سید اسعد گیلانی

ناشر : اسلامی اکادمی، اُردو بازار لاہور

صفحات : 308 : جلد : ریگزین، خوبصورت

قیمت : 27 روپے

''صوفیائے اسلام نے قدیم زمانے میں ایک خاص قسم کا ادارہ قائم کیا تھا جواصحاب الصفہ کے نمونہ پر تھا۔ اس کا اصطلاحی نام خانقاہ مشہور ہے۔ آج یہ چیز بعض لوگوں کی بے اعتدالیوں کی بدولت بگڑ کر اتنی بدنما ہوگئی ہے کہ خانقاہ کا نام سنتے ہی طبیعت اس سے منحرف ہونے لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بہترین انسٹی ٹیوشن تھاجس سے اسلام میں بڑے بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں۔ضرورت ہے اس قدیم انسٹی ٹیوشن میں وقت او رزمانہ کے لحاظ سے ترمیم کرکے از سر نو جان ڈالی جائے اور ہندوستان میں جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی خانقاہیں ایسی قائم کی جائیں جن میں فارغ التحصیل لوگوں کو کچھ عرصہ تک رکھ کر اسلام کے متعلق نہایت صالح لٹریچر کا مطالعہ کرایا جائے او راس کے ساتھ وہاں ایسا ماحول ہو جس میں زندگی بسر کرنے سے ان کی سیرت خالص اسلامی رنگ میں رنگ جائے۔ اس انسٹی ٹیوشن میں کلب، لائبریری، اکیڈیمی اور آشرم کی تمام خصوصیات جمع ہونی چاہیئیں او راس کا صد رایسا شخص ہونا چاہیے جو نہ صر ف ایک وسیع النظر اور روشن خیال عالم ہو بلکہ اس کےساتھ ہی ایک سچا اورمکمل عملی مسلمان بھی ہو تاکہ اس کی صحبت سے خانقاہ کے ارکان کی زندگیاں اسلامی سانچے میں ڈھل جائیں۔''

مندرجہ بالا اقتباس سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ایک مکتوب سے لیا گیا ہے جو انہوں نے 21 جمادی الاولیٰ 1354ھ کو چوہدری نیاز علی خاں مرحوم کے نام لکھا تھا۔ اس اقتباس میں جس ''جدید خانقاہ'' کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ عملی صورت میں ''دارالاسلام'' (پٹھان کوٹ) کے صورت میں سامنے آئی۔ چوہدری نیاز علی مرحوم نے ''دارالاسلام'' کی داغ بیل مفکر پاکستان علامہ اقبال کے مشورے کے مطابق رکھی اور ان ہی کے ایمان پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ''دارالاسلام'' میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ سید صاحب مارچ 1938ء میں بیان آئے او رقیام پاکستان تک اپنے رفقاء کے ساتھ اس مثالی خانقاہ میں علمی، تعلیمی او راصلاحی خدمات انجام دیں۔

''دارالاسلام'' کی سکیم موجودہ غوروفکر کی متقاضی ہے۔

اولاً یہ سکیم علامہ اقبال کی فکر کا عملی اظہار تھی جس میں سیدمودودی کے ذہن نے رنگ بھرا ۔

ثانیاً اس اسکیم کے لئے جن ''اہل فکر'' نے اپنی صلاحیتیں صرف کیں ان میں سید مودودی کے ساتھ علامہ محمد اسد ،محمد صدیق مستری اورمولانا امین احسن اصلاحی جیسی شخصیات شامل ہیں۔

ثالثاً اس مثالی ادارےکا جائزہ لیناضروری ہے۔کیا دارالاسلام اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا؟ اس سے ہماری ملّی زندگی میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ گذشتہ سال، اقبال کے حوال سے سید مودودی او رادارہ ''دارالاسلام'' زیر بحث آئے ہیں۔ صابر گلوروی نے اقبال کی سوانح حیات ''یاد اقبال'' میں اس طرف توجہ دی ہے۔مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور نے ایک کتابچہ ''اقبال اور مودودی'' شائع کیا جس کے مرتب نے ان دو حق آگاہ شخصیات کے روابط تذکرہ کرتے ہوئے ''دارالاسلام'' پر گفتگو کی۔ اب سید اسعد گیلانی صاحب کے قلم سےزیر نظر کتاب منصہ شہود پر آئی ہے۔

گیلانی صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے معروف راہنما اور دانشور ہیں۔ وہ سید مودودی کے احوال و افکار پر ایک مستقل کتاب لکھ چکے ہیں۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے انہوں نے ''قائد اعظم، اقبال، مودودی اور تشکیل پاکستان'' کے نام سے ایک کتاب تالیف کی ہے۔ ان کی زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔

کتاب دس ابواب اور چار ضمیموں پر مشتمل ہے ۔ ابواب کی تفصیل یہ ہے:

1۔ اقبال کا فکر محمد

2۔ تعلیمات اقبال

3۔ اقبال کی نظریات مملکت

4۔ اقبال اور تجدید و احیائے دین

5۔ اقبال اور تدوین جدید فقہ اسلامی

6۔ اقبال، چوہدری نیاز علی،دارالاسلام اور مودودی

7۔ تاریخی مراسلت (چوہدری نیاز علی اور مودودی)

8۔ اقبال کا مرد مومن او رمودودی کا مرد صالح

9۔ مولانامودودی اور فریضہ اقامت دین

10۔ مولانامودودی اور تحریک اسلامی

جملہ ابواب باہم مربوط ہیں او رہرباب فکر انگیز ہے۔ تاہم کتاب کے عنوان کے لحاظ سے چھٹا اور ساتواں باب بطور خاص اہم ہیں۔ ساتویں باب میں دارالاسلام کے بارے میں سید مودودی اور چوہدری نیاز علی خاں مرحوم کی تاریخی خط و کتابت ہے۔ چالیس مکتوبات پر مشتمل یہ باب کتاب کے ایک تہائی حصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ ان مکتوبات سے (جو پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں) 1936ء سے 1938ء تک سید مودودی کی سوچ ، عزائم اور عمل کی ایک تصویر سامنے آجاتی ہے۔

15صفر 1356ھ کے ایک خط میں سیدمودودی رقم طراز ہیں:

''میرے سامنے ایک بڑی مہم درپیش ہے جس میں مجھے ہمہ تن منہمک ہوجانا پڑے گا۔میں نے اس مہم کی ابتدا محرم کے ''ترجمان القرآن'' سے کردی ہے اور آئندہ چند مہینوں میں دیکھنا ہے کہ کتنے مددگار ملتے ہیں۔ بہرحال میں یہ تصفیہ کرچکا ہوں کہ خواہ سارے ہندوستان میں ایک بھی ساتھی نہ ملے میں تنہا اپنی ذات سے اس جنگ کو شروع کروں گا او رآخروقت تک جاری رکھوں گا۔ قطع نظر اس سے کہ کامیابی ہو یا نہ ہو۔ مسلمان کی اس وقت جو نازک حالت ہے اور جو خطرناک مستقبل ان کے سامنے ہے اس کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ دس بیس سال ہندوستان میں اسلام کی قسمت کے لئے فیصلہ کن ہیں۔ اگر اس وقت ہم مدافعت کے لیے کھڑے نہ ہوئے تو چند سال بعد ہم کو سکون کا کوئی گوشہ نہ ملے گا جہاں بیٹھ کر ہم کوئی تعمیری کام کرسکیں۔''

سیّد مودودی نے ''ترجمان القرآن'' کےشمارہ محرم1356ھ؍ مارچ 1937ء سے جس مہم کا آغاز کیا اس کے لیے انہیں رفقائے کار ملتے چلے گئے اور 1941ء میں 72۔ افراد نے ''جماعت اسلامی'' کے نام سے اپنے آپ کو منظم کرلیا۔

ایک اور اقتباس!

سیدمودودی حیدر آباد دکن سے ہجرت کرکے دارالاسلام آرہے ہیں او رچوہدری نیاز علی خاں بغرض حج دیار حبیب جارہے ہیں۔ انہیں لکھتے ہیں:

''میری یہ درخواست یاد رکھئے کہ حرم الہٰی اور حرم نبوی دونوں جگہ میرے لیے خلوص نیت او رنور ہدایت فرمائے جانے کی دعا کریں میں ایک کمزور انسان ہوں او رمحض خدا کے فضل پر بھروسہ کرکے ایک بہت بڑے کام کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رہا ہوں۔ اگر خدا کا فضل شامل حال نہ ہوا تو کوئی چیز مجھے دین و دنیا کی رسوائی سے نہ بچا سکے گی۔''

سیّد مودودی کے مکتوبات میں ایسے کئی اقتباسات ملتے ہیں ۔ جن میں ان کی سوچ اور فکر واضح ہوتی ہے۔ گیلانی صاحب قابل مبارکباد ہیں کہ انہو|ں نے ماضی قریب میں مسلماناں برصغیر کے فکری ارتقاء کے ایک مرحلے سے عام قارئین کو روشناس کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیر نظر کتاب کے دوسرے صفحہ پر بجا طور پر لکھا گیا ہے کہ علمی تحقیق ایک سائنٹیفک عمل ہے دوران مطالعہ مندرجہ ذیل فروگزاشتیں محسوس ہوئی ہیں۔

1۔ مآخذ و مراجع کی کوئی فہراست نہیں بنائی گئی۔

2۔ کتاب سے حوالہ نقل کرنے میں مروجہ اصولوں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ۔ جن کتابوں سے اقتباسات لیے گئے ہیں اکثر وبیشتر ان کے متعلقہ صفحات کاذکر نہیں کیا گیا۔

3۔ متن میں کئی ایسے نام آئے ہیں جو عام قاری کے لیے جانے پہچانے نہیں۔ان کا مختصر تعارف حواشی میں ہونا چاہیےئے تھا۔

4۔ اعلام، اماکن یا اداروں کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔

5۔ غیر ضروری تکرار پائی جاتی ہے بطور خاص چھٹے باب میں۔

6۔ کتابت کی اغلاط بہت زیادہ ہیں۔

متذکرہ الصدر تکنیکی فروگذاشتوں کے ساتھ مندرجہ ذیل واقعاتی خامیاں ہیں۔

1۔ پہلے ضمیمے میں علامہ اقبال کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ''ابتدائی مدرسہ کی تعلیم سے لے کر کالج تک وہ ہمیشہ ہی کلاس میں اوّل اتے رہے۔'' (ص252) یہ بیان درست نہیں۔

2۔ ''پاکستان ان ہی علاقوں میں قائم ہوا جن کی علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں نشاندہی کردی تھی ۔'' (ص254) یہ بیان بھی محل نظر ہے۔ علامہ کے خطبہ میں اصولی طور پر مسلم ہند کا تصور موجود ہے۔''مشرقی پاکستان '' کے علاقوں کاذکر نہیں۔

3۔ دوسرے ضمیمے میں سید مودودی کے احوال و افکار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ''انہوں نے دوسرا کام یہ کیا کہ ترجمان القرآن کے نام سے ایک ماہوار رسالہ جاری کیا یہ رسالہ 1932ء میں شروع کیا گیا۔''

''ترجمان القرآن'' کا آغاز مولوی ابو محمد مصلح مرحوم نے کیا تھا۔ ابتدائی چھ پرچے ان ہی کی ادارت میں چھپے تھے۔ ساتویں پرسے سے ادارت مولانا مودودی نے سنبھالی۔

4۔ تیسرے ضمیمے میں چوہدری نیاز علی خاں کا ذکر ہے۔ ان کے خاندان کے قبول اسلام کے بارے میں دو باتیں کہی گئی ہیں۔ پہلے یہ کہاگیا ہے کہ ان کا خاندان چوہدری صاحب سے تین پشت اوپر مسلمان ہوا تھا۔ (ص273)) ، پھر یہ کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان میں مذہب اسلام سولہویں صدی کے وسط میں داخل ہوا تھا۔ (ص273)

ان دونوں باتوں میں تطبیق مشکل ہے کیونکہ عموماً تین پشتیں تو ایک صدی میں گزر جاتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض امور تشنہ تحقیق رہ گئے ہیں۔

1۔ سیّد مودودی مارچ 1938ء میں دارالاسلام تشریف لائے تھے اورآغاز 1939ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ مولانا نے اس ترک سکونت کاذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

''1939ء کےآغاز میں بعض وجوہ سے میں دارالاسلام چھوڑ کر لاہو رآگیا ۔'' (ص282)

بہتر ہوتا کہ گیلانی صاحب '''ان وجوہ'' پر روشنی ڈالتے۔ یہ وہ دور ہے جب سیّد مودودی نے ''مسلمان اورموجودہ سیاسی کشمکش'' کا تیسرا حصہ لکھنا شروع کیا تھا۔

مولانا مودودی تشکیل جماعت اسلامی کے بعد دوبارہ ''دارالاسلام'' تشریف لے گئے تھے۔ دوبارہ دارالاسلام میں سکونت کیوں او رکن شرائط پر کی گئی؟

2۔ ''دارالاسلام'' کا تجربہ کس قدر کامیاب رہا؟ اس پر کھل کر نہیں لکھا گیا امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں یہ معمولی خامیاں درست کردی جائیں گی۔ (اختر راہی)

(5)

نام کتاب : تعلیم القرآن

تالیف : مولانا محمد ادریس صاحب ندوی

ضخامت : 158 صفحات (بڑا سائز)

کاغذ،کتابت،طباعت : نہایت اعلیٰ

قیمت : 4 روپے 50 پیسے

ناشر : مکتبہ خاور،مسلم مسجد لاہور

یہ کتاب اگرچہ بنیادی طور پر بچوں کے لیے لکھی گئی ہے لیکن اس سے ہر عمر کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کتاب میں فاضل مؤلف نے سو سے زائد عنوانات کے تحت قرآن کریم کی دینی و اخلاقی تعلیمات نہایت دلنشین انداز میں بیان کی ہیں چند عنوانات یہ ہیں۔

ماں باپ کے ساتھ برتاؤ، اولاد کے ساتھ برتاؤ، لباس کا ادب، بات چیت کا ادب، سچائی، سخاوت، امانت، انصاف، نرم دلی، تواضع، ایثار، اعتدال، غیبت، بہتان، خیانت، تمسخر، رشوت، سُود خوری وغیرہ۔

ہر عنوان کے تحت موضوع سے متعلق قرآن حکیم کی ایک آیت لکھی گئی ہے او راس کے نیچے نبی کریمﷺ کے ارشادات و اعمال کی روشنی میں اس کی تشریح و تفسیر کی گئی ہے اس طرح یہ کتاب اسلام کی دینی او راخلاقی تعلیمات کا ایک ایسا گلدستہ بن گئی ہے جس کے پھولوں کی رنگت سے نظر کو طراوت حاصل ہوتی ہے او رجن کی خوشبو سے مشام جان معطر ہوتا ہے۔

کتاب کے عنوانات او رانداز نگارش کو دیکھ کر ہمیں یہ تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ یہ کتاب بچوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ چھوٹی عمر کے بچے تو اس کا بیشتر حصہ سمجھ ہی نہ پائیں گے۔ البتہ بڑی عمر کے بچے اور دوسرے لوگ اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنے موضوع پر بلاشبہ یہ ایک بلند پایہ اور نہایت عمدہ کتاب ہے۔

فاضل مؤلف اس کی تالیف کے لیے او رمکتبہ خاور اس کی دیدہ زیب کتابت و طباعت کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ دور حاضر کا تقاضا ہے کہ ہر مسلمان گھرانے میں اس کتاب کی ایک جلد ضرور موجو دہو۔

کتاب میں بعض آیات اعراب کے بغیر کتابت ہوئی ہیں۔ امید ہے آئندہ ایڈیشن میں اس کمی کو دور کردیا جائے گا۔

(6)

مجلّہ : ''صوت الاسلام'' سالنامہ

مرتبہ : رابطۃ الطلاب المالدیفیین

: جامعہ سلفیہ، فیصل آباد

ضخامت : 128 صفحات۔ بڑا سائز ۔ قیمت درج نہیں ہے۔

پاکستان کی عظیم الشان دینی درسگاہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس درسگاہ کو عالمگیر شہرت حاصل ہے او راس چشمہ فیص سے نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک کے طلبہ بھی سالہا سال سے سیراب ہورہے ہیں۔ جزائر مالدیپ کے بہت سے طلبہ بھی اس جامعہ میں زیر تعلیم ہیں ان طلبہ نے اپنی ایک انجمن بنا رکھی ہے جس کا نام ''رابطۃ الطلاب المالدیفیین پاکستان'' ہے۔ یہ انجمن باقاعدگی سے ایک رسالہ ''صوت الاسلام'' شائع کررہی ہے جو دینی مضامین پر مشتمل ہوتاہے۔زیر نظر پرچہ اس مجلّہ کا چوتھا سالنامہ ہے۔ جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 93 صفحات مالدیپی زبان میں لکھے ہوئے مضامین پر مشتمل ہیں،11 صفحات اُردو اور 24 صفحات انگریزی زبان کے مضامین کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔تمام مضامین بڑی محنت اور جذبہ صادق کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور مرتبین نے سالنامہ کی ترتیب و تدوین میں بڑے سلیقہ سے کام لیا ہے۔ ہم مالدیپ کے فرزندان اسلام کو تہہ دل سے مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ اپنے وطن سے اتنی دور آکر دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں او رپھر اپنے وقت کا کچھ حصہ ایسے مفید علمی کاموں کے لیے بھی نکال لیتے ہیں۔