سُوَرۃُ البَقَرۃ

(قسط 25)

﴿وَإِذِ استَسقى موسى لِقَومِهِ فَقُلنَا اضرِ‌ب بِعَصاكَ الحَجَرَ‌ فَانفَجَرَ‌ت مِنهُ اثنَتا عَشرَ‌ةَ عَينًا قَد عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشرَ‌بَهُم كُلوا وَاشرَ‌بوا مِن رِ‌زقِ اللَّهِ وَلا تَعثَوا فِى الأَر‌ضِ مُفسِدينَ ﴿٦٠﴾ وَإِذ قُلتُم يـموسى لَن نَصبِرَ‌ عَلى طَعامٍ وحِدٍ فَادعُ لَنا رَ‌بَّكَ يُخرِ‌ج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَر‌ضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذى هُوَ أَدنى بِالَّذى هُوَ خَيرٌ‌ اهبِطوا مِصرً‌ا فَإِنَّ لَكُم ما سَأَلتُم وَضُرِ‌بَت عَلَيهِمُ الذِّلَّةُ وَالمَسكَنَةُ وَباءو بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذلِكَ بِأَنَّهُم كانوا يَكفُر‌ونَ بِـٔايـتِ اللَّهِ وَيَقتُلونَ النَّبِيّـۧنَ بِغَيرِ‌ الحَقِّ ذلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٦١﴾... سورة البقرة

''اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب (حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی درخواست کی تو ہم نے فرمایا (اے موسیٰ!) اپنی لاٹھی پتھر پر مارو (لاٹھی کا مارنا تھا کہ) اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے(اور) سب لوگوں نے (اپنا) اپنا گھاٹ معلوم کرلیا (اور اذنِ عام ہوگیا کہ) اللہ کی (دی ہوئی) روزی کھاؤ او رپیو او رملک میں فساد نہ پھیلاتے پھرو، اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے (حضرت موسیٰ سے )کہا کہ اے موسیٰ! ہم سے تو ایک کھانے پر نہیں رہا جاتا تو آپ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ زمین میں جو چیزیں اگتی ہیں یعنی ترکاری او رککڑی اور گیہوں اور مسور او رپیاز (من و سلویٰ کی جگہ) ہمارے لیے پیدا کرے (حضرت موسیٰ نے) کہا کہ جو چیزبہتر ہے کیا تم اس کےبدل میں ایسی چیز لینی چاہتے ہو جو گھٹیا ہے؟ (اچھا تو )کسی شہر میں اتر پڑو کہ جو مانگتے ہو (وہاں) تم کو ملے گا او ران پر ذلت اور محتاجی لیس دی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے|۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار اورپیغمبروں کو ناحق قتل کیا کرتے تھے (اور نیز) یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے بڑھ (بڑھ جاتے تھے۔''

(1) اذ : (جس وقت ، کیونکہ ، ناگاہ) اس کا استعمال چار طرح پر ہوتا ہے (1) زمانہ ماضی کا اسم (تام)ہو، اس کی پھر چار صورتیں ہیں۔

1۔اکثر بطور ظرف آتا ہے، یعنی ماضی میں فلاں بات ہوئی۔ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا۔2۔ دوسری صورت یہ کہ وہ مفعول بہ واقع ہووَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا قصص کے شروع میں قرآن میں جہاں یہ آیا ہے،وہاں مفعول بہ ہوکر آیا ہے: وإذاستسقى موسى لقومه یا وإذ قال ربك للملئكة یا إذ فرقنا بكم البحر ۔3۔تیسری شکل یہ ہے کہ وہ مفعول سے بدل ہو جیسے واذكر في الكتٰب مَريَم إذ انتبذت اس میں إذ انتبذت ،مریم سے بدل ہے (4) چوتھا اس کا رنگ یہ ہے کہ: اس کی طرف مضاف ہو جیسے یومئذ یا حیئذ جمہور کے نزدیک یہ صرف ظرف یا مضاف الیہ واقع ہوتا ہے۔ وزعم الجمهور أن إذ لا تقع إلاظرفا أو مضافا إلیھا (مغنی لابن ہشام ص53 طبع بمبئی)

2۔اس کا دوسرا استعمال یہ ہ ےکہ وہ زمانہ مستقبل کا اسم (تام) واقع ہو، مثلاً يومئذ تحدث أخبارها لیکن جمہور نحات اس کو تسلیم نہیں کرتے۔

3۔ تیسرا یہ کہ وہ کسی سابق معاملہ کی علت واقع ہو جیسے وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ۔ لیکن جمہور اسے بھی تسلیم نہیں کرتے۔

4۔ چوتھا استعمال یہ ہے کہ : مفاجات (اچانک،ناگاہ) کے معنی میںمستعمل ہو اور یہ عموماً بینا یا بینما کے بعد واقع ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے مغنی ابن ہشام کا مطالعہ فرمائیں۔ یہ تفصیل ہم نے صرف اس لیے پیش کی ہے کہ اس کا استعمال کثرت سے آتا ہے۔

(2) استسقیٰ : (پانی مانگا) دوسرے مقام پر آتا ہے کہ بنی اسرائیل (قوم موسیٰ) نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی مانگا تھا۔

اذا استسقٰہ قومہ (اعراف۔ ع20) جب قوم موسیٰ نے ان سے (پینے کو) پانی مانگا۔

اس سے معلوم ہوتا ہ کہ اس کے بعد ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پانی کے لیے درخواست کی تھی، اس لیے یہاں فرمایا:

وإذ استسقى موسى لقومه (بقرہ ع7)

اس کی تصریح کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اللہ سے اپنی ذات کے لیے مادی ضرورتوں (کام و دہن کی تواضع)کی چیزوں کی کم ہی درخواستیں کی ہیں، الا یہ کہ ان کا تعلق دین کی اشاعت اور ترقی سے ہو یا امت کی جائز خواہش اور ضرورت کا تقاضا ہو۔ پہلی وجہ یہ ہےکہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ سے یہ پیشکش کی کہ اگر آپ چاہیں تو ''وادی بطحا'' کو آپ کے لیے سونا بنا دیاجائے تو آپ نے عرض کی: حضور! مجھے یہ نہیں چاہیئے، بس کبھی سیر او رکبھی بھوکا۔ بس اتنا ہی دیجئے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔

عرض علي ربي لیجعل لي بطحا بمکة ذھبا فقلت یارب! ولکن أشبع یوما و أجوع یوما ،الحدیث(ترمذی)

الا یہ کہ جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھنے کا کوئی شدید داعیہ پیدا ہوجائے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں آتا ہے کہ پیٹ بھوک سے پشت سے جالگا تھا پھر دعا کی۔

رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ(پ20۔ قصص ع3)

قال ابن عباس: سار موسی من مصر إلی مدین لیس له طعام إلا البقل و ورق الشجر وکان ما فیھا فما وصل إلی مدین حتی سقطت فعل قدميه وجلس في الظل وھو صفوة اللہ وأن بطنه للاحق بظھرہ من الجوع..... وإنه لمحتاج إلی شق تمرة (ابن کثیر)

اگر مادی ضرورتیں اور چیزیں یاد خدا سے غفل ہونے کا سبب بن جاتیں تو ان کو ختم کیے بغیردم نہ لیتے: دلکش گھوڑوں کے نظارہ میں کھوکر جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے یادخدا سے اضمحلال محسوس کیا تو اس ''ذریعہ'' کو اڑا ہی دیا۔

رُدُّوهَا عَلَيَّ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ(پ23۔ ص ع3)

(3) اضرب بعصاک الحجر : (اپنی لاٹھی کو پتھر پر مار) سرزمین مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل کا قافلہ بیابانوں میں پہنچا تو وہاں کھانے کو کچھ تھا نہ پینے کو، سایہ تھا نہ کوئی آبادی، اس لیے روئے اور چلائے اور لگے فرمائشیں کرنے، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہمیں پانی چاہیے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے لیے رب سے درخواست کی کہ الہٰی مجھے اپنی قوم کے لیے پانی چاہیے! اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ان کو جواب دیاکہ اپنے عصا (لاٹھی) کو پتھر (چٹان) پر مار یے۔

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ (پ9۔ اعراف ع20)

بس پھر کیا تھا :عصا کا مارنا تھا کہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔

فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا
سورہ اعراف میں فانفجرت کے بجائے فانبجست آیا ہے۔ دونوں میں صرف کیفیت کا فرق ہے ۔فانبجست سے مراد وہ ابتدائی صورت ہے جب پانی رستے لگتا ہے اور انفجرات سے مراد وہ پانی ہے جو نکل کو کشادہ ہوجاتا ہے۔

ضرب کلیمی سے چٹان یا پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہوجانا پیغمبرانہ ایک معجزہ او ررب کی طرف سے ایک مافوق ذرہ نوازی ہے۔کچھ حضرات کا خیال ہے کہ پتھر یا لاٹھی پر پتھر مارنے سے پانی کے چشمے نہیں بہ نکلے تھے بلکہ وہاں پہاڑی کے کسی گوشے میں پانی پتھروں کی تہوں میںموجود تھا جسے لاٹھی سے کرید کر اور ٹٹول کر نکالا گیا مگر وہ یہ نہیں بتاسکے کہ آخر ''ضرب کلیمی'' سے چشموں کا جاری ہونا کیوں مستبعد ہے؟ اگر یہ مستبد ہے تو پھر جسے کرید کر نکالا گیا اس کا بارہ چشموں کی صورت میں معجزانہ طور پرجاری ہوجانا کیوں مستبعد نہیں؟

دراصل انہوں نے ''عصائے موسیٰ'' کی ماہیت اور خصائص کا بغور مطالعہ نہیں کیا۔ اصل میں وہ لاٹھی بکریوں کے ایک چرواہے یا گدھے ہانکنے والے کسی کمہار کی لاٹھی نہیں تھی وہ ''موسوی عصا'' تھا اور ہاتھ بھی ''یدبیضا'' تھا ، اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اپنے ''برہان'' کا نام دیاہے۔

فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ(پ20۔ قصص ع4)

برہان وہ سچائی اور حقیقت ہوتی ہے جو ہٹ دھرم کے سوا سب کے لیے وجہ اطمینان ہوتی ہے۔ یہ وہی عصائے موسیٰہے جس سے صرف پانی کے چشموں کا ظہور ہی نہیں ہوا۔ بھرے دریا کو بھی چیر ڈالا تھا۔

فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ (پ19۔الشعراء ع4)

(ترجمہ) ''پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی دریار پر دے مارو، چنانچہ دریا پھٹ (کر ٹکڑے ٹکڑے ہو)گیا او رہر ایک ٹکڑا گویا کہ بڑا (اونچا) پہاڑ تھا۔''

پتھر، اس سے پانی نکلنے او راسی سلسلے کی بعض دوسری تفصیلات بھی مفسرین نے بیان کی ہیں، جن کو ہم صرف ''بزرگانہ باتیں'' کہہ سکتے ہیں۔ علم او رحقائق سے ہم کم تعلق ہے اس لیے وہ بیان نہیں کی گئیں۔

(4) اثنتا عشرۃ عینا: (بارہ چشمے) یہ بارہ چشمے کیوں بنائے گئے؟ صرف اس لیے کہ بنی اسرائیل بارہ قبیلوں پر منقسم تھے یا بغیر کسی امتیاز کے عوام کی سہولت کے لیے؟ ہمارے نزدیک دونوں ممکن ہیں لیکن جمہور کےنزدیک پہلا احتمال قوی تر ہے۔

اُناس سے مراد طائفہ اور قبیلہ ہے تو پہلا احتمال قوی ہے، اگر اس سےمراد صرف ''لوگ'' ہیں تو پھر ہمارے نزدیک دوسرا احتمال راحج ہے۔

قبائل کی صورت میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خاندانی حیثیت کالحاظ رکھنامناسب ہوتا ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

الناس معادن کمعادن الذھب والفضة خیارھم في الجاھلیة خیارھم في الإسلام إذا فقھوا (رواہ مسلم)

(ترجمہ) ''سونے چاندی کی کانوں کی طرح لوگ بھی کانیں ہیں، زمانہ جاہلیت میں جو لوگ ''بھلے'' تھے ، اسلام میں بھی وہ بھلے ہیں جبکہ وہ دینی سوجھ بوجھ پیدا کرلیں۔

اگر صرف لوگ مراد ہوں تو مساوات شرعی ثابت ہوتی ہے کہ بلاامتیاز رفاہی امور میں سب کے لیے یکساں دروازے کھلے ہونے چاہیئیں۔

(5) مفسدین : (فساد کرنے والے) اس سے مراد تخریب اور فساد پھیلانا ہے۔ ''عثی'' بھی فساد ہے مگر شدید تر۔ غرض یہ ہے کہ خدا کا کھا کر نفس و طاغوت کا گانا سب سے بڑی تخریب ہے۔ چنانچہ دوسرے مقام پر اس مضمون کو یوں دہرایا ہے۔
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ(پ11۔ یونس ع4)

''(ان سے اتنا تو پوچھو) کہ تم کو آسمان و زمین سے کون روزی دیتاہے اور (تمہارے)کان اور آنکھیں کس کے قبضہ میں ہیں؟ اور وہ کون ہے جو زندے کومردے سےنکالتا ہے او رمردے کو زندہ سےنکالتا ہے ! اور کون (کارگاہ ہست و بود کا) انتظام چلا رہا ہے تو وہ بول اٹھیں گےکہ: اللہ! آپ ان سے فرمائیں کہ کیا تم اس پر بھی (اس سے) نہیں ڈرتے۔''

رسول کریمﷺ نے اسے یوں بیان فرمایا ہے۔

ما أنزل اللہ من السمآء من برکة إلاأصبح فریق من الناس بھا کافرین: ینزل اللہ الغیث فیقولون بکوکب کذا و کذا (مسلم)

(ترجمہ) ''اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی بھی برکت نازل کرتا ہے تو لوگوں کا ایک گروہ اس کے کفر کرنے لگ جاتا ہے، بارش اللہ نازل کرتا ہے او رکہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں فلاں ستارے کی تاثیر سے مینہ برسا۔''

ماأحد أصبر علی أذی یسمعه من اللہ یدعون له الولد ثم یعافیھم و یرزقھم (بخاری و مسلم)

(ترجمہ) ''اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں کہ وہ سنتا ہے ، اللہ کے لیے بیٹے او رچہیتے ثابت کرتے ہیں (اس کے باوجود) پھر وہ ان کو عافیت بھی دیتا ہے اور روزی بھی۔''

(6) لن نصبر : (ہم بالکل نہیں رہ سکتے، مطلق صبر نہیں کرسکتے۔ قطعاً سکت نہیں رکھتے) من و سلویٰ کھاکھا کر اکتا ہی گئے اور بول اٹھے کہ ہم اس سے تنگ آگئے ہیں۔ ہمیں اب فلاں شے ملنی چاہیے!

جہاں تک اکتا دینے والی بات ہے، بُری نہیں ہے بلکہ یہ بالکل فطری بات ہے او رنہ قرآن نے اس پران کو ٹوکا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ : ان منگتوں کو عادت سی ہوگئی تھی کہ وہجو چاہیں، ان کو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر من و سلویٰ کی طرح ملے۔ اور ملتا رہے ۔ دوسرا یہ کہ: انہوں نے یہ بھی خواہش کی کہ من و سلویٰ کی نعمت واپس لے لی جائے، ان کی جگہ فلاں فلاں چیز ان کو دی جائے۔ ظاہر ہےکہ یہ دونوں باتیں ناقدری کی باتیں ہیں، اگر من و سلویٰ کے ساتھ دوسری چیزوں کے لیے خود بھی ہاتھ پاؤں ہلا کر کچھ مہیاکرکے اپنے کام و دہن کا مزہ بدلتے رہتے تو ان کو کوئی بھی نہ ٹوکتا (اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ) مگر ان کا اصرار یہ تھا کہ تھوم وغیرہ بھی من و سلویٰ کی طرح بغیر محنت کےملے ۔ (فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ)

دوسری بات بھی بڑی نادانی کی بات تھی، چاہیے تو یہ تھا ک ان کے ساتھ کچھ او ربھی مطالبہ کردیتے، مگر جو ہوا ناقدر دانوں اور نادانوں کی طرح ہوا کہ اپنا یہ پان دان اٹھالو اور ہمیں فلاں فلاں چیز اس کے بدلے میں لا کر دے دو۔ (أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ)ظاہر ہے ایسا رویہ کسی معقول اور انعام و اکرام کی مستحق جماعت کا نہیں ہوسکتا۔ اس لیےایسا معاشرہ اور ایسی قوم جو محنت سے بھی جی چراتی ہو، اس قدر جذباتی بھی ہو جو تھوڑی سی نفسیاتی تحریک پر جذباتی ہوجاتی ہو، ساتھ ساتھ قدر ناشناس بھی ہو وہ کیسے فلاح پاسکتی ہے۔

(7) اتستبدلون : (کیا تم بدلتے ہو؟) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خدا سے مزید کچھ نہیں مانگا تھا بلکہ انعام الہٰی کوٹھکرا کر اس کے بدلے میں کچھ اور چاہا تھا۔ یہ بات جہاں ان کی کورذوقی کی علامت ہے وہ وہاں مالک او رمحسن کے سلسلے میں ان کے گستاخانہ رویہ کی غماز بھی ہے۔

(8) لكم ما سألتم : (تمہارے لیے وہ جو تم نے چاہا) فرمایا اگر مسور او رپیاز جیسی چیزیں چاہتے ہو تو جاکر خود کاشت کرو او رکھاؤ پیو۔کیونکہ ایسی چیزوں کے لیے آسمانی خوان یغما کی تلاش جو وہ خود پیدا کرسکتے ہیں،''دوں ہمت'' قوم کی انتہائی ''دوں ہمتی'' کی بات ہے، ان کو مصر سے نکل کر ایک فاتح قوم کی حیثیت سے ابھرنا چاہیے تھا لیکن جو قوم مسور او رپیاز جیسی چیزیں نہیں پیداکرسکتی ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ اقوام عالم پر فتح یاب ہوکر اپنی ایک نئی دنیا تعمیر کرسکے گی قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا(مائدہ ع4)

(9) ضربت عليهم الذلة والمسكنة : (ان پر ذلت او رمحتاج لیس دی گئی)یعنی پھر تم ذلیل و خوار ہی ہوگے۔ کیونکہ جو قوم دوں ہمت ہوگی اس کا ہمیشہ یہی حشر ہ ہوتا ہے او رہوتا رہے گا۔غور فرمائیے کہ ایک ایسی قوم جو محنت سے جی چراتی ہو، اس قدر جذباتی بھی ہو کہ تھوڑی سی نفسانی تحریک پر جذباتی ہوہو جاتی ہو، ساتھ ساتھ قدر ناشنا س بھی ایسی کہ مالک او رمحسن حقیقی کے سلسلہ میں امتنان و تشکر کی توفیق سے بھی تقریباً تقریباً محروم ہو جو خدا سے یہ بھی توقع رکھتی ہو کہ اسے ان کے پیچھے چلنا چاہیے، اپنے انبیاء کو اپنے گھڑے کی مچھلی سمجھتے ہوں ۔ عظیم مشاہدات کے باوجود جن کی آنکھوں میں جلانہ پیدا ہوسکے، آیات الٰہیہ کا انکار(يكفرون بآيات الله) قتل انبیاء اور سینہ زور (يقتلون النبيين) جن کی زندگی کے جلی عنوان ہوں اور اپنی ان شرمناک دھاندلیوں کے باوجود اس خوش فہمی میں مبتلا بھی رہتی ہو کہ : وہ خدا کے چہیتے، لاڈلے اور شہزادے بھی ہیں( نحن أبناء الله و أحباءئه) تو ایسی قوم اگر ذلت و نکبت اور ادبار کا گہوارہ بن کر رہ جائے تو کون سی اچنبھے کی بات ہے یہ ''محرومیاں'' تو ان پر مسلط نہیں کی گئیں بلکہ وہ خود ان کے خمیر کے اندر سے اٹھی ہیں بلکہ ان کے قوی مزاج اور سرشت کی زمین ہی ایسی تھی کہ اس سے گل و لالہ کے بجائے محرومیوں کے خار اور تھوہر ہی اُگ سکتے ۔ذٰلك بأنهم كانوا يكفرون

(10)کانوا یکفرون : (کفر کرتے تھے، انکار کرتے تھے، اپنی کرتے تھے)کفر کی متعدد شکلیں ہیں، انکار حق اصلی کفر ہے، کتمان حق یعنی حق کو حق جانتے ہوئے چھپانا یا مرضی اور ذاتی خواہش اور مفاد کے مطابق ہو تو ماننا ورنہ نہیں۔ آیات الہٰی کا کاروبار ، حق او رباطل میں باہم آمیزش،کتمان حق، غیراللہ کی پوجا،استحقاق سے زیادہ مدارج کے مطالبے پراڑ جانا، تحریف، خدا پرافتراء،دین کو خاندانی جائیداد بنا لینا،اگر حق کہیں اور ثابت ہوجائے تو نہ ماننا او رمجموعی لحاظ سے پوری قوم میں ایک طبقہ ایساموجود رہنا جو عہد کے باوجود، عہد شکنی پر کمر بستہ رہے تو وہ طبقہ بھی منکر حق شمار ہوگا۔ انکار کے بجائے طاغوت کی طرف رجوع کرنا او ران کے فیصلوں پر قناعت کرنا، یہ سب کفر کی شکلیں ہیں۔ اس سلسلے کی قرآنی تصریحات پہلے گزر چکی ہیں۔

(11) يقتلون النبيين : (اور نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے)

قتل کے حقیقی معنی''جان سے مارنے'' کے ہیں یامجازی معنی انبیاء کی دعوت کو بے اثر کرنےکے لیے جدوجہد کرنے کے ہیں؟ ہمارے نزدیک یہاں اس کے حقیقی معنی مراد ہیں کیونکہ یہاں حقیقی معنی متعذر نہیں ہیں، قرآن و حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

قرآن حکیم:

فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ(پ1 ۔ بقرہ ع11)

''پھر بعض کو تم نے جھٹلایا او رایک گروہ کو تم قتل کرتے تھے۔''

تکذیب انہی مساعی سیئہ کا نام ہے جو دعوت انبیاء کو بے اثر اور ناکام کرنے کے لیے انجام دی جاتی ہیں، اس کے بعد کہ ا کہ ایک گروہ کو تم قتل کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کا مفہوم ایک نہیں ہوکستی۔ پہلے کا جو ہے وہ دوسرے کانہیں ہے، جو دوسرے کا ہے وہ پہلے کا نہیں ہے۔لازماً یہی تصور کیا جائے گا کہ تکذیب کےبعد قتل کاذکر حقیقی معنوں میں آیا ہے۔

روایات:

حضرت ابن مسعودؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب اس شخص کو ہوگا جس کو نبی نے قتل کیا ہوگا یا جس نے نبی کو قتل کیا ہوگا۔

حدثنا عبدالصمد حدثنا أبان حدثنا عاصم بن أبي وائل عن عبداللہ یعنی ابن مسعود أن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال أشد الناس عذابا یوم القیمة رجل قتله نبي أو قتل نبیا و إمام ضلالة و ممثل من الممثلین (ابن کثیر :1؍103 بحوالہ احمد)

اس روایت نے قتل انبیاء کے امکان کو ثابت کردیا ہے جو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں۔ وہ اس کو شرعاً ناممکن تصور کرتے ہیں۔ بہرحال قتل انبیاء شرعاً ناممکن نہیں ہے۔ حضرت علیؓ نے بھی اس امکان کو تسلیم کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: والله لإن مات أو قتل لأقاتلن علی ما قتل عليه (رواہ الطبرانی والحاکم) خود قرآن نے اس امکان کی طرف اشارہ کیا ہے۔أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (آل عمران) اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کاقتل بھی ہوا یا نہیں؟ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہوا: ذیل کی روایات ملاحظہ فرمائیں۔

ابن مسعودؓ سے موقوفاً روایت آئی ہے کہ بنی اسرائیل نے ایک ہی دن میں تین سو نبی قتل کیے۔

قال أبوداود الطیالسي حدثنا شعبة عن الأعمش عن أبراھیم عن أبي معمر عن عبداللہ بن مسعود قال کانت بنو إسرائیل في الیوم تقتل ثلث مائة نبي (ابن کثیر:1؍102) وفي روایة ابن جریر:قتلت بنو إسرائیل ثلٰث مائة نبي من أول النھار (ابن کثیر :1؍355)

حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح سے مرفوعاً روایت ہےکہ :

بنی اسرائیل نے دن چڑھے ایک ہی ٹائم میں (43) نبی او رپچھلے پہر اُن (70) اصلحاء کو قتل کرڈالا تھا، جنہوں نے ان کو تبلیغ کی تھی:

یا أبا عبیدة قتلت بنو إسرائیل ثلثة و أربعین نبیا من أول النھار في ساعة واحدة فقام مائة و سبعون رجلا من بني إسرائیل فأمروا من قتلھم بالمعروف و نھوھم عن المنکر فقتلھم جمیعا من آخر النھار من ذلك الیوم (ابن کثیر :1؍355 بحوالہ ابن ابی حاتم)

اکثرمفسرین اور مؤرخین نے بھی بنی اسرائیل کے قتل انبیاء کو تسلیم کیا ہے۔ بعض مفسرین نے ان کا نام بھی لیا ہے مثلاً شعیا، زکریا ، یحییٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔

صحف آسمانی میں بھی اس کاذکر آیا ہے ۔مثلاً:

''تمہاری ہی تلوار پھاڑنے والے شیر ببر کی مانند،تمہارے نبیوں کو کھاگئی (تواریخ:2)

نحمیا میں تصریحاً آیا ہے کہ: اور تیرے نبیوں کو ، جونصیحت دیتے تھے کہ انہیں تیری طرف پھرا لائیں، قتل کیا (نحمیا)

دور حاضر میں 'ّقتل انبیاء'' کے منکروں میں مرزائی لوگ سب سے زیادہ پیش پیش ہیں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی کچھ حضرات نادانستہ طو رپر ان کے بھرے میں آگئے ہیں جوسرتاپاغلط ہے۔

(12) وکانو یعتدون : (اور وہ حد سے بڑھ بڑھ جاتے ہیں)جو لوگ حدود کو پھاند جانے میں بیباک ہوتے ہیں، وہی لوگ بدی کی انتہاء تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ گو شروع میں حدود شکنی) ابتدائی قسم کی محسوس ہوتی ہے لیکن بالآخر بتدریج وہ چھا جاتی ہے، حدیث میں اس تدریج کاذکر یوں آیا ہے کہ ابتداء میں دل پر ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوتا ہے اگرتوبہ کرلیتا ہے تو وہ صاف ہوجاتا ہے ورنہ سارے دل پر چھا جاتا ہے۔

إن المؤمن إذا أذنب کانت نقطة سودآء في قلبه فإن تاب و استغفر صقل قلبه ومن زادت حتیٰ تعلو قلبه (ترمذی)

ایک او رموقع پر فرمایا کہ:

گناہ کے صدور پرمومن تویوں محسوس کرتا ہے جیسے پہاڑ اس کے سر پر آگرے گا،مگر گنہگار انسان یوں محسوس کرتاہے جیسے ناک پرمکھی آبیٹھی اور اسے ہاتھ اُڑا دیا۔

إن المؤمن یری ذنوبه کأنه قاعد تحت جبل یخاف أن یقع علیه وإن الفاجریری ذنوبه کذباب مرعلی أنفه فقال به ھکذا أي بیدہ فذبه عنه (مسلم)

یہ فاجر وہی شخص ہوتا ہے جو گناہوں کی حد تک ان جھک ہوجاتا ہے او ریہ بات دفعتہً پیدا نہیں ہوا کرتی بلکہ بتدریج یہ ملکہ راسخ ہوتا ہے۔ جب ان میں کوئی راسخ ہوجاتا ہے تو پھر بڑے سے بڑا گناہ بھی اس کی زد میں رہتا ہے۔

والآخر أسود مربادا كالكوز مجخيا لا يعرف معروفا ولا ينكر منكرا إلا ما أشرب من هواه "(مسلم)

یعنی دوسرا دل، راکھ سا سیاہ جیسے الٹا کوزہ جو نیکی او ربدی کے احساس سے بالکل خالی، وہ صرف اس چیز کا احساس کرتا ہے جو اس کے نفس میں رچ بس گئی۔

اس لیے حضورﷺ نے بالخصوص چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچتے رہنے کی سفارش کی ہے:

إیاك و محقرات الذنوب (ابن ماجہ)

کیونکہ چنگاری سے آتشکدے بنتے ہیں بہرحال حدود اللہ کی پامالی کا اگر شروع میں احساس نہ کیا جائے تو انسان کفر و طغیان کی انتہاؤں تک پہنچ کردم لیتا ہے۔

فقہ القرآن:

1۔ صلحاء سے درخواست دعا مناسب ہوتی ہے، خود روحانی مقاصد کے لیے ہو یا جائز دنیوی مصالح کے لیے واذا استسقیٰ موسیٰ لقمہ (بقرہ ع7 ) اذا استسقہ قومہ (اعراف ع2)

2۔ معجزات او رکرامات برحق ہیں۔ فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا۔

3۔ خدا کا عطا کردہ رزق بافراغت کھانا، روحانیت کے منافی نہیں ہے الایہ کہ کوئی جانوروں کی طرح جئے تاکہ کھائے ۔كلوا واشربوا من رزق الله

4۔ ایسا رزق جس سے تعمیر کے بجائے تخریب کے سو نتیں پھوٹ پڑیں پسند نہیں ہے۔ ولا تعثوا في الأرض۔

5۔ خدا کی عنایات سے اعراض مضر ہے الا یہ کہ ان کےساتھ مزید کے لیے سعی کوشش کرے۔ قال أتستبدلون

6۔ مفت کے من و سلویٰ کے انتظار میں نہ رہے بلکہ خود بھی ہاتھ پاؤں ہلا لے۔ اهبطوا مصرا فإن لكم ما سألتم

7۔ عملاً یا اعتقاداً آیات الہٰی سے گریز اور داعیان دین برحق کے خلاف سازشوں کے جال بچھانا خطرناک ہے، وہ انفراداً ہو یا اجتماعاً ۔ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ

8۔ صغائر پر اصرار کے نتائج سخت سنگین اور خطرناک برآمد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس سے کبائر اور طغیان کےدروازے کھل جاتے ہیں جو بالآخر لے ڈوبتے ہیں، دنیا یا آخرت یا دونوں: ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ