عشق کی سربلندی
مُدعی آج چشم پُرنم ہے التفات اس کا باعث غم ہے
عشق کی سربلندیاں ہر سو ! ہو مبارک ، ہوس کا سرخم ہے
اہل دل کو خوشی مبارک ہو بوالہوس آج محو ماتم ہے
ہوگیاگم خلاؤں میں جاکر کیسی تقدیر ابن آدم ہے
رشتہ غم بہ فیض لطف خدا ان دنوں دل سے خوب محکم ہے
یاد سے اس کی دل نہیں خالی ذکر اس کا لبوں پر ہر دم ہے
راہ سیدھی نہیں ہے منزل کی ہر جگہ اس میں پیچ اور خم ہے
ہو ہی جائے گا فاصلہ بھی طے یاد اس کی ہماری ہمدم ہے