اسلام کا قانونِ سرقہ

(بسلسلہ تعزیرات اسلام)

قسط (۳)

قوله: قاضی کو چاہئے کہ وہ چور کو کہے کہ وہ اپنے اقرار سے رجوع کر لے (دفعہ ۵ جزء ب)

أقول: اس بات کی سطحیت پر کچھ کہے بغیر ہم قاضی صاحب کے دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ آپ نے پہلے ابو امیہ مخزومی کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ کے قول کی ناجائز تائید کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں کوئی لفظ تک ایسا نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ قاضی کو رجوع عن الاقرار کے متعلق تلقین کرنی چاہئے بلکہ علامہ خطابی تو اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:

في إسناده مقال قال والحدیث إذا رواه مجهول لم یکن حجة ولم یجب الحکم به (التلخیص لابن حجر۔ ص ۳۵۶)

اسی طرح جو روایت ابن عمر وغیرہ سے پیش کی ہے جس کے الفاظ ہیں ''قال لسارق أسرقت قال لا'' ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ سارق نے ابھی اقرار کیا ہی نہیں تو رجوع کی کیا معنی؟ لیکن اس سے قطع نظر نہ معلوم موصوف نے سبل السلام سے روایات نقل کرتے وقت روایتی تحریف و تصحیف سے کام لیتے ہوئے روایات پر مذکورہ جرح کو کیوں نظر انداز کر دیا حالانکہ اس حدیث کے معاً بعد صاحب سبل السلام رقم طراز ہیں:

قال الرافعي لم یصححوا هذا الحدیث وقال الغزالي قوله قال لا لم یصححه الأئمة (سبل السلام ص ۱۹ ج۴)

یہی جرح ذرا تفصیل کے ساتھ حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر ص ۳۵۷ پر بھی نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت قابل احتجاج نہیں۔

حافظ ابن جزمؒ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں اس کے رجوع سے قبل کا اقرار دو صورتوں سے خالی نہیں کہ یا تو وہ اپنے اقرار میں سچا ہے یا جھوٹا۔ اگر پہلی صورت ہے تو اس پر حد کو جاری نہ کرنا فرض کو معطل کرنے کے مترادف ہے اور اگر غلط اقرار تھا تو پھر اس سے ہرجانہ وصول کرنا ظلم ہے۔ یاد رہے جو لوگ رجوع کے قائل ہیں وہ رجوع کو معتبر سمجھنے کے باوجود سارق سے ہرجانہ وصول کرنے کے بھی قائل ہیں۔''

حافظ ابنِ حزم کے الفاظ ہیں:

فلا یخلوا إقراره ذلك ضرورة من أحد وجهین لا ثالث لهما إما أن یکون صادقا إنه سرق منه ما ذکرأ ویکون کاذبا في ذلك فإن کان صادقا فقد عطلوا الفرض إذ لم ینفذوا علیه ما أمر الله تعالٰی به من قطع ید السارق وإن کان کاذبًا فقد ظلموا إذ عزموه ما لم یجب له عند قط (المحلی ص ۰۴۲ج۱۱)

لیکن تعجب ہے کہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

وإذا أقر الرجل بالزنا أو بشرب الخمر أو بالسرقة ثم رجع قبلت رجوعه قبل أن تأخذه السیاط والحجارة او الحدید (کتاب الام ص ۱۳۹ج۷)

حالانکہ حدود کا عملی اجرا کوئی ایسا داعیہ نہیں ہے جس سے حدود میں رد و بدل غیر ممکن ہو جاتا ہے جبکہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اگر شبہ معقول یا کسی اور معقول وجہ سے اس کا جرم ثابت نہیں ہوتا تو اس کی حد معتدل ہونی چاہئے اور اگر رجوع عن الاقرار ایسا لاحقہ ہے ہی تو پھر حدود کو معطّل کیوں نہیں کیا جاتا؟

اس سے بھی عجیب فتویٰ امام مالکؒ کا ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی ہزار درہم چرا لیتا ہے اور اقرار کرتا ہے لیکن بعد میں اقرار سے رجوع کر لیتا ہے اور مسروق منہ اس سے اپنے مال کا متقاضی بھی ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں سارق سے ہزار درہم تو لیے جائیں لیکن ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (المدونۃ الکبریٰ ص ۲۹۷،ج۶)

اب ہر ذی شعور یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس طرح تو حد سرقہ کا وجود ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مذکورہ ابحاث کی طرح اس موقع پر بھی چور پیشہ حضرات کی مکمل حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اور حدود کو شعوری یا غیر شعوری طور پر معطل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے: حالانکہ اس صورت کو زیادہ سے زیادہ اس دور پر محمول کیا جا سکتا ہے جب لوگوں میں خود یہ جذبہ تھا کہ وہ اپنی بار بار آکر تطہیر چاہتے تھے یعنی وہ خیر القرون کا دور تھا لیکن یہ دور پُرفتن ہے اور لوگوں کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ الامان والحفیظ۔ لہٰذا اس صورت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ ایک توجیہ ہے ورنہ ایسے قاضی کو بھی عبرتناک اور قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔

چنانچہ اس بحث کو محمد بن عبد العزیز الخولی کے اس سلسلہ میں سبل السلام کے حاشیہ پر ایک قابلِ قدر ریمارکس پر ختم کرتے ہیں:

کیف نلقن السارق الذي ینتهك حرمات الأموال الانکار وهل هذا إلا تعطیل للحدود وإعزاء للسارقین علی أن یعثوا في الأرض فسادا (سبل السلام ص ۱۹ ج۴)

لطیفہ:

لطف کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب دفعہ ۵ کے جزءج کے تحت فرماتے ہیں کہ ''مال کے حق میں اقرار سے رجوع مال کو ساقط نہیں کرے گا البتہ اقرار سے رجوع کرنے پر اس کو تعزیری سزا دی جائے گی۔

لیکن ہماری سمجھ سے یہ بات بالا تر ہے کہ ایک طرف تو رجوع کی بنا پر حد ساقط کی جا رہی ہے لیکن مال کا مطالبہ برقرار ہے تو یہ مال کس حیثیت سے لیا جا رہا ہے؟ پھر جب حد ساقط ہو گی تو تعزیری سزا۔ چہ معنی دارد؟ مزید بر آں رجوع عن الاقرار کے متعلق اس موقع پر حضرت ما عزا سلمیؓ کا واقعہ پیش کیا گیا ہے جس کا ایک نقطہ بھی اس بات کو مشعر نہیں کہ آپ نے اقرار سے رجوع کر لیا تھا اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر آپ کے فرار سے احتجاج ہے تو پھر ؎
چہ نسبت خاک را بعالمِ پاک

یک نہ شد دو شد:

ہم قاضی صاحب کی دفعہ نمبر ۵ کے جزءج کا رونا رو رہے تھے کہ جزء د میں بھی یہی گوہر افشائی کی گئی ہے کہ جبری طور پر اگر سارق اقرار کرے تو حد نافذ نہیں ہو گی البتہ مال یا اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔

اس موقع پر بھی ہم ابن حزم کے تجزیہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اہل بصارت و بصیرت سے بڑے افسوس سے یہ عرض کرتے ہیں کہ وہ فقہ کی اس گتھی کو سلجھائیں کہ آخر جب جبر کی وجہ سے حد ساقط ہو گی تو مال کس حیثیت سے لیا جا رہا ہے؟ اگر مال سارق کی حیثیت سے لیا جا رہا ہے تو حد کس حیثیت سے ساقط کی گئی ہے؟

جب کہ قاضی صاحب شامی سے نقل فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں فساد کی کثرت کی وجہ سے متاخرین کے فتوے پر عمل کرنا چاہئے یعنی چوری کے الزام میں چور پر جبر و تشدد بھی جائز ہے تو اس صورت میں مذکورہ بالا جزء و کی وضاحت کا کیا مطلب؟

لغت دانی:

ہم اپنے مضمون کے اوائل میں غالباً یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ اگر قاضی صاحب کو علمِ لغت میں کچھ مہارت ہوتی یا کتب لغت سے دلچسپی ہوتی تو آپ سرقہ وغیرہ کی تعریف میں ٹھوکر نہ کھاتے۔ جب کہ یہ بات محقق ہے کہ اگر انسان کو لغت کی اصلاحات یا اس بات کا علم نہ ہو کہ صلہ کے بدل جانے سے معانی میں بھی فرق آجاتا ہے جیسا کہ تبدیلیٔ اعراب سے معنیٰ بھی تبدیل ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو کوئی شخص عربی عبارت کا مفہوم صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ یہ بات تو مشہور ہی ہے کہ لو لا الاعتبارات لبطلت الحکمة اب کے انہوں نے دفعہ نمبر ۶ میں بھی ایسی ہی بات کہی ہے جو ان کی اصولِ لغت سے عدم واقفیت پر دلالت کرتی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:

لفظ ''أشھد'' (میں شہادت دیتا ہوں) مشاہدہ، قسم اور حال تینوں کو متضمن ہے اس لئے اس لفظ کے علاوہ کسی اور لفظ سے شہادت درست نہیں۔ علامہ کا سانی حنفیؒ نے بھی لکھا ہے کہ:

منها لفظ الشھادة فلا تقبل بغیرها من الألفاظ کلفظ الإخبار والإعلام ونحوها وإن کان یؤدي معنی الشھادة تعبد اغیر معقول المعنٰی (البدائع والصنائع ص ۴۰۳۹، ج۹)

اولاً: اس میں یہ تناقض ہے کہ آپ نے پہلے کہا ہے کہ ''میں گواہی دیتا ہوں'' بھی ٹھیک ہے۔

ثانیاً: مشاہدہ کو ظاہر کرنے کے لئے اور زمانہ حال پر دلالت کرنے والے الفاظ اور بھی ہو سکتے ہیں مثلاً ''میں کہتا ہوں کہ فلاں آدمی کو میں نے ایسے کرتے دیکھا ہے ''یا'' میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے یہ کام کیا ہے۔'' وغیرہ وغیرہ۔

ثالثاً: جہاں تک اس میں قسم کا تعلق ہے تو پہلے یہ بات بایں وجہ بالکل ناقابلِ التفات ہونے کے ساتھ محتاج وضاحت بھی ہے کہ کیا گواہی میں قسم کی ضرورت (شرط) بھی ہے یا نہیں اگر نہیں تو اس خصوصیت کے کیا معنی؟

پھر قاضی صاحب نے اس کی تائید میں یہ محاورہ پیش کیا ہے کہ ''اَشْهَدُ بالله لقد کان کذا'' حالانکہ ایک مبتدی بھی اس جملہ کے متعلق جانتا ہے کہ اس میں قسم کا معنی محض اشهد میں مضمر نہیں بلکہ باللّٰه کی وجہ سے ہے یعنی قرائن کے بغیر أشهد قسم کے معنیٰ میں استعمال نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب ''لسان العرب'' ''فشهادة أحدهم أربع شهادات باللّٰه'' کے بعد فرماتے ہیں ''الشهادة معناها الیمین هٰهنا۔''

عبارت کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ قرائن کے بغیر ''أشهد'' میں قسم کا معنیٰ نہیں پایا جاتا۔ اور اسی قسم کی قرائن سے متصف بات صاحب تاج العروس نے بعض اہل لغت سے نقل کی ہے۔ بنا بریں ہم علیٰ وجہ البصیرت یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی اہل لغت نے کہیں بھی اس بات کی صراحت نہیں کی کہ محض ''أشهد'' میں قسم کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ فأتوا برھانکم إن کنتم صٰدقین۔ اور ہمارے اس مدعا کی حافظ ابن قیم کا یہ قول بھی تائید کرتا ہے۔ ''ولا یعرف عند أحد من الصحابة والتابعین اشتراط لفظا لشهادة'' اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لئے زاد المعاد ص ۱۹۵،ج۲ کی طرف مراجعت فرمائیں۔ بالفرض یہ بات تسلیم کر لی جائے تو قاضی صاحب کیا فرماتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جو ''اشهد'' کے ساتھ اقرارِ سرقہ کرتا ہے لیکن قاضی اسے رجوع کے لئے کہتا ہے اور وہ رجوع کر لیتا ہے تو کیا وہ حانث ہو گا یا نہیں؟ پھر نہ معلوم قاضی صاحب سے یہ حقیقت کیوں اوجھل رہی کہ جس امام علیہ الرحمۃ کی تائید میں وہ اس قدر کوشاں ہیں وہ تو نماز میں بھی لسانی اور معنوی رد و بدل کے قائل ہیں تو اس شہادت میں کیونکر رد و بدل نہیں ہو سکتا؟

قوله: جن گواہوں کے حالات قاضی کسی دوسرے مقدمہ میں معلوم کر چکا ہو اگر وہی گواہ اسی قاضی کے سامنے کسی اور مقدمہ میں شہادت کے لئے حاضر ہوں تو ان کے حالات دوبارہ قاضی معلوم نہیں کرے گا بشرطیکہ چھ ماہ کے اندر حاضر ہوئے ورنہ دوبارہ ان کے حالات معلوم کرے گا (دفعہ نمبر ۸ جزء ب)

أقول: چھ مہینے کی تعیین کی وجہ ترجیح کیا ہے؟ جب کہ کسی آدمی کا ''مرضی'' ہونا ایک منٹ سے لے کر لا متناہی وقت کے درمیان بھی ممکن ہے۔ نیز نوعیتِ مقدمہ گواہوں کی حیثیت پر اثر انداز کیوں نہیں ہوتی؟

قوله: سرقہ اور دیگر حدود کے مقدمات میں گواہی پر گواہی کو قبول نہیں کیا جائے گا البتہ مالی حقوق کے بارے میں قبول کیا جائے گا (دفعہ نمبر ۱۰)

أقول: حدود اور مالی حقوق کا فرق کس نص صریح پر مبنی ہے؟ جبکہ قاضی صاحب نے تزکیہ شہود دفعہ نمبر۸ کے ضمن میں یہ بات لکھی ہے کہ صاحبین کے نزدیک تمام مقدمات میں گواہوں کا تزکیہ کرنا ضروری ہے۔ اور فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے!

قوله: سرقہ، زنا اور خمر کے مقدمات کے شاہد واقعہ کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر قاضی کے پاس واقعہ کی شہادت دیں ورنہ بعد کی شہادت قبول نہ ہو گی مگر قذف، قصاص اور مالی حقوق کے بارے میں قبول ہو گی۔

أقول: ایک ماہ بعد گواہ اس قابل کیوں نہیں رہتا کہ اس کی شہادت قبول نہ کی جائے؟ سرقہ زنا اور شرب خمر نیز قذف اور قصاص وغیرہ میں من حیث المقدمات کیا فرق ہے؟ کہ زائد المیعاد شہادت قسم الثانی میں تو قبول ہو اور قسم اول میں مردود؟ اگر قسم اول خالص حق اللہ کے مقدمات ہیں تو قاضی صاحب نے آگے چل کر دفعہ نمبر ۶ کے ضمن میں تسلیم کیا ہے کہ حقوق العباد حقوق اللہ سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعیؒ نے حقوق العباد اور حقوق اللہ میں کوئی فرق نہیں کیا اور کسی قسم کی مدت کا تعین نہیں کیا۔ کیونکہ وہ حقوق اللہ کو بھی حقوق العباد ہی پر قیاس کرتے ہیں۔

اور اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو حقوق العباد میں تو اکثر اوقات نہیں بلکہ ہمیشہ حقوق اللہ آتے ہی ہیں لیکن حقوق اللہ کے ضمن میں حقوق العباد کا آنا کوئی ضروری امر نہیں۔ اس اعتبار سے بھی اگر حقوق العباد میں زائد المیعاد شہادت قبول ہے تو حقوق اللہ میں بالاولیٰ قبول ہونی چاہئے!

قوله: اگر اجراء حد تک درج ذیل شروط میں سے کوئی شرط فوت ہو جائے تو حد ساقط ہو جائے گی اور تعزیری سزا عائد ہو گی۔

پہلی شرط: اجراء حد تک سارق اور مسرق منہ کے درمیان خصومت قائم ہو'' (دفعہ ۱۴ ترجمان القرآن فروری ۱۹۷۸ء) اس کے بعد اس ضمن میں قاضی صاحب نے پانچ امور ذکر کیے ہیں جن سے خصومت ختم ہوجاتی ہے۔

أقول: لیکن در حقیقت وہ امور تقریباً ایسے ہیں جو کہ عدالتی کارروائی کے موانع کے ضمن میں آتے ہیں حالانکہ شرعی نقطۂ نظر سے کوئی مقدمہ جب عدالت میں چلا جائے تو مدعی کو حق ہی حاصل نہیں کہ وہ اپنے دعوے میں رد و بدل کرے (ورنہ ایسے مدعی کو سزا ملے گی) جیسا کہ حضرت صفوان بن امیہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے اور اسی بنا پر علامہ ابن رشد لکھتے ہیں۔

واتفقوا علی أن لصاحب السرقة أن یعفوا عن السارق ما لم یرفع ذلك إلی الإمام لما روي عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده أن رسول اللّٰه ﷺ قال تعافوا الحدود بینکم فما بلغني من حد فقد وجب'' وقوله علیه السلام ''لو کانت فاطمة بنت محمد لأ قمت علیھا الحد'' وقوله لصفوان ''هلا کان ذلك قبل أن تأتیني۔'' (البدایۃ المجتھد ص ۳۳۹ج۲)

یعنی یہ عفو وغیرہ کا سلسلہ قبل از عدالت ہونا چاہئے۔ اسی طرح آپ نے ہبہ کے متعلق لکھا ہے۔ ہبہ کے متعلق امام مالک اور امام شافعی کا خیال ہے کہ حد جاری ہو گی۔ ''لأنه رفع إلی الإمام'' نیز امام احمدؒ اور امام ابو یوسفؒ کا بھی یہی خیال ہے۔ علامہ فراء جنبلی فرماتے ہیں۔

إذا وهبت له السرقة لم یسقط عنه القطع وإذا عفارب المال عن القطع لم یسقط (الاحکام السلطانیۃ ص ۲۵۲)

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے قاطع الطریق کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر وہ قتل کر دے تو مقتول کے ورثاء کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بعد میں اسے معاف کریں بلکہ قاضی کو حد جاری کرنا ہو گی کیونکہ اس نے کسی خاص امر کی بنا پر اسے قتل نہیں کیا بلکہ مال کی وجہ سے قتل کیا ہے اور اسی طرح سارق کا معاملہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے مفصل بحث کی ہے اس کا اختصار ملاحظہ ہو۔

وَلِهَذَا اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ قَاطِعَ الطَّرِيقِ لِأَخْذِ الْمَالِ يُقْتَلُ حَتْمًا وَقَتْلُهُ حَدٌّ لِلَّهِ؛ وَلَيْسَ قَتْلُهُ مُفَوَّضًا إلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ. قَالُوا؛ لِأَنَّ هَذَا لَمْ يَقْتُلْهُ لِغَرَضِ خَاصٍّ مَعَهُ؛ إنَّمَا قَتَلَهُ لِأَجْلِ الْمَالِ فَلَا فَرْقَ عِنْدَهُ بَيْنَ هَذَا الْمَقْتُولِ وَبَيْنَ غَيْرِهِ فَقَتْلُهُ مَصْلَحَةٌ عَامَّةٌ. فَعَلَى الْإِمَامِ أَنْ يُقِيمَ ذَلِكَ. وَكَذَلِكَ " السَّارِقُ " لَيْسَ غَرَضُهُ فِي مَالٍ مُعَيَّنٍ وَإِنَّمَا غَرَضُهُ أَخْذُ مَالِ هَذَا وَمَالِ هَذَا كَذَلِكَ كَانَ قَطْعُهُ حَقًّا وَاجِبًا لِلَّهِ لَيْسَ لِرَبِّ الْمَالِ؛ بَلْ رَبُّ الْمَالِ يَأْخُذُ مَالَهُ وَتُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ حَتَّى لَوْ قَالَ صَاحِبُ الْمَالِ: أَنَا أُعْطِيهِ مَالِي لَمْ يَسْقُطْ عَنْهُ الْقَطْعُ كَمَا {قَالَ صَفْوَانُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَهَبُهُ رِدَائِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلَّا فَعَلْت قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَ بِهِ} وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ فِي أَمْرِهِ وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُ لَمْ يَزَلْ فِي سُخْطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ وَمَنْ قَالَ فِي مُسْلِمٍ مَا لَيْسَ فِيهِ حُبِسَ فِي رَدْغَةِ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ} {وَقَالَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ إذَا بَلَغَتْ الْحُدُودُ السُّلْطَانَ فَلَعَنَ اللَّهُ الشَّافِعَ وَالْمُشَفَّعَ'' (فتاویٰ ابن تیمیه ص ۲۳۰، ج۳۴)

گویا کہ شیخ الاسلام کے نزدیک رب المال کا ایسا رویہ اختیار کرنا دراصل حدود اللہ میں سفارش کرنے کے مترادف ہے جو کہ حرام ہے۔

معذرت

ہمیں افسوس ہے کہ صاحب مضمون نے یہاں ایسی تند و تیز زبان استعمال کی ہے جو علمی نقد کی بجائے ذاتی حملوں کی زد میں آتی ہے۔ محدث کا مسلک علمی اختلاف کی گنجائش تو رکھتا ہے، لیکن اس کے لئے ایسا ناروا لہجہ گوارا نہیں۔

صاحب مضمون سے درخواست ہے کہ وہ اپنا زور علمی دلائل کی حد تک محدود رکھیں۔ ہمارے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ سارا مضمون اپنی زبان میں منتقل کر کے شائع کریں اور یہ شاید موصوف کے مافی الضمیر کی ادائیگی کما حقہ کرنے میں مخل ہو۔ (محدث)

اضطراب:

قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث صفوان میں اضطراب متن ہے لیکن واضح ہو ہ اضطراب فی السند ہو یا فی المتن، وہ موجب قدح ہوتا ہے جو ناقابلِ ارتفاع ہو لیکن ہم کو تو اس حدیث میں ایسا کوئی اضطراب نظر نہیں آیا جو قاضی صاحب نے دیکھ لیا۔ شاید کہیں یہ بات نہ ہو کہ تقلید کی رنگین عینک میں حدیث کے شفاف مسائل بھی کچھ ویسے ہو جاتے ہیں۔

لیکن ہم ابو داؤد اور مستدرک للحاکم کی روایات کے الفاظ قارئین کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ وہ کچھ فیصلہ فرمائیں کہ ان میں اضطراب ہے یا نہیں؟ یا قاضی صاحب وضاحت فرمائیں جو کہ انہیں پہلے فرمانا چاہئے تھی۔ ملاحظہ ہوں ابو داؤد کی روایت کے الفاظ۔

عن صفوان بن أمیة قال کنت نائمًا في المسجد علٰی خمیصة لي ثمن ثلٰثین درهما فجاء رجل فاختلسھا مني فأخذ الرجل فأتی به النبي ﷺ فأمر به لیقطع قال فأتیته فقلت أتقطعه من أجل ثلاثین درهما أنا أبیعه وأنسیه ثمنھا قال فهلا کان هذا قبل أن تأتیني به (ابو داؤد ص ۲۴۷، ج۲ طبع مجیدی کانپور)

امام حاکمؒ نے ایک روایت مستدرک میں ان الفاظ سے نقل فرمائی ہے۔

''عن صفوان بن أمیة قال کنت قائما في المسجدوعلی خمیصة لي ثمن ثلاثین درهمًا فجاء رجل فاختلسھا مني فأخذ الرجل فجی ء به النبي ﷺ أمر به لیقطع فأتیته فقلت أتقطعه من أجل ثلاثین درهما أنا أبیعه وأنسیه منها قال فهلا کان هذا قبل أن تأتیني به'' (مستدرک للحاکمؒ ص ۳۸۰ج۴)

اب قارئین فیصلہ فرمائیں کہ اس میں کیا اضطراب ہے؟ جب کہ سند میں بھی کسی قسم کا اضطراب نہیں، جس کو ہم نے اختصار کے پیش نظر ترک کر دیا ہے۔ کہیں یہ مذہبی قلق اور تقلیدی اضطراب کی تسکین کا شاخسانہ تو نہیں کہ اضطراب معرضِ وجو میں آگیا۔ نیز قاضی صاحب کو اصولی نقطۂ نظر سے نہ سہی ایک مقلّد کی حیثیت سے تو اس اضطراب کو سلف میں سے ثابت کرنا چاہئے تھا مگر اِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرصُوْنَ۔

قوله: سارق کا بایاں ہاتھ یا اس کا انگوٹھا یا انگوٹھے کے علاوہ اس کی دو انگلیاں یا داہنا پاؤں کٹا ہوا یا ناکارہ نہ ہو (دفعہ نمبر ۱۴ شرط نمبر ۴) یعنی اگر یہ صورتیں ہوں تو حد ساقط ہو جائے گی۔

أقول: ہم اس تفریع کو بھی چور نوازی کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتے لیکن یہ اختلاف دراصل ایک لحاظ سے اس بات پر مبنی ہے کہ کیا تیسری مرتبہ ہاتھ کاٹا جائے یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تیسری مرتبہ بھی اجرائے حد ہے تو یہ بات پرکاہ سے زیادہ وزن کی حامل نہ ہو گی جیسا کہ خود قاضی صاحب کی بحث زیر دفعہ نمبر ۱۵ کی تشریح نمبر ۲ پیش کرتے ہیں تاکہ آپ اندازہ لگا سکیں کہ اس موہومہ فقہ کے پردہ میں چور پیشہ حضرات کا تحفظ کس انداز سے کیا گیا ہے۔ چنانچہ قاضی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اگر سرقہ بمقدار نصاب ایک شہر میں کیا گیا ہو اور سارق دوسرے شہر میں پکڑا گیا ہو جس میں مالِ مسروقہ کی قیمت نصابِ سرقہ سے کم ہو تو حد نافذ نہ ہو گی۔

آپ یقین جانیے ان دونوں صورتوں کے مضمرات کو لکھتے ہوئے ہمارا ضمیر شرم محسوس کرتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم انہی ابحاث کو دیکھے تو وہ ہمارے اس دعوے پر کیا رائے قائم کرے گا کہ اسلام میں تمام مذاہب باطلہ سے زیادہ مال کا تحفظ کیا گیا ہے کہ ایک ناخواندہ آدمی بھی یہ تصوّر نہیں کر سکتا کہ ایک ایسا سارق جو چوری کرتا ہے اور اسی شہر میں رہتا ہے اس کو اس جرم کی پاداش میں سزا دی جائے کہ وہ یہاں سے بھاگنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوا۔ اور اسی طرح دوسرے دن کے بھاؤ کا اعتبار کیوں نہیں کیا جاتا؟ پھر اس چور کے متعلق کیا خیال ہے جس پر عدالت قطع ید کا حکم نافذ کرتی ہے لیکن وہ اپنے ہاتھ کو بچاتے ہوئے اپنا انگوٹھا کاٹ لیتا ہے یا داہنا پاؤں ناکارہ کر لیتا ہے؟

دفعہ نمبر ۱۵:

جس کا ذکر ہم اشارۃً پہلے کر چکے ہیں کہ اس ضمن میں قاضی صاحب نے یہ اختلاف بیان فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تیسری مرتبہ ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا بلکہ قید کیا جائے گا۔ البتہ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک چاروں مرتبہ حد قائم کی جائے گی۔ اور اگر پھر ضرورت محسوس ہو تو اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے فتوے کی بنیاد حضرت علیؓ کے قول پر ہے کہ ''مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس (سارق) کے لئے کوئی ہاتھ نہ چھوڑوں جس سے وہ کھانا کھائے اور استنجاء کرے اور کوئی پاؤں نہ چھوڑوں جس پر وہ چلے۔'' اس بات پر احناف نے صحابہؓ کے اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے لیکن اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے جیسا کہ ابن حزمؒ نے لکھا ہے اور علامہ ابن رشدؒ بھی فرماتے ہیں۔ کِلَا القولین مروي عن عمرو أبي بکر۔ اور شاید اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ ''فقال الأکثر وقال أبو حنیفة لا قطع علیه'' اور پھر مستقل باب کے تحت فرماتے ہیں: '' قال ابن المنذر ثبت عن أبي بکرؓ وعمرؓ أنهما قطعا الید بعد الید والرجل بعد الرجل'' (تفسیر قرطبی ص ۱۷۲ ج ۶)

علامہ سرخسی حنفیؒ فرماتے ہیں:

قال إبراهیم وقد اختلف أصحاب رسول الله ﷺ فمنهم من قال أقطعه حتی اٰتي علی قوائمه کلها یرید به قول أبي بکر وعمر رضی الله عنهما ومنهم من قال أقطع یده ورجله ثم أجسه یرید به قول علیٍّ وابن مسعود رضی الله عنهما (المبسوط ص ۱۴۰،ج۹)

بالفرض اس اجماع کو تسلیم کر لیا جائے تو نصوص کے مقابلہ میں مرجوح ہی ہو گا اور یہ کہنا کہ امام شافعیؒ نے اپنی تائید میں جو حدیث پیش کی ہے وہ ضعیف ہے، صحیح نہیں کیونکہ اس کی موید احادیث بھی موجود ہیں جن سے اس کا سقم رفع ہو جاتا ہے جیسا کہ اسماء بنت عمیس کا واقعہ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی روایات ہیں جس کو دار قطنی کے حوالہ سے علامہ جزیری نے نقل کیا ہے۔ علامہ موصوف یہ تمام بحث لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں۔

وقد أجاب المالکیة والشافعیة عن هذا الدلیل بأن هذا الرأي لا لقادم النصوص وإن کان المنصوص فیه ضعف کما قال الحنفیة فقد عاضدته الروایات الأخری الوارده بهذا المعنی (الفقہ علی المذاھب اللربعۃ ص ۱۶۲،ج۵)

اسی طرح اگر قرآن مجید کے الفاظ ''فاقطعوا أیدهم وأرجلهم من خلاف'' پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ امام شافعی کا مسلک صحیح ہے کیونکہ اگر ایک ہاتھ کے بعد ایک پاؤں ہی ہوتا تو ''أیدی'' جمع کا صیغہ لا کر '' من خلاف'' کہنے کی ضرورت نہ تھی یعنی ''من خلاف'' اور ''أیدی'' کا تعلق بھی اسی صورت میں صحیح معلوم ہوتا ہے کہ چار مرتبہ حد قطع جاری ہے اور یہی صورت مسئلہ میں ہو گی ورنہ ''حد مرتین'' کے قائلین کا پاؤں کاٹنے کی اجازت نہ ہو گی اور یہ قرآن پر زیادتی ہو گی جیسے قاضی صاحب خود فرماتے ہیں کہ ''قرآن کریم پر زیادتی حرام ہے۔''

نیز یہ کہنا بھی محتاجِ وضاحت ہے کہ حد کا مقصد جان کو تلف کرنا نہیں ہوتا جبکہ بعض حدود کا مقصود ہی یہ ہے مثلاً قتل محاربت وغیرہ اور پھر حدِ سرقہ (چار مرتبہ) میں تو اتلافِ نفس ہوتا ہی نہیں اور جہاں تک معنویت کا تعلق ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ چور نوازی پر ہی محمول کیا جا سکتا ہے کہ کیا نبی علیہ السلام اس معنویت کو نہ سمجھتے تھے؟ اور آپ کا مریض پر حدِ زنا نافذ کرنا بھی اس بات کا مؤید ہے' بالخصوص جبکہ حبسِ دوام بھی معنوی ہلاکت ہی تو ہے هٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب!