فائدہ کچھ بھی نہیں اب تری غوغائی کا

میرے آقا ہے یہ حال آپ کے شیدائی کا مل گیا اس کو لقب دہر میں سودائی کا
تیری قدرت کے کمالات کا دیتا ہے پتہ رنگ یہ، حسن یہ ہر لالہ صحرائی کا
زخمِ الفت ہی میں بیمار کو حاصل ہے سکوں معجزہ ہے یہ فقط ان کی مسیحائی کا
رہروِ راہِ وفا دور ہے منزل تیری چھوٹ جائے نہ کہیں ساتھ شکیبائی کا
خوبیاں اوروں کی آتی ہیں نظر ان کو عیوب جن کے دل میں ہے جنوں اپنی خود آرائی کا
ایک مفلس ہوں، گنہگار ہوں، میں بے کس ہوں فائدہ کیا تمہیں مجھ سے شناسائی کا
اہل حق ہمت و جرأت سے گزر جاتے ہیں مرلہ آتا ہے جب باد یہ پیمائی کا
جرم سے پہلے ہی انجام پہ رکھتی تھی نظر فائدہ کچھ بھی نہیں اب تری غوغائی کا
رنج و غم، راحت و فرحت سے بدل جاتے ہیں قوتِ ضبط ہو، یارا ہو شکیبائی کا
قصدِ نیکی ہی پہ اکرام و کرم کی بارش ایک حیلہ ہے مری حوصلہ افزائی کا
خانۂ دل ہے، یہ عاجزؔ ہے، محبت ہے تری
ہے اثاثہ یہی مولا تیرے شیدائی کا