سورۂ بقرہ

(قسط نمبر ۲۲)
(بقیہ حاشیہ نمبر ۲ قسط گزشتہ)


اس دن وہ جھگڑیں گے:

ایک دوسرے کو وہ وہاں ملزم ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم گمراہ نہ ہوتے۔

﴿ثُمَّ إِنَّكُم يَومَ القِيـٰمَةِ عِندَ رَ‌بِّكُم تَختَصِمونَ ﴿٣١﴾... سورة الزمر"﴿يَر‌جِعُ بَعضُهُم إِلىٰ بَعضٍ القَولَ يَقولُ الَّذينَ استُضعِفوا لِلَّذينَ استَكبَر‌وا لَولا أَنتُم لَكُنّا مُؤمِنينَ ﴿٣١﴾... سورة سبا

لیڈر بولیں گے کہ تم خود ہی بد تھے:

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكبَرُوْا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوْا اَنَحْنُ صَدَرْنَاكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَآءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِينَ (ایضا)

کمزور عوام کہیں گے کہ تمہاری جعل سازیوں اور ہتھکنڈوں نے ہمارا بیڑا غرق کیا۔

بَلْ مَكرُ الَّيلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَأمُرُوْنَنَآ اَنْ نَّكفُرَ بِالله وَنَجْعَلَ لَه اَنْدَادًا (ایضا)

بد لیڈروں سے کہیں گے کہ اس مشکل گھڑی میں ہمارے کچھ کام آسکو گے؟ وہ کہیں گے کام کیا آئیں۔ اس برے حال میں ہم خود تمہارے ساتھ ہیں:

فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ. قَالَ الَّذِينَ اسْتَكبَرُوْا اِنَّا كُلٌّ فِيهَا (پ۲۴۔ مومن ع۵)

اب یہ عوام خواہش کریں گے کہ: الٰہی! پھر ایک دفعہ ہمیں دنیا میں جانا ملے تو ہم ان سے اسی طرح پرے رہیں جس طرح یہ آج ہم سے کنّی کترا رہے ہیں۔

لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّة فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرُّؤُا مِنَّا (بقرہ۔ ع۲۰)

کاش! ہم نے اللہ اور رسول کا کہا مانا ہوتا، ان چودھریوں کے بھّرے میں نہ آتے۔

يلَيتَنَآ اَطَعْنَا الله وَاَطعْنَا الرَّسُوْلَا (احزاب ع۸)

ہمیں تو یہ عوامی لیڈر لے ڈوبے۔

اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا فَاَضَّلُوْنَا السَّبِيلا.

الٰہی! ان کو دگنے جوتے مار اور ان پر لعنت پر لعنت برسا۔

رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَين مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنٰهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا (ایضا)

پھر ایک دوسرے سے مکریں گے اور لعنتیں کریں گے۔

ثُمَّ يَوْمَ الْقِيمَةِ يِكفُرْ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا (العنکبوت۔ ع۳)

اُٹھ کھڑے ہونے کا دن:

دوسرے صور پھونکنے پر سب مردے اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوں گے اس لئے اسے یوم القیٰمۃ (روز قیامت، کھڑے ہونے کا دن) بھی کہتے ہیں۔

فَاالله يَحْكُمْ بَينَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ (بقرہ۔ ع۱۴)

ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ تُبْعَثُوْنَ (پ۱۸۔ مومنون۔ ع۱)

حساب کا دن:

اس دن سب کا حساب کتاب ہو گا۔ اس لئے اسے یوم الحساب بھی کہا گیا ہے۔

هذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ (پ۲۳۔ ص ع۴)

اس دن باز پرس ہو گی:

وَهُمْ يُسْئَلُوْنَ (پ۱۷۔ انبیاء۔ ع۲)

وَلَيُسْئَلُنَّ يَوْمَ الْقِيمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ (پ۲۰۔ عنکبوت ع۱)

اُن کا کیا کرتا سب سامنے آجائے گا:

يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَئِذٍم بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ (پ۲۹۔ القیمۃ ع۱)

اُس دِن کوئی راز راز نہیں رہے گا:

يَوْمَ تُبْلَى السَّرَآئِرُ (الطارق ع۱)

بھاری دن:

اس سے بھاری دن اور کوئی نہیں ہو گا، اس لئے حقیقی اور واقعی بھاری دن بھی یہی دن کہلاتا ہے۔

وَيَذَرُوْنَ وَرَآئَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا (سورہ دھر ع۲)

زمین بھی خبریں نشر کرے گی:

زمین کی پشت پر انسان رہ کر جو کرتا ہے زمین اس کو یوں بیان کرے گی جیسے ٹیپ۔

يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا (سورہ زلزال)

چیخ و پکار کا دن:

یہ وہ دن ہو گا جب ہر طرف سے چیخ و پکار برپا ہو گی: یا اس لئے ہر ایک کو نام بنام پکار کر بلایا اور حساب لیا جائے گا۔

اِنِّي اَخَافُ عَلَيكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ (مومن ع۴)

اس دن نامۂ اعمال سامنے پائے گا:

یہ وہ دن ہو گا کہ انسان اپنا اپنا نامۂ اعمال کھلا ہوا اپنے سامنے پائے گا۔

وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ كَتٰبًا يَلْقٰهُ مَنْشُوْرًا (بنی اسراءیل ع۲)

یہ کتابچہ (نامۂ اعمال) جعلی نہیں ہو گا بلکہ اس کے شب و روز کا ہوبہو ریکارڈ ہو گا۔

كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيكُمْ بِالْحَقِّ (جاثیہ ع۴) کیونکہ ساتھ ساتھ ہم وہ لکھواتے جاتے تھے۔ اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (پ۲۵۔ جاثیہ ع۴) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُه (ق۔ ع۱) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَيهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق۔ ع۲)

ہر جماعت کو بلا بلا کر ان کا نامۂ اعمال دکھایا جائے گا۔

كُلُّ اُمَّة تُدْعٰى اِلٰى كِتٰبِهاط

اپنے نامۂ اعمال کے لئے:

قیامت میں لوگ اپنے اپنے نامۂ اعمال کے دیکھنے کے لئے ٹولیاں بن کر اپنی اپنی اپنی قبروں سے حشر کے میدان میں لوٹیں گے تاکہ وہ اپنے کرتوت اور اعمال خود ہی مشاہدہ کر لیں۔

يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ (سورۃ الزلزال)

خوف سے آنکھیں نیلی ہو جائیں گی:

حشر کا خوف اس قدر ہو گا کہ آنکھیں نیلی ہو جائیں گی۔

وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا (طہ۔ ع۵)

اگر وہ جاہل بھی ہو گا تو اسے کہا جائے گا تو اب اپنی آنکھوں سے اپنا کچا چٹھا دیکھ اور پڑھ لے اور خود ہی فیصلہ کر کہ اب آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔

اِقْرأً كِتٰبَكَ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيكَ حَسِيبًا (بنی اسرائیل)

جاہل بھی ہو گا تو پڑھ لے گا، آنکھیں بڑی تیز ہو جائیں گی اور جہالت کے سب حجاب کافور ہو جائیں گے۔

لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَة مِّنْ هذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيد (ق۔ ع۲)

وہ سب کچھ دیکھ لے گا:

دنیا میں جو نیکی اور بدی کی آخرت میں جا کر سب کو موجود پائے گا۔ اور یہ کہ کیا آگے بھیجا اور کیا یہاں چھوڑا۔

يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيرٍ مُّحْضَرًاج وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ (آلعمران۔ع۳)

يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتُ يَدٰهُ (النباء۔ ع۲)

اِذَا الْقَبُوْرُ بُعْثِرَتْ. عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ (الانفطار)

دیکھ کر ہاتھ ملے گا اور کہے گا کہ: کاش! دنیا میں آج کے لئے کچھ کیا ہوتا۔

يلَيتَنِي قَدَّمْت لِحَياتِي (الفجر۔ ع۱)

خاص کر جب دیکھے گا کہ دوزخ وہ آگئی تو تڑپے گا مگر اب کیا فائدہ؟

وَجِآءَ يَوْمَئِذٍم بِجِهَنَّمَ. يَوْمَئِذٍ يَتَذَكرُ الْاَنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكرى (الفجر ع۱)

بلکہ تمنا کرے گا کہ: کاش! نامۂ اعمال ہی غائب ہوجاتا۔

تَودَلُّوْ اَنَّ بَينَهَا وَبَينَهُ اَمَدًا بَعِيدًا (اٰل عمران ع۳)

کیونکہ جو عمل کیا تھا اس کا اب بدلہ ضرور ملے گا، اچھے کا اچھّا، برے کا برا۔

اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسِ بِمَا كَسَبَتْ (مومن ع۲)

رجسٹر اعمال خود بولے گا اور سچ سچ بولے گا اس لئے چھپ نہیں سکے گا۔ ذرہ بھر زیادتی نہیں ہو گی۔

وَلَدَينَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ (پ۱۸۔ مومنون ع۴)

صرف نامۂ اعمال نہیں، خود اس کا رونگٹا رونگٹا بولے گا، زبان بند کر دی جائے گی ہاتھ اور پاؤں بولیں گے۔

اَلْيَوْمُ نَخْتِمُ عَلى اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيدِيهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكسِبُوْنَ (یٰس۔ ع۴)

اگر ضرورت پڑی تو زبان بھی گویا ہو کر گواہی دے ڈالے گی۔

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَيدِيهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (النور۔ ع۳)

وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْ تُّمْ عَلَينَا قَالُوْا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِي اَنْطَقَ كُلَّ شَيءٍ (پ۲۴۔ حم السجدہ ع۳)

کھرے کھوٹے سب الگ ہو جائیں گے۔

وَامْتَازُوْا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ (یٰس۔ ع۴)

جس بدنصیب کو بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ملے گا تو وہ اپنا سر پیٹ اُٹھے گا۔

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَه بِشِمَالِه. َيَقُوْلُ يلَيتَنِي لَمْ أوْتَ كِتٰبِيَه. وَلَمْ اَدْرِمَا حِسَابِيَه. يلَيتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَه. مَآ اَغْنٰى عَنِّي مَالِيَه. هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَه (پ۲۹۔ الحاقہ ع۱)

(ترجمہ) اور جس کا نامۂ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ بول اُٹھے گا: اے کاش! مجھے میرا نامۂ اعمال نہ ہی ملا ہوتا اور مجھے اپنے (اس) حساب کی خبر ہی نہ ہوئی ہوتی۔ اے کاش! میری ماں ہی مر گئی ہوتی (میں پیدا ہی نہ ہوتا) ہائے! میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا (ہائے ربّا) مجھ سے میری بادشاہت لُٹ گئی۔

لیکن یہ واویلا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا، حکم ہو گا کہ:

خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ. ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوُْه. ثُمَّ فِي سِلْسِلَة ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ (ایضا)

اس (نابکار) کو پکڑو، (پکڑو!) پھر اس کے گلے میں (لعنت کا) طوق ڈالو پھر اسے لے جا کر جہنم میں دھکیل دو، پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے، (اس کے ساتھ) اس کو خوب جکڑ دو۔

بعض روسیاہ اور قسمت کے مارے ایسے بھی ہوں گے جن کو نامۂ اعمال، پیٹھ کے پیچھے سے پکڑا جائے گا اور ان کی چیخیں نکل جائیں گی۔

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتَابَه وَرَآءَ ظَهرِهِ فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا. وَّيَصْلٰى سَعِيرًا (الانشقاق۔ ع۱)

اور جس کو اس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ پیچھے (سے) دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور (اسی طرح چیختا چلاتا) دوزخ میں جا دھمکے گا۔ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَة وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَة وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ)

اس دن پورا پورا تول ہو گا:

اس دن اعمال اور ان کے بدلوں کا تول ہو گا اور پورا پورا ہو گا۔

وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذِنِ الحَقُّ (اعراف۔ ع۱)

جن کی نیکیاں بھاری ہوں گی فلاں پائیں گے اور جن کی سیئات بھاری رہیں وہ مارا جائے گا۔

فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُه فَاُوْلٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُه فَاُوْلٰٓئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيتِنَا يَظْلِمُوْنَ (پ۸. اعراف ع۱)

جو یہاں اندھے وہاں بھی اندھے:

جو لوگ حق کے پہچاننے سے یہاں اندھے رہے اور اپنی عارضی مصلحتوں کی بناء پر کتاب و سنت سے آنکھیں بند کر کے رہے وہ قیامت میں بھی اندھے اُٹھیں گے۔

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكرِي فَاِنَّ لَه مَعِيشَة ضَنْكا. وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيمَة اَعْمٰى (طہ۔ ع۷)

وہ کہے گا: الٰہی! میں تو بینا تھا، مجھے اب اندھا کر کے کیوں اُٹھایا: فرمایا تم نے وہاں ہمیں بھلایا، آج ہم تمہیں بھولے۔

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (ایضا)

بلکہ وہاں اندھا پن دنیا سے کہیں زیادہ گہرا ہو گا۔

وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا (بنی اسرائیل ع۸)

یہ گھڑی آکررہے گی:

فرمایا یہ خیالی باتیں نہیں: یہ گھڑی بس آنے کو ہے اور یقیناً آنے کو ہے۔

إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا (پ۲۴۔ مومن ع۶)

لَا تَجْزِیْ (کافی نہیں ہو گا، بدلہ نہیں ہو گا) یہاں پر قیامت کی ایک اور خصوصیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ: پیٹ سرف اپنے کھانے سے بھرے گا، کسی کا کھایا پیا آپ کے پیٹ کے کام نہیں آئے گا۔ یہاں پر چار چیزوں کا ذکر ہے (۱) کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا (۲) سفارش بھی نہیں چلے گی (۳) رشوت بھی نہیں ہو گی (۴) نہ کوئی مدد کو آئے گا۔

کوئی شخص کسی کا عوض نہیں ہو سکے گا:

کوئی چاہے بھی تو فرمایا: اس دن کسی کے لئے کسی کا کچھ بھی بس نہیں چلے گا۔

ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ (18) يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا(انفطار ع۱)

کیونکہ اس دن صرف اللہ کا امر چلے گا۔

وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ(الانفطار ع۱)

ذرہ بھر بھی کوئی نفع یا ضرر کا مالک نہیں ہو گا، نہ اپنے لیے نہ دوسرے کے لئے۔

فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا (پ۲۲۔ السبا ع۵)

کفارہ کا وہ تصور جو عیسائیوں اور دوسرے بدعتیوں میں پیدا ہو گیا ہے ان آیات سے ان کی بھی جڑ کٹ گئی۔

یہاں تک کہ باپ بیٹے کے اور بیٹا باپ کے بھی کام نہیں آئے گا۔

وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا(لقمان۔ ع۴)

اُلٹا ان سے بھاگیں گے:

ماں باپ یا اولاد کا کام آنا تو بڑی بات ہے وہ الٹا ان سے بھاگیں گے کہ کہیں ان کے عوض ہمیں نہ دھر لیا جائے۔ کیونکہ اس دن سب کو اپنی پڑی ہو گی۔

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ  (سورہ عبس۔ پ۳۰)

(ایسی نفسی نفسی پرے گی کہ) آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا، اس دن ان میں سے ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی۔

بلکہ اپنے پاؤں تلے لیں گے:

کہتے ہیں کہ بندریا کے پاؤں جلنے لگے تو اس نے اپنے نیچے اپنے بچے لے لیے، یہی حال وہاں ہو گا، آرزو کرے گا کہ اس کی بجائے ان کو دوزخ میں ڈالا جائے۔

يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ (11) وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ (12) وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ  (پ۲۹۔ المعارج)

مجرم تمنّا کرے گا کہ اے کاش! اپنے بیٹوں اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور اپنے کنبے کو جو اس کو پناہ دیا کرتا تھا (اس دن کے عذاب کے بدلے میں دے دے)۔ بلکہ اتنی خود غرضی پر اتر آئے گا کہ بس چلے تو سارا جہان اپنے بدلے میں دوزخ کو دے دے۔

 وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ (المعارج ع۱)

دوست بھی کام نہیں آئیں گے:

حشر کی گھری ایسی ہو شربا گھڑی ہو گی کہ کوئی مجنوں اپنی لیلیٰ کو اور کوئی فرہاد اپنی شیریں کے کام نہیں آسکے گا۔

يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ(پ۲۵۔ الدخان۔ ع۳)

بلکہ اس دن یہ دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اور جس دوست کی دوستی دشمنِ ایمان ثابت ہو گی، وہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھائیں گے: اِلّا یہ کہ وہ ایک دوسرے کے ایمان کے محافظ اور پاسباں رہے ہوں۔

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (پ۲۵۔ زخرف۔ ع۶)

سفارش نہیں چلے گی:

سفارش سے غرض ہوتی ہے کہ: حاکم کو یقین دلا دیا جائے کہ یہ عادی مجرم نہیں ہے، بس بشری کمزوری سے ان سے قصور ہو گیا ہے۔ آئندہ محتاط رہے گا ظاہر ہے کہ اب محتاط رہنے کا سوال ہی نہیں ہے کیونکہ اب اس کا وقت ہی نہیں رہا۔ دوسرا یہ ہے کہ کوئی رسہ گیر ہے، چاہتا ہے کہ اس نے جو کتّے باندھ رکھے ہیں، ان کی خدماتِ سیئہ کا حق ادا کرے۔ آپ جانتے ہیں کہ اب اس کا بھی وقت نہیں ہو گا، کیونکہ کسی کو کسی کا ہوش نہیں رہے گا، نہ اس کی کسی میں جرات ہو گی۔ اس لئے اس سفارش کی گنجائش بھی نہ رہی۔ ہاں احکم الحاکمین جو دانائے راز ہیں اگر کسی کے سلسلے میں کچھ گنجائش دیکھیں گے تو انبیاء اور صلحاء کو ان کی لسٹ مہیا کر دیں گے۔ اب وہ مناسب تصوّر کریں گے تو شفاعت کریں گے ورنہ نہیں۔

مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَه اِلَّا بِاِذْنِه(بقرۃ ع۳۴)

''کیونکہ وہ سفارشی خدا سے ڈرتے اور کانپ رہے ہوں گے۔''

وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِه مُشْفِقُوْنَ (پ۱۷۔ انبیاء ع۲)

اور وہ کسی کی سفارش تک نہیں کر سکتے الّا یہ کہ خدا جن کے حق میں پسند فرمائے اور (سفارشی فرشتے) اس کے جلال سے (ہر وقت) ڈرتے رہتے ہیں۔

شفاعت کا مسئلہ، مجرموں کی حوصلہ افزائی کے لئے نہیں ایجاد کیا گیا بلکہ اس سے غرض ان گنہگاروں کی ڈھارس بندھانا ہے جو گناہ کر کے پچھتا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دے۔ تاکہ وہ مایوس نہ ہو جائیں اس لئے توبہ اور شفاعت دونوں کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔ یا ان اہلِ ایمان افراد کے لئے ہے جو گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اب اللہ میاں ان کے سلسلے میں صلحاء کو شفاعت کرنے کی اجازت دیں گے۔ کہ اگر کہو تو اب ہم انہیں چھوڑے دیتے ہیں۔ گویا کہ وہ اب مائل بہ کرم ہے۔ اگر شفاعت کا وہ مفہوم مراد ہو جو عوام کی خوش فہمیوں نےاگلا ہے تو پھر شرعی تکلیفات ایک تکلّف بن کررہ جائیں گی۔

شفاعت صرف موحّد کر سکیں گے:

جو اہلِ توحید ہوں گے اور حق و صداقت جن کی زندگی کا شعار ہو گا، وہی شفاعت بھی کر سکیں گے۔

وَلَا يَمْلكُ الَّذِينَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَة اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ (زخرف۔ ع۷)

اور اس کی بات بھی پسندیدہ ہو۔

اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَه الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا (طٰہ ع۶)

وجہ اس کی یہ بتائی کہ دانائے راز میں ہوں، دوسرا صحیح معنیٰ میں حقیقت حال واقف نہیں ہے۔

يَعْلَمُ مَا بَينَ اَيدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُوْنَ بِه عِلْمًا (پ۱۶۔ طٰہٰ ع۶)

یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ قیامت میں ایک گروہ کو دیکھ کر سفارش کریں گے تو آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیسی کیسی بدعتیں ایجاد کی تھیں۔

إنك لا تدري ما أحدثوا بعد ك مازا لوا یرجعون علی أعقابِھِمْ (مسلم)

یہ لوگ شفاعت سے محروم ہوں گے:

ان لوگوں کو شفاعت کی اجازت نہیں ہو گی: اور نہ اس کو وہ فائدہ دے گی۔

تارک نماز، محتاجوں کے سلسلے میں بے رحم، بکواسی، منکر آخرت۔

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِينَ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ حَتّٰى اَتٰنَا الْيَقِينُ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَة الشَّافِعِينَ (مدثر۔ ع۲)

جو غیر اللہ کو پکارتے ہیں، وہ بھی نبی اور صلحاءِ امت کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ  وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ  (پ۲۲۔ السبا۔ ع۳)

مشرک اور بے انصاف لوگوں کی شفاعت بھی نہیں ہو گی۔

مَا لِلظّٰلِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَّلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ (پ۲۴۔ المؤمن۔ ع۲)

جن کے نزدیک دین صرف وقت کٹی کی بات ہے جو دنیا کے نشہ میں غرض ہیں وہ بھی محروم رہیں گے۔

وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوْا دِينَهُمْ لَعِبًا وّلَهوًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَيوةُ الدُّنْيَا....... لَيسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللهِ ...... وَلِي وَّلَا شَفِيعٌ (انعام۔ ع۸)

معاوضہ:

وہاں کوئی معاوضہ قبول نہ ہو گا، یہ بات بفرض محال کہی گئی ہے کیونکہ اس دن کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہو گا۔ وہاں تو ایسے بے داغ دل کی دولت درکار ہو گی جو غیر اللہ کی غلامی کی آلائشوں سے پاک رہا ہو۔

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٌ (پ۱۹۔ الشعراء۔ ع۵)

فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَة (پ۲۷۔ الحدید۔ ع۲)

وہ معاوضہ زمین بھر کر سونا ہی کیوں نہ ہو۔

فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّلِوِ افْتَدٰى بِه(پ۳۔ اٰل عمران۔ ع۹)

زمین ومافیہا کی بات نہیں، ایسی دُگنی کائنات پیش کی جائے تب بھی قبول نہیں ہو گی۔

لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيعًا وَّمِثْلَه مَعَه لِيَفْتَدُوْا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيمَة مَا تَقُبِّلَ مِنْهُمْ (پ۶۔ مائدہ۔ ع۵)

اور بھی جو کچھ اس کے بس میں ہو، وہ سب سے ڈالے تو بھی قبول نہیں ہو گا۔

وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤخَذْ مِنْهَا (پ۷۔ الانعام۔ ع۷)

مدد نہیں کی جائے گی:

مدد کہیں سے کاہے کو پہنچے گی، سب کو تو اپنی پڑی ہو گی۔ ویسے بھی وہاں ایک رسہ گیر کی حیثیت سے ایک مجرم کی مدد کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

وَيَوْمَ الْقِيمَة لَا يُنْصَرُوْنَ (پ۲۰۔ قصص۔ ع۴)

وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ اَوْلِیَآءَ يَنْصُرُوْنَهُمْ مِّنْ دُوْنِ الله (پ۲۵۔ شوریٰ ع۵)

احادیث پاک اور یوم القیامہ

قیامت:

قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہو گی جب تک ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود رہے گا قیامت نہیں آئے گی۔

لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إلاعلٰی شرار الخلق (مسلم)

لا تقوم الساعة حتی لا یقال في الأرض اللّٰہ اللّٰہ (مسلم)

ثم یرسل اللّٰہ ریحًا باردة من قبل الشام فلا یبقی علی وجه الأرض أو في قلبه مثقال ذرة من خیرأو إیمان إلا قبضته ...... فیبقی شرار الناس۔ (مسلم)

قبیلہ دوس کے لوگ مرتد ہو جائیں گے:

اس وقت قبیلہ دوس کے لوگ مرتد ہو جائیں گے اور بت کی پوجا میں لگ جائیں گے اور ان کی عورتیں مٹک مٹک کر طواف کریں گی۔

لا تقوم الساعة حتّٰی تضطرب أَلْیات نساء دوس حول ذي الخلصة(بخاری و مسلم)

اہلِ ایمان کو اُٹھا لے گا:

جب دنیا کی فضا پاک نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اُٹھالے گا پھر قیامت قائم ہو گی۔

فتوفي کل من کان في قلبه مثقال حبة من خردل من إیمان فیبقی من لا خیر فیه فیرجعون إلی دین اٰبائِھمْ (بخاری، مسلم)

صور پھونکنے کے لئے:

صور پھونکنے کے لئے اللہ کا فرشتہ کان لگائے اور سرجھکائے کھڑا ہے کہ کب حکم ہو۔

واصغی سمعه وحنی جھته  ینتظر متی یؤمر بالنفخ (ترمذی)

صور ایک سینگ جیسی کوئی شے ہے جس میں پھونکا جائے گا۔

الصورقرن ینفخ فیه (ابو داود وقال الترمذی حسن)

اسے سمجھانے کے لئے ایک پیرایۂ بیان تصور کر لیجئے! بہرحال یہ ایک ایسی شے ہے جب اسے بگل کی طرح اس میں پھونکا جائے گا تو پہلے سب لوگ مر جائیں گے، دوسری بار سب اُٹھ کھڑے ہوں گے، اصلی قیامت اسی کا نام ہے۔

صور پھونکنے سے پہلے:

صور پھونکنے سے پہلے مغرب کی طرف سے ایک کالی گھٹا اُٹھے گی جو دیکھتے دیکھتے آسمان کی طرف پھیل کر چھا جائے گی۔ پھر منادی ہو گی کہ: لوگو! امر ربی آگیا اب جلدی مت کرو۔

تطلع علیکم قبل الساعة سحابة سوداء من قبل المغرب مثل الترس فلا تزال ترتفع في السماء وتنتشر حتی تملأ السماء ثم ینادي مناد یاأیھا الناس أتی أمر اللّٰہ فلا تستعجلوا (طبراني بإسناد جید)

بس پھر قیامت قائم ہو جائے گی اور جو جس حالت میں ہو گا، اسی حالت میں رہ جائے گا۔

الرجلان ینشران الثوب ولا یطویانه وإن الرجل لیحدر حوضه فلا یسقی منه شیئاً أبدا والرجل ناقته له فلا یشر به أبدا (طبرانی باسناد جید)

دونوں صور (نفخوں) میں چالیس کا فرق ہو گا، چالیس کیا؟ دن، ماہ، سال؟ کچھ پتہ نہیں۔

مابین النفختین أربعون (بخاری و مسلم)

اس دوران میں اللہ تعالیٰ زمین کو مٹھی میں لے کر اور آسمان کو لپیٹ کر فرمائے گا: بادشاہ میں ہوں۔ دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟

لقبض اللّٰہ الأرض یوم القیمة ویطوي السماء بیمینه ثم یقول أنا الملك أین ملوك الأرض (بخاری و مسلم)

ساری خلقت ایک ہی میدان میں جمع ہو جائے گی، جہاں کسی کا کوئی نشان نہیں ہو گا:

کسی کے تن پر کپڑا نہیں ہو گا۔ سب ننگے منگے ہوں گے مگر اس کا ہوش کسی کو نہیں ہو گا۔ بے ختنہ اور پیدل ہوں گے۔

یاأيھا الناس إنکم محشورون إلی اللّٰہ حفاة عراة ......... وفي روایة مشاة (بخاری)

سورج بالکل قریب آجائے گا جس کی وجہ سے غضب کا پسینہ چھوٹے گا کہ اس میں کشتیاں تیر سکیں گی۔

تدنوالشمس من الأرض فیعرق الناس (احمد)

حتّٰی أن السفن لو أجریت فیه لجرت (احمد)

بعض روایات میں ہے کہ یہ پسینہ اس دن کی سختی دیکھ کر چھوٹے گا۔

مم ذاك یا أبا عبد الرحمٰن قال مما یری الناس یلقون (طبرانی موقوف باسناد جید)

سب لوگ جمع ہو جائیں گے تو اللہ غریبوں کو بلائے گا، پوچھے گا کہ کیا عمل ہے؟ حضور! مصیبت میں مبتلا ہوئے اور ہمت نہ ہاری اور غیروں کا مال و دولت اور اقتدار عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ: بجا ہے: پھر غریبوں کو بہشت میں بھیج دے گااب حساب کتاب کےجھنجھٹ کے لئے امراء اور حکمران رہ جائیں گے۔

تجتمعون یوم القیمة فیقال أین فقراء ھذہ الأمة ومساکینھا فیقومون فیقال لھم ما ذا عملتم فیقولون ربنا ابتلینا فصبرنا وولیت الأموال والسلطان غیرنا فیقول اللّٰہ عزوجل وعلا صدقتم قال فیدخلون الجنة قبل الناس وتبقی شدة الحساب علی ذوي الأموال والسلطان (ابن حبان)

پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔

إن الفقراء یدخلون الجنة قبل الأغنیاء بخمس مائة عام

تین قسم کا حشر ہو گا، کچھ لوگ تو پیدل ہوں گے، کچھ سوار اور کچھ اوندھے منہ چلیں گے۔

یحشر الناس ثلثة أصناف صنفا مشاة وصنفا رکبانا وصنفا علی وجوھھم (ترمذی)

قدم ہلنے سے پہلے سوال ہو گا کہ: عمر کہاں گنوای، جتنا جانا اس پر کتنا عمل کیا، کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ اور جسم کہاں کھپایا۔

لا تزول قد ما ابن آدم حتّٰی یسئال عن أربع: عن عمرہ فیھا أفناہ وعن علمه ما ذا عمل به وعن ماله أین اکتسبه وفیما أنفقه وعن جسمه فیما أبلاہ (ترمذی وقال حسن صحیح)

اس دن وہ بھی حسرت سے آہیں بھرے گا۔ جس نے نیکی کی ہو گی کہے گا کہ کاش! اور نیکی کی ہوتی اور جس نے بدی کی کہے گا کہ کاش!بدی نہ کی ہوتی۔

ولو د أنه رُدّ إلی الدنیا کیما یزداد من الأجر والثواب (احمد۔ رواتہٗ ثقات)

قیامت میں تین دفتر کھلیں گے: ایک میں عمل صالح کا ریکارڈ ہو گا، دوسرے میں گناہوں کا، تیسرے میں اللہ کی نعمتوں کا۔

ثلثة دواوین، دیوان فیه العمل الصالح ودیوان فیه ذنوبه ودیوان فیه النعم من اللّٰہ علیه (بزار)

جس نے غلام کو ایک چھڑی بھی ماری ہو گی اس دن اس کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔

من ضرب مملوکه سوطا ظلما اقتص منه یوم القیمة (بزار)

جب تک تین مرحلے طے نہیں ہوں گے کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا: ایک میزان کا مرحلہ، خدا جانے نیکی کا پلہ بھاری رہتا ہے یا بدی کا، دوسرا نامۂ اعمال کی وصولی کا مرحلہ کہ خدا جانے دائیں ہاتھ میں ملتا ہے یا بائیں میں، تیسرا مرحلہ پل صراط کا کہ پار ہوتے ہیں یا نہیں؟

فھل تذکرون أھلیکم یوم القیامة فقال: أما في ثلثة مواطن فلا یذکر أحد أحدا عند المیزان حتی یعلم أیخف میزانه أم یثقل وعند نظائر الصحف حتی یعلم أین یقع کتابه في یمینه أم وراء ظھرہ وعند الصراط إذا وضع بین ظھری جھنم حتی یجوز (ابو داود والحسن لم یلق عائشة۔

اور اگر نیکی کی میزان بھاری رہی تو فرشتہ علی رؤس الاشہاد اعلان کرے گا جسے ساری خلقت سن لے گی کہ یہ نیک بخت رہا۔ اب اس پر بد بختی کبھی طاری نہیں ہو گی۔ اگر ہلکا رہا تو پھر اعلان ہو گا کہ یہ بد نصیب رہا، اب نیک بختی کا دور نہیں آئے گا۔

فیؤتی بابن آدم فیوقف بین کفتی المیزان فإن ثقل میزانه نادی ملك بصوت یسمع الخلائق سعد فلان سعادۃ لا یشقي بعدھا أبدا وإن خف میزانه نادی ملك بصوت یسمع الخلائق شقی فلان شقاوة لا یسعد بعدھا أبدا (بزار)

بے حجابانہ رب سے بندے کی گفتگو ہو گی (مگر) جدھر دیکھے گا اسے اپنی ہی عمل نظر آئیں گے۔ دائیں بھی بائیں بھی۔ سامنے دوزخ بھی کھڑی ہو گی اس لئے راہِ حق میں کچھ دے کر اس سے بچنے کی کوشش کرو۔

ما منکم من أحد إلا سیکلمه ربه لیس بینه وبینه ترجمان ولا حجاب یحجبه فینظر أیمن منه فلا یری إلا ما قدم من عمله وینظر أشأم منه فلا یری إلا ما قدم وینظر بین یدیه فلا یری إلا النار تلقاء وجھه فاتقوا النار ولو بشق تمرة (بخاری و مسلم)

قیامت میں یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی مسلم کے عوض دوزخ میں دے کر مسلم کو نجات دلائی جائے گی۔ یہ غالباً اس صورت میں ہو گا جب کوئی مسلم ان کا مظلوم ہو گا۔

دفع اللّٰہ إلی کل مسلم یھود یا أونصرانیا فیقول ھذا فکاکك من النار (مسلم)

نمازی کے چہرے کے سجدے کے آثار قائم رہیں گے۔

وحرمه اللّٰہ علی النار أن تأکل أثر السجود (بخاری و مسلم)

جو مسلمان دوزخ سے بچ بھی گئے انہیں پل صراط پر پھر بھی روک کر چیک کیا جائے گا۔ دنیا لینا بیباق ہو گا۔ تو پھر بہشت میں داخل ہوں گے۔

یخلص المؤمنون من النار فیحسبون علی قنطرة بین الجنة والنار فیقتص بعضھم من بعض مظالم کانت بینھم في الدنیا حتّٰی إذا ھذبوا ونُقُّو اأذن لھم في دخول الجنة (بخاری)

قیامت میں حساب ہو گا، کچھ تو محض اللہ کے فضل سے بہشت میں داخل ہوں گے۔ اور کچھ میری شفاعت سے۔

فیحاسبون فمنھم من یدخل الجنّ برحمته ومنھم من یدخل الجنة بشفاعتي (طبرانی)

گنہگار سہی لیکن میری شفاعت ان کے لئے ہو گی جن کے دل میں توحید اور رسالت پر یقین ہو گا۔ ان کے دل اور زبان دونوں ہم آہنگ ہوں گے۔

وشفاعتي لمن شھد أن لا إلٰه إلا اللّٰہ مخلصا وأن محمدًا رسول اللّٰہ یصدق لسانه قلبه وقلبه لسانه(احمد) إن شفاعتي لکل مسلم (طبرانی) ھي لمن مات لا یشرك باللّٰہ شیئًا (ابن حبان)

اُٹھے گا ویسے جیسے زندگی گزارتا تھا، نیک یا بد۔

یبعث کل عبد علٰی مامات علیه (مسلم)

اس لئے سوچ لیں کہ کل آپ کا حشر کس حال میں ہو گا۔

الغرض:

قیامت کے اعتقاد اور یقین سے انسان کو سنبھل کر جینے کی توفیق ملتی ہے اور خدا کے حضور پیش ہونے کے لئے ذہن ابھی سے تیار ہو جاتے ہیں، گویا کہ یہ یقین خدا سے ابھی سے ایک گونہ مناسبت پیدا کرنے کی تحریک کا کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اس کے علاوہ: ذہن اس آوارہ سوچ سے محفوظ ہو جاتا ہے کہ دنیا کا یہ چکر یونہی چل رہا ہے، اس کی ابتداء ہے نہ انتہا، بس چلتا آیا ہے اور یونہی چلتا رہے گا۔

تصوّر آخرت سے اللہ کی عظیم قدرتوں کا احساس بھی کروٹ لینے لگتا ہے کیونکہ مر کر پھر جی اُٹھنا، کفار اور دانشوروں کے لئے یہی بات ہی تو قابلِ فہم نہیں تھی، جب آپ اس کا یقین کر لیتے ہیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ حق تعالیٰ کے کام لا حاصل نہیں ہیں، لا یعنی اور یونہی بے فائدہ نہیں ہیں، حکمت پر مبنی ہیں اور سراپا حکمت ہیں اور جو جو بات بھی دانشوروں کے لئے محال ہے وہی امور ہی خدا کی قدرتوں کا مظہر ہیں۔

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ (49) وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
''اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تم کو (بُری) بُری تکلیفیں پہنچاتے تھے کہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں (یعنی بیٹیوں) کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے (تمہارے صبر کی) بڑی آزمائش تھی۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا،پھر ہم نے تم کو نجات دی اور فرعون کے لوگوں کو تمہارے دیکھتے (دیکھتے) ڈبو دیا۔''

اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ (جب ہم نے آپ کو نجات دی) غلامی غلامی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک غلامی وہ ہوتی ہے جس میں غلام قوم کی حیثیت ایک دستر خوان کی رہ جاتی ہے کہ برسر اقتدار قوم ان کو اپنی ضیافت طبع کے لئے محفوظ رکھتی ہے، جیسے کوئی مرغی یا ایک فاحشہ کو بطور داشتہ رکھتا ہے۔ یہی حال بنی اسرائیل کا فرعون کی غلامی میں تھا، کل جو فراعنہ کو آنکھیں دکھا سکے اسے تو مار دیا جاتا یعنی ان کے لڑکوں کو، لیکن ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جاتا تاکہ اربابِ اقتدار کے بستروں کی زینت بنیں یا ان کے برتن دھوئیں اور جھاڑو پھیریں۔ بہرحال یہ بہت بڑا ابتلاء تھا جس نے بنی اسرائیل کے سارے کس بل نکال ڈالے تھے۔ تاہم اللہ نے ان پر ترس کیا، گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) پیدا کر دیا جس نے فرعون کی آغوش میں پرورش پا کر فرعون کے نہ صرف شکنجے سے قوم کو نکالا بلکہ خود فرعون کو بھی قصّۂ پارینہ بنا ڈالا۔

اس واقعہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ عورت لاکھوں کی تعداد میں کیوں نہ ہو بہرحال وہ بے بس رہتی ہے۔ ان سے کسی قابلِ ذکر انقلاب اور مزاحمت کی توقع نہیں ہوتی، بلکہ اپنے مردوں کے لئے زنجیر بے آواز بن جاتی ہیں اس لئے کوئی قابلِ ذکر قومی اور ملی شعبے ان کے حوالے کرنا مناسب نہیں ہوتا، کیونکہ ان میں ''انفعالی'' کیفیت کا غلبہ رہتا ہے۔ دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس لئے شکار تو ہو جاتی ہیں شکار کرتی نہیں ہیں۔ اور جتنا شکار کرتی ہیں، وہ ایسا مردار ہوتا ہے جس سے قومی مستقبل اور تاریک ہو جاتا ہے۔ روشن نہیں ہو سکتا۔

وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ (اور تمہارے دیکھتے دیکھتے) جب مصر سے بھاگے تو اندھیرا تھا، راہ بھول گئے، اتنے میں فرعون کو بھی پتہ چل گیا۔ اس نے ان کا تعاقب کر ڈالا اب ان کے آگے دریا تھا، پیچھے لشکرِ فراعنہ۔ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والی بات بن گئی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیلیوں کی یہ ''بھول'' بھی الہامی بھول تھی۔ دریا پر پہنچے تو اس نے ان کے لئے راستہ چھوڑ دیا، پیچھے نگاہ ڈالی تو فرعون جیسے دشمن کو غرق ہوتے دیکھ لیا۔ خدا کی طرف سے یہ وہ الہامی مناظر تھے، اگر وہ خوئے غلامی میں پختہ نہ ہوتے تو پھر کبھی بھی راہِ حق سے نہ بھٹکتے۔

داعی حق، اگر راہِ حق پر گامزن رہے اور اسوۂ پیغمبر کو ملحوظ رکھے تو یقیناً راستے سے پہاڑ ہٹ جاتے ہیں، دریا سمٹ کر راستے دے دیتے ہیں۔ بے سرو سامانی کے باوجود، بھاری دشمن پر فتحیاب ہوتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دشمن کا عبرت آموز حشر بھی مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ بہرحال قرآن نے ان کو اپنا وہ ماضی یاد دلایا جس کو اگر وہ سامنے رکھ لیتے تو دوڑ کر پیغمبر خدا ﷺ کی دینی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتے۔ مگر افسوس اب تک ان کو اس کا ہوش نہیں آیا اور حق و باطل کی اس موسوی آویزش کے نتائج سے آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، جو آج بھی جاری ہے۔ اگر وہ غور کرتے و اپنا وزن ''موسوی رزمگاہوں'' کے حوالے کر دیتے، لیکن اس کے بجائے انہوں نے دوڑ کر وقت کی فراعنہ طاقتوں کے پاؤں تھام لیے ہیں، شاید فراعنہ حشر اب پھر وہ بھول گئے ہیں۔

لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا