ضمیر سینہ کے اندر اس پوشیدہ قوت، احساسات کی بے چین روشنی اور مخفی آواز کا نام ہے جو انسان کے اندر ایک جج اور کانشس کے طور پر کام کرتی رہتی ہے۔ اگر دوسرے عوارض کی وجہ سے یہ نورانی ملکہ دھندلانے نہ پائے تو ایک نابینا انسان بھی اس کی روشنی میں اپنا سفرِ حیات جاری رکھ سکتا ہے۔ اور اس کی خلش، انسان کو سدا چونکا کر رکھنے کے لئے کافی ہو سکتی ہے، بشرطیکہ یہ بیداغ رہے۔
انسانی زندگی، بحرِ بے کنار ہے، انسان جس بھی میدان میں قدم رکھتا ہے، اس سلسلے کے معروف اور منکر، مفید اور مضر، صحیح اور غلط بجا اور بے جا کا ایک قدرتی احساس کروٹ لینے لگ جاتا ہے۔ اس باب میں جس قدر کسی کا قدم راسخ ہوتا ہے، اتنا ہی انسانی ضمیر کے آئینہ میں قدرتی واردات اور احساسات منعکس ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ الاّیہ کہ غیر فطری حجابات حائل ہونا شروع ہو جائیں اور ضمیر کا اُفق دھندلانے لگ جائے!
اسلامی سر زمین سے جو ضمیر ابھرتا ہے، وہ مخصوص تعامل، خاص فکر اور مخصوص معاشرہ کا حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی کسک بھی، خاص قسم کی خلش ہوتی ہے۔ جس کی تحریک پر انسانی قلب و نگاہ میں ایک تموج پیدا ہو جاتا ہے اور جتنی اس میں جان ہوتی ہے، اتنی ہی وہ انسان پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ ناقص ہے تو ناقص، کامل ہے تو کامل۔
اسلامی ضمیر کی آبیاری اور جلا کیلئے کچھ ایسے عوامل کی طرف توجہ دلائی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے یہ ضمیر کاروانِ حیات کے لئے ''بانگِ درا'' کا کام دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔
کتاب و سنت:
کتاب و سنت نے قافلۂ حیات کے لئے جو سنگِ میل نصب کیے ہیں، ان کا احترام بہرحال ملحوظ رکھا جائے کیونکہ قرآنی لیل و نہار اور نبوی شب و روز کے حاملِ انسان پر باطنی روشنی کی اس قدر ارزانی ہو جاتی ہے کہ اسے ''لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا'' (اس کی رات بھی دن) کی حقیقت کبریٰ مشہود ہونے لگ جاتی ہے۔ اندھیرے چھٹ جاتے ہیں، قلب و نگاہ کے اغلاق کافور ہو جاتے ہیں، قدم قدم پر حقائق کی مشعلیں فروزاں محسوس ہونے لگتی ہیں، اور اس سے سود و زیاں کے اندیشوں کے چراغ جگمگا اُٹھتے ہیں۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَءامِنوا بِرَسولِهِ يُؤتِكُم كِفلَينِ مِن رَحمَتِهِ وَيَجعَل لَكُم نورًا تَمشونَ بِهِ وَيَغفِر لَكُم...٢٨﴾... سورة الحديد
''مسلمانو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ (تاکہ) خدا تم کو اپنی رحمت میں سے دوہرا حصہ دے اور تم کو ایسی روشنی عنایت کرے جس (کی روشنی) میں چلو اور تمہارے گناہ معاف فرمائے!''
یہ مشعلیں ''نبوت ساز'' نہیں ہوتیں اور نہ یہ کسی ادعائی منصب کے لئے سازگار تحریک کا کام دیتی ہے بلکہ یہ ''بندۂ مومن'' کے قلبی واردات، خطرات اور خلش کی طہارت اور قابلِ سماع صداؤں کا بیان ہے۔ جو صدق نیت کے باوجود کبھی غلط بھی ہو سکتی ہے۔
بے فائدہ اور غیر ضروری کام:
ضمیر کی عافیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو غیر ضروری امور کی چاکری سے دور رکھا جائے ورنہ اس کا دل ایک کباڑخانہ بن جائے گا جس سے ضمیر کے ساتھ ساتھ دوسرے آوارہ سوداؤں کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو سکتی ہیں، اس لئے اب اصلی اور فصلی صداؤں میں امتیاز بھی باقی نہیں رہ سکے گا۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
«مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُهٗ مَالَا یَعْنِیْهِ»(ترمذی)
''انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے مقصد کام چھوڑ دے۔''
انسان سراپا دولت ہے، اس کی توجہ، اس کے کام، اس کے اوقات اور لمحات سبھی بڑی چیزیں ہیں انہیں ضائع ہونے سے بچایا جائے، کیونکہ اس کے ضیاع سے دل کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ جب مکان نہ رہا تو پھر مکین کیسے؟ کیونکہ ضمیر کا مسکن دل ہی تو ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ: خدا کے قرب و وصال کے حصول کے لئے اسے مصروف رکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ زندگی کی راتیں روشن، دِل میں امنگیں نورانی، قلب و دماغ ''بیت اللہ'' (اللہ کا گھر) احساسات و واردات ربّانی مہمان کی حیثیت سے سینہ میں جلوہ گر ہوں: حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذينَ جـٰهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ المُحسِنينَ ﴿٦٩﴾... سورة العنكبوت
''اور جن لوگوں نے ہمارے واسطے محنت کی، ہم ان کو اپنی راہیں ضرور سمجھائیں گے یقین کیجئے: اللہ تعالیٰ اہل اخلاص بندوں کے ساتھ ہے۔''
ہدایت ایک وہ ہوتی ہے جو منزل سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ دوسری وہ ہوتی ہے جس سے منزل کی راہیں روشن ہو جاتی ہیں، جس کے بعد راہی شرح صدر اور طمانیت کے ساتھ اپنا سفرِ حیات جاری رکھ سکتا ہے، گھٹن اور انقباض کے امکانات گھٹ جاتے ہیں۔
احسان کا مفہوم یہ ہے کہ پورے وثوق سے رب کی معیت کے احساس کے ساتھ وہ اپنے رب کی غلامی کرتا ہے، ایک ایسا غلام ہو کر جیتا ہے جو اپنے مولا سے محبت بھی کرتا ہے اور اس کے قرب کا لالچ بھی رکھتا ہے۔
«قَالَ: مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّكَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاكَ »(بخاري سوال جبرائیل النبیيﷺ ص ۱۲، ج۱)
عرض کی: حضور! احسان کیا شے ہے؟ فرمایا یہ کہ آپ خدا کی عبادت اور غلامی یوں کریں کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر آپ کے لئے یہ (مقام) ممکن نہیں تو یہ ہونا چاہئے کہ وہ ذات پاک تو آپ کو دیکھ رہی ہے۔
یعنی جو لوگ مقامِ احسان پر فائز ہیں، حق تعالیٰ ان پر اپنی راہیں کھولتا چلا جاتا ہے۔ ضمیر کی مشعلیں اس پر روشن ہو جاتی ہیں، اس لئے زندگی کے اس خس و خاشاک سے بچ بچ کر چلنے کی سکت پا لیتا ہے جن سے سالک کے پاؤں زخمی ہو سکتے ہیں۔
قدم بے ساختہ ادھر کو اُٹھتے ہیں:
انسان کے شب و روز اور تعامل کا اس کے روحانی مستقبل اور دنیائے دل پر گہرا اثر پڑتا ہے بلکہ دل کی پوری کھیتی اس کے اپنے لیل و نہار کا حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے جب کسی کا دل ان اقدارِ حیات سے آباد ہو جاتا ہے جن سے ''من کی دُنیا'' آب و تاب پا لیتی ہے تو پھر قدرتی طور پر کتاب و سنت کی ہر آواز اِسے اپنے دل کی آواز محسوس ہونے لگتی ہے اور پہلے جو عمل کوئی ایک آئینی فریضہ کے طور پر بجا لاتا ہے، اب وہ اس کے دل کی پیاس بن جاتا ہے۔ اس لئے فرمایا:
«وَلَا یَزَالُ عَبَدِي یَتَقَرَّبْ إلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّهٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُهٗ کُنتُ سَمْعَهُ الَّذِي یَسْمَعُ بِهٖ وَبَصَرَهُ الَّذِي یُبْصِرُ بِهٖ وَیَدَهُ الَّتِي یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَهُ الَّتِي یَمْشِي بِهَا»(بخاری)
''جب کوئی بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب چاہتا ہے تو میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اسے اپنا حبیب بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سماعت (شنوائی) بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت (دید) بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام لیتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔''
مقصد یہ ہے کہ: وہ میرا بن جاتا ہے، میں اس کا، وہ جو بھی کام کرتا ہے میری خوشنودی کے لئے کرتا ہے اور میری مرضی اور منشاء کے مطابق انجام دیتا ہے کیونکہ اب وہ میرا شناسا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس کا دل اسے بتا دیتا ہے کہ میں کس بات سے خوش ہوتا ہوں اور کس بات سے ناخوش! اس کے ضمیر کی ہر خلش، اب اس کے لئے ''بانگِ درا'' بن جاتی ہے اور اس کا انقباض مومنانہ اندیشوں کی ایک بے چین ندا ثابت ہوتی ہے۔ ''تقویٰ'' بھی دراصل مومنانہ ضمیر کی اِسی خلش کا نام ہے۔ چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ:
«اَلْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ» (مسلم)
''گناہ وہ ہے جو آپ کے دل میں خلش پیدا کرے۔''
حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ:
«لَا یَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِیْقَةَ التَّقْویٰ حَتّٰی یَدَعَ مَا حَاكَ فِي الصَّدْرِ»(بخاری)
بندہ تقوے کی رُوح کو اس وقت تک نہیں پا سکے گا جب تک وہ اپنے ضمیر کی خلش کا احترام نہیں کرے گا۔
لوگ کچھ کہیں پروا نہ کر۔ ایسے بندۂ مومن کے ضمیر کی خلش قابلِ احترام ہوتی ہے اس لئے حضور نے فرمایا:
«اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ» (دارمی)
''اپنے دِل سے استصواب کرا لیجیے!''
پھر فرمایا:
«وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْکكَ»(دارمی)
''گو لوگ تجھے اس کے جائز ہونے کا فتویٰ ہی کیوں نہ دیں۔''
مقصد یہ ہے کہ: لوگوں کی بھیڑ چال اور فحوا کی پروا نہ کیجئے! آپ کے مومنانہ ضمیر کی جو صدا ہے، اور جس امر کے اختیار کرنے میں اسے اندیشہ لاحق اور بے اطمینانی کا سامنا ہے۔ اس کا بہرحال آپ کو احترام کرنا چاہئے۔
بلکہ یہی بات زندگی کے ہر شعبے میں ملحوظ رکھی جا سکتی ہے، بھیڑ چال کے تقاضے کچھ اور ہیں، مگر صاحب دِل، اہل فن کی فنی خداقت اور اس کی بے چینیوں کی تلمیح کچھ اور ہے۔ قوم کے بہی خوا، اور ایماندار مگر نباض سیاستدانوں کے ضمیر کی آواز کچھ کہتی ہے لیکن عوام کے عامیانہ تقاضوں اور خواہشات کی فرمائشیں کچھ اور چاہتی ہیں، اس لئے فرمایا کہ: ان کی پروا نہ کیجئے۔
''وَإِنْ أَفْتَاکَ النَّاسُ وَأَفْتَوْکَ'' نے متداول اور مغربی طرز کی مروج جمہوریت اور عوام کی عامیانہ تُک بندیوں کے پلے میں قومی زعما کو باندھنے کی ریت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ بات اصل ''ٹھک'' کی ہے۔ ................. شور کی نہیں ہے، تولنے کی ہے گننے کی نہیں ہے، بات سوسنار کی نہیں، ایک لوہار کی ہے، ہلا شیری کی نہیں اپنے اطمینان کی ہے۔ اس لئے جو لوگ ''عوام عوام'' اور ان کی ''دلچسپیوں اور خواہشات'' کی رٹ لگاتے ہیں وہ حقیقت پسندانہ بات نہیں کرتے۔'' کیونکہ عوام کو رہنمائی مہیا کرنا ہے، لینا نہیں ہے۔ ہاں عوام کے حقوق اور ان کے مناسب مستقبل کی بات کرنا ضرور دانشمندی ہے مگر اپنے سیاسی اغراض کی تکمیل کے لئے ان کے حقوق کا واسطہ دینا، ایمان دارانہ بات نہیں ہے۔
اسلام نے جس ضمیر کی آواز کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ صرف وہ ہے جو اسلامی طرزِ حیات کا حاصل ہے، جس نے بے بس تنکے کی طرح اپنے آپ کو کتاب و سنت کی موجوں کے حوالے کر رکھا ہے۔
یہ روشنی ''قرآن و حدیث'' کے سرمدی چراغوں کو بجھا کر روشن نہیں ہوتی بلکہ اس کی مشعلوں سے مستنیر رہتی ہے۔
یہ ضمیر ''ارادۃ الطریق'' کا نام ہے۔ نبوت اور رسالت کی زمین نہیں ہے اور نہ کسی کم سواد اور برخود غلط کی لن ترانیوں پر مبنی ہے۔
اس کا تعلق ''تقلید'' سے نہیں، بصیرت سے ہے، وہ لوگوں کی بھیڑ چال کا مرید نہیں ہے بلکہ وہ ان کی رہنما قوت کا نام ہے۔
ضمیر کی آواز قابلِ احترام ضرور ہے لیکن اس کا بے خطا ہونا ضروری نہیں ہے، بعض اوقات بعض داخلی اور خارجی حجابات کی وجہ سے یہ مشعلیں مدھم پڑ سکتی ہے۔