کنعان کنعانیوں کا ہے

(بسلسلہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے)

(آخری قسط)

گزشتہ شمارے میں آپ کے سامنے تاریخ فلسطین کے مختصر جائزے کے ذریعے واضح کیا جا چکا ہے کہ یہاں کس کس دور میں کون کون اقوام آباد رہی ہیں اور آج کون کون سی اقوام اس کی دعوے دار ہیں۔ یہ بڑی اہمیت کی بات ہے کہ اس وقت دنیا میں تین ہی الہامی مذاہب ہیں اور تینوں کے ماننے والے فلسطین کے دعوے دار ہیں۔ سب سے پہلے مدعی یہود ہیں آئیے۔ ہم دیکھیں کہ ان کا دعویٰ کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔

یہود کے دعویٰ فلسطین کی بنیادیں درج ذیل ہیں:

1. ہم عبرانی ہیں۔ عبرانی حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور حضرت ابراہیم سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ فلسطین کی حکومت ان کی اولاد میں رہے گی۔ اللہ کا یہ وعدہ اس کے پیغمبر حضرت موسیٰ کی تورات میں موجود ہے۔

2. عبرانی فلسطین کے قدیم ترین باشندے ہیں اس لئے ان کا حق ہے کہ وہ فلسطین کو اپنا وطن سمجھ کر یہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کریں۔

3. ازمنہ گزشتہ یعنی حضرت عیسیٰ سے قبل صدیوں تک فلسطین پر عبرانی یہود کی حکومت قائم رہی ہے جسے بعض دوسری اقوام نے طاقت کے بل پر ختم کر کے انہیں یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا سابقہ علاقہ دوبارہ انہیں سونپ دیا جائے۔

4. فلسطین کی گود میں یہود کا مذہب پروان چڑھا ہے۔ اسی جگہ ان کے انبیاء نے تبلیغ دین کا کام کیا ہے اور یہاں ان کے مقامات مقدّسہ ہیں جن کی تولیت بہرحال انہیں ملنی چاہئے۔

5. فلسطین سے جبراً نکال دیئے جانے کے باوجود عبرانی ہمیشہ اس خطّے کو اپنا وطن سمجھتے رہے ہیں اور وطن کی واپسی کے خواہش مند رہے ہیں۔ آج کی مہذب دنیا کو چاہئے کہ وہ ان کوششوں کی حمایت کرے جو عبرانی اس خطے کو از سرِ نو اپنا وطن بنانے اور اس وطن میں اپنی حکومت کے استحکام کے لئے کر رہے ہیں۔ یہ تو تھیں دعویٰ یہود کی بنیادیں۔ اب ہم ذرا تفصیل کے ساتھ ان کے متعلق آپ کو اپنے حاصل مطالعہ سے آگاہ کرتے ہیں۔

جنرل سر رچرڈ گیل دوسرے مغربی محققین کی ہمنوائی میں لکھتے ہیں۔ ابراہم کسی متعین اور خاص شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ عبرانی قومیت کے تشکیلی دور کا نام ہے اور وہ تمام واقعات جو حضرات ابراہیم سے متعلق ہیں۔ دراصل اس پورے دَور کے ارتقاء پذیر واقعات ہیں کچھ دوسرے محققین کی رائے ہے۔ اگر حضرت ابراہیم واقعی کسی شخصیت کا نام ہے تو وہ ابرام سے مختلف ہے جن کے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ حائل ہے۔ کیوں حضرت ابراہیم آرامی نسل سے بیان کیے جاتے ہیں یعنی وہی نسل جس سے کنعانی ہیں جبکہ ابرام ارومی نسل سے ہیں ان لوگوں کے نزدیک اُرنامی شہر میں ابی رامو اور ابرام وغیرہ نام بکثرت ملتے ہیں۔

اگر تورات کی اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ عبرانی اس ابراہیم کی اولاد ہیں جو اُر سے ہجرت کر کے فلسطین آئے تھے تو قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اس دَور میں اُر دنیا کا بہت بڑا تہذیبی مرکز تھا۔ تجارت، صنعت، زراعت، فن تعمیر اور فنونِ لطیفہ میں دنیا کا امام تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اولین عبرانی شہری زندگی کے لوازمات اور رکھ رکھاؤ سے یکسر عاری تھے۔ وہ خانہ بدوش زندگی کے عادی تھے۔ فن تعمیر اور زراعت سے یکسر نابلد۔ اس طرح وہ اُر جیسے مہذب شہر کے کسی طرح باشندے معلوم نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کا آغاز میں نہ کوئی مذہب تھا نہ پوجنے کے لئے کوئی خدا تھا۔ نہ بولنے کے لئے کوئی خاص زبان۔ جبکہ اہلِ اُر ان تمام خصوصیات سے متّصف تھے۔ عبرانی تو جس علاقے میں جاتے وہیں کی زبان بولنے لگتے۔ وہیں کے خداؤں کو پوجنے لگتے۔ بہت بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ دوسری اقوام کے خدا ہمارے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک کرتے ہیں تو انہوں نے اپنا بھی ایک خدا بنا لیا جسے وہ یہواہ کہنے لگے۔ اس تاریخی شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ عبرانی اُر سے نہیں آئے۔ اِس طرح ان کی نسلی اصلیت یعنی سامی ہونے اور پھر اولادِ ابراہیم ہونے کے امکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ نظریہ ان مغربی محققین کا ہے جو یہودی ماخذوں کو خوب اچھی طرح کھنگال چکے ہیں۔ اس بات کو تقویت بطلیموس کے درباری مورخ مانیتھو کی تحریر سے جو مصر کے قدیم ترین دور کے حالات پر ثقہ ترین مؤرخ سمجھا جاتاہے، ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ یہودی مصری لوگوں کی ایک شاخ تھے جنہیں بعض جرائم کی بنا پر مصر سے نکال دیا گیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہود نے خود کو حضرت ابراہیم کی اولاد میں کیوں کہا یعنی اس ابراہیم کی اولاد جو مہذب شہر اُر سے آئے تھے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ جب فلسطین آئے تو اس وقت تک فلسطینی باشندوں نے اپنے ذہنی ارتقاء کے باعث کاشتکاری اور تعمیر کے سلسلے شروع کر دیئے تھے اور یہی دو چیزیں تہذیب و تمدن کا اولین زندہ ہیں۔ ان کے بالمقابل نئے آنے والے عبرانی نہ تو زراعت سے واقف تھے نہ فن تعمیر سے۔ اس لئے تہذیب کے اس دور میں انہیں کوئی خاص مقام حاصل نہ تھا۔ انہوں نے مقامی فلسطینیوں کو مرعوب کرنے کی خاطر اپنے تخیّل کے زور سے اپنی عظمت گزشتہ خود ایجاد کرنے کی کوشش کی۔ اسی لئے ایک امریکی مؤرخ لکھتا ہے کہ تورات جو یہود کے مذہب کی بنیاد ہونے کے ساتھ ان کی تاریخ کا سب سے بڑا ماخذ بھی ہے موسیٰ کی وہ تورات نہیں ہے جو انہیں خدا کی طرف سے ملی تھی بلکہ یہ یہود کے خطوط اور روایات کا مجموعہ ہے جو خود ساختہ ہے جب قرونِ وسطیٰ میں کھدائیاں اور تحقیقات شروع ہوئیں تو ان سے یہود کی مقدس کتابوں میں موجود تاریخی واقعات کی تصدیق کی بجائے تردید ہوئی۔ اِس لئے وہ ان کے لئے مایوس کن ثابت ہوئیں۔ بہرحال اپنی اصلیت کو مسخ کر کے اپنی منشاء کے مطابق ڈھالنے کا یہ واقعہ تاریخ میں عدیم النظیر ہے۔ اس مقصد کی خاطر یہود نے بعد میں ہر ایسی تحریر کو ختم کرنے کی کوشش کی جو ان کے نقطۂ نظر کے مخالف تھی اور ہر ایسے مؤرخ کی مخالفت کی جس نے اصل حقائق پیش کرنے کی کوشش کی۔ کئی یونانی مؤرخ اسی وجہ سے یہود کا ہدف بنے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ موجودہ یہودی اپنی نسل کے بارے میں جو ثبوت پیش کرتے ہیں ان سے کسی ابراہم کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا۔ مزید برآں اگر یہ مفروضہ کہ ابراہیم اُر کے باشندے تھے تسلیم کر لیا جائے تو یہودی ان کی اولاد ثابت نہیں ہوتے۔ جب یہ اُر سے آنے والے ابراہیم کی اولاد ہی نہیں ہیں تو پھر ارض موعود کے تصوّر کے کیا معنی؟ یاد رہے کہ یہ ساری بحث یہودی ماخذوں پر مشتمل ہے اور قرآن کریم کا نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ یہودیوں پر بھی احسان ہے کہ اِس نے حضرت ابراہیم کا وجود ثابت کیا ہے بلکہ اِس طرح جیسےعیسائیوں کے لئے ان کے پیغمبر حضرت عیسیٰ کا وجود قرآن نے ثابت کیا ہے ورنہ مسیح کے زمانے کی شہادت سے مسیح کا وجود تاریخی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

تورات جس میں خدا کے وعدے کا ذکر ہے اس کے متعلق تمام بڑے مغربی محققین متفق ہیں کہ وہ تورات ہرگز نہیں ہے جو خدا نے ..... کو عنایت کی تھی بلکہ یہ ان روایات و خطوط کا مجموعہ ہے جو مختلف ادوار ہی کی پیداوار ہیں اور جنہیں یہودی علماء نے مذہبی اغراض سے یکجا کر دیا ہے۔ اس توراۃ کا ماخذ وحی الٰہی کی بجائے بعض دوسرے ماخذ ہیں۔ مثلاً مختصر جائزہ تاریخ انسانیت کے مطابق تورات کود آف موسیٰ یعنی پنٹا ٹیوک کا عبرانی نام ہے جس کے متعلق یہود کا عقیدہ ہے کہ ۱۲۳۰ ق م میں حضرت موسیٰ کو بذریعہ وحی کوہِ طور پر ملی تھی لیکن بہت سے نقاداس بات کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ تورات میں شامل پانچوں کتابوں کے وحی کے بجائے ۴ اور ماخذ ہیں جن کے نام Priestly Code – Johist – Elohist اور Deutermonist ہیں۔

''فراعنہ کا مصر'' نامی کتاب کے مصنف کی رائے یوں ہے۔'' عبرانی قوانین موسیٰ (تورات) قانونِ حمورابی سے اخذ شدہ ہیں۔ اور اِس بات کی تصدیق اب چار ہزار سال بعد ایک کھدائی میں ملنے والے ایک ستون سے ہو گئی ہے جس پر قانونِ حمورابی درج ہے۔ ''یاد رہے کہ حمورابی ۲۱۲۳ سے ۲۰۸۰ ق م تک بابل کا بادشاہ تھا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عبرانی زبان جو موجودہ تورات کی اصل زبان سمجھی جاتی ہے۔ اس کے حروف تہجی فونیقی زبان سے ماخوذ ہیں اور اخذ و استفاوے کا یہ واقعہ موسیٰ علیہ السلام سے ۴۰۰ سال بعد کا ہے۔ آخر اس زبان کی کتاب موسیٰ کی اصل کتاب کیونکر ہو سکتی ہے جو زبان ہی موسیٰؑ سے ۴۰۰ سال بعد وجود میں آئی۔ ایسے شواہد کی بناء پر موجودہ تورات کو اصل الہامی کتاب ماننا بہت مشکل ہے اور ایسی جعلی کتاب میں خدا کے وعدے کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔

چلیے براہِ بحث ہم یہ مان لیتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ نے وعدہ فرمایا تھا کہ ان کی اولاد کو ایک مخصوص سرزمین میں آباد کیا جائے گا۔ اِس ضمن میں موجودہ تورات میں لکھا ہے۔ ''خدا نے ابراہیم کو کہا اپنے ملک کو چھوڑو اور اس علاقے میں چلے جاؤ جو میں تمہیں دکھاؤں۔ اس علاقے میں دنیا کے نعمت فتہ خاندان آباد ہوں گے۔'' تورات میں ایک دوسری جگہ یوں ہے۔ ''اے اسرائیل وہ دن آرہے ہیں جب تیری نسل زمین کے تباہ شدہ شہروں کو تعمیر کر کے آباد کرے گی اور میں انہیں اپنی دی ہوئی زمین میں اس طرح مستحکم طور پر آباد کروں گا کہ پھر کوئی انہیں نکال نہ سکے گا۔'' تورات کی ایک عبارت یوں ہے۔ خدا نے ابراہیم سے حتمی وعدہ کیا کہ وہ اس کی نسل کو ستاروں کی طرح زیادہ کر دے گا اور ارض موعود پر انہیں حکمرانی عطا کرے گا۔ ''ایک اور مقام پر یوں ہے۔ میں تیرے جانشینوں کو آسمان کے ستاروں کے برابر کر دوں گا اور یہ ساری زمین جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا ہے انہیں عطا کر دوں گا اور اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ آباد رہیں گے۔''

ان عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی اولاد کو فلسطین کی حکومت عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ آئیے ان پر ذرا غور کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ابراہیم کی اولاد کو ستاروں جتنا کر دوں گا۔ لیکن یہود کی آباد کسی بھی دور میں ڈیڑھ کروڑ سے آگے نہیں بڑھی۔ اور ان ڈیڑھ کروڑ میں بھی سارے یہودی عبرانی یعنی بقول ان کے اولاد ابراہیم نہیں ہیں کیونکہ چیمبرلین کہتا ہے کہ سائنسی طور پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آج کی یہودی قوم سامیوں، صحرائی بدؤوں، حبشیوں اور اموریوں کا مجموعہ ہے۔ جب کہ اموری آریائی یعنی غیر سامی ہیں۔

اس ضمن میں دوسری قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ یہودی حضرت ابراہیم کے پڑپوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ جو حضرت اسحاق کے صاحبزادے تھے جب کہ حضرت ابراہیم کے ایک دوسرے بیٹے کا نام اسماعیل تھا۔ اگر حضرت ابراہیم عبرانی ہیں تو حضرت اسماعیل بھی عبرانی ہیں اور ان کی اولاد بھی عبرانی ہے۔ قبائل عرب انہی اسماعیل کی اولاد ہیں۔ Rebecca Wept At the Wailing Wall کا یہودی مصنف ص ۱۴۴ پر اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ حضرت اسحاق کے سوتیلے بھائی اور حضرت ابراہیم کے بیٹے اسماعیل عبرانی تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضرت اسماعیل کی اولاد جو عرب ہیں خدا کے اس دعوے میں شریک نہیں ہیں جس کا ذِکر تورات میں ہے اور جس کی بنا پر یہود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلسطین ہمارا ہے۔ جب کہ عربوں کی آبادی بھی یہود سے زیادہ ہے اور وہ خدا کے اس وعدے پر زیادہ پورے اترتے ہیں کہ اے ابراہیم میں تیری اولاد کو ستاروں کے برابر کر دوں گا۔ یہود اس بات کا جواب یوں دیتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے بعد اسماعیل کی بجائے حضرت اسحاق منصوص من اللہ تھے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت اسحاق کی اولاد میں حضرت یعقوب کے بجائے ان کے دوسرے صاحبزادے جناب ایسو منصوص من اللہ تھے۔ اس نص کا نشان کوئی پھل تھا جو حضرت یعقوب نے معاذ اللہ چوری کر کے کھا لیا۔ اس طرح نص یعقوب اور پھر اولاد یعقوب یعنی یہود کی جانب منتقل ہو گئی۔ ان بیہودی لوگوں کو اس بات کی قطعاً شرم نہیں ہے کہ وہ محض اپنے خود ساختہ نظریات کو ثابت کرنے کے لئے خدا کے برگزیدہ پیغمبروں پر کس طرح کی الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ اب غور فرما لیجئے کہ اگر حضرت ابراہیمؑ سے ان کی اولاد کے بارے میں بقول موجودہ تورات کوئی وعدہ ہوا تھا تو اس میں کس قدر گڑ بڑ ہو چکی ہے۔ مزید برآن وعدے اور وراثت کا مستحق بھی وہی ہے جو فرماں بردار ہے کیونکہ تورات کے مطابق خدا نے حقِ ملکیت کو فرمانبرداری سے مشروط کیا ہے۔ قرآن نے بھی یہی کہا۔ ﴿قالَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتى ۖ قالَ لا يَنالُ عَهدِى الظّـٰلِمينَ ﴿١٢٤﴾... سورة البقرة" ان حالات میں اگر تاریخ یہود کو بغور پڑھا جائے تو اس میں سوائے سرکشی، نافرمانی انبیاء کو اذیتیں دینے اور قتل کرنے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ان حالات میں دعویٰ فلسطین کے ضمن میں ان کی دلیل اول قطعًا ساقط الاعتبار ہو جاتی ہے۔

یہود کی اپنے دعویٰ فلسطن کو ثابت کرنے کے لئے دوسری دلیل یہ ہے کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں لیکن اگر قدیم ہونا میراث کا مستحق ٹھہراتا ہے تو پھر قدیم ترین اس کا زیادہ مستحق ہے۔ گذشتہ صفحات میں ہم تفصیل بتا چکے ہیں کہ فلسطین کے اصل باشندے کون ہیں اور پھر کس کس دَور میں کون کون یہاں آکر آباد ہوئے۔ اور عبرانی جن کے نام میں ہی یہ بات مضمر ہ کہ وہ فلسطین میں نووارد ہیں کَب یہاں آکر آباد ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فلسطین کے قدیم ترین باشندے غیر سامی ہیں۔ ان کے بعد یہاں اموری آباد ہوئے جن کی نسل شاید اب موجود ہی نہیں ہے۔ ان کے بعد یہاں عرب سے کنعانی آئے اور تورات میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ انہی کی مناسبت سے اس سر زمین کو کنعان کہا گیا ہے اور فلسطین کو کنعایوں کی سرزمین کہا گیا ہے۔ تمام مؤرخین کو اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ کنعانی اس خطہ کے قدیم ترین موجود باشندے ہیں۔ جب سے یہاں آئے اسے وطن سمجھا۔ ہمیشہ یہیں رہے۔ اس ملک کے غموں اور خوشیوں میں برابر کے شریک رہتے ہوئے ہمیشہ یہاں آباد رہے۔ کیسے بھی حالات ہوں انہوں نے کبھی بحیثیتِ قوم ترکِ وطن کا ارادہ نہیں کیا۔ اگرچہ ملک کی حکومت مختلف ادوار میں مختلف قوموں مثلاً اسیریوں، بابلیوں، عبرانیوں، یونانیوں، رومیوںِ، ایرانیوں، سلجوقیوں اور عثمانیوں کے ہاتھوں میں رہی تاہم کنعانی ہر دور میں یہاں موجود رہے۔ حتی الامکان حملہ آوروں کی مزاحمت بھی کرتے رہے۔ یہی کنعانی بعد میں عرب مسلم سوسائٹی میں مدغم ہو گئے اور دلیل ثانی کی بنا پر یہی لوگ خطّہ فلسطین کے اصل وارث ہیں۔ عبرانی تو اغراض کے بندے ہیں۔ کنعانیوں کے بعد فلسطینی آئے۔ پھر معاشی اغراض کے تحت مصر چلے گئے۔ وہاں زمین تنگ ہوئی تو پھر فلسطین چلے آئے۔ حالات کی ناسازگاری پر دوسرے ممالک مثلاً مصر، روس سپین، بلجیم، ہالینڈ جرمنی اور افریقہ وغیرہ چلے گئے۔ یہ لوگ فلسطینی تو کہلا سکتے ہیں فلسطین کے باشندے نہیں کہلا سکتے۔ جب باشندے ہی نہیں تو حکومت سازی کا حق انہیں کیونکر مل سکتا ہے۔

یہود کی تیسری دلیل یہ ہے کہ فلسطین میں جناب مسیح سے قبل صدیوں تک ان کی حکومت رہ چکی ہے جو جبراً ختم کر دی گئی تھی اب یہ علاقہ انہیں دوبارہ ملنا چاہئے تاکہ وہاں اپنی مرضی کی حکومت بنا سکیں۔ گزشتہ صفحات میں ارضِ فلسطین پر ایک طائرانہ نظر آپ ڈال چکے ہیں اور آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ پہلے فلسطین کے مختلف علاقوں میں مختلف اقوام و قبائل حکمران تھے۔ جنہیں عبرانیوں نے آکر زیر کیا۔ پھر بابلی، یونانی، رومی، مصری، سلجوتی، ترک، انگریز یہاں حکمران رہے۔ آخر اتنی اقوام میں سے بلحاظ قبضہ کسے وارثِ فلسطین قرار دیا جائے۔ دورِ حاضر کا مشہور مؤرخ ٹائن بی کہتا ہے۔ 1800 سال بعد فلسطین کو ارضِ یہود نہیں کہا جا سکتا۔ ورنہ امریکہ کو ریڈ انڈین کا ملک کہنا پڑے گا اور انگلینڈ و دیگر کئی ممالک کا بھی آج سے مختلف ہو گا۔ میرے خیال کے مطابق یہود کو سوائے ذاتی حقِ ملکیت کے فلسطین میں اور کوئی حق نہیں ہے۔ چہ جائیکہ ان کی وہاں ریاست قائم کرنے کا حق تسلیم کیا جائے۔''

اسی طرح مہاتما گاندھی نے اپنے اخبار ہریجن کی ۱۲ نومبر ۱۹۳۸ء کی اشاعت میں لکھا۔ اگرچہ مجھے یہود سے مکمل ہمدردی ہے لیکن یہ ہمدردی مجھے انصاف کے تقاضوں سے اندھا نہیں کر سکتی۔ یہود کی قومی وطن کی آواز مجھے متاثر نہیں کرتی۔ فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے۔ جس طرح انگلینڈ انگریزوں اور فرانس فرانسیسیوں کا۔ یہود کو عربوں پر مسلّط کرنا غلط ہو گا۔ اگر یہود کا فلسطین کے علاوہ کوئی وطن نہیں ہے تو کیا دوسرے ممالک میں رہنے والے یہود کو ان ممالک سے نکالنے کے لئے تشدد کرنا جائز ہو گا؟ یا وہ دوہری وطنیت چاہتے ہیں؟ تورات والا فلسطین اب جغرافیائی چیز نہیں ہے۔ صرف یہود کے دلوں میں ہے لیکن اگر وہ اسے جغرافیائی حقیقت سمجھتے ہیں تو برطانوی توپوں کے سائے میں وہاں داخل ہونا غلط ہے اور اس داخلہ کے خلاف عربوں کی مزاحمت بالکل جائز ہے۔

گویا کسی دور میں کسی قوم کا کسی علاقے میں حکمران ہو جانا ان کے ابدی حقِ ملکیت کی دلیل نہیں سمجھا جاتا ورنہ سپین اور سِسلی وغیرہ پر بھی مسلمانوں کا حق تسلیم کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ اقبال نے کہا ؎
ہے ارضِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق               ہسپانیہ پہ حق کیوں نہیں اہلِ عرب کا

فلسطن پر اپنا حق ثابت کرنے کے لئے چوتھی دلیل کے طور پر یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین ان کے مذہب کا گہوارہ ہے۔ یہاں ان کے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ یہیں ان کا مقدس ترین شہر یروشلم ہے۔ جسے خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کے متعلق روایت ہے کہ یہ دنیا کا وسط ہے اور خدا نے تمام شہروں کا وزن کر کے یروشلم کو ہی اس قابل پایا کہ یہاں ہیکل تعمیر کیا جائے۔ یہود کہتے ہیں کہ یہیں ہمارا ہیکل تھا جسے ہم دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہیں ان کے مقدس پہاڑ جبل صیہون اور جبل موریاہ ہیںَ یہیں مسجد اقصیٰ کے مغرب میں ان کی دیوار گریہ ہے جو اس وقت کی موجود یاد گاروں میں یہود کی سب سے مقدس یادگار ہے۔ یہیں تختِ سلیمان اور مزارِ داؤد ہیں۔ یہیں خواب میں خدا نے یعقوبؑ سے کلام کیا اور یروشلم کا نام بیتِ ایل رکھا۔ حضرت ابراہیم اپنے صاحبزادے حضرت اسحاق کو قربانی کے لئے اسی شہر میں لے آئے تھے۔ یہود کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطین میں ہی ان کی روحانی مذہبی اور قومی وحدت وجود میں آئی اور یہیں سے انہوں نے دنیا کو بائبل دی اور عالمی اہمیت کی ثقافت پیدا کی۔ اگر ان باتوں کو فلسطین پر یہود کا حق ملکیت ثابت کرنے کے لئے تسلیم کر لیا جائے تو ہندوستان بدھ مت کے پیرو کاروں کو دینا پڑے گا کیونکہ ان کا بانی بھی یہیں پیدا ہوا۔ ان کا مذہب بھی یہیں پروان چڑھا اور یہاں ان کے مقدس مقامات بھی موجود ہیں۔ لیکن کوئی بھی اس وجہ سے ہندوستان بدھ مت کے پیرو کاروں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بفرضِ محال اگر مقدس مقامات کی موجودگی کو وراثت کو استحقاق سمجھ لیا جائے تو فلسطین میں مسلمانوں کے مقدس مقامات سب اقوام کی نسبت زیادہ ہیں۔ کیونکہ یہود کے پیغمبر داؤد، سلیمان، یوسف، موسیٰ علیہم السلام مسلمانوں کے بھی پیغمبر ہیں۔ اور ان سے منسوب یاد گاریں مسلمانوں کے لئے بھی تقدس رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کے مخصوص مقدس مقامات بھی ہیں جن میں مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔ لہٰذا اگر یہ دلیل استحقاق ثابت کرتی ہے تو پھر استحقاق مسلمانوں کا ثابت ہوتا ہے یہود کا نہیں۔

پانچویں دلیل بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس سے استحقاق ثابت کیا جا سکے۔ ان کا یہ کہنا کہ فلسطین ہمارا ذہنی اور روحانی وطن ہے اور طویل جلا وطنی کے باوجود ہم ہمیشہ واپسی کے خواہش مند رہے ہیں۔ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ مؤرخین کے مطابق جب ۷۲۱ ق م میں اشوریوں نے دس اسباط بنی اسرائیل کو برباد کر کے جنگلوں اور پہاڑوں میں منتشر کیا تھا تو پھر بعد کی طویل تاریخ میں کبھی یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ لوگ کہاں ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی واپسی کی خواہش و کوشش کی۔ بلکہ وہ جہاں بھی گئے ہوں گے مقامی آبادی میں مل جل کر اپنی حقیقت کو فراموش کر گئے۔ بنی اسرائیل کے بارہ اسباط میں سے باقی صرف دو رہ گئے جنہیں بابل کا بادشاہ قید کر کے بابل کے بیگار کیمپوں میں لے گیا تھا۔ جب سائرس نے 538 ق م میں بابل فتح کر کے ان جلا وطن یہودیوں کو واپس فلسطین جانے کی اجازت دی تو واپس جانے والوں کے لئے ہر قسم کی آسائشوں کو واپس فلسطین جانے کی اجازت دی تو واپس جانے والوں کے لئے ہر قسم کی آسائشوں کا بندوبست بھی کیا تو بہت سے یہود نے واپسی سے انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے قیامِ بابل کے دوران وہاں اپنے مذہبی مدارس بنا لیے تھے اور یہ لوگ بابل میں ہی اپنی تالمودی درس گاہوں سے چمٹے رہے۔ اسی طرح سکندر یونانی کے حملہ کے بعد جب سکندریہ علوم و فنون کا مرکز بن گیا تو بہت سے یہودی خود بخود فلسطین س سکندریہ منتقل ہو گئے اور مصری سوسائٹی میں اس قدر ضم ہو گئے کہ اپنی زبان تک بھول گئے حتیٰ کہ عبرانی تورات سے بھی ان کا رابطہ ختم ہو گیا۔ اس لئے ۲۲۸ ق م میں بہت سے یہودی علماء کو یروشلم سے سکندریہ بلا کر عبرانی توراۃ کا یونانی ترجمہ کروایا گیا تاکہ یہ لوگ اپنی مذہبی کتاب کا مطالعہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ لیکن حادثہ یہ ہوا کہ ترجمہ کے لئے آنے والے علماء بھی واپس فلسطین جانے کی بجائے مستقل طور پر سکندریہ ہی میں آباد ہو گئے۔

انقلابِ فرانس کے بعد (1789ء) میں جب یہود سے تقاضا کیا گیا کہ وہ اپنی سیاسی وفا داریوں کا اعلان کریں تو ''تصور یہودی ریاست'' کے مصنف بن ہلپرن کے مطابق یہود نے ایسے کسی بھی خیال کو کہ وہ فلسطین سے کسی بھی طرح متعلق ہیں رد کر کے متعلق ممالک سے وفا داریوں کا اقرار کیا۔ ایسے یہودیوں نے صیہونیوں کی تحریک پر بھی ہجرتِ فلسطین سے انکار کرتے ہوئے برلن اور پیرس کو اپنا صیہون قرار دیا۔ کیونکہ ہر وہ ملک جہاں یہود کے پاس دولت ہے انہیں فلسطین سے زیادہ محبوب و مقدس ہے۔ اعلانِ بالفور کے بعد صیہونیوں نے پوری کوشش کی کہ تمام دنیا سے یہودی ہجرت کر کے فلسطین میں اکٹھے ہو جائیں لیکن عام یہودی اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ لہٰذا صیہونیوں نے ہٹلر کو مختلف ہتھکنڈوں سے تشدد پر ابھارا اور ڈاکٹر دائر مین اور بن گوریاں نے اپنے بے شمار ایجنٹ ہٹلر کی اس فورس میں بھرتی کروائے جن کا کام یہود کو تلاش کر کے قتل کروانا تھا۔ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ یہودی وحشت اور خوف سے یورپی ممالک چھوڑ کر فلسطین میں جا کر آباد ہو جائیں لیکن ان سب اقدامات کے باوجود دنیا بھر سے کل یہودیوں کی نہایت قلیل تعداد فلسطین پہنچی۔

یہود کی مختلف تنظیموں نے عرب ممالک میں آباد یہودیوں کو ہر قسم کی آسائشات کی لالچ دے کر فلسطین آنے کی ترغیب دی لیکن وہ لوگ بدستور مصر، شام، عراق میں آباد ہیں۔ بن گوریاں نے تنگ آ کر یہ اعلان کیا کہ جو یہودی اسرائیل سے باہر ہیں وہ ہمارے مذہب سے خارج ہیں۔ اس لئے سب یہودی یہاں چلے آئیں۔ لیکن اس فتوے کے باوجود اسرائیل میں آباد یہودیوں کی نسبت کئی گنا زیادہ یہودی باقی دنیا میں آباد ہیں۔

آخر یہ لوگ فلسطین کیوں نہیں جاتے جب کہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ہمارا وطن ہے اور ہم ہمیشہ واپسی کے خواہش مند رہے ہیں اور وہاں کی حکومت اسرائیل ان کے لئے چشم براہ بھی ہے؟ بات وہی ہے جو پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہر وہ جگہ جہاں انہیں دولت اور سیاسی اقتدار مل جائے وہ انہیں فلسطن سے عزیز تر ہے اور قومی وطن کی اصطلاح ایک فراڈ ہے جسے انہوں نے سیاسی اغراض کے لئے استعمال کیا ہے۔ ورنہ تاریخ کے کسی بھی دور میں انہوں نے فلسطین کو قومی وطن کی حیثیت سے نہیں دیکھا۔

فلسطین کے دوسرے دعویدار عیسائی ہیں۔ دعویٰ کے اثبات کے لئے ان کے دلائل یہ ہیں:

1. ۳۳۶ء سے حضرت عمرؓ کے دور تک ۶۱۴ء سے ۶۲۸ء کا مختصر عرصہ نکال کر جب یہاں خسر و پرویز ایرانی کی حکومت تھی یہ علاقہ عیسائی قلمرو کا حصہ رہا ہے۔

2. یہ خطہ عیسائیت کا مولد و منشاء ہے اور یہاں ہمارے مقدس مقامات ہیں۔

ان دونوں دلائل کا تارو پود یہود کے دعویٰ فلسطین کے ضمن میں بکھیرا جا چکا ہے اور ویسے بھی صلیبی جنگوں میں انگلینڈ کے رچرڈ بزدل نے صلیبی افواج کے سربراہ کی حیثیت سے یہ علاقہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی ملک العادل کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کے جہیز میں دے دینے کا فیصلہ کر کے عملی طور پر اپنے دعوے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔

اس سر زمین کے تیسرے دعوے دار مسلمان ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم سے ان کی اولاد کو خدا تعالیٰ نے فلسطین کی حکومت عطا کرنے کا کوئی وعدہ کیا تھا تو عرب جو سیدنا ابراہیم ہی کی اولاد ہیں۔ اور یہود (جنہیں اولاد ابراہیم ہونے کا دعویٰ ہے) کی نسبت اس وعدے کی بنا پر حکومت سازی کے زیادہ مستحق ہیں کیونکہ ان کی تعداد یہود سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اگر کسی علاقے کے قدیم باشندے ہونے کی بنا پر استحقاق کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے تو عبرانیوں سے قبل کے کنعانی جو آج اہل فلسطین کہلاتے ہیں اور اسرائیل سے جبراً بے گھر کر دیئے جانے کے بعد شام، مصر، لبنان اور اردن میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں ارضِ فلسطین میں حکومت بنانے کے زیادہ مستحق ہیں اور چونکہ یہ کنعانی اب مسلمان ہیں اس لئے ارض فلسطین مسلمانوں کا علاقہ متصور ہونا چاہئے۔