تذکراتِ معاد یا حالات بعد الموت کی حقیقتِ واقعی کا آسانی سے سمجھانا دشوار ہے۔ نامۂ اعمال کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان حرف قطعی ہے جس کے مطابق جمہور مسلمین کا اعتقاد ہے کہ یہی نامۂ اعمال انسان کی جزا و سزا کا باعث بنے گا۔ قرآن مجید میں ارشادات ربانی کا مقصود و حاصل کلام سعادت، اخلاق حمیدہ و صفات پسندیدہ کا انتساب اور شقاوت، خصائل ذمیمہ اور صافِ رذیلہ کا احتساب ہے۔ ہم اسی زاویہ نگاہ سے زیرِ نظر مضمون میں غور و فکر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
نامۂ اعمال کی حقیقت:
قرآن پاک میں یہ حقیقت متعدد مقامات پر صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ امر انسان پر واضح ہو جائے گا کہ وہ نیک بخت انسان کی حیثیت سے رخصت ہو رہا ہے یا بد بخت آدمی کی حیثیت سے عالمِ بالا کو جا رہا ہے اور رخصتی کے وقت سے روزِ حشر تک ایک معزز مہمان کی طرح اس کی مہمان نوازی ہو گی یا ایک حوالاتی مجرم کی حیثیت سے۔ یہ راز عیاں ہو جانے کے بعد صالحین کی حالت کچھ اور ہوتی ہے اور فاجر و منافقین کی کیفیت کچھ اور۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ رب تعالیٰ نے دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد نوع انسانی کے لئے ایک دوسری ابدی زندگی مقدر فرما دی ہے۔ جن لوگوں نے اس جہانِ فانی میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی ہے کہ ایک نہ ایک دن انہیں اس معبود حقیقی کے سامنے پیش ہونا اپنے اعمال کا جواب دینا ہے جنہوں نے دنیاوی زندگی میں نیک عمل کر کے اپنی آخرت کی بھلائی کے لئے پیشگی سامان مہیا کر لیا وہ لوگ تو اپنا حساب دیکھ کر ضرور فرحاں و شاداں ہوں گے اور انہیں کو جنت میں ابدی سکون نصیب ہو گا۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے خدا کا حق افضل مانا نہ بندوں کے حقوق کی پروا کی ایسے لوگوں کو خدائے عزوجل کی گرفت سے کوئی بھی بچانے والا نہ ہو گا اور وہ ضرور معتوب ہوں گے۔
سورۃ الحاقہ میں یہ تمام کیفیت بالتفصیل اس طرح بیان فرمائی گئی ہے۔
''اس وقت جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا۔ لو! دیکھو پڑھو میرا نامۂ اعمال، میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔ پس وہ دلپسند عیش میں ہو گا۔ جنت میں جہاں پھلوں کے گچھے جھکے ہوں گے (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاو اور پیو اپنے اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کئے۔ اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کاش میرا نامۂ اعمال مجھے نہ دیا گیا ہوتا۔ اور میں نہ جانتا میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی۔ آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار چھن گیا (حکم ہو گا) ''پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔ پھر اس کو ستّر (۷۰) ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ نہ یہ اللہ بزرگ برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج یہاں اس کا کوئی غم خوار نہ ہو گا اورنہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لئے اور کوئی کھانا ہو گا۔ جسے خطا کاروں کے سوا اور کوئی نہیں کھاتا۔'' (الحاقہ ۱۹۔۳۷)
اعمال نامہ انسان کے ہاتھ میں تھما دینا اور جتلانا کہ تو نے دنیا میں یہ یہ کار گزاریاں کی ہیں۔ صرف اس لئے مقصود نہیں کہ اس کو ان کار گزاریوں کا علم ہو جائے۔ انسان تو اپنی حرکات و سکنات کو بخوبی جانتا ہے۔ اس امر کی ضرورت صرف اس لئے ہو گی کہ عدالت حشر میں مجرم کو اپنے جرم کا پتہ چل جائے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔
﴿بَلِ الإِنسـٰنُ عَلىٰ نَفسِهِ بَصيرَةٌ ﴿١٤﴾وَلَو أَلقىٰ مَعاذيرَهُ ﴿١٥﴾... سورة القيامة
ترجمہ: یوں نہیں بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔ چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔
انسان اپنے نفس امارہ کے اشارہ پر تمام عمر چلتا رہتا ہے۔ جب کبھی ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس کو طرح طرح کی معذرتیں، مجبوریاں پیش کر کے سلا دیا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود حضرت انسان کو بخوبی علم ہے کہ اس شخص نے کس کس کے حق غصب کیے۔ حق تلفیاں کیں۔ کہاں کہاں رزق حرام کے لئے سرگرداں رہا۔ کفر و شرک یا دہریت کے بول کہاں کہاں بکتا پھرا۔ ان تمام باتوں کا انکشاف، مجبوریوں اور مصلحتوں کا انصاف، دھوکہ اور ناجائز رزق کی حصولی کا فیصلہ، بد کرداریوں، کذب، بدعنوانیوں کی نقاب کشائی اس نامہ اعمال میں مکمل درج ہو گی۔ جو آپ کو روزِ حشر پیش کر دیا جائے گا۔
نامہ اعمال اور روزِ قیامت:
قیامت کے دن جب نامہ اعمال ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ اس وقت یہ انسان بد کردار راہِ فرار اختیار کرنے کی سوچے گا۔ اور وہاں بھی اپنی سفلہ مزاجی سے بد حرکتیں کرنے سے باز نہ آئے گا۔ مگر اس کی ایک بھی تدبیر سود مند ثابت نہ ہو سکے گی جس کے لئے قرآن مجید نے اس طرح نقشہ کھینچا ہے۔
﴿يَقولُ الإِنسـٰنُ يَومَئِذٍ أَينَ المَفَرُّ ﴿١٠﴾ كَلّا لا وَزَرَ ﴿١١﴾ إِلىٰ رَبِّكَ يَومَئِذٍ المُستَقَرُّ ﴿١٢﴾... سورة القيامة
ترجمہ: اس وقت یہی انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں۔ ہرگز نہیں۔ وہاں کوئی جائے پناہ نہیں ہو گی۔ اس روز تیرے رب کے سامنے ہی جا کر ٹھہرنا ہو گا۔
اس کے برعکس جن لوگوں کے نامۂ اعمال خواہشات نفس کی پیروی سے مبّرا اور اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور اس کی اخلاقی تعلیمات سے لبریز ہوں گے۔ ان کے چہروں پر خوشی دمک رہی ہو گی۔ کیونکہ ان لوگوں نے دنیا کے مال و متاع کو چھوڑ کر اپنی دنیاوی زندگی میں برحق اور صحیح فیصلے کیے تھے۔ ان کے نامۂ اعمال میں یہ سب اندراج موجود ہوں گے﴿لِلَّذينَ أَحسَنُوا الحُسنىٰ...٢٦﴾... سورة يونس
یعنی جن لوگوں نے نیک عمل کیے ان کے لئے اچھا اجر ہے۔ اور وہ اچھا اجر (جیسا کہ بکثرت احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے) یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مکرم بندے اپنے رب کا دیدار کریں گے۔ بخاری کی روایت ہے کہ« إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عَیَانًا»۔ یعنی تم اپنے رب کو اعلانیہ دیکھو گے۔
مسلم، ترمذی میں حضرت صہیب کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا جن کا نامہ اعمال اچھا ہو گا وہ جنت میں داخل ہوں گے اور اپنے رب کی زیارت سے مشرف ہوں گے۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم قیامت کو اپنے رب کو دیکھیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں دقت ہوتی ہے جب کہ بیچ میں بادل نہ ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا اس طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے (تفہیم القرآن ج ۶، ص ۱۷۳) قرآن پاک میں مزید وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ:
﴿كَلّا إِنَّهُم عَن رَبِّهِم يَومَئِذٍ لَمَحجوبونَ ﴿١٥﴾... سورة المطففين
ترجمہ: ''ہرگز نہیں وہ (یعنی فجار) اس روز اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے۔''
یہ کون سے لوگ ہوں گے جو اس محرومی کا شکار ہوں گے۔ ان کے لئے بھی صریح ارشادات ہیں۔ وہ لوگ فجّار ہوں گے۔ ﴿كَلّا إِنَّ كِتـٰبَ الفُجّارِ لَفى سِجّينٍ ﴿٧﴾... سورة المطففين" ہرگز نہیں بدکار فجار لوگوں کا نامۂ عمل سجین میں رہے گا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے دلوں پر ان کے اعمال (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے قبولِ حق کی استعداد فاسد ہو چکی ہے۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ بدکار لوگوں کا نامۂ اعمال سجّین میں رہے گا۔ سجین ایک دفتر ہے۔ جس میں تمام اعمال منضبط اور محفوظ ہوں گے۔ یہ ایک نشان کیا ہوا دفتر ہے۔ ............................ نیز مروی ہے کہ یہ مقام ارض سابعہ میں مستقر ارواح کفار ہے۔ اور اس دفتر کے ریکارڈ میں تغیر و تبدّل کا قطعاً احتمال نہیں ہے۔ برعکس اس کے نیک لوگوں کا نامۂ اعمال علیین میں رہے گا۔ وہ ایک مقام سماء سابعہ میں مستقر ارواح مومنین کا ہے۔ جس کا کہ روح المعانی میں عبد بن حمید حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ملائکہ جب مومن کی روح قبض کرتے ہیں تو پھر آسمان کے مقرب فرشتے ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔﴿إِنَّ الأَبرارَ لَفى نَعيمٍ ﴿٢٢﴾... سورة المطففين"یعنی نیک لوگ بڑی آسائش میں ہوں گے اسی موضوع کو قرآن پاک میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے کہ آخرت میں جب اللہ رب العرش العظیم اپنی عدالت قائم فرمائیں گے تو اس میں فیصلہ اس بنیاد پر ہو گا کہ کس شخص کے نیک اعمال برے اعمال سے زیادہ وزنی ہیں اور کس کے نیک اعمال کا وزن اس کے برے اعمال کی بہ نسبت ہلکا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں﴿فَأَمّا مَن ثَقُلَت مَوٰزينُهُ ﴿٦﴾... سورة القارعه" پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے۔ پلڑوں کے بھاری یا ہلکے ہونے سے مراد بھلائیوں کے وزن کا ہلکا یا بھاری ہونا ہے۔ یعنی انسان اپنے اعمال کی جو پونجی دنیا سے لے کر آیا ہے اس کی بھلائیوں کے وزن سے برائیوں کا وزن ہلکا ہے یا نہیں۔ اس نفس مضمون میں قرآن پاک میں متعدد جگہ قدرے تفصیلاً سمجھا دیا گیا ہے۔ سورۂ کہف میں ارشاد ہوا ہے۔ اے نبی ان لوگوں سے کہہ دوہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ ایسے لوگ ہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکتی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیت کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس کے حضور میں پیش ہونے کا یقین نہ کیا اس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے (سورۂ کہف: ۱۰۴-۱۰۵) دوسری جگہ فرمایا: کہ وزن اس روز حق ہو گا۔ پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے۔ وہ ہی فلاح پائیں گے۔ اور جن کے پلڑے بھاری ہوں گے۔ وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے (الاعراف: ۸-۹)
سورۃ انبیاء میں ارشاد ربانی ہے۔ قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے۔ پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ عمل ہو گا وہ ہم لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لئے ہم کافی ہیں (الانبیاء۔۴۷) ان آیاتِ کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفر و حق سے انکار بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ برائیوں کے پلڑے کو خود بخود جھکا دے گی۔ مشرک کی کوئی نیکی ایسی نہ ہو گی کہ بھلائیوں کے پلڑوں کو جھکا دے۔ اس کا کوئی وزن نہ ہو گا۔ مدعا یہ کہ مومن کے پلڑے میں ایمان کا وزن بھی ہو گا۔ اور اس کے ساتھ نیکیوں اور بھلائیوں کا بھی۔ لہٰذا مومن کے اعمال کا وزن بھاری رہے گا۔
نامۂ اعمال:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان لانے والے لوگوں کے زمرہ میں کون کون سے شامل ہوں گے۔ اوّلاً وہ جو اللہ تعالیٰ کو بلا شرکتِ غیرے تسلیم کرتا ہو۔ ثانیاً رسول کا مانتا ہو۔ اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مامور کیا ہوا ہادی و رہنما ہے۔ اور اس کی تعلیم واجب التسلیم ہے۔ اس ایمان بالرسالت میں ملائکہ، انبیاء اور کتب الٰہیہ پر ایمان لانا شامل ہے۔ ثالثاً آخرت کو مانتا ہو۔ اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی آخری نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہو کر اُٹھنا ہے۔ اپنے ان اعمال کا جواب دہ ہونا ہے جو اس نے دنیا میں کیے اور اس محاسبہ میں جن کے اعمال صالح قرار پائیں گے۔ ان کو جزا اور جن کو برے قرار پائیں گے۔ ان کو سزا ملنی ہے۔ ﴿جَزاءً بِما كانوا يَعمَلونَ ﴿٢٤﴾... سورة الواقعة" یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔
روزِ حشر میں محاسبہ کا خوف اعمال کی درستگی کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر تعلیماتِ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک پاکیزہ عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ وگرنہ جہاں تعلیماتِ قرآن و سنت کا گزر نہ ہو وہاں محاسبہ کا خوف و یقین نہیں ہو سکتا اور جہاں محاسبہ کا ڈر نہیں وہاں اعمال کی بجا آوری اور درستگی کا گزر کہاں؟ قرآن میں بار بار اسی امر پر زور ڈالا گیا ہے کہ ایمان وہی معتبر و مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل ایسا دعویٰ ہے جس کی تردید خود انسان اپنی روز مرّہ زندگی میں کر دیتا ہے۔ مومن کی تشریح تو متعدد جگہ کی گئی ہے مگر سورۂ انفال میں اس قدر صاف اور سمجھانے کے انداز میں بتایا گیا ہے کہ﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ الَّذينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَت قُلوبُهُم...٢﴾... سورة الانفال" مومن تو وہ لوگ ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں۔ اس سے بہتر اور واضح الفاظ میں اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ خوفِ خدا سے لرز اُٹھنا اس بات کی توضیح ہے کہ ایک دِن اس نے اس مالک کے سامنے جواب دہی کے لئے پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کی جزا و سزا کو سننا اور ماننا ہے۔
اور ان لوگوں کے لئے جو ایمان نہیں لاتے قرآن پاک صاف الفاظ میں واضح کر دیتا ہے۔﴿وَقُل لِلَّذينَ لا يُؤمِنونَ اعمَلوا عَلىٰ مَكانَتِكُم إِنّا عـٰمِلونَ ﴿١٢١﴾ وَانتَظِروا إِنّا مُنتَظِرونَ ﴿١٢٢﴾... سورة هود"اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان سے کہہ دو کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ۔ ہم اپنی جگہ عمل کیے جاتے ہیں۔ اور (نتیجۂ اعمال کا) تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کی درستگی کے لئے محاسبہ کا خوف لازمی امر ہے اور وہ صرف مومن ہی کر سکتا ہے۔ جس میں ایمان (باللہ، بارسول، بالکتاب، ملائکہ اور یوم حشر) موجود ہو۔ اور وہی نصیحت اور عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ جس کو ان چیزوں کا خوف ہی نہ ہو وہ نامۂ اعمال کی پروا کیسے کر سکتا ہے اور اعمال کی درستگی اور محاسبہ کے لئے تگ و دو کیسے کر سکتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ لوگوں کو کن خٰالات، کن اعمال اور کن عادات سے بچنا چاہئے۔ پھر جب لوگ اپنی بد ذاتیوں سے باز نہیں آتے۔ اور غلط فکری اور غلط روی پر گامزن رہتے ہیں۔ استعداد قبولِ حق سے لاپرواہ ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ بھی دست کش ہو جاتا ہے ہدایت اور رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ ان لوگوں کو قیامت میں بڑی مشکل درپیش ہو گی۔
نامۂ اعمال کون لکھتا ہے؟
خدائے عزوجل گو خود انسان کے افعال و اقوال سے بخوبی واقف ہیں۔ مگر اس کے باوجود نامۂ اعمال کے مرتب کرنے کے لئے ہر انسان پر دو فرشتے مامور کر دیئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔
﴿إِذ يَتَلَقَّى المُتَلَقِّيانِ عَنِ اليَمينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعيدٌ ﴿١٧﴾ ما يَلفِظُ مِن قَولٍ إِلّا لَدَيهِ رَقيبٌ عَتيدٌ ﴿١٨﴾... سورة ق
ترجمہ: دو کاتب اس کے دائیں بائیں بیٹھے ہر چیز لکھ رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا۔ جسے محفوظ کرنے کے لئے نگران موجود نہ ہو۔
سمجھ گئے آپ! رب تعالیٰ نے انسان کو شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا۔ گو انسان کو یہ فرشتے نظر نہیں آتے مگر ایمان کی رمق اگر آپ کے اندر موجود ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمہ وقت آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دو نمائندے موجود ہیں۔ جو خداوند کریم کے انتہائی مقرب اور استباز ہیں جو آپ کا روزنامچہ انتہائی چابکدستی سے تحریر کر رہے ہیں۔ آپ کا کوئی فعل ان سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ چاہے آپ خلوت میں ہوں یا جلوت میں۔ کام اندھیرے میں کریں یا اجالے میں۔ آبادی میں اس فعل کا ارتکاب ہو یا ویران سنسان جنگلوں میں۔ یہ فعل نگاہ انسانی سے تو ضرور مخفی رہ سکتا ہے مگر نفاہِ ربّانی سے ہرگز نہیں۔ اور جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی بہ نفس نفیس تعریف فرمائی ہے کہ یہ فرشتے بزرگ اور معزز ہیں۔
﴿وَإِنَّ عَلَيكُم لَحـٰفِظينَ ﴿١٠﴾ كِرامًا كـٰتِبينَ ﴿١١﴾ يَعلَمونَ ما تَفعَلونَ ﴿١٢﴾... سورة الانفطار
ترجمہ: بلاشبہ تم پر نگران مقرر ہیں۔ ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔
مزید فرمایا گیا ہے کہ یہ فرشتے کارکردگی کے لحاظ سے نہ کسی کی بے جا رعایت یا مروت کرتے ہیں اور نہ کسی سے ناروا مخالفت نہ کسی کے ریکارڈ میں خیانت کرتے ہیں نہ مہربانی کرتے ہیں کہ کسی کے روزنامچوں میں غلط سلط اندراجات کر ڈالیں۔
جنابِ عالی! یہ فرشتے چونکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں۔ اس وجہ سے اخلاقی کمزوریوں سے بھی بالا تر ہیں۔ مزید برآں ان فرشتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ یہ تمہارے ہر فعل کو خوب جانتے ہیں۔ کیا سمجھے؟ یعنی جناب کی تمام کرتوتوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ اور قیامت میں ان کے سامنے اپنی دنیاوی کارستانیوں، بد اعمالیوں، لچھے دار تقریروں، پُرفریب تدبیروں اور اقوال و افعال کی صحت سے انکار کرنا آپ کو ناممکن ہوجائے گا۔
عام طور پر سی۔ آئی۔ ڈی۔ کے مخبر ہر اِس حرکت کو ریکارڈ کرتے ہیں جو کچھ وہ شخص، جس پر ان کی تعیناتی ہو، ارتکاب کرے۔ مگر کراماً کاتبین کی صفت ایسی نہیں ہے۔ وہ تو آپ کے اعمال سے اس حد تک واقف ہیں کہ اگر آپ کسی بدنیتی کا تصوّر بھی کر لیں یا دل میں خیال بھی لے آئیں تو اس کا اندراج بھی کر ڈالتے ہیں۔ سورت کہف میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ قیامت کے روز مجرم یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا نامۂ اعمال جو پیش کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات درج ہونے سے باقی نہیں رہ گئی۔ جو کچھ انہوں نے کیا جوں کا توں حاضر کر دیا گیا۔ (کہف: ۴۹)
گواہی کون دے گا؟
قرآن پاک کے مطالعہ سے نامۂ اعمال کے بارے میں چند اور ضروری باتیں معلوم ہوتی ہیں مثلاً قیامت کے روز کراماً کاتبین کے تیار کردہ اعمال نامہ کے علاوہ زمین بھی اس کی کارکردگیوں کے بارے میں گواہی دے گی۔ (ملاحظہ ہو سورۃ الزلزال)
جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ اس روزہ وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی۔ کیونکہ تیرے رب نے اسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہو گا۔ اس روز لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی حالت میں پیش ہوں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں۔ پھر جس کی ذرہ برابر نیکی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ (سورۃ زلزال)
مفسرین کا اجماع ہے کہ قیامت کے دل زلزلہ آئے گا۔ جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبار جی اُٹھیں گے۔ اس وقت زمین کے اندر تمام مدفون انسانوں کے جسموں کے تمام بکھرے ہوئے اجزاء جمع ہو کر از سرِ نو زندہ ہو جائیں گے۔ جیسے وہ پہلی زندگی کی حالت میں تھے۔ تبھی انسان کہے گا کہ یہ زمین کو کیا ہو رہا ہے۔ زمین اسی پر اکتفاء نہیں کرے گی۔ بلکہ انسانوں کی پہلی زندگی کے اقوال و افعال، تمام حرکات و سکنات اور واقعات کا جو دفینہ اس کے سینہ میں دبا پڑا ہے۔ وہ بھی طشت ازبام کر دے گی۔ انسان خود دیکھ لے گا۔ یہی وہ سامان تھے۔ جن کے لئے وہ دنیا میں بلند بانگ دعوے کرتا تھا۔ ''ہمچوما دیگرے نیست'' کے مصداق مظالم ڈھاتا تھا۔ خدا کی مخلوق کو روٹی۔ کپڑا اور مکان دینے کے فرعونی دعووں اور مذموم طریقوں پر عمل کر کے قوموں پر خدا کے خوف کی جگہ اپنا خوف مسلّط کرتا تھا۔ اس دن سب کچھ کیا دھرا اس کے سامنے موجود ہو گا جو اس کے لئے وبالِ جان بن جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! معلوم ہے اعمال کی گواہی کیسے ہو گی۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ فرمائیے۔ حضور رحمۃ للعالمین نے فرمایا۔ ایسے حالات ہوں گے کہ زمین ہر مرد اور ہر عورت کے بارے میں اس کے عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہو گا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں جگہ فلاں دن یہ کام کیا (مسند احمد، نسائی، بیہقی) حضرت ربیعۃ الخرشی کی روایت ہے کہ ضور نے فرمایا۔ ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ تمہاری جڑ بنیاد ہے۔ اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے گی۔ خواہ اچھا ہو یا برا (معجم الطّرانی) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ابن مردویہ کا بیان ہے کہ جب آپ بیت المال کا سب روپیہ اہلِ حقوق میں تقسیم کر کے اسے خالی کر دیتے تو بیت المال کی زمین پر کھڑے ہو کر دود رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے۔ تجھے گواہی دینی ہو گی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق کے ساتھ خالی کیا۔
یہ امر حقیقت ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کو براہِ راست خود بخوبی جانتا ہے۔ مگر آخرت میں جب وہ عدالت رب العرش العظیم میں پیش ہو گا تو ہر سزا و جزا کے سلسلہ میں انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔ مقدمہ کے گواہ بھگتائے جائیں گے۔ ملزم کو پیروی کا مکمل اختیار ہو گا۔ شہادتوں میں کرامًا کاتبین کے علاوہ وہ حصہ زمین جہاں یہ واقعہ ہو گا بھی گواہی دے گا۔ جسم کے وہ اعضاء بھی گواہی دیں گے جن سے وہ عمل کیا گیا۔ ملاحظہ ہو اس دن کیسی کاروائی ہو گی۔
سب سے پہلے وہ نامۂ اعمال جس میں ہر وقت انسان کے ساتھ لگے ہوئے کرامًا کاتبین اس کے ایک ایک عمل کا کھاتہ مرتب کر رہے ہیں۔ جیسا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے اوپر انتہائی معتبر اور عزت دار کاتب مقرر ہیں۔ جو لمحہ لمحہ تمہاری حرکات و سکنات سپردِ قلم کر رہے ہیں (الانفطار: ۱۰-۱۲) پھر قیامت والے دن یہ نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا اعمال نامہ۔ تو خود ہی اپنا حساب کرنے کے لئے کافی ہے (بنی اسرائیل۔ ۱۴) جسے پڑھ کر انسان حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ایسی نہیں جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو (الکہف: ۴۹)
اس نامۂ اعمال کے مطالعہ کے بعد اگر انسان اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہے کہ فلاں کام میں نے نہیں کیا۔ یا فلاں جگہ میں نہیں گیا۔ یا اس خوبرو کو میں نے نہیں دیکھا یا فلاں کاروائی میں نے نہیں کی تو علی الترتیب اس کے ہاتھ پاؤں، آنکھیں، زبان غرضیکہ جسم کا ہر حصہ اِس بات کی شہادت دے گا کہ نامۂ اعمال کا ہر لفظ درست ہے۔ اللہ کی عدالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے۔ اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کیا کام کیے (النور۔ ۲۴) اس کی آنکھیں شہادت دیں گی۔ اس کے کان گواہی دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سنا۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی۔ کہ وہ کس نے ساتھ مس ہوئی۔ وہ حیران ہو کر اپنے اعضاء سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ اس کے اعضاء جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اس کے حکم سے ہم بھی بول رہے ہیں (حٰم سجد: ۲۰-۲۲) مزید برآں یہ کہ جب زمین سے دریافت کیا جائے گا تو زمین اس بات کی گواہی دے گی کہ نامۂ اعمال میں تحریر شدہ فلاں عمل اس شخص نے میرے اوپر فلاں فلاں جگہ کیا اور انسان خود دیکھ لے گا کہ اس کے دل میں جو خیالات، ارادے، مقاصد، وسوسے چھپے ہوئے تھے اور جن جیتوں کے ساتھ اس نے اعمال کیے وہ سب نکال کر زمین نے سامنے رکھ دیئے۔ ان تمام قطعی اور ناقابل تردید شواہد فراہم ہونے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے پاس بولنے کے لئے کوئی موقعہ نہیں رہ جائے گا۔ ملاحظہ فرمائیے۔
ترجمہ: یہ وہ دن ہے جس میں وہ نہ بولیں گے اور نہ کوئی عذر پیش کر سکیں گے۔ متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں۔ وہ جو پھل چاہیں کھائیں اور پئیں مزے سے اپنے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے رہے۔ ہم نیک لوگوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں (المرسلات)
نامۂ اعمال اور جزا و سزا:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ یقیناً نیک لوگ مزے میں ہوں گے اور بے شک بدکار لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے اور اس سے ہرگز غائب نہ ہو سکیں گے اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ ہاں تمہیں کیا خبر وہ جزا کا دن کیا ہے؟
یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لئے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہو گا۔ اس دن فیصلہ بالکل اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہو گا۔ (الانفطار)
اللہ تعالیٰ نے متقیوں اور نفس مطمئنہ کو انعامات سے نوازنے کے انتظامات کر رکھے ہیں۔ اور بغیر شک و شبہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس کے مستحق ہیں۔ جو حق پرستی کی راہ میں ہمیشہ بے دریغ قربانیاں دیتے رہے۔ جن مشکلات اور تکالیف دہ مصائب سے ہمکنار ہوتے رہے اور ان کو پورے سکونِ قلب کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور دوسرے راستوں پر چلنے والوں کو دنیا میں جو فوائد و منافع اور لذائد حاصل ہوتے نظر آرہے تھے ان سے محروم رہ جانے پر انہیں کوئی حسرت نہ ہوتی تھی۔ جب اعمال نامہ سامنے آجائے گا اور آپ کے اقوال و افعال کی باز پرس ہو گی۔ دوزخ اور جنت سب کی نگاہوں کے سامنے آجائے گی اور اپنا اپنا مستقبل سب کو آشکارا ہو جائے گا۔ اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا ہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔ اس دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ ہر اک کو اپنے سوا کسی کو ہوش نہ ہو گا۔ کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے۔ ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ پر اس روز خاک اڑ رہی ہو گی اور کلونس جمی ہو گی۔ بس یہی فاجر و کافر ہوں گے (العبس ۳۷-۴۲)۔۔۔۔۔۔ ابن جریر نے مختلف سندوں سے احادیث بیان کی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز سب لوگ جس طرح پیدا ہوئے اسی طرح پیش ہوں گے۔ اس وقت حضرت عائشہ نے گھبرا کر ارشاد فرمایا۔ یا رسول اللہ اس روز کیا ہمارے ستر سب کے سامنے کھلے ہوں گے۔ آپ نے جواب میں سورہ عبس کی یہی آیت تلاوت فرمائی﴿لِكُلِّ امرِئٍ مِنهُم يَومَئِذٍ شَأنٌ يُغنيهِ ﴿٣٧﴾... سورة عبس"یعنی اس دن اپنے سوا کسی کو ہوش نہیں ہو گا۔ (ترمذی، نسائی)
ذرا سوچیے! وہ بدبخت لوگ جن کی تمام دنیاوی زندگی ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' کے مصداق شب و روز فسق و فجور، لہو ولعب میں گزری۔ جائز و ناجائز کا کبھی خیال نہ کیا۔ حلال و حرام کی فکر نہ کی۔ جو کچھ خدا نے عطا کیا اس پر قناعت نہ کی۔ حرص و طمع کی آگ کبھی نہ بجھی۔ اللہ کے بھوکے بندوں کی جانب کبھی نگاہ نہ کی۔ وہ لوگ روزِ حشر اپنے اعمال نامہ کو دیکھیں گے اور گردن جھکا کر کھڑے ہو جائیں گے۔ تب معلوم ہے کیا ہو گا؟﴿وَجِاىءَ يَومَئِذٍ بِجَهَنَّمَ﴾اور جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی۔﴿يَومَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الإِنسـٰنُ وَأَنّىٰ لَهُ الذِّكرىٰ ﴿٢٣﴾... سورة الفجر" اس دن انسان کو سمجھ آئے گی۔ اس وقت سمجھنے سے کیا حاصل ہو گا﴿يَقولُ يـٰلَيتَنى قَدَّمتُ لِحَياتى ﴿٢٤﴾... سورة الفجر" وہ کہے گا کہ کاش! میں نے اپنی اس زندگی کے لئے پیشگی سامان کیا ہوتا!!