دِل لرز اُٹھے نہ کس طرح تماشائی کا

ضبط کی تاب نہ یارا ہے شکیبائی کا   اب خدا حافظ و ناصر دِل سودائی کا
مجھ سے حق چھین لیا ہے مری گویائی کا یہ صلہ مجھ کو ملا ہے مری سچائی کا
شرفِ سنگِ درِ یار جو بخشا مجھ کو کر سلیقہ بھی عطا ناصیہ فرسائی کا
لغو حرکات سے پرہیز گناہوں سے گریز فائدہ کم ہے یہ کیا گوشۂ تنہائی کا
کفر و ایماں کی لڑائی میں یہ ممکن ہی نہیں مردِ مومن ہو اُسے خطرہ ہو پسپائی کا
سیر کر سکتا نہیں گلشنِ مقصود کی تُو خوف ہے دِل میں اگر باد یہ پیمائی کا
اپنی فطرت پہ گر انساں کبھی غور کرے دھیان آئے نہ کبھی دل میں خود آرائی کا
نام میرا ہے مگر کام یہ سب ہے تیرا کیا طریقہ ہے مری حوصلہ افزائی کا
حسنِ سیرت کا ہو فقدان اگر انسان میں مول کوڑی نہیں پھر حُسن کی زیبائی کا
دیکھ کر شاخ پہ شادابیٔ گل کا انجام دل لرز اُٹھے نہ کیوں ایک تماشائی کا
موت کا ذکر بھی ہو فکر بھی ہو محشر کی
ہے تقاضا یہی عاجزؔ تیری دانائی کا