سورۂ بقرہ

(قسط نمبر ۲۱)

کچھ عرصہ سے ہم نے محدّث میں التفسیر والتعبیر کے کالموں میں قرآن کریم کی مسلسل تفسیر روک کر الکتاب والحکمۃ کے عنوان سے مناسبِ احوال قرآنی آیات کے درس کی اشاعت شروع کر دی تھی کیونکہ التفسیر والتعبیر کی پاروں کی صورت میں اشاعت کا پروگرام تھا لیکن محترم مولانا عزیز زبیدی صاحب کی ناسازیٔ طبع اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ کام تیزی سے جاری نہ رہ سکا۔ لہٰذا ہم قارئین کو کسی مزید انتظار میں رکھے بغیر پھر سے یہ سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

﴿يـٰبَنى إِسر‌ٰ‌ءيلَ اذكُر‌وا نِعمَتِىَ الَّتى أَنعَمتُ عَلَيكُم وَأَنّى فَضَّلتُكُم عَلَى العـٰلَمينَ ﴿٤٧﴾ وَاتَّقوا يَومًا لا تَجزى نَفسٌ عَن نَفسٍ شَيـًٔا وَلا يُقبَلُ مِنها شَفـٰعَةٌ وَلا يُؤخَذُ مِنها عَدلٌ وَلا هُم يُنصَر‌ونَ ﴿٤٨﴾... سورة البقرة

اے بنی اسرائیل! ہمارے وہ احسانات یاد کرو جو ہم تم پر کر چکے ہیں اور اس بات کو بھی کہ ہم نے تم کو دنیا جہان کے لوگوں پر فوقیت دی۔ اور تم اس دن (یعنی روز قیامت) سے ڈرو جس دن کوئی شخص، کسی شخص کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اس کی طرف سے (کسی کی کوئی) سفارش قبول ہو گی اور نہ اس سے (کسی طرح کا) کچھ معاوضہ لیا جائے گا اور نہ لوگوں کو (کہیں سے) کچھ مدد مل سکے گی۔

﴿أَنّى فَضَّلتُكُم﴾ (میں نے تمہیں فوقیت دی) وہ خاص فضیلت اور فوقیت کیا تھی جو اپنے زمانہ میں ان کو حاصل رہی؟ کہتے ہیں وہ دولت کی فراوانی تھی، کچھ بزرگوں نے فرمایا: وہ سیاسی برتری تھی، ایک گروہ کا خیال ہے کہ ان کی کثرت آبادی اور نسل کا پھلنا پھولنا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان سب کے مجموعہ کو فضلِ ربّی کہا گیا ہے۔

صحیح یہ ہے کہ اعزاز اور فوقیت کے مندرجہ بالا نمونے، صرف ضمنی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ عموماً وہ ایمان و عمل صالح کے قدرتی نتائج کا حاصل ہیں یا از قسم استدراج کی بات ہے۔ اصل برتری، فوقیت اور سرفرازی جس کا ذکر حق تعالیٰ نے خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے وہ ''حق تعالیٰ کی نمائندگی'' کا اعزاز اور سرفرازی ہے کہ دولتِ توحید کا ان کو وارث بنایا اور پھر ایمان و عمل کی صالح نمائندگی کا اعزاز بھی ان کو بخشا۔ اس لئے حضرت اسحاق علیہ السلام کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت تک، جو طویل عرصہ تک صرف انہی کے ساتھ مخصوص رہی ہے، باقی رہی اقتدار یا دھن دولت اور دوسرے مادی انعامات کی بات؟ سو یہ دعوے سے کوئی نہیں کہہ سکتا، کہ وہ دوسری اور کسی قوم کو ان کے عہد میں حاصل نہیں رہی۔

ایمانی فضل و کرم، وراثت اور نمائندگی ہی اصل قابلِ رشک امور ہیں، جب دنیا داروں اور جاہ و ثروت کے ماروں نے اہلِ ایمان کا مذاق اڑایا تو حق تعالیٰ نے کہا کہ مذاق نہ اُڑاؤ، دراصل تم کو ایک آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے، باقی رہے ایمان؟ سو ہم نے ان پر ہی اپنا فضل کیا ہے۔ یعنی ایمان نصیب کیا ہے۔

﴿وَكَذ‌ٰلِكَ فَتَنّا بَعضَهُم بِبَعضٍ لِيَقولوا أَهـٰؤُلاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيهِم مِن بَينِنا ۗ أَلَيسَ اللَّهُ بِأَعلَمَ بِالشّـٰكِر‌ينَ ﴿٥٣﴾... سورة الانعام

''اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ایک دوسرے سے آزمایا تاکہ (مقدور والے غریبوں کو دیکھ کر) یہ کہنے لگیں کہ کیا یہی ذلیل لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم میں سے (اسلام کی توفیق دے کر) اپنا فضل کیا ہے۔

اسلام اور ایمان کو اللہ نے اپنا فضل و کرم کہا ہے۔

﴿يَمُنّونَ عَلَيكَ أَن أَسلَموا ۖ قُل لا تَمُنّوا عَلَىَّ إِسلـٰمَكُم ۖ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيكُم أَن هَدىٰكُم لِلإيمـٰنِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١٧﴾... سورة الحجرات

رسالت کو بھی اللہ نے اپنا فضل اور احسان کہا ہے۔

﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ...١١﴾... سورة ابراهيم

پوری قوم بنی اسرائیل ایک طویل عرصہ تک اس دینی قیادت پر فائز رہی ہے، اس اعزاز کے لئے اس قوم کا انتخاب اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم تھا۔ بس اب پھر انہیں اس مقام و مرتبہ کا تصوّر دلا کر ممنون کیا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی دین ہے۔ اگر سوچو تو یہ منصب اب بھی تم سے چھینا نہیں گیا بلکہ آپ کے خاندان کے ایک دوسرے فرد کو اس پر سرفراز کیا گیا ہے۔ تمہیں اب ان کی مخالفت کے بجائے ان کا احترام کرنا چاہئے۔

اس کے یہ معنی نہیں کہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان پر دوسرے افضال و الطاف کی بارش نہیں ہوئی، ہوئی ہے، اللہ نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ لیکن دینی قیادت چیزے دیگرے! دوسری نعمتیں، احسان اور فضل و کرم اور نوازشات کی باتیں تو ہو سکتی ہیں لیکن تمام اقوام عالم پر فوقیت کا موجب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ کم و بیش وہ دوسروں کو بھی حاصل رہی ہیں، اگر کوئی دولت نایاب ایسی ہے۔ جو بلا استثناء تمام اقوامِ عالم کے مقابلے میں پیش کی جا سکتی ہے تو وہ یہی دینی قیادت کی سرفرازی ہے، جو ایک طویل عرصہ تک ان کو حاصل رہی ہے۔ بس وہ یہی برتری ہے، جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔

يَومًا (دن، زمانہ اور وقت، زمانہ ایک دن کا ہو یا سال، یا صدیوں کا) اس آیت میں جس یوم کا ذکر ہے وہ یوم، یوم قیامت ہے۔ وہ دن کیسا ہو گا؟ یہاں پر اس کا ایک مختصر سا تعارف دیا گیا ہے کہ اس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا، سفارش، معاوضہ یا مدد، کچھ بھی وہاں ممکن نہیں رہے گا۔ وہاں عمر کی کھیتی کا حاصل ملے گا، وہ بونے کا وقت نہیں ہو گا، یہاں سے کچھ کر ے جاؤ، وہاں کوئی کچھ نہیں دے گا، وہاں ایمان اور عمل صالح کی پونجی کام آئے گی، رشوت کام نہیں دے گی، اپنے کیے کا پھل تو مشاہدہ ہو سکے گا لیکن وہ کرنے کترنے کا وقت نہیں ہو گا۔ وہاں کاروبار نہیں ہو گا۔ کارہائے زندگی کا میٹھا کڑوا پھل چکھنے کی وہ گھڑی ہو گی۔ اس لئے کل کیلئے ابھی سے کچھ سوچ لیجیے، کچھ کر لیجیے اور کچھ بنا لیجیے۔ قرآن نے اس ''عظیم یوم'' کا تعارف مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے اور اس کے ان گنت خصائص کا ذکر فرمایا ہے۔

صور پھونکنے کے بعد یہ دن طلوع ہو گا:

ایک مخصوص صور پھونکا جائے گا۔ جس کے بعد قیامت کا یہ دن برپا ہو جائے گا۔

﴿فَإِذا نُقِرَ‌ فِى النّاقورِ‌ ﴿٨﴾... سورة المدثر

دوبار صور پھونکا جائے گا:

جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی ہر شے پر موت کی بے ہوشی طاری ہو جائے گی۔ اور اب وہ غش کھا کر مر جائیں گے۔

﴿وَنُفِخَ فِى الصّورِ‌ فَصَعِقَ مَن فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَمَن فِى الأَر‌ضِ إِلّا مَن شاءَ اللَّهُ...٦٨﴾... سورة الزمر

پہاڑ اور زمین ریزہ ریزہ ہو جائیں گے:

پہلے صور پھونکنے پر پہاڑ اور زمین ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔

﴿فَإِذا نُفِخَ فِى الصّورِ‌ نَفخَةٌ و‌ٰحِدَةٌ ﴿١٣﴾ وَحُمِلَتِ الأَر‌ضُ وَالجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً و‌ٰحِدَةً ﴿١٤﴾... سورة الحاقة

آسمان شق ہو جائیں گے:

﴿وَانشَقَّتِ السَّماءُ فَهِىَ يَومَئِذٍ واهِيَةٌ ﴿١٦﴾... سورة الحاقة

﴿وَفُتِحَتِ السَّماءُ فَكانَت أَبو‌ٰبًا ﴿١٩﴾ وَسُيِّرَ‌تِ الجِبالُ فَكانَت سَر‌ابًا ﴿٢٠﴾... سورة  النباء

پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا:

اس کے بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب جی اُٹھیں گے۔

﴿ثُمَّ نُفِخَ فيهِ أُخر‌ىٰ فَإِذا هُم قِيامٌ يَنظُر‌ونَ ﴿٦٨﴾... سورة الزمر

اب سب رشتے ٹوٹ جائیں گے:

اب اُٹھ کھڑے ہوں گے مگر کوئی کسی کا رشتہ دار نہیں بنے گا اور نہ کوئی ایک دوسرے سے بات کرے گا کیونکہ سب کو اپنی پڑی ہو گی۔

﴿فَإِذا نُفِخَ فِى الصّورِ‌ فَلا أَنسابَ بَينَهُم يَومَئِذٍ وَلا يَتَساءَلونَ ﴿١٠١﴾... سورة المؤمنون

ہاں بولیں گے تو حسرت سے بولیں گے اور محض اس کی اجازت سے:

﴿يَتَخـٰفَتونَ بَينَهُم إِن لَبِثتُم إِلّا عَشرً‌ا ﴿١٠٣﴾... سورة طه

﴿لا تَكَلَّمُ نَفسٌ إِلّا بِإِذنِهِ...١٠٥﴾... سورة هود

اس دن صرف خدا کی حکومت ہو گی۔

اس دن کوئی دم نہیں مار سکے گا، حکمرانی صرف اللہ کی ہو گی۔

﴿وَلَهُ المُلكُ يَومَ يُنفَخُ فِى الصّورِ‌...٧٣﴾ سورة الانعام

﴿المُلكُ يَومَئِذٍ لِلَّهِ...٥٦﴾... سورة الحج

﴿لِمَنِ المُلكُ اليَومَ ۖ لِلَّهِ الو‌ٰحِدِ القَهّارِ‌ ﴿١٦﴾... سورة المؤمن

اس دن اللہ کی ذات خود ہی عدالت اور کھلی کچہری لگائے گی۔

﴿يَحكُمُ بَينَهُم﴾

سر جھکائے دوڑ رہے ہوں گے:

اس دن سب کا سر جھکا ہو گا، آنکھیں نیچی کیے مخصوص مرکز کی طرف دوڑیں گے۔

﴿خُشَّعًا أَبصـٰرُ‌هُم يَخرُ‌جونَ مِنَ الأَجداثِ كَأَنَّهُم جَر‌ادٌ مُنتَشِرٌ‌ ﴿٧﴾ مُهطِعينَ إِلَى الدّاعِ...٨﴾... سورة القمر

رب کی طرف دوڑیں گے:

دربار الٰہی میں پیش ہونے کو سب ادھر کو دوڑ رہے ہوں گے۔

﴿وَنُفِخَ فِى الصّورِ‌ فَإِذا هُم مِنَ الأَجداثِ إِلىٰ رَ‌بِّهِم يَنسِلونَ ﴿٥١﴾... سورة يس

دو فرشتے ان کو لے چلیں:

﴿مَعَها سائِقٌ وَشَهيدٌ ﴿٢١﴾... سورة ق

اس دن سب جمع ہوں گے:

از اوّل تا اخر سب اس دن جمع کر دیئے جائیں گے، کوئی بھی غیر حاضر نہیں رہ سکے گا۔

﴿هـٰذا يَومُ الفَصلِ ۖ جَمَعنـٰكُم وَالأَوَّلينَ ﴿٣٨﴾... سورة المرسلات

﴿رَ‌بَّنا إِنَّكَ جامِعُ النّاسِ لِيَومٍ لا رَ‌يبَ فيهِ...٩﴾... سورة آل عمران

اس دن بات کرنے کی ہمت نہ ہو گی:

اس دن بڑے بڑے شاطروں اور زبان آوروں کی زبانیں بھی گنگ ہو جائیں گی۔

﴿هـٰذا يَومُ لا يَنطِقونَ ﴿٣٥﴾... سورة المرسلات

سودا بازی یا دوستی نہیں چلے گی:

اس دن کاروبار ہو گا نہ کوئی سودا بازی، دوستی چلے گی اور نہ کوئی سفارش۔

﴿يَومٌ لا بَيعٌ فيهِ وَلا خُلَّةٌ وَلا شَفـٰعَةٌ...٢٥٤﴾... سورة  البقرة

﴿يَومٌ لا بَيعٌ فيهِ وَلا خِلـٰلٌ ﴿٣١﴾... سورة ابراهيم

کوئی معذرت یا انکار نہیں بن پڑے گا:

وہاں اب کوئی معذرت کام نہیں آئے گی، کیونکہ معذرت کے معنی آئندہ محتاط رہنے کے ہیں۔ وہاں محتاط یا غیر محتاط رہنے کا وقت ہی ختم ہو گا اسی طرح خدا کو راضی کرنے کا ٹائم بھی نہیں رہے گا۔

﴿فَيَومَئِذٍ لا يَنفَعُ الَّذينَ ظَلَموا مَعذِرَ‌تُهُم وَلا هُم يُستَعتَبونَ ﴿٥٧﴾... سورةا لر وم

معذرت کجا، اس کی ان کو اجازت بھی نہیں ملے گی۔

﴿وَلا يُؤذَنُ لَهُم فَيَعتَذِر‌ونَ ﴿٣٦﴾... سورة المرسلات

نہ ہی مکرنے کی کوئی سبیل ہو گی اور نہ کوئی دوسرے جائے پناہ ملے گی۔ نہ ہی اس دن جزا اور سزا میں کوئی توقف یا مہلت کی کوئی گنجائش ہو گی۔

﴿يَومٌ لا مَرَ‌دَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۚ ما لَكُم مِن مَلجَإٍ يَومَئِذٍ وَما لَكُم مِن نَكيرٍ‌ ﴿٤٧﴾... سورةالشورى

یہ بہت ہی مشکل گھڑی ہے:

یہ گھری قیامت کی گھڑی ہو گی اور سخت مشکل۔

﴿فَذ‌ٰلِكَ يَومَئِذٍ يَومٌ عَسيرٌ‌ ﴿٩﴾... سورة  المدثر

کلیجے منہ کو آئیں گے۔ ﴿إِذِ القُلوبُ لَدَى الحَناجِرِ‌ كـٰظِمينَ...١٨﴾... سورة المؤمن

منحوس دن:

اکثریت کے لحاظ سے وہ دن بڑا منحوس دن ہو گا۔

﴿يَأتِيَهُم عَذابُ يَومٍ عَقيمٍ ﴿٥٥﴾... سورة الحج

ہمہ گیر دن:

یہ دن ایسا ہمہ گیر ہو گا کہ کوئی بھی شخص اس کی لپیٹ سے بچ نہیں سکے گا۔

﴿إِنّى أَخافُ عَلَيكُم عَذابَ يَومٍ مُحيطٍ ﴿٨٤﴾... سورة هود

یہ یوم، یوم مشہود ہے:

اس دن رب کے حضور سب حاضر کیے جائیں گے، اور کوئی بھی شخص غائب نہیں ہو گا اور وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کر لے گا۔

﴿وَذ‌ٰلِكَ يَومٌ مَشهودٌ ﴿١٠٣﴾...سورة هود

وہ ہار جیت کا دن ہو گا:

اس دن کچھ لوگ جیت جائیں گے اور کچھ بد نصیب ہار بیٹھیں گے۔

﴿ذ‌ٰلِكَ يَومُ التَّغابُنِ...٩﴾... سورة التغابن

بگڑے ہوئے چہروں کا دن:

جب وہ دن آئے گا تو سب کے منہ بنے ہوں گے۔ سخت مضطر اور کریہہ المنظر ہوں گے۔ یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا (دھر۔ ع۱)

بعض چہرے سیاہ اور بعض چمکتے ہوں گے:

﴿يَومَ تَبيَضُّ وُجوهٌ وَتَسوَدُّ وُجوهٌ...١٠٦﴾... سورة آل عمران

یوں جیسے ان پر گرد پڑی ہو اور سیاہی چھا رہی ہو گی۔

﴿وَوُجوهٌ يَومَئِذٍ عَلَيها غَبَرَ‌ةٌ ﴿٤٠﴾ تَر‌هَقُها قَتَرَ‌ةٌ ﴿٤١﴾... سورة عبس

بعض روشن اور چمکتے ہوں گے:

﴿وُجوهٌ يَومَئِذٍ مُسفِرَ‌ةٌ ﴿٣٨﴾ ضاحِكَةٌ مُستَبشِرَ‌ةٌ ﴿٣٩﴾... سورة عبس

کالی کلوٹی رات کی طرح سیاہ اور ڈراؤنے ہوں گے۔

﴿كَأَنَّما أُغشِيَت وُجوهُهُم قِطَعًا مِنَ الَّيلِ مُظلِمًا...٢٧﴾... سورة يونس

ان کے چہروں کو آگ لگی ہو گی:

﴿وَتَغشىٰ وُجوهَهُمُ النّارُ‌ ﴿٥٠﴾... سورة ابراهيم

اور وہ ان کو جھلستی ہو گی:

﴿تَلفَحُ وُجوهَهُمُ النّارُ‌...١٠٤﴾... سورة المؤمنون

ان کو اوندھے منہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔

﴿فَكُبَّت وُجوهُهُم فِى النّارِ‌...٩٠﴾... سورة النمل

اس دن کباب کی طرح دوزخ کی آگ میں ان کے چہروں کو الٹ پلٹ کر بھونا جائے گا:

«اَللّٰھُمَّ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ»﴿يَومَ تُقَلَّبُ وُجوهُهُم فِى النّارِ‌...٦٦﴾... سورة الاحزاب

ایک طبقے کا حشر ہی منہ کے بل ہو گا:

﴿وَنَحشُرُ‌هُم يَومَ القِيـٰمَةِ عَلىٰ وُجوهِهِم...٩٧﴾... سورة الاسراء

آگ میں ان کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا:

﴿يَومَ يُسحَبونَ فِى النّارِ‌ عَلىٰ وُجوهِهِم...٤٨﴾... سورة القمر

اور یوں کہ وہ اوندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے کیونکہ دنیا میں حق کے سلسلے میں ان کا تعامل کچھ ایسا ہی تھا:

﴿وَنَحشُرُ‌هُم يَومَ القِيـٰمَةِ عَلىٰ وُجوهِهِم عُميًا وَبُكمًا وَصُمًّا...٩٧﴾... سورة الاسراء

ملاقات کا دن:

اس دن کا نام ''یوم التلاق'' بھی ہے کیونکہ سبھی قسم کے لوگوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو جائے گی۔

﴿لِيُنذِرَ‌ يَومَ التَّلاقِ ﴿١٥﴾... سورة المؤمن

روزِ قریب:

اس دن کا نام ''یوم الآزفۃ'' (روزِ قریب) بھی ہے۔ کیونکہ یقینی ہے خاص کر مرنے کے بعد اس کے دروازے پر انسان پہنچ ہی جاتا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ یہ گھڑی ہر وقت سر پر منڈلا رہی ہے:

﴿وَأَنذِر‌هُم يَومَ الءازِفَةِ...١٨﴾... سورة المؤمن

یومِ حسرت:

اسی کا نام یومِ حسرت بھی ہے کیونکہ بد لوگ تو حسرت کریں گے ہی۔ نیک بھی پچھتائیں گے ہ کاش! اور نیکی کی ہوتی:

﴿وَأَنذِر‌هُم يَومَ الحَسرَ‌ةِ...٣٩﴾...سورة مريم

یوم الخروج:

اس دن کا نام یوم الخروج بھی ہے کیونکہ نفخ صور کے بعد سب لوگ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔

﴿ذ‌ٰلِكَ يَومُ الخُر‌وجِ ﴿٤٢﴾... سورة ق

یومُ الخلود:

اسی کا نام ''یوم الخلود'' (ہمیشگی کا دن، لازوال اور غیر فانی دن) کیونکہ اب اُٹھ کر پھر مرنا اور فناہ ہونا نہیں ہو گا۔ دوزخی، دوزخ میں اور جنتی جنت میں سدا رہیں گے۔

﴿ذ‌ٰلِكَ يَومُ الخُلودِ ﴿٣٤﴾... سورة ق

یومِ الدّین:

چونکہ اس دن سب کے لئے جزا و سزا کا حکم سنایا جائے گا، اس لئے اس کا نام یوم الدین (روزِ جزا) بھی ہے۔

﴿مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ ﴿٤﴾...سورة الفاتحة

یومِ فصل:

اس دن فیصلے کیے جائیں گے اور نیک و بد الگ الگ ہو جائیں گے۔ اس لئے اس دن کا نام ''یوم الفصل'' بھی ہے۔

﴿هـٰذا يَومُ الفَصلِ...٣٨﴾...سورة المرسلات

لیڈری کا دن:

دنیا میں جو شخص شر، بدی اور بد لوگوں کا لیڈر ہو گا، قیامت میں بھی وہ اسی شان سے اپنے حلقۂ اثر کے لوگوں کو لے کر دوزخ میں جائے گا۔

﴿يَقدُمُ قَومَهُ يَومَ القِيـٰمَةِ...٩٨﴾... سورة هود

کیونکہ ایسے بد رہنما اور لیڈر لوگوں کو قیامت میں اپنے گناہوں کے علاوہ اپنے زیرِ اثر لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اُٹھانا ہو گا۔

﴿يَحمِلوا أَوزارَ‌هُم كامِلَةً يَومَ القِيـٰمَةِ ۙ وَمِن أَوزارِ‌ الَّذينَ يُضِلّونَهُم بِغَيرِ‌ عِلمٍ...٢٥﴾... سورة النحل

یہ بوجھ بہت بھاری بوجھ ہو گا اور بہت بُرا۔

﴿مَن أَعرَ‌ضَ عَنهُ فَإِنَّهُ يَحمِلُ يَومَ القِيـٰمَةِ وِزرً‌ا ﴿١٠٠﴾ خـٰلِدينَ فيهِ ۖ وَساءَ لَهُم يَومَ القِيـٰمَةِ حِملًا ﴿١٠١﴾... سورة طه

بلکہ جو، جس اور جیسے شخص کے پیچھے چلے گا، اس کو اس کی ہی قیادت میں سامنے لا کھڑا کیا جائے گا۔ بھلا ہو گا تو بھلا، برا ہو گا تو برا۔

﴿يَومَ نَدعوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمـٰمِهِم...٧١﴾... سورة الاسراء