عورت کو حق طلاق تفویض کرنا، شریعت میں تبدیلی ہے!
پاکستان میں حکومت کے مجوزہ نکاح فارم کی ایک شق میں یہ درج ہوتا ہے کہ خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا ہے یا نہیں؟... اکثر لوگ تو اس شق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اثبات یا نفی (ہاں یا نہیں) میں کچھ نہیں لکھتے۔ لیکن بعض لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ نکاح کے موقعے پر تفویض طلاق کے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور وہ اس شرط کو لکھواتے یعنی منواتے ہیں کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب چاہے اپنے خاوند کو طلاق دے سکتی ہے اور اس طرح کے واقعات اب پیش آنے لگے ہیں کہ ایسی عورتیں جن کو حق طلاق تفویض کیا گیا، انھوں نے اپنے خاوندوں کو طلاقیں دے دیں۔
علماے احناف اور دیگر فقہا تو اس تفویض طلاق کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی و جہ وہ فقہی جمود ہے جس میں وہ مبتلا ہیں، اس لیے عدمِ دلیل کے باوجود وہ اس بنا پر اس کے قائل ہیں کہ ان کے فقہانے اس کو تسلیم کیا ہے۔ بنابریں وہ عورت کے طلاق دینے کی و جہ سے میاں بیوی میں جدائی کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔لیکن بعض علماے اہلحدیث بھی اس کے جواز کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔ غالباً انھوں نے مسئلے کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا یا عورتوں کے 'حقوق' کے شور میں اس کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اس لیے وہ بھی جواز کے قائل ہو گئے!!
راقم کے پاس بھی یہ استفسار آیا اور اس میں بعض علماے اہلحدیث کی طرف سے اس کے اثبات کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اس بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ مسئلے کی نوعیت کو شرعی دلائل کی روشنی میں واضح اور منقح کیا جائے تاکہ ایک طرف مسلک ِتفویض کے حامل علماے احناف کے دلائل کی بے ثباتی واضح ہو جائے اور جو علما محض بعض شبہات کی و جہ سے اس کے جواز کے قائل ہیں، وہ بھی اپنے موقف پرنظرثانی کرکے صحیح دلائل پر مبنی موقف کو اختیار کر سکیں۔
بہرحال ہمارا موقف یہ ہے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض نہیں کیا جا سکتا اور اگر کسی نے اس کو یہ حق دے دیا اور عورت نے اسے استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے دی، تو یہ طلاق نہیں ہوگی۔ طلاق کا حق صرف مرد کو حاصل ہے، یہ حق اللہ نے صرف اُسے ہی عطا کیا ہے، اسے پوری اُمت مل کر بھی عورت کی طرف منتقل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
اس کے دلائل حسب ِذیل ہیں:
اسلام میں طلاق کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے، عورت کو نہیں۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں زود رنج، زود مشتعل اور جلد بازی میں جذباتی فیصلہ کرنے والی ہے، نیز عقل اور دوراندیشی میں کمزور ہے۔ عورت کو بھی حق طلاق دیے جانے کی صورت میں، یہ اہم رشتہ جو خاندان کے استحکام و بقا اور اس کی حفاظت و صیانت کے لیے بڑا ضروری ہے، تارِعنکبوت سے زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوتا۔ علمائے نفسیات و طبیعیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب 'خواتین کے امتیازی مسائل' مطبوعہ دارالسلام میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
اگر عورت کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو وہ اپنا یہ حق نہایت جلد بازی یا جذبات میں آکر استعمال کر لیا کرتی اور اپنے پیروں پر آپ کلہاڑا مار لیا کرتی۔ اس سے معاشرتی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا، اس کا تصور ہی نہایت روح فرسا ہے۔ اس کا اندازہ آپ مغرب اور یورپ کی اُن معاشرتی رپورٹوں سے لگا سکتے ہیں جو وہاں عورتوں کو حق طلاق مل جانے کے بعد مرتب اور شائع ہوئی ہیں۔ان رپورٹوں کے مطالعے سے اسلامی تعلیمات کی حقانیت اور عورت کی اس کمزوری کا اثبات ہوتا ہے جس کی بنا پر مرد کو تو حق طلاق دیاگیا ہے لیکن عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عورت کی جس زود رنجی، سریع الغضبی، ناشکرے پن اور جذباتی ہونے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، احادیث سے بھی اس کا اثبات ہوتا ہے۔ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«وَرَأَیْتُ النَّارَ فَإِذَا أَکْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ یَکْفُرْنَ» قِیْلَ: أَیَکْفُرْنَ بِاللهِ؟ قَالَ: «یَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ وَ یَکْفُرْنَ الْإِحْسَانَ، لَوْأَحْسَنْتَ إِلٰى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَیْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ مِنْكَ خَیْرًا قَطُّ»
''میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی (اس کی و جہ یہ ہے کہ) وہ ناشکری کا ارتکاب کرتی ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) وہ خاوند کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ایک عورت کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر وہ تمہاری طرف سے کوئی ایسی چیز دیکھ لے جو اسے ناگوار ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھے گی کہ میں نے تو تیرے ہاں کبھی بھلائی اور سکھ دیکھا ہی نہیں۔''1
جب ایک عورت کی افتادِ طبع اور مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ عمر بھر کے احسان کو مرد کی کسی ایک بات پر فراموش کر دیتی ہے تو اسے اگر حق طلاق مل جاتا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس آسانی کے ساتھ وہ اپناگھر اُجاڑ لیا کرتی؟
عورت کی اس کمزوری، کم عقلی اور زود رنجی ہی کی و جہ سے مرد کو اس کے مقابلے میں صبرو ضبط، تحمل اور قوت برداشت سے کام لیتے ہوئے عورت کے ساتھ نباہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے ، کیونکہ عورت کی یہ کمزوریاں فطری ہیں، کسی مرد کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ قوت کے زور سے اُن کمزوریوں کو دور کرکے عورت کو سیدھا کر دے یاسیدھا رکھ سکے۔نبیﷺ نے فرمایا:
«اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الـْمَرأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِیْمُهُ کَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَکْتَهُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ»2
''عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت مانو، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور سب سے زیادہ کجی اوپر کی پسلی میں ہوتی ہے، پس اگر تم اُسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور یوں ہی چھوڑ دو گے تو کجی باقی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت قبول کرو۔''
شارح بخاری حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
''مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ عورت کے مزاج میں کجی (ٹیڑھا پن) ہے (جو ضد وغیرہ کی شکل میں بالعموم ظاہر ہوتی رہتی ہے)، پس اس کمزوری میں اسے معذور سمجھو کیونکہ یہ پیدائشی ہے، اسے صبر اور حوصلے سے برداشت کرو اور اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرو۔ اگر تم اُنھیں سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکو گے جبکہ اُن کا وجود انسان کے سکون کے لیے ضروری ہے اور کشمکشِ حیات میں اُن کا تعاون ناگزیر ہے، اس لیے صبر کے بغیر اُن سے فائدہ اٹھانا اور نباہ ناممکن ہے۔''3
بہرحال عورت کی یہی وہ فطری کمزوری ہے جس کی و جہ سے اللہ نے مرد کو تو حق طلاق دیا ہے لیکن عورت کو نہیں دیا۔ عورت کا مفاد ایک مرد سے وابستہ اور اس کی رفیقۂحیات بن کر رہنے ہی میں ہے، نہ کہ گھر اجاڑنے میں۔ اور عورت کے اس مفاد کو عورت کے مقابلے میں مرد ہی صبر و ضبط اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرکے زیادہ ملحوظ رکھتا اور رکھ سکتا ہے۔
بنابریں اسلام کا یہ قانونِ طلاق بھی دراصل عورت کے مفاد ہی میں ہے، گو عورت آج کل پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کے لیے حق خلع
تاہم اسلام چونکہ دین فطرت اور عدل و انصاف کا علم بردار ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دوسرے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ کسی وقت عورت کو بھی مرد سے علیحدہ ہونے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، جیسے خاوند نامرد ہو، وہ عورت کے جنسی حقوق ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان ونفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا قادر تو ہو لیکن بیوی کو مہیا نہ کرتا ہو، یا بلاو جہ اس پر ظلم و ستم یا مار پیٹ سے کام لیتا ہو، یا عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرتی اور محسوس کرتی ہو کہ وہ اس کے ساتھ نباہ یا اس کے حقوقِ زوجیت ادا نہیں کر سکتی۔
ان صورتوں یا اِن جیسی دیگر صورتوں میں عورت خاوند کو یہ پیشکش کرکے کہ تو نے مجھے جو مہر اور ہدیہ وغیرہ دیا ہے، وہ میں تجھے واپس کر دیتی ہوں تو مجھے طلاق دے دے، اگر خاوند اس پر رضا مند ہو کر اُسے طلاق دے دے تو ٹھیک ہے لیکن اگر خاوند ایسا نہیں کرتا تو اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس قسم کی صورتوں میں خاوند سے گلوخلاصی حاصل کر لے، اِس کو خلع کہتے ہیں۔ یہ قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے، اس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، راقم کی کتاب'خواتین کے امتیازی مسائل' میں اس کے دلائل تفصیل سے مذکور ہیں۔
عورت کے اس حق خلع کی موجودگی میں اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ نکاح کے موقعے پر مرد اپنا حق طلاق عورت کو تفویض کرے، کیونکہ اسلام نے عورت کے لیے بھی قانونِ خلع کی صورت میں مرد سے علیحدگی کا طریقہ بتلا دیا ہے اور عہدِ رسالت میں بعض عورتوں نے اپنا یہ حق استعمال بھی کیا ہے اور رسولﷺ نے بحیثیتِ حاکم وقت خلع کا فیصلہ ناپسندیدہ خاوند سے علیحدگی کی صورت میں فرمایا ہے جس کی تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے۔
علماے احناف کا فقہی جمود، خُلع کا انکار
لیکن بدقسمتی سے قرآن و حدیث کے مقابلے میں آرا کو زیادہ اہمیت دینے والے علماو فقہا، اسلام کے اس قانونِ خلع کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے فقہ حنفی میں مذکورہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں عورت کے لیے مرد سے گلوخلاصی حاصل کرنے کا جواز نہیں ہے، اس کا اعتراف مولانا تقی عثمانی صاحب (دیوبندی) نے بھی کیا ہے ۔4
مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة نامی کتاب اسی لیے تحریر فرمائی تھی کہ عورتوں کی مشکلات کا کوئی حل، جوکہ فقہ حنفی میں نہیں ہے، تلاش کیا جائے، چنانچہ اُنھوں نے کچھ فقہی جمود توڑتے ہوئے دوسری فقہوں کے بعض مسائل کو اختیار کرکے بعض حل پیش فرمائے اور دیگر علماے احناف کی تصدیقات بھی حاصل کیں۔اس کے باوجود علماے احناف کا جمود برقرار ہے کہ جب تک خاوند کی رضا مندی حاصل نہ ہو، عورت کے لیے علیحدگی کی کوئی صورت نہیں۔5 حالانکہ عورت کو حق خلع دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ خاوند راضی ہو یا راضی نہ ہو، عورت عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے اور عدالت کا فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا۔
فقہاے احناف کی شریعت سازی
شریعت کے دیے ہوئے حق خلع کو تو فقہاے احناف نے تسلیم نہیں کیا جو ایک ناگزیر ضرورت ہے، البتہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی طرف سے یہ طریقہ تجویز کیا کہ عورت کو حق طلاق تفویض کر دیا جائے جو حکم الٰہی میں تبدیلی اور شریعت سازی کے مترادف ہے، حالانکہ عورت کو حق طلاق دینے میں جو شدید خطرات ہیں، وہ مسلمہ ہیں اور اُنہی کے پیش نظر اللہ عزوجلّ نے یہ حق عورت کو نہیں دیا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جو حق اللہ نے نہیں دیا، اللہ کے رسولﷺ نے نہیں دیا تو وہ اور کون سی اتھارٹی ہو سکتی ہے جو یہ حق عورتوں کو دے دے؟ یقیناً ایسی کوئی اتھارٹی نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے، اس لیے اس تفویض طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت انسانوں کے اپنے تفویض کردہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو اس طرح قطعاً طلاق واقع نہیں ہو گی۔ نکاح ایک 'میثاقِ غلیظ' (نہایت مضبوط عہد) ہے جو حکم الٰہی کے تحت طے پاتا ہے، اسے خود ساختہ طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عہد اسی وقت ختم ہو گا جب اس کے ختم کرنے کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے گا جو خود اللہ نے بتلایا ہے اور وہ طریقہ صرف اور صرف مرد کا طلاق دینا یا عورت کا خلع لینا ہے۔ اس کے علاوہ رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
کون سی شرطیں قابل اعتبار یا ناقابل اعتبار ہیں؟
تفویض طلاق کے جواز میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نکاح کے موقعے پر جو شرطیں طے پائیں، ان کا پورا کرنا ضروری ہے، نبیﷺکا فرمان ہے:
«أَحَقُّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوْفُوابِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ»6
''جن شرطوں کا پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے سے تم شرم گاہیں حلال کرو۔''
یہ حدیث اپنی جگہ بالکل صحیح ہے لیکن اس سے مراد وہ شرطیں ہیں جن سے مقاصدِ نکاح کو مزید مؤکد کرنا مقصود ہو، جیسے خودامام بخاری نے اُس کو مہر کی ادائیگی کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح کسی مرد سے یہ اندیشہ ہو کہ وہ نان نفقہ میں کوتاہی کرے گا یا شاید حسن سلوک کے تقاضے پورے نہیں کرے گا، یا رشتے داروں سے میل ملاپ میں ناجائز تنگ کرے گا، وغیرہ؛ تو نکاح کے موقعے پر اس قسم کی شرطیں طے کر لی جائیں تو اُن کا پورا کرنا مرد کے لیے ضروری ہو گا۔یہ حدیث اسی قسم کی شرطوں تک محدود رہے گی۔
اس کے برعکس اگر خاوند یہ شرط عائد کرے کہ وہ بیوی کے نان نفقہ کاذمے دار نہیں ہو گا، شادی کے بعد وہ ماں باپ یا بہن بھائیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا، یا میں اس کو پردہ نہیں کرنے دوں گا، وعلیٰ ہذا القیاس اس قسم کی ناجائز شرطیں، تو وہ کالعدم ہوں گی، یا عورت یہ شرط عائد کرے کہ وہ خاوند کو ہم بستری نہیں کرنے دے گی تاکہ بچے پیدا نہ ہوں، یاخاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، یا مردوں کے ساتھ مخلوط ملازمت سے وہ نہیں روکے گا وغیرہ وغیرہ۔ تو ان شرطوں کا بھی اعتبار نہیں ہو گا کیونکہ یہ ناجائز شرطیں ہیں یا مقاصدِ نکاح کے منافی ہیں۔ اسی لیے امام بخاری نے نبیﷺ کے اس فرمان کو کہ ''عورت اپنی سوتن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ اس کا برتن اُلٹائے۔'' یعنی سہولیاتِ زندگی سے محروم کر دے جو خاوند کے ہاں اس کو میسّر ہیں۔7 '' کو عنوان''ان شرطوں کا بیان جو نکاح میں جائز نہیں'' میں ذکر کیا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شریعت کے عطا کردہ کسی حق کو ختم کرنے کی شرط عائد کی جائے گی تو اُس کا اعتبار نہیں ہو گا۔ بلکہ اس قسم کی شرطوں کے بارے میں رسول اللہﷺنے واضح طور پر فرما دیا ہے:
«وَالْمسْلِمُوْنَ عَلى شُرُوْطِهِمْ إِلَّاشَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ اَحَلَّ حَرَامًا»8
''مسلمانوں کے لیے اپنی طے کردہ شرطوں کی پابندی ضروری ہے، سواے اس شرط کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دے۔ (ایسی شرطیں کالعدم ہوں گی)''
نکاح کے موقع پر تفویض طلاق کی شرط بھی، شرطِ باطل ہے جس سے مرد کا وہ حق جو اللہ نے صرف مرد کو دیا ہے، وہ اس سے ختم ہو کر عورت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مرد کے اس حق شرعی کا عورت کی طرف انتقال، حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینے ہی کے مترادف ہے جس کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اس شرط سے عور ت کو طلاق دینے کا حق قطعاً حاصل نہیں ہو سکتا، اُس کو اس قسم کے حالات سے سابقہ پیش آئے تو وہ، شرط کے باوجود، طلاق دینے کی مجاز نہیں ہو گی بلکہ طلاق لینے، یعنی خلع کرنے ہی کی پابند ہو گی۔
عہدِ رسالت کا ایک واقعہ اور فیصلہ کن فرمانِ رسولﷺ
اس مسئلے میں نبیﷺ کے زمانے کا ایک واقعہ ہماری بڑی رہنمائی کرتا ہے۔ بریرہ ایک لونڈی تھی اور مُکاتَبَہ تھی، یعنی مالکوں کے ساتھ اس کا معاہدہ ہو چکا تھا کہ اتنی رقم تو ادا کر دے گی تو ہماری طرف سے آزاد ہے۔ بریرہ ؓحضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اُمّ المومنین! آپ مجھے خرید کر آزاد کر دیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ بریرہ نے کہا: لیکن میرے آقا کہتے ہیں کہ 'حق وَلاء9 ' ان کا ہو گا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: مجھے حق ولاء کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ یہ بات نبیﷺ نے سن لی یا آپ تک پہنچ گئی تو آپ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: «اِشْتَرِیهَا فَأَعْتِقِیهَا وَدَعِیهِمْ یَشْتَرِطُوا مَاشَاؤُا»
''اُس کو خرید کر آزاد کر دے اور مالکوں کو چھوڑ، وہ جو چاہے شرط کر لیں۔''
چنانچہ حضرت عائشہؓ نے حضرت بریرہؓ کو قیمت ادا کرکے آزاد کر دیا اور اس کے مالکوں نے ولاء کی شرط کر لی کہ وہ ہمارا حق ہو گا۔ لیکن نبیﷺ نے فرمایا:
«اَلْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ وَ إِنِ اشْتَرَطُوْا مِائَةَ شَرْطٍ»10
''حق ولاء آزاد کرنے والے کا ہے، چاہے مالک سو شرطیں لگا لیں۔''
ایک اور مقام پر آپ کا یہ فرمان بایں الفاظ منقول ہے:
«مَابَالُ رِجَالٍ یَّشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَیْسَتْ فِي کِتَابِ اللهِ؟ مَاکَانَ مِنْ شَرْطٍ لَیْسَ فِي کِتَابِ اللهِ فَهُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ کَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللهِ أَوْثَقُ وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»11
''لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں؟ (یاد رکھو) جو شرط ایسی ہو گی جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے، وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں۔ اللہ کا فیصلہ زیادہ حق دار ہے (کہ اس کو مانا جائے) اور اللہ کی شرط زیادہ مضبوط ہے (کہ اس کی پاسداری کی جائے) ولاء اسی کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا۔''
اس حدیث میں آپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ جو شرط بھی کتاب اللہ میں نہیں ہے، یعنی شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے خلاف ہے، وہ باطل ہے اور باطل کا مطلب کالعدم ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
علاوہ ازیں اللہ تبارک تعالیٰ نے احکامِ وراثت بیان فرما کر ان کی بابت کہا کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں اور اس کے بعد فرمایا: ﴿وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا...١٤﴾... سورۃ النساء ''جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا۔'' اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے مقررہ حصہ ہائے وراثت میں تبدیلی کرنا، اللہ کی حدوں سے تجاوز اور اللہ رسول کی نافرمانی ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں۔
اسی طرح اللہ نے طلاق اور خلع کے احکام بیان کرکے فرمایا: ﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ٢٢٩ ﴾... سورۃ البقرۃ ''یہ اللہ کی حدیں ہیں، سو تم اُن سے تجاوز نہ کرو اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا، وہ لوگ ظالم ہیں۔'' اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ طلاق و خلع کے احکام، حدود اللہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں تبدیلی کرنا، یعنی عورت کو حق خلع کے بجائے، جوکہ اسے اللہ نے دیا ہے، طلاق کا حق تفویض کر دینا،حدود اللہ میں تجاوز کرناہے جس کا حق کسی کو حاصل نہیں، یہ سراسر ظلم ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔
چنانچہ آیت مذکورہ: ﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها﴾کے تحت مولانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم نے لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے:
''یہ تاکید ہے اس امر کی کہ احکامِ شرعی میں کسی خفیف جزئیہ کو بھی ناقابل التفات نہ سمجھا جائے اور شریعت جیسے بے انتہا منظم فن میں ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ مشین جتنی نازک اور اعلیٰ صَنّاعی کا نمونہ ہو گی، اسی قدر اس کا ایک ایک تنہا پرزہ بھی اپنی جگہ پر بے بدل ہو گا۔''12
بنابریں عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنا، امر باطل ہے۔ اس سے حکم شریعت میں تبدیلی لازم آتی ہے، مرد کا جو حق ہے وہ عورت کو مل جاتا ہے اور عورت جو مرد کی محکوم ہے، وہ حاکم (قواّم) بن جاتی ہے اور مرد اپنی قوّامیت کو (جو اللہ نے اسے عطا کی ہے) چھوڑ کر محکومیت کے درجے میں آ جاتا ہے، یا بالفاظِ دیگر عورت طلاق کی مالک بن کر مرد بن جاتی ہے اور مرد عورت بن جاتا ہے کہ بیوی اگر اسے طلاق دے دے تو وہ سوائے اپنی بے بسی اور بے چارگی پہ رونے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ ﴿تِلكَ إِذًا قِسمَةٌ ضيزىٰ ٢٢ ﴾... سورة النجم
پہلا اشکال اور اس کی وضاحت
بعض علماء آیتِ تخییر سے تفویض طلاق کا جواز ثابت کرتے ہیں، حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔آیتِ تخییر سے مراد وہ واقعہ ہے جو نبیﷺ اور اَزواجِ مطہرات کے درمیان پیش آیا کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مالِ غنیمت کی و جہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی تو ازواجِ مطہرات نے بھی اپنے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا جو نبیﷺکو پسند نہ آیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزوٰجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدنَ الحَيوٰةَ الدُّنيا وَزينَتَها فَتَعالَينَ أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّحكُنَّ سَراحًا جَميلًا ٢٨ ﴾... سورة الاحزاب
''اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا اور اس کی زینت کی طالب ہو، تو آؤ میں تمھیں کچھ متعہ (فائدہ) دے کر تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی طلاق دے دیتا ہوں۔''
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہؓ سمیت تمام ازواجِ مطہرات کو اختیار دے دیا کہ تم دنیا چاہتی ہو یا آخرت؟ اگر دنیا کی آسائشیں مطلوب ہیں تو میں تمھیں طلاق اور کچھ متعۂ طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں لیکن سب نے دنیا کے مقابلے میں رسول اللہﷺ کے حبالۂ عقد ہی میں رہنے کو پسند کیا۔
یہ 'آیتِ تخییر 'کہلاتی ہے۔ اس سے تفویض طلاق کا اثبات نہیں ہوتا کیونکہ اس میں تو اُن کے مطالبات کے جواب میں اُنھیں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر تمھیں اپنے مطالبات پورے کرانے پراصرار ہے تو میں زبردستی تمھیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا، میں تمھیں طلاق دے دیتا ہوں، قرآن کے الفاظ واضح ہیں:﴿فَتَعالَينَ أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّحكُنَّ سَراحًا جَميلًا ٢٨ ﴾''آؤ میں تمھیں متعۂطلاق اور طلاق دے کر چھوڑ دیتا ہوں۔'' جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نبیﷺ کے ساتھ رہنے کے بجائے دنیا کی آسائشیں پسند کرتیں تو آپ ان کو طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیتے...از خود ان کو طلاق نہ ہوتی۔
اس سے مستقل طور پر عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنے کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اگر کچھ ایسے مطالبات پیش کرے جس کو خاوند پورا نہ کر سکتا ہو تو وہ بیوی سے یہ کہے کہ میں یہ مطالبات پورے نہیں کر سکتا، اگر تو انھی حالات کے ساتھ گزارا کر سکتی ہے تو ٹھیک ہے، بصورتِ دیگر میں طلاق دیکر اچھے طریقے سے تجھے فارغ کر دیتا ہوں۔ اگر عورت دوسری (طلاق کی) صورت اختیار کرتی ہے تو اسے طلاق نہیں ہو جائے گی بلکہ خاوند اس کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے طلاق دے تبھی طلاق، یعنی علیحدگی ہو گی۔
غرض اس صورت کا تفویض طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس آیت سے استدلال یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔
دوسرا شبہ
اسی سے ملتی جلتی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ جھگڑے کے موقع پر خاوند عورت کو یہ کہہ دے: أَمْرُكِ بِیَدِكِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے)
اس سے بھی بعض لوگوں نے تفویض طلاق کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ حالانکہ یہ طلاق کنائی کی ایک صورت بنتی ہے۔ اور اکثر فقہا اس کے جواز کے قائل ہیں لیکن یہ تفویض نہیں بلکہ طلاق ہے۔
نیز اوّل تو یہ الفاظ نہ مرفوعاً ثابت ہیں اور نہ موقوفاً، یعنی یہ نہ حدیثِ رسول ہے اور نہ کسی صحابی کا قول13 ... یہ الفاظ جامع ترمذی، سنن ابی داود اور سنن نسائی میں منقول ہیں۔ ان سب کی سندیں ضعیف ہیں تاہم اسے حسن بصری کا قول قرار دیا گیا ہے۔ (اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے)
البتہ بعض صحابہ کے ان الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ سے بھی استدلال کیا گیا ہے، مثلاً: المعجم الکبیر للطبرانی14 میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے:
إذا قال الرجل لامرَأته: أمركِ بیدكِ أو استفلحي بأمرك أووهبها لأهلها فقبلوها فهي واحدة بائنة15
''اگر آدمی اپنی بیوی سے کہے: تیرا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے ، یا تم اپنے معاملے میں کامیاب ہو جاؤ، یا وہ اس (حق) کو اس بیوی کے گھر والوں کے حوالے کر دے، پھر وہ اسے قبول کر لیں تو یہ ایک (طلاق) بائن (نکاح کو ختم کر دینے والی) ہے۔''
اس اثر میں غور کریں، کیا اس کا تعلق زیر بحث تفویض طلاق سے ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس میں بھی وہی خیارِ طلاق (طلاقِ کنائی) یاتوکیل کی صورت ہے کہ اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں خاوند بیوی کو اختیار دے دے کہ اگر تو میرے پاس رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے کہ تو خود میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر لے۔ اگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو مذکورہ اثر کی بنیاد پر اسے طلاق ہو جائے گی اور بقول عبداللہ بن مسعود یہ ایک طلاق بائن ہو گی۔ یہ خیارِ طلاق سے ملتی جلتی وہی صورت ہے جس کی تفصیل آیتِ تخییر کے ضمن میں گزری ہے یا یہ طلاق بالکنایہ ہے کیونکہ یہ طلاق کون سی ہو گی؟ یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔
دوسری صورت اس میں توکیل کی ہے، یعنی بیوی کے گھر والوں کو طلاق دینے کا حق دے دے اور وہ طلاق دے دیں، تو طلاق بائن ہو جائے گی۔ وکالت کو بھی شریعت نے تسلیم کیا ہے، یعنی خاوند خود طلاق نہ دے بلکہ وکیل کے سپرد یہ کام کر دے، تو وہ طلاق خاوند ہی کی طرف سے تسلیم کی جائے گی۔مذکورہ اثر میں یہی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک صورت خیارِ طلاق کی سی ہے بلکہ یہ طلاق بالکنایہ ہے اور دوسری توکیل طلاق کی۔ اس اثر سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔
دوسرا اثر، جس سے استدلال کیاگیا ہے، حسب ذیل ہے:
''سیدنا عثمان کے پاس وفد میں ابوا لحلال العتکی آئے، تو کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا: فأمرها بیدها پس اس عورت کااختیار اس کے پاس ہی ہے۔''16
اس میں بھی وہی خیارِ طلاق بلکہ طلاق بالکنایہ کا اثبات ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں، یعنی لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار کنائے کی صورت میں دے دینا، اس اثرکا بھی تفویض طلاق کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تیسرا اثر، جس سے استدلال کیا گیا ہے، حسبِ ذیل ہے:
''سیدنا عبداللہ بن عمر سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا تو انھوں نے فرمایا: "القضاء ماقضت فإن تنا کراحلف" وہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ ہے، پھر اگر وہ دونوں ایک دوسرے کا انکار کریں تو مرد کو قسم دی جائے گی۔''17
یہ اثر نقل کرکے فاضل مفتی﷾ تحریر فرماتے ہیں:
''یہاں پرچونکہ یہ اختیار نکاح نامے پر شوہر کے دستخطوں اورگواہوں کے ساتھ لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہاں کسی قسم کے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔''18
لیکن اس اثر میں بھی پہلے قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس میں بھی طلاق بالکنایہ والا مسئلہ ہی بیان ہوا ہے یا تفویض طلاق کا؟ واقعے پر غور فرما لیا جائے، اس میں بھی طلاق کنائی یا خیارِ طلاق ہی کا مسئلہ بیان ہوا ہے جس کا شادی کے بعد ہونے والے میاں بیوی کے درمیان شدید جھگڑے سے ہے کہ اگر اختلافات کا کوئی حل نہ نکلے تو خاوند اس کا یہی حل پیش کرے کہ تجھے اختیار ہے میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا۔ اس صورت میں ظاہر بات ہے کہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی نافذ ہو گا۔ علیحدگی پسند کرے گی تو طلاق ہو جائے گی، بصورتِ دیگر نہیں۔ لیکن اس طلاق میں بھی فیصلہ کن بات خاوند کی نیت ہی ہے کہ طلاق رجعی ہے یا بائن؟
اس اثر سے بھی رشتۂ ازدواج میں جڑنے سے پہلے ہی نکاح کے موقعے پر مرد کا اپنے اس حق طلاق سے دست بردار ہو کر، جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے، عورت کو اس کا مالک بنا دینا، کس طرح ثابت ہوتا ہے؟ ... میاں بیوی کے درمیان عدمِ موافقت کی صورت میں ان کے اختلافات دور کرنے کے کئی طریقے ثابت ہیں۔ ایک یہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ ایک ثالث (حَکَم)بیوی کی طرف سے اور ایک خاوند کی طرف سے مقرر کیے جائیں، وہ دونوں کے بیانات سن کر فیصلہ کریں اور دونوں کی کوتاہیوں کو معلوم کرکے ان کو دور کرنے کی تلقین دونوں کو کریں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ بطورِ وکالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کر دیں۔ اس کو 'توکیل بالفرقہ' کہا جاتا ہے، یہ وکالت کی وہ صورت ہے جو جائز ہے۔
دوسری صورت یہ ہے جو بعض آثار ِصحابہ سے ثابت ہے کہ خیارِ طلاق کی ہے جو نبیﷺ نے اختیار فرمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ازواجِ مطہرات علیحدگی کو پسند کرتیں تو آپﷺ ان کو طلاق دے کر فارغ کر دیتے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ خاوند علیحدگی کا معاملہ عورت کے سپرد کر دے: اَمْرُكِ بِیَدِكِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں) مذکورہ سارے آثار کا تعلق اسی صورت سے ہے۔ اس جملے کی بابت فقہا کہتے ہیں اور مذکورہ آثارِ صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ اگر عورت علیحدگی اختیار نہیں کرتی اور خاوند ہی کے پاس رہنے کو اختیار کرتی ہے تو طلاق نہیں ہو گی اور اگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ طلاق شمار ہو گی۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ طلاق ایک ہو گی یا تین طلاقیں۔ ایک طلاق ہونے کی صورت میں رجعی ہو گی یا بائنہ؟ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خاوند کی نیت کے مطابق فیصلہ ہو گا، اگر اس سے مراد اس کی ایک طلاقِ رجعی ہے تو یہ ایک طلاقِ رجعی شمار ہو گی اور خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس میں خاوند کی نیت کے فیصلہ کن ہونے نے اس کو طلاق بالکنایہ بنادیا ہے اور یوں یہ خیارِ طلاق سے مختلف صورت ہے کیونکہ اسے اگر خیارِ طلاق کی وہی صورت قرار دیں جو نبیﷺ نے ازواجِ مطہرات کے سلسلے میں اختیار فرمایا تھا تو اس سے میں بھی طلاق کا حق مرد ہی کو حاصل تھا، اور امرک بیدک میں یہ اختیار عورت کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ طلاقِ کنائی بنے گی اس لیے کہ یہ طلاق ،طلاقِ رجعی ہو گی یا بائنہ؟ اس کا فیصلہ خاوند کی نیت کے مطابق ہو گا۔
حضرت زید بن ثابت کے پاس محمد بن عتیق نامی ایک شخص آیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت زید نے پوچھا: کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ اُس نے کہا: میں نے اپنی عورت کو اس کے معاملے کا مالک بنا دیا تھا تو اُس نے مجھ سے جدائی اختیار کر لی ہے۔ حضرت زید نے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگا: بس اسے تقدیر ہی سمجھ لیں۔ حضرت زید نے فرمایا: اگر تو رجوع کرناچاہتا ہے تو رجوع کرلے، یہ ایک ہی طلاق ہے اور تو رجوع کرنے کا اس عورت سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔
اور حضرت زید بن ثابت کا ایک دوسرا قول یہ نقل ہوا ہے اور اسے حضرت عثمان اور حضرت علی کا بھی قول بتلایا گیا ہے کہ القضاء ما قضت (عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ ہوگا)، یعنی اس کے کہنے کے مطابق اسے طلاقِ رجعی یا بائنہ، ایک یا تین شمار کیا جائے گا کیونکہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
اور ایک تیسری رائے حضرت عبداللہ بن عمر کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر عورت اسے تین طلاق شمار کرے اور خاوند کہے کہ عورت کو طلاق کا مالک بناتے وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی، تین طلاق کا انکار کرے جس کا فیصلہ عورت نے کیا تھا، تو خاوند سے قسم لی جائے گی اور پھر اسے ایک ہی طلاق شمار کرکے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق دیا جائے گا۔19
ان آثار سے، قدرے اختلاف کے باوجود، یہ واضح ہے کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار دینا، زیر بحث تفویض طلاق سے یکسر مختلف معاملہ ہے جس کا جواز ان آثار سے کشید کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ أَمْرُكِ بِیَدِكِ کی صورت یا تو توکیل کی بنتی ہے کہ مرد کسی اور کو وکیل بنانے کے بجائے عورت ہی کو وکیل بنا دیتا ہے یا یہ کنائی صورت ہے کیونکہ اس میں فیصلہ کن رائے خاوند ہی کی ہو گی کہ اگر عورت نے علیحدگی پسند کرلی ہے تو یہ کون سی طلاق شمار ہو گی، رجعی یا بائنہ، ایک یا تین؟ ایک رجعی شمار کرنے کی صورت میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔
اس سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات کرنے والوں سے ہمارے چند سوال ہیں:
1. تفویض طلاق والی عورت اگر خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو کیا اس میں خاوند کی نیت کا اعتبار ہو گایا نہیں؟
2. اگر خاوند کہے کہ میری مراد اس تفویض طلاق سے ایک طلاقِ رجعی تھی، تو کیا خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا؟
3. اوراگر رجوع کا حق حاصل ہو گا تو پھر تفویض طلاق کی شق ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہے، کیونکہ جو عورت بھی اس حق کو استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے گی تو خاوند رجوع کر لیا کرے گا۔
4. اگر تفویض طلاق میں طلاقِ بائنہ ہو گی تو پھر یہ صورت أَمْرُكِ بِيَدِكِ میں کس طرح آسکتی ہے جس کو اس کے جواز میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟ جبکہ أَمْرُكِ بِيَدِكِ کی صورت میں طلاق بائنہ نہیں ہو گی جیسا کہ آثار سے واضح ہے۔20
تیسرا اشکال: توکیل(وکیل بنانے) کی اجازت
ایک تیسری اصطلاح 'توکیل' ہے، یعنی ایک جائز کام کو خود کرنے کے بجائے کسی دوسرے شخص سے کرایا جائے۔
شریعت نے اس کو جائز رکھا ہے، اس کو نیا بت بھی کہا جاتا ہے۔ طلاق دینا بھی (ناگزیر حالات میں) جائز ہے اور یہ صرف خاوند کا حق ہے، تاہم خاوند اپنا یہ حقِ طلاق وکیل کے ذریعے سے استعمال کرے تو دوسرے معاملات کی طرح یہ توکیل بھی جائز ہے۔ قرآن کریم کی آیت: ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها...٣٥﴾... سورة النساء" میں جمہور علما کے نزدیک حَکَمَیْن کے 'توکیل بالفُرقہ' ہی کے اختیار کا بیان ہے۔
اسی توکیل میں وہ خاص صورت بھی شامل ہے جو پنچایتی توکیل کی ضرورت پیدا کر دیتی ہے، مثلاً: ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا حتیٰ کہ بیوی بار بار اپنے میکے آجاتی ہے اور خاوند بار بار حسن سلوک کا وعدہ کرکے لے جاتا ہے لیکن وعدے کے مطابق حسن سلوک نہیں کرتا، بالآخر لڑکی کے والدین تنگ آکر اس سے وعدہ لیں کہ اس دفعہ عہد کی پاسداری نہیں کی تو ہم آئندہ اس کو تمہارے پاس نہیں بھیجیں گے، خاوند سے پنچایت میں یہ اقرار لیا جائے۔ اس صورت میں یہ پنچایت' توکیل بالفرقہ' کا کردار ادا کرکے دونوں کے درمیان جدائی کروا دے۔
پنچایت یا عدالت کا یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا، جیسے خلع میں عدالت کا فیصلہ فسخ نکاح سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی عدالت کے اقربا خاوند سے تفویض طلاق کا مطالبہ نہیں کر سکتے کہ تم بیوی کو حق طلاق تفویض کرو، یعنی معاہدۂ حسن سلوک کی پاسداری نہیں کی گئی تو بیوی حق طلاق استعمال کرے گی بلکہ خلع کی طرح پنچایت یا عدالت ہی علیحدگی کا فیصلہ کرے گی۔
خلع اور اس توکیل میں فرق یہ ہے کہ خلع میں حق مہر واپس لینے کا حق خاوند کو حاصل ہے جب کہ پنچایتی فیصلے میں خاوند کو یہ حق نہیں ہو گا کیونکہ یہ جدائی خاوند کے اقرار یا وعدے کی بنیاد پر ہو گی۔ دوسرے، توکیل کی و جہ سے یہ جدائی طلاق کے قائم مقام ہو گی۔
چوتھی نوعیت: تفویض طلاق؟
چوتھی اصطلاح، تفویض طلاق ہے جس کی اجازت فقہاے احناف اور دیگر بعض فقہا دیتے ہیں لیکن شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزری۔ کیونکہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرنے میں ان تمام حکمتوں کی نفی ہے جو حق طلاق کو صرف مرد کے ساتھ خاص کرنے میں مضمر ہیں۔
اس اعتبار سے عورت کو کسی بھی مرحلے میں حق طلاق تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ابتدا میں عقدِ نکاح کے وقت اور نہ بعد میں عدمِ موافقت کی صورت میں۔ عدم موافقت کی صورت میں چار صورتیں جائزہوں گی جن کی تفصیل گزری۔ ہم خلاصے کے طور پر اسے دوبارہ مختصراً عرض کرتے ہیں:
1. تخییر:نبیﷺ کی طرح خاوند کی طرف سے عورت کو اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ خاوند کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو خاوند اس کو طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کر دے، جیسا کہ ﴿أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّحكُنَّ سَراحًا جَميلًا ٢٨﴾... سورة الاحزاب" سے واضح ہے، یعنی طلاق دے کر علیحدگی کا کام مرد ہی کی طرف سے ہو گا۔
2. توکیل: یا پھرحَکَمیْن (دوثالثوں) کے ذریعے سے توکیل کا اہتمام کیا جائے گا۔ ایک ثالث خاوند اور ایک بیوی کی طرف سے ہو گا۔ وہ دونوں میاں بیوی کی باتیں آمنے سامنے یا الگ الگ (جو بھی صورت مناسب اور مفید ہو گی) سنیں گے اور اس کی روشنی میں صلح و مفاہمت کی مخلصانہ کوشش کریں گے لیکن اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو پھر وہ، ان دونوں کے درمیان جدائی کا فیصلہ کر دیں گے۔ یہ فیصلہ بھی طلاق کے قائم مقام ہو گا۔
3. یا أَمْرُكِ بِیَدِكِ، کہہ کر خاوند عورت کو علیحدگی کا حق دے دے۔ یہ بھی اختلافات ختم کرنے کی ایک صورت ہے جو آثارِ صحابہ سے ثابت ہے اور یہ طلاقِ کنائی کی ایک شکل ہے۔
4. یا خلع یا پنچایت کے ذریعے سے علیحدگی عمل میں لائی جائے گی۔ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑے گا۔
ان چار طریقوں کے علاوہ کوئی چوتھا طریقہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو گا۔
اور یہ تفویض طلاق پانچواں طریقہ ہے جو فقہا کا ایجاد کردہ ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل ہے، نہ صحابہ و تابعین کا کوئی اثر اس کی تائید میں ہے۔
ایک اور عجیب جسارت یا حیلہ
احناف شریعت کے دیے ہوئے اس حق خلع کو نہیں مانتے جو عورت کو مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے، جبکہ عورت کو اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس لیے احناف نے اس کا متبادل حل ایک تو تفویض طلاق کی صورت میں ایجاد کیا جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ کی، اس کا ایک اور حل فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے جو عجیب بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مقابلے میں شوخ چشمانہ جسارت بھی۔
اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا خاوند نہ چھوڑتا ہو اور وہ اس کے ہاتھ سے تنگ ہو تو وہ خاوند کے بیٹے سے زِنا کروالے، تاکہ وہ خاوند پر حرام ہو جائے کیونکہ فقہ حنفی میں حرام کاری سے بھی رشتۂ مصاہرت قائم ہو جاتا ہے۔21
اس حیلے کی بھی ضرورت اسی لیے پیش آئی کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ حق خلع علماے احناف کو تسلیم نہیں ورنہ اس قسم کی صورتوں میں عورت عدالت سے خلع کے ذریعے سے ناپسندیدہ یا ظالم شوہر سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالىٰ
ہمارے نزدیک یہ حیلہ بھی بناے فاسد علیٰ الفاسد ہے۔ حرام کام کے کرنے سے کوئی حلال حرام نہیں ہو سکتا۔ میاں بیوی کا تعلق حلال ہے، بیوی اگر خاوند کے بیٹے سے اپنا منہ کالا کروائے گی تو زنا کاری جیسے جرم کبیرہ کی مرتکب ہو گی لیکن اس سے وہ اپنے میاں کے لیے حرام نہیں ہو گی، حدیث رسولﷺہے: «لَا یُحَرِّمُ الحرامُ الحلالَ»22
''حرام کام حلال کو حرام نہیں کرے گا۔''
اس لیے اَسلم واَحوط راستہ عورت کے لیے حق خلع کا تسلیم کرنا ہے، اس حق شرعی کو ماننے کے بعد نہ تفویض طلاق کے کھکیڑ میں پڑنے کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ اپنے سوتیلے بیٹے سے منہ کالا کرانے کی۔ اس کے بغیر ہی عورت خاوند سے نجات حاصل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے شریعت نے جب کئی معقول طریقے تجویز کیے ہوئے ہیں تو ان کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ غیر معقول تجاویز پر اصرار کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ وماعلینا إلاالبلاغ المبین
حوالہ جات
صحیح بخاری: 29
ایضا: 3331
فتح الباری:9؍315
ملاحظہ ہو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة کے نئے ایڈیشن (ناشر:ادارہ اسلامیات) کا پیش لفظ، از مولانا تقی عثمانی
درسِ ترمذی از مولانا تقی عثمانی: 3؍ 497
صحیح بخاری: 2721
ایضا: 2723
جامع ترمذی: 1352
ورثا کی عدم موجودگی میں وراثت وغیرہ کے حق کو 'وَلَاء 'کہا جاتاہے۔
صحیح بخاری: 2565
ایضا: 2168
سورة النساء: 14
سورة البقرۃ: 229
تفسیر ماجدی:1؍92 ، طبع تاج کمپنی
سورة الأحزاب: 28
ضعیف سنن ابو داود، للالبانی: 478
المعجم الکبیر للطبرانی:9؍ 379، حدیث: 9627
ماہنامہ 'الحدیث'حضرو، مئی 2013ء
مصنف ابن ابی شیبۃ:5؍ 56، حدیث: 18071
مصنف ابن ابی شیبۃ: 9؍ 851، حدیث: 18388
ماہنامہ 'الحدیث' حضرو، مئی 2013ء
ملاحظہ ہو، شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی، حفظہ اللہ کی تالیف''جائزۃ الاحوذی فی التعلیقات علیٰ سنن الترمذی'' حدیث:2؍451-449
الغرض اسلام میں توکیل کی گنجائش بھی موجود ہے اور طلاقِ کنائی کی بھی، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نظامِ طلاق ہی شوہر کے ہاتھ سے نکل کر، عورت کے ہاتھ میں چلا گیا جیسا کہ تفویض طلاق کے سلسلے میں باور کیا جاتاہے، بلکہ یہ مرد کے ہی حق طلاق کے کنایۃ و وکالتاً استعمال کی صورتیں ہیں، جس کی کیفیت اور نوعیت کا تعین شوہر ہی کرتا ہے۔ ایسی ہی صورت تخییر کی ہے، جس کے بعد طلاق آخر کار مرد ہی دیتا ہے۔ مدیر
سورة النساء: 35
سورة الأحزاب: 28
شرح بخاری، از مولانا داود راز دہلوی:8؍266، طبع مکتبہ قدوسیہ لاہور
سنن ابن ما جہ: 2015، مزید ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل، للالبانی:6؍287، نیز دیکھیے: تفسیر احسن البیان، سورۃ النساء کی آیت 23 کا حاشیہ