اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش بسلسلہ ڈی این اے

سیکولر پروپیگنڈے کا تجزیہ اور مسئلہ کی قانونی وشرعی حیثیت


صدر ایوب خاں کے دورِحکومت 1962ء میں قائم کی جانے والی 'اسلامی مشاورتی کونسل' کو ترقی دے کر 1973ء کے دستور میں 'اسلامی نظریاتی کونسل' کا نام دیا گیا اور کسی بھی قانون کی شرعی حیثیت جانچنے کے لئے اُس کو آئینی کردار سونپا گیا۔ستمبر 1977ء میں اس دستوری ادارے کے کردار کو مؤثر کرتے ہوئے،اس کے 20؍ ارکان مقرر کئے گئے اور ضروری قرار دیا گیا کہ اس کے کم ازکم چار ارکان ایسے ہوں گےجنہوں نے اسلامی تعلیم وتحقیق میں کم از کم 15 برس صرف کئے ہوں اور اس میں تمام مکاتب ومسالک کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔اس کے فاضل ارکان میں اعلیٰ عدلیہ کے دو سابق جج صاحبان اور ایک خاتون رکن کی موجودگی بھی ضروری قرار پائی۔

دستورِ پاکستان کے مستقل باب'اسلامی احکام 'کی دفعہ 227 کی شق اوّل میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ ''تمام موجود ہ قوانین کو کتاب وسنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔'' اور اسی دفعہ کی شق دوم یہ بتاتی ہے کہ کسی حکم کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کا تعین دستور کے اسی حصے یعنی اسلامی نظریاتی کونسل کے طے شدہ دائرہ عمل اورقانونی طریق کار کے ذریعے سے ہی ممکن ہوگا۔دفعہ نمبر 229 میں کونسل کی آئینی ذمہ داری متعین ہوئی کہ صدر ، گورنر یا کسی اسمبلی کا 40 فیصد حصہ اسلامی نظریاتی کونسل سے کسی قانون کے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کا مشورہ لے سکتا ہے۔ اس سے اگلی دفعہ میں کونسل کے فرائض میں بتایا گیا کہ وہ کسی بھی اسمبلی کو ایسے اقدامات کی سفارش کرسکتی ہے جن سے پاکستان میں انفرادی اور اجتماعی طورپر اسلام جاری وساری ہوسکے۔ اُن تدابیر کی نشاندہی کرسکتی ہے جن سے مروجہ قوانین اسلام کے تقاضوں کے مطابق ہوجائیں۔ یا خود کونسل اسلامی احکام کی تدوین کا کردار بھی انجام دے سکتی ہے تاکہ اُنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جائے۔کونسل اس امر کی پابند ہے کہ 15 روز کے اندر کسی بھی رہنمائی طلب مسئلہ میں پارلیمنٹ کو سفارش پیش کرے، اور اگر اسے کونسل کی سفارش سے قبل نافذ کردیا جائے تو کونسل کی سفارش کے مطابق اسمبلی اسپر نظرثانی کرنے کی پابند ہوگی۔1

کونسل مذکور نے 28،29 مئی 2013ء کو منعقدہ اپنے 191 ویں اجلاس میں بعض اہم اُمور پر سفارشات کی ہیں، جن کی اہمیت وافادیت کو سمجھے بغیر، سیکولر طبقہ اور بعض ملحدین ان سفارشات کوتنقید کا نشانہ بنا رہےہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے بیانات ،مضامین ، رپورٹیں، تبصرے اور سروے سامنے آنے لگے،سوشل میڈیا میں اس مسئلہ کو اُچھالا گیااور حقائق کو جانے بغیریہ لوگ اسلامی نظریاتی کونسل کو کوسنے اور علما کو دقیانوس اور قدامت پرست ہونے کاطعنہ دینے لگے۔... آئیے دیکھیں کہ نظریاتی کونسل کی سفارش کیا ہے، اس پر کیا تنقید کی جارہی ہے اور تنقید کے پس پردہ مقاصد ومضمرات کونسے ہیں؟ نیز اصل مسئلہ کی شرعی اور قانونی حقیقت کیا ہے؟ روزنامہ جنگ لاہور میں شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیے:

''اسلام آباد...اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ زنا بالجبر کے معاملے میں ڈی این اے ٹیسٹ بطورِ شہادت قابل قبول نہیں، البتہ اسے ضمنی شہادت کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ کونسل نے قرار دیا ہے کہ زنا بالجبر کے جرم کے تعین، حد اور قصاص کے لیے اسلام نے طریقہ کار طے کررکھا ہے، ڈی این اے ٹیسٹ صرف ضمنی شہادت کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی کا کہناہے کہ زنا بالجبرمیں ڈی این اے ٹیسٹ کارآمد ثابت نہیں ہوتا ہے کیونکہ زنا ایک ایسا جرم ہے کہ جس کے ثبوت کے لئے بہت احتیاط ضروری ہوتی ہے ،ڈی این اے ٹیسٹ وہاں کافی نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے مزید سفارش کی ہے کہ توہین رسالت کے موجودہ قانون میں تبدیلی نہ کی جائے،تاہم اس پر کونسل مزید غور کرے گی۔''

مذکورہ بالا اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے دو ریٹائر ڈ جج حضرات: جسٹس نذیر اختر اور جسٹس مشتاق میمن کے علاوہ مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ممبر علما نے شرکت کی جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سینیٹر مولانا محمد خاں شیرانی کی زیر صدارت یہ اجلاس منعقد ہوا۔کونسل کی ویب سائٹ پر جاری 29 مئی 2013ء کی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ

'' اجلاس میں ملک بھر میں ہونے والی نصابی تبدیلیوں بالخصوص صوبہ پنجاب کے نصابِِ تعلیم میں اسلامی، ملّی، دینی اور نظریۂ پاکستان کی عکاسی کرنے والے مضامین کو سکولوں کے نصاب سے خارج کرنے کو افسوسناک اور قابل تشویش قرار دیا گیا۔... مزید برآں اجلاس مذکور میں رؤیتِ ہلال کے نظام کو جدید بنانے، خیبر پی کے میں رؤیتِ ہلال کے حوالے سے اتحاد ویگانگت کو فروغ دینے اور مسلمانانِ پاکستان کو انتشار وافتراق سے بچانے کے لئے مجلس مذاکرہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح زکوٰۃ فنڈ کو بنکوں میں رکھنے، مصیبت زدہ اور زیر حراست خواتین کے لئے فنڈ کے قیام کے ایکٹ وغیرہ پر متعدد سفارشات منظور کیں۔ مزید برآں زنابالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بطورِ شہادت قبول کرنے ، توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم اوردیگر اُمور پر غور کرنے کے بعد سفارشات منظور کیں۔''

ڈی این اے سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کی معنویت اور قانونی نوعیت کو سمجھے بغیر، نیز دیگر اہم سفارشات کی تائید کرنے کی بجائے، اسلام بیزار طبقہ نے شور مچانا شروع کردیا، اور سب سے پہلے بی بی سی لندن نے اس پر کڑے اور مضحکہ خیز الفاظ میں تنقید کی۔ 'شرعی ڈین اے' کے نام سے لکھے جانے والی رپورٹ میں محمد حنیف لکھتے ہیں کہ

''کونسل میں شامل تمام اراکین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اِس ملک کے معروضی حالات سے واقف ہیں، اُمید ہے فقہ اور حدیث کے ساتھ ساتھ ہائی سکول کی سائنس بھی پڑھی ہو گی۔یہ بھی جانتے ہوں گے کہ آپ شاختی کارڈ جعلی بنوا سکتے ہیں، کسی اور کے پاسپورٹ پر اپنی تصویر لگا سکتے ہیں، پلاسٹک سرجری سے چہرہ بھی تھوڑا بہت بدل سکتے ہیں، لیکن ابھی تک دریافت ہونے والے انسانی جینیاتی شناخت میں ڈی اے این ہی وہ کوڈ ہے جو کسی دو اِنسانوں میں مشترک نہیں ہوتا۔لیکن اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی کیا کریں وُہ مذہبی بھی ہیں اور نظریاتی بھی اور ہر ایسی سائنسی ایجاد جو اُن کے رُتبے کو چیلنج کرے، اُن کے لیے قابل قبول نہیں ہے... ڈی این اے ٹیسٹ جس کے ذریعے 'ریپ' جیسے قبیح جرم کا شکار ہونے والی ایک بچی کو انصاف مل سکتا ہے، ہمارے ملک کے چنیدہ علما اس پر متفق ہیں کہ نہیں ہونے دیں گے۔''2

خبر کا انداز اور لہجہ، رپورٹ اورحقیقت سے بڑھ کر طنز وتمسخر کی بھونڈی مثال ہے، بی بی سی کی سابقہ روایات کے عین مطابق، خبریت سے زیادہ اس میں اپنے قاری کی ذہن سازی کی کوشش کی گئی ہے۔ حیرانی اس امر پر ہے کہ کسی نے بھی خبر کی حقیقت کو سمجھنے یا اسےبیان کرنے کی لمحہ بھر کوشش نہ کی اور لگے علما کے بہانے سے اسلام کو کوسنے...!!

بی بی سی نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسے رائے عامہ کا موضوع بنا ڈالا، اس موضوع کو عوام کے تبصروں کے لئے کھول دیا اور مغربی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے، پہلے مسلمانوں میں سے ہی افتراق کے لئے مخالف دھڑے کی جستجو کی، نظر انتخاب جاوید غامدی پر جاٹھہری اور وہاں سے اُنہیں عین وہی فتویٰ صادر ہوگیا جو اُن کی خواہش تھی۔ ارشاد ہوا کہ

''ثبوتِ جرم کے لیے قرآنِ مجید نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھہرائی۔ زنا بالجبرمیں ڈی این اے بطورِ ثبوت پیش ہوسکتا ہے۔''

جاوید غامدی کے اس 'فتویٰ' کا جائزہ تو ہم آگے لیں گےکہ ثبوتِ جرم کا قرآنی تقاضا کیا ہے؟ تاہم اُنہوں نے بھی ڈی این اے کے ثبوت کی بات کی ہے، ضمنی یا بنیادی شہادت کے مسئلہ پر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ پاکستان میں مغرب کے ان ہم خیالوں نے بھی اسلام کے خلاف اُٹھنے والی مغربی میڈیا کی آواز پر لبیک کہا اور روزنامہ ڈان نے یکم جون 2013ء کو 'دقیانوسی سوچ' کے زیر عنوان اداریہ لکھ مارا۔ الفاظ کا انتخاب دیکھئے، لب ولہجہ پر توجہ کیجئے تو آپ کو یہ پہچاننے میں لمحہ بھر مشکل نہ ہوگی کہ انتہا پسندی اور جہالت کی آئے روز تکرار کرنے والے خود اس میں گھٹنے گھٹنے ڈوبے ہوے ہیں۔ اسلام یا قرآن کے کسی حکم کی بات آجائے تو وہ سائنس سے جہالت کا طعنہ دیتے ،رجعت اور علم دشمنی کے الزام لگاتے اور پھبتیاں کستے نہیں رکتے، ملاحظہ فرمائیے:

''جنرل ضیاء الحق کی موت کو پچیس سال ہوچکے لیکن اُنہوں نے غلط رویوں کی جو میراث چھوڑی، وہ جانے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستان کو دھکیل کر پیچھے کی طرف لے جانے کی جو بساط اُنہوں نے بچھائی تھی، اُس پر ان غلط رویوں کی تازہ ترین مثال منطق سے خالی اور چونکا دینے والی ہے!!

اسلامی نظریاتی کونسل جو قوانین اور آئینی میکنزم کا مشاہدہ کر کے شرعی بنیادوں پراس کی تشریحات کرتی ہے، نے بدھ کو فیصلہ صادر کردیا کہ عصمت دری یا ریپ کے کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ بنیادی ثبوت کے طور قابلِ قبول نہیں۔

آخر خود اسلامی نظریاتی کونسل کی کیا ضرورت ہے؟مجوزہ قانون سازی اور جاری قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ایک منتخب پارلیمنٹ موجودہ ہے، جس پر نظر رکھنے کے لیے عدالتیں یا اُن پر تنقید کے لیے میڈیا موجود ہے۔ ماضی کے ان عفریتوں سے پیچھا چھڑانے کی ضرورت ہے۔ ''

ایسے ہی شدید ردّعمل کا اظہار جرمنی کے خبررساں ادارے 'بغاوت' نے اپنی 31 مئی کی اشاعت میں کیا۔ پاکستان میں عاصمہ جہانگیر کے 'انسانی حقوق کمیشن 'نے بھی31 مئی 2013ء کو ہی اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پریس ریلیز میں یہ قرار دیا کہ

HRCP expressed alarm and disappointment...3

''کمیشن نے اس موقف کو خطرہ کی گھنٹی اور قابل تشویش قرار دیا کہ ڈی این اے، زنا بالجبر کے واقعات میں بنیادی شہادت کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسی سفارشات سے پتہ چلتاہے کہ اسلامی کونسل کس طرح رجعت پسندانہ اور عصر جدید کے تقاضوں سے متصادم رجحانات کی حامل ہے، نئی حکومت کو فوری طورپر ایسی کونسل کو تحلیل کرکے تجدد پسند افراد پر مشتمل کونسل کی تشکیل کرنا ہوگی۔''

بات تبصرہ وتنقید اور طنزیہ لب ولہجے تک رہتی تو گوارا تھا، اسی پر اکتفا کرنے کی بجائے لبرل انتہاپسندوں کو جھوٹ کا بھی سہارا لینا پڑے، تو وہ اِس سے بھی گریز نہیں کرتے، کسی طرح اسلام اور اہل اسلام کی مذمت کا مقصد پورا ہونا چاہئے۔ آئیے دیکھیں جنگ کے کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے فرزنداور دینی خانوادے کے چشم وچراغ ، وفاقی بیورو کریٹ یاسر پیرزادہ کے خیالاتِ عالیہ... موصوف جب بولتے ہیں، چھپر پھاڑ کے بولتے ہیں اور اپنے مدعا کے لئے جو اینٹ روڑا ہاتھ آئے، اس کا استعمال ضروری خیال کرتے ہیں، اُنہوں نے اس پر مستقل کالم لکھ مارا ۔ روزنامہ جنگ میں 'اسلامی نظریاتی کونسل کا اسلامی نظام'کے زیر عنوان وہ رقم طراز ہیں:

''اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں یہ 'فتوٰی' صادر کیا ہے کہ اجتماعی عصمت دری کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ خبر ریپ ملزمان کے لئے تازہ ہواکا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے لہٰذا ایسے تمام ملزمان کو چاہئے کہ وہ کونسل کے چیئرمین کو شکریے کی اِی میل ارسال کریں اور جیل سے چھوٹنے کے فوراً بعد اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔...

اس فیصلے کے دور رَس اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں... کراچی کی ایک عدالت نے اس نظام پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ان غلط فیصلوں کے نتیجے میں گینگ ریپ ہونے والی خواتین کی آواز دب جائے گی اور ملزم دندناتے پھریں گے۔ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کا یہی انصاف ہے؟''4

تبصرہ وتجزیہ

قارئین کرام! اوپر درج شدہ خبروں اور کالموں سے جس طرح آپ کو یہ اندازہ ہوا کہ اسلام کے خلاف کوئی معاملہ کس طرح عالمی میڈیا اُٹھاتاہے، پاکستان میں کونسے حلقے اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور پھر کس طرح اس کو موقر روزناموں کے صفحات پر بعض کالم نگار پہنچا دیتے ہیں۔ اسی طرح مذکورہ بالا بیانات سے آپ کو لبرل دانشوروں کی شدت وانتہاپسندی ، طنز وتمسخرمیں بھجی ہوئی تحریروں کے رجحان کا بھی علم ہوا۔ بات کہاں سے شروع ہوئی ، اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے اس میں کیاکیا جھوٹ اور کیسی مبالغہ آرائی کا مصالحہ شامل کیا گیا،اس کی تفصیل ذیل میں آرہی ہے۔توجہ طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا بیانات اور خوش نما جذبے، روح وعمل سے خالی ہیں، اگر اُن کے منطقی نتائج پر غور کیاجائے تو کوئی بھی فرد اس مرکزی نکتہ کے علاوہ کسی بات پر متفق نہیں کہ علماے کرام اور اسلامی اداروں کوبدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے، چاہے یہ ادارے سرکاری سطح پر انتہائی معتبر اور آئینی ڈھانچے اور تشخص کے حامل ہوں، ان میں اعلیٰ عدلیہ کے فاضل جج حضرات بھی تشریف فرماہوں، لیکن اُن کی بلا سے۔

1. انتہاپسندی؛ایک مذموم رویہ: سب سے پہلے تو واضح رہنا چاہئے کہ انتہاپسندی ایک رویہ ہے جو کسی بھی طبقہ میں پایا جائے ، وہ قابل اصلاح ہے۔ اسلام ایک دین اعتدال ہے، ملّتِ اسلامیہ اُمتِ وسط ہے۔ بہترین اُمور ، میانہ روی کے حامل اور درمیان والے ہیں۔ انتہاپسندی اسلام کی رو سے عبادات میں ہو تو وہ ناجائز ہے، معاملات میں ہو تو گوارا نہیں، جس پر کئی ایک فرامین نبویؐہ شاہد ہیں۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ بزعم خود روشن خیال کہلانے والے ملحد اور لبرل طبقات اپنے خیالات پیش کرنے ، دوسروں کو لتاڑنے اور ان پر جملے کسنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ انتہا پسندی کسی بھی مقام پر ہو، قابل اصلاح اور قابل استرداد ہے۔ بالخصوص ایسے مقام پر جہاں طنزو تمسخر کے ساتھ ساتھ اس میں جھوٹ اور خلاف واقعہ دعوؤں کی آمیزش بھی شامل ہو۔

جھوٹ اور مبالغہ آرائی

4. تنقید کرنے والوں کے دعوے خلافِ واقعہ ہیں۔جناب یاسر پیرزادہ نے اپنےکالم میں علماے کرام پر پھبتیاں کسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس توجہ کا معمولی حصہ وہ اصل سفارش کے متن کو تلاش کرنے میں صرف کردیتے تو اس طرح اپنے قارئین کے ساتھ وہ بہتر انصاف کرپاتے۔ ہم اوپر اس سفارش کا متن، اور اس پر ہونے والے مختلف تبصرے پڑھ آئے ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہر مقام پر تو یہ سفارش زنا بالجبر کے گرد ہی گھومتی ہے اورجب یہ یاسر پیرزادہ کے پاس پہنچتی ہے تو زنا بالجبر کی بجائے ازخود ہی 'اجتماعی عصمت دری' کی خوفناک شکل اختیار کرجاتی ہے۔گینگ ریپ کی یہ اصطلاح اُنہوں نے کالم کے آغاز میں بھی استعمال کی اور کالم کا اختتام بھی اسی مخصوص جرم کے حوالے سےطنز پر ہوتا ہے۔ جناب کالم نگار پر اس جرم کا نزول کہاں سے ہوا اور اس کے بارے میں کس نے اور کب سفارش کی اور اُنہیں کہاں سے اس کا علم ہوا؟ زنابالجبر اور گینگ ریپ فعل ، ثبوت، سزا اور ہولناکی کے لحاظ سے دو مختلف جرم ہیں ۔اس کا مطلب اس کے سوا کیا سمجھا جائے کہ پیرزادہ صاحب نے اپنی تردید اور تمسخر میں وزن ڈالنے کے لئے اپنے قاری کو مغالطہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

٭ بی بی سی لندن کے کالم نویس نے اپنی بات میں رنگ بھرنے کے لئے لودھراں کی ایک مظلوم خاتون سے بات کا آغاز کیا ، وہاں تو اس واقعہ کا تذکرہ بطورِ اشارہ تھا جو حقائق کے برخلاف تھا، لیکن ہمارے مذکورکالم نگار نے تو غلط بیانی کو وتیرہ بناتے ہوئے،اپنے قاری کو صریح مغالطہ دیا اور اس واقعے کو کونسل کی سفارش کا براہِ راست نتیجہ بنا دیا، لکھتے ہیں:

''اس فیصلے کے دور رس اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، پانچ سال قبل مزارِ قائد کےاحاطے میں جو معصوم لڑکی ریپ کاشکار ہوئی.... آخر میں دوبارہ لکھا:

اگر ان سفارشات پر عمل درآمد ہوجائے تو ملک میں 'اسلامی نظام' نافذ ہوجائے گا، اگر ایسا ہی ہے تو اس جماعت کو مبارک ہو کہ کراچی کی ایک عدالت نے اس نظام پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔'' ( کالم مذکور)

جناب کالم نگار نے لودھراں کے واقعہ کو کونسل کی سفارش کا نتیجہ قرار دینے کا تاثر دیا ہے، جبکہ اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ کونسل کی کوئی بھی سفارش، پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کے متعدد مراحل سے گزرنے کے بعد بشرطِ منظوری ہی عدالتوں میں قانونی حیثیت اختیار کرتی ہے۔ 29 مئی کو سفارش کی گئی اور 3 جون تک لکھے جانے والے کالم میں اس کی ایک نظیر بھی یاسر پیرزادہ نے ڈھونڈ نکالی۔ اللہ کے بندے ، کوئی اینٹ روڑا مارنے سے پہلے یہ تو دیکھ لینا تھاکہ ہاتھ میں گوبر تو نہیں آگیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج شرقی ندیم احمد خاں کی عدالت سے لودھراں کی لڑکی کے مجرموں کی بریت کا فیصلہ دو ماہ قبل ،5؍اپریل 2013ء کو ہوکر منظر عام5 پرآچکا تھا، جب کہ ابھی اسلامی نظریاتی کونسل میں اس موضوع پر بحث بھی نہ ہوئی تھی۔

٭ یہ بھی یاد رہے کہ پیرزادہ کے مرشد کالم نگار کی رائے میں تو لودھراں والے واقعے میں ڈی این اے ٹیسٹ کا کوئی مرحلہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا، ایک اور کالم نگار کے خیال میں اس مقدمے کے مجرم بہت طاقتور ہیں، اُنہوں نے مقدمے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مدعیہ نے اس کے ساتھ بھاگ کر شادی کی تھی اور اس بنا پر مدعیہ کے بھائی نے اس کو ' کاری'قرار دے کر قتل کرنے کی بھی کوشش کی ۔ مدعیہ کا بھائی ایسا نہ تو کرسکا تاہم دو ماہ بعد وہ خود ہی نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوگیا، کیا پیرزادہ اور ان کے مرشد صادق اس تمام تر لاقانونیت کا سبب بھی کونسل کو ہی قرار دیں گے؟ اور کیا وہ یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ ملک کی عدالتوں میں برسوں کی تاخیر سے آنے والا فیصلہ بھی کسی مولوی صاحب کی کوتاہی یا سفارش کا ہی نتیجہ تھے۔یا ملک بھر میں عدالتوں میں لٹکے ہزاروں کیسز کی وجہ بھی اُن کے زعم میں علماے کرام کی رجعت پسندی ہی ہے۔ انگریز کے دیے عدالتی نظام کی خرابیاں مسلمہ ہیں، جنہوں نے دہشت گردی کے بھی کئی مجرم گرفتار کررکھے اور سیکڑوں رہا کرچھوڑے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی عبرت ناک سزا سے دوچار نہیں کیا۔ اب یاسر پیرزادہ اپنے آقائے ولی نعمت کو تو کچھ کہہ نہیں سکتے، سیکولر نظام انصاف کے بارے میں بھی ان کی زبان گنگ ہے، بے چارے اہل اسلام ہی ایسا نشانہ ہیں کہ جو چاہے اُنہیں شکار بنالے۔ جناب کالم نگار اور جنگ اخبار کی انتظامیہ کو چاہئے کہ کالم میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے حقائق کا سہارا لیں ، جھوٹ کی عمارت بظاہر جس قدر بھی دیدہ زیب ہو، آخر کارکچی ثابت ہوتی ہے۔

3. غلطی پر شاباش :سیکولر دانش بازوں کا یہ ٹولہ او رجتھہ، کسی ایسی جرات پر ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکنے کی بھی خاص روایت رکھتا ہے۔3 جون کے اس مغالطہ آرائی پر مبنی کالم کو معروف لادین کالم نگار حسن نثار نے بطورِ خاص توصیف کی سند عطا کی ہے، یہ وہی حسن نثار ہیں جن کو یاسر پیرزادہ نے اپنے فحاشی کی تائید میں لکھے جانے والے ایک اور واہیات کالم میں 'مرشد ِاعلیٰ' کے لقب سے یاد کرکے اپنا فکری شجرۂ نسب اور نظری حدود اربعہ کھول دیا ہے۔حسن نثار لکھتا ہے:

''آخر پر شاباش یاسر پیرزادہ کے لئے جس نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اک تازہ ترین 'مقدس' فیصلہ پر کالم لکھ کر حق قلم ادا کردیا۔3 جون کو شائع ہونے والا یاسر کایہ کالم پھر پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پڑھائیں کہ یہ عظیم نیکی ہوگی۔ ویل ڈن یاسر پیرزادہ، آخر بیٹا بلکہ بیٹا بھی کیا، بھتیجا کس کا ہے؟''6

تعجب ہے کہ مذہب سے بیزار لوگ بھی ، دوسروں کو تلقین کرنے کے لئے نیکی کا استعارہ استعمال کرتے ہیں،یہ نیکی اوربدی کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ اس کا علم تو روزِقیامت ہوگا جب ایک ایک لفظ کاحساب دینا پڑے گا، اور جو کئی دوسروں کی گمراہی کا سبب بنیں گے، ان کو سب کا وبال بھی اُٹھانا ہوگا۔ یاسر پیرزادہ اس تعریف پر پھولنے نہ سماتے مزید لکھتاہے:

''بائی دی وے، جن احباب نے ڈی این اے ٹیسٹ کے خلاف دلائل دیے ہیں، اُنہیں چاہئے کہ یہ دلائل اس نابالغ بچی کے لواحقین کو سنائیں جسے چار مردوں نے بھنبھوڑ کر قتل کرڈالا اور اب باعزت بری ہوئے پھرتے ہیں۔''7

ï جس طرح پیرزادہ نے زنابالجبر کو خود سے گینگ ریپ بنا ڈالا، دوماہ قبل ہونے والے واقعہ کو 29مئی کی سفارش کا نتیجہ دکھا ڈالا، اب لودھراں کی اس شادی شدہ عورت کو نابالغ بچی قرار دے دیا۔ ارے بھائی! غلط بیانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ مزید برآں کیا آپ کا خیال ہے کہ اس سارے جرم کی وجہ ڈی این اے کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہ کرنا ہی ہے اور بے چارے علما یا اسلامی نظریاتی کونسل ہی اس جرم کی سزاوار ہے، یا اس میں ہمارے سیکولر اور انگریزی عدالتی نظام کا بھی کوئی قصور ہے؟یا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ڈی این اے کی قانونی حیثیت تسلیم کرلینے سے معاشرے میں عورت کو عزت ووقار نصیب ہوجائے گی اور اس کی آبروقائم ہوجائے گی، اگر آپ کا یہی خیال ہے تو جائیے امریکہ ویورپ میں ریپ کے ہوش ربا اعداد وشمار پڑھ لیجئے ، وہاں ڈی این اے کی قانونی حیثیت مان لینے سے عورت کی ذلّت میں ذرا بھر کمی نہیں ہوئی، وہاں کی عورت مسلم معاشروں سے کہیں زیادہ مردوں کی ہوس کا شکار ہے۔ بلکہ یہ ڈی این اے تو منطقی ضرورت اور نتیجہ ہے اس حرام کاری کے تعین کا، جس سےمغرب کے سائنسی اور بزعم خود مہذب معاشرے کا ہردوسرا فرد استفادہ کرنے پر مجبور ہے۔

پاکستان کا مروّجہ قانون اور ڈی این اے کے مسائل

4. دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں عام مروّجہ ؍انگریزی قانون کی رو سے بھی میڈیکل اور سائنسی شہادتیں، مثلاً فنگر پرنٹس، پوسٹ مارٹم، ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگز بنیادی شہادت کا درجہ نہیں رکھتیں اور اُن سے معاونت یعنی ضمنی شہادت کا ہی کام لیا جاتا ہے،اس میں علما کو دوش دینے کا کوئی تک نہیں ہے بلکہ اس 'جرم'میں پاکستان کے قوانین اوراس کے ماہر متفق ہیں۔ مثلاً قتل کے کسی کیس میں اگر براہِ راست گواہی سے صورتحال واضح نہ ہورہی ہو تواس صورت میں فنگر پرنٹس یا پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان میڈیکل شہادتوں سے کسی مخصوص فعل کا وقوع تو ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کی حتمی نوعیت ، جیتے جاگتے انسانوں کی گواہی کے بغیر ممکن نہیں، یہی صورتحال ڈی این اے کے بارے میں بھی ہے۔ ڈی این اے کو اگر نظریاتی کونسل نے ضمنی شہادت قرار دیا ہے تو گویا اس طرح اُنہوں نے اس کے شاہد ہونے کا انکار نہیں کیا، تاہم وقوعہ کے ثبوت میں اسے تائیدا ًقبول کرنے کی بات کی ہے۔ نامعلوم کیوں ناقدین نے اس بنا پر کونسل اور اس کے ارکان پر گرجنے برسنے اور اُنہیں سائنس سے نابلد ہونے کا طعنہ دینے میں جلدی کی۔ ڈی این اے کے بارے میں یہ بات اُنہیں پیش نظر رکھنا چاہئے تھی کہ اس سے فعل زنا کا ثبوت تو ہوسکتا ہے، تاہم اس سائنسی ٹیسٹ سے یہ کہاں پتہ چلتا ہے کہ یہ فعل رضا مندی سے ہوا یا جبر واکراہ اور ظلم کی بنا پر ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں جرائم کی نوعیت اور پاکستان میں ان کی طے شدہ سزا میں بے حد فرق ہے، زنا بالرضا کی سزا محض 5 سال قید جبکہ زنا بالجبر کی سزا 25 سال یاسزاے موت مقرر کی گئی ہے۔زنا کی سزاوں کا یہ تعین اور رضا و عدم رضا کی یہ تفریق شریعتِ مطہرہ نے نہیں کی، تاہم دونوں جرائم کی نوعیت ضرور مختلف ہے اور پاکستان میں رائج الوقت سیکولر قانون دونوں جرائم سے علیحدہ علیحدہ رویہ رکھتا ہے۔ کسی فعل زنا کا جبر واکراہ یا رضا مندی سے وقوع پانا ، جیتے جاگتے انسانوں یا بعض اوقات دیگر قرائن وحالات کی بنا پر ہی واضح ہوتا ہے۔ اس پنا پر اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈی این اے ایک ضمنی اور تائیدی شہادت ہی ہے اور بنیادی گواہی کے نظام سے مفر ممکن نہیں جس کی بنا پر جرم کی نوعیت کا تعین کیا جائے گا۔

٭ موصوف کالم نگار نے بھی سائنس سے والہانہ عقیدت میں علماے کرام کو آڑے ہاتھوں تو خوب لیا اور ان پر فقرے بھی کسے لیکن ایک ہفتہ کے بعد ہی اُنہیں اپنے موقف میں کمزوری کا احساس ہو گیا۔ سو کھلا اعتراف کرنے کی بجائے ، پھر لگے بہانہ بنانے، چنانچہ 3 جون کے بعد 9جون 2013ء کو اپنے بدنام کالم 'فحاشی برائے فروخت' میں رقم طراز ہیں :

''گینگ ریپ کا شکار ہونے والی عورت جب ملزم کی نشاندہی کرتی ہے تو وہ ملزم کہتا ہے کہ عورت جھوٹ بولتی ہے، میں تو اُس کے قریب بھی نہیں گیا، وہاں ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت کیا جاسکتاہے کہ ملزم سچا ہے یا جھوٹا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہوجائے تو اس کے بعد اس بات کا تعین کرنے میں کوئی دقت نہیں کہ زنا مرضی کے ساتھ تھا یا جبر کے ساتھ۔''

یہاں بھی کالم نگار گینگ ریپ (اجتماعی عصمت دری) کے لفظ سے باہر نہیں نکل پائے۔ جبکہ کونسل کی سفارش میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں اور دونوں کے ثبوت کے الگ تقاضے ہیں۔مزید برآں اُنہوں نے نادانستگی میں اس امر کا اقرار کیا ہے کہ شہادتوں اور قرائن و وحالات کی بجائے محض ایک عورت کے کہنے پر، کسی شخص کو زنا بالجبر کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی بھی عورت پہلے اپنی مرضی سے گناہ کا ارتکاب کرکے، مرد کو اُنگلیوں پر نچاسکتی ہے کیونکہ محض اس عورت کے کہہ دینے سے اس شخص کو جبر کا مُرتکب سمجھا جائے۔ کیا پیرزادہ صاحب یہ موقف رکھتے ہیں کہ عورتوں میں اس گناہ کی کوئی خواہش سرے سے پائی ہی نہیں جاتی ، حضرت یوسفؑ اور زلیخا کے مشہور قرآنی اور مرثد ؓوعناق کے احادیث میں موجود قصوں سے لے کر معاشرے میں بہت سی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں عورت خود مجرم ہوتی ہے۔ یاسر پیرزادہ حقوق ِنسواں کے ایسے علم بردار ہیں کہ وہ عورت کی اکیلی گواہی اور ڈی این اے پر کسی بھی مرد کو لٹکا دینے کی تلقین کررہے ہیں۔ یہ علم ودانش اور زن پرستی آپ کو ہی مبارک ہو۔ قانون کو تو ایسا منصفانہ ہونا چاہئے کہ اس میں کسی پر بھی ظلم کا امکان نہ ہو۔

اگر کسی عورت کا اکیلا بیان ہی مرد کو مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زنا کے تمام جرائم کا فیصلہ ہر وقت عورت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس بنا پر عورت کا زنا کے الزام میں سزا پانا بھی ناممکن ہوجائے گا، باوجود اس کے کہ اس نے رضامندی سے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ عورت جب چاہے گی تو اس کو زنا بالجبر قرار دے کراپنے آپ کو تو بری کرا لے گی لیکن مرد کو زنا کی سنگین سزا سے دوچار کردے گی۔ نتیجۃ ً زنا کی سزا عورت کے رحم وکرم پر ہوجائے گی اور یہی حقوق نسواں کے اَن تھک مبلّغوں کا ہدف ہے۔قانون کے ایسے غلط استعما ل کی نشاندہی ایک امریکی سکالر نے بھی کی ہے:

''جن عورتوں کو حدود قوانین کی دفعہ ١٠(٢)کے تحت (زنا بالرضا کے جرم میں)سزا یاب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ، وہ اپنے مبینہ شریک ِجرم کے خلاف دفعہ ١٠(٣) کے تحت (زنا بالجبر) کا الزام لے کر آجاتی ہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو چونکہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ملتا جو زنا بالجبر کے الزام کو ثابت کرسکے، اسلئے وہ مرد ملزم کو زنا بالرضا کی سزا دے دیتا ہے اور عورت شک کے فائدے کی بنا پر ہر غلط کاری کی سزا سے چھوٹ جاتی ہے۔''8

عورت کے دعواے جبر کے ضمن میں شرعی نظام یہ ہے کہ اُس کے اپنی ذات سے بدکاری کے سزا کو رفع کرنے کے لئے تو قرائن اور حالات کا اعتبار کیا جائے گا، جبکہ مرد کو شرعی سزا دلوانے کے لئے چار گواہ ہی ضروری ہیں، تاہم اکیلے قرائن کی موجودگی میں مرد کو کمتر جرائم کی تعزیری سزا دی جاسکتی ہے جیسا کہ سعودی عرب کی شرعی عدالت کا فیصلے بھی موجود9 ہیں، ایسے ہی زنا بالجبر میں اگرچار گواہ پورے نہ ہوں اور وقوعہ کی نوعیت سنگین تر ہو تو دو گواہوں کی بنا پر ایک فقہی قول کے مطابق ،حرابہ ودہشت گردی کی شرعی سزا بھی دی جاسکتی ہے جو زنا کی سزا سے بھی سنگین تر ہے،تفصیل كے لئے حاشیہ دیکھیں۔10

٭ علاوہ ازیں اگر محض ڈی این اے رپورٹ کو ہی کافی سمجھ لیا جائے تو پاکستان جیسے ملک میں ڈی این اے کی جعلی رپورٹ حاصل کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے، ماضی میں ہمارے ہاں کتنے ہی معاملات میں جعلی رپورٹوں کا مسئلہ پیش آتا رہا ہے اور جعل سازی اور کرپشن میں پاکستان دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ ٹیسٹوں کی ایسی ہی غیریقینی صورتحال پرایک ماہر کی تنقید یوں ہے:

ڈی این اے ٹیسٹ میں ایک تو وہ فرد ہوتا ہے جو نمونہ حاصل کرتاہے، ایک وہ فنی ماہر جو اس کو تحلیل کرتا ہے، ایک وہ ڈاکٹر جو کیفیت ونوعیت کا تجزیہ کرکے نتیجہ تحریر کرتا ہے، پھر وہ شخص جو اس رپورٹ کو کمپوز کرتا ہے اور آخر میں وہ شخص جو اس رپورٹ کو وصول کرتا ہے۔ کم ازکم پانچ افراد کے ہاتھوں سے گزر کر ڈی این اے کی رپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ ان میں کسی بھی شخص کے لئے عمداً ،سہواً یا کوتاہی کی بنا پر غلطی کرنے کا امکان موجو دہے۔اب ایسے ایک معاملے پر کس طرح ایک انسان یا پورے کنبے کی عزت وتشخص کو داؤ پر لگایا جاسکتا ہے۔

5. اسلامی نظریاتی کونسل کی آئینی حیثیت : ہمارے وطن کا نام'اسلامی جمہوریہ پاکستان' ہے، جمہوریت کے طورپر یہاں پارلیمانی نظام کام کررہا ہے اور مغربی جمہوریت کو اسلام سے مشرف کرنے کی ایک کوشش کے طورپر اس پارلیمنٹ کو خلافِ اسلام قانون سازی سے منع کردیا گیا ہے، ہمارا کل اسلام اسی قدر ہے۔ کسی قانون کو اسلام مطابق یا خلافِ اسلام قرار دینے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کا آئینی ادارہ موجود ہے۔ آئین میں یہ قرار بھی دیا جاچکاہے کہ پاکستان میں اسلام کی عمل داری کا راستہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ورہنمائی اور تدوین کے علاوہ اور کوئی نہیں، جیساکہ 227 کی شق دوم میں اس کی صراحت موجود ہے۔ اندریں حالات جمہوریہ پاکستان کے سابقے'اسلامی' اور قیام پاکستان کا یہ آئینی تقاضا ہے کہ اس ادارے کو تقویت دی جائے۔ مغرب زدہ کالم نگار اس آئینی ادارے کی سفارشات کا یوں مضحکہ اُڑا رہے ہیں جیسے یہ کسی علم ودانش سے پیدل،اسلام کی مالا جپنے والےدقیانوسیوں کا جذباتی مطالبہ ہو جبکہ کونسل کی سفارشات کی یہ اہمیت ہے کہ اگر وہ کسی قانون کو غیر اسلامی قرار دیں تو پارلیمنٹ اس پر نظر ثانی کی پابند ہے۔روزنامہ 'ڈان' کے 'دقیانوسی سوچ'والے اداریے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت پر حرف گیری کی گئی اور اس کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، سیکولر دانش وروں کو ایسی جسارتوں سے باز آنا چاہئے اورپوری قوم کی خواہشات اور مجلس قانون ساز کے تشکیل کردہ متفقہ آئین کی پاسداری کا اپنے آپ میں شعور پیدا کرنا چاہئے۔ہردم زبان سے جمہوریت کا راگ الاپنے والوں میں کم ازکم اتنی تہذیب تو ہونی چاہئے!!

نظریاتی کونسل کی سفارش کی قانونی وضاحت

6. اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش پر تنقید کا طوفان کھڑے کرنے والے بظاہر ریپ کا شکار ہونے والی خواتین سے ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں اور خواتین پر سنگین ظلم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر تو وہ اپنے دعوےمیں سچے ہیں تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ ریپ کے ملزمان کے لئے سنگین ترین سزا کے بھی علم بردارہوں۔اور یہ امر ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اسلام کے سوا دنیا کے کسی ضابطے اور قانون میں زنا کی سنگین ترین سزا موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں شراب نوشی کی طرح عصمت دری کے واقعات کی تعداد بھی انتہائی محدود ہے جبکہ مغربی اور سیکولر معاشروں میں خواتین پر اس ظلم کے اعداد وشمار اندوہ ناک بلکہ ہولناک ہیں، جو اُن سے واقف ہونا چاہے وہ 'محدث' کے اسی شمارے میں مغرب میں عورت کی حالت ِزار اور اس پر جنسی جرائم کے حوالے چشم کشا رپورٹ کا مطالعہ کرلے۔بھارت میں ریپ کے حوالے سے جو کچھ ماضی قریب میں ہوا، وہ دراصل بھارتی خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم واندوہ کی ایک جھلک ہے، اس معاشرے کی بھیانک تصویر کے لئے اُردو ڈائجسٹ کے شمارہ اپریل 2013ء میں شائع ہونے والی رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ خواہش نفس کے پجاری اور ملحدانہ تہذیب کے رسیا معاشروں میں یہ ناسور اس شدت سے بڑھتا جارہا ہے کہ وہاں بسنے والے خواتین کا یہ اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے۔اسلام نے اس جرم کو جڑ سے اُکھاڑنے کا ایک مضبوط اور مؤثر نظام دیا ہے، اور آج سنجیدہ فکر لوگ جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام کے اس حوالے سے مضبوط موقف کے پیش نظر کئی ممالک میں اِسی کو رواج دینے کے مطالبے کررہے ہیں۔

اگر ہم اپنے ممدوحین کے بارے میں یہ دریافت کریں کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش کی آڑ میں، مظلوم خواتین سے ہمدردی کا جو ڈھونگ رچا رہے ہیں ، کیا وہ بھی اس امر پر آمادہ ہیں کہ اس جرمِ بد کے مرتکب کوبدترین سزا یعنی سنگسار کیا یا کوڑے مارے جائیں تو اُن میں کوئی ایک بھی ہاں میں جواب نہیں دے گا، بلکہ وہ فورا ً اسلامی سزاؤں کے وحشیانہ اور ظالمانہ ہونے کا راگ الاپنا اور دوسری سمت سے اسلام کو رگیدنا شروع کردیں گے۔

اور اَب توجہ فرمائیے کہ کونسل نے جس دائرہ عمل میں بات کی ہے ، وہ اسلام کا نظامِ حدود وتعزیرات ہے، جس کے شرعی تقاضے پورے کرنے کی اُنہوں نے سفارش کی ہے۔کونسل چونکہ شرعی نظام کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے اور کونسل کا یہ موقف زنا کی شرعی سزا کے نفاذ کے حوالے سے ہی ہے۔ جب ہمارے ناقد حضرات اسلام کے نظامِ حدود وتعزیرات کو ہی نہیں مانتے، اُس کو نافذ ہی نہیں کرنا چاہتے، مظلوم عورت کی حقیقی داد رسی کرنے میں مخلص ہی نہیں توپھر اس شرعی نظام تعزیرات کے ایک جزاور لازمہ کو ملحدانہ آنکھ سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ کیا اس پورے عمل میں اُن کا حصہ صرف تنقید برائے تنقید کرکے مسلمانوں کے ایمان واعتقاد سے کھیلنا ہی ہے!!

کونسل نے یہ سفارش ا س تناظر میں کی ہے کہ زنا کی شرعی سزا دینے کے لئے چارگواہوں کی موجودگی ضروری ہے، ان چار گواہوں کا قرآنی مطالبہ آگے ذکر ہوگا اوراگر چار گواہ پورے نہ ہوں تو وہاں زنا کی شرعی حد نہیں دی جاسکتی۔ زنا کی شرعی سزا کیا ہے؟ کوڑے+جلاوطنی یا سنگساری...ہمارے ممدوحین شرعی سزا کے توقائل ہیں نہیں اور اس کے تقاضوں پر لگے ہیں مفت میں چاند ماری کرنے۔

اگر کسی جنسی وقوعہ میں چار گواہ پورے نہیں تو نہ تو اُس کا یہ مطلب ہے کہ ایسے ملزم کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ حاکم وقت فحاشی وبے حیائی کا ارتکاب کرنے پر کوئی بھی تادیبی وتعزیری سزا نافذ کرسکتا ہے، مبادیاتِ زنا اور جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے کوئی بھی تعزیرمقرر کی جاسکتی ہے، تاہم شرعی احتیاط اس امر میں ہے کہ اس جرم کو زنا کی بجائے کسی کمتر لفظ سے تعبیر کیا جائے۔یہی صورتحال پاکستانی قانون میں بھی ہے کہ اگر جرم زنا کے شرعی تقاضے پورے ہوں (اور اس میں ڈی این اے ، بنیادی اور اکیلی کافی شہادت نہیں) تو اس کو شرعی حد یعنی سنگساری یا کوڑوں‎ کی سزا جاری کی جائے گی ، بصورتِ دیگراس کے لئے تادیبی سزائیں مثلاً 10 ہزار جرمانہ اور 5سال قید کی قانون میں موجود تعزیری سزا دی جائے گی۔جب چار گواہ پورے نہیں، اور شرعی سزا سیکولر لوگ چاہتے بھی نہیں، دوسری طرف ڈی این اے موجود ہے اور دیگر ذرائع شہادت بھی پورے ہیں تو پاکستانی قانون کے تحت اس کو کوئی بھی کم تر سزا دی جاسکتی ہے، یعنی قید ومالی جرمانہ وغیرہ... اور یہی سیکولر حضرات کا منشا ، خواہش اور ماضی کا مطالبہ بھی رہا ہے، تو پھر اعتراض کس بات پر کررہے ہیں، تنقید کس نکتے پر ہے...؟

یہی بات نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش کے حوالے سے بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہی ہے:

''کم از کم اسے حد (حدود آرڈیننس) میں نہیں تو تعزیری جرم میں تو آنا ہی چاہیے۔''11

امر واقعہ میں قانون بھی یہی ہے کہ جیسا کہ قانونِ شہادت ١٩٨٤ء کے آرٹیکل ١٧ کی ذیلی شِق'٢ بی' میں صراحت کی گئی ہے کہ

''حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ ''

مذکورہ بالاشق میں 'حد زنا' کا لفظ قابل توجہ ہے، یعنی زنا کی شرعی سزا سے قطع نظر،شرعی ثبوت پورے نہ ہونے کی بنا پر زنا کی سیکولر قانون والی سزا دی جاسکتی ہے۔... پھر عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔عدالت ِعالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے :

''قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔''12

٭ ایک توجیہ تو وہ ہے جو اوپر درج کی گئی کہ جرم کی نوعیت کی بنا پر سزا کی نوعیت میں تبدیلی کی جائے یعنی شرعی تقاضوں کی تکمیل پر عین شرعی سزا اور کمتر ثبوتوں کی بنا پر کمتر؍تعزیری سزا، یہ شرعی اور انگریزی قانون میں مفاہمت پیدا کرنے کی ایک تاویل ہے...اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے نظامِ تعزیرات میں زنا کاری کے جرائم پر دو طرح کے قوانین موجود ہیں: انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اوراللہ کی نازل کردہ شریعت۔ ماضی میں حدود آرڈیننس کی بنا پر شریعتِ اسلامیہ کو انسانی وضعی قوانین پربرتری حاصل ہوگئی تھی جو عین اسلامی تقاضا تھا، کیونکہ اسلامی قوانین کی موجودگی میں انگریزی قوانین پر عمل درآمدکسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا اور پاکستان کا خطہ اسی مقصد کےلئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں انگریزی نظام وقانون سے چھٹکارا حاصل کرکے ، اللہ کی شریعت کو نافذ کیا جائے گا۔

حدود قوانین کی معاصر انگریزی قانون پر برتری کی بنا پر ماضی میں کئی فیصلوں میں عدالتوں نے حدود قوانین پر عمل درآمد کرایا 13تھا، جس کو نام نہاد تحفظ نسواں بل 2006ء نے ختم کرکے، دونوں قوانین کو متوازی طور پر جاری کردیا بلکہ عملاً شرعی سزا کا نفاذانتہائی مشکل کرنے کے لئے بھی قانونی ترامیم منظور کی گئیں، جس کے بعد عملاً انگریزی قانون جاری وساری ہوگیا۔جب دسمبر 2010ء میں وفاقی شرعی عدالت نے 'تحفظِ نسواں بل 2006ء 'کے خلافِ اسلام ہونے کا فیصلہ [نمبرا ۔آئی2010]دیا، تو اس وقت عدالت نے نکتہ نمبر 117 کے تحت یہ بھی مطالبہ کیا کہ

''قرآن وسنت کی رو سے جو جرائم حدود کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی سزا قرآن وسنت میں مذکور ہے، ان تمام جرائم میں مدد گار یا اُن سے مماثلت رکھنے والے جرائم بھی حدود کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور حدود یا اس سے متعلقہ تمام جرائم پر جاری کئے گئے فوجداری عدالت کے احکامات کی اپیل یا نظرثانی کا اختیار بلاشرکت غیرے وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے۔ ایسے ہی حدود جرائم پر ضمانت کے فیصلے کی اپیل بھی صرف اسی عدالت میں ہی کی جائے ۔

عدالت نے ان جرائم کی فہرست مرتب کرتے ہوئے جو حدود کے زمرے میں آتے ہیں، ان جرائم کو بھی اس میں شامل کردیا ہے جو اس سے قبل مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت آتے تھے۔ مجموعی طورپر ان جرائم کی تعداد 10 شمار کی گئی ہے: زنا، لواطت، قذف، شراب، سرقہ، حرابہ، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت اور قصاص ؍انسانی سمگلنگ۔''

گویا عدالت کا مطالبہ تھا کہ ان جرائم پر معاصر انگریزی قانون کی بجائے شرعی قانون کو لاگو کیا جائے اور ان کے کیسز بھی شرعی عدالت میں چلائے جائیں۔وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ آجانے کے بعدچونکہ ماتحت عدالتیں اس کی پابند ہوتی ہیں،اس بنا پر یہ طے پا گیا کہ ایسے کیسز کی اپیل وغیرہ کو وفاقی شرعی عدالت میں لایا جائے۔ اَب شرعی عدالت کے 2010ء کے اس فیصلے کی تائید ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش سے ہوئی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش اور شریعت ِ اسلامیہ

7. اوپر آپ سیکولر لابی کے پروپیگنڈے اور اس کا تجزیہ پڑھ آئے ہیں، قانونی حیثیت سے بھی اس کا جائزہ لیاجاچکاہے۔ جہاں تک شریعتِ اسلامیہ کا تعلق ہے تو قرآن کریم میں فعل زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کا صریح مطالبہ تین مقامات پر موجود ہے:

﴿وَالّـٰتى يَأتينَ الفـٰحِشَةَ مِن نِسائِكُم فَاستَشهِدوا عَلَيهِنَّ أَر‌بَعَةً مِنكُم...١٥﴾... سورة النساء

''وہ عورتیں جو بے حیائی کا راستہ اختیار کریں تو ان پر چار گواہ پیش کرو...''

﴿وَالَّذينَ يَر‌مونَ المُحصَنـٰتِ ثُمَّ لَم يَأتوا بِأَر‌بَعَةِ شُهَداءَ فَاجلِدوهُم ثَمـٰنينَ...٤﴾... سورة النور

''وه لوگ جو پاک دامن عورتوں پر بہتان تراشی کریں اور پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انہیں قذف کی سزا کے طورپر 80 کوڑے مارو اور کبھی اُن کی گواہی قبول مت کرو۔''

﴿لَولا جاءو عَلَيهِ بِأَر‌بَعَةِ شُهَداءَ ۚ فَإِذ لَم يَأتوا بِالشُّهَداءِ فَأُولـٰئِكَ عِندَ اللَّهِ هُمُ الكـٰذِبونَ ١٣﴾... سورة النور

''اُنہوں نے اس (الزام) پر چارگواہ کیوں پیش نہیں کئے، اگر وہ گواہ نہیں لائے تو وہ اللہ کےنزدیک جھوٹے شمار ہوں گے۔''

توجہ طلب امر یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں چار گواہیوں کا دوٹوک لفظ تین مقامات پر آیا ہے اور ان تینوں مقامات پر خواتین کے دفاع کے سیاق میں قرآنِ کریم نے یہ مطالبہ پیش کیا ہے۔ نامعلوم پھر کس طرح جاوید غامدی، قرآن کریم کے نام پر چار گواہیوں کے مطالبے سے انحراف کرکے زنا کے ثبوت کے لئے اکیلے ڈی این اے کو کافی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا قرآنِ کریم کو میزان ماننے اور اسے کسوٹی تسلیم کا دعوٰی کدھر گیا...؟

احادیثِ نبویہ میں بھی ہلالؓ بن اُمیّہ اور سعدؓ بن عبادہ کے واقعات14 وغیرہ میں چار گواہوں کا مطالبہ صریح الفاظِ نبوی میں موجود ہے۔ پھر سیدنا عمرؓ اور سيدنا مغیرہؓ بن شعبہ كا مشہور واقعہ بھی موجود ہے، جس میں مغیرہ پر زنا کی تہمت میں چوتھے شخص کی گواہی پوری نہ ہوئی تھی ...

«أن أبا بكرة و نافع بن الحارث و شبل بن معبد شهدوا على المغيرة بن شعبة بالزنى عند عمر بن الخطاب و لما لم يصرح زياد بذلك بل قال: رأيت أمرًا قبيحًا فرح عمر وحمد الله و لم يقم الحدّ عليه»15

''ابوبکرہ، نافع بن حارث اور شبل بن معبد نے سیدنا عمر کو مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی گواہی دی، تاہم زیاد نے صریح فعل زنا کی گواہی نہ دی اور کہا کہ میں نے ایک برا منظر دیکھا ہے ، اس پر عمر مسرور ہوئے، اللہ کی تعریف بیان کی اور حد شرعی قائم نہ کی۔''

«حَدَّ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الثَّلَاثَةَ الَّذِينَ شَهِدُوا عَلَى مُغِيرَةَ بْنِ شُعْبَةَ وَهُمْ أَبُو بَكْرَةَ وَشِبْلُ بْنُ مَعْبَدٍ وَنَافِعُ بْنُ الْأَزْرَقِ بِمَحْضَرٍ مِنْ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ مِنْ غَيْرِ نَكِيرٍ فَصَارَ إجْمَاعًا»16

''سیدنا عمر ؓنے باقی تین گواہوں پر تہمت کی حد جاری کی تھی، ان تین کے نام ابوبکرہ، شبل بن معبد اور نافع بن ازرق ہے۔ یہ تہمت کی حد صحابہ کرام کے مجمع میں لگائی گئی اور کسی نے اس پرانکار نہ کیا، سواس پرصحابہ کرام کا اجماع قرار پایا۔''

سزائے زنا میں قرائن کا عدم اعتبار: ایک موقع پر رسالت مآبﷺ کو ایک کیس میں مضبوط قرائن کی بنا پر زنا کا یقین ہوگیا، اور آپ نے اپنے صحابہ کو زنا کے نتیجے میں ہونے والے حمل کی مماثلت کی بھی توجہ دلائی، لیکن اس موقع پر ایک تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا:

«لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُهَا»17 ''اگر میں کسی کو بغیر 'بینہ'(گواہوں) کے، (محض قرائن کی بنا پر) رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو سنگسار کرتا...''

شریعت کے نظام جرم وسزا میں ثبوت جرم کے اسالیب میں شہادتوں کے علاوہ قرائن کو بھی خاص وزن حاصل ہے۔ ظاہری مشابہت کی مستند سائنسی شکل فی زمانہ ڈی این اے کی شکل میں سامنے آئی ہے، لیکن اس کے مستند ہونے کے باوجود اس کی حیثیت اعلیٰ ترین قرینہ سے بڑھتی نہیں اور اسے بینہ یعنی گواہوں کے مساوی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نبی کریم نے یہی بات اوپر مذکور حدیث میں فرمائی ہے،کہ ایک وقوعہ کے بارے میں آپﷺ کا رجحان متعین ہوجانے کے باوجود بھی اللہ کے دیے نظام میں شرعی تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں۔

شریعتِ اسلامیہ میں ڈی این اے سے بھی قوی قرینہ کو زنا کی سزا کے لئے کافی نہیں مانا گیا ، اور وہ ہے:شوہر کی غیرموجودگی میں عورت کا حاملہ ہوجانا، جبکہ عورت زنا سے منکریا حمل میں شبہ کی دعویدار ہو۔فقہ اسلامی میں اس مسئلہ کی تفصیل موجود ہے اور جمہور فقہا :حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا یہی موقف ہے کیونکہ عورت سے جبراور دیگر امکانات بھی ہوسکتے ہیں:

«لجواز أن يكون من وطء شبهة أو إكراه، والحد يدرأ بالشبهة»18

''اس بنا پر کہ جبر یا شبہ کی بنا پر مواصلت ہوئی اور حد شرعی شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتی ہے''

جبكہ مالکیہ اور حنابلہ (ایک قول میں )حمل کو زنا کے لئے کافی دلیل مانتے ہیں،صحیح بخاری میں سیدنا عمرؓ کے اس فرمان کی بنا پر:«الرجم حق علىٰ من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو الحبل أو الاعتراف»19 جبكہ اس سلسلے میں قولِ فیصل علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کا ہے کہ حمل اُس وقت دلیل نہیں ہوگا جب عورت زنا کا انکار کرے اور حمل میں شبہ کا دعویٰ کرے، اور اُن کی دلیل سیدنا علیؓ کا وہ فیصلہ ہے جس میں اُنہوں نے ایک عورت کے اعترافِ زنا پر پوچھا : کیا تمہیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا تھا، کیا تم غفلت میں سوئی پڑی تو نہ تھی؟20 وغیرہ... سیدنا علی کے یہ سوالات سزاے رجم کو رفع کرنے کے لئے تھے۔

انہی وجوہات کی بنا پر رابطہ عالم اسلامی ، مکہ مکرمہ کے ذیلی شعبہ ' مجمع فقہی اسلامی' نے ڈی این اے سے استفادہ کے بارے میں بحث وتحقیق کے بعد درج ذیل موقف پیش کیا:

أوّلاً: لا مانع شرعًا من الاعتماد على البصمة الوراثية في التحقيق الجنائي، واعتبارها وسيلة إثبات في الجرائم التي ليس فيها حد شرعي ولا قصاص؛ لخبر «ادْرَؤوا الحُدُودَ بالشُّبُهاتِ»....

''اوّل: شرعی طورجرائم کے ثبوت میں ڈی این اے پر اعتماد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اثباتِ جرائم میں اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ماسوائے حد شرعی اور قصاص کے کیونکہ فرمانِ نبوی ہے کہ شبہات کی بنا پر حدود کو مؤخر کردو۔ اور یہ موقف انصاف اور سماجی امن کو یقینی بناتا ہے، اور یہ وسیلہ مجرم کو سزا ملنے اور تہمت زدہ شخص کی بریت کی طرف لے جاتا ہے جو شریعت کے اہم ترین مقاصد میں سے ہیں۔''

مصری ماہر قانون اُستاذ ڈاکٹر رافت عثمان لکھتے ہیں:

والبصمة الجينية تصلح أن تكون قرينة لكن لا تصلح أن تكون دليلًا على الزنا و أن يقام الحد بسببها... إن القاعدة الشرعية هي درء الحدود بالشبهات، فيدرأ القصاص أيضًا بالشبهات، وهنا البصمة الوراثية يمكن أن تدخل في مجال الشبهات؛ لأنها يمكن أن يحدث الخطأ فيها ... وإنما يمكن أن تكون قرينة قوية تقوّي الأدلة الأخرٰى21

''ڈی این اے قرینہ تو بن سکتا ہے، لیکن وہ زنا کی دلیل و بَیّنہ قرار نہیں پائے گا کہ اکیلے اس کی بنا پر حد کو جاری کردیا جائے۔ کیونکہ شرعی اصول یہ ہے کہ شبہات کی بنا پر حد کو ساقط کردیا جائے، قصاص بھی شبہ آجانے کی بنا پر ساقط ہوجاتا ہے۔ ڈی این اے میں غلطی کے امکان کی بنا پر، جیسا کہ ماہرین اس کی نشاندہی کرتے ہیں، یہ شبہات میں داخل ہوجاتا ہے اور حدود وقصاص شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتے ہیں۔ بایں وجہ ڈی این اے پرحدود وجنایات میں انحصار نہ کیا جائے تاہم یہ ایسا اہم قرینہ ہے جو دیگر دلائل کو تقویت دے سکتا ہے۔''

دراصل اسلام نے زنا کے معاملہ کو بہت سنگین انداز میں لیاہے۔ اسلام میں زنا کی سزا، اس فعل بد کی ہی سزا نہیں بلکہ اس کو معاشرے میں کھلم کھلا انجام دینے کی بھی سزا ہے۔ اور جو شخص ایسا کرے تو اس کی سزا بھی سنگین ترین ہے کہ اس کو پتھر مار مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ چنانچہ شریعتِ اسلامیہ کے نظریۂ جرم وسزا میں مسئلہ وقوعہ کے ثبوت کا نہیں جو دیگر جرائم کے لئے محض دو گواہوں سے پورا ہوجاتاہے اور چار گواہوں کا یہ تقاضا اس جرم کے علاوہ کسی اور میں نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اس جرم کی اشاعت پر بھی کنٹرول رکھنا چاہتا ہے، ایسا جرم کرنے والے کو معافی کا موقع بھی دینا چاہتا ہے، اس پر الزام تراشی کی روک تھام کے لئے قذف کی سزا بھی متعارف کرائی جبکہ جو شخص کسی بھی اُصول واخلاق کا لحاظ نہ کرے تو پھر اس کو بدترین انجام سے دو چار کرکے نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔ جہاں تک ڈی این اے کا معاملہ ہے تو اس سے وقوعہ ثابت ہوسکتا ہے،تاہم یہ مسئلہ اکیلے ثبوت کا نہیں، ایک عربی مفتی ابو عبودی لکھتے ہیں:

وليس هذا تشكيكًا في الحقيقه العلمية حول وجود الحمض النووي الـ دي إن إي. ولكن فلسفة التشريع الاسلامي تختلف أحيانًا كليا عن فلسفة التشريع الغربي العلماني غالبًا ما تكون مرتبطة إما بالزنا أو بعمليات الاختلاط التي تحدث عمدًا أوخطأ في حالات الولادة22

''ڈی این اے کو زنا میں معتبر شہادت کے طورپر قبول نہ کرنے کی وجہ اس کی سائنسی حقیقت کے اعتراف میں شک کرنا نہیں ہے، بلکہ درحقیقت شریعتِ اسلامی کا فلسفہ ثبوت مغرب کے سیکولر قانون کے اس نظریے سے کلی مختلف ہے جس کا تعلق محض فعل زنا یا مردو زن کے اختلاط سے ہے، جوکبھی عمداً اور کبھی غلطی سے ولادت کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔''

واضح ہوا کہ یہاں مسئلہ ڈی این اے کو ثبوت میں معتبر ماننے یا نہ ماننے کا نہیں، جب دو افراد کی گواہی سے اسلامی میں چوری کی سزا ثابت ہوجاتی ہے اور چار سے کم گواہوں سے زنا کی سزا صادر نہیں ہوسکتی تو اس کی وجہ نفس فعل کا ثبوت نہیں بلکہ شارع عزوجل کے پیش نظر دیگر ومتعدد حکم ومصالح ہیں۔ مزید برآں شریعتِ اسلامیہ نے حدود کا نظام قائم کیا، لیکن اسلام ہمیں شبہات کی بنا پر حدود کو ختم کردینے کی تلقین کرتا ہے، فرمانِ نبوی ؐہے:

«ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ»23

''جہاں تک ممکن ہو، مسلمانوں سے حدود کو مؤخر کرو۔''

الغرض کسی بھی قسم کی اباحیت وجنسی بے راہ روی کی مجرموں کو سزا ضرور ملنی چاہئے، اگر یہ ظلم کسی سے جبراً یا اجتماعاً ہوا ہے، تو اس سے جرم کی نوعیت سنگین تر ہوجاتی ہے، اور ایسے مجرموں کو سزاے زنا کے ساتھ ساتھ بعض اوقات حرابہ ودہشت گردی کی سزا بھی دینی چاہئے، تاہم حد کی سزا مکمل احتیاط اورشرعی تقاضوں کی تکمیل کی متقاضی ہے، شرعی سزا کی یہ شدت عدل وانصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ہی دی جاسکتی ہے۔

اس بنا پر اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ موقف درست ہے کہ اکیلے ڈی این اے کی بنا پر زنا کی شرعی سزا نہیں دی جاسکتی تاہم زنا کے لفظ کا اطلاق کئے بغیر، ایسے کسی ملزم کو مبادیات ِ زنا اور بوس وکنار کی تعزیری سزا حاکم وقت نافذ کرسکتا ہے۔ اور یہی ؍ اسی قدر سیکولر حضرات کا منشا ہے، بایں وجہ میڈیا میں پھیلایا جانے والا سیکولر پروپیگنڈا معنویت ومقصدیت سے خالی ،اور قانونی، سماجی اور شرعی مسئلہ میں عوام الناس کو گمراہ کرنا اور اشتعال پھیلانا ہے۔


حوالہ جات

دستور پاکستان 1973ء کی دفعہ نمبر230 کی تین شقوں میں درج نظام کا خلاصہ

بی بی سی اردو ویب سائٹ:30 مئی 2013ء

روزنامہ ڈان، 3؍جون 2013ء

روزنامہ جنگ لاہور،3جون 2013ء

روزنامہ 'اُردو پوائنٹ' کراچی:6؍اپریل 2013ء

کالم 'چند ادھوری شاباشیں' از حسن نثار: روزنامہ جنگ لاہور، 4؍جون 2013ء

کالم 'فحاشی برائے فروخت ' از یاسر پیرزادہ: روزنامہ جنگ لاہور، 9؍جون2013ء

کتابچہ'پاکستان میں عورتوں کی صورتحال':ص ٧٤

اختار أحد القضاة في قضية اغتصاب جماعي لحدث ولم يوجد أي اثر للجناة، دیکھئے

http://www.ahlalhdeeth.com/vb/archive/index.php/t-117344.html

يرٰى الإمام مالك بأنه يجوز قتل الزاني المحارب ولو غير محصن، ولا يشترط في الزنا حرابةً الشروط الواجب توافرها في الزنا حدًّا، بعكس الجمهور الذين يرون إقامة حد الزنا متى توافرت شروطه بحيث يجب رجم الزاني المحصن بوصف كونه زانيًا لا بوصفه محاربًا وإذا كان غير محصن فإنه يجب بوصفه زانيًا لا باعتباره محاربًا (العقوبة لمحمد أبوزهرة :139،140)

بغاوت ملٹی میڈیا: 31؍مئی 2013ء

پاکستان کریمنل لاء جرنل١٩٩٢ء: صفحہ١٥٢٠

مثلاً دیکھیں 1986ء PSC کا فیصلہ نمبر 1228 اور پاکستان کریمنل لاء جرنل، فیصلہ نمبر1030

سنن نسائی: رقم 3469 اور صحیح مسلم 1498

مصنف ابن ابی شیبہ: 5؍544، ارواء الغلیل از البانی: 2361، صحیح فقہ السنۃ: 4؍34، صحیح

تبيين الحقائق شرح کنز الدقائق:9؍20

صحیح مسلم: 2751

http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa &Option=FatwaId&Id=28539... موسوعہ فقہیہ کویتیہ: 24؍43

صحیح بخاری: 6829، صحیح مسلم: 1691

مصنف عبد الرزاق: 7؍326، مسند احمد:1214،سنن نسائی،صحیح بخاری مختصراً، صحیح فقہ السنہ: 4؍23

http://www.onislam.net/arabic/ask-the-scholar/8439/8312/47765-2004-08-01%2017-37-04.html

http://ejabat.google.com/ejabat/thread?tid=651e47ce72012941&unsafe=1

سنن ترمذی: 1489